گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ دہشت گردی کی اصطلاح اسلام کو بدنام کرنے کے لئے مغربی میڈیا اور ان کے ہمنواؤں کی جانب سے جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ دہشت گردی ان لوگوں کی من مانی اصطلاح ہے جسے وہ خود بھی ڈفائن نہیں کر پاتے۔
آپ کو ''دہشت گردی '' کی اصطلاح کو سمجھنے میں پریشانی ہے، تو ہم نے اس کا متبادل ''مفسدین فی الأرض'' بھی استعمال کیا ہے۔ آپ ''دہشت گرد'' کو مفسدین فی الأرض'' کے موافق سمجھ لیا کریں!
اور ان کے دوگلے پن کا یہ حال ہے کہ
جہاد کو دہشتگردی کہنے والوں کے یہاں کشمیر میں ہزاروں مسلمانوں کا جو قتل ہوا وہ دہشتگردی نہیں لیکن اگر کوئی مسلمان ان ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو وہ دہشتگرد کہلائے گا!!
''جہاد'' کو ''دہشتگردی'' کہنے والے کشمیر میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کو اگر دہشتگردی مان بھی لیں، تب بھی وہ باطل ہی رہیں گے، کہ ''جہاد '' کو ''دہشتگردی'' کہنا ہی باطل ہے۔
ہمارے مابین مسئلہ یہ نہیں کہ ''جہاد'' دہشتگردی نہیں! اس پر تو تمام مسلمان متفق ہیں!
مسئلہ یہ ہے ہم ''فساد فی الأرض'' کو ''جہاد'' تسلیم نہیں کرتے!
ہندوستان میں مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کر وہاں مندر بنائے جا رہے ہیں مسلمانوں پر جھوٹے مقدمات چلا کر ان کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کیا جا رہا ہے دہلی میں کچھ سال قبل مسلمانوں کے خلاف جو فساد ہوئے تھے میرے اپنے دوستوں نے بتایا کہ ہندؤں نے ٹارگٹ کر ہمارے گھروں کو جلا دیا دکانیں جلا دی یہ عمل دہشت گردی نہیں لیکن اگر ہمارے لوگ ان کے خلاف جوابی اقدام کر دے تو وہ دہشت گردی کہلائے گی!!!
اس معاملہ میں ہندوستان کے مسلمانوں میں سیاسی بصیرت کی کمی کا قصور ہے، '' میرا بھارت مھان'' کے نظریہ کے تحت بہت شوق تھا ''بھارت '' کو ''اکھنڈ'' رکھنے کا۔
آپ نے ان أمور کو خود یہاں ''فساد'' کہا ہے، اور پھر اس ''فساد'' کو ''جہاد'' باور کروانا چاہتے ہیں۔ خوب سمجھ لیں، یہ ہندو مسلم فسادات ہیں، اور یہ تقسیم ہند سے پہلے بھی ہوئے ہیں۔ اور اس طرح کے فسادمسلمانوں کے درمیان بھی ہوئے ہیں۔ ایسے فتنہ وفساد میں مسلمانوں کا اپنا دفاع کرنا لازم ہوتا ہے، مگر ''بدلہ'' اس فتنہ و فساد کو مزید آگ لگاتا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مل کر عراق، شام و یمن میں فضائی حملے کر کر کے مسلمانوں کی بستیوں کو اجاڑ دیا مسلمانوں کے معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا یہ دہشت گردی نہیں لیکر اگر کوئی عراقی شامی مسلمان اس سرکش امریکا کے خلاف اٹھ کھڑا ہو وہ دہشت گرد کہلائے گا!!! کیا ہی دوگلی پالیسی ہیں مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والوں کی!
کیا امریکہ مسلم ریاست ہے کہ آپ امریکہ پر قرآن و سنت کے احکام صادر فرما کر ان سے قرآن و سنت کے موافق ''جہاد'' کی امید کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کافر کے ظلم و بربریت اور دہشت گردی پر مسلمان اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہے، یعنی قرآن وسنت میں موجود شریعت اسلامی کا!
اب چونکہ کفار نے دہشتگردی کی ہے، تو مسلمان کے لیئے بھی دہشتگردی جائز و حلال ہوگئی، بلکہ عبادت قرار پائی کہ اسے ''جہاد'' سے تعبیر کیا جائے، یہ طرز استدلال نفس پرست زنادقہ کا تو ہوسکتا ہے، قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والے مسلمان کا نہیں!
دہشت گرد کا وصف حذف کر مطلق مسلمان کر دیا کیا مطلب؟
آپ کو اس ''دہشتگرد'' کا وصف حذف کرکےمطلق ''مسلمان'' کر دینے کا فرق ہی سمجھ نہیں آیا!
اور غالباً آپ کو کلام میں اس فرق کا ادراک ہی نہیں، اسی بنا پر شیخ محمد بن صالح العثمین کے فتوی کا بھی غلط اطلاق کر دیا!
مثال اس کی یہ ہے کہ فتوی دیا جائے شادی شدہ زانی مسلمان کو رجم کے ذریعے قتل کیا جائے، اورکوئی ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دے کہ،''دیکھو دیکھو! یہ ظالم مفتی، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ، مسلمانوں کو قتل کرنے کا فتوی دیتا ہے''
اسے کہا جائے کہ مطلق مسلمان کو قتل کرنے کا فتوی نہیں، بلکہ شادی شدہ زانی مسلمان کو قتل کرنے کا فتویٰ ہے، اس پر کہے کہ ''کیا شادی شدہ زانی مسلمان '' پر صرف مسلمان کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟''
ایسا ہی فرق''دہشت گرد مسلمان'' کے متعلق فتوی اور ''مسلمان'' میں ہے۔
حالانکہ فرق واضح ہے، لیکن خارجی فکر کے حامل دانستہ اس فرق کو چھپا کر لوگوں کو جذباتی بنا کر گمراہ کرتے ہیں۔
آپ جس عمل کو دہشت گردی مانتے ہیں چلیں فرض کر لیا وہ دہشت گردی ہے اور ایک مسلمان نے اٹھ کر فرانس میں کسی شارم رسول یا اسلام دشمن کو پھڑکا دیا یہ اس نے دہشت گردی کی وہ دہشت گرد بن گیا آپ کی نظر میں!
غالباً آپ کو یہ نہیں معلوم کہ محض قتل کرنے سے دہشتگردی لازم نہیں آتی، مفسدین فی الأرض اور قاتل میں فرق ہے، اور ان کی سزاؤں میں بھی فرق موجود ہے۔ شریعت اسلامی میں تو شاتم رسول کے قاتل کی کوئی سزا نہیں، البتہ اصلاً تو شاتم رسول کو حاکم و حکومت ہی سزا دینے کی سزاوار ہے، اور اگر کوئی شاتم رسول کو خود قتل کر دیتا ہے، تو حکومت اس پر تعزیری سزا ضرور قائم کر سکتی ہے، کہ اس نے أمور حکومت میں مداخلت کی، وگرنہ تو لوگوں کو یہ حق حاصل ہو جائے گا کہ شاتم رسول کا الزام لگا کر قتل کرتے پھریں، اور بریلویوں نے دیوبندی اور ''وھابیوں'' پرشاتم رسول ہونےکے ، اپنے تئیں جو الزام لگا رکھے ہیں، اس کے تحت دیوبندیوں اور ''وھابیوں'' کو قتل کرتے پھریں! اس طرح شاتم رسول کے قتل کے نام پر زمین پر فساد برپا کردیں!
یہ معاملہ تو اسلامی ریاست کا ہے، اور جو اسلامی ریاست نہیں، ان ریاستوں سے ان أمور پر معاہدے کیئے جاسکتے ہیں، کہ کفار کی ان ریاست میں بھی اسے جرم قرار دیا جائے۔
لیکن اگر کسی مسلمان نے کفار کی ریاست میں، کسی شاتم رسول کو قتل کیا، تو وہ اس ریاست کے قوانین کے مطابق سزا پائے گا۔ وہ کفار کی ریاست ہے، وہ خود کو اسلامی قوانین کے پابند قرار نہيں دیتے، اور نہ ہم انہیں اس کا پابند کر سکتے ہیں۔
یہاں شاتم رسول کے قاتل کی مثال کیوں پیش کی جارہی ہے، حالانکہ بحث قاتل کی نہیں ''دہشتگر د و مفسدین فی الأرض مسلمانوں کی ہو رہی ہے۔
اب کیا اس عمل سے وہ مطلقا مسلمان کیسے نہ رہا؟ اس عمل سے اس کے اسلام میں کیا نقض ہو گیا؟ یا اس سے کون سی بدعت مکفرہ ہو گئی جو اسے صرف مسلمان کا اطلاق اس پر نہیں ہو سکتا؟؟؟
آپ کو أصول فقہ اور لغت سیکھنے کہ اشد ضرورت ہے؟
کس نے کہا کہ دہشتگرد مسلمان'' پر صرف ''مسلمان'' کا اطلاق نہیں ہوگا؟
آپ کو بتلایا یہ گیا ہے کہ جو فتوی ہے وہ ''دہشتگرد مسلمان'' کے تعلق سے ہے، صرف ''مسلمان'' لکھ کسی خاص و مقید فتوی کو عام و مطلق کرد دینا یا جہالت ہے، یا دجل! آپ نے اپنے بیان میں کسی ایک امر کا مظاہرہ ضرورکیا ہے۔
اور عمران خان، بن سلمان، سیسی و اردگان کی اجازت کے بغیر کوئی بھی جہاد کا نام لےگا تو وہ فساد کی دعوت ہوگی کس پر آپ نے بڑے فخر سے کہہ دیا :
جی بلکل! ایک بار پھر ذہن نشین کر لیں! میں نےاپنے مسلم حاکم کی اجازت کے بغیر ''جہاد'' کو فساد کہا ہے۔
پھر تو آپ لوگوں کے اصولوں سے جہاد معطل ہو چکا ان سیکولر حکمرانوں نے تو جہاد کی اجازت تو دور کی بات جہاد کے نام لینے والوں کو ہی زندان نشین کیا ہوا ہے،
یہ مفسدین فی الارض کی خام خیالی ہے، اور یاد رکھیں، کہ تمام افراد خواہ وعامی ہوں یا علماء، جو بھی مسلمانوں کو حاکم کی اجازت کے بغیر ''جہاد'' پر اکسا کر فساد کے راستے ہموار کرتا ہے، خواہ وہ اپنی غلط فہمی و اجتہادی غلطی سے ہی کیوں نہ کر رہا ہو، اسے زندان نشین کرنا تو چھوٹی بات ہے، اگر میں حاکم قرار پاؤں تو میں تو انہیں قتل کروں! خواہ وہ نیک و صالح ومخلص و متقی و پرہیزگار ہی کیوں نہ ہوں، اور اللہ کے حضور ان کی مغفرت و درجہ کی بلندی کی دعا کروں۔ کیونکہ بطور حاکم مجھے فتہ و فساد کے أبواب بند کرنے ہیں، کسی کی غلط فہمی و اجتہادی غلطی بھی اس میں حائل ہو گی، تو اسے بھی ہٹایا جائے گا۔ اجتہادی غلطی کا اجر وہ اللہ کے ہاں پا لیں گے۔
پس آپ لوگوں کے یہاں جہاد ختم ہو چکا
آپ میں ابھی اتنی لیاقت نہیں ہے کہ آپ ہمارے کلام کو سمجھ کر ''پس'' کہہ کر اس کا مقتضی اخذ کر سکیں!
آپ جس فساد کو ''جہاد'' کہہ رہے ہیں، ہم نہ پہلے کبھی اسے ''جہاد'' تسلیم کرتے تھے، نہ آج کرتے ہیں، اور نہ کبھی کریں گے، اللہ ہمیں استقامت دے۔ آمین!
اور آپ کے اس باطل اصول سے تو بہت سی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب لازم آئی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ولا يزالُ من أمَّتي أمةٌ يقاتِلونَ على الحقِّ۔
أنَّ الجهادَ باقٍ إلى قِيامِ السَّاعةِ۔
لَنْ يَبْرَحَ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ۔
ہم نے جو أصول بیان کیا ہے، کہ جہاد کے لیئے اپنے مسلم حاکم کی اجازت لازم ہے، اس سے مذکورہ بالا حدیث کی تکذیب کیسے لازم آئی؟ محض الزام و دعوی نہیں، اس أصول سے مذکورہ بالا حدیث کی تکذیب لازم آنے کا استدلال و وجہ استدلال بیان کیجیئے!
اب یا تو ہم آپ کی بات کو صحیح تسلیم کر یہ مانے کہ سیکولر حکمرانوں نے اجازت نہیں دی اسلئے اس دور میں جہاد باقی نہ رہا۔ کوئی گروہ جہادی نہیں سب فسادی ہیں۔ یا پھر صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کو مانے جس میں بیان ہوا جہاد قیامت تک جاری رہے گا، امت کا ایک گروہ حق کے لیے قتال کرتا رہے گا!!!
پہلے آپ اس کی وضاحت فرما دیں، کہ ''سیکولر حکمران''آپ کسے کہتے ہیں؟ کیونکہ میں نے تو جہاد کو مسلم حاکم کی اجازت سے مشروط کیا ہے۔
کیا آپ کے کلام میں''سیکولر حکمران'' مسلمان ہیں، یا آپ ''سیکولر حکمران'' کو ''مسلم حکمران'' شمار نہیں کرتے؟ اور ''سیکولر حکمران'' کو آپ ''کافر حکران'' قرار دیتے ہیں؟
مسلم حکام کے اذن سے اب بھی جہاد جاری ہے، اور جہاد ہو رہاہے۔ اس وقت جب میں یہ مراسلہ تحریر کر رہا ہوں، جہاد کیا جا رہا ہے۔
لیکن جو محض فساد کو ''ّجہاد'' کا نام دیتے ہیں، انہیں وہ نظر نہیں آتا۔
اور اس جہاد میں ایک صورت مسلم ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کا جہاد ہے۔ جو اس وقت بھی جاری ہے۔
اسرائیل سے نارملائزیشن کرنے والے ظالموں کی اجازت کو آپ جہاد کے لئے مقید کرو گے تو پھر اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے مظلوم فلسطینی مسلمان آپ کو فتنہ گر و فسادی و "دہشت گرد مسلمان" تو لگیں گے ہی۔
اسرئیل سے ''نارملائزشن'' بھی ایک خاص موضوع ہے، اس پر بحث پھر سہی!
جہاد بہر حال حاکم کی اجازت کے مشروط ہے۔ اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیئے مظلوم فلسطینی بھی شریعت کے پابند ہیں، کسی کا ظلم اور بربریت کسی مظلوم کو شریعت سے آزاد نہیں کرتا! مظلوم بھی شریعت کا پابند ہے۔ اور جو مظلوم خود کو شریعت سے آزاد گمان کرکے اپنی نفس پستی کو اختیار کرتے ہوئے فساد برپا کرے گا، وہ مفسدین فی الأرض میں شمار ہو گا۔
(جاری ہے)