انکار حدیث اور تحقیق حدیث
قاری حنیف ڈار صاحب نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر ، اعتراضات کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے ، حق کو جھٹلایا ، باطل کو اپنایا ، یعنی صحیح احادیث کی تردید کے لیے ، ضعیف احادیث پیش کرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ، جب اہل علم نے اس پر پکڑ کی ، تو جناب کی بوکھلاہٹ ملاحظہ کیجیے ، لکھتے ہیں :
‘‘ ساری بحث کا نتیجہ یہ ھے کہ حدیث شریف یا بخاری شریف کا حوالہ سن کر ارتھ نہ ھو جایا کریں اور نہ ان کے تقدس کے نشے میں اپنی عقل کو کومے میں جانے دیا کریں ’’
گویا قاری صاحب نے یہ بھونڈی حرکت صحیح احادیث پر مشتمل ذخیرہ احادیث کو مشکوک بنانے کے لیے کی تھی ، کہ جب یہ احادیث ضعیف ہوسکتی ہیں ، تو پھر بخاری ( و مسلم ) کی روایتیں ضعیف کیوں نہیں ہوسکتیں ؟
ڈار صاحب کا یہ عجیب غریب طرز استدلال ہے ، جس طرح کسی ایک روایت کے صحیح ہونے سے ہر ہر روایت درست نہیں ہوسکتی ، اسی طرح کسی ایک کے ضعیف ہونے سے ہر ہر روایت کی صحت کو مشکوک بنادینا بھی درست نہیں ۔
صحیح و ضعیف میں پہچان ، دونوں میں فرق تو محدثین شروع سے کرتے آئے ہیں ، اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی روایت کو صحیح یا ضعیف کس بنیاد پر کہا جائے گا ؟
محدثین نے صحت حدیث کے لیے پانچ شرائط ذکر کی ہیں ، تصال سند ، ضبط رواۃ ، عدالت رواۃ ، علت اور شذوذ کا نہ ہونا ، پھر ان پانچوں شرائط کی شرح و بسط پر سیکڑوں صفحات کتب علوم حدیث میں موجود ہیں ، جس حدیث میں یہ پانچ شرائط ہوں ، وہ درست ہوتی ہے ، جس میں ان پانچ میں سے ایک بھی نہ ہو ، وہ ضعیف کہلاتی ہے ۔
یہ تو ہے ، محدثین کا حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینے کا انداز ، لیکن بالمقابل ڈار صاحب کے پاس کیا ہے ؟
صرف اپنی عقل ؟!
جو اچھا لگا ، کہا یہ صحیح ہے ، جو سمجھ میں نہ آسکا ، اس پر ضعیف کا لیبل لگادیا ۔ ڈار صاحب آپ قرآن مجید کی بہت دہائی دیتے ہیں ، ذرا یہ آیت ملاحظہ کیجیے گا :
و إذ لم يهتدوا به فسيقولون هذا إفك قديم ( سورۃ الاحقاف )
اگر بات سمجھ نہ سکے تو کہا یہ تو پرانا جھوٹ ہے .
ڈار صاحب جس اصول کے تحت آپ صحیح بخاری و مسلم کی اعلی پائے کی احادیث صحیحہ کو رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں اس قانون کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟
یہ بالکل وہی اصول نہیں ، جس پر کافر عمل پیرا تھے ۔!
اب آپ چند ایک من گھڑت روایات کا بھانڈا پھوڑے جانے سے ، قرآن مجید کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح ترین کتاب کی احادیث کے ہی درپے ہو گئے ہیں ، جن کی صحت پر سیکڑوں محدثین نے امام بخاری سے اتفاق کیا ہے ، ان میں ڈار صاحب کس اصول کے تحت تشکیک ڈالنا چاہتے ہیں ؟
ڈار صاحب ! ایک فیصلہ پر سیکڑوں ججز حضرات کا سیکڑوں سالوں سے اتفاق ہے ، آپ کس منطق سے آکر اس سے اختلاف کرتے ہیں ؟
حجۃ الہند شاہ ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ کی بات ملاحظہ کیجیے :
أما الصحيحان فقد اتّفق المحدثون على أَن جَمِيع مَا فيهمَا من الْمُتَّصِل الْمَرْفُوع صَحِيح بِالْقطعِ، وأنهما متواتران إِلَى مصنفيهما، وَأَنه كل من يهون أَمرهمَا فَهُوَ مُبْتَدع مُتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ (حجة الله البالغة (1/ 232)
''جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں موجود ہیں ، وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنّفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے، وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔''
خیرصحیح بخاری و مسلم کی تالیف میں صحیح احادیث کا ہی ذکر ہے ، اس بات کا ذکر ان کتابوں کے مصنفین سے لے کر آج تک اہل علم کرتے آئے ہیں ، اس میں جو فنی باتیں ہیں وہ بھی مشہور و معروف ہیں ۔
آپ ان باتوں کو ذرا ایک طرف کردیں ، ہم آپ کو نہیں کہتے کہ بخاری و مسلم پر تنقید نہیں ہوسکتی ، یا آپ احادیث کی تصحیح و تضعیف نہیں کرسکے ، بس آپ یہ ذکر کردییں بخاری و مسلم ، یا دیگر صحیح روایات کو رد کرنے کے لیے آپ کن اصولوں پر گامزن ہیں ؟
ہم نہیں آپ کو کہتے کہ محدثین نے صحیحین پر اتفاق کرلیا ہے ، لہذا آپ آنکھ بند کرکے مان لیں ، آپ نقد کرلیں ، لیکن اپنا اصول بھی تو ذکر کریں ، بخاری کی عمر عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت آپ کے نزدیک درست نہیں ، حضرت موسی علیہ السلام کے کپڑوں کو پتھر کا لیکر بھاگنے والی بات آپ کے نزدیک درست نہیں ، لیکن اس کی تردید کا پیمانہ کیا ہے ؟
راوی پر جرح کریں ، محدث کی خیانت واضح کریں ، صحابی کی عدالت پر حرف اٹھائیں کہ فلاں نے یہاں ڈنڈی ماری ہے ، پھر ہم آپ کی اس جرح اور نقد و تنقید کو اصولوں کے تحت دیکھیں گے ، کہ کس طرح سیکڑوں ، ہزاروں محدثین کی بات تو درست نہیں ہوسکتی ، لیکن آپ کی جرح اور نقد درست ہے ۔
صرف یہ کہہ دینا کہ یہ روایت درست نہیں ہوسکتی ، اس میں فلاں کی توہین ہے ، فلاں بات قرآن کے خلاف ہے ، اس میں فلاں کے مرتبہ و مقام پر حرف آتا ہے ، اس سے ہمارے مزعومہ عقائد متاثر ہوتے ہیں ، صرف یہ کافی نہیں ہے ۔
اخبار کی تحقیق کا یہ فلسفہ تو کبھی بھی کسی کے ہاں بھی نہیں رہا ہوگا ، اگر یہی اصول اپنانا ہے تو پھر دل کو پسند آنے والی ہر خبر سچی ، اور نا پسند ہر خبر جھوٹی ہونی چاہیے ۔
محدثین کے اصول کیا ، عقل بھی اس کو نہیں مانتی ، کون چاہتا ہے کہ اس کو اس کے کسی پیارے کی اچانک موت کی خبر ملے ، لیکن جب یہ آفت آجاتی ہے اور آپ کو پختہ ذریعہ سے خبر مل جاتی ہے ، تو پھر اس خبر کو جھٹلانا ، جذبات ہوسکتے ہیں ، کم عقلی ہوسکتی ہے ، ہواس باختگی ہوسکتی ہے ، لیکن خبر دینے والے کا اس میں کوئی قصور نہیں ، اس نے جو دیکھا ، سنا پہنچا دیا .
اب یہاں خبر کو جھٹلانے کا سبب کیا بنا ؟ ، ذاتی رجحانات ، ذاتی پسند و نا پسند .
خبریں خوش کن بھی ہوتی ہیں ، غمگین بھی ہوتی ہیں ، لیکن نہ تو اچھی لگنے والی ہر خبر کو سو فیصد درست کہا جاسکتا ہے ، اور نہ ہی بری لگنے والی خبروں کو جھٹلایا جاسکتا ہے .
اگر خبر کی تحقیق کا یہی پیمانہ ہو تو دنیا میں صرف ’’ خوشخبریاں ’’ ہی ہوں ۔ غمزدہ خبریں تمام جھوٹ کا پلندہ قرار دے دی جائیں ۔
پھر آپ جتنی صحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں ، اور اس کے لیے جتنے بھی بہانے بناتے ہیں ، ان کا صحیح مفہوم اور مطلب بھی اہل علم واضح کردیتے ہیں ، گویا اس حدیث کا معنی و مفہوم وہی نہیں جو آپ کے ذہن میں آرہا ہے ، بلکہ اس میں دوسرا معنی بھی مراد ہوسکتا ہے ، دیانت اور سمجھداری کا تقاضا ہے کہ آپ اپنی ضد سے باز آکر صحیح معنی کو تسلیم کرلیں ، نہ کہ اپنے فہم کی ناک رکھنے کے لیے چودہ صدیوں کے علماء و محدثین ، راویاں حدیث ، صحابہ کرام کے ہی درپے ہوجائیں ۔
ڈار صاحب لکھتے ہیں :
‘‘ذکر اذکار ، یا عبادات سے متعلق بےشک ایزی رھیں ’’
سنا ہے ، ڈار صاحب ملحدین کو بھی جواب دیتے رہتے ہیں ، ان کے اس طرح کے تضادات پر وہ انہیں طعنے نہیں مارتے ؟ کہ جو مطلب کی ہوئی وہ درست ، اور جس کا جواب نہ بن پایا ، کہا یہ ہے ہی جھوٹ ۔
ڈار صاحب آپ مخصوص روایات کی تردید میں راویان حدیث اور صحابہ کرام پر جو الزامات تراشی کرتے ہیں ، جس بندے کے ذہن میں یہ تصویر ہو ، وہ ان کے نقل کردہ اذکار ، اور طریقہ عبادات پر کس طرح مطمئن ہوگا ؟ ہر کسی کو آپ کی طرح امامت و خطابت کی مجبوری تو نہیں ہے نا ؟
ڈار صاحب مزید لکھتے ہیں :
‘‘مگر قرآن مجید، رسول کریمﷺ . ازواج مطھرات اور خلفائے راشدین سے متعلق روایتوں پر چوکنا ھو جایا کریں اور ایسی کسی روایت کو گھاس مت ڈالیں جو ان کی توھین کرتی ھو. یہ روایتیں کوئی قرآن نہیں ھیں کہ ان کی ھر آیت پر ایمان ضروری ھو. ’’
یہاں میں محترم ابو بکر قدوسی صاحب کی عبارت ذکر کرنا چاہوں گا ، لکھتے ہیں :
‘‘ انکار حدیث اصل میں انکار قرآن ہے ۔کیسے ؟جن راویوں نے قران ہم تک پہنچایا .. انہی نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اقوال روایت کیے ، اگر وہ امانت دیانت کی انتہا پر فائز نہ تھے ، "جعل ساز " تھے ، بھلکڑ تھے ؟-
تو پھر قران میں کیا کیا نہ بھول گئے ہوں گے اور کیا کیا نہ شامل کر دیا ہو گا ؟-
اب یہ نہ کہیے کہ اللہ نے قران کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا ... کیونکہ یہ والی آیت بھی انہی "راویان " نے ہم کو پہنچائی ۔’’
ڈار صاحب مزید رقمطراز ہیں :
‘‘محدثین نے لاکھوں اٹھا پھینکی ھیں . دس پندرہ اٹھا پھینکنے کی ھمت آپ بھی اپنے ضمیر میں پیدا کریں.’’
محدثین نے جس وجہ سے اٹھا پھینکی ہیں ، اس کی تو انہوں نے وجہ بتادی ہے ، آپ جس طرح اٹھا پھینکنے کی دعوت دے رہے ہیں ، یہ تو ایسے ہی ہے ، کوئی آپ سے آکر کہے ، قاری صاحب ڈاکٹروں نے اگر ہزاروں کینسر زدہ مریضوں کے اعضا کاٹ دیے ہیں تو میں آپ کے ہاتھ اور زبان کیوں نہیں کاٹ سکتا ؟
دلیل اس کی بھی یہ ہے کہ آپ مقدس ہستیوں پر زبان درازی کرتے ہیں ، اور آپ کو اس جرم کی سزا ، اس بھولے بھالے کے ذہن میں یہی ہے ۔ کیا خیال ہے اس کے ضمیر کی آواز درست ہوگی ؟
جناب فرماتے ہیں :
‘‘جس روایت پر ضمیر مطمئن نہ اس کو مت قبول فرمائیں آپ کا محاسبہ آپ کے ضمیر کی بنیاد پر ھو گا’’
جناب اگر سب کچھ اسی ضمیر نے ہی کرنا ہے ، تو پھر انبیاء کو بھیجنے ، آسمانی کتابیں نازل کرنے کی حاجت کیا تھی ؟
الہی تعلیمات کے مقابلے میں ضمیر کی کچھ آوازیں قرآن مجید میں بھی نقل ہوئی ہیں ، ذرا ملاحظہ کیجیے گا :
وقالوا أساطير الأولين اكتتبها فهي تملى عليه بكرة وأصيلا
یہ تو پہلے لوگوں کی دیو مالائیں کہانیاں ہیں ، جن کی صبح و شام اس(نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کو املا کروائی جاتی ہے ۔
ڈار صاحب ! اللہ تعالی نے عقل کی نعمت سے نوازا ہے ، باضمیر مسلمان ہیں ، غیرت و حمیت بھی آپ کے اندر بہت ہوگی ، لیکن چودہ صدیوں میں سے تیرہ صدیاں سب بے ضمیر ، اور غیرت و حمیت سے خالی لوگوں پر مشتمل نہیں تھیں ،14 ویں صدی کے فتنوں کے سامنے ضمیر کو ڈھیر کرنے کی بجائے ، قرآن وسنت کو سمجھنے پر توجہ دیں ، اللہ تعالی نے ضمیر دیا ہے ، تو ساتھ قرآن مجید کی یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے :
فاسئلوا أہل الذکر إن کنتم لا تعلمون
اگر علم نہ ہو ، تو اہل علم سے راہنمائی لے لیا کرو ۔
قرآن مجید کی اس آیت پر بھی ضمیر کو ذرا آواز دے کر غور و فکر کیجیے گا :
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿سورۃ النساء٨٣﴾
جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالٰی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قرآن وسنت کا حقیقی معنوں میں فہم عطا فرمائے ، اور شیطان اور اس کے دوستوں کے بہکاوے سے بچائے ۔
حافظ خضر حیات ، محدث فورم