٣٥
۔ قریشی سے سوال ہے کہ ، شریعت کو چھوڑ کر ، طر یقیت، حقیقت وغیرہ جوہے ، وہ دین میں شامل ہے کہ نہیں؟؟
٣٦۔ اگر دین میں شامل ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل دین پہنچایا یا نہیں؟؟
٣٧۔اگر کامل دین پہنچایا ہے تو یہ ، طریقیت اور حقیقت کونسی آیت اور حدیث میں ہے ؟؟ حوالہ دیں ؟؟
اگر کہیں کہ نہیں پہنچایا ، تو آپکی رسالت کے خلاف ہے ۔
٣٨۔ اگر کہیں کہ کامل دین تو پہنچایا ہے ، مگر یہ طریقیت اور حقیقت وغیرہ نہیں پہنچائ، تو آپ نے خود اقرار کرلیا کہ یہ چیزیں، دین ،نہیں ہیں۔
٣٩۔ اگر کہیں کہ دین کامل نہیں تھا ، ولیوں نے بتایا ، تو باطل ہے ۔ کیونکہ قرآن میں دین کو، کامل کہا گیا ہے ۔
ھارون عبداللہ صاحب آپ عالم ضرور ہونگے مگر آپ نے جو سوالات کی بوچھاڑ کی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا کہ آپ نہ تصوف کو جانتے ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں،تو پھر بحث برائے بحث سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔لیکن آپ نے شریعت و طریقت کا جواب حضرت عبداللہ روپڑی ؒ سے بھی پو چھا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا تھا
جواب حضرت عبداللہ روپڑی ؒ؛۔ یہ مسئلہ بہت تفصیل طلب ہے ہم اس پر کچھ زیادہ لکھنا چاہتے تھے۔ لیکن عدیم الفرصت کے باعث مختصر مضمون پر اکتفا کرتے ہیں۔ پھر کسی فرصت کے وقت اس پر زیادہ روشنی ڈالی جائے گی ۔ ان شاء اللہ
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد خیر قرون میں شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت وغیرہ کوئی خاص اصطلاح نہ تھیں۔ صرف شریعت کا لفظ دین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا باقی الفاظ قریباً اپنے لغوی معنی پر تھے۔
اس کے بعد جیسے فقہ والوں نے احکام کے درجات بتلانے کی غرض سے فرض واجب وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام نے تہذیب اخلاق یعنی علم تصوف میں سلوک عبد کے درجات کو ظاہر کرنے کی غرض سے یہ الفاظ مقرر کیے۔ مثلاًشریعت عقائد اور ظاہری احکام کا نام رکھا جیسے نماز۔۔۔ روزہ وغیرہ۔ طریقت ان پر عمل کرنے میں ریاضت اور مجاہدۂ نفس کرنا اور اپنے اندر اخلاص اور للٰہیت پیدا کرنا۔ حقیقت ان کے اسرارپر مطلع ہوکر اپنا عمل اس کے مطابق کرنا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغۃ میں ان احکام کے اسرار لکھے یا نفس اور دل کے امراض پر مطلع ہو کر ہر ایک مرض کا مناسب علاج کرنا اور باطنی صحت قائم رکھنے کے اسباب پیدا کرنا۔ معرفت کشف اور مراقبہ کی حالت ہے۔ جو یقین اور اطمینان قلبی کا اعلیٰ مقام ہے۔ اس وقت اللہ کے سوا کسی شے کی طرف نظر نہیں رہتی اور ذکر الہی میں وہ حلاوت اورلذت پاتا ہے کہ کوئی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی بلکہ ذکر الہی ایک طرح سے اس کی غذا ہوجاتا ہے جس کے بغیر اس کی زندگی مشکل ہے۔
مثال
ان چاروں مراتب کی مثال درخت کی سی ہے۔ مثلاً درخت کے لئے جڑیں اور تنا ہے ان کے بغیر درخت کا وجود ہی نہیں۔ پھر ٹہنے اورشاخیں ہیں یہ بھی درخت کےلئے لازمی ہیں۔ پھر پھل ہے پھر اس کی لذت ہے۔ ٹھیک اسی طرح تصوف ہے۔ شریعت کے بغیر تو تصوف کوئی چیز ہی نہیں۔ نہ وہاں طریقت ہے نہ حقیقت نہ معرفت کیونکہ شریعت بمنزلہ جڑ اور تنے کے ہے۔ اس کے بعد طریقت کا مرتبہ ہے جو بمنزلہ ٹہنوں اورشاخوں کے ہے۔ اس کے بغیر بھی تصوف کالعدم ہے۔ پھر حقیقت پھل کے قائم مقام ہے اورمعرفت اس کی لذت کے قائم مقام ہے۔ جیسے درخت پھل اور اس کی لذت کے بغیر کامل نہیں اس طرح بندہ بھی خدا کے نزدیک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک اس کے اندر حقیقت اور معرفت پیدا نہ ہو جائے۔
چار قسم
یہ چار قسمیں اس وقت ہوں گی جب طریقت کو اور معرفت کو بھی علم تصوف کی شاخیں شمار کریں۔ اگر طریقت کے معنی علم تصوف کے لیں جیسے اکثر صوفیاء استعمال کرتے ہیں تو اس وقت علم تصوف کی صرف تین قسمیں ہوں گی: شریعت ، حقیقت ، معرفت۔ اگر معرفت کو حقیقت سے الگ شمارنہ کریں بلکہ حقیقت میں داخل کریں تو بھی علم تصوف کی صرف تین قسمیں ہوں گی: شریعت ، طریقت ، حقیقت۔ شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی شرح فتوح الغیب میں فرماتے ہیں:
دین ایک ہے اور شریعت ، طریقت ، حقیقت اس کے مراتب اور درجات ہیں۔ (ملاحظہ ہو البلاغ المبین تصنیف شاہ ولی اللہ صاحب ص 45 ملخصاً) شیخ عبد الحق صاحب نے معرفت کو الگ شاخ شمار نہیں کیا گویا اس کو حقیقت میں داخل کردیا۔
علم کی قسمیں
شیخ علی بن عثمان ہجویر ی معروف بہ داتا گنج بخش لاہوری کشف المحجوب ص 20 میں شیخ محمد بن فضل سے نقل کر تےہیں: علم تین ہیں: علم باللہ ، علم من اللہ ، علم مع اللہ یعنی علم توحید ، علم شریعت ، علم مقاماتِ اولیاء جس کو زہد اورتقویٰ کہتے ہیں۔ (ملخصاً)
کشف المحجوب کے صفحہ 159 میں فرماتے ہیں کہ:
شریعت اورحقیقت میں کسی نےفرق نہیں کیا (کہ آپس میں جدا ہوسکیں) کیونکہ شریعت حقیقت کے بغیر نہیں اورحقیقت شریعت کے بغیر نہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں لاإلہ إلا اللہ حقیقت ہے اور محمد رسول اللہ شریعت ہے اور شریعت معرفت دونوں حقیقت کی شاخیں ہیں۔ إنتہی
انہوں نے بھی علم تصوف کی تین قسمیں کردی ہیں: شریعت ، حقیقت ، معرفت۔ لیکن ان کے نزدیک حقیقت کا معنی وہ نہیں جو اوپر بیان ہوا۔ بلکہ حقیقت کے معنی علم توحید کے ہیں اسی لئے شر یعت اور معرفت کو اس کی شاخیں قراردیا ہے۔ کیونکہ جو شخص خدا کو نہ مانے اس کے نزدیک نہ شریعت نہ معرفت کچھ بھی نہیں۔
کشف المحجوب میں ایک اور جگہ علم تصوف کی صرف دو قسمیں ظاہر اور باطن کرکے دونوں کو حقیقت کہہ دیا ہے۔ چنانچہ ص 16 میں کہا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں ظاہری ، باطنی۔ ظاہری کے بھی اصول فروع ہیں۔ باطنی کے بھی اصول فروع ہیں۔ ظاہری کا اصول کلمۂ شہادت ہے :
اشہد أن لاإلہ إلا اللہ وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ
اور فروع لوگوں کے ساتھ معاملات میں درستی رکھنا۔ اورباطنی کا اصول معرفتِ الہی کی تحقیق اورفروع نیت کا نیک اور صحیح کرنا اور ان میں سے ہر ایک کا دوسرے کے بغیر پایا جانا محال ہے ظاہر باطن کے بغیر نہیں پایا جاسکتا اور باطن ظاہر کےبغیر نہیں پایا جا سکتا۔
علم حقیقت کے تین رکن
پھر علم حقیقت کےتین رکن ہیں:
1۔ اللہ کی ذات کوجاننا کہ وہ موجود ہے اور ایک ہے۔
2۔ خدا کی صفات کوجاننا اس کے احکام کو ماننا اور بجا لانا۔
3۔ اس کے فعلوں کو اور اس کی حکمت کوجاننا۔ (إنتہی ملخصاً ص 16)
اس سے معلوم ہوا کہ جیسےطریقت کا استعمال علم تصوف کے معنوں میں ہوتا ہے ایسے حقیقت کا استعمال بھی کبھی انہی معنوں میں ہوتا ہے۔
اس کے بعد کشف المحجوب میں فصل باندھ کر لکھا ہے کہ علم شریعت کے بھی تین رکن ہیں: کتاب مجید ، حدیث شریف ، اجماع۔ خداوند تعالیٰ کی ذات اور صفات اور افعال کے ثابت کرنے پر خداوند تعالیٰ کا قول ہی دلیل ہے۔ (انتہی ملخصاًص 16)
آگے چل کر سنت اور اجماع کا ذکر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم شریعت علم حقیقت کے دلائل ہیں اسی طرح اوربزرگوں نے بھی ان کے الفاظ کے معانی انہی کے قریب قریب لکھے ہیں۔
خلاصہ
خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین
ایک اور شبہ اور اس کے کئی جواب
بعض لوگ شریعت اور طریقت کے الگ ہونے پر موسی علیہ السلام اور خضرعلیہ السلام کے واقعہ سے استدلال کرتے ہیں۔ جو قرآن مجید میں سورۃ کہف میں مذکور ہے:
خضر علیہ السلام اورموسی علیہ السلام ایک کشتی پر سوار ہوئے کشتی والوں نے مفت سوار کرلیا۔ خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا ایک تختہ نکال دیا اور اس کی جگہ کیلا گاڑدیا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کیا کہ کیا کشتی کا تختہ تو نے اس لئے نکالا ہے کہ کشتی والے ڈوب جائیں ؟
یہ بہت برا کا م کیا۔ پھر خضرعلیہ السلام نے ایک چھوٹے بچے کو قتل کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا تو نے ایک بے گناہ کو کیوں مارا ؟ پھر خضر علیہ السلام نے ایک دیوار کو جو گرنے والی تھی درست کردیا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ بھی ٹھیک نہیں کیا۔ کیونکہ ان بستی والوں نے ہمیں کھانا نہیں دیا۔ ہم کھانے کے محتاج تھے ان سے مزدوری لینی چاہیے تھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ شریعت اورچیز ہے طریقت اورچیز ہے۔ آج کل علماء کے اعتراضات صوفیاء پر اسی قسم کے ہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام پر کئے۔
جواب اول
مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین میں ہے کہ پہلے نبی خاص قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔ رسول اللہﷺ سب کی طرف بھیجے گئے۔
قرآ ن مجید میں بھی ہے :
’’قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ‘‘(سورۃ الاعراف:158)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں،‘‘
’’وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ‘‘( سورۃ الانبياء:108)
’’اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے‘‘
’’تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ‘‘ (سورۃ الفرقان:1)
’’بہت بابرکت ہے وه اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وه تمام لوگوں کے لئے آگاه کرنے واﻻ بن جائے‘‘
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہی قرآن مجید تمام جہانوں کے لئے ہے۔ کوئی اس قرآن سے باہر نہیں نکل سکتا۔ کیونکہ اس قرآن کی غرض تمام جہانوں کوڈرانا بتلائی ہے۔
ایک اور آیت میں ہے:
’’وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ‘‘ (سورۃ الانعام:19)
’’اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں‘‘
مشکوٰۃ میں حدیث ہے:
عن أبی جحيفة قال سألت عليا هل عندکم شئ ليس فی القرآ ن فقال والذی فلق الحبة وبرأ النسمة ما عندنا إلا مافی القرآن إلا فهما يعطی رجل فی کتا به وما فی الصحيفة قلت وما فی الصحيفة قال العقل وفکاک الأسير وأن لايقتل مسلم بکافر رواه البخاری ( مشکوٰۃ کتاب القصاص ص 300)
ابی جحیفۃ کہتے ہیں میں نےحضرت علی سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے پاس قرآن مجید کے سوا کچھ اوربھی ہے ؟ فرمایا اس ذات کی قسم جس نے (زمین میں) دانہ پھاڑا اورجاندار کوپیدا کیا۔ ہمارے پاس سوا قرآن کےکچھ نہیں۔ مگر سمجھ ہے جس شخص کو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں دیدے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ میں نے کہا اس صحیفہ میں کیا ہے؟ فرمایا ’’دیت‘‘ قیدی کا چھڑانا اور یہ کہ مسلمان کافر کےبدلے نہ مارا جائے۔
مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ خاص طور پر ہمارے پاس کچھ نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں سمجھ بھی کسی کے ساتھ خاص نہیں اور دیت وغیرہ کےاحکام بھی کوئی خصوصیت نہیں رکھتے۔
جب رسول اللہﷺ دنیا کے لئے رسول ہیں اور قرآن سب کے لئے ہے۔ تو خضرعلیہ السلام پر قیاس صحیح نہیں۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کی رسالت اس طرح عام نہ تھی۔
دوسرا جواب
مقامِ نبوت میں اور مقامِ ولایت میں فرق ہے۔ نبی کا الہام، کشف ، خواب وغیرہ سب وحی ہے۔ ولی کے الہام ، کشف وغیرہ میں شیطان کا دخل بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لئے بلعم بن باعور جیسے مستجاب الدعوت کوشیطان نے گمراہ کردیا جس کا قصہ قرآن مجید سورۂ اعراف رکوع 21 میں ہے۔ اسی طرج برصیصا گمراہ ہوگیا جس کا ذکر سورۂ حشر رکوع 2 میں ہے۔ اسی طرح اور کئی ولیوں کا خاتمہ خراب ہوگیا۔ نبی کی وحی کےذریعے سے اللہ تعالیٰ حفاظت کرتا ہے۔ خضر علیہ السلام صحیح قول کی بنا پرچونکہ نبی تھے اس لئے ان کے کام پر اعتراض نہ ہوسکنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب کوئی ولی بزرگ شرع کے خلاف کرے تواس پر بھی اعتراض نہ ہوسکے۔
تیسرا جواب
مثلاً ایک شخص کسی کے مہمان آیا ، دو چار روز رہا دیکھا کہ اس کی بیوی نماز نہیں پڑھتی۔ خاوند کو بھی کوئی غیرت نہیں۔ خاوند پر اعتراض کرتا ہے کہ تم برا کرتے ہو۔ تمہاری بیوی نماز نہیں پڑھتی۔ تم اس کوکچھ نہیں کہتے۔ خاوند جواب دیتا ہے کہ وہ ایام حیض میں ہے اس لئے نماز نہیں پڑھتی۔ بتلائیے خاوند کا سکوت کرنا اور اپنی بیوی کوکچھ نہ کہنا یہ شرع کے خلاف ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ عین شرع کے مطابق ہے۔ اور اعتراض کرنے والے کا اعتراض بھی بظاہر ٹھیک ہے جس کی وجہ سبب کی ناواقفی ہے۔
اسی طرح ایک شخص نے ایک شخص کو مارڈالا ، دیکھنے والوں نے اعتراض کیا کہ تو نے بڑا ظلم کیا۔ اس نے کہا کہ یہ فلاں ڈاکوہے۔ اس پر سب خوش ہوگئے بلکہ اس کو انعام کا مستحق سمجھا۔ ٹھیک اسی طرح خضر علیہ السلام نے جوکچھ کیا وہ عین شرع کے مطابق تھا۔ کیونکہ کشتی کا تختہ اس لئے نکالا کہ آگے ایک ظالم بادشاہ تھا وہ ہر صحیح سالم کشتی کوبیکار میں پکڑ لیتا اورلڑکے کو اس لئے قتل کیا کہ اس نے بڑا ہو کر ماں باپ کو سرکش اور کافر بنانا تھا اوردیوار کو مفت اس لئے درست کیا کہ اس کے نیچے دو یتیم بچوں کاخزانہ تھا اگر درست نہ کی جاتی تو گر جاتی اورلوگ خزانہ نکال کرلے جاتے۔ خضر علیہ السلام کو خدا کی طرف سے اس قسم کی باتوں کا علم ہوجاتا۔ موسیٰ علیہ السلام کو نہیں ہوا اس لئے موسیٰ علیہ السلام کا اعتراض بھی ظاہر کے لحاظ سے ٹھیک ہے۔ اب بھی اسی پر عمل چاہیے۔ جب کسی کا عمل بظاہر شرع کے خلاف دیکھے تو فوراً کہے تاکہ دوسرا آگے سے اس کی وجہ بیان کردے اوربد گمانی دور ہوجائے۔ اگر طریقت والے خضر علیہ السلام کی طرح اپنے عمل کو شرع کے مطابق کردیں توان پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ قرآن مجید میں ہے:
’’حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا‘‘ (سورۃ کهف:70)
’’جب تک کہ میں خود اس کی نسبت کوئی تذکره نہ کروں‘‘
یعنی خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ جو کام میں کروں گا اس کی وجہ خود بیان کروں گا تم سوال نہ کرنا۔ جس سے خضر علیہ السلام کایہ مطلب تھا کہ میرا کام شرع کے خلاف نہیں۔ سبب سے ناواقفی کی بنا پر تم اعتراض نہ کرنا میں خود ہی تمہاری تسلی کروں گا۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام سے پہلی دفعہ اعتراض نسیاناُ ہوا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ میں اس علم سے کسی اہم نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے جدائی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شرط وغیرہ کی پرواہ نہیں کی۔ بہر صورت خضرعلیہ السلام نے جوکچھ کیا شرع کے ماتحت کیا۔ اس سے طریقت کا شرع کے خلاف ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ خضر علیہ السلام کا یہ قول جس کا مطلب یہ ہے کہ تم اعتراض نہ کرنا میں تمہاری تسلی کردوں گا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا ہو شرع کی مخالفت کرنے کا مجاز نہیں۔
2۔ طریقت کوشرع سے الگ بنا کر شرع کی مخالفت کرنا اس فتنے کا دفعیہ صحابہ کےزمانہ میں اجماعِ صحابہ کےساتھ ہو چکا ہے۔ چنانچہ عمر کے خلافت کے دنوں میں ایک بدری (جنگ بدر میں شریک ہونے والا) صحابی نے شراب پی لی۔
بدریوں کی بابت رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ بخشے ہوئے ہیں۔ جب وہ پکڑ کر لایا گیا تو کہنے لگا میں بخشا ہوا ہوں۔ مجھ پرحد نہیں لگ سکتی کیونکہ میں گنہگار نہیں ہوا۔ حضرت عمر نے اور باقی سب صحابہ نے اس کا یہ عذر قبول نہیں کیا اور اس پر حد جاری کردی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی کتنا ہی مقرب ولی ہو اور پرہیزگار مخلص ہو وہ احکام شرعیہ میں باقی عوام خواص کے برابر ہے۔ اس کے کرنے سے برا کام اچھا نہیں ہو سکتا اور شرعی مواخذہ دنیا میں اس سے ساقط نہیں ہوگا۔ ہاں آخرت میں خدا کے سپرد بخشے یا عذاب دے۔
اس موقعہ پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دو فرقے غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جیسے خارجیوں اور رافضیوں کا حال ہے۔ خارجی طبیعت والا خدا کے نیک بندوں سے ایسا بغض رکھتا ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی بزرگ ہوں ان کا ایک آدہ عیب لے کر ان کو برا کہتا ہے۔ اور کسی بات میں ان کو قابل اقتدا نہیں جانتا۔ رافضی خیال کہتا ہے کہ فلاں شخص جوکچھ کرے اچھا ہے اور واجب الاتباع ہے۔ اگر وہ کہے کہ شراب سے مصلےٰ رنگ لے تو رنگ لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ بے خبر نہیں اس میں کوئی راز ہے۔ انہی سے بعض اٹھتے بیٹھتے یا بہاؤ الدین مشکل کشا کا ورد کرتے ہیں اور اپنے آپ کو خواجہ بہاؤ الدین کے محبوں سے سمجھتے ہیں۔ کوئی یا نظام الدین الأولیاء زری زر بخش کا ورد کرتے ہیں یعنی اے نظام الدین اولیاء زری سونا بخش دے۔ بعض نے ہر ضرورت کے لئے یا شیخ عبد القادرجیلانی شیئا للہ کا وظیفہ گھڑ لیا ہے۔ خبردار یہ تمام افتراء اور بہتان ہے بزرگانِ طریقت سے یہ بالکل ثابت نہیں۔ کسی ثقہ نے ان سے اس کی روایت نہیں کی بلکہ معتبر کتابوں میں جوکچھ ان کے احوال درج ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے مریدوں کوغیراللہ کی طرف نظر ڈالنے سے منع کرتے تھے۔ شیخ الشیوخ ابن عربی عوارف المعارف میں لکھتے ہیں کہ:
مرید راست باز اورمخلص بندہ نہیں بنتا۔ جب تک شریعت کی پوری پابندی نہ کرے اور اپنی نظر مخلوق سے نہ ہٹائے۔
ابتدائی مراحل طے کرنے والوں پر جو گمراہی کی آفت آتی ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کی نظر مخلوق کی طرف ہوتی ہے۔ اوررسول اللہﷺ سے ہمیں حدیث پہنچی ہے کہ بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک اس کی نظر میں تمام لوگ میگنیوں کی طرح نہ معلوم ہوں اوراپنے نفس کو اس سے بھی چھوٹا نہ دیکھے۔
مولاناجامی نے نفحات الانفس میں ــــــــــــــــــــــ خواجہ بہاؤ الدین سے نقل کیا ہے کہ خواجہ بہاؤ الدین نقشبند فرماتے ہیں:
خدا کا مجاوربننا بندوں کے مجاوربننے سے زیادہ لائق ہے۔ یعنی مسجدوں میں بیٹھنا چاہیے نہ قبروں میں۔ تو قبروں کی پرستش کب تک کرے گا خدا کے مردوں جیسے کام کر یعنی شریعت پر چل۔
شاہ عبد القادر جیلانی جومشائخ کے سردار اوراولیاء اللہ کے سرکردہ ہیں فتوح الغیب میں فرماتےہیں:
جو دنیا اور آخرت میں سلامتی چاہتا ہے وہ صبر ورضا بالقضاء کو اپنا شیوہ بنائے اورمخلوق کے پاس اپنی مصیبت کی شکایت اور اپنی ضرورتوں کا پیش کرنا ترک کردے۔ اور خدا کی طرف سے کشادگی کا انتظار کرے کیونکہ خداغیر سےبہتر ہے۔
آج کل عجیب بات یہ ہوگئی ہے کہ پیر پرست قرآن و حدیث کے مقابلہ میں عقلی ڈھکوسلوں سے کام لیتے ہیں۔ کہتے ہیں اولیاء اللہ کے ارواح اگرچہ مخلوق ہیں لیکن بوجہ قرب الہی کے ان کو پکارنا اور ان سے حاجت روائی کی درخواست کرنا کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ اولیاء اللہ کو خدا کی طرف سے یہ قدرت ہے کہ کماں سے تیر نکلا ہوا لوٹا دیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے اگر خدا تجھے دکھ پہنچائے تو اس کے سوا کوئی کھولنے والانہیں۔ اگر خیر کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اور رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ اگر ساری دنیا تجھے نفع پہنچانے میں کوشش کرے جو نفع خدا نے تیرے لئے نہیں لکھا تو وہ اس پر قادر نہیں۔ اگر ساری دنیا تجھے دکھ پہنچانا چاہے جو خدا نے تیرے لئے نہیں لکھا تو اس پر بھی ان کو قدرت نہیں۔ یہ حدیث ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں ابن عباس کو رسول اللہﷺ نے (توحید کا سبق پڑھاتے ہوئے) فرمایا اے لڑکے! خدا کو یاد رکھ خدا تیری حفاظت کرے گا۔ اللہ کو یاد کر اللہ کو سامنے پائے گا۔ جب سوال کرے اللہ سے سوال کر ، جب مدد چاہے اللہ سےچاہ ، جو کچھ ہونا تھا۔ اس کے ساتھ قلم خشک ہوگیا یہ حدیث پوری کتب حدیث میں اور فتوح الغیب میں موجود ہے۔ شاہ عبدالقادر جیلانی اس حدیث کو ذکر کر لکھتے ہیں:
ہر مومن کو چاہیے کہ اس حدیث کو اپنے دل کا آئینہ اور اپنے بدن کے اندر اور باہر کا کپڑا بنا لے۔ اور بات چیت میں اس کا خیال رکھے۔ پس اپنے تمام حرکات و سکنات میں اس پر عمل کرے تاکہ دنیا اور آخرت میں سلامت رہے۔ اور دونوں جہاں میں خدا کی رحمت سے عزت پائے۔ جو شخص لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ وہ خدا سے جاہل ہے اس کا ایمان۔ اس کی معرفت اس کا ایمان کمزور ہے اور حوصلہ کم ہے۔ اس حدیث اور شاہ عبد القادر جیلانی کے اس کلام سے صاف معلوم ہوا کہ پیر پرستوں قبر پرستوں کا رشتہ نہ شریعت سے ہے نہ طریقت سے ہے۔
اگر یہ لوگ ملاحدہ کی طرح کہیں کہ جس مقام میں ہم ہیں حقیقت ہے۔ جو شریعت اورطریقت سے الگ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ شاہ عبد القادر جیلانی فتوح الغیب میں لکھتے ہیں: جس حقیقت کے لئے شریعت سے گواہی نہ ہو وہ کفر اورالحاد ہے۔
شیخ عبد الحق دہلوی مرحوم اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
حقیقت شریعت سے الگ نہیں بلکہ حقیقت اصل میں شریعت ہے۔ ایمان والے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اوراس کی تہ کو پہنچتے ہیں۔ اگر کسی کوشریعت کے خلاف کشف ہوتو جھوٹ ہے اور باطل ہے۔ اوراس کا اعتقاد کرنے والا کافر ہے۔ ابوسلیمان دارانی فرماتے ہیں:
بہت دفعہ وجدانی نکتہ مچھر کھلتا ہے اوربہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر میں اس کو دوگواہوں عادل کی گواہی کے بغیر قبول نہیں کرتا۔ ایک کتاب اللہ اور دوسرا سنت رسول اللہ ۔
اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ مراقبہ اور توحید کا مرتبہ شرعی حدود کی حفاظت کے ساتھ صدیقوں اورعارفوں کا مقام ہے جواہل تحقیق ہیں۔ بعض لوگ اس مقام میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ بعض اپنے آپ کو دائرہ اسلام سے باہر کردیتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت الگ شے نہیں بلکہ دین ایک ہے اور یہ اس کی شاخیں اور مراتب اوردرجات ہیں۔ اللہ حق کہتا ہے اور سیدھا راستہ بتلاتا ہے۔ۤ
ابو سعید حراز کہتے ہیں جو باطل ظاہر کے خلاف ہو وہ باطل ہے۔ اور اسی کے موافق سیر المشائخ میں واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ خواجہ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی اپنے معمول کے موافق ملتان کی ایک مسجد میں صبح کی نماز کے لئے گئے۔ امام ایک رکعت پڑھا چکا تھا وہ دوسری رکعت میں شامل ہوئے۔ جب امام التحیات بیٹھا تو وہ سلام سے پہلے ہی اٹھ کر دوسری رکعت ادا کرنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو امام نے کہا اے شیخ امام کے سلام پھیرنےسے پہلے اٹھنا جائز نہیں شاید امام کے ذمہ سجدۂ سہو ہو۔ جس میں مقتدی کی شرکت بھی ضروری ہے اس لئے پہلے نہ اٹھنا چاہیے۔ شیخ نے کہا اگر نورِ باطن سے معلوم ہوجائے کہ امام کے ذمہ اس نماز میں کوئی سجدۂ سہو نہیں تواس وقت پہلے اٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام نے کہا اے شیخ جو نور خلاف شرع ہو وہ اندھیرا ہے نور نہیں۔
شیخ ابوعبد اللہ حارث بن اسدی محاسبی جو علماء مشائخ سے ہیں اورمتقدمین میں اہل طریقت سے ہیں فرماتے ہیں:
جس کا باطن راقبہ اور اخلاص سے صحیح ہوگیا اس کے ظاہر کو اللہ تعالیٰ ریاضت اوراتباعِ سنت کے ساتھ خوبصورت کردیتا ہے۔
ابو حفص کبیر حداد جو اہل طریقت کے بڑوں سے ہیں فرماتے ہیں:
جو شخص اپنے اقوال ، افعال اوراحوال کو دو ترازؤوں کتاب وسنت کےساتھ نہ تولے اوراپنے خیالات پر غلط ہونے کی تہمت نہ لگائے تو اس شخص کا شمار مردوں کے دفتر میں نہ کرو۔
شیخ ابو یزید بسطامی جو مشائخ میں سلطان العارفین کے لقب سے پکارے جاتے ہیں فرماتے ہیں:
اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ قسم قسم کی کرامات دیا گیا ہے یہاں تک کہ ہوا میں بیٹھتا ہے۔ پانی پر چلتا ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہ کرو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ امر نہی کی پابندی اور حدود کی حفاظت اور احکامِ شرعیہ کی ادائیگی میں کیسا ہے۔
سید الطائفہ جنید بغدادی جو تمام اہل طریقت کے پیشوا ہیں فرماتے ہیں:
مخلوق کی سانس کی گنتی قدر خدا کی طرف راستے ہیں اور سب بند ہیں مگر جو رسول کے قدم بقدم چلا اس کا رستہ خدا تک پہنچتاہے۔
ان بزرگوں کے کلام کا خلاصہ یہ ہے۔ کہ سنت رسول کی پیروی واجب ہے اور امر نہی شرعی کی پابندی لازم ہے اور مخالفِ شرع کے ہاتھ پر خرقِ عادات ظاہر ہونے سے دھوکا نہ کھانا چاہیے۔ کیونکہ قرآن میں ہے کہ ظاہر باطن ہر قسم کے گناہ چھوڑ دو۔ بلکہ بیہقی شعب الایمان میں حدیث لائے ہیں کہ جو بدعتی کی عزت کرے اس نے دین اسلام کے گرانے پر امداد کی۔ بزرگأنِ دین اس میں بہت احتیاط کرتے تھے۔
کہتے ہیں حسین بن منصور حلاج بڑا عابد تھا۔ ہر رات ہزار رکعت نفل پڑھتا۔ جب اس کی زبان سے أنا الحق (میں خدا ہوں) کا کلمہ نکلا تو سید الطائفہ جنید بغدادی نے اور دوسرے لوگوں نے اس کے قتل کا فتویٰ دے دیا اور سولی پر کھینچ دیا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی أخبارالأخیار میں لکھتے ہیں کہ:
خواجہ نظام الدین اولیاء سے لوگوں نے پوچھا کہ حسین بن منصور حلاج کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا: مردود ہے۔ جنید نے اس کو مردود لکھا۔ جنید اپنے زمانے کا پیشوا تھا۔ اس کا مردود کہنا سب کا مردود کہنا ہے۔
أخبارالأخیار میں شاہ عبد القاد ر جیلانی کے ذکر میں لکھا ہے کہ:
کہ انہوں نے کہا کہ منصور کسی نے نہ پایا۔ کہ اس کی دستگیری کرتا اور جو اس کوغلطی لگی تھی اس سے اس کو روکتا۔ میں اس زمانے میں ہوتا تو اس کی دستگیری کرتا۔ تاکہ وہ اس حد تک نہ پہنچتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت کے مدعی جس بات کو حق سمجھتے ہیں اور اس کو عین معرفت توحید سمجھتے ہیں۔ یہ ان کے پیروں کے نزدیک گمراہی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ مدعی جیسے سنت نبوی کے خلاف کرتے ہیں۔ ایسے بزرگوں اور اولیاء کے بھی مخالف ہیں اور ان کا اپنے بزرگوں کی نسبت محبت کا دعویٰ کرنا صرف زبانی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ منافقوں کی بابت فرماتا ہے۔ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔
شاہ ولی اللہ صاحب نے جو کچھ لکھا کافی ہے۔ اس سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ خدا نے اپنے بندوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا کہ جس طرح کوئی چاہے اپنے طور پر ریاضت۔ محنت کر کے خدا سے جاملے۔ بلکہ خدا نے اپنی طرف پہنچنے کا رستہ خود بتلایا ہے اور رسولوں کی معرفت اس کا بیان اپنے ذمہ لیا ہے۔ جو شخص اس کے رستے پر چلے وہ خدا کو مل سکتا ہے جواس کے خلاف کرے وہ دنیا آخرت دونوں جہانوں میں گمراہ ہے۔ اگر دنیا میں اس پر کوئی حد جاری ہوتی ہو تو جاری کی جائے گی۔ آخرت میں اگر جرم قابل معافی نہ ہوا تو برابر سزا بھگتےگا۔ چھوٹے بڑے کی اس میں کوئی تمیز نہیں۔ خواہ کتنا بڑا ہو اس رستے سے بہکنے کے بعد اس کی بڑائی چھٹائی سے بدل جائے گی۔
تفسیر خازن میں ہے موسیٰ علیہ السلام نےوعظ میں کہا:
يا بنی إسرائيل من سرق قطعنا يدہ ومن افتری جلدناه ثمانين ومن زنٰی وليست له امرأۃ رجمناہ إلی أن يموت فقال قارون وإن کنت أنت قال وإن کنت أنا ( تفسير خازن ، جلد 3،442 )
اے بنی اسرائیل جو شخص چوری کرے ہم اس کا ہاتھ کاٹیں گے۔ جو کسی پر زنا کی تہمت لگائے اس کو اَسّی درے ماریں گے ، جو زنا کرے اور اس کی بیوی نہ ہواس کو سو درے ماریں گے۔ جو زنا کرے اور اس کی بیوی ہو اس کو پتھروں سے ماریں گے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔ قارون نے کہا اگرچہ آپ ہوں فرمایا اگر چہ میں ہوؤں ۔
خیال فرمائیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام جیسے اولو العزم نبی بھی مخالفت کی صورت میں نہیں بچ سکتے تو باقی لوگ کس گنتی میں ہیں۔ اسی طرح بدر کے موقعہ پر فدیہ لے کے چھوڑنے پر اللہ نے فرمایا:
’’لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ‘‘(سورۃ الأنفال:68)
’’اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی‘‘
تفسیر خازن اورمدارک میں اس کی تفسیر میں لکھا ہے:
((قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم لو نزل عذاب من السماء نجا منه غير عمر وسعد بن معاذ)) (تفسير خازن ومدارک جلد 3 ص نمبر 310 )
رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر آسمان سے عذاب اترتا تو عمر اور معاذ کے سوا کوئی نجات نہ پاتا۔
چونکہ حضرت عمر اورمعاذ اور عبد اللہ بن رواحہ کی رائے فدیہ لینے کی نہ تھی۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر عذاب آتا تو عمراور معاذ کے سوا کوئی نہ بچتا۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر جیسے ہی نہ بچتے۔
حاشیہ
(حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تابع تھے اور معاذ رضی اللہ عنہ چونکہ دوسری قوم سے تھے یعنی انصاری تھے اس لیے ان کی رائے مستقل سمجھی گئی ۔)
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوتے ۔
بتلائے اس امت میں حضرت ابوبکر سے بڑھ کے کون ہے جب ان کی یہ حالت ہے تو دوسرے پیر فقیر شریعت سے کس طرح سبکدوش ہو سکتے ہیں ؟ خاص کر جب رسول اللہﷺ بھی شامل ہوں تو کتنے خوف کا مقام ہے۔ تفسیر خازن میں اسی محل میں ایک صفحہ پہلے مسلم کی حدیث ذکر کی ہے کہ دوسرے دن رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر رو رہے تھے۔ حضرت عمر نےکہا یارسول اللہ ! آپ کیوں رورہے ہیں ؟ فرمایا تیرے ساتھیوں پر روتا ہوں فدیہ لینے کی وجہ سے جو ان پر عذاب آنا تھا وہ مجھے اس درخت کے قریب دیکھایا گیا۔
فتاویٰ اہلحدیث
کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص44
بشکریا محدث فتویٰ