سوال :کیا امام کے لئے امامت کی نیت کرنا شرط ہے؟ اوراگرکوئی شخص مسجد میں داخل ہو اورکسی شخص کونماز پڑہتا ہواپائے توکیاوہ اس کے ساتہ شامل ہوجائے ؟اورکیا مسبوق کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست ہے؟
جواب :امامت کے لئے نیت شرط ھے , کیونکہ نبی ﷺ کا ارشادہے:
" اعمال کا دارومدارنیتوں پرہے ,اورہرشخص کے لئے وہی ہے جواسنے نیت کی ہے "
اگرکوئی شخص مسجد میں داخل ہواوراسکی جماعت چھوٹ گئی ہو اورکسی دوسرے شخص کو تنہانمازپڑھٹتے ہوئے پائے , تو اسکے ساتہ مقتدی بن کرنمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں , بلکہ یہی افضل ہے , جیساکہ ایک بار نبی r نے نمازختم ہوجانے کے بعد ایک شخص کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :
"کیا کوئی شخص ہے جواس پرصدقہ کرے اوراسکے ساتہ نمازپڑھے"
ایسا کرنے سے دونوں کوجماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے گی, لیکن جونماز پڑھ چکاہے اسکے لئے یہ نماز نفل ہوگی-
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ساتہ عشاء کی نماز پڑھتے ,پھراپنی قوم کے پاس واپس جاکرانہیں دوبارہ یہی نمازپڑھاتے تھے , یہ نماز ان کے لئے نفل اورلوگوں کیلئے فرض ہوتی تھی , اورنبی ﷺ کو جب معلوم ہوا توآپ نے اسے برقراررکھا-
اسی طرح جس کی جماعت چھوٹ گئی ہو وہ جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے مسبوق کی اقتدا میں نمازپڑھ سکتا ہے , اسمیں کوئی حرج نہیں , اورمسبوق کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی باقی نماز پوری کرلے , کیونکہ اس سلسلہ میں وارد حدیثیں عام ہیں – اوریہ حکم تمام نمازوں کو عام ہے , کیونکہ نبی r نے جب ابوذرt سے یہ ذکرکیا کہ آخری زمانہ میں ایسے امراء وحکام ہوں گے جونمازیں بے وقت پڑھیں گے توانہیں حکم دیتے ہوئے فرمایا :
" تم نمازوقت پرپڑھ لیا کرنا , پھراگران کے ساتہ نمازمل جائے توان کے ساتہ بھی پڑھ لینا , یہ تمہارے لئے نفل ہوجائے گی, مگریہ نہ کہنا کہ میں نے تو نمازپڑھ لی ہے لہذا اب میں نہیں پڑھتا " واللہ ولی التوفیق-
فتوی : شیخ ابن باز رحمہ اللہ