• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلئہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
[
ھارون عبداللہ مسئلہ وحدت الوجود ، یا وحدت الشہود ، نہ قرآن مین ہے ، نہ حدیث مین ہے ، نہ صحابہ سے ثابت ہے ، نہ تابعین سے ۔
وجود اور شھود کیا شئے ہے ۔اصطلاع ہے یا نظریات؟پہلے یہ طے ہو جائے پھر آگے بات ہو گئی،اس پر علماء کی کیا رائے ہے ؟
اس عقیدہ کے بدعت اور شرک ہونے مین ، کوئ شک نہین ہے -
اگر اسکو عقیدہ حلول سمجھا جائے تو کفر ہے،اور اگر کائنات کو خدا کی قدرت کا اظہار سمجھا جائے تو درست ہے۔
جو شخص یہ کہے کہ دین کی بات ( جیسے وحدت الوجود) نہ قرآن مین ہے ، نہ حدیث مین ، نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ، نہ صحابہ نے بتایا ، بالکہ یہ "ولیون"نے بتایا ہے ، اور ولیون نے سکھایا ہے ،اور جو ولی اسکا دعوی کرے، تو ایسے" ولی "کے شیطان ہونے مین کوئ شک نہین ہے -

قرآن وحدیث کو چھوڑ کر ، دین کسی اور چیز سے سیکھنا ، ایسے ہی ہے ، جیسے شیطان سے دین سیکھنا-
ہم ولی اسکو مانتے ہیں جو قران وحدیث کے معیار پر ہو۔

قریشی !
اگر آپ اپنی بات ( وحدت الوجود) مین سچے ہین ، تو قرآن کریم کی ایک آیت ، یا ایک حدیث ، یا ایک صحابی کا قول ، یا ایک تابعی کا قول ، وحدت الوجود کے متعلق پیش کرین ، یا اس شرکیہ

عقیدہ سے تائب ہوجائین ۔
میری بات کیا ہے زرا وہ تو بتا دو آپ بے سوچے سمجھے ادھر ادھر کی اڑا رہے ہو پہلےمیں نے جو لکھا ذرا صرف اسکی تشریح بیان کر دو جو پتہ چلے کہ آپ کیا سمجھے ہیں ،بھائی میں تو ایک جائزہ لے رہا ہوں اس مسلئہ کا اور آپ نے خوا مخواہ شور مچا رکھا ہے ۔ہو ش کے ناخن لو۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
قریشی !

آپکی تحریر ، میں نے پڑھی ہے ، اس پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہیں ۔ ملاحظہ کیجیے۔

١۔ آپکی پہلی بات ہی غلط ہے ۔ یہ حدیث (( کنت کنزمخفیا )) ضعیف ہے ، صحیح نہیں ہے ۔

٢۔ روح امر ربی سے ہے ، عالم امر سے نہیں ہے ۔

٣۔ دین میں ، "عالم امر" ، کوی چیز نہیں ہے ، خود ساختہ لفظ ہے ۔ قرآن و حدیث سے اسکا ثبوت دیں ؟

٤۔ اگر روح ، اپنی حقیقت (عالم امر) کی طرف جانا چاہتی ہے ، جیسا کہ قریشی نے کہا ، تو پھر کافر کی روح کیوں بھاگتی ہے ۔

٥۔ پھر جانوروں ، کی ارواح کو بھی ، اپنی حقیقت کی طرف جانا چاہیے ، جانوروں کی ارواح کا "عالم امر" کی طرف جانا ثابت کریں ۔

٦۔ انسان کا مقصد تخلیق ،عبادت ہے ۔ مقصد تخلیق ، معرفت الہی ہونا ، قرآن و حدیث سے ، ثابت کریں؟؟

٧۔ معرفت الہی ، تمام بنی آدم کو حاصل ہے ، انبیاء اسکی یاد دہانی ، کے لیے آتے ہیں۔

٨۔ "عشق" کا لفظ ،مخلوق کے لیے ، استعمال ہوتا ہے ، خالق کے لیے نہیں ۔ خالق کے لیے ، "عشق" کا لفظ استعمال کرنا ، بدعت ہے ، اور بے ادبی ہے ۔

٩۔قرآن وحدیث سے ، لفظ "عشق " کا استعمال ، اللہ کے لیے ، ثابت کریں؟؟

١٠۔ ایک رات میں، قرآن ختم کرنا ، خلاف سنت ہے ۔ سنت سے ثبوت پیش کریں ؟؟

١١۔ اللہ تعالی کے لیے ، حسن یوسف اور زلیخا کی مثال دینا ، کفر ہے ، کیونکہ زلیخا کی ، حضرت یوسف سے محبت ، "محبت شھوت" تھی ۔ اور اللہ تعالی سے محبت شھوت کرنا کفر ہے ۔ ( زنان مصر بھی اسی میں داخل ہیں)

١٢۔ اللہ سے محبت شھوت نہیں ، بلکہ "محبت عبادت" کی جاتی ہے ۔

١٣۔ کراما کاتبین ، انسانوں کے تمام اچھے ، برے اعمال لکھتے ہیں۔ ولیوں کے اعمال کو نہ لکھنے کی دلیل ، قرآن و حدیث سے دیں ؟؟

١٤۔ " قطرہ کا دریا میں ملنا ، اور دریا کا سمندر میں ملنا " کے الفاظ ، اللہ تعالی کے لیے ، استعمال کرنا کفر ہے ۔

١٥۔ کیونکہ ظاھر الفاظ بتاتے ہیں کہ روح ، اللہ کے ساتھ ایسے ملتی ہے ، جیسے قطرہ پانی کے ساتھ۔ اور یہ ملاپ حقیقی ہے ۔

١٦۔اللہ کے ساتھ ملاپ حقیقی ثابت کرنا ، کفر ہے ۔ کیونکہ اللہ کا تو ، کوئ ھمسر(برابری کرنے والا بھی نہیں ) ((ولم یکن لہ کفوا احدا)) سورہ اخلاص۔

١٧۔ جب اللہ کے ، کوئ برابر بھی نہیں ، تو اسکے ساتھ ملاپ کرانا، کفر اکبر ہے۔

١٨۔ اگر کوئ یہ کہے کہ ، میرا مطلب وہ نہیں ہے ، جو ظاھر الفاظ کا ہے ( یعنی قطرہ کا دریا میں ملنا) ، تو اسے شخص کی بات کا اعتبار نہیں کیا جاے گا، بلکہ ظاھر الفاظ کو
کتاب وسنت پر پیش کیا جاے گا۔

١٩۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ عیسائ ، حضرت عیسی کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ۔ مگر جب ان سے پوچھا جاتا ہے ، تو کہتے ہیں کہ ، "بیٹا" کا مطلب ھم یہ نہیں لیتے کہ عیسی، اللہ سے پیدا ہوے ہیں۔

٢٠۔ جسطرح عیسائیوں کے کہنے سے ، ظاھر الفاظ( اللہ کا بیٹا) تبدیل نہیں ہونگے ، اور ان الفاظ پر شرک کا حکم لگے گا ، بالکل اسی طرح ، بریلویوں کے کہنے سے (تاویل کرنے سے) ظاھر الفاظ ( قطرے کا دریا میں ملنا ، ھمہ اوست وغیرہ ) تبدیل نہ ہونگے ، اور شرک ہی رہیں گے ۔

نوٹ : : ظاھر الفاظ ، جن میں شرک پایا جاے ، ان الفاظ کی کوئ بھی تاویل کردی جاے ، وہ الفاظ ، شرک ہی رہیں گے۔

٢١۔ قریشی، نے جو وحدت الوجود ، اور وحدت الشھود کا مطلب بیان کیا ہے ، مندرجہ ذیل ہے ۔

٢٢۔ وحدت الوجود کا مطلب ہے ، " ایک ہوجانا" ، اور وحدت الشھود کا مطلب ہے ، ہر طرف اللہ کا نظر آنا، یعنی ہر جگہ " تو ہی تو " ہے ۔

٢٣۔ مذکورہ بالا دونوں مطلب ، واضح کفر اور شرک ہیں۔

٢٤۔ اسکی وجہ یہ ہے ، کہ "وحدت الوجود" کا مطلب اگر اللہ کا " ایک ہوجانا " لیا جاے ، تو واضح کفر ہے ۔ کیونکہ اللہ تو ھمیشہ سے "احد" ہے ، اللہ کا ایک ہوجانا ،کا کیا کا معنی؟؟ کیا اللہ کے پہلے کوئ شریک تھے ، کہ اللہ ایک ہوگیا ہے ؟؟ نعوذ باللہ

٢٥۔ اگر "وحدت الوجود" کا مطلب مخلوق کا "ایک ہوجانا" لیا جاے ، تو مخلوق کو ، اللہ کی صفت " احد" میں شریک بنایا ۔اگر یہ مطلب لیا جاے کہ مخلوق اللہ کے ساتھ کے ساتھ مل گئ ہے ، تو یہ شرک اکبر ہے ، کہ اللہ تعالی "احد" ہے ۔

٢٦۔ لہذا وحدت الوجود کا عقیدہ ، ہر لحاظ سے کفر اور شرک ہے ۔

٢٧۔ قریشی نے ، وحدت الشھود کا مطلب کیا ہے ، " ایک دیکھنا " یعنی ہر جگہ، صرف اللہ ہی دیکھای دیتا ہے ۔ ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے ۔ وجوھات ذیل ہیں۔

٢٨۔ جب اللہ نے فرمایا (( لن ترانی )) کہ تم مجھے ، اس دنیا میں ، نہیں دیکھ سکتے ، تو وحدت الشھود والے ، کس کو اللہ، بناکے دیکھتے ہیں؟؟

٢٩۔ جب ایک نبی دنیا میں ، اللہ کو نہیں دیکھ سکا ، تو اپنے آپ کو نبی سے بڑھانا ، کفر ہے ۔

٣٠۔ جو شخص ، مخلوق کو دیکھنے کا منکر ہے (یعنی صرف اللہ نظر آتا ہے) ، ایسا شخص اللہ کی آیات کا منکر ہے ۔ آیت ملاحظہ ہو (( ومن ایتہ یریکم البرق)) سورہ روم آیت #٢٤ " اور اسکی نشانیوں میں سے ، ایک یہ بھی ہے ، کہ وہ تمہیں بجلیاں دیکھاتا ہے " ۔

٣١۔ جو شخص بجلی دیکھنے کا منکر ہے ، وہ اللہ کی نشانی دیکھنے کا منکر ہے ۔ لہذا وحدت الشھود کا عقیدہ رکھنے والا اللہ کی نشانیوں کا منکر ہے ۔

٣٢۔ جو شخص بجلی دیکھتا ہے ،تو اسکا مطلب ہے ، کہ وہ صرف اللہ کو نہیں دیکھتا بلکہ مخلوق کو بھی دیکھتا ہے ، تو یہ وحدت الشھود کے خلاف ہے ۔ لہذا یہ عقیدہ باطل ہے ۔

٣٣۔ اللہ کی آیات کا منکر ،صریح کافر ہے ۔ (( وما یجحد بایتنآ الا الکافرون)) سورہ عنکبوت آیت #٤٧

٣٤۔ توحید کی تقسیم ، انبیاء اور غیر انبیاء کے حوالہ سے کرنا صریح کفر ہے ۔ یعنی ایک توحید وہ ہے ،جو انبیاء نے بتائ ہے ۔ اور ایک توحید وہ ہے ، جو غیر انبیاء یعنی ولیوں نے بتائ ہے ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے ، اور ایسا شخص زندیق ہے ۔

٣٥۔ قریشی سے سوال ہے کہ ، شریعت کو چھوڑ کر ، طر یقیت، حقیقت وغیرہ جوہے ، وہ دین میں شامل ہے کہ نہیں؟؟

٣٦۔ اگر دین میں شامل ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل دین پہنچایا یا نہیں؟؟

٣٧۔اگر کامل دین پہنچایا ہے تو یہ ، طریقیت اور حقیقت کونسی آیت اور حدیث میں ہے ؟؟ حوالہ دیں ؟؟

اگر کہیں کہ نہیں پہنچایا ، تو آپکی رسالت کے خلاف ہے ۔

٣٨۔ اگر کہیں کہ کامل دین تو پہنچایا ہے ، مگر یہ طریقیت اور حقیقت وغیرہ نہیں پہنچائ، تو آپ نے خود اقرار کرلیا کہ یہ چیزیں، دین ،نہیں ہیں۔

٣٩۔ اگر کہیں کہ دین کامل نہیں تھا ، ولیوں نے بتایا ، تو باطل ہے ۔ کیونکہ قرآن میں دین کو، کامل کہا گیا ہے ۔

٤٠۔ اگر کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید "اور" بتائ ، اور ولیوں نے" اور" ، تو خود ہی اقرار کرلیا کہ ولیوں کی" توحید" خلاف اسلام ہے ۔ کیونکہ اسلام تو قرآن اور فرمان رسول کا نام ہے ۔

٤١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے ، توحید وحدت الوجود، اور توحید وحد ت الشھود پر عمل کیا یا نہیں؟؟ اگر عمل کیا تو قرآن وحدیث سے حوالہ دیں؟؟

٤٢۔ اگر کہیں کہ نہیں کیا ، تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی توحید، کامل تھی یا نہیں ؟؟

٤٣۔ اگر کہیں کہ توحید کامل تھی ، اور اس سے بڑھ کر توحید کا کوی تصور نہیں ہے ، تو خود ہی تسلیم کیا کہ ، ولیوں کی توحید، باطل ہے ۔

٤٤۔ اگر کہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی توحید ، کامل نہ تھی ( نعوذ باللہ) ، اور ولیوں کی توحید کامل ہے ، تو اس بات کا کفر ہونا ظا ھر ہے ۔

٤٥۔ معلوم ہوا کہ " قریشی " کی تحریر ، جو وحدت الوجود ، الشھود پر ہے ، بدعت، کفر ، شرک ، شرک اکبر کا مجموعہ ہے ، اور اس عقیدہ کا کفر اور شرک ہونا بالکل واضح ہے۔

٤٦۔ ایک لحاظ سے یہ عقیدہ ، دنیا کے غلیظ ترین ، شرکیہ عقیدوں میں سے ایک ہے ، کہ اسکے ماننے والوں کو ، نجاست میں بھی ، اللہ نظر آتا ہے۔ نعوذ باللہ
وما توفیقی الا باللہ

ختم شد
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
قریشی صاحب اور ابن الجوزی صاحب دونوں ہی وحدت الوجود کی تشریح کرتے ہوئے وحدت الشہود بیان کررہے ہیں- ایک ہونے اور ایک نظر آنے مییں بہت فرق ہے- قریشی بھائی وحدت الوجود کی تعریف صحیح بیان کرکے تشریح وحدت الشہود کی کرتے ہیں-

دوم یہ کہ مجدد الف ثانی نے، قدرے نرم لہجے میں ہی سہی مگر، وحدت الوجود کا رد کیا ہے- وہ ایک عرصہ تک ابن عربی والے وحدت الوجود کے قائل رہے مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا- انہوں نے اس نظرئیے کو غلط سمجھ کر چھوڑا نہ کہ اس وجہ سے جو قریشی بھائی نے بیان کی ہے-
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
٣٥
۔ قریشی سے سوال ہے کہ ، شریعت کو چھوڑ کر ، طر یقیت، حقیقت وغیرہ جوہے ، وہ دین میں شامل ہے کہ نہیں؟؟

٣٦۔ اگر دین میں شامل ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل دین پہنچایا یا نہیں؟؟

٣٧۔اگر کامل دین پہنچایا ہے تو یہ ، طریقیت اور حقیقت کونسی آیت اور حدیث میں ہے ؟؟ حوالہ دیں ؟؟

اگر کہیں کہ نہیں پہنچایا ، تو آپکی رسالت کے خلاف ہے ۔

٣٨۔ اگر کہیں کہ کامل دین تو پہنچایا ہے ، مگر یہ طریقیت اور حقیقت وغیرہ نہیں پہنچائ، تو آپ نے خود اقرار کرلیا کہ یہ چیزیں، دین ،نہیں ہیں۔

٣٩۔ اگر کہیں کہ دین کامل نہیں تھا ، ولیوں نے بتایا ، تو باطل ہے ۔ کیونکہ قرآن میں دین کو، کامل کہا گیا ہے ۔
ھارون عبداللہ صاحب آپ عالم ضرور ہونگے مگر آپ نے جو سوالات کی بوچھاڑ کی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا کہ آپ نہ تصوف کو جانتے ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں،تو پھر بحث برائے بحث سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔لیکن آپ نے شریعت و طریقت کا جواب حضرت عبداللہ روپڑی ؒ سے بھی پو چھا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا تھا
جواب حضرت عبداللہ روپڑی ؒ؛۔ یہ مسئلہ بہت تفصیل طلب ہے ہم اس پر کچھ زیادہ لکھنا چاہتے تھے۔ لیکن عدیم الفرصت کے باعث مختصر مضمون پر اکتفا کرتے ہیں۔ پھر کسی فرصت کے وقت اس پر زیادہ روشنی ڈالی جائے گی ۔ ان شاء اللہ
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد خیر قرون میں شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت وغیرہ کوئی خاص اصطلاح نہ تھیں۔ صرف شریعت کا لفظ دین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا باقی الفاظ قریباً اپنے لغوی معنی پر تھے۔ اس کے بعد جیسے فقہ والوں نے احکام کے درجات بتلانے کی غرض سے فرض واجب وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام نے تہذیب اخلاق یعنی علم تصوف میں سلوک عبد کے درجات کو ظاہر کرنے کی غرض سے یہ الفاظ مقرر کیے۔ مثلاًشریعت عقائد اور ظاہری احکام کا نام رکھا جیسے نماز۔۔۔ روزہ وغیرہ۔ طریقت ان پر عمل کرنے میں ریاضت اور مجاہدۂ نفس کرنا اور اپنے اندر اخلاص اور للٰہیت پیدا کرنا۔ حقیقت ان کے اسرارپر مطلع ہوکر اپنا عمل اس کے مطابق کرنا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغۃ میں ان احکام کے اسرار لکھے یا نفس اور دل کے امراض پر مطلع ہو کر ہر ایک مرض کا مناسب علاج کرنا اور باطنی صحت قائم رکھنے کے اسباب پیدا کرنا۔ معرفت کشف اور مراقبہ کی حالت ہے۔ جو یقین اور اطمینان قلبی کا اعلیٰ مقام ہے۔ اس وقت اللہ کے سوا کسی شے کی طرف نظر نہیں رہتی اور ذکر الہی میں وہ حلاوت اورلذت پاتا ہے کہ کوئی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی بلکہ ذکر الہی ایک طرح سے اس کی غذا ہوجاتا ہے جس کے بغیر اس کی زندگی مشکل ہے۔
مثال
ان چاروں مراتب کی مثال درخت کی سی ہے۔ مثلاً درخت کے لئے جڑیں اور تنا ہے ان کے بغیر درخت کا وجود ہی نہیں۔ پھر ٹہنے اورشاخیں ہیں یہ بھی درخت کےلئے لازمی ہیں۔ پھر پھل ہے پھر اس کی لذت ہے۔ ٹھیک اسی طرح تصوف ہے۔ شریعت کے بغیر تو تصوف کوئی چیز ہی نہیں۔ نہ وہاں طریقت ہے نہ حقیقت نہ معرفت کیونکہ شریعت بمنزلہ جڑ اور تنے کے ہے۔ اس کے بعد طریقت کا مرتبہ ہے جو بمنزلہ ٹہنوں اورشاخوں کے ہے۔ اس کے بغیر بھی تصوف کالعدم ہے۔ پھر حقیقت پھل کے قائم مقام ہے اورمعرفت اس کی لذت کے قائم مقام ہے۔ جیسے درخت پھل اور اس کی لذت کے بغیر کامل نہیں اس طرح بندہ بھی خدا کے نزدیک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک اس کے اندر حقیقت اور معرفت پیدا نہ ہو جائے۔
چار قسم
یہ چار قسمیں اس وقت ہوں گی جب طریقت کو اور معرفت کو بھی علم تصوف کی شاخیں شمار کریں۔ اگر طریقت کے معنی علم تصوف کے لیں جیسے اکثر صوفیاء استعمال کرتے ہیں تو اس وقت علم تصوف کی صرف تین قسمیں ہوں گی: شریعت ، حقیقت ، معرفت۔ اگر معرفت کو حقیقت سے الگ شمارنہ کریں بلکہ حقیقت میں داخل کریں تو بھی علم تصوف کی صرف تین قسمیں ہوں گی: شریعت ، طریقت ، حقیقت۔ شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی﷫ شرح فتوح الغیب میں فرماتے ہیں:
دین ایک ہے اور شریعت ، طریقت ، حقیقت اس کے مراتب اور درجات ہیں۔ (ملاحظہ ہو البلاغ المبین تصنیف شاہ ولی اللہ صاحب ص 45 ملخصاً) شیخ عبد الحق صاحب نے معرفت کو الگ شاخ شمار نہیں کیا گویا اس کو حقیقت میں داخل کردیا۔
علم کی قسمیں
شیخ علی بن عثمان ہجویر ی معروف بہ داتا گنج بخش لاہوری﷫ کشف المحجوب ص 20 میں شیخ محمد بن فضل﷫ سے نقل کر تےہیں: علم تین ہیں: علم باللہ ، علم من اللہ ، علم مع اللہ یعنی علم توحید ، علم شریعت ، علم مقاماتِ اولیاء جس کو زہد اورتقویٰ کہتے ہیں۔ (ملخصاً)
کشف المحجوب کے صفحہ 159 میں فرماتے ہیں کہ:
شریعت اورحقیقت میں کسی نےفرق نہیں کیا (کہ آپس میں جدا ہوسکیں) کیونکہ شریعت حقیقت کے بغیر نہیں اورحقیقت شریعت کے بغیر نہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں لاإلہ إلا اللہ حقیقت ہے اور محمد رسول اللہ شریعت ہے اور شریعت معرفت دونوں حقیقت کی شاخیں ہیں۔ إنتہی
انہوں نے بھی علم تصوف کی تین قسمیں کردی ہیں: شریعت ، حقیقت ، معرفت۔ لیکن ان کے نزدیک حقیقت کا معنی وہ نہیں جو اوپر بیان ہوا۔ بلکہ حقیقت کے معنی علم توحید کے ہیں اسی لئے شر یعت اور معرفت کو اس کی شاخیں قراردیا ہے۔ کیونکہ جو شخص خدا کو نہ مانے اس کے نزدیک نہ شریعت نہ معرفت کچھ بھی نہیں۔
کشف المحجوب میں ایک اور جگہ علم تصوف کی صرف دو قسمیں ظاہر اور باطن کرکے دونوں کو حقیقت کہہ دیا ہے۔ چنانچہ ص 16 میں کہا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں ظاہری ، باطنی۔ ظاہری کے بھی اصول فروع ہیں۔ باطنی کے بھی اصول فروع ہیں۔ ظاہری کا اصول کلمۂ شہادت ہے :
اشہد أن لاإلہ إلا اللہ وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ
اور فروع لوگوں کے ساتھ معاملات میں درستی رکھنا۔ اورباطنی کا اصول معرفتِ الہی کی تحقیق اورفروع نیت کا نیک اور صحیح کرنا اور ان میں سے ہر ایک کا دوسرے کے بغیر پایا جانا محال ہے ظاہر باطن کے بغیر نہیں پایا جاسکتا اور باطن ظاہر کےبغیر نہیں پایا جا سکتا۔
علم حقیقت کے تین رکن
پھر علم حقیقت کےتین رکن ہیں:
1۔ اللہ کی ذات کوجاننا کہ وہ موجود ہے اور ایک ہے۔
2۔ خدا کی صفات کوجاننا اس کے احکام کو ماننا اور بجا لانا۔
3۔ اس کے فعلوں کو اور اس کی حکمت کوجاننا۔ (إنتہی ملخصاً ص 16)
اس سے معلوم ہوا کہ جیسےطریقت کا استعمال علم تصوف کے معنوں میں ہوتا ہے ایسے حقیقت کا استعمال بھی کبھی انہی معنوں میں ہوتا ہے۔
اس کے بعد کشف المحجوب میں فصل باندھ کر لکھا ہے کہ علم شریعت کے بھی تین رکن ہیں: کتاب مجید ، حدیث شریف ، اجماع۔ خداوند تعالیٰ کی ذات اور صفات اور افعال کے ثابت کرنے پر خداوند تعالیٰ کا قول ہی دلیل ہے۔ (انتہی ملخصاًص 16)
آگے چل کر سنت اور اجماع کا ذکر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم شریعت علم حقیقت کے دلائل ہیں اسی طرح اوربزرگوں نے بھی ان کے الفاظ کے معانی انہی کے قریب قریب لکھے ہیں۔
خلاصہ
خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین
ایک اور شبہ اور اس کے کئی جواب
بعض لوگ شریعت اور طریقت کے الگ ہونے پر موسی علیہ السلام اور خضرعلیہ السلام کے واقعہ سے استدلال کرتے ہیں۔ جو قرآن مجید میں سورۃ کہف میں مذکور ہے:
خضر علیہ السلام اورموسی علیہ السلام ایک کشتی پر سوار ہوئے کشتی والوں نے مفت سوار کرلیا۔ خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا ایک تختہ نکال دیا اور اس کی جگہ کیلا گاڑدیا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کیا کہ کیا کشتی کا تختہ تو نے اس لئے نکالا ہے کہ کشتی والے ڈوب جائیں ؟
یہ بہت برا کا م کیا۔ پھر خضرعلیہ السلام نے ایک چھوٹے بچے کو قتل کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا تو نے ایک بے گناہ کو کیوں مارا ؟ پھر خضر علیہ السلام نے ایک دیوار کو جو گرنے والی تھی درست کردیا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ بھی ٹھیک نہیں کیا۔ کیونکہ ان بستی والوں نے ہمیں کھانا نہیں دیا۔ ہم کھانے کے محتاج تھے ان سے مزدوری لینی چاہیے تھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ شریعت اورچیز ہے طریقت اورچیز ہے۔ آج کل علماء کے اعتراضات صوفیاء پر اسی قسم کے ہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام پر کئے۔
جواب اول
مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین میں ہے کہ پہلے نبی خاص قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔ رسول اللہﷺ سب کی طرف بھیجے گئے۔
قرآ ن مجید میں بھی ہے :
’’قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَ‌سُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ‘‘(سورۃ الاعراف:158)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں،‘‘
’’وَمَا أَرْ‌سَلْنَاكَ إِلَّا رَ‌حْمَةً لِّلْعَالَمِينَ‘‘( سورۃ الانبياء:108)
’’اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے‘‘
’’تَبَارَ‌كَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْ‌قَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرً‌ا ‘‘ (سورۃ الفرقان:1)
’’بہت بابرکت ہے وه اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وه تمام لوگوں کے لئے آگاه کرنے واﻻ بن جائے‘‘

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہی قرآن مجید تمام جہانوں کے لئے ہے۔ کوئی اس قرآن سے باہر نہیں نکل سکتا۔ کیونکہ اس قرآن کی غرض تمام جہانوں کوڈرانا بتلائی ہے۔
ایک اور آیت میں ہے:
’’وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ‘‘ (سورۃ الانعام:19)
’’اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں‘‘
مشکوٰۃ میں حدیث ہے:
عن أبی جحيفة قال سألت عليا هل عندکم شئ ليس فی القرآ ن فقال والذی فلق الحبة وبرأ النسمة ما عندنا إلا مافی القرآن إلا فهما يعطی رجل فی کتا به وما فی الصحيفة قلت وما فی الصحيفة قال العقل وفکاک الأسير وأن لايقتل مسلم بکافر رواه البخاری ( مشکوٰۃ کتاب القصاص ص 300)
ابی جحیفۃ کہتے ہیں میں نےحضرت علی سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے پاس قرآن مجید کے سوا کچھ اوربھی ہے ؟ فرمایا اس ذات کی قسم جس نے (زمین میں) دانہ پھاڑا اورجاندار کوپیدا کیا۔ ہمارے پاس سوا قرآن کےکچھ نہیں۔ مگر سمجھ ہے جس شخص کو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں دیدے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ میں نے کہا اس صحیفہ میں کیا ہے؟ فرمایا ’’دیت‘‘ قیدی کا چھڑانا اور یہ کہ مسلمان کافر کےبدلے نہ مارا جائے۔
مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ خاص طور پر ہمارے پاس کچھ نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں سمجھ بھی کسی کے ساتھ خاص نہیں اور دیت وغیرہ کےاحکام بھی کوئی خصوصیت نہیں رکھتے۔
جب رسول اللہﷺ دنیا کے لئے رسول ہیں اور قرآن سب کے لئے ہے۔ تو خضرعلیہ السلام پر قیاس صحیح نہیں۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کی رسالت اس طرح عام نہ تھی۔
دوسرا جواب
مقامِ نبوت میں اور مقامِ ولایت میں فرق ہے۔ نبی کا الہام، کشف ، خواب وغیرہ سب وحی ہے۔ ولی کے الہام ، کشف وغیرہ میں شیطان کا دخل بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لئے بلعم بن باعور جیسے مستجاب الدعوت کوشیطان نے گمراہ کردیا جس کا قصہ قرآن مجید سورۂ اعراف رکوع 21 میں ہے۔ اسی طرج برصیصا گمراہ ہوگیا جس کا ذکر سورۂ حشر رکوع 2 میں ہے۔ اسی طرح اور کئی ولیوں کا خاتمہ خراب ہوگیا۔ نبی کی وحی کےذریعے سے اللہ تعالیٰ حفاظت کرتا ہے۔ خضر علیہ السلام صحیح قول کی بنا پرچونکہ نبی تھے اس لئے ان کے کام پر اعتراض نہ ہوسکنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب کوئی ولی بزرگ شرع کے خلاف کرے تواس پر بھی اعتراض نہ ہوسکے۔
تیسرا جواب
مثلاً ایک شخص کسی کے مہمان آیا ، دو چار روز رہا دیکھا کہ اس کی بیوی نماز نہیں پڑھتی۔ خاوند کو بھی کوئی غیرت نہیں۔ خاوند پر اعتراض کرتا ہے کہ تم برا کرتے ہو۔ تمہاری بیوی نماز نہیں پڑھتی۔ تم اس کوکچھ نہیں کہتے۔ خاوند جواب دیتا ہے کہ وہ ایام حیض میں ہے اس لئے نماز نہیں پڑھتی۔ بتلائیے خاوند کا سکوت کرنا اور اپنی بیوی کوکچھ نہ کہنا یہ شرع کے خلاف ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ عین شرع کے مطابق ہے۔ اور اعتراض کرنے والے کا اعتراض بھی بظاہر ٹھیک ہے جس کی وجہ سبب کی ناواقفی ہے۔
اسی طرح ایک شخص نے ایک شخص کو مارڈالا ، دیکھنے والوں نے اعتراض کیا کہ تو نے بڑا ظلم کیا۔ اس نے کہا کہ یہ فلاں ڈاکوہے۔ اس پر سب خوش ہوگئے بلکہ اس کو انعام کا مستحق سمجھا۔ ٹھیک اسی طرح خضر علیہ السلام نے جوکچھ کیا وہ عین شرع کے مطابق تھا۔ کیونکہ کشتی کا تختہ اس لئے نکالا کہ آگے ایک ظالم بادشاہ تھا وہ ہر صحیح سالم کشتی کوبیکار میں پکڑ لیتا اورلڑکے کو اس لئے قتل کیا کہ اس نے بڑا ہو کر ماں باپ کو سرکش اور کافر بنانا تھا اوردیوار کو مفت اس لئے درست کیا کہ اس کے نیچے دو یتیم بچوں کاخزانہ تھا اگر درست نہ کی جاتی تو گر جاتی اورلوگ خزانہ نکال کرلے جاتے۔ خضر علیہ السلام کو خدا کی طرف سے اس قسم کی باتوں کا علم ہوجاتا۔ موسیٰ علیہ السلام کو نہیں ہوا اس لئے موسیٰ علیہ السلام کا اعتراض بھی ظاہر کے لحاظ سے ٹھیک ہے۔ اب بھی اسی پر عمل چاہیے۔ جب کسی کا عمل بظاہر شرع کے خلاف دیکھے تو فوراً کہے تاکہ دوسرا آگے سے اس کی وجہ بیان کردے اوربد گمانی دور ہوجائے۔ اگر طریقت والے خضر علیہ السلام کی طرح اپنے عمل کو شرع کے مطابق کردیں توان پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ قرآن مجید میں ہے:
’’حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرً‌ا‘‘ (سورۃ کهف:70)
’’جب تک کہ میں خود اس کی نسبت کوئی تذکره نہ کروں‘‘
یعنی خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ جو کام میں کروں گا اس کی وجہ خود بیان کروں گا تم سوال نہ کرنا۔ جس سے خضر علیہ السلام کایہ مطلب تھا کہ میرا کام شرع کے خلاف نہیں۔ سبب سے ناواقفی کی بنا پر تم اعتراض نہ کرنا میں خود ہی تمہاری تسلی کروں گا۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام سے پہلی دفعہ اعتراض نسیاناُ ہوا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ میں اس علم سے کسی اہم نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے جدائی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شرط وغیرہ کی پرواہ نہیں کی۔ بہر صورت خضرعلیہ السلام نے جوکچھ کیا شرع کے ماتحت کیا۔ اس سے طریقت کا شرع کے خلاف ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ خضر علیہ السلام کا یہ قول جس کا مطلب یہ ہے کہ تم اعتراض نہ کرنا میں تمہاری تسلی کردوں گا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا ہو شرع کی مخالفت کرنے کا مجاز نہیں۔
2۔ طریقت کوشرع سے الگ بنا کر شرع کی مخالفت کرنا اس فتنے کا دفعیہ صحابہ کےزمانہ میں اجماعِ صحابہ کےساتھ ہو چکا ہے۔ چنانچہ عمر کے خلافت کے دنوں میں ایک بدری (جنگ بدر میں شریک ہونے والا) صحابی نے شراب پی لی۔
بدریوں کی بابت رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ بخشے ہوئے ہیں۔ جب وہ پکڑ کر لایا گیا تو کہنے لگا میں بخشا ہوا ہوں۔ مجھ پرحد نہیں لگ سکتی کیونکہ میں گنہگار نہیں ہوا۔ حضرت عمر نے اور باقی سب صحابہ نے اس کا یہ عذر قبول نہیں کیا اور اس پر حد جاری کردی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی کتنا ہی مقرب ولی ہو اور پرہیزگار مخلص ہو وہ احکام شرعیہ میں باقی عوام خواص کے برابر ہے۔ اس کے کرنے سے برا کام اچھا نہیں ہو سکتا اور شرعی مواخذہ دنیا میں اس سے ساقط نہیں ہوگا۔ ہاں آخرت میں خدا کے سپرد بخشے یا عذاب دے۔
اس موقعہ پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دو فرقے غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جیسے خارجیوں اور رافضیوں کا حال ہے۔ خارجی طبیعت والا خدا کے نیک بندوں سے ایسا بغض رکھتا ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی بزرگ ہوں ان کا ایک آدہ عیب لے کر ان کو برا کہتا ہے۔ اور کسی بات میں ان کو قابل اقتدا نہیں جانتا۔ رافضی خیال کہتا ہے کہ فلاں شخص جوکچھ کرے اچھا ہے اور واجب الاتباع ہے۔ اگر وہ کہے کہ شراب سے مصلےٰ رنگ لے تو رنگ لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ بے خبر نہیں اس میں کوئی راز ہے۔ انہی سے بعض اٹھتے بیٹھتے یا بہاؤ الدین مشکل کشا کا ورد کرتے ہیں اور اپنے آپ کو خواجہ بہاؤ الدین﷫ کے محبوں سے سمجھتے ہیں۔ کوئی یا نظام الدین الأولیاء زری زر بخش کا ورد کرتے ہیں یعنی اے نظام الدین اولیاء زری سونا بخش دے۔ بعض نے ہر ضرورت کے لئے یا شیخ عبد القادرجیلانی شیئا للہ کا وظیفہ گھڑ لیا ہے۔ خبردار یہ تمام افتراء اور بہتان ہے بزرگانِ طریقت سے یہ بالکل ثابت نہیں۔ کسی ثقہ نے ان سے اس کی روایت نہیں کی بلکہ معتبر کتابوں میں جوکچھ ان کے احوال درج ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے مریدوں کوغیراللہ کی طرف نظر ڈالنے سے منع کرتے تھے۔ شیخ الشیوخ ابن عربی عوارف المعارف میں لکھتے ہیں کہ:
مرید راست باز اورمخلص بندہ نہیں بنتا۔ جب تک شریعت کی پوری پابندی نہ کرے اور اپنی نظر مخلوق سے نہ ہٹائے۔
ابتدائی مراحل طے کرنے والوں پر جو گمراہی کی آفت آتی ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کی نظر مخلوق کی طرف ہوتی ہے۔ اوررسول اللہﷺ سے ہمیں حدیث پہنچی ہے کہ بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک اس کی نظر میں تمام لوگ میگنیوں کی طرح نہ معلوم ہوں اوراپنے نفس کو اس سے بھی چھوٹا نہ دیکھے۔
مولاناجامی﷫ نے نفحات الانفس میں ــــــــــــــــــــــ خواجہ بہاؤ الدین﷫ سے نقل کیا ہے کہ خواجہ بہاؤ الدین نقشبند﷫ فرماتے ہیں:
خدا کا مجاوربننا بندوں کے مجاوربننے سے زیادہ لائق ہے۔ یعنی مسجدوں میں بیٹھنا چاہیے نہ قبروں میں۔ تو قبروں کی پرستش کب تک کرے گا خدا کے مردوں جیسے کام کر یعنی شریعت پر چل۔
شاہ عبد القادر جیلانی﷫ جومشائخ کے سردار اوراولیاء اللہ کے سرکردہ ہیں فتوح الغیب میں فرماتےہیں:
جو دنیا اور آخرت میں سلامتی چاہتا ہے وہ صبر ورضا بالقضاء کو اپنا شیوہ بنائے اورمخلوق کے پاس اپنی مصیبت کی شکایت اور اپنی ضرورتوں کا پیش کرنا ترک کردے۔ اور خدا کی طرف سے کشادگی کا انتظار کرے کیونکہ خداغیر سےبہتر ہے۔
آج کل عجیب بات یہ ہوگئی ہے کہ پیر پرست قرآن و حدیث کے مقابلہ میں عقلی ڈھکوسلوں سے کام لیتے ہیں۔ کہتے ہیں اولیاء اللہ کے ارواح اگرچہ مخلوق ہیں لیکن بوجہ قرب الہی کے ان کو پکارنا اور ان سے حاجت روائی کی درخواست کرنا کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ اولیاء اللہ کو خدا کی طرف سے یہ قدرت ہے کہ کماں سے تیر نکلا ہوا لوٹا دیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے اگر خدا تجھے دکھ پہنچائے تو اس کے سوا کوئی کھولنے والانہیں۔ اگر خیر کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اور رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ اگر ساری دنیا تجھے نفع پہنچانے میں کوشش کرے جو نفع خدا نے تیرے لئے نہیں لکھا تو وہ اس پر قادر نہیں۔ اگر ساری دنیا تجھے دکھ پہنچانا چاہے جو خدا نے تیرے لئے نہیں لکھا تو اس پر بھی ان کو قدرت نہیں۔ یہ حدیث ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں ابن عباس کو رسول اللہﷺ نے (توحید کا سبق پڑھاتے ہوئے) فرمایا اے لڑکے! خدا کو یاد رکھ خدا تیری حفاظت کرے گا۔ اللہ کو یاد کر اللہ کو سامنے پائے گا۔ جب سوال کرے اللہ سے سوال کر ، جب مدد چاہے اللہ سےچاہ ، جو کچھ ہونا تھا۔ اس کے ساتھ قلم خشک ہوگیا یہ حدیث پوری کتب حدیث میں اور فتوح الغیب میں موجود ہے۔ شاہ عبدالقادر جیلانی﷫ اس حدیث کو ذکر کر لکھتے ہیں:
ہر مومن کو چاہیے کہ اس حدیث کو اپنے دل کا آئینہ اور اپنے بدن کے اندر اور باہر کا کپڑا بنا لے۔ اور بات چیت میں اس کا خیال رکھے۔ پس اپنے تمام حرکات و سکنات میں اس پر عمل کرے تاکہ دنیا اور آخرت میں سلامت رہے۔ اور دونوں جہاں میں خدا کی رحمت سے عزت پائے۔ جو شخص لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ وہ خدا سے جاہل ہے اس کا ایمان۔ اس کی معرفت اس کا ایمان کمزور ہے اور حوصلہ کم ہے۔ اس حدیث اور شاہ عبد القادر جیلانی﷫ کے اس کلام سے صاف معلوم ہوا کہ پیر پرستوں قبر پرستوں کا رشتہ نہ شریعت سے ہے نہ طریقت سے ہے۔
اگر یہ لوگ ملاحدہ کی طرح کہیں کہ جس مقام میں ہم ہیں حقیقت ہے۔ جو شریعت اورطریقت سے الگ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ شاہ عبد القادر جیلانی﷫ فتوح الغیب میں لکھتے ہیں: جس حقیقت کے لئے شریعت سے گواہی نہ ہو وہ کفر اورالحاد ہے۔
شیخ عبد الحق دہلوی مرحوم اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
حقیقت شریعت سے الگ نہیں بلکہ حقیقت اصل میں شریعت ہے۔ ایمان والے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اوراس کی تہ کو پہنچتے ہیں۔ اگر کسی کوشریعت کے خلاف کشف ہوتو جھوٹ ہے اور باطل ہے۔ اوراس کا اعتقاد کرنے والا کافر ہے۔ ابوسلیمان دارانی﷫ فرماتے ہیں:
بہت دفعہ وجدانی نکتہ مچھر کھلتا ہے اوربہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر میں اس کو دوگواہوں عادل کی گواہی کے بغیر قبول نہیں کرتا۔ ایک کتاب اللہ اور دوسرا سنت رسول اللہ ۔
اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ مراقبہ اور توحید کا مرتبہ شرعی حدود کی حفاظت کے ساتھ صدیقوں اورعارفوں کا مقام ہے جواہل تحقیق ہیں۔ بعض لوگ اس مقام میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ بعض اپنے آپ کو دائرہ اسلام سے باہر کردیتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت الگ شے نہیں بلکہ دین ایک ہے اور یہ اس کی شاخیں اور مراتب اوردرجات ہیں۔ اللہ حق کہتا ہے اور سیدھا راستہ بتلاتا ہے۔ۤ
ابو سعید حراز﷫ کہتے ہیں جو باطل ظاہر کے خلاف ہو وہ باطل ہے۔ اور اسی کے موافق سیر المشائخ میں واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ خواجہ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی﷫ اپنے معمول کے موافق ملتان کی ایک مسجد میں صبح کی نماز کے لئے گئے۔ امام ایک رکعت پڑھا چکا تھا وہ دوسری رکعت میں شامل ہوئے۔ جب امام التحیات بیٹھا تو وہ سلام سے پہلے ہی اٹھ کر دوسری رکعت ادا کرنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو امام نے کہا اے شیخ امام کے سلام پھیرنےسے پہلے اٹھنا جائز نہیں شاید امام کے ذمہ سجدۂ سہو ہو۔ جس میں مقتدی کی شرکت بھی ضروری ہے اس لئے پہلے نہ اٹھنا چاہیے۔ شیخ نے کہا اگر نورِ باطن سے معلوم ہوجائے کہ امام کے ذمہ اس نماز میں کوئی سجدۂ سہو نہیں تواس وقت پہلے اٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام نے کہا اے شیخ جو نور خلاف شرع ہو وہ اندھیرا ہے نور نہیں۔
شیخ ابوعبد اللہ حارث بن اسدی محاسبی﷫ جو علماء مشائخ سے ہیں اورمتقدمین میں اہل طریقت سے ہیں فرماتے ہیں:
جس کا باطن راقبہ اور اخلاص سے صحیح ہوگیا اس کے ظاہر کو اللہ تعالیٰ ریاضت اوراتباعِ سنت کے ساتھ خوبصورت کردیتا ہے۔
ابو حفص کبیر حداد﷫ جو اہل طریقت کے بڑوں سے ہیں فرماتے ہیں:
جو شخص اپنے اقوال ، افعال اوراحوال کو دو ترازؤوں کتاب وسنت کےساتھ نہ تولے اوراپنے خیالات پر غلط ہونے کی تہمت نہ لگائے تو اس شخص کا شمار مردوں کے دفتر میں نہ کرو۔
شیخ ابو یزید بسطامی﷫ جو مشائخ میں سلطان العارفین کے لقب سے پکارے جاتے ہیں فرماتے ہیں:
اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ قسم قسم کی کرامات دیا گیا ہے یہاں تک کہ ہوا میں بیٹھتا ہے۔ پانی پر چلتا ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہ کرو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ امر نہی کی پابندی اور حدود کی حفاظت اور احکامِ شرعیہ کی ادائیگی میں کیسا ہے۔
سید الطائفہ جنید بغدادی﷫ جو تمام اہل طریقت کے پیشوا ہیں فرماتے ہیں:
مخلوق کی سانس کی گنتی قدر خدا کی طرف راستے ہیں اور سب بند ہیں مگر جو رسول کے قدم بقدم چلا اس کا رستہ خدا تک پہنچتاہے۔
ان بزرگوں کے کلام کا خلاصہ یہ ہے۔ کہ سنت رسول کی پیروی واجب ہے اور امر نہی شرعی کی پابندی لازم ہے اور مخالفِ شرع کے ہاتھ پر خرقِ عادات ظاہر ہونے سے دھوکا نہ کھانا چاہیے۔ کیونکہ قرآن میں ہے کہ ظاہر باطن ہر قسم کے گناہ چھوڑ دو۔ بلکہ بیہقی شعب الایمان میں حدیث لائے ہیں کہ جو بدعتی کی عزت کرے اس نے دین اسلام کے گرانے پر امداد کی۔ بزرگأنِ دین اس میں بہت احتیاط کرتے تھے۔
کہتے ہیں حسین بن منصور حلاج بڑا عابد تھا۔ ہر رات ہزار رکعت نفل پڑھتا۔ جب اس کی زبان سے أنا الحق (میں خدا ہوں) کا کلمہ نکلا تو سید الطائفہ جنید بغدادی﷫ نے اور دوسرے لوگوں نے اس کے قتل کا فتویٰ دے دیا اور سولی پر کھینچ دیا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی﷫ أخبارالأخیار میں لکھتے ہیں کہ:
خواجہ نظام الدین اولیاء سے لوگوں نے پوچھا کہ حسین بن منصور حلاج کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا: مردود ہے۔ جنید نے اس کو مردود لکھا۔ جنید اپنے زمانے کا پیشوا تھا۔ اس کا مردود کہنا سب کا مردود کہنا ہے۔
أخبارالأخیار میں شاہ عبد القاد ر جیلانی﷫ کے ذکر میں لکھا ہے کہ:
کہ انہوں نے کہا کہ منصور کسی نے نہ پایا۔ کہ اس کی دستگیری کرتا اور جو اس کوغلطی لگی تھی اس سے اس کو روکتا۔ میں اس زمانے میں ہوتا تو اس کی دستگیری کرتا۔ تاکہ وہ اس حد تک نہ پہنچتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت کے مدعی جس بات کو حق سمجھتے ہیں اور اس کو عین معرفت توحید سمجھتے ہیں۔ یہ ان کے پیروں کے نزدیک گمراہی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ مدعی جیسے سنت نبوی کے خلاف کرتے ہیں۔ ایسے بزرگوں اور اولیاء کے بھی مخالف ہیں اور ان کا اپنے بزرگوں کی نسبت محبت کا دعویٰ کرنا صرف زبانی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ منافقوں کی بابت فرماتا ہے۔ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔
شاہ ولی اللہ صاحب﷫ نے جو کچھ لکھا کافی ہے۔ اس سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ خدا نے اپنے بندوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا کہ جس طرح کوئی چاہے اپنے طور پر ریاضت۔ محنت کر کے خدا سے جاملے۔ بلکہ خدا نے اپنی طرف پہنچنے کا رستہ خود بتلایا ہے اور رسولوں کی معرفت اس کا بیان اپنے ذمہ لیا ہے۔ جو شخص اس کے رستے پر چلے وہ خدا کو مل سکتا ہے جواس کے خلاف کرے وہ دنیا آخرت دونوں جہانوں میں گمراہ ہے۔ اگر دنیا میں اس پر کوئی حد جاری ہوتی ہو تو جاری کی جائے گی۔ آخرت میں اگر جرم قابل معافی نہ ہوا تو برابر سزا بھگتےگا۔ چھوٹے بڑے کی اس میں کوئی تمیز نہیں۔ خواہ کتنا بڑا ہو اس رستے سے بہکنے کے بعد اس کی بڑائی چھٹائی سے بدل جائے گی۔
تفسیر خازن میں ہے موسیٰ علیہ السلام نےوعظ میں کہا:
يا بنی إسرائيل من سرق قطعنا يدہ ومن افتری جلدناه ثمانين ومن زنٰی وليست له امرأۃ رجمناہ إلی أن يموت فقال قارون وإن کنت أنت قال وإن کنت أنا ( تفسير خازن ، جلد 3،442 )
اے بنی اسرائیل جو شخص چوری کرے ہم اس کا ہاتھ کاٹیں گے۔ جو کسی پر زنا کی تہمت لگائے اس کو اَسّی درے ماریں گے ، جو زنا کرے اور اس کی بیوی نہ ہواس کو سو درے ماریں گے۔ جو زنا کرے اور اس کی بیوی ہو اس کو پتھروں سے ماریں گے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔ قارون نے کہا اگرچہ آپ ہوں فرمایا اگر چہ میں ہوؤں ۔
خیال فرمائیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام جیسے اولو العزم نبی بھی مخالفت کی صورت میں نہیں بچ سکتے تو باقی لوگ کس گنتی میں ہیں۔ اسی طرح بدر کے موقعہ پر فدیہ لے کے چھوڑنے پر اللہ نے فرمایا:
’’لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ‘‘(سورۃ الأنفال:68)
’’اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی‘‘
تفسیر خازن اورمدارک میں اس کی تفسیر میں لکھا ہے:
((قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم لو نزل عذاب من السماء نجا منه غير عمر وسعد بن معاذ)) (تفسير خازن ومدارک جلد 3 ص نمبر 310 )
رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر آسمان سے عذاب اترتا تو عمر اور معاذ کے سوا کوئی نجات نہ پاتا۔
چونکہ حضرت عمر اورمعاذ اور عبد اللہ بن رواحہ کی رائے فدیہ لینے کی نہ تھی۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر عذاب آتا تو عمراور معاذ کے سوا کوئی نہ بچتا۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر جیسے ہی نہ بچتے۔
حاشیہ
(حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تابع تھے اور معاذ رضی اللہ عنہ چونکہ دوسری قوم سے تھے یعنی انصاری تھے اس لیے ان کی رائے مستقل سمجھی گئی ۔)
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوتے ۔
بتلائے اس امت میں حضرت ابوبکر سے بڑھ کے کون ہے جب ان کی یہ حالت ہے تو دوسرے پیر فقیر شریعت سے کس طرح سبکدوش ہو سکتے ہیں ؟ خاص کر جب رسول اللہﷺ بھی شامل ہوں تو کتنے خوف کا مقام ہے۔ تفسیر خازن میں اسی محل میں ایک صفحہ پہلے مسلم کی حدیث ذکر کی ہے کہ دوسرے دن رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر رو رہے تھے۔ حضرت عمر نےکہا یارسول اللہ ! آپ کیوں رورہے ہیں ؟ فرمایا تیرے ساتھیوں پر روتا ہوں فدیہ لینے کی وجہ سے جو ان پر عذاب آنا تھا وہ مجھے اس درخت کے قریب دیکھایا گیا۔
فتاویٰ اہلحدیث
کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص44
بشکریا محدث فتویٰ
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
سبحان اللہ !

حافظ عبداللہ روپڑی کی تحریر ، پڑھ کر ، ایمان کی تازگی محسوس ہوتی ہے ۔

قریشی کو چاہیے کہ ، اپنی تحریر کا موازنہ ، حافظ روپڑی کی تحریر سے کرے ، اور اپنی اصلاح کرے۔

میں نے جو باتیں ، شریعت اور طر یقیت ، پر کہیں ہیں ، حافظ روپڑی کی تحریر انکی تائید کرتی ہے ۔

ہمارا موقف یہی ہے کہ ، طریقیت ، حقیقت ، تصوف جو بھی نام آپ دیں ، اگر وہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے ، تو درست ہے ۔ ورنہ اسکا گمراہی ہونا ، واضح ہے ۔

قریشی نے اپنی تحریر میں ، شریعت ، کو حقیقت سے الگ بتایا ہے ، اور شریعت کو انبیاء کے ساتھ خاص کیا ہے ، جبکہ طریقیت کو اولیاء کے ساتھ ۔ یہی فتنہ کی بنیاد ہے۔
اور وہ اشعار استعمال کیے ہیں، جنکے الفاظ صریح کفر پر مبنی ہیں۔
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
[سبحان اللہ !

حافظ عبداللہ روپڑی کی تحریر ، پڑھ کر ، ایمان کی تازگی محسوس ہوتی ہے ۔
یہ جو تازگی محسوس ہوئی اسکی ڈیفینیشن بیان کریں۔ ( از راہ معلومات)

قریشی کو چاہیے کہ ، اپنی تحریر کا موازنہ ، حافظ روپڑی کی تحریر سے کرے ، اور اپنی اصلاح کرے۔
بھائی آپکو سمجھنے میں غلطی لگی ہے، الحمد للہ یہ خاکسار قران و حدیث تعبیر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ بزرگان دین کے اقوال کو سامنے رکھ کر کرتا ہے۔اگر میں حوالہ روپڑیؒ کا دے سکتا ہوں تو میری تحریر انکے مخالف کیونکر ہو گئی؟ دوسرا وہ تحریر میری ذاتی نہیں بلکہ بطور حوالہ تھی،نمبر تین بات ابھی جاری تھی کی عادت بد سے مجبور لوگوں نے فتوی گاڑھنے شروع کر دیے۔

میں نے جو باتیں ، شریعت اور طر یقیت ، پر کہیں ہیں ، حافظ روپڑی کی تحریر انکی تائید کرتی ہے ۔
ذرا اپنی باتوں پر غور کرو
قریشی سے سوال ہے کہ ، شریعت کو چھوڑ کر ، طر یقیت، حقیقت وغیرہ جوہے ، وہ دین میں شامل ہے کہ نہیں؟؟

٣٦۔ اگر دین میں شامل ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل دین پہنچایا یا نہیں؟؟

٣٧۔اگر کامل دین پہنچایا ہے تو یہ ، طریقیت اور حقیقت کونسی آیت اور حدیث میں ہے ؟؟ حوالہ دیں ؟؟

اگر کہیں کہ نہیں پہنچایا ، تو آپکی رسالت کے خلاف ہے ۔

٣٨۔ اگر کہیں کہ کامل دین تو پہنچایا ہے ، مگر یہ طریقیت اور حقیقت وغیرہ نہیں پہنچائ، تو آپ نے خود اقرار کرلیا کہ یہ چیزیں، دین ،نہیں ہیں۔

٣٩۔ اگر کہیں کہ دین کامل نہیں تھا ، ولیوں نے بتایا ، تو باطل ہے ۔ کیونکہ قرآن میں دین کو، کامل کہا گیا ہے ۔
آپ تو مطلق طریقت کے خلاف تھے،چلو کچھ تو فائدہ آپکو ملا۔
ہ
مارا موقف یہی ہے کہ ، طریقیت ، حقیقت ، تصوف جو بھی نام آپ دیں ، اگر وہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے ، تو درست ہے ۔ ورنہ اسکا گمراہی ہونا ، واضح ہے ۔
میرے بھائی تصوف عین دین ہے اسکا ایک بڑا ثبوت کہ اسکو محدثین اور فقہاء نے اختیار کیا ہے،یعنی اہل علم لوگوں نے جن کے بارے قران کہتا کہ نہیں جانتے تو ان سے پوچھو۔چلو آپ کے ذہین میں جو قران وحدیث والا کون سا تصوف ہے اور اسکے مدعی کون ہیں ذرا نکے نام اور کتابوں کے حوالے دے تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو جائے۔
قریشی نے اپنی تحریر میں ، شریعت ، کو حقیقت سے الگ بتایا ہے ، اور شریعت کو انبیاء کے ساتھ خاص کیا ہے ، جبکہ طریقیت کو اولیاء کے ساتھ ۔ یہی فتنہ کی بنیاد ہے۔
اور وہ اشعار استعمال کیے ہیں، جنکے الفاظ صریح کفر پر مبنی ہیں۔
[/QUOTE] یار خدا کا خوف کا کرو استغفر اللہ۔ میرے دوست میں اس عقیدے اے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں
یار گنہگار ضرور ہیں مگر اتنے نہیں جتنا آپ بدنام کر رہے ہیں۔مرا مراسلہ علمائے اہلحدیث اور تصوف پڑھ کر رائے دیجئے
میرے بھائی میں غلط ہوں آپکی نظر میں ۔آپ بات کو سمجھنے سے انکاری اور ضدی ہیں۔اسلئے میں نے اس پہلے بھی اکثر معملات پر علماء اہلحدیث کے حوالے دیتا ہوں۔آپ نے بغیر سوچے سمجھے طریقت کیخلاف لکھ دیا ،چلو روپڑیؒ کی تحریر کے بعد امید ہے کہ اب تصوف اسلامی کی مخالفت نہیں کرو گے،اور کوشش کرو گے کہ جو تصوف علماء اہلحدیث نے اختیار کیا اسکو اپناؤ گے،آج بھی خال خال حضرات اہلحدیث میں صوفیاء ہیں آپ کسی کامل سے تصوف کی تربیت لے پھر انشاء اللہ وجود اور شھود کو بھی سمجھ جائے گے،یہ وہ دریا جس میں اترے بغیر پتہ نہیں چلتا ،آپ تحقیق سے کام لے،اگر آپ نے روپڑیؒ کو پہلے پڑھا ہوتا تو کبھی اہل طریقت کو مورد الزام نہ ٹھہراتے،
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
اگر میں حوالہ روپڑیؒ کا دے سکتا ہوں تو میری تحریر انکے مخالف کیونکر ہو گئی؟
تضاد ؟؟؟

کہتے ہیں حسین بن منصور حلاج بڑا عابد تھا۔ ہر رات ہزار رکعت نفل پڑھتا۔ جب اس کی زبان سے أنا الحق (میں خدا ہوں) کا کلمہ نکلا تو سید الطائفہ جنید بغدادی﷫ نے اور دوسرے لوگوں نے اس کے قتل کا فتویٰ دے دیا اور سولی پر کھینچ دیا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی﷫ أخبارالأخیار میں لکھتے ہیں کہ:
خواجہ نظام الدین اولیاء سے لوگوں نے پوچھا کہ حسین بن منصور حلاج کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا: مردود ہے۔ جنید نے اس کو مردود لکھا۔ جنید اپنے زمانے کا پیشوا تھا۔ اس کا مردود کہنا سب کا مردود کہنا ہے۔
أخبارالأخیار میں شاہ عبد القاد ر جیلانی﷫ کے ذکر میں لکھا ہے کہ:
کہ انہوں نے کہا کہ منصور کسی نے نہ پایا۔ کہ اس کی دستگیری کرتا اور جو اس کوغلطی لگی تھی اس سے اس کو روکتا۔ میں اس زمانے میں ہوتا تو اس کی دستگیری کرتا۔ تاکہ وہ اس حد تک نہ پہنچتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت کے مدعی جس بات کو حق سمجھتے ہیں اور اس کو عین معرفت توحید سمجھتے ہیں۔ یہ ان کے پیروں کے نزدیک گمراہی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ مدعی جیسے سنت نبوی کے خلاف کرتے ہیں۔ ایسے بزرگوں اور اولیاء کے بھی مخالف ہیں اور ان کا اپنے بزرگوں کی نسبت محبت کا دعویٰ کرنا صرف زبانی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ منافقوں کی بابت فرماتا ہے۔ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاویٰ اہلحدیث
کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص44
بشکریا محدث فتویٰ
قطرہ سمندر سے ملا تو وہ سمندر کہلایا ۔ کسی عاشق صادق پر تجلیات صفات باری یوں جلوہ فگن ہوئیں کہ وہ خود توفنا ہو گیا مگر اسی فنا میں اسے اپنی بقا بصورت وجود باری محسوس ہوئی۔ ایسے میں کوئی تو نرمی سے بولا: بلہیا کی جاناں میں کون ؟اور کس نے نعرہ "انا الحق" بلند کر کے سولی پہ چڑھنا قبول کیا توکس نے "اعظم وشانی"کا راگ الاپنا شروع کر دیا ۔ لیکن یہ سزائیں ان کے نشہ عشق کو دوآتشہ ہی کرتی گئیں کیونکہ"یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے"قصہ مختصرآپ ایسے عاشقان صادق کو پاگل کہیں ،مجذوب کہیں عقل و خرد سے بیگانہ قراردیں،یا مجنون کے خطاب سے نوازیں،ایسے الوالعزم موجود رہے ہیں اور ہیں جو "یزداں بہ کمند آوراے ہمت مردانہ "سے کم راضی نہیں ہوتے ۔ انہیں سولی پہ لٹکایا جائے ،ان کے سر قلم کیا جائے، ان کو جلاکر ان کی راکھ ہوامیں اڑا دی جائے ، انہیں پرواہ نہیں ۔انہیں یہی حسرت رہتی ہے کہ کاش ان کی راکھ ہی کوچہ یار تک جا سکتی
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
میرے بھائی ہمارے ہمارے معاشرہ اخلاقی لحاظ سے اس حد تک بگڑ چکا ہے،کہ الزام تراشی برا بھلا کہنا جیسے کوئی گناہ ہی نہیں ہے،اس طرح بغیر کسی تھقیق کے الزام لگا دیا جاتا ہے ،مذہبی لوگ تو اس حد تک خائن ہیں کہ اللہ کی پناہ۔جس طرح مکھی پورے جسم پر زخم کو ڈھونڈ کر بیٹھتی ہے اسی طرح یہ لوگ مقابلہ بازی میں اس حد آگے جا چکے ہیں کہ ایک دوسرے کو بلا دھڑک کافر،مشرک،بدعتی وغیرہ کہتے ہیں حتی کہ گستاحِ رسول کہنا تو ان کے نزدیک معمولی سی بات ہے
قطرہ سمندر سے ملا تو وہ سمندر کہلایا ۔
میرے دوست ایک بنیادی بات یاد رکھنا کی بندہ کتنا ہی اللہ کے قرب میں چلا جائے آخر بندہ ہی ہے اس میں کبھی خدائی صفات پیدا نہیں ہو سکتی اور رب کتنے ہی قریب آ جائے رب رب ہے وہ کبھی بندہ نہیں ہو سکتا،
کسی عاشق صادق پر تجلیات صفات باری یوں جلوہ فگن ہوئیں کہ وہ خود توفنا ہو گیا مگر اسی فنا میں اسے اپنی بقا بصورت وجود باری محسوس ہوئی۔ ایسے میں کوئی تو نرمی سے بولا: بلہیا کی جاناں میں کون ؟اور کس نے نعرہ "انا الحق" بلند کر کے سولی پہ چڑھنا قبول کیا توکس نے "اعظم وشانی"کا راگ الاپنا شروع کر دیا
اصل میں اس بات کا تعلق مشہور مراقبہ فناء بقاء سے ہے ،کہ مراقبہ فنا فی اللہ اور بقا باللہ کی جو کفیات ہیں انکو مختلف لوگوں نے مختلف انداز سے بیان کیا جو کسی کی سمجھ میں آیا پھر یہ معاملہ یار لوگوں کے ہتھ چڑھ گیا جہنوں اسکو بگاڑ کرتناسخ کا عقیدہ گڑھ لیا،اس مقام پربہت سے لوگ مزید آگے ترقی نہ ہونے کہ وجہ سے مجذوب ہوگئے ،اور اس طرح کی باتیں کی اعظم وشانی وغیرہ کہاں مجذوب ہونا نقص ہو سکتا ہے کمال نہیں،لیکن ہوش ہوش سے بیگانہ ہو کر کوئی اس طرح کی بات کہہ سکتا ہے مگرصاحب خرد سے اسکی طرح کی باتیں نہیں کہتے۔اگر کوئی اس طرح کی بات کریں تو فیصلہ شریعت پر ہو گا جیسا کی ان حضراتؒ کیساتھ ہوا۔
لیکن یہ سزائیں ان کے نشہ عشق کو دوآتشہ ہی کرتی گئیں کیونکہ"یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے"قصہ مختصرآپ ایسے عاشقان صادق کو پاگل کہیں ،مجذوب کہیں عقل و خرد سے بیگانہ قراردیں،یا مجنون کے خطاب سے نوازیں،ایسے الوالعزم موجود رہے ہیں اور ہیں جو "یزداں بہ کمند آوراے ہمت مردانہ "سے کم راضی نہیں ہوتے ۔ انہیں سولی پہ لٹکایا جائے ،ان کے سر قلم کیا جائے، ان کو جلاکر ان کی راکھ ہوامیں اڑا دی جائے ، انہیں پرواہ نہیں ۔انہیں یہی حسرت رہتی ہے کہ کاش ان کی راکھ ہی کوچہ یار تک جا سکتی
یہاں پر کوئی عقیدہ نہیں بیان کیا گیا بلکہ بتایا گیا کس طرح وہ کیف و مستی مجذوبانہ نعرے لگاتے ہیں
ہمارے لوگوں تنقید کا بڑا شوق ہے ، ااور یہ آسان کام ہےمگر تحقیق کر کے کسی بات سمجھنا اور علم کے عمیق سمندر گوہر نایاب نکالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں،میں منکرین تصوف سے کہتا ہوں یار عمر لگا کر پڑھتے سیکھتے رہتے ہو جہاں دس پندرہ سال کھپائے وہاں حصول سلوک پر بھی صرف دس پندرہ ماہ لگا کر دیکھ لو،اور نہ سہی کم از کم تنقید تو ڈنگ سے کرنا آ جائے گی ۔ورنہ تصوف پر جو تنقید ہے اسکو پڑھ کر ہنسی آتی ہے کیلانی "شریعت وطریقت" و علامہ شہید کی "تصوف" اسی طرح کی کتابیں ہیں ،جہاں حق اور باطل کو مکس کیا گیا ہے ۔
 
Top