• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں کے خلاف کافروں کی پشت پناہی و نصرت کرنے والے صلیبی حلیف و معاون مداخلہ

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ سوال حقائق پر مبنی نہیں بلکہ ایک تصویر و آپ کے ذہن کی خیالی اپج ہے
میں نے یہ نہیں پوچھا کہ کن کن کے درمیاں معاہدہ ہوا ہے، کہ حقیقت ہونے اور حقیقت نہ ہونے کی بحث ہو۔ میں نے یہ پوچھا ہے کہ کن کن کے درمیان معاہدہ کا پابند مسلمان ہوگا؟
جس پر میں نے آپ سے وضاحت طلب کی تھی کہ ہمارے اور بی جے پی حکومت کے درمیان کون سا معاہدہ ہوا؟ کس بات پر معاہدہ ہوا؟ اور کس نے یہ معاہدہ کیا ؟
آپ کے سوال کا جواب بعد میں پہلے میرے سوال کا جواب!
اتنا بتلا دیں کہ کیا کفار، اور کفار کے ممالک ہر ایک مسلمان سے انفرادی طور پر انفرادی حیثیت میں معاہدہ کریں گے؟
کہ جس کی پاسداری مسلمان پر لازم ہے، اور حکومت کے معاہدہ کی پاسداری مسلمان پر لازم نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مصروفیات کے سبب تاخیر ہوتی ہے معذرت۔ آپ انتظار نہ کیا کریں بلکہ میرے جو اعتراض و سوالات ہیں ان کے جوابات لکھ دیا کریں۔ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے تو میری اصلاح ہوگی۔ ان شاء اللہ
ان شاء اللہ !ہم آپ کی غلط فہمی واضح کریں گے! میرے سوال کے جواب کے بعد!
میرا سوال اس قدر واضح ہے کہ کسی نتقیح و وضاحت کی ضرورت نہیں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ہم نے آپ سے ایک سوال کیا تھا! سوال بلکل واضح تھا، اس میں کوئی ابہام نہیں!

سوال یوں تھا:

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا«
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا ۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے۔
‌صحيح البخاري»» كِتَابُ الجِزْيَةِ »» بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ
اتنا بتلا دیں کہ کیا کفار، اور کفار کے ممالک ہر ایک مسلمان سے انفرادی طور پر انفرادی حیثیت میں معاہدہ کریں گے؟
کہ جس کی پاسداری مسلمان پر لازم ہے، اور حکومت کے معاہدہ کی پاسداری مسلمان پر لازم نہیں؟

لیکن اس سوال کا جواب نہ آیا!

ہم امید کر رہے تھے، کہ آپ فی نفس تو مخلص ہونگے، لیکن کچھ غلط فہمیوں اور جذبات کی رو میں گمراہ ہو چکے ہیں، اور بزعم خویش اپنی اس گمراہی کو راست سمجھتے ہوئے، لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے رہے ہیں۔

مگر ہمیں اپنا یہ حسن ظن قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے، کہ اگر آپ مخلص ہوتے تو آپ اس سوال کا جواب ضرور دیتے، خواہ اس کے لیئے آپ کو اپنے مصری، کویتی اور پشاوری علماء سے مدد ہی لینا پڑتی! یا کم از کم یہ إقرار کرتے کہ آپ کو نہیں معلوم!

در حقیقت یہ حدیث ان تمام مفسدین فی الأرض کے لیئے دلیل قاطع ہے، جو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کو دین اسلام کا جہاد قرار دے کر اپنے نفس کی تسکین کے خواہاں ہیں!

اب یہ حدیث تو مسلمان کو جہاد میں اپنے حاکم کا تابع قرار دیتی ہے، اور یہ نفس کے پجاری تو اپنے نفس کے تابع ہیں، یہ بھلا کسی اور کی ، یا حاکم کی تابعداری کیسے قبول کر لیں!

بہر حال اس سوال کے دو ممکنہ جواب ہیں! ایک یہ کہ معاہدہ مسلم حاکم اور کفار کے درمیان ہو گا جس کے پابند اس مسلم حکومت کے تمام باشندے ہوں گے۔ اور یہ جواب درست ہے!

اس کا مقتضی یہ ہوا کہ اس مسلم ریاست کا کوئی بھی شخص یا جماعت اس حاکم کی اجازت کے بغیر معاہد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتی!

اور یہ امر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً بھی ثابت ہے، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملداری میں شامل کسی کو اس معاہدہ کی مخالفت کا کو اختیار نہ تھا! سوائے ان مسلمانوں کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملداری میں شامل نہ تھے۔ اس کی تفصیل آگے بیان ہو گی ؛ ان شاء اللہ!

دوسرا ممکنہ جواب کہ کفار حاکم کے بجائے جس جس مسلمان سے فرداً فرداً معاہدہ کریں گے، جن سے معاہدہ ہوگا وہی معاہدہ کا پابند ، باقی کسی اور پر اس کی پابندی لازم نہیں! تو ایسی صورت میں، جن مسلمانوں نے معاہدہ نہیں کیا، انہیں جہاد کے لیئے، کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں!

یہ بات عقلاً محال اور نقلاً باطل ہے!

عقلاً محال ہونا تو عقلمند کو بتلانے کی ضرورت نہیں، اور بیوقوف کی عقل میں آنی نہیں! لہٰذا،اس کا بیان کرنا ضروری نہیں!

اس کا نقلاً باطل ہونا آگے بیان ہو گا ان شاء اللہ!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جی نہیں رد کرنا اور دعوت دینا دو الگ افعال ہیں دعوت میں کسی چیز کی جانب بلایا جاتا ہے اس میں طلب ہوتی ہے جبکہ رد کرنے میں انکار و بطلان ہوتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ فہم بلاغت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ رد کسی شخص کو ایک موقف کو ترک کرنے یا اس سے احتراز کی دعوت ہوتی ہے۔ اگر آپ کی یہ دعوت نہیں، تو آپ کا رد کرنا بلا مقصود شرعی ہے۔
خیر! یہ بحث بھی بنیادی نہیں!
ٹھیک ہے اگر آپ نجمی سے متفق ہیں تو آپ کی مرضی۔ آپ بھی اس کے قائل ہیں تو اسلام و مسلمانوں کے دشمن فرانسیسی انٹیلیجنس یا امریکی ایف بی آئی یا پھر انڈین رآ ، این آئی اے و دیگر اجنسیوں کے لئے مخبری و جاسوسی کا کام کرتے رہیں۔
الله سبحانہ تعالیٰ قرآن میں حکم دیتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿ سورة المائدة ٢﴾
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو نہ ادب والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضاجوئی کی نیت سے جا رہے ہوں، ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو، جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آماده نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ، نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناه اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے ﴿ترجمہ محمد جونا گڑھی

اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ کی اسلام اور مسلمان دشمنی کے أفعال یاد دلا کر ، حکم یہ دیتا ہے کہ نیکی اور پرہیزگاری میں ان مشرکین کی بھی معاونت کرتے رہو، اور گناہ اور ظلم وزیادتی میں مسلمانوں کی بھی معاونت نہ کرو!
مگر یہ قرآن خوارج کی فکر رکھنے والوں کے حلق سے نیچے اتر ہی نہیں سکتا، کہ اس امر کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ جَمِيعًا عَنْ وَكِيعٍ قَالَ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنْ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

وکیع نے حدیث بیان کی کہا اعمش نے ہمیں خیثمہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے سوید بن غفلہ سے روا یت کی، انھوں نے کہا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جب میں تمھیں رسول اللہ ﷺ سے حدیث سناؤں تو یہ بات کہ میں آسمان سے گر پڑوں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں آپﷺ کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کروں جو آپﷺ نے نہیں فرمائی۔ اور جب میں تم سے اس معاملے میں بات کروں جو میرے اور تمھا رے درمیان ہے (تو رسول اللہ ﷺ کے اس قول سے استشہاد کر سکتا ہوں کہ) جنگ ایک چال ہے (لیکن) میں نے رسول اللہ ﷺ کو (بصراحت یہ) فرماتے ہوئے سنا: ’’عنقریب (خلا فت راشدہ کے) آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی وہ لوگ کم عمر اور کم عقل ہوں گے (بظاہر) مخلوق کی سب سے بہترین بات کہیں گے، قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین کے اندر سے اس طرح تیزی سے نکل جائیں گے جس طرح تیر تیزی سے شکار کے اندر سے نکل جاتا ہے جب تمھارا ان سے سامنا ہو تو ان کو قتل کر دینا، جس نے ان کو قتل کیا اس کے لیے یقیناً قیامت کے دن اللہ کے ہاں اجر ہے۔‘‘ ﴿ مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ التَّحْرِيضِ عَلَى قَتْلِ الْخَوَارِجِ)


صحیح مسلم: کتاب: زکوٰۃ کے احکام و مسائل تمہید کتاب (باب: خوارج کو قتل کرنے کی ترغیب)

ان مفسدین فی الارض دہشتگردوں کے خلاف کفار سے تعاون کرنا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے قرآنی حکم سے مستنبط ہے، جبکہ فکر خوارج کے حامل ان مفسدین فی الارض دہشتگروں کے خلاف کفار سے تعاون کا نہ صرف انکار کرتے ہیں، بلکہ اسے زندیقت قرار دیتے ہیں، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود زندیقیت کے گڑھے میں دھنسے ہوئے ہیں، مگر انہیں اس کی خبر نہیں۔

لیکن ہمارے علماء نے اس عمل کو حرام قرار دیا ہے۔
کون ہیں آپ کے علماء؟ اور کیا محض ان کا کہنا شرعی دلیل ہے؟


(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور کوئی بھی باضمیر غیرت مند مسلمان مدخلیوں کے اس عمل سے متفق نہیں ہو سکتا ہے بلکہ ایسے مخبر و جاسوس تو سزا دئیے جانے کے مستحق ہیں۔
اس خود ساختہ غیرت کی ہمیں کوئی حاجت نہیں! جو در حقیقت نفس پرستی ہے، کہ اللہ کے نازل کردہ دین کے شرعی احکام کو غیرت کے نام پر رد کر دیا جائے، ''ایسی غیرت'' پر ہزار لعنت۔

اب یہاں کوئی بیوقوف یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع نہ کر دے ، کہ ابن داود نے ''غیرت'' پر لعنت کردی، حالانکہ ہم نے ''ایسی غیرت'' پر لعنت کی ہے۔ لیکن کلام میں مطلق و مقید اور عام و خاص کو سمجھنے سے قاصر افراد کا کیا کیا جا سکتا ہے!!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ التَّبُوذَكِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ وَاللَّهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي وَمِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللَّهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنْ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ الْمُبَشِّرِينَ وَالْمُنْذِرِينَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنْ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللَّهُ الْجَنَّةَ.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نے کہا: اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ہمراہ دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اسے قتل کردوں۔ رسول اللہ ﷺ کو ان جذبات کی اطلاو ملی تو آپ نے فرمایا: تم سعد کی غیرت پر اظہار تعجب کرتے ہو؟ اور اللہ کی قسم! یقیناً میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غیرت ہی کی وجہ سے بے حیائی کی ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو حرام قرار دیاہے ۔کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ عذر خواہی محبوب نہیں۔ اس لیے اس نے خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے اپنے رسول بھیجے ہیں نیز کسی کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ مدح وثنا محبوب نہیں۔ اسی وجہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے (تاکہ لوگ اس کی تعریف کرنے اسے حاصل کریں) ۔ (راوی حدیث) عبید اللہ بن عمرو نے عبدالملک کے حوالے سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔” اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی شخص نہیں۔“۔﴿ مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لاَ شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ»)
صحیح بخاری: کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
باب: نبی کریم ﷺ کا ارشاد اللہ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں


کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے بڑھ کر غیرت دکھانے کی ضرورت نہیں، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین اسلام کے احکام سے بڑھ کر کوئی غیرت نہیں، وہ نفس پرستی و زندیقیت ہے۔

علامہ ابن عثيمين فرماتے ہیں :

الصحيح أنه يجوز قتل الجاسوس الذي ينقل أخبار المسلمين إلى أعدائهم، ولو كان مسلمًا؛ لأنَّ جريمته عظيمة، وفعله هذا موالاة للكفار في الغالب، ودليلُ ذلك أن حاطب بن أبي بلتعه لما أرسل كتابًا إلى قريش، وعلم به النبي - صلى الله عليه وسلم - وسأله ما هذا؟ فأخبره بعذره فقالوا: ألا نقتله يا رسول الله فمنع من قَتْلِه، وقال: "لعل الله اطلع على أهل بدرٍ، فقال: اعملوا ما شئتُم فقد غفرتُ لكم " فهذا يدلُّ على أن قتل الجاسوس جائزٌ، وأنه لولا المانع في قصة حاطب لقتله، وأما توبته فإنه إذا تاب تاب الله عليه كغير الجاسوسية من الذنوب

[مجموع فتاوى ورسائل العثيمين، ج: ٢٥، ص: ٣٨٩]
شیخ محمد بن صالح العثیمین کے اس فتوی میں ''دہشتگرد مسلمان'' کی جاسوسی کا ذکر کہاں ہے؟ آپ شیخ محمد بن صالح العثیمین کے اس فتوی سے ''دہشتگرد مسلمان'' کی جاسوسی کشید کرنے کی سعی کیجیئے، جب آپ اس فتوی میں ''دہشتگرد مسلمان'' بتلائیں گے، تو اس پر مزید بات کی جا سکتی ہے، وگرنہ شیخ محمد بن صالح العثیمین کے اس فتوی کو ''دہشتگرد مسلمان'' کی جاسوسی کے خلاف پیش کرنا عبث ہے۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ دہشت گردی کی اصطلاح اسلام کو بدنام کرنے کے لئے مغربی میڈیا اور ان کے ہمنواؤں کی جانب سے جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ دہشت گردی ان لوگوں کی من مانی اصطلاح ہے جسے وہ خود بھی ڈفائن نہیں کر پاتے۔
آپ کو ''دہشت گردی '' کی اصطلاح کو سمجھنے میں پریشانی ہے، تو ہم نے اس کا متبادل ''مفسدین فی الأرض'' بھی استعمال کیا ہے۔ آپ ''دہشت گرد'' کو مفسدین فی الأرض'' کے موافق سمجھ لیا کریں!
اور ان کے دوگلے پن کا یہ حال ہے کہ
جہاد کو دہشتگردی کہنے والوں کے یہاں کشمیر میں ہزاروں مسلمانوں کا جو قتل ہوا وہ دہشتگردی نہیں لیکن اگر کوئی مسلمان ان ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو وہ دہشتگرد کہلائے گا!!
''جہاد'' کو ''دہشتگردی'' کہنے والے کشمیر میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کو اگر دہشتگردی مان بھی لیں، تب بھی وہ باطل ہی رہیں گے، کہ ''جہاد '' کو ''دہشتگردی'' کہنا ہی باطل ہے۔
ہمارے مابین مسئلہ یہ نہیں کہ ''جہاد'' دہشتگردی نہیں! اس پر تو تمام مسلمان متفق ہیں!
مسئلہ یہ ہے ہم ''فساد فی الأرض'' کو ''جہاد'' تسلیم نہیں کرتے!
ہندوستان میں مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کر وہاں مندر بنائے جا رہے ہیں مسلمانوں پر جھوٹے مقدمات چلا کر ان کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کیا جا رہا ہے دہلی میں کچھ سال قبل مسلمانوں کے خلاف جو فساد ہوئے تھے میرے اپنے دوستوں نے بتایا کہ ہندؤں نے ٹارگٹ کر ہمارے گھروں کو جلا دیا دکانیں جلا دی یہ عمل دہشت گردی نہیں لیکن اگر ہمارے لوگ ان کے خلاف جوابی اقدام کر دے تو وہ دہشت گردی کہلائے گی!!!
اس معاملہ میں ہندوستان کے مسلمانوں میں سیاسی بصیرت کی کمی کا قصور ہے، '' میرا بھارت مھان'' کے نظریہ کے تحت بہت شوق تھا ''بھارت '' کو ''اکھنڈ'' رکھنے کا۔
آپ نے ان أمور کو خود یہاں ''فساد'' کہا ہے، اور پھر اس ''فساد'' کو ''جہاد'' باور کروانا چاہتے ہیں۔ خوب سمجھ لیں، یہ ہندو مسلم فسادات ہیں، اور یہ تقسیم ہند سے پہلے بھی ہوئے ہیں۔ اور اس طرح کے فسادمسلمانوں کے درمیان بھی ہوئے ہیں۔ ایسے فتنہ وفساد میں مسلمانوں کا اپنا دفاع کرنا لازم ہوتا ہے، مگر ''بدلہ'' اس فتنہ و فساد کو مزید آگ لگاتا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مل کر عراق، شام و یمن میں فضائی حملے کر کر کے مسلمانوں کی بستیوں کو اجاڑ دیا مسلمانوں کے معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا یہ دہشت گردی نہیں لیکر اگر کوئی عراقی شامی مسلمان اس سرکش امریکا کے خلاف اٹھ کھڑا ہو وہ دہشت گرد کہلائے گا!!! کیا ہی دوگلی پالیسی ہیں مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والوں کی!
کیا امریکہ مسلم ریاست ہے کہ آپ امریکہ پر قرآن و سنت کے احکام صادر فرما کر ان سے قرآن و سنت کے موافق ''جہاد'' کی امید کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کافر کے ظلم و بربریت اور دہشت گردی پر مسلمان اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہے، یعنی قرآن وسنت میں موجود شریعت اسلامی کا!
اب چونکہ کفار نے دہشتگردی کی ہے، تو مسلمان کے لیئے بھی دہشتگردی جائز و حلال ہوگئی، بلکہ عبادت قرار پائی کہ اسے ''جہاد'' سے تعبیر کیا جائے، یہ طرز استدلال نفس پرست زنادقہ کا تو ہوسکتا ہے، قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والے مسلمان کا نہیں!
دہشت گرد کا وصف حذف کر مطلق مسلمان کر دیا کیا مطلب؟
آپ کو اس ''دہشتگرد'' کا وصف حذف کرکےمطلق ''مسلمان'' کر دینے کا فرق ہی سمجھ نہیں آیا!
اور غالباً آپ کو کلام میں اس فرق کا ادراک ہی نہیں، اسی بنا پر شیخ محمد بن صالح العثمین کے فتوی کا بھی غلط اطلاق کر دیا!
مثال اس کی یہ ہے کہ فتوی دیا جائے شادی شدہ زانی مسلمان کو رجم کے ذریعے قتل کیا جائے، اورکوئی ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دے کہ،''دیکھو دیکھو! یہ ظالم مفتی، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ، مسلمانوں کو قتل کرنے کا فتوی دیتا ہے''
اسے کہا جائے کہ مطلق مسلمان کو قتل کرنے کا فتوی نہیں، بلکہ شادی شدہ زانی مسلمان کو قتل کرنے کا فتویٰ ہے، اس پر کہے کہ ''کیا شادی شدہ زانی مسلمان '' پر صرف مسلمان کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟''
ایسا ہی فرق''دہشت گرد مسلمان'' کے متعلق فتوی اور ''مسلمان'' میں ہے۔
حالانکہ فرق واضح ہے، لیکن خارجی فکر کے حامل دانستہ اس فرق کو چھپا کر لوگوں کو جذباتی بنا کر گمراہ کرتے ہیں۔

آپ جس عمل کو دہشت گردی مانتے ہیں چلیں فرض کر لیا وہ دہشت گردی ہے اور ایک مسلمان نے اٹھ کر فرانس میں کسی شارم رسول یا اسلام دشمن کو پھڑکا دیا یہ اس نے دہشت گردی کی وہ دہشت گرد بن گیا آپ کی نظر میں!
غالباً آپ کو یہ نہیں معلوم کہ محض قتل کرنے سے دہشتگردی لازم نہیں آتی، مفسدین فی الأرض اور قاتل میں فرق ہے، اور ان کی سزاؤں میں بھی فرق موجود ہے۔ شریعت اسلامی میں تو شاتم رسول کے قاتل کی کوئی سزا نہیں، البتہ اصلاً تو شاتم رسول کو حاکم و حکومت ہی سزا دینے کی سزاوار ہے، اور اگر کوئی شاتم رسول کو خود قتل کر دیتا ہے، تو حکومت اس پر تعزیری سزا ضرور قائم کر سکتی ہے، کہ اس نے أمور حکومت میں مداخلت کی، وگرنہ تو لوگوں کو یہ حق حاصل ہو جائے گا کہ شاتم رسول کا الزام لگا کر قتل کرتے پھریں، اور بریلویوں نے دیوبندی اور ''وھابیوں'' پرشاتم رسول ہونےکے ، اپنے تئیں جو الزام لگا رکھے ہیں، اس کے تحت دیوبندیوں اور ''وھابیوں'' کو قتل کرتے پھریں! اس طرح شاتم رسول کے قتل کے نام پر زمین پر فساد برپا کردیں!

یہ معاملہ تو اسلامی ریاست کا ہے، اور جو اسلامی ریاست نہیں، ان ریاستوں سے ان أمور پر معاہدے کیئے جاسکتے ہیں، کہ کفار کی ان ریاست میں بھی اسے جرم قرار دیا جائے۔

لیکن اگر کسی مسلمان نے کفار کی ریاست میں، کسی شاتم رسول کو قتل کیا، تو وہ اس ریاست کے قوانین کے مطابق سزا پائے گا۔ وہ کفار کی ریاست ہے، وہ خود کو اسلامی قوانین کے پابند قرار نہيں دیتے، اور نہ ہم انہیں اس کا پابند کر سکتے ہیں۔

یہاں شاتم رسول کے قاتل کی مثال کیوں پیش کی جارہی ہے، حالانکہ بحث قاتل کی نہیں ''دہشتگر د و مفسدین فی الأرض مسلمانوں کی ہو رہی ہے۔

اب کیا اس عمل سے وہ مطلقا مسلمان کیسے نہ رہا؟ اس عمل سے اس کے اسلام میں کیا نقض ہو گیا؟ یا اس سے کون سی بدعت مکفرہ ہو گئی جو اسے صرف مسلمان کا اطلاق اس پر نہیں ہو سکتا؟؟؟
آپ کو أصول فقہ اور لغت سیکھنے کہ اشد ضرورت ہے؟
کس نے کہا کہ دہشتگرد مسلمان'' پر صرف ''مسلمان'' کا اطلاق نہیں ہوگا؟
آپ کو بتلایا یہ گیا ہے کہ جو فتوی ہے وہ ''دہشتگرد مسلمان'' کے تعلق سے ہے، صرف ''مسلمان'' لکھ کسی خاص و مقید فتوی کو عام و مطلق کرد دینا یا جہالت ہے، یا دجل! آپ نے اپنے بیان میں کسی ایک امر کا مظاہرہ ضرورکیا ہے۔

اور عمران خان، بن سلمان، سیسی و اردگان کی اجازت کے بغیر کوئی بھی جہاد کا نام لےگا تو وہ فساد کی دعوت ہوگی کس پر آپ نے بڑے فخر سے کہہ دیا :
جی بلکل! ایک بار پھر ذہن نشین کر لیں! میں نےاپنے مسلم حاکم کی اجازت کے بغیر ''جہاد'' کو فساد کہا ہے۔
پھر تو آپ لوگوں کے اصولوں سے جہاد معطل ہو چکا ان سیکولر حکمرانوں نے تو جہاد کی اجازت تو دور کی بات جہاد کے نام لینے والوں کو ہی زندان نشین کیا ہوا ہے،
یہ مفسدین فی الارض کی خام خیالی ہے، اور یاد رکھیں، کہ تمام افراد خواہ وعامی ہوں یا علماء، جو بھی مسلمانوں کو حاکم کی اجازت کے بغیر ''جہاد'' پر اکسا کر فساد کے راستے ہموار کرتا ہے، خواہ وہ اپنی غلط فہمی و اجتہادی غلطی سے ہی کیوں نہ کر رہا ہو، اسے زندان نشین کرنا تو چھوٹی بات ہے، اگر میں حاکم قرار پاؤں تو میں تو انہیں قتل کروں! خواہ وہ نیک و صالح ومخلص و متقی و پرہیزگار ہی کیوں نہ ہوں، اور اللہ کے حضور ان کی مغفرت و درجہ کی بلندی کی دعا کروں۔ کیونکہ بطور حاکم مجھے فتہ و فساد کے أبواب بند کرنے ہیں، کسی کی غلط فہمی و اجتہادی غلطی بھی اس میں حائل ہو گی، تو اسے بھی ہٹایا جائے گا۔ اجتہادی غلطی کا اجر وہ اللہ کے ہاں پا لیں گے۔
پس آپ لوگوں کے یہاں جہاد ختم ہو چکا
آپ میں ابھی اتنی لیاقت نہیں ہے کہ آپ ہمارے کلام کو سمجھ کر ''پس'' کہہ کر اس کا مقتضی اخذ کر سکیں!
آپ جس فساد کو ''جہاد'' کہہ رہے ہیں، ہم نہ پہلے کبھی اسے ''جہاد'' تسلیم کرتے تھے، نہ آج کرتے ہیں، اور نہ کبھی کریں گے، اللہ ہمیں استقامت دے۔ آمین!
اور آپ کے اس باطل اصول سے تو بہت سی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب لازم آئی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ولا يزالُ من أمَّتي أمةٌ يقاتِلونَ على الحقِّ۔

أنَّ الجهادَ باقٍ إلى قِيامِ السَّاعةِ۔

لَنْ يَبْرَحَ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ
۔
ہم نے جو أصول بیان کیا ہے، کہ جہاد کے لیئے اپنے مسلم حاکم کی اجازت لازم ہے، اس سے مذکورہ بالا حدیث کی تکذیب کیسے لازم آئی؟ محض الزام و دعوی نہیں، اس أصول سے مذکورہ بالا حدیث کی تکذیب لازم آنے کا استدلال و وجہ استدلال بیان کیجیئے!
اب یا تو ہم آپ کی بات کو صحیح تسلیم کر یہ مانے کہ سیکولر حکمرانوں نے اجازت نہیں دی اسلئے اس دور میں جہاد باقی نہ رہا۔ کوئی گروہ جہادی نہیں سب فسادی ہیں۔ یا پھر صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کو مانے جس میں بیان ہوا جہاد قیامت تک جاری رہے گا، امت کا ایک گروہ حق کے لیے قتال کرتا رہے گا!!!
پہلے آپ اس کی وضاحت فرما دیں، کہ ''سیکولر حکمران''آپ کسے کہتے ہیں؟ کیونکہ میں نے تو جہاد کو مسلم حاکم کی اجازت سے مشروط کیا ہے۔
کیا آپ کے کلام میں''سیکولر حکمران'' مسلمان ہیں، یا آپ ''سیکولر حکمران'' کو ''مسلم حکمران'' شمار نہیں کرتے؟ اور ''سیکولر حکمران'' کو آپ ''کافر حکران'' قرار دیتے ہیں؟
مسلم حکام کے اذن سے اب بھی جہاد جاری ہے، اور جہاد ہو رہاہے۔ اس وقت جب میں یہ مراسلہ تحریر کر رہا ہوں، جہاد کیا جا رہا ہے۔
لیکن جو محض فساد کو ''ّجہاد'' کا نام دیتے ہیں، انہیں وہ نظر نہیں آتا۔
اور اس جہاد میں ایک صورت مسلم ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کا جہاد ہے۔ جو اس وقت بھی جاری ہے۔
اسرائیل سے نارملائزیشن کرنے والے ظالموں کی اجازت کو آپ جہاد کے لئے مقید کرو گے تو پھر اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے مظلوم فلسطینی مسلمان آپ کو فتنہ گر و فسادی و "دہشت گرد مسلمان" تو لگیں گے ہی۔
اسرئیل سے ''نارملائزشن'' بھی ایک خاص موضوع ہے، اس پر بحث پھر سہی!
جہاد بہر حال حاکم کی اجازت کے مشروط ہے۔ اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیئے مظلوم فلسطینی بھی شریعت کے پابند ہیں، کسی کا ظلم اور بربریت کسی مظلوم کو شریعت سے آزاد نہیں کرتا! مظلوم بھی شریعت کا پابند ہے۔ اور جو مظلوم خود کو شریعت سے آزاد گمان کرکے اپنی نفس پستی کو اختیار کرتے ہوئے فساد برپا کرے گا، وہ مفسدین فی الأرض میں شمار ہو گا۔


(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور یہ جو مغالطہ دیا جاتا ہے کہ
جہاد کی فرضیت کے لئے یہ جعلی شرط لگانے والوں کا رد کرتے ہوئے شیخ عبد الرحمٰن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

بأي كتاب، أم بآية حجة أن الجهاد لا يجب إلا مع إمام متبع؟! هذا من الفرية في الدين، والعدول عن سبيل المؤمنين؛ والأدلة على إبطال هذا القول أشهر من أن تذكر، من ذلك عموم الأمر بالجهاد، والترغيب فيه، والوعيد في تركه

[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج: ٨، ص: ١٩٩]

یہاں شیخ رحمہ اللہ نے جہاد کے وجوب کو حکمرانوں سے مشروط کرنے کو الفرية في الدين اور العدول عن سبيل المؤمنين قرار دیا ہے۔

اسی طرح شیخ عبد الرحمٰن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ جہاد کے لئے حکمرانوں کی اجازت کی جعلی شرط کے بطلان میں دلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

والعبر والأدلة على بطلان ما ألفته، كثير في الكتاب، والسنة، والسير، والأخبار، وأقوال أهل العلم بالأدلة والآثار، لا تكاد تخفى على البليد إذا علم بقصة أبي بصير: " لما جاء مهاجراً فطلبت قريش من رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يرده إليهم، بالشرط الذي كان بينهم في صلح الحديبية، فانفلت منهم حين قتل المشركيْن، اللذين أتيا في طلبه. فرجع إلى الساحل لما سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ويل أمه مسعر حرب، لو كان معه غيره " ١، فتعرض لعير قريش - إذا أقبلت من الشام - يأخذ ويقتل، فاستقل بحربهم دون رسول الله صلى الله عليه وسلم، لأنهم كانوا معه في صلح - القصة بطولها -. فهل قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أخطأتم في قتال قريش، لأنكم لستم مع إمام؟ سبحان الله ما أعظم مضرة الجهل على أهله؟ عياذاً بالله من معارضة الحق بالجهل والباطل، قال الله تعالى: {شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ} الآية [سورة الشورى آية: ١٣] .

[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج: ٨، ص: ٢٠٠-٢٠١]
الله المستعان! اسے ہم جہالت سمجھیں یا تجاہل عارفانہ! یہ تو یہ مثال ہوئی کہ مفتی مولوی کی محفل میں ایک کم فہم نوجوان بھی بیٹھا ہوا تھا، کسی شخص نے مفتی مولوی صاحب سے سوال کیاکہ کیا مجھ پر نماز پنجگانہ کسی صورت معاف ہو سکتی ہیں، مفتی مولوی صاحب جوا ب دیتے ہیں، نہیں ! مسلمان پر کسی صورت یہ نمازیں معاف نہیں!
گھر جا کر وہ کج فہم نوجوان اپنی والدہ سے جھگڑنے لگا کہ مسلمان پر نماز کسی صورت معاف نہیں، آپ ہر ماہ ایک ہفتہ نماز نہیں پرھتیں!
اب اس کج فہم کو کون بتلائے، کہ مفتی مولوی نے مسلمان مرد کے لیئے کہا تھا، اور اس کی والدہ عورت ہیں! عورت کی نماز کے متعلق مفتی صاحب سے عورت کے متعلق فتوی طلب کیا جائے، مرد سے متعلقہ فتوی کو عورت پر چسپا کرنا جہالت ہے۔
بعین اسی طرح شیخ عبد الرحمٰن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ کا فتوی مسلم حکمرانوں کی ''اجازت کی شرط'' کے متعلق نہیں، بلکہ ''مسلم حاکم کے وجود'' سے متعلق ہے۔
مگر معاملہ یہ کہ بعض اہل بدعت قرآن و سنت اور اہل علم کا کلام بزعم خویش اپنے باطل موقف پر بطور دلائل بیان کرتے ہیں، جو حقیقت میں ان کے موقف کے موافق نہیں ہوتے، اور ان اہل بدعت کے پیروکار مکھی پر مکھی مارتے ہوئے بڑے طمطراق سے اس کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم آپ کو شیخ عبد الرحمٰن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ کا مذکورہ فتوی کا سیاق پیش کرتے ہیں:

﴿رد قول ابن نبهان أنه لا جهاد إلا مع إمام، وبيان حكم الجهاد والهجرة وموالاة المشركين﴾

قال الشيخ عبد الرحمن، رحمة الله تعالى:

بسم الله الرحمن الرحيم

من عبد الرحمن بن حسن: إلى الابن صالح، سلمه الله تعالى آمين؛ سلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

وبعد، بلغنا: أن الباز أرسلوا لابن نبهان رسالة، كتبها حمد بن عتيق، متضمنة للاستدلال بالآيات المحكمات، في تحريم طاعتهم والركون إليهم، والإشارة إلى بعض معاني الآيات الواردة في ذلك، وهو أصل من أصول الدين لا بد من معرفته والبحث عنه، وبيانه للجاهل، لا سيما الواقع فيه، تذكيراً وتحذيراً، وهذا شرع محكم، لو اجتمع على دفعه من بأقطارها من عالم وجاهل، لما قدروا على رده بحجة أصلاً.

وبلغنا: أن ابن نبهان، لما أشرف على النسخة، كتب اعتراضات وأصل فيها أصولاً، لا يدري هل سبقه إليها مبتدع أم لا؟ فلو قيل لهم: من هذا مذهبه؟ ومن قال به؟ لم يجب عن ذلك بما يصلح أن يعد جواباً. فمن ذلك فيما بلغنا عنه: أنه لا جهاد إلا مع إمام، فإذا لم يوجد إمام فلا جهاد، فيلزم على هذا أن ما يلزم بترك الجهاد من مخالفة دين الله وطاعته جائز، بجواز ترك الجهاد، فتكون الموالاة للمشركين، والموافقة والطاعة جائزة، واللازم باطل، فبطل الملزوم؛ فعكس الحكم الذي دل عليه القرآن العزيز، من أنها لا تصلح إمامة إلا بالجهاد.


ملاحظہ فرمائیں: صفحه 167 – 168 جلد 08 الدرر السنية في الأجوبة النجدية - علماء نجد الأعلام



مذکورہ بالا عبارت میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شیخ عبد الرحمٰن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ نے ابن نبھان کےاس موقف کا '' کہ اگر امام (مسلمان حاکم) کا وجود نہ ہو، تو جہاد نہیں'' اس کا رد کیا ہے۔ اور شیخ عبد الرحمٰن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ کا فتوی اس کے متعلق ہے، نہ کہ ''مسلمان حاکم کی اجازت '' سے متعلق!

اب ''الدرر السنية في الأجوبة النجدية'' میں عبد اللہ بن عبد اللطیف بن عبد الرحمن، حسن بن حسین، سعد بن حمد بن عتیق اور محمد بن عبد اللطیف رحمہ اللہ اجمعین ''مسلمان حاکم کی اجازت'' کے متعلق کیا فرماتے ہیں ، یہ بھی دیکھ لیں:
فالسبب الداعي لتحريره محض النصيحة، وتفهم حفظك الله: أن الله سبحانه وبحمده، ما أنعم على عباده نعمة أجل وأعظم من نعمة الإسلام، لمن تمسك به، وقام بحقوقه، ورعاه حق رعايته، ومن أعظم فرائض الإسلام، التي جاء بها الرسول صلى الله عليه وسلم: الجماعة، وأخبر صلى الله عليه وسلم أنه: " لا إسلام إلا بجماعة، ولا جماعة إلا بالسمع والطاعة " وهذا أمر غير خفي عليك، ولا على أحد له معرفة بفرائض الإسلام، ومن الله سبحانه وبحمده في آخر هذا الزمان - الذي اشتدت فيه غربة الإسلام، وظهر فيه الفساد في البر والبحر ـ بفضله وكرمه بهداية غالب بادية أهل نجد خصوصا رؤساؤهم، وجعل الله سبحانه وبحمده لك حظا وافرا في إعانتهم، ببناء مساجدهم ومدنهم، وفشا الإسلام في نجد جنوبا وشمالا، والله سبحانه وبحمده له حكمة، وله عناية بعباده، لا يعلمها إلا هو.

ورأينا أمرا يوجب الخلل على أهل الإسلام، ودخول التفرق في دولتهم، وهو الاستبداد من دون إمامهم، بزعمهم أنه بنية الجهاد، ولم يعلموا أن حقيقة الجهاد ومصالحة العدو، وبذل الذمة للعامة، وإقامة الحدود، أنها مختصة بالإمام، ومتعلقة به، ولا لأحد من الرعية دخل في ذلك، إلا بولايته; وقد سئل صلى الله عليه وسلم عن الجهاد، فأخبر بشروطه بقوله صلى الله عليه وسلم: " من أنفق الكريمة، وأطاع الإمام، وياسر الشريك، فهو المجاهد في سبيل الله ". والذي يعقد له راية، ويمضي في أمر من دون إذن الإمام ونيابته، فلا هو من أهل الجهاد في سبيل الله.


ملاحظہ فرمائیں: صفحه 95 – 96 جلد 09 الدرر السنية في الأجوبة النجدية - علماء نجد الأعلام

اب یہاں دیکھیں؛ ان علمائے نجد نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ حدود کا قیام، دشمن سے صلح یا جنگ، وغیرہ امام یعنی حاکم کے ساتھ خاص ہیں، اور رعایہ یعنی عوام میں سے کسی کا اس میں کوئی دخل نہیں، اور اس کے باوجود جو بزعم خویش جہاد کی نیت سے ہی سہی، ان أمور میں اپنے حاکم کے بغیر جراءت کرتے ہیں، وہ ظلم کرتے ہیں۔
انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی، اور اور کہا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کے متعلق سوال کیا گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی شروط بتلائیں۔ جس میں سے ایک امام کی اطاعت کو شمار کیا، اس کے بعد یہ علمائے نجد رحمہ اللہ اجمعین فرماتے ہیں:
والذي يعقد له راية، ويمضي في أمر من دون إذن الإمام ونيابته، فلا هو من أهل الجهاد في سبيل الله
اور جو جہاد کے معاملہ میں اپنی رائے رکھتا ہے، اور امام یعنی حاکم یا اس کے نائب کی اجازت کے بغیر جہاد کو نکلتا ہے، وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا نہیں، یعنی وہ نہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے، اور نہ اس کا یہ عمل جہاد فی سبیل اللہ !
بعین یہی بات ہم نے ہے۔

اب بتلائیے! ''الدرر السنية في الأجوبة النجدية'' کے فتوی سے تو ہمارا موقف ثابت ہوا کہ حاکم کی اجازت کے بغیر جہاد نہیں، اور جو حاکم کی اجازت کے بغیر قتال کرنے والے جہاد نہیں فساد کے کرتے ہیں اور مجاہد نہیں، بلکہ فسادی ہیں۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اور شیخ حامد بن عبداللہ العلی الکویتی سے ان لوگوں کے متعلق جو یہ گمان کرتے ہیں کہ بغیر حکمران کے جہاد نہیں ہوتا اور فلسطین و عراق کے جہاد کو فتنہ کہنے والوں کے تعلق سے سوال ہوا :

ما رأيكم فيمن زعم أن الجهاد لايكون إلا بإمام، وحتى فلسطين لابد من إذن الإمام، وفي العراق قال؛ إن جهادهم جهاد فتنة، لانه بغير إذن الإمام، وما قول العلماء في هذا الموضوع جزاكم الله خيرا؟

جس کے جواب میں شیخ حامد بن عبداللہ العلی الکویتی نے ایسے لوگوں کو جاہل قرار دیتے ہوئے فرمایا:

فهذا لايقوله إلا جاهل مطموس على بصيرته، أو واقع تحت الاكراه، لآنه قول باطل عند جميع العلماء، مردود عند جماعة الفقهاء، وأنقل لك ما ذكره في النوازل الكبرى [الجزء الثالث / ص ١١]

[فتاوى وسؤالات حول الجهاد والإمام]


اس کے علاوہ شیخ حامد العلی الکویتی نے جہاد کے لئے حکمرانوں کی شرط لگانے کو روافض کا قول قرار دیتے ہوئے فرمایا :

القول بأن الجهاد لايكون إلا مع الإمام هو قول الرافضة، أما أهل السنة فلا يعرفون هذا الشرط، إنما يشترطون إذن الإمام إن كان موجودا قائما بالجهاد الشرعي، كما يشترط إذنه في كل الأمور العامة لئلا يفتئت عليه. قال صديق خان: (الأدلة على وجوب الجهاد من الكتاب والسنة وردت غير مقيدة بكون السلطان أو أمير الجيش عادلاً بل هذه فريضة من فرائض الدين أوجبها الله على عباده المسلمين من غير تقيد بزمان أو مكان أو شخص أو عدل أو جور) [الروضة/٣٣٣]

[فتاوى وسؤالات حول الجهاد والإمام]
کون صاحب ہیں یہ؟
نجانے کس جہاں میں رہتے ہیں! اس زمین پر علماء و فقہاء نے جہاد کے لیئے حاکم کی اجازت کو شرط قرار دیا، جیسے کہ''الدرر السنية في الأجوبة النجدية'' سے چار علمائے نجد کا فتوی ابھی آپ نے پڑھا، کہ جس میں جہاد کے لیئے، حاکم کی اجازت کی شرط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو بھی بطور دلیل پیش کیا گیا؛
اور یہ صاحب کہتے ہیں یہ قول روافض کا ہے اور اہل سنت کے تمام علماء اسے مردود قرار دیتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنی زندگی قبر پر مراقبہ میں گذار کر علم سے محروم رہتے ہیں، اور کچھ لوگ اپنے وھم میں مست علم سے بیزار رہتے !
حتیٰ کہ محمد صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ کا قول بھی بزعم خویش اپنے موقف پر نقل کیا، اور اس سے بھی غلط استدلال کیا!

ہم آپ کو محمد صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ کا قول پیش کرتے ہیں:
محمد صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ کا یہ قول امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب ''الدرر البهية في المسائل الفقهية'' کی شرح ''الروضة الندية شرح الدرر البهية'' میں مرقوم ہے؛ لہٰذا پہلے ہم امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب ''الدرر البهية في المسائل الفقهية'' سے متن پیش کرتے ہیں:

الجهاد فرض كفاية، مع كل برٍّ وفاجر إذا أَذِنَ الأبوان
جب والدین اجازت دیں، تو ہر نیک وبد حاکم کے ساتھ مل کر جہاد کرنا فرض کفایہ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 50 الدرر البهية في المسائل الفقهية - محمد بن علي بن محمد بن عبد الله الشوكاني اليمني (المتوفى: 1250هـ) - مكتبة الصحابة، بطنطا

لیں جناب! ہم تو حاکم کی اجازت کی شرط بتلا رہے تھے، یہاں تو والدین کی اجازت کی شرط بھی آگئی!
خیر! یہاں دیکھیں! مسئلہ یہ زیر بحث ہے کہ ہر مسلمان حاکم کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے گا، نہ کہ صرف عادل حاکم کے ساتھ مل کر، بلکہ فاجر حاکم کے ساتھ مل کر بھی جہاد کیا جائے گا۔ ایسا نہیں کہ کوئی کہے کہ ہم تو عادل حاکم کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے، اور فاجر حاکم کے ساتھ مل کر جہاد نہیں کریں گے۔

اس کی شرح میں محمد صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مع كل بر وفاجر" لأن الأدلة الدالة على وجوب الجهاد من الكتاب والسنة وعلى فضيلته والترغيب فيه وردت غير مقيدة بكون السلطان أو أمير الجيش عادلا بل هذه فريضة من فرائض الدين أوجبها الله تعالى على عباده المسلمين من غير تقييد بزمن أو مكان أو شخص أو عدل أو جور فتخصيص وجوب الجهاد بكون السلطان عادلا ليس عليه أثارة من علم وقد يبلي الرجل الفاجر في الجهاد ما لا يبليه البار العادل وقد وجد بهذا الشرع كما هو معروف وأخرج أحمد في المسند من رواية ابنه عبد الله١ وأبو داود وسعيد بن منصور من حديث أنس قال: قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم: "ثلاث من أصل الإيمان: الكف عمن قال لا إله إلا الله لا تكفره بذنب ولا تخرجه عن الإسلام بعمل والجهاد ماض مذ بعثني الله إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال لا يبطله جور جائر ولا عدل عادل" ولا يعتبر في الجهاد إلا أن يقصد المجاهد بجهاده أن تكون كلمة الله هي العليا كما ثبت في حديث أبي موسى في الصحيحين وغيرهما قال: "سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يقاتل شجاعة ويقاتل حمية يقاتل رياء فأي ذلك في سبيل الله فقال: "من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله"
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 716 – 717 جلد 02 الروضة الندية شرح الدرر البهية - أبو الطيب محمد صديق خان بن حسن بن علي ابن لطف الله الحسيني البخاري القِنَّوجي (المتوفى: 1307هـ) - مكتبة الكوثر، ریاض

موضوع سے متعلق خلاصہ کلام یہ ہے کہ؛ جہاد کے لیئے قرآن و حدیث میں ''عادل حکمران'' کی قید وارد نہیں ہوئی، لہٰذا حاکم عادل ہو، یا فاجر، ہر مسلمان حاکم کے ساتھ مل کر جہاد فرض کفایہ ہے۔
اب بتلائیں کہ یہاں کہاں کس عبارت کن الفاظ میں ان کویتی صاحب کا مدعا محمد صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ کے کلام سے ثابت ہوتا ہے؟
یہاں تو اس بات کاشائبہ بھی نہیں کہ مسلمان حاکم کی اجازت کے بغیر جہاد جائز ہے، یہاں صرف یہی بیان ہے کے ہر مسلمان حاکم کے ساتھ مل کر جہاد فرض کفایہ ہے، خواہ وہ حاکم عادل ہو یا فاسق!
میں شدید الفاظ سے گریز کرتے ہوئے اتنا ہی کہوں گا کہ اانہوں نے اپنے وھم کے جنوں میں مست ہو کر اپنے موقف پر محمد صدیق حسن خان قنوجی کے کلام کو پیش کردیا! اور ان کے دیوانے پیروکاروں نے اس کا ڈھندورا پیٹنا شروع کر دیا!

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اب یہ اصول کہا سے وضع کر لیا آپ نے کہ ایک ملحد رافضی کو ہٹا کر پورا ملک قبضہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس کے خلاف جہاد بھی فتنہ قرار پائے گا؟؟؟
جنہیں اس بات کا بھی ادراک نہیں، قتال فی سبیل اللہ قتال میں کامیاب ہونے کی غرض سے کیا جاتا ہے، شہید ہونا مقصد نہیں ہوتا! اگر کافر حکمران کو شکست دینے اور اپنے لیئے ریاست قائم کرنے میں ناکام رہے، قتال میں شہید ہونے والوں کا نقصان علیحدہ ، اس کے بعد مسلمانوں کی صورت حال مزید ابتر اور کمزور ہوجائے گی، کافر حکمران مزید جابر ہو جائے گا!اور مسلمانوں کے لیئے فتنہ بڑھ جائے گا!
یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے مرتد حاکم کے خلاف خروج و جہاد کے لیئے، اسے شرط رکھا ہے کہ مسلمان اس کی قوت و استطاعت رکھتے ہوں۔
بی جے پی اور آر ایس ایس اس لئے کہ اس وقت وہی حکومت پر قابض ہے! کانگریس کا تو لگ بھگ خاتمہ ہو چکا ہے ہندوستان میں۔ اب بی جے پی حکومت میں ہے تو انہیں کو مینشن کریں گے کانگریس یا بریٹیش حکومت جو وہاں باقی ہیں نہ رہی انہیں مینشن کرنا بے معنی ہوگا لیکن آپ کو اس پر اعتراض کیوں ہوا جو کانگریس کو خلافت اسلامیہ سے تشبیہ دینے لگے؟ بی جے پی و سنگھیوں کے خلاف بولنے سے کانگریس کی حمایت تو لازم نہیں آتی؟؟؟
یہ تو اس وجہ سے کہا تھا کہ آپ نے بی جے پی کی حکومت کا ذکر کیا، وگرنہ حکومت اگر کانگریس کی بھی ہو، تو نفس مسئلہ میں فرق نہیں آتا! کہ بی جے پی کی حکومت کفار کی حکومت اور کانگریس کی خلافت اسلامیہ قرار پائے!
باقی یہ تو بھارت کے سیاسی مسائل ہیں، سیاست کا تو یوں ہے کہ؛
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے


(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس روایت کو آپ نے اسلام و مسلمانوں کے خلاف صف اول میں لڑنے والے فرانس، امریکا اور ہندوستان کے حربی کافروں پر چسپا کر دیا حالانکہ جو مسلسل مسلمانوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں، حکومتی سطح پر اللہ اور اس کے رسول کی گستاخیاں فریڈم آف اسپیچ کے نام پر کروا رہے ہیں آپ کے سیکولر حکمران اگر ان سے یاریاں لگاتے پھرے ان کے اتحادی بن جائے تو وہ قطعا معاہد نہیں ہو جائیں گے! بلکہ اگر واقعی کافروں سے معاہدہ ہو اور معاہد ایسے جرم سرانجام دے تو ان کا معاہدہ باقی نہیں رہتا جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرنے والے معاہد کے متعلق فرمایا : أن المعاهد الهاجي يباح دمه [الصارم المسلول على شاتم الرسول، ص : ١٠٨]
آپ نے فرانس، امریکہ اور ہندوستان کے کافروں کو حربی کافر قرار دیا، اب آپ سے حربی کافر کی تعریف پوچھی جائے گی، تو پھر آپ بے تکا فلسفہ شروع کر دیں گے!
آپ اس وھم میں مبتلا ہیں کہ آپ کو یہ اختیار ہے کہ آپ جسے چاہیں حربی قرار دیں، اور جس معاہد کا چاہیں معاہدہ فسخ کر دیں!
آپ کا اس میں کوئی اختیار نہیں! یہ اختیار محض مسلمان حاکم کا ہے۔
اور آپ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول سے بھی دلیل قائم کرنے میں غلطی پر ہیں:

شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی اسی کتاب ''كتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول'' میں فرماتے ہیں:
يبقى أن يقال: الحدود لا يقيمها إلا الإمام أو نائبه وجوابه من وجوه:
أحدها: أن السيد له أن يقيم الحد على عبده بدليل قوله صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الحدود على ما ملكت أيمانكم " وقوله: " إذا زنت أمة أحدكم فليحلدها " ولا أعلم خلافا بين فقهاء الحديث أن له أن يقيم عليه الحد مثل حد الزنا والقذف والشرب ولا خلاف بين المسلمين أن له أن يعزره واختلفوا هل له أن يقيم عليه قتلا أو قطعا مثل قتله لردته أو لسبه النبي صلى الله عليه وسلم وقطعه للسرقة؟ وفيه عن الإمام أحمد روايتان:
إحداهما يجوز وهو منصوص عن الشافعي والأخرى: لا يجوز كأحد الوجهين لأصحاب الشافعي وهو قول مالك وقد صح عن ابن عمر أنه قطع يد عبد له سرق وصح عن حفصة أنها قتلت جارية لها اعترفت بالسحر وكان ذلك برأي ابن عمر فيكون الحديث حجة لمن يجوز للسيد أن يقيم الحد على عبده مطلقا وعلى هذا القول فالسيد له أن يقيم الحد على عبده بعلمه في المنصوص عن الإمام أحمد هو إحدى الروايتين عن مالك والنبي صلى الله عليه وسلم لم يطلب من سيد الأمة بينة على سبه بل صدقة في قوله: "كانت تسبك وتشتمك" ففي الحديث حجة لهذا القول أيضا.
الوجه الثاني: أن ذلك أكثر ما فيه أنه افتئات على الإمام والإمام له أن يعفو عمن أقام حدا واجبا دونه.
الوجه الثالث: أن هذا وإن كان حدا فهو قتل حربي أيضا فصار بمنزلة قتل حربي تحتم قتله وهذا يجوز قتله لكل أحد وعلى هذا يحمل قول ابن عمر في الراهب الذي قيل له إنه يسب النبي صلى الله عليه وسلم فقال: لو سمعته لقتلته.
الوجه الرابع: أن مثل هذا قد وقع على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل المنافق الذي قتله عمر بدون إذن النبي صلى الله عليه وسلم لما لم يرض بحكمه فنزل القرآن بإقراره ومثل بنت مروان التي قتلها ذلك الرجل حتى سماه النبي صلى الله عليه وسلم ناصرا لله ورسوله وذلك أن من وجب قتله لمعنى يكيد به الدين ويفسده ليس بمنزلة من قتل لأجل معصية من زنى ونحوه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 519 – 521 جلد 02 الصارم المسلول على شاتم الرسول - تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد الله بن أبي القاسم بن محمد ابن تيمية الحراني الحنبلي الدمشقي (المتوفى: 728هـ) – رمادی للنشر، المملكة العربية السعودية

اب یہ مسئلہ باقی رہا کہ کیا حدود شرعیہ صرف حاکم یا اس کا نائب قائم کرسکتا ہے؟
اس کے کئی جواب ہیں:
وجہ اول: اول جواب یہ ہے کہ آقا اپنے غلام پر حد قائم کر سکتا ہے۔ اس کی دلیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہ کہ اپنے غلاموں پر حدود شرعیہ قائم کیا کرو۔ نیز یہ کہ ''جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو وہ اس پر حد قائم کرے۔
فقہائے حدیث کے یہاں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، مثلاً زنا کی حد، حدِ قذف اور شراب نوشی کی حد۔
اہل اسلام کے یہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ آقا اپنے غلام کی تعزیر (تادیب حد شرعی سے کم درجہ کی سزا) کر سکتا ہے، البتہ اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا آقا غلام پر قتل یا قطع ید کی ھد قائم کر سکتا ہے یا نہیں؟ مثلاً ارتداد کی وجہ سے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کے باعث اُسے قتل کرنا یا سرقہ کی وجہ سے ہاتھ کاٹنا۔ اس کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایتیں منقول ہیں:
1۔ ایک یہ کہ یہ جائز ہے۔ امام شافعی سے بھی اسی طرح منقول ہے۔
2۔ دوسری روایت یہ ہے کہ یہ جائز نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ بھی اسی طرح فرماتے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بروایت صحیحہ منقول ہے کہ انھوں نے اپنے غلام کا ہاتھ چوری کرنے کی وجہ سے کاٹا تھا۔ اسی طرح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے بسند صحیح منقول ہے کہ انھوں نے اپنی ایک لونڈی کو قتل کیا تھا جس نے جادو کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ انھوں نے یہ سزا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مشورے سے دی تھی۔ اسی طرح یہ حدیث اس شخص کے حق میں حجت ہے، جس کے نزدیک آقا مطلقاً اپنے غلام پر حد لگا سکتا ہے۔ بنابریں آقا اپنے غلام پر حد قائم سکتا ہے، جیسا کہ بصراحت امام احمد سے منقول ہے اور امام مالک رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کے آقا سے اس بات کا ثبوت نہیں مانگا تھا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی ہے بلکہ آقا کے اس قول کی تصدیق کی تھی کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی ہے۔ حدیث اس قول کے لیے بھی حجت ہے۔

وجہ دوم: اس میں زیادہ سے زیادہ بات یہ ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت کی جاتی ہے، حاکم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو شخص اس کی اجازت کے بغیر کسی پر حد واجب لگائے وہ اس کو معاف کرسکتا ہے۔

وجہ سوم: یہ اگرچہ حد شرعی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ حربی کافر کو قتل کرنے والی بات بھی ہے، تو گویا یہ ایک حربی کافر کو قتل کرنا ہے، جس کا قتل ضروری تھا اور ایسے شخص کو قتل کرنا ہر ایک لیے جائز ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ک قول کو بھی اسی پر محمول کیا جائے گا جو انھوں نے ایک راہب کے بارے میں کہا تھا، جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ''اگر میں اس کو (گالیاں دیتے) سن لیتا تو اسے قتل کر دیتا۔''

وجہ چہارم: ایسا واقعہ عہد رسالت میں بھی پیش آیا تھا، ایک منافق کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی للہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی نہ تھا، پھر قرآن مجید اترا اور اس واقعہ کی تصدیق کی۔ اسی طرح بنت مروان کو ایک آدمی نے قتل کی اتھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانام ''اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے والا'' رکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اس لیے واجب القتل ہو کہ وہ دین کو بگاڑتا اور اس میں فریب دہی کا ارتکاب کرتا ہے وہ اس آدمی کی طرح نہیں جس کو گناہ کا کام، مثلاً زنا کاری کی وجہ سے قتل کیا جائے۔

شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مندرجہ بالا تحریر میں مندرجہ ذیل أمور بیان ہوئے ہیں:
1: حدود کا نفاذ أصلاً حاکم کے ذمہ ہے،
2: حاکم کے علاوہ صرف غلام و باندی کے مالک کے، حد زنا، حد قذف اور حد خمر اپنے غلام وباندی پر نافذ کرنے پر فقہائے اہل الحدیث کا اتفاق ہے۔ اور اہل الرائے اس میں اختلاف رکھتے ہیں، کہ ان کے نزدیک تمام حدود کا نفاذ صرف حاکم کے ذمہ ہے، اور غلام و باندی پر بھی حاکم ہی حد نافذ کرنے کا مجاز ہے، ان کا مالک یہ اختیار نہیں رکھتا۔
3: غلام و باندی کا مالک اپنے غلام و باندی پرحدود سے کمتر تعزیری سزا کا نفاذ کرنے کا مجاز ہے۔ اس پر اہل اسلام کا اتفاق ہے۔
4: غلام و باندی پر قتل و قطع ید کی سزا کے نفاذ پر اہل اسلام کا اختلاف ہے، کہ آیا غلام و باندی پر ان کا مالک یہ قتل و قطع ید کی سزا نافذ کر سکتا ہے یا نہیں۔

فی زمانہ غلام و باندی کا وجود نہیں، لہذا یہ بحث تو اس وقت موضوع نہیں رہی۔
شیخ الإسلام ابن تیمیہ نے دوسری وجہ جو ذکر کی ہے، اس میں اصل بات ہے، کہ :'' وجہ دوم: اس میں زیادہ سے زیادہ بات یہ ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت کی جاتی ہے، حاکم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو شخص اس کی اجازت کے بغیر کسی پر حد واجب لگائے وہ اس کو معاف کرسکتا ہے۔''
اور اگر حاکم چاہے، تو اسے معاف نہ کرے بلکہ اسے سزا دے، چونکہ شاتم رسول کا خون مباح ہے، اس لیئے شاتم رسول کے قاتل کو قصاصاً تو قتل نہیں کیا جاسکتا، لیکن زمین پر فساد برپا کرنے کی سزا اسے دی جاسکتی ہے۔

کیونکہ اگر ہر شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے، کہ وہ شاتم رسول کو اس جرم میں قتل کردے، تو ہر وہ شخص جو اپنے تئیں، کسی کو شاتم رسول سمجھے اے قتل کرتا پھرے گا، اور مکتبہ بریلویہ کے افراد اپنے علماء کے اقوال کے تحت، تمام دیوبندیوں اور اہل الحدیث کوشاتم رسول سمجھتے ہوئے قتل کرتے پھریں گے۔
بلکہ گستاخی رسول کے جھوٹے الزام لگا کر اپنے مخالفین کوقتل کرتے پھریں گے۔

لہٰذا یہ انتہائی بیوقوفانہ سوچ ہے کہ ہر فرد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جسے شاتم رسول سمجھے اس پر قتل کی حد از خود نافذ کر دے۔
اگر یہ معاملہ ہو تو یہ لوگ تو ''الصارم المسلول على شاتم الرسول'' کے مصنف یعنی شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو بھی پا لیتے، تو انہیں گستاخ رسول سمجھتے و قرار دیتے ہوئے قتل کر دیتے۔

شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پہلے کے علماء کے اقوال پیش خدمت ہیں؛
أبو إسحاق الشیرازی اپنی کتاب المهذب في فقه الإمام الشافعي میں فرماتے ہیں:
لا يقيم الحدود على الأحرار إلا الإمام أومن فوض لأنه لم يقم حد على حر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بإذنه ولا في أيام الخلفاء إلا بإذنهم ولأنه حق لله تعالى يفتقر إلى الإجتهاد ولا يؤمن في استيفائه الحيف فلم يجز بغير إذن الإمام.
آزاد انسان پر حاکم یا حاکم کے تفویض کردہ کے بغیر حدود قائم نہیں کی جا سکتیں، کیونکہ نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہی خلفاء (خلفاء الراشدین) کے زمانے میں ان کی اجازت کے بغیر حد قائم کی گئی..........
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 341 جلد 03 المهذب في فقه الإمام الشافعي - أبو اسحاق إبراهيم بن علي بن يوسف الفيروزاباذي الشيرازي (المتوفى: 476هـ) – دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 388 جلد 05 المهذب في فقه الإمام الشافعي - أبو اسحاق إبراهيم بن علي بن يوسف الفيروزاباذي الشيرازي (المتوفى: 476هـ) – دار القلم، دمشق

اور یہی بات ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے:
‌لا ‌يجوز ‌لأحد ‌إقامة ‌الحد إلا للإمام، أو نائبه؛ لأنه حق الله تعالى. ويفتقر إلى الاجتهاد. ولا يؤمن في استيفائه الحيف، فوجب تفويضه إلى نائب الله تعالى في خلقه، ولأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقيم الحد في حياته، ثم خلفاؤه بعده.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 106 جلد 04 الكافي في فقه الإمام أحمد - أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة الجماعيلي المقدسي ثم الدمشقي الحنبلي، الشهير بابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) – دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 429 جلد 05 الكافي في فقه الإمام أحمد - أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة الجماعيلي المقدسي ثم الدمشقي الحنبلي، الشهير بابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) – دار هجر للطباعة والنشر


(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


رہی بات اس روایت میں معاہد کے قتل پر وعید کے تعلق سے تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر جو باب قائم کیا ہے اس میں واضح لکھا ہے "بَابُ إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ" یعنی کسی معاہد کو بغیر جرم کے قتل کرنے والے کا گناہ۔ یہ الفاظ دلالت التزامی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی معاہد کو کسی جرم کے سبب قتل کر دے تو اس مسلمان پر کوئی گناہ نہیں۔
معلوم نہیں کہ لوگوں نے أصول شرع و فقہ کو کچھ پڑھا اور سمجھا بھی ہوتا ہے!
بغیر علم کے اپنے تئیں، اقوال علماء کو جو کہ خود ماخوذ الشرعیہ یعنی قرآن و حدیث سے مستنبط و مقیس ہوتے ہیں، انہیں اقوال کو اصل، یعنی ماخوذ الشرعیہ بنا کر اس پر مزید استنباط و قیاس شروع کر دیتے ہیں۔
باب۔۔۔۔۔ یہ نہ قرآن ہے، اور نہ حدیث، بلکہ یہ امام بخاری کا قول ہے، جو امام بخاری نے قرآن و حدیث سے مستنبط کیا ہے۔
اور آپ نے امام بخاری کے قول کو شریعت کی اصل سمجھ کر اسی پر مفہوم مخالف کشید کرنے کی سعی کی، اور کہہ دیا کہ ''اگر کوئی مسلمان کسی معاہد کو کسی جرم کے سبب قتل کردے تو اس مسلمان پر کوئی گناہ نہیں۔''
اب کوئی پوچھے کہ اگر معاہد کا جرم چوری ہے، تو اس جرم میں اسے کوئی منچلا مسلمان اٹھ کر قتل کردے تو اس مسلمان پر کوئی گناہ نہیں؟
یا معاہد کا جرم یہ ہو کہ وہ اپنی گاڑی کسی کے دروازے کے آگے پارک کر دے، اور کوئی منچلا مسلمان اس جرم کی پاداش میں اسے اسے قتل کردے، تو ہمارے بھائی یہ فتویٰ دے دیں کہ امام بخاری کے قول کے مفہوم مخالف کے تحت اس معاہد کو بلا جرم قتل نہیں کیا، بلکہ جرم کے سبب قتل کیا ہے، لہٰذا یہ قاتل مسلمان بے گناہ ہے، اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی!
کچھ عقل کو ہاتھ مارو!

اول تو ''درست مفہوم مخالف ''کے مقبول ہونے کے بھی چنداں شروط ہیں ؛
دوم کہ قرآن و حدیث دین کی اصل ہیں، شرعی احکام کا استدلال ان سے کیا جاتا ہے،
یہ اقوال ائمہ اور محدثین کی تبویب، کب سے شرعی احکام کے ماخذ کی اصل قرار پائی ، کہ اقوال ائمہ پر تک بندی کر کے کسی شرعی مسئلہ کا حکمم دریافت کیا جائے!
میرے بھائی! مفہوم مخالف حجت ہے ، تو وہ وحی کا مفہوم مخالف حجت ہے، نہ کہ اقوال ائمہ کا مفہوم مخالف !
علوم شریعت میں علم فقہ اور أصول فقہ میں آپ کا ہا تھ کافی تنگ معلوم ہوتا ہے!
یہی گمراہی تو اہل الرائے نے اختیار کی ، کہ اقوال ائمہ کو اصل بنا کر ان پر تک بندی کرتے ہوئے دیگر مسائل کے احکام دریافت کرنے لگے۔
اس پر لطیفہ یہ کہ اگر آپ اہل الرائے کا طرز اختیار کریں، تو اہل الرائے کے ہاں مفہوم مخالف حجت ہی نہیں!
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا


(جاری ہے)
 
Last edited:
Top