لفظ "اھلِ حدیث" کی اصطلاح
اصطلاحِ میں اس سے مراد وہ لوگ تھے جوحدیث روایت کرنے، پڑھانے، اس کے راویوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس کی شرح میں مشتغل رہتے تھے، انہیں محدثین بھی کہا جاتا تھا اور وہ واقعی اس فن کے اہل سمجھے جاتے تھے؛ سواہلِ علم کی اصطلاح قدیم میں اہلِ حدیث سے مراد حدیث کے اہل لوگ تھے، اہلِ ادب، اہلِ حدیث، اہلِ تفسیر سب اسی طرح کی اصطلاحیں ہیں۔۔۔
گویا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اہل حدیث کوئی فرقہ یا جماعت نہیں ہے بلکہ بطور خاص محدثین کے لئے یہ اصطلاح رائج رہی ہے اور حقیقت میں اہل حدیث سے مراد محدثین ہیں کوئی اور نہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اہل حدیث کی جماعت محدثین کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوگئی اور نہ تو اس کے بعد کوئی اہل حدیث ہوا اور نہ قیامت تک کوئی اہل حدیث ہوگا۔
اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اہل حدیث محدثین سے پہلے بھی تھے گو کہ انہوں نے اس وقت یہ لقب اختیار نہیں کیا تھا اور محدثین کے بعد قیامت تک اہل حدیث رہیں گے۔کیونکہ اہل حدیث ایک جماعت اور فرقہ ہے اور محدثین اہل حدیث جماعت اور اہل حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔
اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔
اس کا مطلب ہے کہ اہل حدیث فرقے میں صرف محدثین نہیں بلکہ عام عوام بھی داخل ہے کیونکہ ان کا منہج و مذہب بھی وہی ہے جو محدثین کا تھا۔ اہل حدیث روز اوّل سے ہیں اور قیامت تک رہیں گے اس کے ثبوت میں یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَذَلِكَ "، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ وَهُمْ كَذَلِكَ..
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا کوئی ان کا نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم آوے ( یعنی قیامت ) اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔(صحیح مسلم)
سب کے نزدیک اس گروہ سے مراد اہل حدیث ہیں۔ دیکھئے:
1- عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میرے نزدیک وہ اہل حدیث ہیں"(شرف أصحاب الحدیث، ص:61).
2- یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:"اگر وہ اہل حدیث نہیں ہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ کون ہیں"(شرف اہل الحديث، ص:59).
3- علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"حدیث میں مذکورہ گروہ؛ جو حق پر غالب رہے گا، وہ میرے نزدیک اہل حدیث ہیں"(فتح البخاری شرح صحیح البخاری:13/294).
4- امام بخاری رحمہ اللہ اس طائفہ منصورہ کے بارے میں فرماتے ہیں:" یعنی اہل حدیث ہیں"(الحجة في بيان المحجة:1/246).
5- امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" اگر وہ اہل حدیث نہیں ہیں تو پھر مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون ہیں"(شرف اہل الحدیث، ص:14).
6- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" اہل حدیث وہ لوگ ہیں: جو قرون ثلاثہ میں سے سلف ہیں، اور خلف میں سے جو ان کی راہ پر چلیں"(مجموع الفتاوی:6/355).
یہ تمام حوالہ جات اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ اہل حدیث ایک جماعت، گروہ اور فرقہ ہے جو قیامت تک رہے گا جبکہ اگر اہل حدیث سے مراد صرف محدثین لیا جائے تواس طرح کا احادیث کا انکار کرنا پڑے گا۔پس یہی بات آپ کے دعویٰ کو باطل کردیتی ہے۔