126muhammad
مبتدی
- شمولیت
- اکتوبر 26، 2022
- پیغامات
- 49
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 16
اللہتعالیٰ کا فرما ن ہے:مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ![]()
![]()
![]()
—
” ابراہیم ؑ نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی، لیکن وہ مسلم اور حنیف تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے"۔
اسلام میں اپنے اپ کو مذہبی یا مسلکی لقب دینا اور کہنا میں اہل سنت والجماعت ، شیعہ یا اہل حدیث ہوں حرام ہے اس کی دلیل ہے قران حکیم کی مندرجہ بالا ایت جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ عیسائی بلکہ وہ مسلمان تھے تو قران کی اس ایت پر غور کیا جائے تو یہودی یا عیسائی لفظ غلط نہیں ہے بلکہ عیسائی یعنی عیسی علیہ السلام کو ماننے والے اور یہودی یا بنی اسرائیل تو اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے تو یہ نام تو بہت اچھے ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے ان الفاظ کا استعمال نہیں کیا اور انہیں مسلمان کہا لہذا کوئی لقب چاہے اس کے معنی مفہوم کے اعتبار سے وہ صحیح بھی ہو اور اس کے معنی اچھے ہوں پھر بھی ہم اسے اپنے عقیدے یا مسلک یا مذہب کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے ہیں اور مسلمان پابند ہیں کہ اپنے اپ کو مسلمان یا مومن کہیں
لہذا اگر کوئی شخص اپنے اپ کو مذہبی یا مسلک کی بنیاد پر بہت اچھا نام دیتا ہے مثلا کہتا ہے میں اہل حدیث ہوں میں اہل قران ہوں وغیرہ وغیرہ تو مندرجہ بلا ایت کے مطابق یہ جائز نہیں ہے
جبکہ اگر کوئی اپنے اپ کو کسی شہر یا کسی خوبی کی بنیاد پر کوئی لقب دیتا ہے تو وہ جائز ہے اس کا مذہب یا مسلک سے کوئی لینا دینا نہیں مثال کے طور پہ کوئی کہتا ہے میں فیصل ابادی ہو ،میں لاہوری ہوں یا میں قران کا بہت علم رکھنے والا ہوں اس لیے میں اہل قران ہوں تو اللہ تعالی نے بھی انبیاء کرام کو مختلف لقب دیے ہیں یعنی خلیل اللہ، کلام اللہ روح اللہ وغیرہ یہ تو جائز ہے اس کا مسلک سے کوئی لینا دینا نہیں جبکہ اپنے اپ کو کوئی مسلک یا مذہبی لقب یا ٹائٹل دینا جس کا تعلق اس کے عقیدے سے ہو یہ اسلام میں جائز نہیں ہے
رسول اللہ اور صحابہ کرام نے کبھی بھی اپنے اپ کو اہل سنت اہل حدیث شیعہ وغیرہ نہیں کہا اور نہ ہی کبھی اپنے اپ کو منافقین سے علیحدہ کرنے کے لیے کوئی امتیازی لقب اپنایا ہے لہذا اس طرح کے القاب اور اس طرح کے کام بلا شبہ جائز نہیں اللہ تعالی نے بہت ہی واضح طور پر کہا ہے اگر کوئی شخص قیامت والے دن اسلام کے علاوہ کسی اور دین کے ساتھ ائے گا تو اس کا یہ دین قبول نہیں کیا جائے گا
فرقوں کے بارے میں احادیث اور ان کے متعلق غلط فہمی
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمْرِوقَالَ: وَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیَا تِیَنَّ عَلَی اُمَّتِی کَمَا اَتَی عَلٰی بَنِی اِسْرَائِیْلَ حَذْوَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ اٰتَی اُمَّہ، عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی اُمَّتِی مَنْ یَّصْنَعُ ذٰلِکَ وَاِنَّ بَنِی اِسْرَائِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ اُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثِ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃِ کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلَّا مِلَّۃً وَّاحِدَۃً) قَالُوْا مَنْ ھِیَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ؟ قَالَ ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی))
رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَحْمَدِ وَاَبِی دَاؤُدَ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "بلاشبہ میری امت پر (ایک ایسا زمانہ آئے گا، جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسا کہ دونوں جوتے بالکل برابر اور ٹھیک ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بدفعلی کی ہوگی، تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے، جو ایسا ہی کریں گے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے، میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے، ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم )! جنتی فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو میرے اور میرےصحابہ کے طریقے پر ہوگا"۔
حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آگے یہ بھی فرمایا:
ثِنَتَانِ وَ سَبْعُوْنَ فِی النَّارِ وَ وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ ھِیَ الجَمَاعَۃِ۔
’’بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔ اور وہ الجماعۃ میں ہوگا۔‘‘
یہ حدیث سنن ابی داؤد (کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ، ۴۵۹۷) اور سنن الدارمی (کتاب السیر، باب فی افتراق ھذہ الامۃ، ۲۵۱۸) میں آئی ہے۔ عصر ِ حاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح الجامع،۲ /۳۷۵)
مندرجہ بالا حدیثوں پر غور کیا جائے تو ان میں واضح طور پر بتایا گیا کہ 72 فرقے دوزخ میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا ایک حدیث میں ہے کہ وہ رسول اللہ اور صحابہ کے طریقے میں ہوگا اور دوسری حدیث میں ہے کہ وہ بہت بڑی جماعت ہو گی
لہذا یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ ایک جماعت یا ایک فرقہ جنت میں جائے گا اپ نے یہ نہیں کہا کہ اس فرقے کا نام اہل سنت والجماعت یا اہل حدیث ہوگا تو فرقے سے مراد ہوتا جماعت یعنی لوگوں کا ایک گروہ تو وہ کون لوگ ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کے مطابق ہوں گے اس گروہ کا کوئی نام نہیں ہے اپ رسول اللہ نے یہ نہیں کہا کہ اس کا نام اہل سنت والجماعت یا اہل حدیث یا اہل قران ہوگا نہیں لہذا اپنے اپ کو نئے نئے مذہبی یا مسلکی نام دینے اور ٹائٹل جائز نہیں
تنبیہ: کچھ لوگ قران اور احادیث کے معنی مفہوم کو غلط سمجھ کر لوگوں میں فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ سخت حرام ہے عوام الناس کو چاہیے کہ ایسے جاہل لوگوں سے دور رہیں اللہ تعالی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے