مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
أَحَادِيثُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ66- عامر بن سعد اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : فتح مکہ کے موقع پر میں مکہ میں بیمار ہوگیا ، ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پر پہنچ گیا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے کے لیے میرے پاس تشریف لائے ، میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس بہت سا مال ہے اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے ، تو کا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی نہیں ۔“ میں نے عرض کیا: نصف کردوں ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی نہیں“ ۔ میں نے عرض کی: ایک تہائی کردوں ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تہائی کردو! ویسے ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے ورثاء کو خوشحال چھوڑ کر جاتے ہو، تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں مفلوک الحال چھوڑ کر جاؤ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں ۔ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر ملے گا ، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ جو لقمہ ڈالو گے ( اس کا بھی تمہیں اجر ملے گا) ۔“ ۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اپنی ہجرت سے پیچھے کردیا جاؤں گا؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں مجھ سے پیچھے نہیں کیا جائے گا تم جو بھی عمل کرو گے ، جس کے ذریعے تم نے اللہ کی رضا چاہی ہوگی، تو اس کے نتیجے میں تمہاری رفعت اور مرتبے میں اضافہ ہوگا، ہوسکتا ہے کہ میرے بعد بھی زندہ رہو تاکہ بہت سے لوگ تم سے نفع حاصل کریں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو تم سے نقصان ہو ۔“
( پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی) : ”اے اللہ میرے اصحاب کی ہجرت کو باقی رکھنا اور تو انہیں ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹانا، لیکن سعد بن خولہ پر افسوس ہے ۔“
(سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر افسوس کا اظہار اس لیے کیا ، کیونکہ ان کا انتقال مکہ میں ہوگیا تھا ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : سیدنا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کا تعلق ”بنو عامر بن لوی“ سے تھا ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 6733، ومسلم: 1628، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:427، 447، وصحيح ابن حبان : 4249)
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اپنی ہجرت سے پیچھے کردیا جاؤں گا؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں مجھ سے پیچھے نہیں کیا جائے گا تم جو بھی عمل کرو گے ، جس کے ذریعے تم نے اللہ کی رضا چاہی ہوگی، تو اس کے نتیجے میں تمہاری رفعت اور مرتبے میں اضافہ ہوگا، ہوسکتا ہے کہ میرے بعد بھی زندہ رہو تاکہ بہت سے لوگ تم سے نفع حاصل کریں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو تم سے نقصان ہو ۔“
( پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی) : ”اے اللہ میرے اصحاب کی ہجرت کو باقی رکھنا اور تو انہیں ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹانا، لیکن سعد بن خولہ پر افسوس ہے ۔“
(سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر افسوس کا اظہار اس لیے کیا ، کیونکہ ان کا انتقال مکہ میں ہوگیا تھا ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : سیدنا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کا تعلق ”بنو عامر بن لوی“ سے تھا ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 6733، ومسلم: 1628، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:427، 447، وصحيح ابن حبان : 4249)
67- عامر بن سعد اپنے والد محترم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہوتا ہے ، جو کسی ایسے معاملے کے بارے میں سوال کرے، جسے حرام قرار نہیں دیا گیا تھا ، اور پھر اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ لوگوں کے لئے حرام قرار دے دیا جائے ۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 7289، ومسلم: 2358، أخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 761، وصحيح ابن حبان : 110، وابوداود: 4610، تحفة الأشراف: 3892، وأحمد : 378/1 برقم: 1539)
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 7289، ومسلم: 2358، أخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 761، وصحيح ابن حبان : 110، وابوداود: 4610، تحفة الأشراف: 3892، وأحمد : 378/1 برقم: 1539)
68- عامر بن سعد اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تقسیم کیا ، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں صاحب کو بھی کچھ دے دیجئے وہ مؤمن ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : (وہ مؤمن ہے) یا مسلمان ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو بھی کچھ عطا کیجئے ، کیونکہ وہ مؤمن ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : (وہ مؤمن ہے) یا مسلمان ہے ؟ پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بعض اوقات میں کسی شخص کو کچھ دیتا ہوں حالانکہ دوسرا شخص میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے ، لیکن میں اس اندیشے کے تحت دے دیتا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ اسے منہ کے بل جہنم میں داخل نہ کردے ۔“
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري 27، 1478، ومسلم: 150، وصحيح ابن حبان: 163، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 714، 733، 778 )
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري 27، 1478، ومسلم: 150، وصحيح ابن حبان: 163، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 714، 733، 778 )
69- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : زہری کہتے ہیں : (اس روایت سے ہم)یہ بات جان گئے ہیں کہ اسلام سے مراد زبانی اقرار ہے اور ایمان سے مراد عمل ہے ۔
(إسناده صحيح، وأخرجه صحيح ابن حبان: 163، وانظر الحديث سابق)
(إسناده صحيح، وأخرجه صحيح ابن حبان: 163، وانظر الحديث سابق)
70- عامر بن سعد اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کے حوالے سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھالے اس دن اس پر زہر یا جادو اثر نہیں کرے گا ۔“
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري 5445، 5768، 5769، 5779، ومسلم: 2047، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:717، 786، 787)
( إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، أخرجه البخاري 5445، 5768، 5769، 5779، ومسلم: 2047، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:717، 786، 787)
Last edited: