• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
مسند حمیدی کا اردو ترجمہ اس کتاب سے لیا گیا ہے۔
مسند حمیدی کا عربی متن شاملہ میں یہاں پر دیکھیں۔
ترقيم ، تخريج و تحكيم عربي نسخے كے مطابق ہے جو کہ حسین سلیم اسد درانی صاحب نے کی ہے ۔ یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔اضافی تخریج کے لئے سے برنامج خادم حرمین الشریفین سے بھی مدد لی گئی ہے ۔




أَحَادِيثُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مسند سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

1- اسماء بن حکم بن فزاری بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کوئی حدیث سنتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے مطابق مجھے اس جو نفع دینا ہوتا تھا اللہ تعالیٰ مجھے وہ نفع دے دیتا تھا ، اور جب کوئی دوسرا شخص مجھے کوئی حدیث سناتا تھا ، تو میں اس سے حلف لیتا تھا ، جب وہ میرے سامنے حلف اٹھالیتا ، تو میں اس کی بات کی تصدیق کردیتا تھا ۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے حدیث سنائی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے سچ بیان کیا وہ وہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ، جو بھی بندہ کس گناہ کا ارتکاب کرے اور پھر اٹھ کر وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعت نماز ادا کرے، پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کردیتا ہے ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : یہ روایت ایک اور سند کے ہمراہ اس کی مانند منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص نیکی حاصل کرنے کے کوشش کرے
(راوی کہتے ہیں:) یعنی وہ نماز ادا کرے۔

[FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Traditional Arabic, Times New Roman](إسناده صحيح، أخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ 2 / 389، برقم: 623 ، وأبو يعلى فى مسنده برقم: 1، 11، 12، 13، 14،15، وأحمد فى مسنده 1 / 3، برقم: 2 ، 1 / 22، برقم: 48، ، 1 / 22، برقم: 49، 1 / 24، برقم: 57)[/FONT]

2-اوسط بجلي نے حمص كے منبر پر يه بات بيان کی وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ، تو رونے کی وجہ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آواز حلق میں اٹک گئی پھر انہوں نے دوبارہ بات شروع کرنا چاہی تو ان کی آواز پھر اٹک گئی ۔ پھر انہوں نے یہ بات بیان کی : میں نے گزشتہ سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: تم لوگ اللہ تعالیٰ سے معافی اور عافیت مانگو، کیونکہ کسی بھی بندے کو یقین کے بعد کوئی ایسی چیز نہیں دی گئی ، جو عافیت سے بہتر ہو ۔
[إسناده صحيح، أخرجه أبى يعلى الموصلي فى المسنده : 08، 49، 74، 75، 86، 87، 121، 123، 124، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 950، 952، 5734، وأحمد فى "مسنده" 1 / 5، برقم: 5، 1 / 6، برقم: 6]

3-قیس بن ابوحازم بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر انہوں نے یہ بات بیان کی : اے لوگو ! تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو ۔
”اے ایمان والو! تم پر اپنی فکر لازم ہے اگر تم ہدایت یافتہ ہو ، تو جو شخص گمراہ ہے ، وہ تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچائے گا۔“ (5-المائدة:105)
(سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ) ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”لوگ جب ظالم کو دیکھیں گے اور اس کے ہاتھوں کو نہیں پکڑیں گے تو عنقریب ان سب لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا ۔“
(إسناده صحيح، أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“:132، 131، 130، 129، 128، صحیح ابن حبان: 304، 305)

4- اسماء بن حکم فزاری سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : جب میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کوئی حدیث سنتا تھا ، تو اللہ تعالیٰ کو جو منظور ہوتا تھا وہ اس حدیث کے ذریعے مجھے نفع عطا کردیتا تھا ، لیکن جب کوئی دوسرا شخص مجھے کوئی حدیث سناتا تھا ، تو میں اس سے حلف لیا کرتا تھا ، جب وہ میرے سامنے حلف اٹھالیتا ، تو میں اس کی بات کی تصدیق کردیتا تھا ۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ حدیث سنائی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سچ بیان کیا۔ انہوں نے یہ بات بیان کی کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو بھی بندہ کسی گناہ کا ارتکاب کرے اور پھر وضو کرے اور چھی طرح وضو کرے۔“
یہاں پر مسعر نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں : ”پھر وہ نماز ادا کرے۔“
جبکہ سفیان نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیئے ہیں : ”پھر وہ دو رکعت نماز ادا کرے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے ، تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے ۔“
(إسناده صحيح، أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 12-15، صحیح ابن حبان : 623)

5- ابوسعید مقبری بیان کرتے ہیں : انہوں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، جب بھی کسی حدیث بیان کرنے والے نے مجھے کوئی ایسی حدیث سنائی جو میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نہ سنی ہو ، تو میں اسے یہ ہدایت کرتا تھا کہ اللہ کے نام کی قسم اٹھائے کہ ان نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ بات سنی ہے۔ صرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا نہیں کرتا تھا ،کیونکہ وہ غلط بیانی نہیں کرتے تھے ۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بات بتائی کہ انہوں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ، جب کس شخص کو کوئی ایسا گناہ یاد آئے جس کا ارتکاب اے نے کیا ہو ، تو جب اسے اپنا گناہ یاد آئے اس وقت اگر وہ اٹھ کر وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرلے پر دو رکعت نماز ادا کرے ، پھر اپنے اس گناہ کی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے، تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے ۔
(إسناده ضعيف ، والمتن صحيح انظر حديث السابق)

6- ابوبرزہ بیان کرتے ہیں: میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا وہ اپنے ساتھیوں میں سے ایک صاحب پر ناراضگی کا اظہار کررہے تھے میں نے دریافت کیا : اہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ! یہ کون شخص ہے، جس پر آپ ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : تم اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟ میں نے جواب دیا : میں اس کی گردن اڑا دیتا ہوں ۔
راوی کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! میں نے جو کہا تھا اس بات نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غصے کو ختم کردیا پھر انہوں نے ارشاد فرمایا : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کسی کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ
(اسکی ناراضگی کی وجہ سے کسی کو قتل کیا جائے) ۔
(إسناده صحيح، أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 79، 80، 81، 82)

7-اوسط بن اسماعیل بجلی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں : جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: گزشتہ سال نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ کھڑے ہوئے گھے ، پھر وہ (یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) رونے لگے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تم پر سچائی اختیار کرنا لازم ہے ، کیونکہ وہ نیکی کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ دونوں جنت میں ہوں گی اور تم پر جھوٹ سے بچنا لازم ہے ، کیونکہ وہ گناہوں کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ دونوں جہنم میں ہوں گے ۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو ، کیونکہ کسی بھی بندے کو یقین کے بعد ایسی کوئی چیز نہیں دی گئی ، جو عافیت سے زیادہ بہتر ہو ۔“
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی : ”آپس میں لاتعلقی اختیار نہ کرو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو ، ایک دوسرے پر غصہ نہ رکھو ، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اللہ کے بندے اور بھائی ، بھائی بن کے رہو ۔“

(إسناده صحيح، أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 121، صحیح ابن حبان: 5734)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مسند سیدنا عمر رضی اللہ عنہ

8- ابوعبید بیان کرتے ہیں: میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید کی نماز میں شریک ہوا انہوں نے خطبہ دینے سے پہلے نماز ادا کی پھر یہ بات بیان کی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں کا روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ عید الفطر کا دن اور عید الاضحیٰ کا دن، جہاں تک عید الفطر کے دن کا تعلق ہے ، تو یہ ایک ایسا دن ہے ، جب تم روزے رکھنے ختم کردیتے ہو ،تو اس دن تم کھاؤ پیو گے۔ جہاں تک عید الاضحیٰ کے دن کا تعلق ہے ، تو اس دن تم اپنی قربانی کا گوشت کھاؤ۔
راوی کہتے ہیں: پھر میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں عید کی نماز میں شریک ہوا تو اس دن جمعہ بھی تھا انہوں نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی پھر یہ بات بیان کی: آج وہ دن ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے دو عیدیں اکٹھی کردی ہیں ، تو یہاں نواحی علاقوں میں رہنے والے جو لوگ موجود ہیں ان میں سے اگر کوئی شخص واپس جانا چاہے ، تو ہم اسے اجازت دیتے ہیں اور جو شخص ٹھہرنا چاہے ، وہ ٹھہر جائے۔
راوی کہتے ہیں: پھر میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں عید کی نماز میں شریک ہوا تو انہوں نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی اور یہ بات ارشاد فرمائی: کوئی بھی شخص اپنی قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ ہرگز نہ کھائے۔
● امام ابوبکر حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: محدثین نے تو یہ کلمات سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ”مرفوع“ حدیث کے طور پر روایت کیے ہیں ، تو سفیان بولے: میری یاداشت کے مطابق یہ روایت ”مرفوع“ حدیث کے طور پر منقول نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ روایت ”منسوخ“ ہے۔

(إسناده صحيح، أخرجه البخاري 5571، 5572، 5573، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 150، 232 وابن حبان: 3600)

9- عبداللہ بن سرجس بیان کرتے ہیں: میں نے ”آگے سے کم بالوں والے“ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ حجر اسود کے پاس آئے انہوں نے اس کا بوسہ لیا پھر وہ بولے: ”اللہ کی قسم! میں یہ بات جانتا ہوں کہ تم ایک پتھر ہو تم کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے اگر میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا ، تو میں تمہیں بوسہ نہ دیتا۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 1597، ومسلم: 1270، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 189 وابن حبان: 3821، 3822)

10- معدان بن ابوطلحہ الیعمری سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ تم لوگ ان دو درختوں ۔ ( سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مراد ، بو دار درخت پیاز اور لہسن تھے) کی پیدوار کھاتے ہو۔ اگر تم نے ضرور ایسا کرنا ہے تم پاکا کر ان کی بو کو ختم کردو پھر انہوں کھاؤ ، کیونکہ مجھے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات یاد ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بو محسوس ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں حکم دیتے تھے ، تو اسے ”بقیع“ کی طرف نکال دیا جاتا تھا ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه مسلم 567،وأبو يعلى فى ”مسنده“:184، 256، وفي صحيح ابن حبان: 2091)

11- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول ہے اس میں حصین نامی راوی نے معدان نامی راوی کا تذکرہ نہیں کیا ۔
(إسناده صحيح، وانظر حديث سابق، وحصين هو ابن عبدالرحمن)

12- حضرت مالک بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں ایک سو دینار لے کر آیا میں کہ میں ان کے ذریعے بیع صرف کرنا چاہتا تھا ، تو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بولے : ہم بیع صرف کرنا چاہتے ہیں تم انتظار کرو کہ ہمار خزانچی ”غابہ“ سے آجائے ۔ انہوں نے مجھ سے ایک سو دینار وصول کرلئے تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: تم اس سے الگ نہ ہونا ، کیونکہ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ، چاندی کے عوض میں سونے کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو ۔
گندم کے عوض گندم کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو ۔ جو کے عوض جو کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو ۔ کھجور کے عوض کھجور کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو ۔
راوی کہتے ہیں: جب زہری آئے ، تو انہوں نے اس کلام کو نقل نہیں کیا ۔
ویسے میں نے زہری کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے مالک بن اوس کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”چاندی کے عوض میں سونے کا لین دین سود ہے ، ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو ۔ گندم کے عوض گندم کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ جو کے عوض جو کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو ۔ کھجور کے عوض کھجور کا لین دین سود ہے مسوائے اس کے جو دست بدست ہو ۔ “
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے اس بارے میں منقول احادیث میں یہ روایت سب سے زیادہ مستند ہے ۔
سفیان کی مراد یہ تھی کہ ” بیع صرف “ جو روایت منقول ہیں ۔

(إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 2134، ومسلم : 1586، وأبو يعلى فى ”مسنده“:149، 208، 209، وفي صحيح ابن حبان: 5013)

13- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کی سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ شراب فروخت کرتے ہیں ، تو وہ بولے : اللہ تعالیٰ سمرہ کو برباد کرے کیا اس کو اس بات کا پتہ نہیں ہے؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے :
” اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے کہ جب ان کے لئے چربی کو حرام قرار دیا گیا ، تو انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا ۔ “ یعنی انہوں نے اسے پگھلا دیا ۔

(إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 2223، ومسلم : 1582، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 200، وفي صحيح ابن حبان:4938، 6253)

14- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر اپنے ہاتھ کے ذریعے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے یعنی اپنے ہاتھ کو بائیں طرف اور دائیں طرف حرکت دیتے ہوئے، یہ کہتے ہوئے سنا: عراق میں ہمارے ایک چھوٹے اہل کار نے مسلمانوں کے مالِ فے میں شراب اور خنزیر کی قیمت بھی خلط ملط کردی ہے ، حالانکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے :
” اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے ان کے لئے چربی کو حرام قرار دیا گیا ، تو انہوں نے اسے پگھلا کر اسے فروخت کردیا ۔ “
راوی کہتے ہیں: یعنی انہوں نے اسے پگھلا دیا ۔

(إسناده ضعيف لانقطاعه، وانظر حديث سابق)

15- امام مالک بن انس نے زید بن اسلم سے سوال کیا ، تو زید نے بتایا : میں نے اپنے والد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ،، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے ، میں نے اپنا ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں (جہاد میں حصہ لینے کے لیے) دیا پھر بعد میں ، میں نے اس گھوڑے کو فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا میں اسے خرید لوں؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اسے نہ خریدو اور تم اپنی صدقہ کی ہوئی چیز کو واپس نہ لو ۔
(إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 1490، ومسلم : 1620، وأبو يعلى فى ”مسنده“:166، 225، 255 ، وفي صحيح ابن حبان: 5123، 5125)

16- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تھا یا شاید اس کی اولاد میں سے کسی جانور کو فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تھا ۔
(إسناده صحیح، وانظر حديث سابق)

۔۔۔جاری ہے
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
17- سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”حج اور عمرے کو آگے پیچھے کرو، کیونکہ ان دونوں کو آگے پیچھے کرنا زندگی میں اضافہ کرتا ہے غربت اور گناہوں کو ختم کردیتا ہے ، جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو ختم کردیتی ہے ۔“
سفیان کہتے ہیں: یہ روایت عبدالکریم نامی راوی نے عبدہ نامی راوی کے حوالے سے اور انہوں نے عاصم کے حوالے سے بیان کی تھی ۔
جب عبدہ آئے ، تو ہم اس روایت کے بارے میں دریافت کرنے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو انہوں نے بتایا : عاصم نے یہ روایت مجھے سنائی ہے اور عاصم بھی یہاں موجود ہیں یعنی اسی شہر میں ہیں ، تو ہم لوگ عاصم کے پاس گئے اور ان سے روایت کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے یہ روایت اسی طرح ہمیں سنائی ۔
پھر اس کے بعد میں نے انہیں سنا کہ ایک مرتبہ انہوں نے اس روایت کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تک ”موقوف“ روایت کے طور پر بیان کیا اور ایک مرتبہ انہوں نے اس کی سند میں اپنے والد کا تذکرہ نہیں کیا ۔
تاہم اکثر اوقات وہ اس روایت کو عبداللہ بن عامر کے حوالےسے وہ ان کے والد کے حوالے وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اور وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے تھے ۔
سفیان کہتے ہیں : بعض اوقات ہمارے سامنے یہ الفاظ بھی بیان نہیں کرتے تھے : ”یہ دونوں زندگی میں اضافہ کرتے ہیں ۔“
تو ہم ان کلمات کو حدیث میں بیان نہیں کرتے ہیں اس اندیشے کے تحت کہ کہیں وہ لوگ اس کے ذریعے استدلال نہ کریں ۔ سفیان کی مراد وہ لوگ تھے جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں ، حالانکہ اس روایت میں ان لوگوں کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ۔

( انظر تعليقنا على الحديث 3609 أبو يعلى فى ”مسنده“: 292/6)

18- ابووائل شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں : میں اور مسروق، صبی بن معبد کے پاس گئے تاکہ ان سے اس حدیث کے بارے میں گفتگو کریں ، تو صبی بولے : میں ایک عیسائی شخص تھا میں نے اسلام قبول کیا میں حیج کرنے کے ارادے سے روانہ ہونے لگا، جب میں قادسیہ پہنچا تو وہاں میں نے حج اور عمرے دونوں کو ساتھ کرنے کا احرام باندھا (یا تلبیہ پڑھا) ۔
سلمان بن ربعیہ اور زید بن صحان نے مجھے سنا، تو وہ بولے : یہ شخص اپنے گھر کے اونٹ سے زیادہ گمراہ ہے ۔
ان کے ان کلمات کی وجہ سے گویا میرے اوپر پہاڑ کا وزن آگیا میری ملاقات جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں اس بارے میں بتایا تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان دونوں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں کو ملامت کی پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور بولے: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہے ۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج اور عمرہ اکھٹے ادا کیے تھے ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے درست قرار دیا تھا ۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا تھا ۔

(إسناده صحيح، واخرجه أحمد 25/1، وابن ماجه : 2970، وأبوداود:1799، والنسائي : 146/5-147-148)

19- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشا فرماتے ہوئے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ”وادی عقیق“ میں موجود تھے ۔
”گزشتہ رات میرے پروردگار کا فرستادہ میرے پاس آیا اور بولا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک وادی میں نماز ادا کیجئے اور یہ کہیے عمرہ ، حج میں ہے
(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ساتھ عمرہ کرنے کا بھی تلبیہ پڑھئے) ۔“

(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1534 ، صحيح ابن حبان: 3790 , وأحمد 24/1)

20- عاصم بن عمر بن خطاب اپنے والد کے حوالے سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جب رات اس طرف سے آجائے اور دن اس طرف سے رخصت ہوجائے اور سورج غروب ہوجائے، تو روزہ دار شخص روزہ کھول لے۔“
(إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 1954، ومسلم : 1100، وأبو يعلى فى ”مسنده“:257، 240 ، وفي صحيح ابن حبان: 3513)

21- ابن سعدی بیان کرتے ہیں : وہ ”شام“ سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا : مجھے پتہ چلا ہے تم کوئی سرکاری فرائض انجام دیتے رہے ہو اور جب تمہیں تنخواہ دی جانے لگی ، تو تم نے اسے قبول نہیں کیا؟ میں نے جواب دیا : جی ہاں میرے پاس گھوڑے ہیں ۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”میرے پاس غلام ہیں اور میں اچھی حالت میں ہوں ۔“ تو میں یہ چاہتا ہوں کہ میر تنخواہ مسلمانوں کے لیے صدقہ ہوجائے ، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ایسا نہ کرو ، کیونکہ جو ارادہ تم نے کیا ہے اس طرح کا ارادہ ایک مرتبہ میں بھی کیا تھا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مجھے کچھ عطا کرتے تھے ، تو میں یہ گزارش کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اسے دے دیں جس کو مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو ۔
ایک مرتبہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کی : آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اسے عطا کردیجئے جسے مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عمر ! اللہ تعالیٰ مانگے بغیر اور تمہاری دلچسپی ظاہر کیے بغیر اس مال میں سے ، جو کچھ تمہیں عطا کرتا ہے اسے حاصل کرلو اور اس کے ذریعے سے اپنے مال میں اضافہ کرو، اسے صدقہ کرو اور جو مال ایسا نہ ہو ، تم اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگاؤ ۔“

( إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 7163، صحيح ابن حبان: 3405 ، وصححه ابن خزيمة: 2365، وأحمد: 17/1، وعبدالرزاق فى المصنفه: 20045)

22- مالک بن اوس بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے : بنو نضیر کی زمینیں وہ ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مال فے کے طور پر عطا کی تھیں ۔ مسلمانوں نے ان کے لیے گھوڑے نہیں دوڑائے تھے سواریاں نہیں دوڑائیں تھیں یہ صرف نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھیں ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمدن میں سے اپنے اہل خانہ کے سال بھر کا خرچ حاصل کرتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا اسے گھوڑوں اور اسلحے کے لئے ، یعنی اللہ کی راہ میں تیاری کے لیے استعمال کرتے تھے ۔
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نے اس روایت میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں : ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے سال بھر کا خرچ روک لیتے تھے ۔“

(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجهاد 4290، ومسلم فى الجهاد والسير 1757، وأبو داود فى الخراج 2965، والترمذي فى الجهاد 1719، والنسائي فى قسم الفيء 7 / 132 ، وفي الكبرى فى التفسير 484/6 برقم 11576،ولتمام تخريجه انظر وأبو يعلى فى ”مسنده“: 2، 4، وصحيح ابن حبان 6357، 6608، وأحمد 25/1 ، وابن حبان فى صحيحه 6357، من طريق سفيان، بهذا الإسناد وأخرجه أحمد 25/1 )

23- ابوعجفاء سلمی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : خبردار! تم لوگ عورتوں کے مہر زیادہ مقرر نہ کرو، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں عزت افزائی کا ، یا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تقویٰ کا ذریعہ ہوتی ، تو تم میں سے زیادہ لائق تم میں سے زیادہ حقدار نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔
میرے علم کے مطابق نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج میں سے جس خاتون کے ساتھ بھی شادی کی ، یا اپنی صاحبزادیوں میں سے جس صاحبزادی کی بھی شادی کی ، ان میں سے کسی کا مہر ”بارہ اوقیہ“ سے زیادہ نہیں تھا ، لیکن آج تم میں سے کوئی ایک شخص اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے دل میں اس عورت کے لیے عداوت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہتا ہے : تمہاری وجہ سے مجھے پریشانی اٹھانا پڑی ہے ۔
راوی کہتے ہیں: میں ایک نوجوان شخص تھا مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ ”علق القربہ“ سے کیا مراد ہے ۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: دوسری بات یہ ہے کہ تم لوگ کسی جنگ میں قتل ہوجانے والے شخص کے بارے میں یہ کہتے ہو فلاں شخص شہادت کی موت مارا گیا ہے یا فلاں شخص شہادت کی موت مرا ہے ، حالانکہ ہوسکتا ہے اس نے اپنی سوری کے جانور پر بوجھ لادا ہوا ہو ، یا وہ سونے اور چاندی کو لے کر تجارت کرنے جارہا ہو، تم لوگ یہ بات نہ کہو، بلکہ تم یوں کہو، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
(راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : ” جو شخص اللہ کی راہ میں قتل ہوگا وہ جنت میں جائے گا ۔ “
سفیان کہتے ہیں: ایوب نامی راوی ہمیشہ اس روایت کے الفاظ میں اسی طرح شک کا اظہار کرتے تھے ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : اگر حماد بن زید نے بھی اس روایت کو انہی الفاظ میں نقل کیا ہے ، پھر تو ٹھیک ہے ورنہ یہ روایت محفوظ نہیں ہے ۔
-
(إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه في موارد الظمآن 184/4-185 برقم 1259، وصحيح ابن حبان برقم 4620 )

24- عبید اللہ بن ابویزید بیان کرتے ہیں : میرے والد نے مجھے یہ بات بتائی ہے ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بنوزہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کو پیغام بھیج کر اسے بلوایا وہ ہمارے محلے میں رہتا تھا اس نے زمانہ جاہلیت پایا ہوا تھا ۔ میں اس بزرگ کے ساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس وقت حطیم میں موجود تھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے زمانہ جاہلیت میں پیدا ہونے والی (ناجائز اولاد کے بارے میں ) دریافت کیا ، تو وہ بزرگ بولا: جہاں تک نطفے کا تعلق ہے ، تو وہ فلاں شخص کا تھا جہاں تک پیدائش کا تعلق ہے ، تو وہ فلاں شخص کے فراش پر ہوئی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بولے : تم نے ٹھیک کہا ہے ، لیکن نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فراش کے حق میں فیصلہ دیا ہے ۔ جب وہ عمر رسیدہ شخص واپس مڑگیا ، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے بلایا اور دریافت کیا : تم مجھے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بارے میں بتاؤ ؟ اس نے بتایا : قریش خانۂ کعبہ کی تعمیر کرکے نیکی حاصل کرنا چاہتے تھے ، لیکن وہ اس کو بنانے سے عاجز ہوگئے، ان کے پاس (ساز و سامان) کم ہوگیا تو انہوں نے حطیم والی جگہ کا کچھ حصہ چھوڑ دیا ۔ تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے سچ کہا ہے ۔
( إسناده صحيح، وأخرجه ازرقي فى أخبار مكة 158/1، والبيهقي فى المعرفة السنن والآثار 238/7 برقم 9920)

۔۔۔جاری ہے
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
25- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے : بے شک اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ہمراہ معبوث کیا ہے اس نے ان پر کتاب نازل کی ، تو ان پر جو چیز نازل ہوئی اس میں ”رجم“ سے متعلق آیت بھی تھی ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنگسار کروایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی سنگسار کروایا ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : میں نے یہ روایت طویل روایت کے طور پر زہری سے سنی تھی ، اس وقت میں نے اس میں سے کچھ چیزیں یاد کرلیں لیکن یہ حصہ اس میں شامل ہے ، جسے میں نے اس دن یاد نہیں کیا تھا ۔

( إسناده صحيح، وأخرجه البخاري : 6829، 6830، ومسلم : 1691وابن ماجه : 2553، وعبدالرزاق برقم 13329، من طريق معمر، بهذا الإسناد، ومن طريق عبدالرزاق أخرجه أحمد 47/1، والترمذي فى الحدود 1432، وأخرجه مالك فى الحدود 8، ، والدارمي: 179/2 ، والبيهقي 212/8)

26- سفیان کہتے ہیں : ہم ابن جواز کے گھر زہری کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو وہ بولے : اگر تم لوگ چاہو تو میں تمہیں بیس حدیثیں سناتا ہوں اور اگر تم چاہو تو میں تمہیں ”سقیقہ“ سے متعلق حدیث سناتا ہوں ۔ (سفیان کہتے ہیں) میں حاضرین میں سے سب سے کم سن تھا اس لیے میں اس بات کا خواہش مند تھا کہ وہ طویل حدیث نہ سنائیں لیکن حاضرین نے کہا آپ ہمیں ”سقیقہ“ سے متعلق حدیث سنائیں۔
تو انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ کے حوالے سے سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی جس میں سے کچھ چیزیں میں نے یاد کرلیں اور اس روایت کا بقیہ حصہ اس کے بعد معمر نے مجھے سنایا تھا ۔

(إسناده صحيح، وانظر حديث سابق )

27- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: انہوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا : وہ کہتے ہیں : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ”تم لوگ مجھے اس طرح نہ بڑھا دینا جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کو بڑھا دیا تھا میں (اللہ ) کا بندہ ہوں ، تو تم لوگ یوں کہو اس کے بندے اور اس کے رسول ۔“
(إسناده صحيح، أخرجه البخاري 3445، أخرجه البغوي فى شرح السنة 246/13 برقم 3681، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 153، وعبدالرزاق: 20524، والبيهقي فى دلائل النبوة : 498/5)

28- علقمہ بن وقاص لیثی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے سنا: وہ کہتے ہیں : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشا فرماتے ہوئے سنا ہے : ”اعمال (کی جزا)کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی جزا ملے گی جو اس نے نیت کی ہوگی ، تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شمار ہوگی اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی تاکہ وہ اسے حاصل کرلے یا کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے ہوگی ، تو اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہوگی ، جس کی طرف نیت کرکے اس نے ہجرت کی تھی ۔“
(إسناده صحيح، أخرجه البخاري 1، 2529، والبيهقي : 341/7، والقضاعي فى مسند الشهاب : 1172، ومسلم : 1907، وابوداود : 2201)

29- معدان بن طلحہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں : انہوں نے منبر پر یہ بات ارشاد فرمائی : میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک مرغ نے تین مرتبہ ٹھونگا مارا ہے (یہاں روایت کے الفاظ میں راوی کو شک ہے) میں نے سوچا: کوئی عجمی(مجھے شہید کردے گا) میں اپنے بعد (نئے خلیفہ کے انتخاب) کا معاملہ ان چھ افراد کو سونپ کر چارہا ہوں کہ جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان حضرات سے راضی تھے یہ حضرات عثمان، علی ، زبیر، طلحہ، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم ہیں ، تو جس شخص کو خلیفہ منتخب کرلیا جائے وہی خلیفہ شمار ہوگا ۔
( إسناده صحيح، أخرجه مسلم 567، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 184، 205، 237، 256، وفي صحيح ابن حبان: 2091 )

30- سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کچھ نمازیں ادا کیں لیکن وہ ان کے بعد لوگوں سے ملاقات کے لئے نہیں بیٹھے ۔ سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ان کے دروازے پر آیا میں نے کہا: اے یرفا ! (یہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خادم تھا) کیا امیر المؤمنین بیمار ہیں؟ ااس نے جواب دیا : امیر المؤمنین بیمار تو نہیں ہیں۔
(سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) میں وہاں بیٹھ گیا اسی دوران سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ وہاں آگئے ، تو وہ بھی وہاں بیٹھ گئے ۔ یرفا باہر آیا ، تو بولا : اے ابن عفان ! اے ابن عباس ! آپ آئیے تو ہم لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ان کے سامنے مال کے کچھ ڈھیر رکھے ہوئے تھے اور ہر ڈھیر کے ساتھ برتن بھی رکھا ہوا تھا ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے : میں نے اہل مدینہ کا جائزہ کیا تو میں نے تم دونوں کو ایسا پایا، جن کے خاندانوں کے زیادہ افراد یہاں موجود ہیں ، تو آپ لوگ اس مال کو حاصل کرکے تقسیم کریں جو بچ جائے وہ واپس کردیں ، تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ ملا کر جو کچھ آیا تھا وہ لے لیا لیکن میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا میں نے کہا : اگر یہ کم ہوا تو آپ ہمیں اور دیں گے ؟
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے : سخت ترین چیز کا ٹکڑا ہے۔
(راوی کہتے ہیں:) اس سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ کا پتھر ہے (یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے والد کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے ان کی تعریف کی کہ یہ اپنی جرأت میں اور صحیح رائے پیش کرنے میں اپنے والد کی مانند ہیں) ۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بولے: کیا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس چیز کی کوئی قدر نہیں ہوگی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب
«كِدْ» کھایا کرتے ۔
میں نے عرض کی: جی ہاں ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ بات قابل قدر ہے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات نصیب ہوتیں ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اس سے مختلف ہوتا جو آپ کا ہے ، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے اور بولے : پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کرنا تھا، تو میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کھانا تھا، اور ہمیں بھی کھانے دینا تھا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے ، یہاں تک کہ ان کی پسلیاں حرکت کرنے لگیں ، پھر وہ بولے : میری یہ خواہش ہے کہ میں اس معاملےسے برابری کی بنیاد پر نکل جاؤں نہ مجھے کچھ ملے نہ میرے ذمہ کچھ لازم ہو ۔
( إسناده صحيح، وهو موقوف، وأخرجه البزار فى البحر الزخار 326/1 برقم 209 وفي كشف الأستار: 3664، وابن سعد فى الطبقات: 207/1/3)

31- طارق بن شہاب کہتے ہیں : یہودیوں سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر یہ آیت ہم لوگوں پر نازل ہوئی ہوتی ۔
”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کیے دین ہونے سے راضی ہوگیا ۔“
(5-المائدة:13) تو ہم اس دن کو عید کا دن قرار دیتے ۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یہ بات جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی ؟ یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی اور جمعہ کے دن میں نازل ہوئی تھی ۔

( أخرجه البخاري 7268، ومسلم : 3017، والترمذي 3046)

32- سلیمان بن یسار کے صاحبزادے اپنے والد کے حوالے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں: آپ نے ”جابیہ“ کے مقام پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تھے ، بالکل اس طرح جس طرح میں تمہارے درمیان کھڑا ہوا ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھیوں کی عزت افزائی کرو ! پھر ان کے بعد والوں کی پھر ان کے بعد والوں کی ، پھر جھوٹ ظاہر ہوجائےگا، یہاں تک کہ آدمی گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی مانگی نہیں گئی ہوگی اور وہ قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے قسم نہیں لی گئی ہوگی ۔
خبرادار! جب بھی کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہا ہو ، تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوگا، خبردار ! جو شخص جنت میں رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے
(وہ مسلمانوں کی) جماعت کے ساتھ رہے ، کیونکہ شیطان تنہا شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ دو آدمیوں سے زیادہ دور ہوتا ہے ۔ خبردار! جس شخص کو اس کی نیکی خوشی کرے اور اس کی برائی اس کو رنجیدہ کرے وہ مؤمن ہے ۔“

(صحيح، أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 141، 142، 143، 201، وفي صحيح ابن حبان: 4576، 5586)
اختتام مسند عمر رضی اللہ عنہ
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی مسند

33- سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابان اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”احرام والا شخص نکاح نہیں کرسکتا اور نکاح کا پیغام بھی نہیں بھیج سکتا ۔“
(إسناد صحیح، أخرجه أحمد 69/1، ومسلم : 1409، والنسائي : 192/5، والدارمي: 141/2، وفي صحيح ابن حبان: 4124، 4126)

34- نبیہ بن وہب بیان کرتے ہیں : ”ملل“ کے مقام پر عمر بن عبید اللہ کی آنکھیں دکھنے آگئیں وہ احرام باندھے ہوئے تھے ۔ انہوں نے ابن بن عثمان کو پیغام بھیجا اور ان سے دریافت کیا: انہیں کس چیز کے ذریعے علاج کرنا چاہئے؟ تو ابان بن عثمان نے کہا : تم اس پر صبر (مخصوص قسم کی بوٹی) کا لیپ کرو، کیونکہ میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات بیان کرتے ہوئے سنا ہے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی اس پر صبر (مخصوص قسم کی بوٹی) کا لیپ کرے ۔ ( إسناد صحيح، أخرجه ابن ابي شيبه 164/1/4، برقم 109، وأحمد 68/1، ومسلم: 1204، والترمذي: 952، والنسائي : 143/5، والدارمي: 71/2)

35- سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام حمران بیان کرتے ہیں: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ”مقاعد“ کے مقام پر تین ، تین مرتبہ وضو کیا اور یہ بات بیان کی : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ، پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بتایا : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جو شخص وضو کرتے ہوئے اچھی طرح وضو کرے ، پھر نماز ادا کرے ، تو اللہ تعالیٰ اس نماز اور اس کے بعد والی نماز ، جب تک وہ اسے ادا نہیں کرلیتا ، ان کے درمیان کے اس کے گناہوں کی مغفرت کردیتا ہے ۔ “
( إسناد صحيح، وأخرجه البخاري: 160 ومسلم: 227، وابن حبان فى صحيحه: 1041، عبدالرزاق: 141، والطيالسي: 48/1 برقم: 141، وأحمد: 57/1،، والبغوي فى شرح السنة : 324/1 برقم : 152، وابن خزيمة 4/1 برقم : 2)

36- ابن ابوذباب اپنے والد کے حوالے سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں : ان کے والد کہتے ہیں : سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعات نماز پڑھائی تو لوگوں نے ان پر اعتراض کیا ، تو وہ بولے : جب میں یہاں آیا تو میں نے اپنی بیوی کی وجہ سے اسے بھی اپنا وطن بنالیا ہے ، اور میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جب آدمی کسی شہر میں شادی کرلے ، تو اسے وہاں مقیم شخص کی سی نماز ادا کرنی چاہئے ۔ “
(إسناده ضعيف وقد فصلنا الكلام فيه فى مجمع الزوائد برقم 2974)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی مسند

37- محمد بن حنفیہ بیان کرتے ہیں : سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوۂ ) خیبر کے زمانے میں نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کردیا تھا ۔
سفیان کہتے ہیں اس روایت سے مراد یہ کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی مراد یہ نہیں ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نکاح متعہ سے بھی منع کیا تھا ۔
(بلکہ نکاح متعہ کی حرمت کا حکم بعد میں دیا تھا ) ۔

(إسناد صحيح، أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 576، وفي صحيح ابن حبان: 4140، 4143، 4145)

38- عبداللہ بن ابویجیح اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : مجے ان صاحب نے بتایا جنہوں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے یہ سنا ، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے یہ ارادہ کیا ، میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لئے نکاح کا پیغام بھجواؤں پھر مجھے یاد آیا، میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں ۔ پھر مجھے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور فضیلت کا خیال آیا، تو میں نے (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے) نکاح کا پیغام دیا تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کیا: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے ، جسے تم (مہر کے طور پر) اسے دو؟
میں نے عرض کی: جی نہیں ! نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری حطمیہ زرہ کہاں ہے؟ جو میں نے فلاں موقع پر تمہیں دی تھی؟ میں نے عرض کیا : وہ مرے پاس ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے ہی لے آؤ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں وہ لے کر آیا میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ زرہ دی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کردی ۔
جب ان کی رخصتی ہوئی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک میں تم دونوں کے پاس نہیں آتا اس وقت تک تم دونوں کوئی بات چیت نہ کرنا۔ پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے ایک چادر
(راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ایک کمبل اوڑھا ہوا تھا ۔ جب ہم نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ہم اس میں داخل ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں اپنی جگہ پر رہو ! پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی موجود تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دعا مانگی (یعنی اس پر کچھ پڑھ کر دم کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہم پر چھڑک دیا ۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ
(یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں ، یا میں؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے نزدیک تم سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک اس سے زیادہ معزز ہو ۔
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں راوی نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے منبر پر یہ بات بیان کرتے ہوئے سنا ۔

( إسناده ضعيف، وأخرجه أحمد 80/1، والبيهقي فى الصداق 234/7 وابوداود:2126)

39- عائش بن انس بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے منبر پپر یہ بات کرتے ہوئے سنا۔ میری مذی مکثرت خارج ہوا کرتی تھی میں اس بارے میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا چاہتا تھا ، لیکن نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میری اہلیہ تھیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوتی تھی ، تو میں نے عماررضی اللہ عنہ (بن یاسر) کو یہ ہدایت کی انہوں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس (مذی کے خروج پر) صرف وضو کرلینا کافی ہے ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 354/1 برقم 456)

40- ابوحجیفہ بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : آپ کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی اور ایس چیز ہے ، جو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہو ، تو انہوں نے جواب دیا : جی نہیں ۔ اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو چیرا ہے اور جان کو پیدا کیا ہے ( ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے) صرف وہ چیز ہے ، جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنی کتاب کے بارے میں فہم عطا کردیتا ہے یا وہ کچھ ہے ، جو اس صحیفے میں موجود ہے ۔ میں نے دریافت کیا : اس صحیفے میں کیا ہے ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دیت کے بارے میں ، قیدی کو رہائی دلانے کے بارے میں (احکام ہیں اور یہ حکم ہے کہ) کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 79/1، والبخاري فى العلم: 111، وأبو يعلى فى ”مسنده“:382/1 برقم 338)

41- عبدالرحمٰن بی ابولیلیٰ بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ ہدایت کی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی نگرانی کروں (یعنی انہیں ذبح کرواؤں) اور پر ڈالے جانے والے کپڑے اور ان کی کھالوں کی تقسیم کردوں اور ان میں کوئی بھی چیز قصائی کو نہ دوں ۔
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”ہم اسے اپنے پاس ے
(معاوضے کی) ادائیگی کریں گے ۔“

(إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 79/1، والبخاري فى الحج: 1716، ومسلم: 1317، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 256/1 برقم 298 )

42- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم دیا ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے جانوروں کی نگرانی کروں اور پر ڈالے جانے والے کپڑے اور ان کی کھالوں کو تقسیم کردوں۔
● حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ابن ابویجیح نے میرے سامنے صرف یہی الفاظ بیان کیے تھے جہاں تک عبدالکریم نامی راوی کا تعلق ہے ، تو انہوں نے اس کے مقابلے میں زیادہ مکمل روایت بیان کی ۔

(إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 143/1، والبخاري فى الحج: 1716، ومسلم: 1317، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 233/1 برقم 269 )

43- عبد الرحمٰن بن ابولیلیٰ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خادم مانگ لیں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس سے زیادہ بہتر ہو؟ تم سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔ (یہ روایت بیان کرنے کے بعد ) سفیان نے کہا: ان میں سے کوئی ایک کلمہ 34 مرتبہ ہے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب سے میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات سنی ہے میں نے انہیں کبھی ترک نہیں کیا۔ لوگوں نے ان سے دریافت کیا ۔ جنگ صفین کی رات بھی نہیں ؟ انہوں نے فرمایا" جنگ صفین کی رات بھی
(میں نے اس پڑھنا ترک نہیں کیا) ۔

(إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 80/1، والبخاري: 5362، ومسلم:2727، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 236/1-237 برقم 374 و مصنف ابن ابي شيبه: 262/1 برقم : 9392 )

44- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (سیدہ ) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خادم مانگنے کے لئے حاضر ہوئیں تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں تمہیں خادم نہیں دوں گا ۔ کیا میں اہل صفہ کو بھوکا پیٹ چھوڑ دوں؟ کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہارے لیے اس سے زیادہ بہتر ہے ؟ اس کے بعد راوی نے عبید اللہ کے حوالے سے منقول سابقہ روایت آخر تک نقل کی ہے ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 79/1، والبیھقی فی شعب الایمان : 259/3 برقم: 3480، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 236/1-237 برقم 374 و مصنف ابن ابي شيبه: 263/10 برقم : 93932 )

45- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں: عبداللہ بن عتبہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گزارش کی : جنگ صفین کی رات بھی نہیں ؟ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رات کے آخری حصے میں انہیں پڑھا تھا ۔
( إسناده ضعيف )

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
46- شریح بن ہانی بیان کرتے ہیں : میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے فرمایا : تم سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر ان سے یہ سوال کرو ، کیونکہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتے رہے ۔
راوی کہتے ہیں : میں نھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا ، تو انہوں نے ارشاد فرمایا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرماتے تھے ۔ ”مقیم کے لئے اس کی مدت ایک دن اور ایک رات ، جبکہ مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں ہیں ۔“

( إسناده ضعيف ، فقد أخرجه عبدالرزاق : 788 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 423/1 برقم 560 )
(غيران الحديث صحيح ، أخرجه مسلم 276 ، ث ، وعبدالرزاق : 789 ، وابن خزيمة : 194 ، وابن حبان : 13 )

47- ابن عبدخیر اپنے والد کیا یہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو پاؤں کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا وہ یہ فرمارہے تھے : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو ، میرا یہ خیال ہے کہ ان کے نیچے والا حصہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس پر مسح کیا جائے ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : اگر یہ واقعہ موزوں پر مسح کے مارے میں ہے ، تو یہ سنت ہے اور اگر موزوں کے علاوہ ہے ، تو پھر یہ حکم ”منسوخ“ ہے ۔

( إسناده صحيح ، و أخرجه أحمد 95/1 ، عبداللہ ابنه فى الزوائد المسند 114/1 وابوداود 162 ، 163 ، 164 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 287/1-455 ، برقم : 346 ، 613 ، والدارقطني 199/1 برقم : 23 ، 24 ، وابن حزم فى المحلي : 111/2 ، والبيهقي : 292/1)

48- زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ بیان کرتے ہیں : ہم نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا ، حج کے موقع پر آپ کو کون سی چیز کے ہمراہ بھیجا گیا تھا؟ تو انہوں نے بتایا : مجھے چار چیزوں کے ہمراہ بھیجا گیا تھا (یعنی یہ چار اعلان کرنے ہیں) :
”➊ جنت میں صرف مؤمن داخل ہوگا ، ➋ کوئی شخص برہنہ ہوکر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا ، ➌ مسلمان اور مشرکین اس سال کے بعد مسجد حرام میں اکھٹے نہیں ہوسکیں گے ، ➍ اور جس شخص کا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو ، تو وہ معاہدہ اپنی متعین مدت تک ہوگا ، اور جس شخص کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے ، تو اس کی مہلت چارہ ماہ ہے ۔“

( إسناده صحيح ، و أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 351/1 برقم : 452)

49- عبید اللہ بن ابورافع جو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے کاتب تھے وہ بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ، زبیر اور مقداد کو بھیجا اور فرمایا : ”تم لوگ جاؤ اور ”خاخ“ (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے ) کے باغ پہنچو وہاں ایک عورت ہوگی ، جس کے پاس ایک خط ہوگا تم لوگ وہ اس سے لے لینا ۔“ ( سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہم لوگ روانہ ہوئے ۔ ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس باغ تک آئے ، تو وہاں ایک عورت موجود تھی ہم نے کہا: تم خط نکالو ۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ، ہم نے کہا: تم خط نکالو ورنہ ہم تمہاری چادر اتار دیں گے تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے اس نکالا ۔ ہم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو اس میں تحریر تھا : یہ حاطب بن ابوبلتعہ کی طرف سے مکہ میں رہنے والے کچھ مشرکن کے لئے تھا جس میں انہیں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مکہ کی طرف) کوچ کرنے کے بارے میں بتایا گیا تھا ۔
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : حاطب یہ کیا تھا ؟ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے ، میں ایک ایسا شخص ہوں جو قریش کے ساتھ مل کر رہ رہا ہوں لیکن میں ان کا حصہ نہیں ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو دیگر مہاجرین ہیں ، ان کی وہاں رشتے دارایں ہیں ، جن کی وجہ سے ان کے گھر والے اور ان کی زمینیں محفوظ ہیں ۔ میں یہ چاہتا تھا ، کیونکہ میرا قریش کے ساتھ کوئی نسبی تعلق نہیں ہے ، تو میں ان پر کوئی احسن کردوں جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں ، میں کفر کرتے ہوئے ، یا اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے ، یا اسلام قبول کرنے کے بعد کفر سے راضی ہوتے ہوئے ، یہ عمل نہیں کیا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس نے تمہارے ساتھ سج بات کہی ہے ، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے آپ اجازت دیججئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ ”بدر“ میں شریک ہوا ہے تمہیں کیا پتہ ؟ شاید اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے کہا: تم جو چاہو عمل کرو میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے ۔
عمرو بن دینار کہتے ہیں : اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : ”اے ایمان والو ! تم میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ ۔“
(60-الممتحنة : 1)
سفیان کہتے ہیں : مجھے یہ نہیں معلوم کہ آیا یہ روایت کا حصہ ہے یا عمرو بن دینار کا قول ہے ۔
(إسناده صحيح ، أخرجه البخاري 4890 ، 3007 ، ومسلم : 2494 ،وأبو يعلى فى ”مسنده“:321/1-316 ، برقم : 394-398 ، وصحيح ابن حبان : 6499 ، 7119)

50- عبداللہ بن سخبرہ ازدی بیان کرتے ہیں : کچھ لوگ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگ اس کے لیے کھڑے ہوگئے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : یہ کیا طریقہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کی : سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ اس کا حکم دیتے ہیں ، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اس(جنازے ) کے لئے کھڑے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہ عمل نہیں کیا ۔
( إسنادہ ضعیف، ولکن متن صحیح، وأبو يعلى فى ”مسنده“:231/1 برقم: 266، صحیح مسلم/الجنائز 25 (962) ، وابوداو: 3175، سنن النسائی/الجنائز 81 (2001) ، سنن الترمذی/الجنائز 52 (1044) ، سنن ابن ماجہ/ الجنائز 35 (1544) ، (تحفة الأشراف: 10276) ، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الجنائز 11 (33) ، مسند احمد (1/82، 83، 131، 138) (صحیح) )

51- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے لیے ایک مرتبہ کھڑے ہوئے پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل نہیں کیا ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : سفیان بعض اوقت اس روایت کو ابونجیح اور لیث کے حوالے سے مجاہد کے حوالے سے ابومعمر سے نقل کرتے تھے ، تو جب ہم نے اس پر مشتبہہ کیا ، تو انہوں نے ابن ابونجیح کی روایت میں ابومعمر کو بھی شامل کردیا وہ لفظ ”حدثنا“ صرف اس وقت استعمال کرتے تھے ، جب دونوں راویوں میں سے ہر ایک نے لفظ ”حدثنا“ استعمال کیا ہو ۔

( إسنادہ صحيح ، أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 231/1 برقم: 266، صحیح مسلم/الجنائز 25 (962) ، وابوداو: 3175، سنن النسائی/الجنائز 81 (2001) ، سنن الترمذی/الجنائز 52 (1044) ، سنن ابن ماجہ/ الجنائز 35 (1544) ، (تحفة الأشراف: 10276) ، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الجنائز 11 (33) ، مسند احمد (1/82، 83، 131، 138) (صحیح) )

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
52- سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو سنا انہوں نے سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے بھجوایا اور انہیں اس کام کے بارے میں کسی چیز کی ہدایت کی ۔ سیدنا علیض نے ان سے کہا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ فرمایا تھا : اے علی ( رضی اللہ عنہ ) ! تم اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور سیدھے رہنے کا سوال کرنا۔ ہدایت سے میری مراد راستے کی ہدایت ہے اور صراط سے مراد تمہارا اپنے تیر کو ٹھیک کرنا ہے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بتایا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قسی اور سرخ میثرہ
(ریشمی کپڑوں کی قسمیں) استعمال کرنے سے منع کیا اور مجھے اس بات سے بھی منع کیا کہ میں پانی اس اور اس انگلی میں انگوٹھی پہنوں ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے یہ بات کہی تھی ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان اس روایت کو عاصم نامی راوی کے حوالے سے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابوبکر سے نقل کرتے ہیں، تو ان سے یہ کہا گیا : دیگر محدثین نے تو اس روایت کو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابوبردہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔ تو انہوں نھے کہا: میں نے تو اس روایت کو اسی طرح یاد رکھا ہے کہ یہ ابوبکر بن ابوموسیٰ سے منقول ہے ۔ لیکن اگر دوسرے لوگ مجھ سے مختلف روایت کررہے ہیں تم یہ الفاظ شامل کرلو کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ایک صاحبزادے سے یہ بات منقول ہے ۔ تو سفیان کا یہ معمول تھا کہ اس کے بعد وہ بعض اوقات اس روایت کو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سے منقول روایت کے طور پر بیان کرتے تھے اور بعض اوقات اسے بھول جاتے تھے ، تو جو انہوں نے سنا ہوا تھا اس کے مطابق سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابوبکر کے حوالے سے نقل کرتے تھے ۔

(إسنادہ صحیح ، وأخرجه الترمذي: 1786، صحيح مسلم/اللباس 16 /2078 ، والذكر 2725/18، سنن ابي داود/ الخاتم 4225، سنن النسائي/الزينة 52/ 5213، 79 /5288، و 121 /5378، سنن ابن ماجه/اللباس 43 /3648، تحفة الأشراف: 10318، و مسند احمد 1/88، 134، 138 صحيح ، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 281، 419، والبخاری قبل الحدیث 5838)

53- ابواسود دیلی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: میرے پاس عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے ، میں اس وقت اپنا پاؤں رکاب میں داخل کرچکا تھا انہوں نے مجھ سے دریافت کیا : آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا : عراق ۔ وہ بولے اگر آپ وہاں چلے گئے تو آپ کو تلوار کی دھار ضرور لگے گی ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم اس سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے سن چکا تھا ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 491، وصحیح ابن حبان: 6733، المستدرک للحاکم: 4678)

54- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میں نے تمہیں گھوڑے اور غلام کی زکوٰاۃ معاف کردی ہے ۔“
(إسناده حسن، وأخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 580، 299، وابن ماجه : 1790، ‏‏‏‏سنن ابي داود/الزكاة 1572 ، تحفة الأشراف: 10039 ، وقد أخرجه: سنن الترمذي/الزكاة 3 - 620 ، سنن النسائي/الزكاة 18 - 2479 ، مسند احمد 1/121، 132، 146 ، سنن الدارمي/الزكاة 7- 1669)

55- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ دیا ہے، عینی (حقیقی) بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ۔ علاقی (ماں کی طرف سے) بھائی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے ۔
(إسناده حسن، وأخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 625، 300، والترمذي: 2095، 2094 وابن ماجه: 2715، تحفة الأ شراف: 10043 ، وقد أخرجه: مسند احمد 1/79، 131، 144 ، سنن الدارمي/الفرائض 28 - 3027 (حسن ) )

56- سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ دیا ہے ، (میت کی) وصیت پر عمل کرنے سے پہلے(اس کے ذمہ واجب الادا) قرض ادا کیا جائے گا ، حالانکہ تم لوگ (قرآن میں) وصیت کا ذکر قرض سے پہلے پڑھتے ہو ۱؎ ۔
۱؎ (اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت «مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ» (النساء: 12) کی طرف ہے۔)

( إسناده حسن، وأخرجه الترمذي: 2095، 2122، وأبو يعلى فى ”مسنده“: 300، وابن ماجه: 2715، أحمد: 144/1، برقم: 1221)

57- سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قرآن کی تلاوت کے لئے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی تھی البتہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں ہوتے (تو قرآن تلاوت نہیں کرتے تھے) ۔
(إسناده حسن ، وأخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“:287، 348، 406، 524، 579، 623، وصحيح ابن حبان: 800، معرفة السنن للبيهقي : 144/1 برقم : 1221)

58- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ”اُمّی نبی“ نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ تم سے صرف مؤمن محبت کرے گا اور تم سے صرف منافق بغض رکھے گا۔
(إسناده صحيح، أخرجه مسلم 78، وأخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 291، وابن حبان: 5924)

59- ابوکثیر بیان کرتے ہیں : میں اپنے آقا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اس وقت جب انہوں نے اہل نہروان کے ساتھ جنگ کی تھی کچھ لوگوں کو نہیں قتل کرنے کے بارے میں الجھن محسوس ہوئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ بات بتائی ہے ۔ :
”بے شک کچھ لوگ دین سے یوں نکل جائیں گے ، جس طرح تیر نشانے سے پار ہوجاتا ہے ، اور وہ لوگ دین میں واپس کبھی نہیں آئیں گے ۔ یاد رکھنا ! ان کی مخصوص نشانی یہ ہے کہ ان کے درمیان ایک سیاہ شخص ہوگا ، جس کے ایک ہاتھ کی بناوٹ ناقص ہوگی ۔ اس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح ہوگا اور وہ یوں حرکت کرتے گا ، جس طرح عورت حرکت کرتی ہے ۔ “
راوی کہتے ہیں : میرا خیال ہے روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں : اس کے ارد گرد سات بال ہوں گے
(سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) تم لوگ اسے تلاش کرو، کونکہ میرا خیال ہے ، وہ ان میں ہوگا، تو لوگوں نے نہر کے کنارے مقتولین میں اس شخص کو پالیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا ہے ۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے گلے میں عربی کمان لٹکائی ہوئی تھی انہوں نے وہ کمان اس کے ناقص ہاتھ پر چھوتے ہوئے یہ بات کہی ۔

(إسناده صحيح، وأخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 478، وانظر فتح الباری: 293/18-298)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

مسند سيدنا زبير بن العوام رضی اللہ عنہ

60- سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے ، جب یہ آیت نازل ہوئی:
”پھر بے شک تم لوگ قیامت کے دن اپنے پروردگار کی بارگاہ میں ایک دوسرے کے ساتھ بحث کرو گے ۔“
(39-الزمر:31)
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دنیا میں جو ہمارے درمیان اختلاف ہے ، تو کیا بعد میں دوبارہ ہمارے درمیان اختلاف ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی ہاں ، تو میں نے عرض کی: پھر تو معاملہ بہت شدید ہوگا ۔ (إسناده حسن، أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 688، 687، والترمذي: 3236، تحفة الأشراف: 3629، وأحمد: 164/1 ، برقم: 1405، وفي المستدرك للحاكم: 3626)

61- سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ، جب یہ آیت نازل ہوئی: ”پھر تم سے نعمتوں کے بارے ضرور بالضرور سوال کیا جائے گا ۔“ (102-التكاثر:8). میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سی نعمتوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا ؟ حالانکہ ہمیں تو یہی دو چیزیں ملتی ہیں کھجور اور پانی ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایسا ضرور ہوگا ۔“
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نامی راوی نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کیے ہیں ، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جبکہ بعض اوقات یہ الفاظ نقل کیے ہیں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے یہ بات منقول ہے ، پھر وہ کہنے لگے کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا ۔

(إسناده حسن ، وأخرجه وأبو يعلى فى ”مسنده“:676، وأحمد:429/5، برقم: 23690، ومسند البزار: 963)

62- سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ، سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی : ”تو پھر قیامت کے دن تم لوگ اپنے پروردگار کے سامنے ایک دوسرے سے بحث کروگے ۔“ (39-الزمر:31) تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دنیا میں ہمارے درمیان جو اختلاف ہے ، تو یہ خواص ذنوب کے ساتھ دوبارہ ہم پر آئے گا ؟ تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں ۔ جب تک تم میں سے ہر ہر حقدار کو اس کا مخصوص حق نہیں مل جاتا ۔“
(إسناده حسن، أخرجه وأبو يعلى فى ”مسنده“: 688، 687، والترمذي: 3236، تحفة الأشراف: 3629، وأحمد: 164/1 ، برقم: 1405، وفي المستدرك للحاكم: 3626)

63- عروہ بن زبیر، سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : ہم لوگ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ «لِيّه»(طائف کی ایک نواحی آبادی) سے آرہے تھے، یہاں تک کہ جب ہم سدرہ (بیری کے درخٹ) کے پاس پہنچے ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرن اسود (چھوٹے پہاڑ یا طائف کے قریب ایک گاؤں) کے پر ٹھہر گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مدمقابل ٹھہرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نخب (نامی چھوٹی سی وادی) کی طرف رخ کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے رہے ، یہاں تک کہ لوگ بھی ٹھہرے رہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک «وج» (یعنی طائف) کا شکار اور یہاں کے درخت بھی حرم کا حصہ ہیں ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قابل احترام قرارد دیا ہے ۔“
راوی کہتے ہیں : یہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف میں پڑاؤ کرنے اور ثقیف قبیلے کا محاصرہ کرنے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔

(إسناده ضعيف ، وأخرجه البيهقي : 200/5، وأحمد: 165/1، وأبوداود: 2032)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ


64- بجالہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ وصول نہیں کیا، یہاں تک کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس بات کی گواہی دی کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ہجر“ نامی علاقے کے رہنے والے مجوسیوں سے اسے وصول کیا تھا ۔ (إسناده صحيح، وأخرجه ابويعلي الموصلي فى المسندہ:860-861، والبخاري: 3156، ومالك فى "الموطأ" 1 / 395 برقم: 968 / 292)

65- ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں: ابورداد بیمار ہوگئے ، تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کرنے کے لیے آئے ابورداد نے کہا: میرے علم کے مطابق لوگوں میں سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھنے والے ابومحمد ہیں ۔ تو سیدنا عبدارحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
” اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے : میں اللہ ہوں ، میں رحمٰن ہوں ، میں نے رحم
(رشتہ داری) کو پیدا کیا ہے اور میں نے اس کا نام اپنے نام کے مطابق رکھا ہے ، تو جو شخص اسے ملائے گا میں اس ملا کر رکھوں گا اور جو شخص اسے کاٹے گا میں اسے جڑ سے ختم کردوں گا ۔ “

(إسناده صحيح ، وأخرجه ابويعلي الموصلي فى المسندہ:840، 841، أخرجه ابن حبان فى "صحيحه" 2 / 186، برقم: 443، والحاكم فى "مستدركه" 4 / 157، برقم: 7360، وأبو داود فى "سننه" 2 / 60، برقم: 1694)
 
Last edited:
Top