علم حدیث علوم و فنون میں اہم اور دقیق ترین علم کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا ، اسی لیے اسے ’ علم الرجال ، علم الذکور ‘ بھی کہا جاتا ہے ، لیکن عصر حاضر میں اس علم کے چاہنے والوں کے لیے یہ آزمائش آئی ہے ، کہ ہر جاہل ، دماغی مریض اور علم و فن کی ابجد سے بھی ناواقف شخص ، نہ صرف یہ کہ ’ علم حدیث ‘ میں ٹانگ اڑاتا ہے ، بلکہ ’ اہل حدیث اور محدثین ‘ کو اپنی عقل نارسا کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ، اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ منطقی بات یہ ہے کہ جس چیز کا آپ نے رد کرنا ہے ، کم از کم اسے اچھی طرح سمجھ تو لیں ، لیکن منکرین حدیث ایسی بے شرم قوم پیدا ہوئی ہے ، ان میں جسے حدیث کی دو سطریں بھی پڑھنی نہیں آتیں ، وہ بھی اس علم کے مسلمہ اصول و قوانین پر مکمل ڈھٹائی سے رائے زنی کرتے نظر آتے ہیں ۔
مسئلہ صرف دو چار آوارہ گردوں کا ہوتا تو قابل برداشت تھا ، لیکن مصیبت تب بن جاتی ہے ، جب کئی لوگ ان فضولیات کو کوئی نایاب تحقیق سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔
’ دین کا جنازہ ‘ کے عنوان سے کسی صاحب نے ایک لمبی چوڑی تحریر لکھی ہے ، جس میں وہ بیوقوفوں کی طرح بولتے گئے ہیں ، لکھتے گئے ہیں ، امام بخاری ، چند اصطلاحات اور قرآن کریم کا نام لے کر اول فول بکتے گئے ہیں ، ایک عزیز نے اس طرف توجہ دلائی ، پہلے تو سوچا ، ایسے بیوقوفوں کا علاج یہی ہے کہ انہیں مکمل نظر انداز کردیا جائے ، پھر سوچا اگر اللہ تعالی نے توفیق دی ہے ، تو عیاری و مکاری کے لباس میں پھیلائی جہالتوں کا پردہ چاک کرنا چاہیے ۔
سب سے پہلے تو لکھاری کی عقل کو داد دیں کہ انہوں نے تحریر کے لیے عنوان کس قدر بہتر چنا ہے ’ دین کا جنازہ ‘ ۔
تحریر میں ویسے انہوں نے شرم و حیا ،علم و تحقیق ، دیانت و امانت کا جنازہ نکالنے کی کوشش کی ہے ، لیکن شاید منکرین حدیث کی اصل خواہش دین کا جنازہ نکالنا ہی ہے ، اس لیے عنوان اس مناسبت سے اختیار کیا ہے ۔ حالانکہ دین تو غالب ہونے کے لیے آیا ہے ، ہمیشہ رہے گا ، البتہ عقل پرستی کے جنازے بہت اٹھ چکے ، اور اٹھتے رہیں گے ۔
تحریر کیا تضادات کا مجموعہ ہے ، پہلے ارادہ تھا ، تحریر کے مختلف اقتباسات ہی ایک دوسرے کے ساتھ نقل کردوں ، تاکہ واضح ہوجائے کہ جو چار اوراق کی تحریر میں تناسب برقرار نہیں رکھ سکتا ، وہ چودہ صدیوں کی تراث کو کہاں سمجھ پائے گا ، لیکن زیادہ بہتر یہی لگا کہ ایسے جہلاء کو آئینہ دکھانے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ، عام قارئین کے لیے کچھ تحریر کردینا زیادہ بہتر ہے ، پوری تحریر کو چند نکات میں تقسیم کرکے ، اس پر اپنا تبصرہ پیش کرتا ہوں :
1۔ محدثین نے لوگوں کو احادیث کی چھانٹ پھٹک میں الجھا کر قرآن مجید سے غافل کردیا ہے ۔
اس پر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی بجائے ، دو سطری بات کرلینی کافی ہے ، کہ احادیث اور ان کی تحقیق صدیوں کی بات ہے ، عہد نبوی سے لیکر اب تک قرآن اور حدیث دونوں موجود ہیں ، قرآن کی خدمت بھی انہیں لوگوں نے کی ہے ، جو احادیث کو ماننے والے تھے ، احکام القرآن کے نام پر کتابیں کس نے لکھی ہیں ؟ اسی طرح تاریخ قرآن ، تدوین قرآن ، تجوید قرآن ، رجال قرآن ، امثال قرآن وغیرہ سب علوم القرآن انہیں لوگوں کی کاوشیں جو قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث کو بھی ماننے والے ہیں ، منکرین حدیث نے قرآن مجید کی کیا خدمت کی ہے ؟ قرآن کا نام لیکر احادیث سے متنفر کرنا ، یہ حدیث سے تنفیر کی تحریک تو ہوسکتی ہے ، اسے قرآن کی خدمت کیونکر کہا جاسکتا ہے ۔
رہی قرآن کریم کی تلاوت ، اس سے محبت اور لگاؤ ، تو احادیث ماننے والے اور ان کےمنکروں پر تحقیق کروالیں ، اس حوالے سے بھی منکر سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ثابت نہیں ہوں گے ، منکرین احادیث کی شکلیں ، عقلیں ، اور انداز گفتگو بتاتا ہے ، کہ قرآن سے ان کا دور پار کا بھی کوئی تعلق نہیں ۔ جب صورت حال یہ ہے تو پھر حدیث کی خدمت کو قرآن سے دوری کہنا ، سراسر جہالت ، ناانصافی اور خیانت ہے ۔ قرآن کریم پڑھنے کے فضائل بھی احادیث میں بیان ہوئے ہیں ، قرآن کریم پر غور و فکر اور تدبر کرنے کے حوالے سےجو باتیں قرآن کریم میں اجمالا ہیں ، احادیث میں انہیں باتوں کو کھول کر اور وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ، قرآن و حدیث ایک دوسرے کے نزدیک کرتے ہیں ، نہ کہ دور ۔ اگر کوئی قرآن کو حدیث سے دوری ، یا حدیث کو قرآن سے بُعد کی وجہ سمجھتا ہے ، تو اسے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، کہیں وہ ’ یہدی بہ کثیرا ‘ کی بجائے ’ یضل بہ کثیرا ‘ کا مصداق نہ ہو ۔
2۔ محدثین کا تحقیق حدیث کا انداز درست نہیں ، احادیث کو اصول حدیث کے مطابق پرکھنے کی بجائے ، قرآن مجید کے مطابق جانچنا چاہیے ۔
یہ خود ساختہ اصول ہے ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت کا آپس میں اختلاف نہیں ہوسکتا ، لیکن یہ حقیقت میں ہے ، البتہ لوگوں کے عقل و شعور میں تضاد ہونا عین ممکن ہے ، لہذا کوئی بعید نہیں کہ کوئی شخص قرآن مجید کی کسی آیت کو حدیث سے متعارض سمجھے ، اسے قرآن و حدیث کا تعارض نہیں ، بلکہ انسانی عقل کا تعارض اور قصور سمجھا جائے گا ۔ ویسے بھی قرآن اور حدیث دونوں ’ خبر ‘ ہیں ، اگر ’ تحقیق خبر ‘ کا یہی اصول قائم کیا جائے ، تو پھر تو قرآن کریم کی بعض آیات بھی انسانی فہم میں متعارض نظر آتی ہیں ، کیا انہیں حقیقت میں متعارض سمجھ کر رد کردیا جائے گا ؟
قیامت کے دن کی مقدار قرآن مجید میں ایک جگہ ہزار سال ، دوسری جگہ پچاس ہزار سال بیان ہوئی ہے ۔
میں سمجھتا ہوں قرآن مجید کی ایسی مثالیں ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہیں ، جو تحقیق خبر کے لیے ایسے سطحی اصول بنالیتے ہیں ۔ گویا قرآن کی ان آیات سے یہ واضح اور روشن اصول مل جاتا ہے کہ اگر کوئی بات مستند ذرائع سے نقل ہوجائے ، تو اس پر تضاد و تعارض کی چھری پھیرنے سے گریز کیا جائے ۔
ویسے بھی حدیث کی تحقیق قرآن کے فہم کے مطابق ، اس بات کا قرآن مجید میں کہیں بھی حکم نہیں ہے ، بلکہ یہ اصول جو لوگ ذکر کرتے ہیں ، اس سلسلے میں ایک ضعیف حدیث کا سہار ا لیتے ہیں ، گویا جب مرضی کی بات آئے ، تو قرآن سے اس درجہ اعراض کہ سیدھا ضعیف احادیث تک پہنچ جاتے ہیں ۔
3۔ منکرین حدیث کا پسندیدہ نکتہ کہ حدیث اور سنت میں فرق ہے ، کتابوں میں راویوں کی باتیں ہیں ، حضور کی سنت کسی راوی کی محتاج نہیں ۔ وغیرہ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حدیث اور سنت میں فرق ہے ، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان میں وہ فرق نہیں جو منکرین حدیث ظاہر کرنا چاہتے ہیں ، آپ اصول حدیث کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں اس میں حدیث کی تعریف یہی لکھی ہوگی کہ ہر وہ بات جس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو ، پھر اگر یہ نسبت درست ہو تو اس کو حدیث صحیح کہا جاتا ہے ، اور اگر یہ نسبت ثابت نہ ہو سکے تو اس کو حدیث ضعیف کہا جاتا ہے ۔ سنت بمعنی طریقہ ہے ، سنت رسول یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار ،اس اعتبار سے سنت کا معنی و مفہوم وہی ہے جو ’’ صحیح حدیث ‘‘ کا ہے ، سنت میں ضعیف والی بات اس لیے نہیں ، کیونکہ سنت کبھی ضعیف نہیں ہوسکتی ، کیونکہ کسی چیز کوسنت کہا ہی اس وقت جاتا ہے ، جب اس کی صحتِ نسبت ثابت ہو جائے ۔
اسی معنی میں اللہ تعالی نے قرآن مجید کو احسن الحدیث قرار دیا ہے ، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کو بھی حدیث کا نام دیا ہے ،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال پر ’’ سنت ‘‘ اور ’’ حدیث ‘‘ کا اطلاق یہ ان دونوں کے اصطلاحی معنی ہیں ، ورنہ لغوی معنی میں یہ دونوں لفظ اس سے ہٹ کر بھی استعمال ہوتے ہیں ، لہذا عرب کے ہاں ’’ سنت ‘‘ کسی بھی شخص کے طریقہ کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، خود حدیث کے اندر آتا ہے لتتبعن سنن من کان قبلکم
یہاں پہلے لوگوں کے غلط طریقوں کو سنت سے تعبیر کیا گیا ہے ، اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، قد خلت سنۃ الأولین .
یہ تھوڑی سی وضاحت اس لیے کی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معنی ہوسکتے ہیں ، لیکن کسی بھی فن میں اس کے معتبر معنی وہی ہیں جو اہل فن کے ہاں مقرر ہو گئے ۔
تو جس طرح سنت سے مراد ’’ سنت رسول ‘‘ مقرر ہوا ہے ، اسی طرح ’’ حدیث ‘‘ سے مراد ’’ حدیث رسول ‘‘ بھی طے شدہ معنی ہے ، اور یہ بھی اہل فن کے ہاں معلوم مفہوم ہے کہ سنت اور حدیث دونوں ہم معنی استعمال ہوتے ہیں ۔
لہذا جب سے سنت ہے ، تب سے حدیث ہے ، سنت کو امت آگے لے کر چلی تو حدیث کہلائی ، گویا بعد والوں کے لیے قرآن کے بعد سنت معلوم کرنے کا طریقہ سوائے حدیث کے اور کچھ نہ تھا ۔
گویا جب حدیث ثابت ہو جائے تو اس میں اور سنت میں اتنا سا فرق ہے کہ سنت طریقہ کار کو کہتے ہیں ، جب کہ اس طریقہ کار کی تبلیغ اور روایت اور پہنچانے کو حدیث کہتے ہیں ۔
اب ایسی صورت حال میں منکرین حدیث کا سنت کی بجائے حدیث کو تنقید کا نشانہ بنانا ویسے ہی ہے کہ کچھ لوگ اسلام کو برا کہنے کی سکت نہیں رکھتے تو مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ، اسلام پہنچانے والوں کو برا بھلا کہتے ہیں ۔
جس طرح قرآن اور سنت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے اسی طرح سنت اور حدیث بھی کبھی جدا نہیں ہوئے ، جو سمجھتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں سنت تو موجود تھی ، لیکن احادیث صدیوں بعد آئی ، اس کا دعوی یہ ہے کہ سنتیں بغیر کسی روایت ، بغیر کسی سند اور ذریعے کے بعد میں منتقل ہوتی رہیں ، حالانکہ یہ بالکل محال او رناممکن امر ہے ، کو ئی بھی عاقل اس طرح کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام نے اپنی باریاں مقرر کی ہوئی تھیں ، جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے آتا ہے ، ایک دن وہ حضور کی مجلس میں شریک ہوتے تو اپنے انصاری دوست کو اس دن کی احادیث بتادیتے ، پھر اگلے دن خود انصاری کی جگہ کام کاج کے لیے جاتے اور اس دن کی سنی ہوئی باتیں انصاری ان کو بتاتا ، اب ایک دوسرے کو دین اسلام کی باتیں بتانا ، اور حضور کی سنتوں سے باخبر رکھنا اسی کا نام حدیث ہے ، اور یہ طریقہ کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھا ، اس کو صدیوں بعد کا کہنا منکرین حدیث کی لا علمی او رجہالت جس کی بنا پر وہ اہل علم کا محاکمہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
باقی یہ بات کہنا سنت راوی کی بات ہے ، لہذا ہم نہیں مانتے ، یہ ایسے ہی ہے ، کہ کوئی بادشاہ کے ایلچی سے کہے ، جاؤ میرے سامنے بادشاہ کو حاضر کرو ، یہ جسے تم بادشاہ کی بات کہہ رہے ، بادشاہ کی نہیں ، تمہاری اپنی بات ہے ، اور ویسے بھی وہ بادشاہ کس کام کا ، جو ایک ایلچی اور غلام کا محتاج ہوجائے ۔۔۔ جس قدر فضول یہ رویہ ہے ، اسی قدر منکرین حدیث کا سنت ، حدیث اور راویوں کے متعلق فرق بیان کرکے بھونڈے نتائج نکالنا لا یعنی فعل ہے ۔
4۔ محدثین نے اصولوں کے نام پر بلنڈر کیے ہیں ؟
، جناب کے الفاظ ملاحظہ کیجیے :
’راویوں سے حدیث لینے کے مُحدّثین کے اُصُولوں کو آپ ابھی خُود ناکارہ کہیں گے۔
بتائیے کہ ایک سچّا آدمی کبھی جھُوٹ نہیں بولتا؟
کیا اکثر جھُوٹ بولنے والا کبھی سچ نہیں بولتا؟
کیا لونڈی کا بیٹا سچا نہیں ہو سکتا؟
کیا آپ کو اپنے مرحُوم دادا کی کوئی نصیحت لفظ بلفظ یاد ہے؟
کیا ہر سچے آدمی کی یاداشت بھی بہترین ہو گی؟
کیا پانچ نسلوں کے پانچ سچے افراد کی یاداشت ایک جیسی ہو سکتی ہے؟
اگر کوئی شخص ایک بات اپنے بیٹے کو بتائے
بیٹا اپنے دوست کو
دوست اپنے پوتے کو
پوتا اپنے نواسے کو
اور نواسہ اپنے دوست کو
اور یہ بات تین سو سال گُزرنے کے بعد
کیا آپ تک اُسی مفہُوم میں پُہنچ سکتی ہے جس مفہُوم میں پہلے نے کہی تھی؟
ان سب کے سب سوالوں کا کوئی حتمی جواب نہیں دیا جا سکتا
لیکن مُحدّثین کے حدیث کی چھانٹی کے یہی اُصُول تھے۔‘
ان مثالوں کو بیان کرکے محدثین کے اصولوں پر اعتراض دو تین اعتبار سے غلط ہے ۔
(أ)۔ محدثین نے راویوں کو بطور راوی ہی لیا ہے ، ان کا فرشتے ہونے کا دعوی نہیں کیا ، ہاں البتہ انسانی بساط کے مطابق جتنی احتیاط ہوسکتی تھی ، انہوں نے اختیار کی ، راوی کے حالات کو مکمل جانچ پرکھ کرکے ، اس پر ثقہ یا ضعیف کا حکم لگایا ، پھر اضافی قوانین اور اصول بنائے ، تاکہ ثقہ غلطی کرے ، تو معلوم ہوجائے ، اور اگر ضعیف درست بات کرے ، تو وہ بھی معلوم ہوجائے ، مثلا شاذ حدیث ثقہ کی ضعیف حدیث ہوتی ہے ، جبکہ حسن لغیرہ ضعیف راوی کی صحیح حدیث ہوتی ہے ۔
(ب)۔ اللہ تعالی نے نقل دین کا ذریعہ انسانوں کو ہی بنایا ہے ، اور پھر انسان معصوم نہیں ہوتا ، یہ اصول بھی اللہ تعالی کا ہی ہے ، اب اللہ کے ایک اصول کی آڑ میں دوسرے پر اعتراض چہ معنی دارد ؟ خود قرآن مجید کی حفاظت کا ذریعہ بھی انسان ہی ہیں ، آج تک قرآن مجید سینوں کے اندر محفوظ ہے ، یا کتابوں کے اندر ، اور یہ سینے اور کتابیں انسانوں کی ہیں ۔ گویا انسان معصوم عن الخطا نہیں ، لیکن اس کے باوجود قرآن مجید اور سنت رسول کی نقل میں اس پر اعتماد کیا گیا ہے ، اللہ تعالی چاہتے تو قرآن مجید ہر ایک کے سینے میں پہلے سے ہی رکھ دیتے ، قرآن مجید کی اس انداز سے حفاظت ،سنت میں انسانی صلاحیتوں پر اعتماد کی زبردست دلیل ہے ۔
(ج )۔ مثالیں بیان کرتے ہوئے ، نقل حدیث کے واقعاتی پہلو کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے ، محدثین میں ایسے لوگ بھی تھے ، جنہیں لاکھوں احادیث زبانی یاد تھیں ، اب اگر اس دور کے دادے اور پوتے کا حافظہ کمزور ہوچکا ہے ، تواس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس دور میں بھی یہی حال تھا ، صحابہ ، پھر ان کے شاگرد اور پھر بعد کے محدثین کے حافظے کس قدر مضبوط تھے ، کتب تاریخ میں باقاعدہ امتحانات کے واقعات موجود ہیں کہ ایک بات کو کسی شیخ نے سالوں پہلے بیان کیا ، پھر اسی بات کو کسی اور نے سالوں بعد سنا ، اور دونوں کا بیان ایک ہی تھا ۔ اور پھر یہ تو اس صورت میں ہے کہ احادیث کو بیان کرنے والے ایک دو راوی ہی ہوں ، لیکن یہ منکرین تو ان احادیث کے بھی منکر ہیں ، جن کی صحت پر ہزاروں لاکھوں لوگوں کا اتفاق ہے ۔ آپ خود فیصلہ کیجیے ، کیا ممکن ہے کہ لوگ قرآن کے خلاف احادیث گھڑ رہے ہوں ، امہات المؤمنین کی توہین کی جارہی ہو ، دین کا حلیہ بگاڑنے میں ہزاروں راوی دن رات ایک کیے ہوئے ہوں ، لیکن صدیوں میں منکرین حدیث جیسا کوئی ایک غیرتمند بھی پیدا نہ ہو ، جو اس فتنے کو روکنا کیا ، اس کے خلاف آواز بھی نہ اٹھائے ؟!
حیران نہ ہوں ، منکرین حدیث کی لاغر تحقیق کا یہی نتیجہ ہے ۔
دادے پوتے کی مثالیں دینے والے کو یہ بھی خیال رہنا چاہیے کہ حجیت حدیث ، تحقیق حدیث کے لیے محدثین کے اصولوں پر چند افراد نہیں ، بلکہ نسلوں کی نسلیں ، متفق ہیں ، جبکہ ان مسلمات پر اعتراض کرنے والے فکری حرامی اور تاریخی دم کٹے ہیں ، جو پیدا کہیں اور ہوتے ہیں ، جبکہ باپ کسی اور کو پہچانتے ہیں ۔
5۔ امام بخاری کتاب الضعفاء الصغیر کا مطالعہ ، اور اس پر ہونے والے درد کی حقیقت ۔
صاحب تحریر نے اپنی بے وزن غزل کا مطلع امام بخاری اور ان کی کتاب الضعفاء الصغیر کے متعلق جاہلانہ گفتگو کو ہی بنایا ہے ، اور پھر اسی پر بات سے بات نکالتے گئے ہیں ، اس حوالے سے ان کا ذوق مطالعہ و شوق تحقیق ملاحظہ کیجیے :
’ مُجھے حال ہی میں
سکالرز کے ایک سٹڈی سرکل میں
امام بُخاری صاحب کی کتاب ’’ الضعفاءالصغیر‘‘ پڑھنے کا اتّفاق ہُوا۔
ہمارے اس سٹڈی سرکل میں عربی، فارسی، تُرکی اور دیگر زبانوں کے ماہرین موجُود ہیں۔
ہم عمُوماََ مہینے میں چار بار ملتے ہیں۔
مشورے سے ایک کتاب سلیکٹ کرلی جاتی ہے۔
جس زُبان میں کتاب لکھی گئی ہواُسی زبان کا ماہر چار نشستوں میں پُوری کتاب کا انگریزی ترجُمہ سُناتا ہے
باقی سب نوٹس لیتے ہیں اور پانچویں نشست میں تفصیلی بحث ہوتی ہے۔
سچ پُوچھیے تو امام بُخاری صاحب کی کتاب ’’ الضعفاءالصغیر‘‘ پڑھ کر میں بے حد دُکھی ہُوں۔ ‘
یہاں تک تو انہوں نے اپنی اوقات بتائی ہے کہ امام صاحب کی کتاب خود پڑھنے کی ان میں اہلیت نہیں ، ان کے کسی سکالر دوست نے انہیں انگلش ترجمہ سنایا ہے ، جس سے انہیں بہت ’ دکھ ‘ ہوا ہے۔
اب آجائیں ، دکھ بھی دیکھ لیں کہ کیا ہے :
’ میرے لاشعُور میں امام بُخاری کا بُت بہت بڑا تھا
میں انہیں اعلیٰ پائے کا سکالر سمجھتا تھا
لیکن انکی اس کتاب کے دلائل یہ ثابت کرتے ہیں کہ امام بُخاری صاحب اوسط ذہانت کے ایک عام مولوی تھے۔
انھوں نے کم و بیش پانچ لاکھ احادیث کے ذخیرے کو جو ایک قیمتی تاریخی ریکارڈ تھا
جن دلائل کی بُنیاد پر مُسترد کیا
اس کتاب میں وہ دلائل پڑھ کر سر پیٹ لینے کو دل چاہتا ہے۔
بُخاری صاحب کی جانب سے مُسترد کی گئی پانچ لاکھ احادیث تو میں نہیں پڑھ پایا
لیکن جو چند پڑھ پایا ہُوں وہ عین قُرآن کے مُطابق تھیں۔
اُن میں بیشتر کو اِس لیے ضعیف قراردیا گیا کہ
یا تو پانچ سے آٹھ راویوں میں سے کسی ایک کے بارے میں
اسماُالرِجال کے ریکارڈ میں کسی گُناہ میں مُلوِث ہونا لکھا تھا
یا کسی کے بارے میں کبھی کوئی جھوٹی بات کہنے کا ذکر تھا
کسی راوی کی حدیث اس لیے مُسترد کی گئی کہ وہ کسی صحابیؓ کی لونڈی کا بیٹا تھا۔
بعض راویوں کی بیان کردہ احادیث کے ضعیف کہلانے کے لیے بس اتنا کافی قرار پایا کہ
کوئی ایک راوی شیّعانِ علی میں سے تھا۔ ‘
آپ اس اقتباس میں یہ بات شدت سے محسوس کریں گے کہ وہ شخص جو احادیث میں مشغول ہو کر قرآن مجید سے اعراض کا رونا رو رہا تھا ، اسے اچانک احادیث پر پیار آنا شروع ہوگیا ہے ، گویا ایک طرف امام بخاری سات ہزار احادیث جمع کرنے پر مستحق ملامت ہیں ، اور دوسری طرف لاکھوں احادیث رد کرکے بھی راج دلارے نہیں بن پائے ۔ اس تضاد کو احادیث سے مصنوعی محبت سمجھا جائے ، یا امام بخاری کے ساتھ بطور ایک محدث کے بغض اور نفرت ؟ یا پھر ایک دیوانے کی بڑ ، جو کچھ بھی بلا سوچے سمجھے اول فول بکتا جاتا ہے ۔
اس اعتراض کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امام بخاری نے ان کا پسندیدہ اصول تحقیق نظر انداز کیا ہے ، حالانکہ اس مزعومہ تحقیقی اصول کی کیا حیثیت ہے ، اس کی حقیقت میں اپنے تبصرہ کی ابتدا میں ہی واضح کرچکا ہوں کہ خود قرآن کریم کے مطابق بھی یہ اصول مردودہے ۔ رہے امام بخاری کے اصول ، تو ان پر چند بیوقوفوں کا واویلا کیا حیثیت رکھتا ہے ، جب ہزاروں ائمہ نے انہیں تسلیم کیا ہے ، لاکھوں کروڑوں لوگ اس خدمت حدیث پر نہ صرف راضی ہیں ، بلکہ ان کے شکر گزار بھی ہیں ۔ بلکہ مسلمانوں کے ’ علم خبر ، علم اسناد ‘ کی برتری تو غیر مسلموں نے بھی تسلیم کی ہے ۔
رہی یہ بات کہ امام نے پانچ لاکھ احادیث کو مسترد کیا ، یہ سفید جھوٹ ہے ، اور جس بنیاد پر یہ جاہل کہہ رہا ہے ، اس میں بھی اس انگلشی سکالر کو کافی بڑی غلط فہمی لگی ہے ۔ امام صاحب نے صراحت سے یہ بات کہی ہے کہ میں نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں صحیح احادیث کاالتزام تو کیا ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو میں نے درج نہیں کیں ، وہ صحیح نہیں ہیں ۔
باقی رہی ضعیف احادیث کو مسترد کرنے کی بات تو وہ اگر پانچ لاکھ بھی ہوں ، تو ان کا ضعف بیان کرنا اسی طرح ضروری ہے ، جس طرح صحیح کی صحت بیان کرنا لازم ہے ۔ اس پر چیں بہ چیں تو وہی ہوگا ، جو خود جھوٹا ہوگا ، اور سنت رسول کے چشمہ صافی کو گدلا کرنے کا خبث باطن رکھتا ہوگا۔ یہاں یہ بھی وضاحت مناسب ہے کہ ضعیف حدیث کا ضعیف بیان کرنا الگ بات ہے ، جبکہ اسے سرے سے ختم کردینا اور بات ہے ۔ محدثین نے صحیح و ضعیف کی تمییز کی ہے ، صحیح احادیث کو بھی باقی رکھا ہے ، اور ضعیف احادیث پر بھی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ، خود جس کتاب کو پڑھ کر جاہل کو درد شروع ہوا ہے ، وہ بھی بنیادی طور پر ضعیف راویوں کے متعلق ہے ، لہذا اس مسکین کا بہ تکرار یہ کہنا کہ محدثین نے بہت ساری احادیث کو ضعیف بناکر صفحہ ہستی سے مٹادیا ، سوائے جہالت کے کچھ نہیں ۔
دوسرا یہ یہ کہنا کہ لونڈی کی اولاد ہونا ، یا شیعان علی ہونا وغیرہ اسباب کی وجہ سے امام بخاری نے احادیث رد کی ہیں ، سب اتہامات و الزامات ہیں ، یہ جھوٹ اس طرح بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ خودصحیح بخاری میں نافع مولی ابن عمر اور ان جیسے کبار محدثین کی بہ کثرت روایات ہیں ، حالانکہ وہ غلام تھے ، اسی طرح جہاں رافضی جھوٹ اور ملاوٹ کا خدشہ نہ ہو ، وہاں امام صاحب نے شیعان علی سے بھی کئی ایک روایات لی ہیں ، بلکہ یہی منکرین حدیث پینترا بدل کا اعتراض بھی کرتے ہیں کہ بخاری اور صحاح ستہ میں اتنے شیعہ راویوں کی روایات بھی ہیں ، وغیرہ ۔
پھر آگے ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’ میں سازشی تھیوریز کا حامی نہیں ہوں
لیکن امام بُخاری صاحب کی کتاب ’’ الضعفاءالصغیر‘‘ پڑھنے کے بعد
نہ جانے کیوں میرے دل میں بار بار ایک ہی خیال آتا ہے
کہ اسلام میں باقائدہ سازش کے تحت اُصُولِ حدیث ،
تطبیق اور ناسخ منسُوخ کے پلندے داخل کیے گئے ‘
آپ کی یہ تحریر پڑھ کے مجھے کسی حد تک محسوس ہونے لگا ہے کہ آپ نے ضعفاء صغیر کی قراءت اور مجلس کا سرے سے ڈھونگ رچایا ہے ، آپ نے خود پڑھی نہ سہی ، کم ازکم امام بخاری اور ان کی کتاب کے متعلق حقائق کسی سے سنے بھی ہوتے ، تو اس قدر بڑے بڑے جھوٹ بولنے میں یقینا ذرا شرم محسوس کرتے ۔
6۔ نسخ کی بحث پر اعتراض
صاحب نے ایک نکتہ بڑے جذباتی انداز میں اٹھایا ہے کہ انہوں نے احادیث کی بنیاد پر قرآن کی آیات کو منسوخ قرار دے دیا ہے ، اس حوالے سے گزارش ہے ، تین باتیں ذہن کے اندر رکھیں :
(أ)۔ قرآن میں نسخ ہوسکتا ہے ؟
تو اس کا جواب ہے کہ ہاں ، اور اس کا ثبوت خود قرآن مجید میں موجود ہے ، ما ننسخ من آیۃ أو ننسہا نأت بخیر منہا أو مثلہا ۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے خود نسخ کا ذکر فرمادیا ہے ۔
(ب)۔ نسخ کس چیز سے ہوگا ، نسخ وحی سے ہوگا ، اور وحی میں قرآن بھی شامل ہے اور سنت بھی ۔ ہمارے نزدیک قرآن اور سنت کا تشریعی اعتبار سے ایک ہی درجہ ہے ، اللہ چاہے تو قرآن مجید کے ذریعے حکم کرے ، چاہے تو سنت رسول کے ذریعے کسی امر کی تنفیذ کرے ، و ما ینطق عن الھوی إن ھو إلا وحی یوحی کے تحت جس طرح قرآن سے قرآن کا نسخ درست ہے ، سنت سے قرآن کا نسخ بھی درست ہے ۔
(ج )۔ اگر آپ سنت کو سنت ماننے کے لیے تیار نہیں ، اور اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی بجائے ، امتیوں کی بات مانتے ہیں ، تو اس پر میں پہلے گزارش کر چکا ہوں کہ آپ کا موقف ہی سرے سے غلط ہے ۔ اثبت العرش ثم انقش ۔
7۔ اختلاف امت اور اس کا حل ۔
اس کا حل قرآن وسنت کی طرف لوٹنا ہے ۔ فإن تنازعتم فی شیء فردوہ إلی اللہ و الرسول ۔ باقی یہ سمجھنا کہ احادیث کی وجہ سے امت میں اختلاف بن گیا ہے ، تو ذہن نشیں رہنا چاہیے ، اختلاف کرنے والے قرآن کی بنا پر بھی کرسکتے ہیں ، اگر ہم ’ یضل بہ کثیرا ‘ کے مصداق کسی شخص کو بنیاد بنا کر قرآن کا انکار نہیں کرتے ، تو سنت کا انکار بھی سوائے زندقہ و بے دینی کچھ نہیں ۔ کیا اپنے آپ کو ’ اہل قرآن ‘ کہلوانے والوں میں اختلاف نہیں ہے ؟ اس پر ابوبکر قدوسی صاحب نے اچھی تحریر لکھی تھی منکرین حدیث کے فرقے ، اس میں آئینہ ضرور دیکھ لیں ۔ حق یہ ہے کہ اختلاف شروع سے رہا ، رہے گا ، و لا یزالون مختلفین إلا من رحم ربک و لذلک خلقھم ، البتہ یہ بھی وعدِ ربانی ہے کہ : و الذین جاھدوا فینا لنہدینہم سبلنا ۔ اس کا یہ حل قطعی نہیں کہ ہر کوئی اٹھ کر اپنا اصول بنا کر پہلوں پر طعن و تشنیع کرنا شروع کردے ، ہاتھ میں قلم پکڑ ے ،امت کے دکھ و درد کے جھوٹے بخار میں مبتلا لوگوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے ، اگر ہم نے سب کی پگڑیاں اچھالی ہیں ، تو ہماری ٹائی کو ہی ہمارے گلے کا پھندہ بنانے والے بھی آسکتے ہیں ۔
و ما علینا إلا البلاغ المبین ۔
حافظ خضر حیات ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ