• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرعی حیثیت

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مسلمانوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرعی حیثیت

جمع و ترتیب شیخ ابویاسرالسندی حفظہ اللہ



فہرست
شمار مضامین
1 مسلمانوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرعی حیثیت
2 ٹیکس کی تعریف
3 ٹیکس مسلمانوں پر نہیں صرف کافروں پر ہے
4 ٹیکس لینے والا جنت میں نہیں جائے گا
5 ٹیکس وصول کرنے والاحوضِ کوثر کے جام سے محروم
6 ٹیکس کا گناہ کسی صورت زنا سے کم نہیں
7 ٹیکس لینے والے کی دعاء قبول نہیں
8 جس بازار میں مسلمانوں سے ٹیکس لیا جاتا ہوتو وہ مسلمانوں کا بازار نہیں
9 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ٹیکس لینے سے برأت کا اعلان
10 نبی کرم ﷺا ور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ٹیکس لینے والوں پر لعنت
11 اللہ کی ایک نعمت …ٹیکس فری معاشرہ
12 ٹیکس لینے والے کے قتل کا حکم
13 حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کا دورخلافت اور ٹیکس
14 محدثین اور فقہاء کا ٹیکس اور اس کے وصول کرنے والے کے بارے میں فتاویٰ
15 اہل علم سے سوال
16 ٹیکس لینے والے سود خور سے بڑ ے مجرم ہیں
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26

مسلمانوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرعی حیثیت

’’اچھے شہری کے اوصاف میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ٹیکس پورا پورا ادا کرتا ہے…!کیا آپ پورا پوراٹیکس ادا کرتے ہیں…؟کیا آپ ٹیکس چوری نہیں کرتے…؟ٹیکس چوری کرنا ایک خیانت ہے…!‘‘

یہ وہ جملے ہیں جو کہ معاشرے میں عام لوگوں کے علاوہ اکثر اہل علم اور دانشور حضرات بھی اپنی گفتگوؤں،بیانات اور دروس میں بلا جھجک استعمال کرتے ہیں اور عوام الناس کی دیانت داری کو بھی ٹیکس کی ادائیگی سے ہی جانچتے ہیں۔اسی طرح بعض حضرات یہ کہتے ہیں عہد نبویﷺمیں چونکہ ملی و قومی ضروریات محدود تھیں اور آج کے جدیدد دور میں قومی و حکومتی اخراجات بڑھ گئے ہیں لہذا ایک اسلامی حکومت عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق زکوۃ وصول کرنے کے علاوہ نئے نئے ٹیکس بھی لگاسکتی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت اگر اسلامی ہو تو اس کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ لوگوں کے اموال ظاہرہ میں سے مختلف اشیاء مثلاًاموال تجارت،زراعت،جانوروں اورمعدنیات وغیرہ پر شریعت کی مقررکردہ شرح کے مطابق وصول کرے اور یہ زکوۃ بیت المال میں جمع کی جائے اور اس کو عوام الناس کی فلاح و بہبود پر خر چ کیا جائے ،باقی اموال باطنہ میں زکوۃ کا معاملہ عوام الناس پر چھوڑدیا گیا کہ وہ خود اس کی زکوۃ ادا کریں۔

یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ ٹیکس آمدنی پر وصول کئے جاتے ہیں جس میں اس بات کی کوئی تمیزنہیں رکھی جاتی کہ ٹیکس اداکرنے والے کی آمدنی اس کی ضروریات کو پورا کرپارہی ہیں یا نہیں یا کہیں وہ خود مستحق زکوۃ تو نہیں۔لہذا موجودہ صورتحال میں یکطرفہ تماشہ یہ ہے کہ مختلف حکومتیں ملکی وقومی ضروریات کو پورا کرنے کے نام پر(زکوۃکی وصولی کے علاوہ)مختلف ٹیکس مختلف طریقوں کے ذریعے عوام الناس سے وصول کرنے پر مصر ہیں جن میں بلاواسطہ یا براہ راست(Direct)ٹیکس بھی ہیں مثلاًانکم ٹیکس ،پراپرٹی ٹیکس اور دولت ٹیکس وغیرہ ،اور بالواسطہ(Indirect)ٹیکس بھی شامل ہیں مثلاًسیلز ٹیکس ،ایکسائز ٹیکس جوکہ وصول تو کئے جاتے ہیں صنعت کار اور تاجروں سے لیکن ظاہر ہے ان کا اصل بوجھ عام آدمی پرہی پڑتا ہے اور فی زمانہ یہ دوسرے قسم کے ٹیکس ہی حکومت کی سب سے بڑی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔لہٰذا حقیقت حال یہ ہے کہ عوام الناس کی فلاح و بہبود کے نام پر جو ٹیکس لئے جاتے ہیں انہیں ٹیکسوں کی وجہ سے عوام الناس کا عرصہ ٔ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے اور معاشرہ معاشی طور پر تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہاہے ۔
زندگی کے انفرادی واجتماعی معاملات میں کسی بھی قسم کوئی مسئلہ درپیش آئے تو اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے فقہائے امت کے ہاں جو اصول متفقہ طورمعین ہے ،وہ یہ کہ ہر مسئلہ میں یہ دیکھا جائے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سلف و صالحین نے اس کا ’’شرعی حکم‘‘کیا بیان کیا ہے؟لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ’’ٹیکس‘‘کے بارے میں بھی یہ واضح کیا جائے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ٹیکس کی تعریف

ٹیکس کی تعریف

عربی زبان میں ٹیکس کو ’’مکس ‘‘ کہا جاتا ہے اور ٹیکس وصول کرنے والے کو ماکس یا عشار کہاجاتا ہے ۔امام نووی رحمہ اللہ ٹیکس کی تعریف میں فرماتے ہیں:
((قَالَ أَھْل اللُّغَة:الْمُمَاکَسَة:ھِیَ الْمُکَالَمَة فِی النَّقْص مِنْ الثَّمَن،وَأَصْلھَا النَّقْص،وَمِنْہُ مَکْس الظَّالِم ،وَھُوَ مَا یَنْتَقِصہُ وَیَأْخُذہُ مِنْ أَمْوَال النَّاس ))
’’اہل لغت نے فرمایا کہ مماکسہ ،یہ بات چیت کرنا ہے مال کم کرنے کے لئے اور اسی سے ظالمانہ ٹیکس مراد جو لوگوں سے ان کا مال کم کرے اور ان سے لے لے‘‘۔(شرح النووی علی صحیح مسلم،ج:۵ص:۴۷۱)

((وَفِی شَرْح السُّنَّة:أَرَادَ بِصَاحِبِ الْمَکْس الَّذِی یَأْخُذ مِنْ التُّجَّار إِذَا مَرُّوا مَکْسًا بِاسْمِ الْعُشْر))
’’ٹیکس لینے والے سے مراد وہ شخص ہے جو چنگی سے گزرنے والے تاجروں سے ’’عشر‘‘کے نام پر ٹیکس وصول کرے‘‘۔(عون المعبود،ج:۶ص:۴۱۲)

صاحب نیل الاوطارفرماتے ہیں:
’’(صَاحِبُ مَکْسٍ )بِفَتْحِ الْمِیمِ وَسُکُونِ الْکَافِ بَعْدَھَا مُھْمَلَةٌ :ھُوَ مَنْ یَتَوَلَّی الضَّرَائِبَ الَّتِی تُؤْخَذُ مِنْ النَّاسِ بِغَیْرِ حَقٍّ۔قَالَ فِی الْقَامُوسِ:مَکَسَ فِی الْبَیْعِ یَمْکِسُ إذَا جَبَی مَالًا وَالْمَکْسُ:النَّقْصُ وَالظُّلْمُ ،وَدَرَاھِمُ کَانَتْ تُؤْخَذُ مِنْ بَائِعِی السِّلَعِ فِی الأ َسْوَاقِ فِی الْجَاھِلِیَّةِ أَوْ دِرْھَمٌ کَانَ یَأْخُذُہُ الْمُصَدِّقُ بَعْدَ فَرَاغِہِ مِنْ الصَّدَقَةِ انْتَہَی
’’ٹیکس (میم کے فتح اور کاف کے سکون کے ساتھ)یہ ہے کہ متولی بنے اس دسویں حصے کا جو لیتا ہے لوگوں سے ناحق۔قاموس میں فرماتے ہیں کہ تجارت میں مکس یہ ہے کہ ٹیکس لگائے ان پر جب مال وصول کرے، اورٹیکس دراصل کمی کرنا اورظلم کرنا ہے، اورٹیکس دراصل وہ دراہم ہیں جو لیئے جاتے تھے بیچنے والے کے سامان سے بازاروںمیں زمانہ ٔجاہلیت میں ،یا وہ درہم ہے جس کو صدقہ لینے والاجو پورا صدقہ لینے سے فارغ ہونے کے بعد وصول کرتا تھا‘‘۔ (نیل الأوطار،ج:۱۱ص۲۵۱)

’’(والعشار)بالتشدید أی المکاس ویقال العاشر والعشور المکوس وھذا وعید شدید یفید أن المکس من أکبر الکبائر وأفجر الفجور ووجہ استثنائھما أن الزانیة سعت فی إفساد الإنسان واختلاط المیاہ والمکاس قد قھر الخلق بأخذ ما لیس علیھم جبرا ‘‘

’’اور’’عشار‘‘تشدید کے ساتھ یعنی مکاس اور اس کو عاشور اور عشور المکوس بھی کہا جاتا ہے،اور یہ شدید وعید فائدہ دیتی ہے کہ(مسلمانوں سے) ٹیکس لینا اکبر الکبائراور بدترین گناہوں میں سے ہے اور ان دونوں (یعنی زانیہ اور عشار)کے استثناء کی وجہ یہ ہے کہ زانیہ انسان کو خراب کرنے اورنسب کے اختلاط کی کوشش کرتی ہے اور مکاس (ٹیکس لینے والا)تحقیق مخلوق پر ان کے مال میں جبراً ظلم کرتا ہے وہ چیز(یعنی ٹیکس) لگاکر جو ان پرعائد نہیں ہے‘‘۔ (فیض القدیر،ج:۲ص۳۸۱)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ٹیکس مسلمانوں پر نہیں صرف کافروں پر ہے

ٹیکس مسلمانوں پر نہیں صرف کافروں پر ہے

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَھُودِ وَالنَّصَارَی وَلَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ عُشُورٌ))
’’دسواں حصہ(مال تجارت کا ٹیکس)صرف یہود ونصاری پرہے مسلمانوں پر نہیں‘‘۔
(سنن ابی داود،ج:۸،ص:۲۶۷رقم:۲۶۴۹۔سنن الترمذی ،ج:۳،ص:۳۰،رقم:۵۷۴۔مسند احمد،ج:۳۲،ص:۵۹،رقم:۱۵۳۳۲۔مصنف ابن ابی شیبہ،ج:۳،ص:۸۷۔السنن الکبریٰ البیہقی،ج:۹،ص:۱۹۹)

((قال رسول اللّٰہﷺ ثم لیس علی المسلمین عشور،انما العشور علی أھل الذمة))
’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا مسلمانوں پر ٹیکس نہیں ہے ،ٹیکس صرف ذمیوں پر ہے‘‘۔(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۳۱)

((عَنْ عَطَاء ٍ یَعْنِی ابْنَ السَّائِبِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ خَالِہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَعْشِرُ قَوْمِی قَالَ إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَھُودِ وَالنَّصَارَی وَلَیْسَ عَلَی أَھْلِ الْإِسْلَامِ عُشُورٌ))
’’بکر بن وائل کے ایک صاحب اپنے ماموں سے نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی قوم سے ٹیکس وصول کرتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹیکس تو یہود ونصاری پر ہوتا ہے مسلمانوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔‘‘(سنن ابی داؤد ،ج:۸،ص:۲۸۸،رقم:۲۶۵۰۔مسند احمد،ج:۳۲،ص:۵۹،رقم:۱۵۳۳۲)

((حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاھِیمَ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ عَنْ عَطَاء ِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَیْرٍ الثَّقَفِیِّ عَنْ جَدِّہِ رَجُلٍ مِنْ بَنِی تَغْلِبَ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِی الْإِسْلَامَ وَعَلَّمَنِی کَیْفَ آخُذُ الصَّدَقَةَ مِنْ قَوْمِی مِمَّنْ أَسْلَمَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ کُلُّ مَا عَلَّمْتَنِی قَدْ حَفِظْتُہُ إِلَّا الصَّدَقَةَ أَفَأُعَشِّرُھُمْ قَالَ لَا إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی النَّصَارَی وَالْیَھُودِ))
’’حضرت حرب بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دادا سے سنا وہ کہتے تھے کہ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا۔پس آپ نے مجھے اسلام کی تعلیم دی اور یہ بھی بتایا کہ میں اپنی قوم کے ان لوگوں سے جو مسلمان ہوجائیں کس حساب سے صدقہ وصول کیا کروں۔(کچھ عرصے بعد دوبارہ)میں لوٹ کر آپﷺکے پاس گیا اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ!آپ نے جوکچھ مجھے سکھایا تھا وہ مجھے یاد ہے ۔بس صدقہ کے متعلق یا د نہ رہا۔کیا میں ان سے (مال تجارت میں سے )دسواں حصہ وصول کروں ؟آپ نے فرمایا نہیں !(مال تجارت میں سے)دسواں حصہ تو صرف یہود ونصاری پر ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد ،ج:۸،ص:۲۸۹،رقم:۲۶۵۱)

((و حَدَّثَنِی عَنْ مَالِک عَنْ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہُ قَالَ کُنْتُ غُلَامًا عَامِلًا مَعَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَلَی سُوقِ الْمَدِینَةِ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَکُنَّا نَأْخُذُ مِنْ النَّبَطِ الْعُشْرَ))
’’سائب بن یزید سے روایت ہے کہ میں عامل تھا عبد اللہ بن عتیبہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے بازار میں ہم لیتے تھے نبط کے کفار سے (اُن کے مال سے)دسواں حصہ‘‘۔(موطا امام مالک ،ج:۲،ص:۳۱۹،رقم الحدیث:۵۴۸)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ٹیکس لینے والا جنت میں نہیں جائے گا

ٹیکس لینے والا جنت میں نہیں جائے گا

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَکْسٍ یَعْنِی الْعَشَّارَ))
’’حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ صاحب مکس (یعنی ٹیکس وصول کرنے والا)جنت میں داخل نہیں ہوگا یعنی دسواں حصہ لینے والا ‘‘۔
(السنن الدارمی،ج:۱ص:۲۸۴رقم الحدیث:۱۶۶۶۔السنن البیھقی الکبریٰ ،ج:۷ص:۱۶رقم الحدیث:۱۲۹۵۴۔سنن ابی داؤد،ج:۳ص:۱۳۲رقم الحدیث:۲۹۳۷۔مسند احمد،ج:۴ص:۱۴۳۔مسند ابی یعلی،ج:۳ص:۲۹۳رقم الحدیث:۱۷۵۶۔المعجم الکبیر،ج:۱۷ص:۳۱۷رقم الحدیث:۸۷۸۔ الترغیب والترھیب،ج:۱ص:۳۱۹رقم الحدیث:۱۱۷۲)

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ صَاحِبَ الْمَکْسِ فِی النَّارِ))
’’صاحب مکس (ٹیکس وصول کرنے والا )جہنم میں ہوگا ‘‘۔(المعجم الکبیر،ج:۵ص:۲۹رقم الحدیث:۴۴۹۳۔مسند احمد،ج:۴ص:۱۰۹۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۸)

((عن عبداللّٰہ بن عمرقال الشرط کلاب الناروقال عبد اللّٰہ ابن عمروصاحب المکس یعنی العشار یلقی فی النار))
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ سپاہی آگ کاکتا ہے اورحضرت عبد اللہ ابن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ٹیکس وصول کرنے والا یعنی (لوگوں کے مال تجارت سے )دسواں حصہ لینے والادوزخ میں ڈالا جائے گا‘‘۔(الورع لابن حنبل،ج:۱ص:۹۳)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ٹیکس وصول کرنے والاحوضِ کوثر کے جام سے محروم

ٹیکس وصول کرنے والاحوضِ کوثر کے جام سے محروم

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
(( مَنْ اعْتَذَرَ إِلَی أَخِیہِ بِمَعْذِرَةٍ فَلَمْ یَقْبَلْھَا کَانَ عَلَیْہِ مِثْلُ خَطِیئَةِ صَاحِبِ مَکْسٍ))
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی سے کسی غلطی پر معافی مانگی مگر اس نے اس کو قبول نہیں کیا تواس پر صاحب مکس (ٹیکس وصول کرنے والے )کے مثل گنا ہ ہوگا‘‘۔ٍ
(سنن ابن ماجة،ج:۲ص۱۲۲۵رقم الحدیث:۳۷۱۸۔المعجم الأوسط،ج:۸ص:۲۸۳رقم الحدیث:۸۶۴۴۔مصباح الزجاجة،ج:۴ص:۱۱۳۔الأحاد والمثانی،ج:۵ص:۱۷۵رقم الحدیث:۲۷۰۹۔المعجم الکبیر،ج:۲ص:۲۷۵ رقم الحدیث:۲۱۵۶)

دوسری احادیث میں یہ بات صراحت سے وارد ہوئی ہے کہ ایساشخص جوکہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے غلطی قبول کرنے اور معافی مانگنے پر بھی معاف نہ کرے وہ روز محشر میرے حوض کوثر پر نہ آئے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ٹیکس کا گناہ کسی صورت زنا سے کم نہیں

ٹیکس کا گناہ کسی صورت زنا سے کم نہیں

اسی طرح احادیث صحیحہ میں قبیلہ غامدیہ کی ایک شادی شدہ عورت کا زناء ہوجانے کے بعد توبہ کرنے کا ایمان افروز واقعہ موجود ہے ۔چناچہ جب اس عورت نے اپنے آپ کو سزاکے لئے رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش کیا تو آپ ﷺنے فرمایا جب بچہ کی پیدائش ہوجائے تو آجانا،جب بچہ پیدا ہوا تو وہ پھر چلی آئی توآپﷺنے پھر یہ کہہ لوٹادیا جب یہ بچہ روٹی کھانے کے قابل ہوجائے تو آجانا چناچہ جب وہ بچہ روٹی کھانے کے قابل ہوا تو پھر وہ دوبارہ اس حال میں لوٹ آئی کہ اس کا بچہ روٹی کھارہا تھا ۔اس کے بعد آپ ﷺنے اس کو سنگسار کرنے کا حکم جاری کیا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم نبوی کی تعمیل کی۔اس دوران حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر اس کے خون کے چھینٹے آگئے جس پران کے منہ سے اس عورت کے بارے میں کچھ نامناسب الفاظ نکال آئے تو آپﷺنے فرمایا:
((یَا خَالِدُ بْنَ الْوَلِیدِ لَا تَسُبَّھَا فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَھَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَہُ فَأَمَرَ بِھَا فَصَلَّی عَلَیْھَا وَدُفِنَتْ))
’’اے خالدابن ولید!اس عورت کو برا بھلا مت کہو،اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ،اگر اس کی توبہ ٹیکس وصول کرنے والے پر ڈالی جائے تو اس کو بھی بخش دیا جائے۔پھر اس کے بارے میں حکم دیا گیاپس اس کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور اس کو دفن کردیا گیا ‘‘۔
(مسند أبی عوانة،ج:۴ص:۱۳۷رقم الحدیث:۶۲۹۶۔سنن الدارمی،ج:۲ص:۲۳۴۔مجمع الزوائد،ج:۶ص:۲۵۲۔سنن البیھقی الکبریٰ،ج:۴ص:۱۸رقم الحدیث:۶۶۲۱۔سنن ابی داود،ج:۴ص:۱۵۲رقم الحدیث:۴۴۴۲۔مسند احمد،ج:۵ص:۳۴۸)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ٹیکس لینے والے کی دعاء قبول نہیں

ٹیکس لینے والے کی دعاء قبول نہیں

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((تفتح أبواب السماء نصف اللیل فینادی مناد،ھل من داع فیستجاب لہ،ھل من سائل فیعطی،ھل من مکروب فیفرج عنہ،فلایبقی مسل یدعو بدعوة الاستجاب اللّٰہ عزوجل الازانیة تسعی بفرجھاأوعشارا))
’’جب نصف رات کو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،پس ایک منادی دینے والاندا ء دیتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کی دعا قبول کی جائے ،ہے کوئی سائل جس کو عطاکیا جائے ،ہے کوئی پریشان حال پس اس کے لئے کشادگی کی جائے ،پس نہیں باقی رہتا کوئی مسلمان دعامانگنے والامگر اللہ تعالیٰ اس کی دعاقبول کرلیتا ہے مگر زانیہ جو کہ اپنی طرف بلائے یا عشار (ٹیکس وصول کرنے والا )‘‘۔(الترغیب والترھیب،ج:۱ص:۳۲۰رقم الحدیث:۱۱۷۳)

((قَالَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ قَالَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ مَرَّ عُثْمَانُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ عَلَی کِلَابِ بْنِ أُمَیَّةَ وَھُوَ جَالِسٌ عَلَی مَجْلِسِ الْعَاشِرِ بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ مَا یُجْلِسُکَ ھَاھُنَا قَالَ اسْتَعْمَلَنِی ھَذَا عَلَی ھَذَا الْمَکَانِ یَعْنِی زِیَادًا فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ أَلَا أُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَلَی فَقَالَ عُثْمَانُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ کَانَ لِدَاوُدَ نَبِیِّ اللَّہِ عَلَیْہِ السَّلَام مِنْ اللَّیْلِ سَاعَةٌ یُوقِظُ فِیھَا أَھْلَہُ فَیَقُولُ یَا آلَ دَاوُدَ قُومُوا فَصَلُّوا فَإِنَّ ھَذِہِ سَاعَةٌ یَسْتَجِیبُ اللَّہُ فِیہَا الدُّعَاء َ إِلَّا لِسَاحِرٍ أَوْ عَشَّارٍ فَرَکِبَ کِلاَبُ بْنُ أُمَیَّةَ سَفِینَتَہُ فَأَتَی زَیِادًا فَاسْتَعْفَاہُ فَأَعْفَاہُ))
’’حسن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان بن ابی عاص کلاب بن امیہ کے پاس سے گذرے وہ بصرہ میں ایک عشر وصول کرنے والے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے حضرت عثمان نے پوچھا کہ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ کلاب نے عرض کیا کہ زیاد نے مجھے اس جگہ کا ذمہ دار مقرر کردیا انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کلاب نے کہا کیوں نہیں فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت داؤدعلیہ السلام رات کے ایک مخصوص وقت میں اپنے اہل خانہ کو جگا کر فرماتے تھے اے آل داؤد اٹھو اور نماز پڑھوکہ اس وقت اللہ تعالیٰ دعا قبول فرماتا ہے سوائے جادوگر یا عشر وصول کرنے والے کے یہ سن کرکلاب بن امیہ اپنی کشتی پر سوار ہوئے اور زیاد کے پاس پہنچ کر استعفی دے دیا اس نے ان کا استعفی قبول کرلیا‘‘۔(مسند احمد،ج:۳۳،ص:۱۴،رقم:۱۵۶۸۹)

((حدثناابوالربیع ثناحمادبن زید عن علی بن زید عن الحسن قال ثم بعث زیاد کلاب بن امیةعلی الأبلة فمربہ عثمان بن أبی العاصؓ فقال یاأباھارون ما بقعدک ھاھنا،قال بعثنی ھذاعلی الأبلة،فقال علی المکس ثم قال ألا احدثک حدیثاسمعتہ من رسول اللّٰہﷺسمعت نبی اللّٰہﷺیقول ان النبی اللّٰہ داؤدکان یوقظ أھلہ ساعة من اللیل فیقول یا آل داؤدقوموافصلوافان ھذہ الساعة یستجیب اللّٰہ تعالیٰ فیھا الدعاء الا لساحرأوعشار،قال فرکب سفینتہ ثم جاء الی زیاد فدخل علیہ فقال ابعث علی عملک من شئت))
’’زیاد نے کلاب بن امیہ کو ابلہ کے مقام پر عامل (ٹیکس وصول کرنے والا )بناکر بھیجا توا ن کے پا س سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ گزرے تو انہوں نے فرمایا کہ اے ابوہارون!تمہیں کس چیز نے یہاں بٹھایا تو کلاب بن امیہ نے کہا مجھے اس نے (زیاد) ابلہ پر بھیجا ہے ۔حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ٹیکس وصول کرنے کے لئے؟پھر فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے رسول اللہﷺسے سنی ۔میں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ’’ اللہ کے نبی حضرت داؤدعلیہ السلام اپنے گھروالوں کو رات کی ایک گھڑی میں جگاتے اور فرماتے کہ اے آل داؤد!کھڑے ہواور نماز پڑھواس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت دعاء کو قبول کرتا ہے سوائے جادوگر اور ٹیکس وصول کرنے والے کے ‘‘۔راوی کہتے ہیں کلاب بن امیہ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور زیاد کے پاس آئے اور زیاد سے کہا کہ تم اپنے (اس)کام پر جس کو چاہو بھیج دو (میں یہ کام نہیں کرسکتا)‘‘۔(الأحاد والمثانی،ج:۳ص:۱۹۷)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جس بازار میں مسلمانوں سے ٹیکس لیا جاتا ہوتو وہ مسلمانوں کا بازار نہیں

جس بازار میں مسلمانوں سے ٹیکس لیا جاتا ہوتو وہ مسلمانوں کا بازار نہیں

((عَنْ أَبِی أُسَیْدٍأَنَّ أَبَا أُسَیْدٍ حَدَّثَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَھَبَ إِلَی سُوقِ النَّبِیطِ فَنَظَرَ إِلَیْہِ فَقَالَ لَیْسَ ھَذَا لَکُمْ بِسُوقٍ ثُمَّ ذَھَبَ إِلَی سُوقٍ فَنَظَرَ إِلَیْہِ فَقَالَ لَیْسَ ھَذَا لَکُمْ بِسُوقٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی ھَذَا السُّوقِ فَطَافَ فِیہِ ثُمَّ قَالَ ھَذَا سُوقُکُمْ فَلَا یُنْتَقَصَنَّ وَلَا یُضْرَھَنَّ عَلَیْہِ خَرَاجٌ))
’’ابن ابی اسید حضرت ابواسید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوق النبیط (نامی بازار)میں گئے اور اس میں خریداری کا (حال)دیکھا تو فرمایا یہ بازار تمہارے لئے (موزوں نہیں)کیونکہ (یہاں دھوکہ بہت ہوتا ہے)پھر ایک اور بازار میں گئے اور وہاں بھی دیکھ بھال کی اور فرمایا یہ بازار بھی تمہارے لئے (موزوں)نہیں پھر اس بازار میں آئے اور چکر لگایا پھر فرمایا یہ ہے تمہارا بازار (یہاں خرید و فروخت کرو)یہاں لین دین میں کمی نہ کی جائے گی اور اس پر محصول(ٹیکس)مقرر نہ کیا جائے گا ‘‘۔
(سنن ابن ماجة،ج:۶،ص۴۸۹،رقم:۲۲۲۴۔الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم،ج:۵ص:۳۲۸،رقم:۱۶۸۹)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ٹیکس لینے سے برأت کا اعلان

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ٹیکس لینے سے برأت کا اعلان

((عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ،قَالَ قُلْت لِابْنِ عُمَرَ ،أَکَانَ عُمَرُ یُعَشِّرُ الْمُسْلِمِینَ؟قَالَ :لَا ))
’’مسلم بن یسار سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہاحضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے کہاکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مسلمانوں سے عشر لیتے تھے،فرمایا(ایسا)نہیں‘‘ ۔
(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۴۵۳)

((قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:اللَّھُمَّ إنَّ النَّاسَ یُحِلُّونِی ثَلَاثَ خِصَالٍ وَأَنَا أَبْرَأُ إلَیْک مِنْھُنَّ:زَعَمُوا أَنِّی فَرَرْت مِنْ الطَّاعُونِ،وَأَنَا أَبْرَأُ إلَیْک مِنْ ذَلِکَ وَأَنِّی أَحْلَلْت لَھُمْ الطِّلَاءَ ،وَھُوَ الْخَمْرُ،وَأَنَا أَبْرَأُ إلَیْک مِنْ ذَلِکَ وَأَنِّی أَحْلَلْت لَھُمْ الْمَکْسَ
،وَھُوَ النَّجِسُ،وَأَنَا أَبْرَأُ إلَیْک مِنْ ذَلِکَ ))

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرماتے تھے کہ اے اللہ!لوگ تین خصلتیں اختیار کئے ہوئے ہیں اور میں تیری طرف ان سے برأت کا اظہار کرتا ہوں،لوگوں نے گمان کیا کہ میں طاعون سے بھاگا ہوں اور میں برأت کرتا ہوں تیرے سامنے اس بات سے اور اس بات سے بھی کہ ان کے لئے میں نے طلاء کو حلال کیا حالانکہ وہ شراب ہے اور میں تیرے سامنے اس بات سے بھی برأت کرتا ہو ں کہ میں نے ان کے لئے(مسلمانوں سے) ٹیکس(لینے) کو حلال کیا حالانکہ وہ نجس ہے ‘‘۔
(شرح معانی الآثار،ج:۵ص:۴۶۵)
 
Top