مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
116- مسروق بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : مسجد میں ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا ، تو لوگوں تک دھواں پہنچ جائے گا، جو کفار کی سماعت کو اپنی گرفت میں لے گا ۔ لیکن اہل ایمان کو اس سے زکام کی سی کیفیت محسوس ہوگی ۔ راوی کہتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے وہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور بولے : اے لوگو! تم میں سے جو شخص کسی چیز کا علم رکھتا ہو وہ اس کے مطابق بیان کردے اور جو علم نہ رکھتا ہو وہ اپنی لاعلمی کے بارے میں یہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے ، اسکی وجہ یہ ہے کہ آدمی کے علم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس چیز کے بارے میں وہ علم نہیں رکھتا ، وہ یہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا ہے : ”تم یہ فرمادو کہ میں اس پر تم سے اجر طلب نہیں کررہا اور نہ ہی میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔“ (سورهٔ ص: 86)
(پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا: ) جب قریش نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار نہیں بنے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : ”اے اللہ تو ان پر حضرت یوسف کے زمانے سے سات سال (قحط سالی کے مسلط کردے) “ ۔ تو ان لوگوں کو قحط سالی نے گرفت میں لے لیا ، جس نے ہر چیز کو ختم کردیا ، یہاں تک کہ وہ لوگ ہڈیاں کھانے لگے اور یہ کیفیت ہوگئی کہ ان میں سے ایک شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں محسوس ہوتا تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ارشاد فرمائی : تم اس دن کا خیال کرو جب آسمان واضح دھواں لے کر آیا جس نے لوگوں کو ڈھانپ لیا تو یہ دردناک عذاب ہے۔ (الدخان:10)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ”بے شک ہم عذاب کو تھوڑا سا کم کردیں گے ، تو تم لوگ دوبارہ واپس چلے جاؤ گے ۔“ (الدخان:15)، تو یہ معاملہ تو دنیا میں پیش آیا ، کیا قیامت کے دن ان کفار سے عذاب کو پرے کیا جائےگا ؟
پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دھواں گزر چکا ہے ، لزام گزر چکا ہے ، چاند سے متعلق واقعہ گزر چکا ہے ۔ روم کا(غالب آنا) گزر چکا ہے اور بطشہ (گرفت) کا واقعہ بھی گزر چکا ہے ۔
(إسناده ضعيف، والحديث متفق عليه، و أخرجه البخاري 1007، ومسلم: 2798، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4764، 6585، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 5145)
(پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا: ) جب قریش نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار نہیں بنے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : ”اے اللہ تو ان پر حضرت یوسف کے زمانے سے سات سال (قحط سالی کے مسلط کردے) “ ۔ تو ان لوگوں کو قحط سالی نے گرفت میں لے لیا ، جس نے ہر چیز کو ختم کردیا ، یہاں تک کہ وہ لوگ ہڈیاں کھانے لگے اور یہ کیفیت ہوگئی کہ ان میں سے ایک شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں محسوس ہوتا تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ارشاد فرمائی : تم اس دن کا خیال کرو جب آسمان واضح دھواں لے کر آیا جس نے لوگوں کو ڈھانپ لیا تو یہ دردناک عذاب ہے۔ (الدخان:10)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ”بے شک ہم عذاب کو تھوڑا سا کم کردیں گے ، تو تم لوگ دوبارہ واپس چلے جاؤ گے ۔“ (الدخان:15)، تو یہ معاملہ تو دنیا میں پیش آیا ، کیا قیامت کے دن ان کفار سے عذاب کو پرے کیا جائےگا ؟
پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دھواں گزر چکا ہے ، لزام گزر چکا ہے ، چاند سے متعلق واقعہ گزر چکا ہے ۔ روم کا(غالب آنا) گزر چکا ہے اور بطشہ (گرفت) کا واقعہ بھی گزر چکا ہے ۔
(إسناده ضعيف، والحديث متفق عليه، و أخرجه البخاري 1007، ومسلم: 2798، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4764، 6585، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 5145)
117- مسلم بن صبیح بیان کرتے ہیں : ہم لوگ یسار بن نمیر کے گھر میں مسروق کے ساتھ تھے ۔ مسروق نے ان کے گھر میں تصویریں لگی ہوئی دیکھیں، تو یہ بات بیان کی، میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”قیامت کے دن سب سے شید عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 5950، ومسلم 2109، ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5107، 5209، 5212، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 828، برقم: 3628)
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 5950، ومسلم 2109، ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5107، 5209، 5212، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 828، برقم: 3628)
118- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جس بھی شخص کو ظلم کے طور پر قتل کیا جائے گا ، تو اس کا وبال آدم علیہ السلام کے اس پہلے بیٹے کے سر ہوگا، وہ اس میں حصہ دار ہوگا ، کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ سب سے پہلے ایجاد کیا تھا ۔“
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 3335، 6867، 7321، ومسلم: 1677، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 5983، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 5179)
119- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی بھی مسلمان شخص کا ، جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، ایسے مسلمان کا خون تین میں سے ایک صورت میں جائز ہے ۔ ایسا شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہوجائے ، ایسا شخص جو محصن ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرے یا پھر جان کے بدلے میں جان ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 6878، ومسلم: 1676، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4407، 4408، 5976، 5977، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4767، 5202)
120- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نے اس بارے میں سوال کیا تھا یعنی شہداء کی ارواح کے بارے میں سوال کیا تھا ، تو یہ بات بتائی گئی کہ یہ سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھ دی جاتی ہیں اور عرش کے نیچے قندیلوں میں رہتی ہیں ۔ یہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں اُڑ کے چلی جاتی ہیں ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر دریافت کرتا ہے : کیا تم مجھ سے مزید کسی چیز کے طلبگار ہو ، تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز عطا کروں ؟ تو انہوں نے عرض کی: ہم مزید کس چیز کے طلبگار ہوں گے ؟ جبکہ ہم جنت میں ہیں اور ہم اس میں جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔
پھر ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمائے گا : کیا تم مزید کسی چیز کے طلبگار ہو تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز بھی عطا کروں ؟ جب ان لوگوں نے یہ بات دیکھی کہ انہیں ضرور کوئی نہ کوئی سوال کرنا پڑے گا ، تو انہوں نے عرض کی: تو ہماری ارواح ہمارے جسموں میں واپس کردے تاکہ ہمیں ایک مرتبہ پھر تیری بارگاہ میں شہید کیا جائے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم : 1887، والترمذي: 3014، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 5376، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 920، برقم: 4031)
جاری ہے ۔۔۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 3335، 6867، 7321، ومسلم: 1677، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 5983، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 5179)
119- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی بھی مسلمان شخص کا ، جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، ایسے مسلمان کا خون تین میں سے ایک صورت میں جائز ہے ۔ ایسا شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہوجائے ، ایسا شخص جو محصن ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرے یا پھر جان کے بدلے میں جان ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 6878، ومسلم: 1676، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4407، 4408، 5976، 5977، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4767، 5202)
120- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نے اس بارے میں سوال کیا تھا یعنی شہداء کی ارواح کے بارے میں سوال کیا تھا ، تو یہ بات بتائی گئی کہ یہ سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھ دی جاتی ہیں اور عرش کے نیچے قندیلوں میں رہتی ہیں ۔ یہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں اُڑ کے چلی جاتی ہیں ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر دریافت کرتا ہے : کیا تم مجھ سے مزید کسی چیز کے طلبگار ہو ، تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز عطا کروں ؟ تو انہوں نے عرض کی: ہم مزید کس چیز کے طلبگار ہوں گے ؟ جبکہ ہم جنت میں ہیں اور ہم اس میں جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔
پھر ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمائے گا : کیا تم مزید کسی چیز کے طلبگار ہو تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز بھی عطا کروں ؟ جب ان لوگوں نے یہ بات دیکھی کہ انہیں ضرور کوئی نہ کوئی سوال کرنا پڑے گا ، تو انہوں نے عرض کی: تو ہماری ارواح ہمارے جسموں میں واپس کردے تاکہ ہمیں ایک مرتبہ پھر تیری بارگاہ میں شہید کیا جائے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم : 1887، والترمذي: 3014، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 5376، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 920، برقم: 4031)
جاری ہے ۔۔۔
Last edited: