• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ


66- عامر بن سعد اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : فتح مکہ کے موقع پر میں مکہ میں بیمار ہوگیا ، ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پر پہنچ گیا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے کے لیے میرے پاس تشریف لائے ، میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس بہت سا مال ہے اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے ، تو کا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی نہیں ۔“ میں نے عرض کیا: نصف کردوں ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی نہیں“ ۔ میں نے عرض کی: ایک تہائی کردوں ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تہائی کردو! ویسے ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے ورثاء کو خوشحال چھوڑ کر جاتے ہو، تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں مفلوک الحال چھوڑ کر جاؤ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں ۔ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر ملے گا ، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ جو لقمہ ڈالو گے ( اس کا بھی تمہیں اجر ملے گا) ۔“ ۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اپنی ہجرت سے پیچھے کردیا جاؤں گا؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں مجھ سے پیچھے نہیں کیا جائے گا تم جو بھی عمل کرو گے ، جس کے ذریعے تم نے اللہ کی رضا چاہی ہوگی، تو اس کے نتیجے میں تمہاری رفعت اور مرتبے میں اضافہ ہوگا، ہوسکتا ہے کہ میرے بعد بھی زندہ رہو تاکہ بہت سے لوگ تم سے نفع حاصل کریں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو تم سے نقصان ہو ۔“

( پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی) : ”اے اللہ میرے اصحاب کی ہجرت کو باقی رکھنا اور تو انہیں ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹانا، لیکن سعد بن خولہ پر افسوس ہے ۔“
(سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر افسوس کا اظہار اس لیے کیا ، کیونکہ ان کا انتقال مکہ میں ہوگیا تھا ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : سیدنا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کا تعلق ”بنو عامر بن لوی“ سے تھا ۔

(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 6733، ومسلم: 1628، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:427، 447، وصحيح ابن حبان : 4249)

67- عامر بن سعد اپنے والد محترم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہوتا ہے ، جو کسی ایسے معاملے کے بارے میں سوال کرے، جسے حرام قرار نہیں دیا گیا تھا ، اور پھر اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ لوگوں کے لئے حرام قرار دے دیا جائے ۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 7289، ومسلم: 2358، أخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 761، وصحيح ابن حبان : 110، وابوداود: 4610، تحفة الأشراف: 3892، وأحمد : 378/1 برقم: 1539)

68- عامر بن سعد اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تقسیم کیا ، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں صاحب کو بھی کچھ دے دیجئے وہ مؤمن ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : (وہ مؤمن ہے) یا مسلمان ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو بھی کچھ عطا کیجئے ، کیونکہ وہ مؤمن ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : (وہ مؤمن ہے) یا مسلمان ہے ؟ پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بعض اوقات میں کسی شخص کو کچھ دیتا ہوں حالانکہ دوسرا شخص میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے ، لیکن میں اس اندیشے کے تحت دے دیتا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ اسے منہ کے بل جہنم میں داخل نہ کردے ۔“
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري 27، 1478، ومسلم: 150، وصحيح ابن حبان: 163، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 714، 733، 778 )

69- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : زہری کہتے ہیں : (اس روایت سے ہم)یہ بات جان گئے ہیں کہ اسلام سے مراد زبانی اقرار ہے اور ایمان سے مراد عمل ہے ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه صحيح ابن حبان: 163، وانظر الحديث سابق)

70- عامر بن سعد اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کے حوالے سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھالے اس دن اس پر زہر یا جادو اثر نہیں کرے گا ۔“
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري 5445، 5768، 5769، 5779، ومسلم: 2047، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:717، 786، 787)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
71- سعید بن مسیّب بیان کرتے ہیں : مجھ تک سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول ایک روایت پہنچی تو میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے ملا انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے یہ فرمایا تھا ۔
”کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی ۔“

(إسناده ضعيف، لضعف على بن زيد بن جدعان ولكن المتن صحيح فهو عند البخاري: 3706، 4416، ومسلم: 2404 وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:698، 709، 718، 739، وفي صحيح ابن حبان: 6643، 6926، 6927)

72- جابر بن سمرہ سوائی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے یہ کہے ہوئے سنا: اللہ کی قسم ! اہل کوفہ نے تمہاری ہر معاملے میں شکایت کی ہے ، یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے تم انہیں صحیح طریقے سے نماز نہیں پڑھاتے ہو، تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم! ظہر اور عصر کی نماز میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کے مطابق ، نماز پڑھانے کے حوالے سے ، میں ان کے ساتھ کوتاہی نہیں کرتا ۔ میں پہلی دور رکعات طویل ادا کرتا ہوں اور آخری دو رکعات کچھ مختصر کردیتا ہوں ۔
راوی کہتے ہیں ۔ تو میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ”تمہارے بارے میں یہی گمان تھا ۔ تمہارے بارے میں یہی گمان تھا ۔“

(إسناد صحيح، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري 755، 758، ومسلم 453، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 692، 693، وفي صحيح ابن حبان: 1859، 1937، 2140)

73- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ جابر بن سمرۃ سے منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ابواسحاق ! تمہارے بارے میں یہی گمان تھا ۔
سفیان نامی راوی نے اس میں یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ ہدایت کی کہ وہ خو کو لوگوں کے سامنے پیش کریں ، تو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جس بھی قبیلے کے پاس سے گزرے ان لوگوں نے ان کی تعریف کی، یہاں تک کہ جب وہ ”بنوعبس“ کی محفل کے پاس سے گزرے تو ایک بدبخت شخص ان کے سامنے آیا اس شخص کی کنیت ابوسعدہ تھی وہ بولا: مجھے یہ پتہ ہے کہ یہ صاحب اپنی رعایا کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیتے ہیں ۔ کسی جنگی مہم کے لیے نہیں نگلتے ہیں اور
(مال غنیمت) صحیح طور پر پر تقسیم نہیں کرتے ۔ تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ ! اگر یہ جھوٹ بول رہا ہے ، تو اس کی عمر کو لمبا کردے ، اسکی اولاد کو زیادہ کردے ، اسے غربت میں مبتلا کردے اور اسے آزمائش کا شکار کردینا۔
عبدالمالک بن عمیر نامی راوی کہتے ہیں : میں نے اس دیکھا کہ بڑی عمر کا بوڑھا تھا جو راستے میں نوجوان لڑکیوں کو چھیڑا کرتا تھا ۔ اس سے اس بارے میں بات کی جاتی ، تو وہ یہ کہا کرتا تھا : ایک عمر رسیدہ بوڑھا جو غریب بھی ہے آزمائش کا شکار بھی ہے اس ایک نیک آدمی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی بدعا لگ گئی ہے ۔ کوئی ایسی آزمائش نہیں ہے ، جس کا وہ شکار نہ ہوا ہو ۔

( إسناده صحيح، فقد صرح عبدالملك بالتحديث فى الرواية السابقة. وأخرجه البخاری: 755، 770، ومسلم: 453،وصحیح ابن حبان برقم 1661، 1859، 1937، 2140 ، وانظر الحديث السابق)

74- سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوثد کا یہ تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وہ روہہ کا شیطان ہے ، جو گھوڑوں کا چرواہا ہوگا (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) پہاڑوں پر جانور چراتا ہوگا ۔ بجیلہ قبیلے کا ایک فرد اسے اوپر کھینچ کر نیچے کی طرف لائے گا اس کا نام اشہب ہوگا ۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) اب الشہب ہوگا وہ تاریک قوم میں علامت ہوگا ۔
سفیان کہتے ہیں : عمار روہنی نے مجھے یہ بات بتائی ہے ، وہ اپنے ساتھ اپنے قبیلے کا ایک فرد لے کر آیا جس کا نام اشہب تھا ۔
(راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ابن اشہب تھا ۔

( أخرجه الضياء المقدسي فى الأحاديث المختارة 3 / 142، برقم: 939، ، 3 / 143، برقم: 940، ، 3 / 143، برقم: 941، والحاكم فى مستدركه 4 / 521، برقم: 8683، وأحمد فى مسنده 1 / 386، برقم: 1570، والحميدي فى مسنده 1 / 190، برقم: 74، وأبو يعلى فى مسنده : برقم: 753، 784، والبزار فى مسنده 4 / 60، برقم: 1227، وابن أبى شيبة فى مصنفه 21 / 448، برقم: 39076)

75- ابن عیاش نامی راوی کہتے ہیں: سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں دو آدمیوں نے جو اور چھلکے کے بغیر جو کا لین دین کیا ، تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے بتایا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں دو آدمیوں نے تازہ اور خشک کھجوروں کا لین دین کیا تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تازہ کھجور جب خشک ہوجائے تو ، کیا کم ہوجاتی ہے ؟“ لوگوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ٹھیک نہیں ہے ۔“
(إسناده صحيح ، أخرجه مالك فى الموطأ 1 / 901، برقم: 2312 / 552، وابن حبان فى صحيحه برقم: 4997، 5003، والحاكم فى مستدركه برقم: 2277، 2278، ،2279، ، 2280، 2296، والنسائي فى المجتبى 1 / 886، برقم: 4559 ، 4560، والنسائي فى الكبرى 5 / 446، برقم: 5991، 6091 ،6092، وأبو داود فى سننه 3 / 257، برقم: 3359، 3360، وأحمد فى مسنده 1 / 377، برقم: 1534، 1563، وأبو يعلى فى مسنده : برقم: 712، ، 713، 825)

76- سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ سفیان کہتے ہیں : اس سے مراد اچھی آواز میں پڑھنا ہے ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 689، وصحيح ابن حبان: 120)

77- عبداللہ بن ابونہیک بیان کرتے ہیں: سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی بازار میں مجھ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا: کیا تاجر لوگ کمائی کرنے والے ہیں؟ کیا تاجر لوگ کمائی کرنے والے ہیں؟ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ، ”جو شخص قرآن خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔“
(في إسناده عنعنة ابن جريج وأخرجه الحاكم : 569/1 برقم: 2100-2105، وانظر الحديث سابق)

78- سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں وہ پہلا شخص ہوں ، جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا تھا، اور مجھے اپنے بارے میں یہ بات یاد ہے کہ میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والا ساتواں فرد تھا ۔ اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لیے صرف پتے وغیرہ ہوتے تھے ، جس سے ہماری باچھیں چھل جایا کرتی تھیں ۔ یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی شخص یوں پاخانہ کرتا تھا جس طرح بکری مینگنیاں کرتی ہے ۔ اس میں کوئی چیز ملی ہوئی نہیں ہوتی تھی۔ (یعنی وہ بالکل خشک ہوتا تھا) ۔ اب ”بنواسد“ دینی معاملات میں مجھ پر تنقید کرتے ہیں اگر ایسا ہو، تو میں ، تو گمراہ ہوگیا اور میرا عمل ضائع ہوگیا ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 5412، 6453، 3728، ومسلم: 2966، و صحيح ابن حبان: 6989 ،وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:732، 752)

79- سیدنا سعد بن ابی وقاص کے صاحبزادے مصعب بیان کرتے ہیں : میں نے اپنے والد کے پہلو میں نماز ادا کی ، تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں کے درمیان رکھ لئے انہوں نے مجھے ایسے کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا: ہم پہلے ایسے کیا کرتے تھے ، پھر ہمیں اس سے منع کردیا گیا (یعنی نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا) ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري: 790، ومسلم: 535، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 812، وصحيح ابن حبان: 1873، 1874، 1882)

80- مصعب بن سعد اپنے والد کے حوالے سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”کیا کوئی شخص یہ نہیں کرسکتا کہ وہ روزانہ ایک ہزار نیکیاں کمایا کرے“ ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے حضرات میں سے کسی نے عرض کیا : کوئی شخص روانہ ایک ہزار نیکیاں کیسے کما سکتا ہے ؟ تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”100 مرتبہ سبحان اللہ پڑھے، 100 مرتبہ اللہ اکبر پڑھے تو یہ ایک ہزار نیکیاں ہو جائیں گی ۔“
( إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم 2698، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 723، وفي صحيح ابن حبان: 825، وأحمد: 374/1 برقم: 1514)

اختتام مسند سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل العدوی رضی اللہ عنہ

81- عمرو بن حریث کہتے ہیں : میں نے سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”کھمبی اس ”من“ کا حصہ ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل کیا تھا اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے ۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري 4639، ومسلم: 2049، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 961، 965، 967، 968)

82- شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”کھمبی من کا حصہ ہے اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے اور عجوہ کھجور کی اصل جنت سے نازل ہوئی تھی اس میں زہر کی شفا موجود ہے ۔“
(إسناده حسن، أخرجه وعبد الرزاق فى مصنفه 11 / 152، برقم: 20171)

83- سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص ایک بالشت کے برابر زمین ظلم کے طور پر ہتھیالے گا اسے سات زمینوں جتنا وزنی طوق (قیامت کے دن) پہنایا جائے گا اور جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے ۔“
امام حمید رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان سے یہ کہا گیا : معمر نامی راوی نے طلحہ اور سعید کے درمیان ایک اور شخص کا اضافہ نقل کیا ہے ، تو سفیان نے کہا : میں نے زہری کو نہیں سنا کہ انہوں نے ان دونوں کے درمیان کسی اور کا ذکر کیا ہو ۔

(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري : 2452،3198، ومسلم : 1610، 1610، 1610، 1610، وابن حبان فى صحيحه برقم: 3194، 3195، 4790، ،5163، والحاكم فى مستدركه 4 / 295، برقم: 7902، وأحمد فى مسنده 1 / 402، برقم: 1650، 1655،1661)

84- سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قریش کے دس افراد جنتی ہیں: میں جنتی ہوں ، ابوبکر جنتی ہے ، عمر جنتی ہے ، عثمان جنتی ہے ، علی جنتی ہے ، زبیر جنی ہے ، طلحہ جنتی ہے ، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہے اور سعد بن ابی وقاص جنیت ہے ۔“
( راوی کہتے ہیں) پھر سیدنا سعید رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے ، تو لوگوں نے دریافت کیا : دسویں صاحب کون ہیں؟ سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : میں ہوں ۔

( إسناده صحيح، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 969، 970، 971، وفي صحيح ابن حبان: 6993، 6996، والحاكم فى ”مستدركه“ 3 / 316، برقم: 5425،وأحمد فى مسنده 1 / 402، برقم: 1651)

أَحَادِيثُ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ

85- سعد بن سمرہ اپنے والے کے حوالے سے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”حجاز کے یہودیوں کو حجاز سے نکال دو ۔“
( إسناده جيد، وأخرجه أبو يعلى فى "مسنده" 2 / 177، برقم: 872، وأحمد فى "مسنده" 1 / 422، برقم: 1713، 1 / 423، برقم: 1716، ، 1 / 425، برقم: 1721، وفي مجمع الزوائد: 2091)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

86- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : فتح مکہ کے موقع پر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے ، تو اس وقت خانۂ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ (360) بت نصب تھے ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک میں موجود چھڑی کے ذریعہ انہیں مارنا شروع کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھتے جارہے تھے ۔ ” حق آچکا باطل نہ تو پہلے کچھ کرسکا ہے اور نہ کرسکے گا ۔“ (34-سبأ:49)
(یہ بھی پڑھا) ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے ۔“ (17-الإسراء:18)
(إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 2478، 4287، ومسلم: 1781،وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4967، وصحيح ابن حبان: 5862، وأحمد فى مسنده 2 / 833، برقم: 3654)

86/2- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ گواہ ہوجاؤ ، تم لوگ گواہ ہوجاؤ۔“
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ابن ابونجیح نے یہ دو روایات ابومعمر کے حوالے سے ہمیں بتائی ہیں ۔

( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 3636، 3669، 3671، 4864، 4865، ومسلم: 2800، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4968، 5070، 5196، وصحيح ابن حبان: 6495 )

87- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : خانۂ کعبہ کے پاس تین آدمی اکٹھے ہوئے اس میں سے دو قریشی تھے اور ایک ثقیف قبیلے سے تھا یا دو ثقیف قبیلے کے تھے اور ایک قریشی تھا ان کے دماغ میں عقل کم تھی اور ان کے پیت پر چربی زیادہ تھی ۔ ان میں سے ایک نے کہا : اللہ تعالیٰ کے بارے میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ ہم جو کہتے ہیں، وہ اسے سن لیتا ہے ؟ تو دوسرے نے کہا : اگر ہم بلند آوز میں کہیں، تو پھر وہ سن لے گا اگر ہم پست آواز میں بات کریں ، تو پھر وہ نہیں سنے گا ، تو تیسرے نے کہا: اگر وہ ہماری بلند آواز کو سن لیتا ہے ، تو وہ ہماری پست آواز کو بھی سن لے گا ۔ راوی کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی :
”اور تم جو کچھ چھپاتے ہو اس کے بارے میں تمہاری سماعت تمہاری بصارت تمہارے خلاف گواہی دیں گے ۔“
( 41-فصلت:22)
سفیان نامی راوی اس روایت میں پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ اسے منصور یا ابن ابونجیح یا حمید نے نقل کیا ہے یا ان میں سے کسی ایک نے یا ان میں سے کسی دو نے نقل کیا ہے ، لیکن پھر وہ اعتماد کے ساتھ کہنے لگے کہ یہ روایت منصور سے منقول ہے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 4816، 4817، 7521، ومسلم: 2775، وصحيح ابن حبان: 390، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5204، 5245، 5246)

88- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن اپنے والد کے حوالے سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ اس بندے کو خوش رکھے جو ہمارئی کوئی بات سن کر اسے محفوظ کرلے اسے یاد رکھے اور پھر اس کی تبلیغ کرے، کیونکہ بعض اوقات براہ راست علم حاصل کرنے والا شخص عالم نہیں ہوتا اور بعض اوقات براہ راست علم حاصل کرنے والا شخص اس تک منتقل کردیتا ہے ، جو اس سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔ تین چیزیں ایسی ہیں ، جن کے بارے میں مسلمان کا دل دھوکے کا شکار نہیں ہوتا ( یعنی مسلمان کے دل میں یہ تین خصوصیات ہونی چاہیئیں) عمل کا خالص ہونا، مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا ، کیونکہ دعا ان کے پیچھے موجود افراد بھی گھیرے ہوئے ہوتی ہے ۔“
(إسناده صحيح ، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5126، 5296 ، وصحيح ابن حبان: 66، 68، 69، وأحمد فى مسنده 2 / 962، برقم: 4240)

89- ابوماجد حنفی بیان کرتے : میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا ایک شخص ایک شرابی کو لے کر آیا ، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے ذرا ہلا جلا کر دیکھو یا اس کا منہ سونگھو۔ راوی کہتے ہیں : اسے ہلایا گیا اور اس کا منہ سونگھا گیا ، تو وہ نشے میں تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے قید کردو ، اسے قید کردیا گیا ۔ اگلے دن اس شخص کو وہاں لایا گیا ، میں بھی وہاں موجود تھا ، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کوڑا منگوایا تو ان کی خدمت میں ایک ایسا کوڑا لایا گیا جس پر پھل لگا ہوا تھا ۔ ان کے حکم کے تحت اس پھل کو اتار لیا گیا پھر اس کے کنارے کو باریک کیا گیا، یہاں تک کہ وہ درہ بن گیا ۔
راوی کہتے ہیں: انہوں نے اپنی انگلی کے ذریعے اس طرح اشارہ کیا اور کوڑے مارنے والے یہ کہا کہ تم اسے مارو اور اپنا ہاتھ پیچھے لے کر جاؤ اور ہر عضو کو اس کا حق دو ۔
انہوں نے اسے کوڑے اس طرح لگوائے کہ اس نے قمیض پہنی ہوئی تھی اور تہبند بھی تھا ۔
(راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) قمیض اور شلوار پہنی ہوئی تھی ۔
پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمایا: جو بھی شخص متعلقہ اہل کار ہو اس کے لیے بات مناسب نہیں ہے کہ جب اس کے پاس کوئی قابل حد مجرم لایا جائے ، تو وہ حد جاری نہ کرے باقی اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے ، وہ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ۔
ایک صاحب بولے: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ میرا بھتیجا ہے ، میری کوئی اولاد نہیں ہے ، لیکن مجھے اس کے لیے اپنے دل میں وہ محبت محسوس نہیں ہوتی جو مجھے اپنی اولاد کے لیے محسوس ہوتی ہے ، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کی قسم! پھر تو تم یتیم کے انتہائی برے نگران ہو نہ تم نے اس کی اچھی تربیت کی اور نہ اس کی خرابی پر پردہ رکھا ۔
پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بتایا: مجھے یہ بات پتہ ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کٹوایا تھا
(وہ کون تھا؟) انصار سے تعلق رکھنے والا ایک شخص لایا گیا اس نے چوری کی تھی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کٹوادیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خاک ڈال دی گئی ہو ۔ یہاں سفیان نامی روای نے اپنی ہتھیلی کے ذریعے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا اور اپنی ہتھیلی کو کچھ بند کرلیا ۔
لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاید یہ بات پسند نہیں آئی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے کیا چیز رکاوٹ ہے ، لیکن تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔ کسی والی کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس حد سے متعلق کوئی مقدمہ لایا جائے، تو وہ اسے قائم نہ کرے باقی اللہ معاف کرنے والا ہے اور وہ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ۔“ پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی ۔
”انہیں چاہئے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں کیا تم لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کردے۔“
(النور: 22)
سفیان کہتے ہیں: میں یحییٰ الجابر کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: تم اپنی تختی نکالو ۔ میں نے کہا: میرے پاس کوئی تختی نہیں ہے ۔ اس وقت انہوں نے یہ حدیث مجھے سنائی اور اس کے ساتھ دوسری حدیثیں بھی سنائیں، تو مجھے یہ حدیث یاد نہیں ہوئی ، یہاں تک کہ انہوں نے دوبارہ مجھے یہ حدیث سنائی ۔ سفیان کہتے ہیں : تو گویا میں نے دو مرتبہ اس حدیث کو یاد کیا ہے ۔
(إسناده ضعيف، و أخرجه أبو يعلى فى مسنده 9 / 87، برقم: 5155، وعبد الرزاق فى مصنفه 7 / 370، برقم: 13519، وأحمد فى مسنده 2 / 864، برقم: 3787، ، 2 / 925، برقم: 4057، ، 2 / 964، برقم: 4253، ، 2 / 964، برقم: 4254)

90- سفیان بیان کرتے ہیں: عطاء بن سائب کے ساتھ ہماری مکہ میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے باتیا: ہم ابوعبدالرحمٰن سلمی کی خدمت میں ان کی عیادت کرنے کے لیے حاضر ہوئے، تو ان کے غلام نے انہیں دوائی دینے کا ارادہ کیا۔ میں نے اسے منع کردیا تو وہ بولے : تم اسے کرنے دو ، کیونکہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہوئے سنا ہے : ”اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری نازل کی ہے اس کی دوا بھی نازل کی ہے ۔“
سفیان نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کیے ہیں : ”اس کی شفاء بھی نازل کی ہے ۔“
”تو جس شخص کو اس کا علم ہوتا ہے ، وہ اسے جان لیتا ہے اور جس کو اس کا علم نہیں ہوتا وہ اس سے ناواقف رہتا ہے ۔“

(إسناده صحيح ، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5183، وصحيح ابن حبان: 6062، وأحمد فى "مسنده" 2 / 833، برقم: 3648، ، 2 / 914، برقم: 4000، ، 2 / 976، برقم: 4321، ، 2 / 982، برقم: 4353، ، 2 / 996، برقم: 4420)

91- ابووائل کہتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: تم اس قرآن کو باقاعدگی سے پڑھتے رہو ، کیونکہ یہ انسان کے سینے سے اس زیادہ تیزی سے نکلتا ہے ، جتنی تیزی سے چرنے والا جانور اپنی رسی سے نکلتا ہے ، پھر انہوں نے بتایا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے:
”کسی بھی شخص کا یہ کہنا انتہائی برا ہے کہ میں فلاں اور فلاں آیات بھول گیا ، بلکہ وہ اسے بھلادی گئی ۔“

(إسناده صحيح ، أخرجه البخاري 5039 ، 5032، ومسلم: 790، وصحيح ابن حبان: 761، 762، 763، وأبو يعلى فى "مسنده" 9 / 69، برقم: 5136)
جاری ہے ۔۔۔۔
 
Last edited:

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

ما شاءاللہ، اچھا کام ہے، جزاک اللّٰہ خیرا

تخریج میں بعض غلطیاں نظر آ رہی ہیں، جیسے
أخرجه مسند أبي يعلى، أخرجه صحيح ابن حبان وغیرہ۔ شاید جلدی میں ہو گیا ہو گا۔

صحیح ایسا ہوگا: أخرجه أبو يعلى في مسنده، أخرجه ابن حبان في صحيحه.

اُردو دان طبقے کے لیے تخریج اس طرح لکھنا زیادہ بہتر ہوگا۔

تخريج: صحيح البخاري (5039 ، 5032) صحيح مسلم (790)؛ صحيح ابن حبان (761، 762، 763) مسند أبي يعلى (5136)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
جزاک اللہ خیرا
جی کہیں ایسا ہوا ہے ، اسکو صحیح کردیں گے ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
92- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اے خواتین کے گروہ! تم صدقہ کیا کرو خواہ تم اپنے زیور ہی صدقہ کرو، کیونکہ اہل جہنم کی اکثریت تمہاری ہے ۔“ تو ایک عورت کھڑی ہوئی جو کسی بڑے خاندان کی نہیں تھی اس نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی وجہ کیا ہے ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی وجہ یہ ہے کہ تم خواتین لعنت بکثرت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ۔“
پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسی کوئی مخلوق نہیں پائی گئی ، جو عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ہو لیکن سمجھدار مردوں کے معاملات میں ان پر غالب آنے کے حوالے سے خواتین سے بڑھ کے ہو ۔ راوی کہتے ہیں : تو دریافت کیا گیا : اے ابوعبدالرحمٰن ! ان کے عقل دین میں کیا کمی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: جہاں تک ان کی عقل کی کمی کا تعلق ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے دو خواتین کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دی ہے ۔ جہاں تک ان کے دین میں کمی کا تعلق ہے ، تو ایک عورت کئی روز تک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے وہئے نماز ادا نہیں کرسکتی ہے ۔

(إسناده جيد، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5112، وصحيح ابن حبان: 3323، والحاكم فى مستدركه 2 / 190، برقم: 2788، ، 4 / 602، برقم: 8881، وأحمد فى مسنده 2 / 831، برقم: 3639)

93- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو بھی شخص اپنے مال کی زکواۃ ادا نہیں کرے گا ، تو قیامت کے دن اس کے مل کو اس کے لیے گنجے سانپ کی صورت میں تبدیل کرکے اسے طوق کے طور پر پہنایا جائے گا ۔“ پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مصداق کے طور پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کی کہ آیت تلاوت کی ۔
”اور وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ذریعے عطا کیا ہے اور وہ اس میں بخل کے کام لیتے ہیں ان کے بارے میں تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے ، بلکہ یہ ان کے لیے برا ہے ، جس چیز کے بارے میں وہ بخل سے کام لیتے ہیں عنقریب قیامت کے دن وہ طوق کے طور پر انہیں پہنایا جائے گا ۔“
(3-آل عمران:180)
(إسناده صحيح ، أخرجه ابن خزيمة فى صحيحه 4 / 17، برقم: 2256، والحاكم فى مستدركه 2 / 298، برقم: 3187، ، 2 / 299، برقم: 3188، والنسائي فى المجتبى 1 / 488، برقم: 2440 / 2، والنسائي فى الكبرى 3 / 8، برقم: 2233، 10 / 55، برقم: 11018، وأحمد فى مسنده 2 / 831)

94- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حبشہ سے آنے سے پہلے ہم نماز کے دوران نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جواب دے دیا کرتے تھے ، جب ہم (حبشہ) سے واپس آئے ، تو میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز ادا کررہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا تو مجھے پریشان کن قسم کے خیالات آنے لگے ، میں وہاں بیٹھ گیا ، یہاں تک کہ جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی ، تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تھا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی بھی معاملے میں جو چاہے نیا حکم دے سکتا ہے اور اس بارے میں نیا حکم یہ ہے کہ تم لوگ نماز کے دوران کلام نہ کرو۔“
سفیان کہتے ہیں : عاصم سے ہمیں جو روایات ملی ہیں : یہ ان میں سب سے بہترین ہے ۔

( إسناده حسن، و أخرجه البخاري 1199، ومسلم: 538،وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 4971، وابن حبان فى "صحيحه" 6 / 15، برقم: 2243)

95- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ” جو شخص جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ہتھیالے گا ، تو جب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا ، تو اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا ۔ “ سیدنا عبداللہ کہتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مصداق کے طور پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کی یہ آیت ہمارے سامنے تلاوت کی ۔
” بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں“
(3-آل عمران:77)
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 7445، ومسلم: 138، 2184، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5114، 5197، وصحيح ابن حبان: 572، 5084)

96- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے کہ انہوں نے سلام پھیرنے کے بعد دو مرتبہ سجدہ سہو کیا اور یہ بات بیان کی کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد یہ سجدے کیے تھے ۔ سفیان کہتے ہیں : یہ روایت طویل ہے ، تاہم اس کا صرف یہ حصہ مجھے یاد ہے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى "صحيحه" برقم: 401،404،1226، 6671، 7249، ومسلم: 572،وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5002، وصحیح ابن حبان: 2656)

97- علقمہ بیان کرتے ہیں : بنواسد سے تعلق رکھنے والی ایک عورت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی ، اس نے ان سے کہا : مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ آپ فلاں ، فلاں پر اور جسم گودنے والی اور گودوانے والی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں ؟ حالانکہ میں نے قرآن پڑھ لیا ہے مجھے اس میں یہ حکم نہیں ملا، جو آپ کہتے ہیں اور میرا خیال آپ کی بیگم بھی ایسا کرتی ہیں ، تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس خاتون سے کہا : تم جاؤ اور جا کر خود جائزہ لو ۔ وہ عورت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر گئی اس نے وہاں کا جائزہ لیا تو اسے وہاں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ راوی کہتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے کہا: کیا تم نے یہ آیت پڑھی ہے : ”رسول تمہیں جو کچھ دیں اسے حاصل کرلو اور جس سے تمہیں منع کردیں اس سے باز آجاؤ۔ “ (الحشر:07)
اس عورت نے جواب دیا : جی ہاں ، تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ وہی ہے ۔
( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 4886،4887،5931،5939،5943،ومسلم:2125، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5141، وصحيح ابن حبان: 5504)

98- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”شیطان اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ تمہاری اس سرزمین پر (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تمہارے اس شہر میں بتوں کی عبادت کی جائے تہم وہ تم سے تمہارے معمولی اعمال کے حوالے سے راضی ہوجائے گا ، تو تم معمولی گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا ، کیونکہ یہ ہلاکت کا شکار کردیتے ہیں ۔ کیا میں تمہیں اس کی مثال دوں؟ اس کی مثال یوں ہے جیسے کچھ سوار کسی بے آب و گیاہ زمین پر پڑاؤ کرتے ہیں وہاں کوئی لکڑی نہیں ہے ، وہ لوگ بکھر جاتے ہیں ، تو ایک شخص عود لے کر آتا ہے ایک ہڈی لے کر آتا ہے ایک مینگنی لے کر آتا ہے ، یہاں تک کہ وہ لوگ جو چاہتے ہیں اسے جمع کرلیتے ہیں ، تو گناہ بھی اسی طرح ہوتے ہیں ۔ “
(إسناده صحيح، أخرجه الحاكم فى "مستدركه" 2 / 27، برقم: 2234، والبيهقي فى "سننه الكبير" 10 / 187، برقم: 20819، وأحمد فى "مسنده" 2 / 889، برقم: 3895، والطيالسي فى "مسنده" 1 / 316، برقم: 400، وأبو يعلى فى "مسنده" 9 / 57، برقم: 5122، وابن أبى شيبة فى "مصنفه" 19 / 162، برقم: 35670، والطبراني فى "الكبير" 10 / 212، برقم: 10500، والطبراني فى "الأوسط" 3 / 74، برقم: 2529)

99- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حسد (یعنی رشک صرف دو طرح کے آدمیوں پر کیا جاسکتا ہے) ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہو اور پھر اس شخص کو وہ مال حق کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دی ہو ، یا ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلہ دیتا ہو یا وہ اس کی تعلیم دیتا ہو۔ “
( إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 73، 1409، 7141، 7316، ومسلم: 815، 816، وأحمد فى "مسنده" 2 / 850، برقم: 3725، ، 2 / 952، برقم: 4191،، وأبو يعلى فى "مسنده" برقم: 5078 ، 5186، 5227)

100- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا کرتے تھے ۔ ہمارے ساتھ خواتین نہیں ہوتی تھیں ، تو ہم نے خصی ہونے کا ارادہ کیا ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کردیا ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى ”صحيحه“برقم: 4615 ، 5071، ، 5075، ومسلم فى”صحيحه“ برقم: 1404، وابن حبان فى ”صحيحه“برقم: 4141، 4142، وأبو يعلى فى ”مسنده“برقم: 5382)
جاری ہے ۔۔۔۔
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
101- قاسم بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تلاوت کرو ! تو انہوں نے عرض کی : کیا میں تلاوت کروں ؟ جبکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں اسے اپنے علاوہ کسی دوسرے کی زبانی سننا چاہتا ہوں ۔“ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے سورۂ نساء پڑھنی شروع کی ، یہاں تک کہ جب یہ آیت تلاوت کی : ”تو اس وقت کیا عالم ہوگا کہ جب ہم ہرامت میں سے ایک گواہ کو لے کر آئیں گے اور تمہیں ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔“ (4-النساء : 41) تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے ، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ رک گئے ۔
( إسناده ضعيف ، فيه عبد الرحمن بن عبدالله المسعودي ، والقاسم بن عبدالرحمن لم يدرك النبى صلى الله عليه وسلم ، فالإسناده منقطع )
(غيران الحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري فى ”صحيحه“ برقم: 4582، 5049، 5050،5055، 5056، ومسلم فى ”صحيحه“ 2 / 195، برقم: 800، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5019، وابن حبان فى ”صحيحه“برقم: 735، 7065 )


جاری ہے ۔۔۔۔۔
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
102- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جب تک میں ان کے درمیان تھا میں ان پر گواہ رہا جب تونے مجھے موت دے دی تُو ان کا نگہبان تھا ، اور تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔“
(إسناده صحيح ، وانظر أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 5020 ، والطبراني فى ”الكبير“ 10 / 12 ، برقم : 9781)

103- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : کون سا عمل زیادہ فضیلت رکھتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔“ میں نے دریافت کیا : پھر کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر نماز کو وقت پر ادا کرنا ۔“ میں نے عرض کی : پھر کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔“
میں نے دریافت کیا : کون سا کبیرہ گناہ بڑا ہے ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔“ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : پھر کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوگی ۔“ میں نے عرض کیا : پھر کون سا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو ۔“ پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی : ”اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے ہیں اور ایسی جانوں کو قتل نہیں کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے البتہ حق کا معاملہ مختلف ہے اور وہ لوگ زنا کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں جو شخص ایسا کرے گا وہ گناہ تک پہنچ جائے گا ۔“ ( الفرقان : 68)
(إسناده صحيح، و أخرجه البخاري : 4477، 527، 2782، 5970، 7564، ومسلم: 85، 86، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5098، 5130، 5167، 5286، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 1474، 1475، 1476،1477، 1478، 1479، 4416، ، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 906، برقم: 3967)

104- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کا قتل کرنا کفر ہے ۔“
(إسناده صحيح، و أخرجه البخاري: 48 ، 6044، 7076 ومسلم : 64، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4988، 4991، 5119، 5276، 5332 وابن حبان فى ”صحيحه“ 13 / 266، برقم: 5939،وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 850، برقم: 3721)

105- عبداللہ بن معقل بیان کرتے ہیں: میں اپنے والد کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے والد نے ان سے کہا: کہ کیا آپ نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ؟ ”ندامت توبہ ہے ۔“ تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں: میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”ندامت توبہ ہے۔“
(صحيح، وقد خرجنا وعلقنا عليه فى أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4969، 5081، 5129، 5261، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 612،614)

105/2- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند ہے ہمراہ بھی منقول ہے ۔
(امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں :) عبدالکریم نے جو روایت ہمیں سنائی ہے ، وہ ہمارے نزدیک زیادہ محبوب ہے، حالانکہ ابوسعد نامی راوی کے مقابلے میں وہ زیادہ بڑے حافظ ہیں۔
(أخرجه الدارقطني فى ”العلل“ 192/5 مرفوعاً وموقوفاً، وأبوسعد البقال هو سعيد بن المرزبان ضعيف)

106- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں موجود تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سورہ نازل ہوئی : «وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفًا» (المرسلات:1) تو میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اسے سیکھا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تلاوت کیے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی ، تو مجھے یہ نہیں پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کون سی آیت پر اس سورہ کو ختم کیا تھا ۔ « فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ » ”تو اس کے بعد وہ کون سی بات پر ایمان رکھیں گے ۔“ (المرسلات:50) یا پھر اس آیت پر ختم ہوئی تھی ۔ «وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لا يَرْكَعُونَ » ”جب ان سے کہا جاتا ہے تم لوگ رکوع کرو تو وہ رکوع نہیں کرتے ہیں ۔“ (المرسلات:48)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اسی دوران ایک بل میں سے ایک سانپ نکل کر ہمارے سامنے آیا ہم اسے مارنے کے لیے اٹھے تو وہ دوسرے بل میں داخل ہوگیا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں اس کے شر سے بچالیا گیا ہے اور اسے تمہارے نقصان سے بچالیا گیا ہے ۔“
( إسناده حسن، والمتن صحيح، أخرجه البخاري 1830، 3317، 4930، 4931 ومسلم : 2234، وابن حبان فى ”صحيحه“ 2 / 483، برقم: 707، 708، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :برقم: 4970، ،5001، ، 5158، 5173، 5374)

107- شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہوئے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے تھے ، یزید بن معاویہ نخعی ہمارے پاس آئے انہوں نے فرمایا: کیا ہوا ہے؟ ہم نے کہا: ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے ہیں ۔ انہوں نے دریافت کا : تمہارے خیال میں وہ کہاں ہوں گے ؟ ہم نے کہا: گھر میں ہوں گے ۔ انہں نے کہا : کیا میں جاکر تمہارے ساتھ بلا کر نہ لاؤں؟ راوی کہتے ہیں : تو وہ گئے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور ہمارے پاس آکر کھڑے ہوئے ، ان کے ساتھ یزید بن معاویہ بھی تھے ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے تمہارے یہاں بیٹھے ہونے کے بارے میں بتایا گیا لیکن میں نکل کر تمہارے پا اس لیے نہیں آیا، کیونکہ مجھے یہ اندیشہ تھا کہ میں تمہیں اکتاہٹ کا شکار کردوں گا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دنوں کے وقفے کے ساتھ وعظ کیا کرتے تھے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اکتاہٹ کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 68، 70، 6411، ومسلم: 2821، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 4524، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5032)

108- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! زمانۂ جاہلیت میں ہم سے جو کچھ سرزد ہوا تھا کیا اس پر ہمارا مواخذہ ہوگا ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص اچھائی کرے گا ، تو زمانۂ جاہلیت میں اس نے جو عمل کیا تھا اس پر مواخذہ نہیں ہوگا اور جو شخص برائی کرے گا ، تو اس کے پہلے اور بعد والے (تمام اعمال)کا مواخذہ ہوگا ۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 6921، ومسلم: 120، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5071، 5113، 5131، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 396)

109- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : انہیں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے ۔ ”دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی میں بات نہ کریں، کیونکہ یہ چیز (اس تیسرے شخص کو) غمگین کردے گی ۔“
( إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى ”صحيحه“ برقم: 2356، 2416، 2515، ،2666، 2669، 2673،2676،4549، 5240،5241،6290، 6659، 6676،7183، 7445، ومسلم فى ”صحيحه“ برقم: 138، 2184،وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5114، 5132، 5220، 5255، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 583،4160،4161، 5084،5085، 5086 )

110- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز تقسیم کی ، تو ایک شخص بولا: یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا ۔ راوی کہتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے : مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہا۔ میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) کا رنگ تبدیل ہوگیا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے اس وقت یہ آرزو کی کہ کاش میں اس دن مسلمان ہوا ہوتا ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کرتے ہیں: پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ اذیت پہنچائی گئ تھی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا تھا۔“
( إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 3150،3405، 4335، 4336، 6059، 6100، 6291، 6336، ومسلم فى ”صحيحه“ برقم: 1062 وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 2917، 4829، 6212، وأحمد فى مسنده 2 / 839، برقم: 3678، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 5133، ، 5206، والبزار فى مسنده: برقم: 1666، 1702)

جاری ہے۔۔۔۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
111- اعمش کہتے ہیں : میں نے حجاج بن یوسف کو یہ کہتے ہوئے سنا: تم لوگ یہ نہ کہو ”سورہ بقرہ“ ، سورہ فلاں ۔اعمش کہتے ہیں : میں نے اس بات کا تذکرہ ابراھیم نخعی سے کیا ، تو انہوں نے بتایا: عبدالرحمٰن بن یزید نے مجھے یہ بات بتائی ہے ، ایک مرتبہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ وادی کے نشیب میں چل رہتے تھے ، جب وہ جمرہ کے پاس آئے ، تو سیدنا عبداللہ نے اسے اپنے دائیں طرف رکھا اور پھر ان کے مدمقابل آگئے ، پھر انہوں نے اسے کنکریاں ماریں۔ میں نے ان سے کہا : اے ابوعبدالرحمٰن ! لوگ تو اوپر سے کنکریاں مارتے یں ، تو انہوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم ! جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے، وہ ہستی جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی میں نے انہیں یہیں سے کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا ہے ۔
( إسناده صحيح، و أخرجه البخاري 1747، ومسلم: 1296، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4972، 5067، 5185، 5195، وابن حبان فى صحيحه : 3870 )

112- علقمہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہوں نے سورۂ یوسف کی تلاوت کی ، تو ایک صاحب ان سے کہا : یہ اس طرح نازل نہیں ہوئی ۔ راوی کہتے ہیں : تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا ستیاناس ہو (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تمہاری بربادی ہو ، میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسے تلاوت کیا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا : ”تم نے ٹھیک پڑھا ہے ۔“ ۔ ابھی ان دونوں حضرات کی بحث جاری تھی کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس شخص سے شراب کی بو محسوس ہوئی ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا تم شراب پیتے ہو اور قرآن کی تکذیب کرتے ہو؟ میں تمہیں ضرور کوڑے لگواؤں گا ، تو پھر اس شخص کو کوڑے لگائے گئے۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 5001، ومسلم: 801، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5068، 5093، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 834، برقم: 3661، 2 / 937، برقم: 4114)

113- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میں ہر ساتھی کے ساتھ سے بری الذمہ ہوں ، اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہوتا ، تو میں ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن تمہارے آقا اللہ کے خلیل ہیں ۔“ (راوی کہتے ہیں : ) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات تھی ۔
(إسناده صحيح ، أخرجه مسلم 2383، ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 6426،6855، 6856،، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : برقم: 5149، 5180، 5249، 5308،5345)

114- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ہمیشہ مخصوص وقت پر ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ، البتہ مزدلفہ کا معاملہ مختلف ہے ، کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازیں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ادا کی تھیں اور اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اس کے مخصوص وقت سے ہٹ کر ادا کی تھی ۔ سفیان کہتے ہیں : یعنی اس وقت سے مختلف وقت میں ادا کی تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ادا کیا کرتے تھے ۔
(إسناده صحيح، و أخرجه البخاري 1675، ومسلم: 1289، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5176، 5264، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 848، برقم: 3711)

115- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ فرمایا: ”اے نوجوانوں کے گروہ ! تم میں سے جو شخص شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے ، کیونکہ یہ چیز نگاہ کو جھکا کر رکھتی ہے اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرتی ہے اور جو شخص اس کی استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، کیونکہ روزے اس کی شہوت کو ختم کردیں گے ۔“
( إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1905، ، ومسلم: 1400، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 4026، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5110، 5192)
جاری ہے۔۔۔۔۔
 
Top