• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
116- مسروق بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : مسجد میں ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا ، تو لوگوں تک دھواں پہنچ جائے گا، جو کفار کی سماعت کو اپنی گرفت میں لے گا ۔ لیکن اہل ایمان کو اس سے زکام کی سی کیفیت محسوس ہوگی ۔ راوی کہتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے وہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور بولے : اے لوگو! تم میں سے جو شخص کسی چیز کا علم رکھتا ہو وہ اس کے مطابق بیان کردے اور جو علم نہ رکھتا ہو وہ اپنی لاعلمی کے بارے میں یہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے ، اسکی وجہ یہ ہے کہ آدمی کے علم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس چیز کے بارے میں وہ علم نہیں رکھتا ، وہ یہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا ہے : ”تم یہ فرمادو کہ میں اس پر تم سے اجر طلب نہیں کررہا اور نہ ہی میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔“ (سورهٔ ص: 86)
(پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا: ) جب قریش نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار نہیں بنے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : ”اے اللہ تو ان پر حضرت یوسف کے زمانے سے سات سال (قحط سالی کے مسلط کردے) “ ۔ تو ان لوگوں کو قحط سالی نے گرفت میں لے لیا ، جس نے ہر چیز کو ختم کردیا ، یہاں تک کہ وہ لوگ ہڈیاں کھانے لگے اور یہ کیفیت ہوگئی کہ ان میں سے ایک شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں محسوس ہوتا تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ارشاد فرمائی : تم اس دن کا خیال کرو جب آسمان واضح دھواں لے کر آیا جس نے لوگوں کو ڈھانپ لیا تو یہ دردناک عذاب ہے۔ (الدخان:10)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ”بے شک ہم عذاب کو تھوڑا سا کم کردیں گے ، تو تم لوگ دوبارہ واپس چلے جاؤ گے ۔“ (الدخان:15)، تو یہ معاملہ تو دنیا میں پیش آیا ، کیا قیامت کے دن ان کفار سے عذاب کو پرے کیا جائےگا ؟
پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دھواں گزر چکا ہے ، لزام گزر چکا ہے ، چاند سے متعلق واقعہ گزر چکا ہے ۔ روم کا
(غالب آنا) گزر چکا ہے اور بطشہ (گرفت) کا واقعہ بھی گزر چکا ہے ۔

(إسناده ضعيف، والحديث متفق عليه، و أخرجه البخاري 1007، ومسلم: 2798، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4764، 6585، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 5145)

117- مسلم بن صبیح بیان کرتے ہیں : ہم لوگ یسار بن نمیر کے گھر میں مسروق کے ساتھ تھے ۔ مسروق نے ان کے گھر میں تصویریں لگی ہوئی دیکھیں، تو یہ بات بیان کی، میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں : میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”قیامت کے دن سب سے شید عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 5950، ومسلم 2109، ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5107، 5209، 5212، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 828، برقم: 3628)

118- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جس بھی شخص کو ظلم کے طور پر قتل کیا جائے گا ، تو اس کا وبال آدم علیہ السلام کے اس پہلے بیٹے کے سر ہوگا، وہ اس میں حصہ دار ہوگا ، کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ سب سے پہلے ایجاد کیا تھا ۔“
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 3335، 6867، 7321، ومسلم: 1677، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 5983، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 5179)

119- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی بھی مسلمان شخص کا ، جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، ایسے مسلمان کا خون تین میں سے ایک صورت میں جائز ہے ۔ ایسا شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہوجائے ، ایسا شخص جو محصن ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرے یا پھر جان کے بدلے میں جان ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 6878، ومسلم: 1676، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4407، 4408، 5976، 5977، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4767، 5202)

120- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نے اس بارے میں سوال کیا تھا یعنی شہداء کی ارواح کے بارے میں سوال کیا تھا ، تو یہ بات بتائی گئی کہ یہ سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھ دی جاتی ہیں اور عرش کے نیچے قندیلوں میں رہتی ہیں ۔ یہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں اُڑ کے چلی جاتی ہیں ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر دریافت کرتا ہے : کیا تم مجھ سے مزید کسی چیز کے طلبگار ہو ، تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز عطا کروں ؟ تو انہوں نے عرض کی: ہم مزید کس چیز کے طلبگار ہوں گے ؟ جبکہ ہم جنت میں ہیں اور ہم اس میں جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔
پھر ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمائے گا : کیا تم مزید کسی چیز کے طلبگار ہو تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز بھی عطا کروں ؟ جب ان لوگوں نے یہ بات دیکھی کہ انہیں ضرور کوئی نہ کوئی سوال کرنا پڑے گا ، تو انہوں نے عرض کی: تو ہماری ارواح ہمارے جسموں میں واپس کردے تاکہ ہمیں ایک مرتبہ پھر تیری بارگاہ میں شہید کیا جائے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم : 1887، والترمذي: 3014، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 5376، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 920، برقم: 4031)

جاری ہے ۔۔۔
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
121- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں ۔ ”تو ہماری طرف سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام پہنچا دینا اور ہماری قوم کو یہ بتا دینا کہ ہم راضی ہیں اور (پروردگار) ہم سے راضی ہے ۔“
(انظر حدیث سابق ، وأخرجه مسلم : 1887، والترمذي: 3014، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 5376، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 920، برقم: 4031)

122- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”تم لوگ عمارتیں نہ بناؤ ونہ تم دنیا میں راغب ہوجاؤ گے ۔“ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : براذان میں جو کچھ ہے ( وہ بھی تمہارے سامنے ہے ) اور مدینہ میں جو کچھ ہے ( وہ بھی تمہارے سامنے ہے) ۔
(إسناده صحيح ، أخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ 710، والحاكم فى مستدركه 4 / 322، برقم: 8005، والترمذي فى جامعه 4 / 155، برقم: 2328، وأحمد فى مسنده 2 / 833، برقم: 3649،، وأبو يعلى فى ”مسنده“ 9 / 126، برقم: 5200)

123- ابوعبیدہ کہتے ہیں: مسروق نے مجھ سے کہا: مجھے تمہارے والد (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے یہ بات بتائی ہے کہ جنات سے ملاقات کی رات یک درخت نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرانے کی کوشش کی تھی ۔
( إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 3859، ومسلم: 450، وابن حبان فى ”صحيحه“ 14 / 226، برقم: 6321)

124- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تمہاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا تھا صرف پانچ چیزوں کا(حکم مختلف ہے) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : « إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ » ”بے شک قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے ہی پاس ہے ۔“ (لقمان: 34) یہ سورہ آخر تک ہے ۔
(إسنادہ حسن ، أخرجه أحمد فى ”مسنده“ 2 / 852، برقم: 3733 ، 2 / 964، برقم: 4252، 2 / 979، برقم: 4339، والطيالسي فى مسنده 1 / 303، برقم: 385، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 5153، وابن أبى شيبة فى مصنفه 16 / 462، برقم: 32385)

125- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے دعا کی ۔ ”اے اللہ ! تو میرے شوہر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے والد، ابوسفیان، اور میرے بھائی ، معاویہ ، کو لمبی زندگی دینا ۔“ تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے بارے میں دعا کی ہے ، جس کا وقت متعین ہے ، جس کی آخری حد مقرر ہے اور جس کا رزق مقرر شدہ ہے ۔ اس کی متعین مدت سے پہلے کوئی چیز نہیں آسکتی اور کوئی چیز اس سے تاخیر نہیں کرسکتی ۔ جب وہ وقت ختم ہوجائے گا ۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے نجات دے تو یہ زیادہ بہتر تھا ۔“ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”افضل تھا ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بندروں اور خنزیروں کے بارے میں دریافت کیا گیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے کہ یہ ان لوگوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ، جنہیں مسخ کردیا گیا تھا ؟ یا یہ اس سے پہلے کی کوئی چیز ہے؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”نہیں! یہ اس سے پہلے کی کوئی چیز ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب بھی کسی قوم کو ہلاکت کا شکار کرتا ہے ، تو ان کو نسل اور ان لوگوں کا انجام ان لوگوں کی شکل میں ہوتا ہے ، جو ان سے پہلے بھی موجود ہوں ۔“

(إسناده صحيح، وأخرجه مسلم 2663، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 2969، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 5313، 5314، 5315)

126- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حدیث سنائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر شخص کے نطفے کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک رکھا جاتا ہے ، پھر وہ اتنے ہی عرصے تک جمے ہوئے خون کی صورت میں رہتا ہے ، پھر وہ اتنے ہی عرصے تک گوشت کے لوٹھڑے کی صورت میں رہتا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ چار چیزوں کے ہمراہ فرشتے کو اس کی طرف بھیجتا ہے اور فرماتا ہے تم اس کا عمل ، اسکی زندگی کی آخری حد، اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا تحریر کردو۔ پھر وہ فرشتہ اس میں روح پھونک دیتا ہے ۔“
پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میر جان ہے ، آدمی اہل جہنم کے سے عمل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، تو تقدیر کا لکھا ہوا اس سے آگے نکل جاتا ہے اور وہ اہل جنت کا سا عمل کرتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے ، اور ایک شخص زندگی بھر اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے اور اہل جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، تو تقدیر کا لکھا ہوا اس سے آگے نکل جاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کرتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے ۔“

( إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 3208، 3332، 6594، 7454ومسلم: 2643، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 6174، 6177، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 826، برقم: 3623، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 5157)

127- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کوئی بھی شخص نماز میں شیطان کے لیے کوئی حصہ مقرر ہرگز نہ کرے ۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) صرف دائیں طرف سے ہی اٹھ سکتا ہے ، کیونکہ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی مرتبہ بائیں طرف سے اٹھتے ہوئے دیکھا ہے ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 858، ومسلم: 707، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 1997، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 5174، وأحمد فى ”مسنده“ 2 / 846، برقم: 3705)
اختتام مسند سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ

128- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو ، رحمت اس کے مدمقابل ہوتی ہے ، تو وہ کنکریوں پر ہاتھ نہ پھیرے ۔“
سفیان کہتے ہیں : سعد بن ابراہیم نے ان سے دریافت کیا : ابوالاحوص کون ہیں؟ گویا سعد نے زہری پر ناراضگی کا اظہار کیا ، کہ انہوں نے ایک مجہول شخص کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے ، جس سے وہ واقف نہیں ہیں ، تو زہری نے ان سے کہا: کیا آپ بنوغفار کے اس عمر رسیدہ غلام سے واقف نہیں ہیں ؟ جو باغ میں نماز ادا کیا کرتا تھا ، تو زہری اس کا تعارف بیان کرتے رہے ، لیکن سعد بن ابراہیم اس کو نہیں پہچان سکے ۔

( إسناده جيد، وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ ، برقم: 2273، 2274، وابن خزيمة فى ”صحيحه“ برقم: 913، 914، وأحمد فى ”مسنده“ 9 / 4976، برقم: 21725)

129- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”بے شک اللہ تعالیٰ نے جنت میں ہوا کو پیدا کرنے کے سات سال بعد جنت میں ایک بو پیدا کی ہے اس کے آگے ایک بند دروازہ ہے یہ ہوا تمہارے پاس اس دروازے میں موجود دروازے کے درمیان کشادہ جگہ سے آتی ہے ۔ اگر اس دروازے کو کھول دیا جائے ، تو یہ ہوا آسمان اور زمین میں موجود ہرچیز تک پہنچ جائے ۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ازیب (یعنی تیزی سے چلنے والی ہوا) ہے ۔ تمہارے درمیان یہ جنوب سے آنے والی ہوا ہے۔“
(أخرجه البيهقي فى ”سننه الكبير“ 3 / 364، برقم: 6584، والبزار فى ”مسنده“ : 9 / 451، برقم: 4063، وأورده ابن حجر فى ”المطالب العالية“ 14 / 169، برقم: 3429 / 1 ، 3429 / 2)

130- عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلتا ہوا جارہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوذر! کیا میں تمہاری رہنمائی جنت کے خزانے کی طرف نہ کروں؟“ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جی ہاں ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ یہ ہے « لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ » اللہ کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 361، 449، 820،وأحمد فى ”مسنده“ 9 / 4966، برقم: 21693)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
131- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا عمل زیادہ فضیلت رکھتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔“ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے عرض کیا: کون سا غلام زیادہ فضیلت رکھتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی قیمت زیادہ ہو جو اپنے مالک کے نزدیک عمدہ ہو ۔“ میں نے عرض کی : اگر میں اس کی قدرت نہ رکھوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم کسی کام کرنے والے کی مدد کردو یا کسی جاہل یا (اپاہج ) کے لیے کوئی کام کردو۔“
( إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 2518، ومسلم : 84، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 152، 4310، 4596، وأحمد فى ”مسنده“ 9 / 4977، برقم: 21726)

132- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج کو فسخ (حج تمتع) کرنے کا حکم ہمارے لیے مخصوص تھا ۔
( أسناده صحيح، أخرجه مسلم 1224، ومعجم شيوخ ابي يعلي: 29، والبيهقي فى سننه الكبير 4 / 345، برقم: 8825 )

133- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مالدار لوگ اجر حاصل کرنے میں سبقت لے گئے ہیں ، وہ اس طرح پڑھے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں ، لیکن وہ خرچ کرتے ہیں اور خرچ نہیں کرتے ہیں ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا میں تمہاری رہمنائی ایسے عمل کی طرف نہ کروں کہ جب تم اس پڑھ لو گے تو تم اپنے سے آگے والے تک پہنچ جاؤ گے ۔ اور اپنے پیچھے والے سے آگے نکل جاؤ گے ، ماسوائے اس شخص کے ، جو تمہارے اس پڑھنے کی مانند پڑھ لے ۔ تم ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمدللہ ، اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔“
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ان میں سے ایک کلمہ 34 مرتبہ ہے ۔
(نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا شاید راوی نے یہ بات بیان کی ہے : ) ”تم نے سوتے وقت بھی اس کے مانند عمل کرنا ہے ۔“

( إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم 595، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 838 )

134- ابراہیم تیمی بیان کرتے ہیں : میں اپنے والد کے ساتھ جارہا تھا ، انہوں نے سجدے سے متعلق آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا ، پھر انہوں نے فرمایا: میں نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! روئے زمین پر کون سی مسجد پہلے بنائی گئی تھی ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد حرام ۔“ میں نے عرض کیا: پھر کون سی ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد اقصیٰ ۔“ میں نے دریافت کیا : ان دونوں کے درمیان کتنا فرق ہے ؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”چالیس سال کا ۔“ میں عرض کی : پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تمہیں جہاں نماز کا وقت آجائے تم نماز ادا کرلو، کیونکہ تمام روئے زمین نماز ادا کرنے کی جگہ ہے ۔“
( إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى ”صحيحه“ برقم: 3366، 3425، ومسلم فى ”صحيحه“ 520، وابن خزيمة فى ”صحيحه“ برقم: 787، 1290، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 1598،6228، وأحمد فى مسنده 9 / 4977، برقم: 21728)

135- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج کو فسخ (حج تمتع) کرنے کا حکم ہمارے لیے مخصوص تھا ۔
( أسناده صحيح، أخرجه مسلم 1224، ومعجم شيوخ ابي يعلي: 29، والبيهقي فى سننه الكبير 4 / 345، برقم: 8825، والحميدي فى ”مسنده“ 1 / 225، برقم: 132)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
136- اب حوتکیہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”قاحہ“ (ایک مخصوص وادی کا نام ہے) کے دن کون ہمارے ساتھ موجود تھا ؟ جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خرگوش پیش کیا گیا تھا ، تو سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : میں ۔ ایک دیہاتی نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خرگوش لے کر آیا ، اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اسے دیکھا ہے کہ اس کا خون نکلتا ہے (یعنی اسے حیض آتا ہے ) ۔ راوی کہتے ہیں : تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہاتھ روک لیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا اور اپنے اصحاب کو یہ ہدایت کی کہ وہ اسے کھالیں ۔ وہ دیہاتی بھی پیچھے ہٹ گیا ، اس نے بھی نہیں کھایا۔ اس نے عرض کیا: میں نے روزہ رکھا ہوا ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تم کس حساب سے روزہ رکھتے ہو؟“ اس نے جواب دیا : ہر مہینے میں تین دن۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم چمکدار دنوں میں روزہ کیوں نہیں رکھتے؟ تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو ۔“
(إسناده جيد، وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ : 3655، 3656، وأحمد فى ”مسنده“ 9 / 4977، برقم: 21729، و ابن خزيمة فى ”صحيحه“ برقم: 2127)

137- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تاہم اس میں ابن حوتکیہ کا تذکرہ نہیں ہے ۔
(إسناده صحیح، وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ : 3655، 3656، وأحمد فى ”مسنده“ 9 / 4977، برقم: 21729، و ابن خزيمة فى ”صحيحه“ برقم: 2127)

138- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتے ہوئے اچھی طرح غسل کرے ( راوی کو شک ہے شاید الفاظ یہ ہیں ) طہارت حاصل کرتے ہوئے اچھی طرح طہارت حاصل کرے(یا اچھی طرح وضو کرے) پھر عمدہ کپڑے پہن کر جو اللہ تعالیٰ نے اس کے نصیب میں لکھا ہو وہ اپنے گھر میں موجود عمدہ خوشبو استعمال کرے جمعہ کے لیے جائے اور دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہ ڈالے ، تو اس شخص کے دو جمعوں کے درمیان اور مزید تین دن (یعنی دس دنوں کے) گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے ۔“
( إسناده حسن، أخرجه ابن خزيمة فى صحيحه 3 / 244، برقم: 1763، ، 3 / 245، برقم: 1764، ، 3 / 282، برقم: 1812، والحاكم فى ”مستدركه“ 1 / 290، برقم: 1078، وابن ماجه فى ”سننه“ 2 / 196، برقم: 1097، وأحمد فى مسنده 9 / 5036، برقم: 21940، والطيالسي فى ”مسنده“ 1 / 382، برقم: 479، وعبد الرزاق فى مصنفه 3 / 267، برقم: 5589)

139- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوذر! جب تم سالن پکاؤ تو شوربہ زیادہ بنالیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔“ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”اپنے پڑوسی کو بھی کچھ دے دیا کرو۔“
( إسناده صحيح ، أخرجه مسلم 648، 1837 2625، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 468، 513،514، 523، 1718، 5964)

140- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ”رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ نچلے درجے کے ہیں ۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کون لوگ ہیں؟ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مال و دولت والے ہیں ، البتہ اس شخص کا حکم مختلف ہے ، جو یہ کہتا ہے میرے مال میں سے (اتنا، اتنا) یعنی وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور ایسے لوگ کم ہیں ۔“
( إسناده صحيح ، أخرجه البخاري 1460، ومسلم: 990، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 170، 3256، 3331)

اختتام مسند سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ

141- عبداللہ بن عامر اپنے والدکا یہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے بے شمار مرتبہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کے دوران مسواک کرتے ہوئے دیکھا ۔
(إسناده ضعيف ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 7193 ، وأحمد فى ”مسنده“ 6 / 3344 ، برقم : 15918)
142- سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے لیے کھڑے ہوجاؤ ، یہاں تک کہ وہ آگے گزر جائے یا اسے رکھ دیا جائے ۔“
(إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 1307 ، ومسلم : 958 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 7200 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 3051 ، 3052)


أَحَادِيثُ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

143- سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ہم نے کندھوں تک تمیم کیا ہے ۔ ابوبکر نامی راوی کہتے ہیں : میں سفیان کے پاس موجود تھا یحییٰ بن سعید القطان نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے یہ حدیث سنائی اور اس میں یہ بات بیان کی کہ زہری نے یہ بات بیان کی ہے ۔ پھر انہوں نے یہ بات بیان کی میں اسماعیل بن امیہ کے پاس موجود تھا ، وہ زہری کے پاس آئے اور بولے : اے ابوبکر ! (یہ ابن شہاب زہری کی کنیت ہے ) لوگ آپ کی بیان کردہ دو احادیث پر اعتراض کرتے ہیں ۔ زہری نے دریافت کیا : وہ کون سی ہیں؟ تو انہوں نے بایا : یہ روایت کہ ہم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں کندھوں تک تمیم کیا کرتے تھے ، تو زہری نے کہا: عبداللہ بن عبداللہ نے اپنے والد کے حوالے سے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت مجھ تک سنائی ہے ۔
انہوں نے یہ کہا: ایک روایت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول ہے کہ انہوں نے اس شخص کو وضو کرنے کا حکم دیا جو اپنی بغل کو چھولیتا ہے ، تو مجھے زہری کے چہرے پر یوں محسوس ہوا کہ انہوں نے اس روایت کا انکار کیا ہے ۔
(یعنی انہوں نے یہ روایت بیان نہیں کی ہے ) حالانکہ عمرو بن دینار اس سے پہلے زہری کے حوالے یہ روایت ہمیں سنا چکے تھے ۔ میں بعد میں عمرو سے اس روایت کا تذکرہ کیا ، تو وہ بولے : جی ہاں ! انہوں نے یہ روایت ہمیں سنائی ہے ۔

(حديث عمار : إسناده صحيح ، وأخرجه ابن الجارود فى ”المنتقى“ 1 / 51 ، برقم : 135 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم : 1310 ، والبيهقي فى ”سننه الكبير“ 1 / 138 ، برقم : 663 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم : 1609 ، 1629 ، 1630 ، وأخرجه عبد الرزاق فى ”مصنفه“ 1 / 213 ، برقم : 827)

144- ناجیہ بن کعب بیان کرتے ہیں : سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو یاد ہے ، جب میں اور آپ اونٹوں کی رکھوالی کررہے تھے ، تو مجھے جنابت لاحق ہوگئی تو میں زمین میں یوں لوٹ پوٹ ہوگیا جس طرح کوئی جانور لوٹ پوٹ ہوتا ہے ۔ پھر میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اس کی جگہ تمہارے لیے تّیمم کرلینا کافی تھا“ ۔
( إسناده ضعيف ، ولكن الحديث صحيح ، وأخرجه البخاري 348-343 ، ومسلم : 368 ، وابن حبان فى“ ”صحيحه“ ”برقم : 1267 ، 1303 ، ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 1605 ، 1606 ، 1619 ، 1638)

145- عبداللہ بن عنمہ جہنی بیان کرتے ہیں : ایک شخص نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو مختصر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ، جب انہوں نے نماز مکمل کرلی تو اس نے ان سے کہا: اے ابولیقطان ! آج آپ نے مختصر نماز ادا کی ہے ۔ انہوں نے دریافت کیا : کیا تم نے مجھے دیکھا کہ میں نے رکوع یا سجدے میں کوئی کمی کی ہو؟ اس نے جواب دیا : جی نہیں ۔ تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں سجدہ سہو میں جلدی کرنا چاہتا تھا ، کیونکہ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ”بعض اوقات آدمی نماز ادا کرنے کے بعد جب فارغ ہوتا ہے ، تو اس کے نامۂ اعمال میں اس نماز کا دسواں حصہ یا نواں حصہ یا آٹھواں حصہ یا ساتواں ، یا چھٹا حصہ یا پانچواں حصہ یا چوتھا حصہ یا ایک تہائی حصہ یا نصف حصہ لکھا جاتا ہے ۔“
(إسناده ضعيف لإنقطاعه وهو حديث حسن ، وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 1889 ، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 1615 ، 1628 ، وأحمد فى ”مسنده“ 8 / 4166 ، برقم : 18613)

146- حسان بن بلال مزنی بیان کرتے ہیں : سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو شخص دکھایا گیا جو وضو کرتے ہوئے داڑھی کا خلال کررہا تھا ، تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا : کیا آپ بھی اپنی داڑھی کا خلال کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : میں ایسا کیوں نہ کروں ، جبکہ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی داڑھی مبارک کا خلال کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
(إسناده ضعيف ، فيه عبدالكريم بن أبى المخارق أبو امية ، ولكن المتن صحيح ، و أخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 1604 ، والطيالسي فى ”مسنده“ 2 / 36 ، برقم : 680 ، وابن أبى شيبة فى ”مصنفه“ برقم : 98 ، 37612)

147- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔
( إسناده صحيح ، وأخرجه الحاكم فى ”مستدركه“ 1 / 149 ، برقم : 530 ، والترمذي فى جامعه برقم : 29 ، 30 ، وابن ماجه فى ”سننه“ برقم : 429 ، والطيالسي فى ”مسنده“ 2 / 36 ، برقم : 680 ، وأبو يعلى فى مسنده برقم : 1604 ، وابن أبى شيبة فى مصنفه برقم : 98 ، ، 37612 ، والطبراني فى الأوسط 3 / 37 ، برقم : 2395)


حَدِيثُ صُهَيْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مسند سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ
148- سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں بنو عمرو بن عوف محلے کی مسجد میں تشریف لے گئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز ادا کریں ، کچھ انصاری سلام کرے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ( سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ) میں نے سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ، کیونکہ وہ اس وقت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کیسے جواب دیا تھا ؟ جب ان لوگوں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے کے دوران سلام کیا تھا ، تو سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے بتایا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کیا تھا ۔
(إسناده صحيح ، و أخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 2258، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :5638، 5643، وأحمد فى ”مسنده“ 3 / 1046، برقم: 4657، ، 11 / 5764، برقم: 24516)


أَحَادِيثُ بِلَالِ بْنِ رَبَاحٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مُؤَذِّنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مسند سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ مؤذن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم

149- سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے اندر کہاں نماز ادا کی تھی ، تو انہوں نے جواب دیا : سامنے والے دو ستونوں کے درمیان۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں یہ پوچھنا بھول گیا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعات ادا کی تھیں ؟
( إسناده صحيح ،و أخرجه البخاري 397، 468، 504، 505، 1167، 1598، ومسلم: 1329، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 2220، 3200، 3201، 3202، 3203، 3204، 3206،وأحمد فى ”مسنده“ 3 / 1029، برقم: 4550)

150- سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں اور چادر پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
( إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم 275، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 1323،وأحمد فى ”مسنده“ 11 / 5763، برقم: 24514)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
مسند سیدنا خباب بن الأرت رضی اللہ عنہ

151- یحییٰ بن جمرد بیان کرتے ہیں : کچھ لوگ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان کی عیادت کرنے کے لیے حاضر ہوئے ، انہوں نے کہا: اے ابوعبداللہ ! آپ کو مبارک ہو ، آپ کی حوض پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگی ، تو وہ بولے : اس کی اور اس کی موجودگی میں کیسے ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے اپنی عمارت کی طرف ، گھر کی چھت اور اس کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ اس کی موجودگی میں کیسے ہوسکتی ہے ؟ جبکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ فرمایا تھا ۔ ”تم میں سے کسی ایک شخص کے لیے دنیا میں سے اتنی ہی چیز کافی ہے جتنا کسی سوار کا زاد سفر ہوتا ہے ۔“
(إسناده صحيح ، و أخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ : 7214 ، وأخرجه ابن أبى شيبة فى ”مصنفه“ 19 / 50 ، برقم : 35450)

152- سعید بن وہب ، سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : ہم نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گرمی کی شدت کی شکایت کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا ۔
(إسناده صحيح ، و أخرجه مسلم 619، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1480 وأحمد فى ”مسنده“ 9 / 4884، برقم: 21437)

153- سیدنا خباب رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں ہم نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گرمی کی شدت کی شکایت کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا ۔
(إسناده صحيح ، و أخرجه مسلم 619، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1480 وأحمد فى ”مسنده“ 9 / 4884، برقم: 21437)

154- قیس نامی راوی بیان کرتے ہیں: ہم سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے کے لیے گئے انہوں نے اپنے پیٹ میں سات داغ لگوائے تھے ۔ انہوں نے فرمایا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا ، تو میں اس کی دعا کرتا ۔ پھر انہوں نے فرمایا: ہم سے پہلے کچھ ایسے لوگ (دنیا سے) رخصت ہوچکے ہیں ، جنہوں نے دنیا میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا ان کے بعد ہم باقی رہ گئے یہاں تک کہ ہمیں دنیا بھی نصیب ہوئی اور اتنی ملی کہ ہم سے کسی ایک کو یہ سمجھ نہیں آتی تی کہ وہ اس کا کیا کرے ؟ صرف اسے مٹی میں ہی ڈال سکتا تھا (یعنی اس سے یہ تعمیرات کرسکتا تھا) حالانکہ مسلمان جس بھی چیز کو خرچ کرتا ہے ، اسے ہر چیز میں اجر ملے گا ، ماسوائے اس کے جسے وہ مٹی میں خرچ کرتا ہے (یعنی جو تعمیر کرتا ہے) ۔
( إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى صحيحه برقم: 5672، 6349، 6350، 6430، 6431،7234، ومسلم فى ”صحيحه“ برقم: 2681 ، وابن حبان فى ”صحيحه :“ برقم: 2999، وأحمد فى ”مسنده“ 9 / 4886، برقم: 21439)

155- ابووائل بیان کرتے ہیں : ہم سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو انہوں نے فرمایا: بے شک ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ہمارا مقصد اللہ کی رضا کا حصول تھا ، تو ہمارا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لازم ہوگیا ، ہم میں سے کچھ لوگ (دینا سے) رخصت ہوگئے ، انہوں نے اپنے اجر میں سے کچھ بھی نہیں حاصل کیا، ان میں سے ایک سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تھے جو غزوۂ احد کے دن شہید ہوئے تھے ۔ انہوں نے ایک چادر چھوڑی تھی جب ان کے پاؤں ڈھانپتے تھے ، تو ان کا سر ظاہر ہوجاتا تھا اور اگر ان کا سر ڈھانپتے تھے ، تو پاؤں ظاہر ہوجاتے تھے ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی کہ ہم ان کے سر کو ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر تھوڑی سی اذخر رکھ دیں جبکہ ہم میں سے بعض لوگ وہ ہیں ، جن کا پھل تیار ہوچکا ہے اور وہ اسے چن رہے ہیں ۔
( إسناده صحيح ، أخرجه البخاري برقم: 1276،3897،3913،3914، 4047، 4082، 6432،6448، ومسلم : برقم: 940، ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 7019)

156- ابومعمر بیان کرتے ہیں : ہم نے سیدنا خباب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی نماز میں تلاوت کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔ ہم نے دریافت کیا : آپ کو اس بات کا کیسے پتہ چلتا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے ہلنے کی وجہ سے ۔

(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري : رقم : 746 ، 760 ، 761 ، 777 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 1826 ، 1830 ، وابن خزيمة فى ”صحيحه“ 1 / 557 ، برقم : 505 ، 506)

157- قیس بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کے ساتھ ٹیک لگا کر خانۂ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ، ہمیں مشرکین کی طرف سے شید تکالیف کا سامانا کرنا پڑا تھا ، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ؟ تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم سے پہلے ایسے لوگ بھی تھے جس میں سے کسی ایک پر لوہے کی کنگھی پھیری گئی ، جو اس کے گوشت اور پٹھوں سے ہوکر ہڈی تک پہنچی لیکن اس چیز نے بھی انہیں ان کے دین سے نہیں پھیرا ، کسی شخص کے سر پر آری رکھ کر اسے دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ، تو اس چیز نے بھی انہیں ان کے دین سے نہیں پھیرا ، اللہ تعالیٰ اس معاملے کو ضرور مکمل کرے گا ، یہاں تک کہ ایک سوار ”صنعاء“ سے چل کر ”حضرموت“ تک جائے گا اور اسے صرف اللہ کا خوف ہوگا ۔ “
بیان نامی راوی نے یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں ۔ ”اور اسے اپنی بکریوں کے حوالے سے بھیڑیے کا خوف ہوگا ۔ “

( إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري : 3852 ، 3612 ، 6943 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 2897 ، 6698 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم : 7213)

158- طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے کے لیے آئے ، انہوں نے کہا : اے ابوعبداللہ آپ کو مبارک ہو کہ آپ حوض کوثر پر اپنے بھائیوں سے مل لیں گے ، تو انہوں نے فرمایا: اس پر کئی لوگ ہوں گے تم نے میرے سامنے کچھ لوگوں کا تذکرہ کیا ہے تم نے انہیں میرا بھائی قرار دیا ہے ، حالانکہ وہ لوگ (دنیا سے)رخصت ہوگئے اور انہوں نے اپنے اجر میں سے کوئی بھی چیز حاصل نہیں کی ان کے بعد ہم باقی رہ گئے ہم نے دنیا بھی حاصل کی جس کے نتیجے میں ہمیں یہ اندیشہ ہے ، کہیں یہ (ملنے والی دنیا) ہمارے ان اعمال کا بدلہ نہ ہو ۔

(إسناده صحيح ، وأخرجه وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :7214، والطبراني فى ”الكبير“ 4 / 55، برقم: 3616)
اختتام مسند سیدنا خباب رضی اللہ عنہ
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مسند ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا

159- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ”قدح“ یعنی ”فرق“ (بڑے ٹب) سے غسل کرلیتے تھے ، میں اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے ۔
( إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري 250، ومسلم: 321، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4546، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1108)

160- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ام حبیبہ بن حجش کو سات سال استخاضہ کی شکایت رہی انہوں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کسی دوسری رگ کا خون ہے ، یہ حیض نہیں ہے ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ ہدایت کی کہ وہ غسل کرکے نماز ادار کیا کرے ، تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کیا کرتی تھی، وہ ایک بڑے ٹب میں بیٹھتی تھی ، تو خون (پانی پر) غالب آجاتا تھا ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 327 ، ومسلم: 334، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4405، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 1351،1352، 1353)

161- ابوسلمہ بن عبدالرحمان بیان کرتے ہیں: سیدنا عبدالرحمان بن ابوبکر رضی اللہ عنہما نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں وضو کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے عبدالرحمان! اچھی طرح وضو کرو ! کیونکہ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : (کچھ) ایڑیوں کے لیے جہنم کی بربادی ہے ۔
(إسناده حسن ، وأخرجه مسلم 240 وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1059، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 4426)

162- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مسواک منہ کو صاف کرتی ہے اور پروردگار کی رضامندی کا ذریعہ ہے ۔“
(إسناده صحيح ، وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ : 1067، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 4569،4598، 4916، وأحمد فى ”مسنده“ 11 / 5850، برقم: 24840)

163- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کری ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب غسل جنابت کا ارادہ کرنا ہوتا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھ دھوتے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شرمگاہ کو دھوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں تک پانی پہنچاتے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر تین لپ ڈال لیتے تھے ۔
( إسناده صحيح ، و أخرجه البخاري 248، ومسلم: 316 وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1191، 1196، 1197، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 4430، ،4481، 4482، 4497، 4855 ، وأحمد فى ”مسنده“ 11 / 5861، برقم: 24895)

164- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بچے لائے جاتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے دعائے خیر کیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ ایک بچہ لایا گیا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کردیا، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیشاب پر پانی بہادیا ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 222 ، 5468، 6002، ، 6355، ومسلم: 286، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 1372 ، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 4623، وأحمد فى ”مسنده“ 11 / 5847، برقم: 24829)

165- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : «ابواء» کی رات ان کا ہار گرگیا ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے دو آدمی اس کی تلاش میں بھجوائے ، اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا ، ان دونوں کے ساتھ پانی نہیں تھا ، انہیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کریں ، تو تیمم سے متعملق آیت نازل ہوگئی ۔ اس پر سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ) کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطاء کرے ، آپ کے ساتھ جب بھی کوئی معاملہ پیش آیا جو آپ کو ناپسند ہو تو، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس میں نکلنے کا راستہ بنادیا اور مسلمانوں کے لیے اس میں بھلائی پیدا کردی ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 334 ، 336، 3672، 3773، ومسلم: 367، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 1300، 1317، 1709، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4771)

جاری ہے ۔۔۔۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
166- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہڈی دیتے تھے میں اس وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھی ، میں اسے چوستی تھی ، پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس لے کر اپنا منہ اسی جگہ رکھتے تھے کہاں میں نے اپنا منہ رکھا ہوتا تھا ۔
( إسناده صحيح ، أخرجه مسلم فى ”صحيحه“ برقم: 300، وابن حبان فى صحيحه برقم: 1293، 1360، 1361، 4181 وابن خزيمة فى صحيحه 1 / 227، برقم: 110،، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 4771، وأحمد فى ”مسنده“ : برقم: 24966)

167- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ایک خاتون نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے بعد غسل کرنے کے بارے میں دریافت کیا ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم مشک سے بسی ہوئی روئی لو اور اس کے ذریعے طہارت حاصل کرو“ ۔ اس نے دریافت کیا : میں اس کے ذریعے کیسے طہارت حاصل کروں ، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کے ذریعے طہارت حاصل کرو۔ اس نے دریافت کیا : میں اس کے ذریعے کیسے طہارت حاصل کروں ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کے ذریعے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سبحان اللہ ! تم اس کے ذریعے طہارت حاصل کرو اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کے ذریعے پردہ کرلیا ۔
سیدہ دعائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مجھے سمجھ میں آگئی میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچا اور اس سے کہا : تم اس کے ذریعے خون کے اثرات کو صاف کرو۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه و أخرجه البخاري 314، ومسلم: 332، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 1293، 1360، 1361، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :3733)

168- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، میں اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرلیتے تھے بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرماتے تھے : ”میرے لیے (پانی) باقی رہنے دینا ، میرے لیے باقی رہنے دینا ۔ “
( إسناده صحيح ، وأخرجه وابن حبان فى ” صحيحه“ : 1195، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4547)

169- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک ہم میں سے کسی ایک (زوجہ محترمہ) کی گود میں رکھ لیتے تھے اور قرآن پاک کی تلاوت کرلیتے تھے حالانکہ وہ خاتون اس وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھی ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه و أخرجه البخاري 297، ومسلم: 301، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 798، 1366، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4727 )

170- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا کرلیتے تھے حالانکہ سورج ابھی میرے حجرے میں بلند ہوتا تھا اور سایہ ظاہر نہیں ہوا ہوتا تھا ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 522، ومسلم: 611، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 1521، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4420)
جاری ہے ۔۔۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
171- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نوافل ادا کیا کرتے تھے حالانکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان چوڑائی کی سمت میں یوں لیٹی ہوتی تھی جس طرح جنازہ رکھا جاتا ہے ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري 382، ومسلم: 512، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 2341-2348، 2390، وأبو يعلى فى ”مسنده“ : برقم: 4490، 4491،4820، 4888)

172- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چادر اوڑھ کر نماز ادا کی جس پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے (نماز سے فارغ ہوے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے نقش و نگار نے میر توجہ منتشر کرنے کی کوشش کی تھی ، تو تم اسے لے کر ابوجہم کے پاس جاؤ اور اس کی انبجانیہ والی چادر میرے پاس لے آؤ ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه ، وأخرجه البخاري 373، ومسلم: 556، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 2337, وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“ :4414)

173- ابوسلمہ بن عبدالرحمان بیان کرتے ہیں : میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے ان سے کہا: امی جان ! آپ مجھے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نفل نماز کے بارے میں بتائیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزوں کے بارے میں بتائیے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے رکھا کرتے تھے یہاں تک کہ ہم یہ سوچتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل نفلی روزے رکھتے رہیں گے ، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل نفلی روزے ترک کردیتے تھے یہاں تک کہ ہم یہ سوچتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نفلی روزہ نہیں رکھیں گے ۔ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی مہینے میں شعبان کے مہینے سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً پورا مہینہ روزے رکھا کرتے تھے صرف چند دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے روزے نہیں رکھتے تھے اور رمضان میں اور غیر رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعات ہوتی تھی جس میں فجر کی دو رکعات (سنت) بھی شامل ہوتی تھیں ۔
(إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم 738، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 353، 1578، 2430، 2571، 2613، 2616،2634، 3516، 3637، 3648،6385، وأحمد فى ”مسنده“ : 11 / 5824، برقم: 24707، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 4533،4633،4650، 4786، 4788، 4860)

174- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، مؤمن خواتین نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں فجر کی نماز ادا کرتی تھیں انہوں نے اپنی چادریں لپیٹی ہوئی ہوتی تھیں پھر (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) وہ اپنے گھر واپس چلی جاتی تھیں اور اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص ان کی شناخت نہیں کرسکتا تھا ۔ (إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري برقم: 372، 578، 867،872، ومسلم فى ”صحيحه“ برقم: 645، وابن حبان فى ”صحيحه“ : برقم: 1498،1499، 1500، 1501 وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4415، 4416)

175- سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعات ادا کیا کرتے تھے (یعنی سنتیں ادا کرتے تھے) اگر میں جاگ رہی ہوتی تھی ، تو آپ میرے ساتھ بات چیت کرلیتے تھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ جاتے تھے یہاں تک کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (فجر باجماعت) ادا کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے ۔
(إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري 372، 578، 867، 872 ومسلم: 645، 731، 732، 743 وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4630)

جاری ہے ۔۔۔۔
 
Top