• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1246- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : فتح مکہ کے موقع پر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ”خود“ (فولادی ٹوپی ) موجود تھا ۔

1247- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیالے میں کدو تلاش کر رہے تھے ، تو اس کے بعد میں بھی ہمیشہ اس سے محبت رکھتا ہوں ۔

1248-حمید طویل بیان کرتے ہیں : قتادہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی استعمال کی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ، چاندنی رات میں ، اس (انگوٹھی کی) چمک منظر آج بھی میری نگاہ میں ہے ۔

1249- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ، میں اس وقت سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھ رہے تھے ۔ ”میں حج اور عمرہ ایک ساتھ کرنے کے لیے حاضر ہوں ۔“

1250-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔

1251- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے انصار کے کسی قبیلے کے ایک غلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھنے لگائے تھے اس قبیلے کا نام ”بنو بیاضہ“ تھا اور اس شخص کا نام ابوطیبہ تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک صاع یا دو صاع ، ایک مدیا دومد (معاوضے کے طور پر) عطا کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آقاؤں سے بات چیت کی ، تو انہوں نے اس کے ذمے لازم ادائیگی کو کم کردیا ، یعنی اس کے ذمے خراج کو کم کردیا ۔

1252- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ لوگوں کو مختلف جگہ پر ٹہرایا گیا سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ ، سیدنا سعد بن ابی ربیع رضی اللہ عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آئیے میں اپنا مال آپ کے ساتھ تقسیم کر لیتا ہوں اور آپ میری جس بیوی کے بارے میں چاہیں گے میں اس سے دستبردار ہو جاؤں گا اور آپ کی جگہ کام میں کر لیا کروں گا ۔
تو سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل خانہ میں آپ کے مال میں برکت نصیب کرے ! آپ بازار کی طرف میری رہنمائی کردیں ، پھر سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ بازار تشریف لے گئے انہیں کچھ آمدن حاصل ہوئی تو انہوں نے ایک خاتون کو شادی کاپیغام بھیجا اور اس کے ساتھ شادی کرلی ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا : ”تم نے کتنے مہر کے عوض میں اس کے ساتھ شادی کی ہے“ ؟ انہوں نے جواب دیا : سونے کی گٹھلی کے عوض میں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ولیمہ کرو ! خواہ ایک بکری ذبح کرکے دعوت دو“ ۔

1253- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی سمت میں بلغم لگا ہوا دیکھا تو اسے کھرچ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کے عالم میں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ ارشاد فرمایا : ” کیا کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے چہرے کی طرف تھوک دیا جائے ؟ جب بندہ نماز کے دوران کھڑا ہوتا ہے ، تووہ اپنے پروردگار کے سامنے ہوتا ہے اس لیے کوئی شخص اپنے دائیں طرف یا سامنے کی طرف نہ تھوکے ، بلکہ اپنے بائیں طرف یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے ، اگر اسے زیادہ جلدی اور تیزی میں تھوک آرہا ہو تو ، پھر وہ اسے کپڑے میں تھوک کر اس کو اس طرح مل دے “ ۔
حمیدی رحمہ اللہ نامی راوی نے اپنے کپڑے کے کنارے کی طرف اشارہ کرکے اسے مل کردیکھایا ۔

1254- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ”جمرہ“ کی رمی کرلی اور قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا دایاں حصہ سر مونڈنے والے کی طرف بڑھایا اور اس نے اسے مونڈ دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بایاں حصہ اس کی طرف بڑھایا تواس نے اسے بھی مونڈ دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دئیے اور انہیں یہ ہدایت کی ، وہ انہیں لوگوں کے درمیان تقسیم کردیں ۔

1255- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجوریں لائی گئیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تقسیم کرنا شروع کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر آرام دہ حالت میں (یعنی پاؤں کے بل ) بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے انہیں کھا رہے تھے ۔

تخریج:

1246- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1846، 3044، 4286، 5808، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1357، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1599، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 3063، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3719، 3721، 3805، 3806، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2867، 2868 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3836، 3837، 8530، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2685، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1693، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1981، 2500، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2805، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9949، 12976، 13503، 16979، 18848، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12250، 12251، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3539، 3540، 3541، 3542، والترمذي فى "الشمائل"، 112، 113)
1247- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2092، 5379، 5420، 5433، 5435، 5436، 5437، 5439، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2041، ومالك فى «الموطأ» برقم: 510، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4539، 5293، 6380، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6628، 6629، 6630، 6728، 9993، 9994، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3782، 4182، 4789، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1849، 1850، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2094، 2095، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3302، 3303، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14710، 14735، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12234، 12562، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2883، 2924، 3006، 3201، 3243، 3399، 3906، 4170، 4277)
1248- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 65، 3106، 5870، 5872، 5874، 5879، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2092، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 549، 5498، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3009، 3536، 3537، 3538، 3584، 3827، 3936، 3943)
1249- (إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1089، 1546، 1547، 1548، 1551، 1714، 1715، 2951، 2986، 4353، 5553، 5554، 5558، 5564، 5565، 7399، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 690، 1232، 1251، 1966، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2618، 2619، 2894، 2895، 2896، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2743، 2744، 2747، 2748، 3930، 3931، 3932، 3933، 4019، 5900، 5901، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 468، 476، 1587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1202، 1773، 1774، 1795، 1796، 2793، 2794، والترمذي فى «جامعه» برقم: 546، 821، 1494، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1548، 1549، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5527، 5528، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5091، 5242، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2794، 2806، 2807)
1250- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
1251- (إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2102، 2210، 2277، 2281، 5696، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1577، ومالك فى «الموطأ» برقم: ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5151، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7537، 7538، 7550، 7551، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3424، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1278، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2664، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2164، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15887، 19567، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12147، 12227، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2835، 3746، 3758، 3850)
1252- (إسناده صحيح ،أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2049، 2293، 3781، 3937، 5072، 5148، 5153، 5155، 5167، 6082، 6386، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1427، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2006، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4060، 4096، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5383، 5384، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3351، 3352، 3372، 3373، 3374، 3388، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5481، 5533، 5534، 5535، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2109، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1094، 1933، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2108، 2250، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1907، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12645، 13952، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3205، 3348، 3463، 3781، 3824، 3836، 3887)
1253- (إسناده صحيح ،أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 405، 412، 413، 417، 531، 1214، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 551، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1296، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2267، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 727، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 809، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 762، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1221، 3651، 3652، 3653، 3654، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12245، 13006، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2884، 2968، 3107، 3169، 3190، 3220، 3221، 3506، 3853)
1254- (إسناده صحيح ،أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 171، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1305،وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2928، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1371، 3879، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1749، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4087، 4102، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1981، 1982، والترمذي فى «جامعه» برقم: 912، 912 (م) ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 90، 4299، 4300، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12275، 12678، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2827)
1255- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2044، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6711، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3771، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2106، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14768، وأحمد فى «مسنده» برقم: 13058، 13302، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3647، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24986، والترمذي فى "الشمائل"، 142، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 7138)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

1256- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کردیا ، اس کے پاس اس غلام کے علاوہ کوئی مال نہیں تھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو فروخت کروا دیا ، سیدنا نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ نے اسے خرید لیا ۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے ، وہ ایک قبطی غلام تھا ، جو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حکومت کے پہلے سال فوت ہوا تھا ۔
ابوزبیر نامی راوی نے یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں ۔ اس کا نام ”یعقوب قبطی“ تھا ۔

1257- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص مسجد میں داخل ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت منبر پر موجود جمعے کا خطبہ دے رہے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا : ”کیا تم نے نماز ادا کرلی ہے“ ؟ اس نے عرض کی : جی نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم دورکعت نماز ادا کرلو“ ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : ابوزبیر نامی راوی نے ا س روایت میں ان صاحب کا نام ”سیدنا سلیک بن عمر و عطفانی رضی اللہ عنہ“ بیا ن کیا ہے ۔

1258-حسان نامی راوی کہتے ہیں : میں نے حسن بن ابوالحسن کو ”مسجد واسط“ میں جمعہ کے دن داخل ہوتے دیکھا اس وقت ابن ہبیرہ منبر پر خطبہ دے رہا تھا ، توا نہوں نے پہلے دو رکعت ادا کیں پھر وہ بیٹھے ۔

1259- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حدیبیہ کے دن ہم لوگ 1400 کی تعداد میں تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”آج کے دن تم لوگ روئے زمین کے سب سے بہتر فرد ہو“ ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اگر میری بصارت کام کرتی ہوتی ، تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا ۔

1260-محمد بن عباد بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : وہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کررہے تھے کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : اس گھر کے پروردگار کی قسم ! جی ہاں ۔

1261- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”اے جابر ! کیا تم نے شادی کرلی ہے“ ؟ میں نے عرض کی : جی ہاں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کنواری کے ساتھ یا ثیبہ کے ساتھ“ ؟ میں نے عرض کی : ثبیہ کے ساتھ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم نے کسی لڑکی کے ساتھ شادی کیوں نہیں کی کہ وہ تمہارے ساتھ خوش ہوتی اور تم اس کے ساتھ خوش ہوتے“ ؟
میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرے والد غزوۂ احد کے موقع پر شہید ہوگئے تھے ۔ ا نہوں نے 9 بیٹیاں چھوڑی ہیں ، تو میری 9 بہنیں ہیں مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں ان کے ساتھ ایک لڑکی کو شامل کردوں جو ان کی مانند کم سن ہو ، میں ایک ایسی بیوی لانا چاہتا تھا جوان کی کنگھی کردیا کرے ان کی دیکھ بھال کیا کرے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم نے ٹھیک کیا ہے“ ۔

1262- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ جب میں نے شادی کرلی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ”اے جابر! کیا تم نے قالین استعمال کیا ہے“ ؟ میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ہمارے پاس کہاں سے قالین آئیں گے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”عنقریب آئیں گے“ ۔

1263- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی چیز مانگی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ”نہ“ نہیں کی ۔

1264- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں بیمار ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے تشریف لائے ، یہ دونوں حضرات پیدل تشریف لائے تھے مجھ پر بے ہوشی طاری ہوئی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور وضو کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مجھ پر انڈیلا تو مجھے ہوش آگیا میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ دوں ؟ میں اپنے مال کے بارے میں کیا طریقہ اختیار کروں ؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، یہاں تک کہ وراثت سے متعلق آیت نازل ہوگئی ۔

1265- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : وراثت ( کے حکم ) سے متعلق آیت میرے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نامی راوی نے ابوزبیر نامی راوی سے یہ روایت نہیں سنی ہے ۔

1266- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق کے موقع پر (دشمن کی جاسوسی کے لیے ) لوگوں کو طلب کیا ، تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے خود کو پیش کیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر لوگوں کو طلب کیا ، توانہوں نے خود کو پیش کیا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں طلب کیا ، تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے خود کوپیش کیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری ، زبیر ہے“ ۔
سفیان کہتے ہیں : ہشام بن عروہ نامی راوی نے یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں ”میرا پھوپھی زاد (زبیر ہے ) ۔“

1267- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کسی قبیلے میں ایک بچہ پیدا ہوا تو اس کے والد نے اس کا نام ”قاسم“ رکھا تو ہم نے اس کے والد سے کہا: ہم تمہاری کنیت ”ابوالقاسم“ نہیں رکھیں گے اور ہم تمہاری آنکھیں ٹھنڈی نہیں کریں گے ، تو اس کا والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : ”تم اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمان رکھ لو“ ۔

1268-امام محمد الباقر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ”اے جابر ! جب اگر ہمارے پاس بحر ین کا مال آئے گا تو میں تمہیں اتنا اتنا اور اتنا دوں گا“ ۔
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا ، بحرین کا مال نہیں آیا ، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آیا ، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اعلان کرنے کے لیے کہا: کہ جس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ادائیگی کرنی ہو ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ کوئی وعدہ کیا ہو ، تو وہ آجائے ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا میں نے ان سے یہ کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ”اگر بحرین کامال آیا ، تو میں تمہیں اتنا ، اتنا اور اتنا دوں گا ۔“ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دونوں ہتھیلیاں ملا کر بھر کر مجھے دیا ، پھر مجھ سے فرمایا : تم اس کی گنتی کرو ، میں نے ا س کی گنتی کی ، تو وہ پانچ سو (درہم ) تھے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم اس سے دوگناہ اور لے لو ۔

1269-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں ”سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دونوں ہتھیلیاں ملا کر تین مرتبہ مجھے دیا ۔“
ابن منکدرنامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اس کے بعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا میں نے ان سے کہا: مجھے کچھ دیجئے ، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا ، میں پھران کے پاس آیا اور انہیں کہا: امجھے کچھ دیجئے ، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا میں پھر ان کے پاس آیا میں نے ان سے کہا: مجھے کچھ دیجئے ، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا میں نے کہا: اے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ! میں نے آپ سے کچھ مانگا ہے ، آپ مجھے کچھ دیں لیکن آپ نے مجھے کچھ نہیں دیا پھر میں نے آپ سے مانگا کہ آپ مجھے کچھ دیں لیکن آپ نے مجھے کچھ نہیں دیا ، یاتو آپ مجھے کچھ دیں گے یا پھر آپ میرے حوالے سے بخل سے کام لیں گے ، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے : تم یہ کہہ رہے ہو کہ تم میرے حوالے سے بخل سے کام لو گے ؟ کنجوسی سے زیادہ قابل علاج بیماری اور کون سی ہے ؟ میں نے ایک مرتبہ تمہیں منع اس لیے کیا ہے کیونکہ میں تمہیں دینا چاہتا ہوں ۔

1270- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیاں اور پیالہ چاٹنے کا حکم دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”یہ نہیں پتہ ہے ، اس میں کہاں برکت ہے“ ؟

تخریج:

1256- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2141، 2230، 2231، 2403، 2415، 2534، 6716، 6947، 7186، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 997، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2445، 2452، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3339، 3342، 4234، 4929، 4930، 4931، 4932، 4933، 4934، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2545، 4666، 4667، 4668، 5433، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2338، 4979، 4980، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3955، بدون ترقيم، 3957، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1219، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2615، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2512، 2513، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7849، 21569، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14349، 14435، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1825، 1932، 1977، 1984، 1985، 2166، 2167، 2236)
1257- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 930، 931، 1166، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 875، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1831، 1832، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2500، 2501، 2502، 2504، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: ،،، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 499، 1715، 1716، 1717، 1729، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1115، 1116، بدون ترقيم، والترمذي فى «جامعه» برقم: 510، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1592، 1596، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1112، 1114، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5771، 5772، 5773، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14391، 14530، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1830، 1946، 1969، 1970، 1988، 1989، 2117، 2186، 2276، 2622)
1258- (رجاله ثقات، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 511 ، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1594، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية » برقم: 716، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 5515، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 5205، 5207، 5208، 37640، 37641)
1259- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3576، 4152، 4153، 4154، 4840، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1856، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 125، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4874، 6540، 6541، 6542، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 81، 11442، 11443، 11445، والدارمي فى «مسنده» برقم: 27، 28، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10309، 10310، 10311، 12992، 16654، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3883، 3884، 14401، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2107)
1260- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1984، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1143، 1143، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2758، 2759، 2760، 2761، 2762، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1789، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1724، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8579، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14371، 14576، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2206)
1261- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4052، 443، 1801، 2097، 2309، 2385، 2394، 2405، 2470، 2603، 2604، 2718، 2861، 2967، 3087، 3089، 3090، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 715، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2496، 2713، 2714، 2715، 2717، 4182، 4911، 6517، 6518، 6519، 7138، 7140، 7141، 7143، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3219، 3220، برقم: 3226، برقم: 4604، برقم: 4605، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2048، 2776، 2777، 2778، 3347، 3505، 3747، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1100، 1253، 2712، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2262، 2673، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1860، 2205، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10479، 10480، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14348، 14396، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1793، 1843، 1850، 1891، 1898، 1965، 1974، 1990، 1991، 2123، 2124، 2125)
1262- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3631، 5161، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2083، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6683، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3386 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5548، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4145، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2774، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14446، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1978، 2015)
1263- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6034، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2311، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6376، 6377، والدارمي فى «مسنده» برقم: 71، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14515، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1826، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2001، وعبد بن حميد فى «المنتخب من مسنده» برقم: 1087، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32470، والترمذي فى "الشمائل"، 352، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1339، 3345)
1264- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 194، 4577، 5651، 5676، 6723، 6743، 7309، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1616، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 106، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1266، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3204، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 138، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 71، 6287، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2886، 2887، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2096، 2097، 3015، والدارمي فى «مسنده» برقم: 760، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1436، 2728، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1138، 12328، 12329، 12396، 12397، 12453، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14406، 14519، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2018، 2180)
1265- (إسناده منقطع ،ولكن أخرجه وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 106، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1266، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3204، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 138، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 71، 6287، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2886، 2887، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2096، 2097، 3015، 3015 (م) ، والدارمي فى «مسنده» برقم: 760، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1436، 2728، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1138، 12328، 12329، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14406، 14519، 15229، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2018، 2180)
1266- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2846، 2847، 2997، 3719، 4113، 7261، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2415، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6985، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8154، 8155، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3745، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 122، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13207، 13208، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14518، 14598، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2022، 2082)
1267- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3114، 3115، 3538، 6186، 6187، 6189، 6196، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2133، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5816، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7830، 7831، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4966، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2842، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3736، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19383، 19384، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14403، 14447، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1915، 1923، 1923، 2016، 2302)
1268- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2296، 2598، 2683، 3137، 3164، 4383، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2313، 2314، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4498، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7448، 12869، 13120، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14522، 14550، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1269، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1961، 1966، 2019، 2020)
1269- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2296، 2598، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2314، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4498، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7448، 12869، 13120، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14522، 14550، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1268، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1961، 1966، 2019، 2020)
1270- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2033، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5253، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7219، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6736، 6746، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1802، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3269، 3270، 3279، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14732، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14441، 14444، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1836، 1903، 1904، 1934، 2165، 2246، 2247، 2283، 2284)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1271- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک محل (روای کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) میں نے ایک گھر دیکھا میں نے دریافت کیا : یہ گھر کس کا ہے ، تو مجھے بتایا گیا : یہ عمر بن خطاب کا ہے ، اے ابوحفص ! اگر تمہارے مزاج کی تیزی کا خیال نہ ہوتا ، تو میں اس کے اندر چلا جاتا“ ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غصہ کروں گا ؟

1272- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اس میں ایک محل (روای کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ایک گھر دیکھا میں نے اس میں آواز سنی میں نے دریافت کیا : یہ کس کا ہے ، تو مجھے کہا: گیا ؛ یہ قریش سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کا ہے ، مجھے یہ امید ہوئی کہ یہ میرا ہوگا ، تو مجھے یہ بتایا گیا : یہ عمر بن خطاب کا ہے ۔ اے ابوحفص ! اگر تمہارے مزاج کی تیزی کا خیال نہ ہوتا ، تو میں اس کے اندر چلاجاتا“ ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ روپڑے اور عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غصہ کیا جاسکتا ہے ؟

1273- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جنگ ، دھوکہ دینے کا نام ہے“ ۔

1274-عمر وبن دینار کہتے ہیں : لفظ ”خدعتہ“ کے تلفظ میں اختلاف پایا جا تا ہے ۔

1275- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم لوگ ایک جنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے مہاجرین سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ایک انصاری کی پیٹھ پر ہاتھ (یا پاؤں ) مارا ، تو انصاری نے کہا: اے انصار (میری مدد کے لیے آؤ) اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرین (میری مدد کے لیے آؤ) ۔
راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کیا ہوا ہے“ ؟ لوگوں نے بتایا : مہاجرین سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے انصار سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو مارا ، توانصاری نے یہ کہا: اے انصار (میری مدد کے لیے آؤ) تو مہاجر نے بھی یہ کہا: اے مہاجر ین (میری مدد کے لیے آؤ)
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ زمانہ جاہلیت کاطرز عمل ہے تم اسے چھوڑ دو ، کیونکہ یہ گندگی والا ہے۔“ (جب اس بات کا پتہ عبداللہ بن اُبی کو چلا) تو عبداللہ بن اُبی بولا: کیا ان لوگوں نے ایسا کیا ہے ؟ اللہ کی قسم ! جب ہم مدینہ واپس جائیں گے ، تو وہاں کے عزت دار لوگ، ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال دیں گے ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : انصار ، مدینہ منورہ میں مہاجر ین سے زیادہ تھے ، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو مہاجر ین زیادہ ہوگئے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑادوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسے چھوڑ دو ! ورنہ لوگ یہ کہیں گے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اپنے ساتھیوں کو قتل کروارہے ہیں“ ۔

1276- ابوہارون مدنی بیان کرتے ہیں : عبداللہ بن اُبی کے بیٹے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے کہا: اللہ کی قسم ! تم اس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے ، جب تک تم یہ نہیں کہوگے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عزت دار ہیں اور تم ذلیل ترین ہو ۔
راوی بیان کرتے ہیں : وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مجھے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کو قتل کروانا چارہ رہے ہیں ؟ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں اس کے قتل میں تامل نہیں کروں گا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں ، میں اس کا سرلے کر آؤں ، تو میں وہ بھی لے آتا ہوں لیکن مجھے یہ بات پسند نہیں ہے ، میں اپنے باپ کے قاتل کو دیکھوں (یا مجھے اپنے باپ کا قاتل سمجھا جائے ) ۔

1277- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دیہاتی مدینہ منورہ آیا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر ہجرت کی بیعت کی اسے بخار ہوگیا ، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میری بیعت مجھے واپس کیجئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی نہیں“ !
پھر تب اس کا بخار تیز ہوگیا ، وہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میری بیعت مجھے واپس کردیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی نہیں“ ! پھر اس کا بخار اور تیز ہوگیا ۔
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری بیعت مجھے واپس کردیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی نہیں“ ! پھر اس کا بخار اور شدید ہوگیا تو وہ مدینہ منورہ سے خوفزدہ ہوکر چلا گیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مدینہ منورہ کی مثال بھٹی کی مانند ہے ، جو زنگ دیتی ہے اور صاف چیز کو نکھار دیتی ہے ۔“

1278- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم 300 سواروں کو ایک مہم پر بھیجا ہمارے امیر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے ہم قریش کے ایک قافلے کی گھات میں تھے ، ہمیں شدید بھوک لاحق ہوگئی ، یہاں تک کہ ہم پتے کھانے پر مجبور ہوگئے ا س لیے اس لشکر کانام ”پتوں والا لشکر“ رکھا گیا ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سمندر سے ہمارے سامنے ایک سمندری مخلوق آئی ہم اس وقت ساحل پر موجود تھے اسے ”عنبر“ کہا جاتا تھا ہم پندرہ دن تک اس کا گوشت کھاتے رہے ، ہم نے اس کے تیل کے ساتھ روٹی کھائی اس کی چربی کو جسم پر ملا یہاں تک کہ ہم موٹے تازے ہوگئے ۔
پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی کو کھڑا کیا پھر انہوں نے سب سے طویل ترین شخص اور لشکر کے سب سے اونچے اونٹ کا جائزہ لیا پھر اس شخص کو حکم دیا کہ وہ ا س اونٹ پر سوار ہوا اور اس پسلی کے نیچے سے گزرے تو اس شخص نے ایسا ہی کیا وہ اس کے نیچے سے گزرگیا ، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کیا تمہارے پاس اس کا کچھ حصہ ہے“ ؟ ہم نے عرض کی : جی نہیں !

1279-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں ۔ ”ہمارے درمیان ایک شخص تھا جس کے پاس بوری تھی جس میں کھجوریں موجود تھیں وہ اس میں سے ایک ، ایک مٹھی کھجوریں ہمیں دیا کرتا تھا ، پھر نو بت ایک کھجور تک آگئی ، جب وہ بھی ختم ہوگئی ، تو ہمیں اس کی غیر موجود گی کا شدت سے احساس ہوا ۔“

1280- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہمارے درمیان ایک شخص موجود تھا ، جب بھوک شدید ہوگئی توا س نے تین اونٹ ذبح کر لیے ، پھر تین اونٹ ذبح کیے ، پھر تین اونٹ ذبح کیے ، پھر سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے اسے ایسا کرنے سے منع کردیا ۔

تخریج:


1271- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3679، 5226، 7024، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2393، 2394، 2457، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6886، 7084، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8070، 8071، 8072، 8178، 8326، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14543، 15233، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1976، 2014، 2063)
1272- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3679، 5226، 7024، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2393، 2394، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6886، 7084، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8070، 8071، 8072، 8178، 8326، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14543، 15233، 15234، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1976، 2014، 2063)
1273- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3030، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1739، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4763، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8589، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2636، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1675، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2889، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13403، 18520، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14397، 14529، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1804،وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1826، 1968، 2121)
1274- (إسناده صحيح إلى عمرو)
1275- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3518، 4905، 4907، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2584، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5990، 6582، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8812، 10747، 11535، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3315، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2795، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17939، 20530، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14691، 14857، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1824، 1957، 1959، 1986، 1987 وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18041)
1276- (رجاله ثقات، غير أني ما علمت رواية أبو هارون موسيٰ بن أ بي عيسي المدني ، عن عبدالله بن عبدالله فيما أعلم، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 6552، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1276، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 3757)
1277- (إسناده صحيح ،و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1883، 7209، 7211، 7216، 7322، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1383، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3732، 3735، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4196 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4248، 7760، 8665، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3920، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14505، 14521، 15167، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2023، 2174)
1278- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2483، 2983، 4360، 4361، 4362، 5493، 5494، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1935، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5259، 5260، 5261، 5262، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4362، 4363، 4364، 4365، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4844، 4845، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2475، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2055، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4159، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19026، 19027، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14477، 14478، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1786، 1954، 1955، 1956)
1279- (إسناده ضعيف ،لانقطاعه ،ولكن أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2483، 2983، 4360، 4361، 4362، 5493، 5494، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1935، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5259، 5260، 5261، 5262، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4362، 4363، 4364،، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4844، 4845، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2475، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2055، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4159، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19026، 19027،وأحمد فى «مسنده» برقم: 14477، 14478، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1786، 1954، 1955، 1956)
1280- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2483، 2983، 4360، 4361، 4362، 5493، 5494، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1935، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5259، 5260، 5261، 5262، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4362، 4363، 4364، 4365، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4844، 4845، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2475، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2055، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4159، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19026، 19027، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14477، 14478، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1786، 1954، 1955، 1956)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1281-قیس بن سعد بیان کرتے ہیں : میں نے اپنے والد سے کہا: میں اس لشکر میں موجود تھا ، جسے پتوں والا لشکر کا نام دیا گیا ، لوگوں کو بھوک لاحق ہوگئی تو میرے والد نے مجھ سے کہا: تم قربان کرو، میں نے جواب دیا : میں قربان کر لیتا ہوں ، پھر لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا تو میرے والد نے مجھے فرمایا : تم قربان کرو ! میں نے جواب دیا : میں قربان کردیتا ہوں ، پھر لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا تو میرے والد نے مجھے کہا: تم قربان کرو ، تو میں نے جواب دیا : مجھے (لشکر کے امیر کی طرف سے ) اس سے منع کردیا گیا ہے ۔

1282- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات بیان کرتے ہیں : میں گواہی دے کر یہ بات کہتا ہوں کہ میں نے اپنے ان دو کانوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”بے شک کچھ لوگ جہنم سے نکالے جائیں گے اور جنت میں داخل کردئیے جائیں گے ۔“

1283- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں نماز ادا کرتے تھے ، پھر وہ (اپنے محلے ) واپس تشریف لے جاتے تھے اور اپنی قوم کو یہ نماز پڑھایا کرتے تھے ۔
راوی بیان کرتے ہیں : ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کی ، تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں عشاء کی نماز ادا کی پھر وہ واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو نماز پڑھانا شروع کی ، تو سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کردی ان کے پیچھے نمازادا کرنے والوں میں سے ایک صاحب پیچھے ہٹے انہوں نے تنہا نماز ادا کی اور چلے گئے ۔ لوگوں نے ان سے کہا: تم منافق ہوگئے ہو ، تو وہ بولا: جی نہیں ! میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ا س بارے میں بتاؤں گا ۔
پھر وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! گزشتہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کی تھی سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں یہ نماز ادا کی پھر واپس آئے اور انہوں نے ہمیں نماز پڑھانا شروع کی اور سورۃ بقرہ پڑھنی شروع کردی جب میں نے یہ دیکھا تو میں پیچھے ہٹ گیا پھر میں نے اکیلے نماز ادا کرلی ہم اونٹ پالنے والے لوگ ہیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے کام کاج کرنا ہوتا ہے۔
(راوی کہتے ہیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اے معاذ ! کیا تم آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتے ہو ؟ کیا تم آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتے ہو ؟ تم فلاں اور فلاں سورت کی تلاوت کیا کرو !“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کی گنتی کروائی ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : ابوزبیر نامی راوی نے اس میں یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں ۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سورۃ الاعلیٰ ، سورۃ البروج ، سورۃ الشمس اور سورۃ طارق کی تلاوت کیا کرو ۔“
سفیان کہتے ہیں : میں نے عمروبن دینار سے کہا: ابوزبیر نے تو یہ بات بیان کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ۔ ”تم سورۃ الاعلیٰ ، سورۃ الیل ، سورۃ الشمس ، سورۃا لطارق اور سورۃ البروج کی تلاوت کیا کرو ۔“ تو عمر وبن دینار نے کہا: یہ الفاظ یہی ہیں ، یا اس کی مانند ہیں ۔

1284- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن اُبی بن سلول (کی میت) کے پاس تشریف لائے ، اس وقت جب اسے قبر میں رکھا جا چکا تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت اسے باہر نکالا گیا اور اس کی میت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھا گیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اسے پہنوائی ا ور اس پراپنا لعاب دہن ڈالا ۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔

1285- ابوہارون کہتے ہیں : عبداللہ بن اُبی کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گزارش کی : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس و قت دو قمیصیں پہنی ہوئی تھیں ، اس نے عرض کی تھی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ وقمیص اسے پہنادیجئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے ساتھ مس ہورہی ہے ۔

1286- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : غزوہ احد کے دن ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے ؟ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کرتے ہوئے مارا جاتا ہوں ، تو میں کہاں جاؤں گا ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جنت میں“ ۔
راوی کہتے ہیں : اس شخص نے اپنے ہاتھ میں موجود کھجوریں ایک طرف رکھیں اور پھر جنگ میں حصہ لیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا ۔

1287- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”کون شخص کعب بن الاشرف سے میری جان چھرائے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا ہے“ ۔ تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند کریں گے کہ میں اسے قتل کردوں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی ہاں“ ۔ انہوں نے عرض کی : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی ۔
سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، کعب بن الاشرف کے پاس آئے اور بولے : یہ صاحب (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) ہم سے صدقہ بھی طلب کررہے ہیں ، انہوں نے تو ہمیں مشقت کا شکار کردیا ہے ، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں ، تا کہ تم سے کچھ قرضہ حاصل کروں ، توکعب بولا: اللہ کی قسم ! تم ضرور ان سے اکتا جاؤ گے ، تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ بولے : ہم ان کی پیروی کرچکے ہیں اور ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ ہم انہیں چھوڑ دیں ابھی ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں ، آگے چل کر ان کی کیا صورتحال ہوتی ہے ۔ کعب نے کہا: تم میرے پاس کوئی چیز رہن کے طور پر رکھواؤ !
سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : میں کون سی چیز تمہارے پاس رہن کے طور پررکھواؤں ۔ کعب نے کہا: تم اپنے بیٹوں کو میرے پاس رہن رکھوادو ! تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: کوئی شخص ہم میں سے کسی کے بچے کو گالی دیتے ہوئے کہے گاکھجور کے دو وسق کے عوض میں اسے رہن رکھوا دیا گیا تھا ۔
کعب نے کہا: پھر اپنی عورتوں کو (رہن رکھوا دو) تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم عرب کے خوبصورت ترین آدمی ہو، تو کیا ہم اپنی عورتیں تمہارے پاس رہن رکھوا دیں؟ البتہ ہم اپنا اسلحہ (زرہیں ) تمہارے پاس رہن رکھوا دیتے ہیں ۔ کعب بولا: ٹھیک ہے ۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اس کے پا س آئیں ۔
راوی بیان کرتے ہیں : وہ چار افراد تھے جن میں سے دو کے نام عمرو نے بیان کیے ہیں ایک سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرے سیدنا ابونائلہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ یہ چار حضرات کعب بن اشرف کے پاس آئے وہ اس و قت چادر اوڑھے ہوئے تھا ، جس میں سے پاکیزہ خوشبو پھوٹ رہی تھی ان حضرات نے کہا: ہم نے آج جیسی پاکیزہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی ۔ وہ بولا: میری بیوی فلاں عورت ہے ، جو عرب کی سب سے معطرعورت ہے ، تو سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم مجھے اجازت دو کہ میں اس خوشبو سونگھ لوں ، تو اس نے کہا: تم سونگھ لو ! پھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم مجھے دوبارہ اجازت دو کہ میں دوبارہ اسے سونگھوں ۔
راوی کہتے ہیں : جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ دوبارہ اس کے قریب ہوئے ، تو انہوں نے اس کا سر پکڑلیا اور بولے : اس کو ماردو ! ان حضرات نے اسے مارا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا ۔

1288-عکرمی نامی روای نے روایت میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں : کعب بن اشرف کی بیوی نے اسے کہا: میں نے ایک ایسی آواز سنی ہے ، جس میں سے مجھے خون کی بومحسوس ہو رہی ہے ، تو کعب بن اشراف بولا: یہ تو ابونائلہ ہے ، جو میرا بھائی ہے اگر وہ مجھے سویا ہوا پاتا تو مجھے بیدار نہ کرتا اور معزز آدمی کو زخمی کرنے کے لیے بھی بلایا جائے ، تو وہ ضرور جاتا ہے ۔
راوی نے ان حضرات کے نام بیان کیے ہیں جو یہ ہیں ۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابونائلہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا عباد بن بشر رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوعبس بن جبر رضی اللہ عنہ ، اور سیدنا حارث بن معاذ رضی اللہ عنہ ۔

1289-سفیان کہتے ہیں : میں نے عمروبن دینار سے دریافت کیا : کیا آپ نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے یہ فرمایا تھا : جو مسجد میں اپنے تیرلے کر گزر رہا تھا کہ تم اسے دھار کی طرف سے پکڑکر رکھو ، تو انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔

1290- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : یہ آیت ہمارے بارے میں یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ « إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلا» (3-آل عمران:122) ”جب تم میں سے دوگروہوں نے یہ ارادہ کیا کہ وہ بزدلی دکھائیں ۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : مجھے یہ بات پسند نہیں ہے ، یہ آیت نازل نہ ہوئی ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : «وَاللهُ وَلِيُّهُمَا» (3-آل عمران:122) ”اللہ تعالیٰ ان دونوں گرو ہوں کا ولی (حامی ومدد گار) ہے ۔“

تخریج:


1281- (إسناده صحيح ،و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم:4361، وانظر الحديثين السابقين)
1282- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6558، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 191، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 183، 7483، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20834، 20835، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14533، 14715، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1831، 1973، 1992، 1993، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20862، 20863)
1283- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 700، 701، 705، 711، 6106، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 465، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 521، 1611، 1633، 1634، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1524، 1839، 1840، 2400، 2401، 2402، 2403، 2404، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 830، 834، 983، 996، 997، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 907، 911، وأبو داود فى «سننه» برقم: 599، 600، 790، بدون ترقيم، والترمذي فى «جامعه» برقم: 583، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1333، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 836، 986، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4108، 5180، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14410، 14422، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1827)
1284- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1270، 1350، 5795، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2773، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3174، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1900، 2018، 2019، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2039، 2157، 2158، 9586، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6787، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15217، 15307، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1828، 1958)
1285- (رجاله ثقات ، انفرد به المصنف من هذا الطريق)
1286- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4046، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1899، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4653، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3154، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4347، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2552، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17990، 18266، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14535، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1972)
1287- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2510، 3031، 3032، 4037، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1801، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5893، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2768، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13405، 18177، 18178)
1288- (أثر صحيح،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم:4037 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1801)
1289- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 451، 7073، 7074، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2614، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1316، 1317، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1647، 1648، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 717، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 799، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2586، والدارمي فى «مسنده» برقم: 657، 1442، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3777، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15977، 15978، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14531، 15009، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1833، 1971، 1994، 1995)
1290- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4051، 4558، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2505، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7288، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 523، 2870)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1291- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑوں کا گوشت کھلایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گدھوں کے گوشت سے منع کیا ہے ۔

1292- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مخابرہ“ سے منع کیا ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : میں نے عمرو بن دینار کے حوالے سے جو بھی روایت سنی اس میں انہوں نے یہی کہا: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، البتہ ان دو روایات کاحکم مختلف ہے ۔ یعنی گھوڑوں کے گوشت والی روایت اور مخابرہ والی روایت ، مجھے نہیں معلوم کہ آیا ان دونوں روایات میں عمر وبن دینار اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی اور راوی ہے یا نہیں ؟ جہاں تک تیروں والی روایت کاتعلق ہے ، تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : اسی طرح جس طرح میں تمہیں یہ حدیث سنارہا ہوں ۔

1293-سیلمان بن سیار بیان کرتے ہیں : طارق نامی صاحب مدینہ منورہ کے گورنر تھے ۔ انہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نقل کردہ حدیث کی بنیاد ہ پر ”عمریٰ“ کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ وہ وارث کو ملے گی ۔

1294- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم لوگ عزل کرلیا کرتے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے اور قرآن نازل ہوتا رہا ( لیکن ہمیں اس عمل سے منع نہیں کیا گیا) ۔

1295- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میری ایک کنیز ہے میں اس سے عزل کرلیتا ہوں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”یہ عمل اس چیز کو واپس نہیں کر سکتا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ دے دیا ہو“ ۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : وہ شخص چلا گیا کچھ عرصے کے بعد وہ دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مجھے یہ پتہ چلا ہے ، وہ کنیز حاملہ ہوگئی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں“ ۔

1296- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی : «قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ» (6-الأنعام:65) ”تم فرمادو ! وہ اس بات پر قادر ہے ، تم پر تمہارے اوپر کی طرف سے عذاب بھیج دے ۔“ تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں تیری ذات کی پناہ مانگتا ہوں ۔“
(ارشاد باری تعالیٰ ہے ) «أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ » (6-الأنعام:65) ”یاتمہارے نیچے سے (عذاب بھیج دے ) “ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ۔ ”میں تیری ذات کی پناہ مانگتا ہوں ۔“
« أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ» (6-الأنعام:65) (ارشاد باری تعالیٰ ہے ) ”یاوہ تمہیں مختلف گروہ ہوں میں تقسیم کردے اور تم ایک دوسرے کے خلاف لڑنے لگو ۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ دونوں آسان ہیں“ (یہاں روایت کے لفظ کے بارے میں راوی کوشک ہے )

1297- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ہم قربانی کے جانور کا گوشت مدینہ منورہ پہنچنے تک زاد راہ طور پر استعمال کرتے تھے ۔

1298- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : غزوہ احد کے موقع پر میرے والد شہید ہوگئے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا ان کی میت کی بت حرمتی کی گئی تھی میں نے ان چہرے سے کپڑا ہٹا نے کا ارادہ کیا ، تو میری قوم کے افراد نے مجھے منع کردیا میں ان کے منہ سے کپڑا ہٹانا چاہ رہا تھا ، لیکن میری قوم کے افرا مجھے منع کررہے تھے ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت انہیں وہاں سے اٹھا لیا گیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون کے رونے کی آواز سنی تو دریافت کیا : ”یہ کون ہے“ ؟ لوگوں نے بتایا : عمرو کی صاحبزادی ہے (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) عمرو کی بہن ہے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم لوگ نہ روؤ (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تم کیوں رورہی ہو ؟ فرشتوں نے اس کے اٹھائے جانے تک مسلسل اپنے پروں کے ذریعے اس پر سایہ کیا ہوا تھا“ ۔

1299-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے اور اس روایت کے راوی محمد بن منکدر کو اس کے الفاظ کے بارے میں شک ہے ۔

1300- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : یہودی یہ کہا کرتے تھے : جو شخص عورت کی پچھلی طرف سے اس کی اگلی شرمگاہ کی طرف صحبت کرتا ہے ، تواس کے ہاں بھینگا بچہ پیدا ہوتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ (2-البقرة:223) ”تمہاری عورتیں تمہارا کھیت ہیں تم اپنے کھیت میں جیسے چاہو آؤ ۔“

تخریج:

1291- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4219، 5520، 5524، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1941،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5268، 5269، 5270، 5272، 5273، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7675، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4338، 4339، 4340، 4341، 4344، 4354، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4820، 4821، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3788، 3789، 3808، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1478، 1793، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2036، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3191، 3197، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19466، 19494، 19495، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14674، 14687، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1787، 1832، 1975، 1998، 2155، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8733، 8734، 8737)
1292- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1536، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11809، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1834، 2064، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 21664، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 3056، 3057)
1293- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2626، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1625، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5127، 5128، 5129، 5136، 5140، 5141، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3730، برقم: 3732، برقم: 3734، برقم: 3738، برقم: 3739، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3556، 3558، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1351، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2383، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12092، 12093، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9677، 14342، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1835، 1851، 2214، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16876، 16883، 16886)
1294- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5207، 5208، 5209، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1440، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4195، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9044، 9045، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1137، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1927، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14416، 14417، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14540، 15188، 15263، 15304، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1803، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2193، 2255، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12566)
1295- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1439، 1439، 1439، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4194، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9030، 9048، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2173، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1136، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 89، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2243، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14418، 14419، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14569، 14586، 15372، 15406، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1910، 2076)
1296- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4628، 7313، 7406، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7220، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7684، 11099، 11100، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3065، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 882، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14537، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1829، 1967، 1982، 1983، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 9068)
1297- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2980، 5424، 5567، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1972، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5931، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4140، 4141، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2004، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19274، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14541، 15187)
1298- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1244، 1293، 2816، 4080، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2471، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7021، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1841، 1844، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1981، 1984، 8190، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6814، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14407، 14516، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1817، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2021)
1299- (وانظر الحديث السابق)
1300- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4528، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1435، 1435، 1435، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4166، 4197، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8924، 8925، 8926، 8927، 10971، 10972، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2163، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2978 (م) ، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1172، 2260، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1925، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 366، 367، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14212، 14213، 14214، 14215، 14216، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2024)

 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1301- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کی حالت میں ہوتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (غسل کرتے ہوئے ) دونوں ہاتھ بھر کر تین مرتبہ اپنے سرپر پانی ڈال لیتے تھے ۔

1302- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ”اے جابر ! کیا تمہیں پتہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا ، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا : ”تم آرزو کرو“ ، تو اس نے عرض کی : مجھے زندہ کیا جائے اور ایک مرتبہ پھر تیری راہ میں قتل کردیا جائے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے یہ فیصلہ دے دیا ہے (کہ دنیا سے آنے والے لوگ ) واپس نہیں جائیں گے ۔“

1303- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری خاتون کے پاس تشریف لائے اس خاتون نے مختلف قسم کی کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری بھی ذبح کی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا گوشت کھایا پھر جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کی پھر اس بکری کا باقی رہ جانے والا گوشت لایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ کھا لیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو وضو نہیں کیا ۔
پھر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، تو انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا : کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی نہیں ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : تمہاری وہ بکری کہاں ہے ، جس کے گھر بچہ ہونے والا ہے ، توا س بکری کو لایا گیا ، انہوں نے اس کا دودھ دوہ لیا ۔ انہوں نے اس کا دودھ ہمیں دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش کیا ہم نے بھی اسے پی لیا ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا ۔
پھر میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، تو وہاں دو برتن لائے گئے ان میں سے ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے رکھ دیا گیا اور دوسرا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رکھ دیا گیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں تناول کیا ہم نے بھی تناول کیا ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نما ز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا ۔

1304- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ کا طواف کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعات نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس واپس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا استلام کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفاء کی طرف تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”ہم اس سے آغاز کریں گے ، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے“
(ارشاد باری تعالیٰ ہے ) «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ» (2-البقرة:158) ”بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں ۔“

1305- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم وادی کے نشیبی حصے میں پہنچے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (نشیبی حصے ) کو پار کرلیا ۔

1306- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی تھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے شریف لائے تھے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قر بانی کے ایک تہائی حصے میں شریک کرلیا تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 66 اونٹ خود نحر کیے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ باقی 34 اونٹ قربان کردیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت ہر اونٹ کا کچھ حصہ لے کر اسے پکایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گوشت کھایا اور شوربہ پیا ۔
سفیان کہتے ہیں : اہل عرب اس لفظ کا تلفظ یوں کرتے ہیں : «وَحَسَوَا» ۔

1307- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”شہری شخص دیہاتی کے لیے سودانہ کرے ، تم لوگوں کو چھوڑدو ! اللہ تعالیٰ انہیں ایک دوسرے کے ذریعے رزق عطا کر دے گا“ ۔

1308- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جعرانہ“ کے مقام پر غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا ، کچھ ٹکڑے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی گود میں تھے ، اسی دوران ایک شخص وہاں آیا اس نے عرض کی : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم عدل سے کام لیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم عدل سے کام نہیں لے رہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہارا ستیاناس ہو ، اگر میں عدل سے کام نہیں لو ں گا ، تو پھر کو ن عدل سے کام لے گا“ ؟
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسے چھوڑدو ۔ کیونکہ اس کے کچھ ساتھی ایسے بھی ہیں (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے ) جو قرآن کی تلاوت کریں گے ، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، یہ لوگ دین سے یوں نکل جائیں گے ، جس طرح تیر نشانے سے پار ہوجاتا ہے“ ۔

1309- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جس شخص کی زمین ہو یا کھجوروں کا باغ ہو ، وہ اسے اس وقت تک فروخت نہ کرے ، جب تک اپنے شراکت دارکو اس کی پیشکش نہ کردے“ ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : اہل کوفہ زبیر نامی راوی کے پاس آئے اور ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا اور یہ کہا: ابن ابولیلیٰ نے آپ کے حوالے سے یہ روایت ہمیں سنائی ہے ۔

1310- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”شام ہوجانے کے بعد اپنے بچوں کو (گھروں میں) رو ک لیا کرو اور آدمی کے آرام سے لیٹ جانے کے بعدبات چیت نہ کی جائے ، کیونکہ تم لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسے پھیلا دیتا ہے ؟ تم لوگ (سوتے وقت ) دروازے بندے کرلیا کرو ، چراغ بجھا دیا کرو ، برتن اوندھے کردیا کرو اور مشکیزے کے منہ کو بند کردیا کرو“ ۔

تخریج:

1301- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 252، 255، 256، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 328، 329، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 117، 243، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 579، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 230، 424، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 228، وأبو داود فى «سننه» برقم: 93، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 269، 577، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 847، 848، 849، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14329، 14408، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1846، 2011، 2227، 2320)
1302- (إسناده حسن ،وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2572، 4912، 4921، 4928، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 540، 2550، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15110، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2002، والطبراني فى "الكبير"، 2932، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 918)
1303- (إسناده حسن ،والحديث صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5457، ومالك فى «الموطأ» برقم: 50، وابن الجارود فى "المنتقى"، 26، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 43، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1130، 1132، 1134، 1135، 1136، 1137، 1138، 1139، 1145، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4686، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 185، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 188، وأبو داود فى «سننه» برقم: 191، 192، والترمذي فى «جامعه» برقم: 80، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 489، 3282، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 733، 737، 738، 742، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14483، 14520، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1963، 2017، 2098، 2160)
1304- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1218، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 957، 2534، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1130 ، 1132 ، 1135 ، 1136 ، 1137 ، 1138 ، 1139 ، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 218 - 222)
1305- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1218، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3810 وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2027 وانظر الحديث السابق)
1306-(إسناده صحيح ،و أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1457، 3791، 3796، 3813، 3819، 3842، 3878، 3886، 3914، 3919، 3921، 3924، 3943، 3944، 4004، 4006، 4018، 4020، 6322، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1677، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: ،، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3158، والترمذي فى «جامعه» برقم: 817، 856، 857، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1785)
1307- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1522، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4960، 4963، 4964، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4507 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6042، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3442، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1223، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2176، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11016، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14512، 14563، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1839، 2169)
1308- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم:3138 و مسلم فى «صحيحه» برقم: 1063، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4819، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2576، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8033، 8034، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 172، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2902، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15032، 15047، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18651)
1309- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم:2213 و مسلم فى «صحيحه» برقم: 1608، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5178، 5179، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2350، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4660، 4714، 4715، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6197، 6253، 6254، 6255، 11716، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3513، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1312، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2670، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2492، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11687، 11688، 11709، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4532، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14513، 14548، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1835، 2171، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14403)
1310- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3280، 3304، 3316، 5623، 5624، 6295، 6296، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2012، 2013، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 131، 132، 133، 2559، 2560، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1271، 1272، 1273، 1274، 1275، 1276، 5225، 5517، 5518، 5551، 5553، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7307، 7796، 7797، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5357، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6716، 9668، 9713، 9714، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2604، 3731، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1812، 2766، 2767، 2857، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 360، 3268، 3410، 3771، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1232، 3258، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14334، 14337، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1771، 1772، 1837، 2031، 2130، 2181، 2221، 2254، 2258، 2259، 2260، 2327)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1311- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو مسلمان کوئی چیز بوتا ہے اور اس (پیداوار میں سے ) کوئی انسان یا جن یاپرندہ یا وحشی جانور یادر ندہ یا چوپایہ یا جو بھی چیز کچھ کھالیتے ہیں ، تو یہ چیز اس کے لیے صدقہ شمار ہوتی ہے ۔“

1312- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر موت کی بیعت نہیں کی ، ہم نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ ہم فرار نہیں ہوں گے ۔

1313- سیدنا جابررضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”سب سے افضل نماز وہ ہے ، جس میں قیام طویل ہو اور سب سے افضل جہاد وہ ہے ، جس میں خون بہا دیا جائے اور گھوڑے کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور سب سے افضل صدقہ وہ ہے ، جوغریب شخص کوشش سے کرے ۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) کہ جو صدقہ دیا جائے ، تو اس کے بعد آدمی خوشحال رہے“ ۔

1314- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ایک شخص کو جس کا نام جد بن قیس تھا، اسے اپنے اونٹ کی بغل کے نیچے چھپے ہوئے پایا ۔

1315- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے لہسن کے بارے میں دریافت کیا گیا : تو انہوں نے فرمایا : ہمارے علاقے میں لہسن نہیں ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور گندنے سے منع کیا ہے ۔

1316- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدرتی آفت لاحق ہونے کی صور ت میں کچھ ادئیگی معاف کرنے کاذکر کیا ۔
سفیان کہتے ہیں : مجھے صرف یہی یاد ہے ، راوی نے اس میں کچھ چیز معاف کرنے کاذکر کیا ہے مجھے یہ یاد نہیں ہے ، کتنا حصہ معاف کرنا چاہئے ۔

1317-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1318 - سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سالوں کے حساب سے سودا کرنے سے منع کیا ہے ۔

1319-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1320- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مشکیز ے میں نبیذ تیار کی جاتی تھی ، اگر مشکیزہ نہ ملتا تو پتھر کے برتن میں تیار کی جاتی تھی ۔

تخریج:

1311- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1552، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3368، 3369، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2652، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11865، 11866، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15434، 27685، 28004، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2213، 2245)
1312- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1856، 1856، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4875، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4169، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7731، 8641، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1591، 1594، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2498، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14330، 15310، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1838، 1908، 2301)
1313- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 41، 756، 756، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1155، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 197، 1758، 4639، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 23، والترمذي فى «جامعه» برقم: 387، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2437، 2754، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1421، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4760، 4761، 4762، 20813، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14430، 14453، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2081، 2131، 2273، 2296)
1314- (إسناده صحيح على شرط مسلم، وأخرجه وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1908 وهو طرف للحديث المتقدم برقم: 1275 فانظره لتمام التخريج)
1315- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 854، 855، 5452، 7359، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 564، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1664، 1665، 1668، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1644، 1646، 2086، 2087، 2089، 2090، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 706 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 788، 6645، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3822، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1806، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3365، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5133، 5134، 5136، 5137، 13457، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15245، 15301، وأخرجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1889، 2226، 2321، 2322)
1316- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1487، 2189، 2196، 2381، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534، 1544، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5031، 5034، 5035، وانظر الحديث التالي)
1317- (إسناده صحيح ،وانظر الحديث السابق)
1318- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1487، 2189، 2196، 2381، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534، 1536، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4957، 4971، 4992، 4995، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2287، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3887 ، 3888 ، 3889، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3370، 3373، 3374، 3375، 3404، 3405، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1290، 1313، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2659، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2216، 2218، 2266، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10709، 10710، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14542، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1806، 1841، 1844)
1319- (إسناده صحيح ،وانظر الحديث السابق)
1320- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1998، 1999، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5387، 5396، 5410، 5412، 5413، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5629، 5663، 5664، 5665، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5103، 5137، 5138، 5139، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3702، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2153، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3400، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17559، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5008، 6120، 14488، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1769، 1788، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16935)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1321- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگانے والے کی آمد ن کے بارے میں فرمایا ہے : ”تم اس سے اپنے اونٹ کو چارا کھلا دو“ ۔

1322- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں اس وقت اپنے اونٹ پر سوار تھا ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ یہ بیان کرنا چاہ رہے تھے کہ وہ اونٹ سست روی سے چل رہا تھا ، میں نے کہا: اس کی ماں روئے یہ ہمیشہ سے برا اونٹ رہا ہے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں موجود چھڑی کے ذریعے اسے مارا ، تو میں نے اس اونٹ کو دیکھا کہ کوئی اور سواری اس سے آگے نہیں نکل سکتی تھی ۔

1323- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خوا ب میں دیکھا ہے کہ گویا میری گردن اڑادی گئی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”شیطان آدمی کے ساتھ (خواب میں) جو مذاق کرتا ہے آدمی کسی کو وہ نہ بتائے“ ۔

1324- سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ادائیگی کردی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زیادہ ادائیگی کی ۔

1325- سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : لوگوں میں اعلان کردیا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حج کے لیے تشریف لے جارہے ہیں ، تو مدینہ منورہ لوگوں سے بھر گیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے مخصو ص موقع پر روانہ ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”بیداء“ کے مقام پر پہنچے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے تلبیہ پڑھنا شروع کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی تلبیہ پڑھنا شروع کیا ۔

1326- سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہوا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”کراع غمیم“ کے مقام پر پہنچے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن بلند کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہتھیلی پر رکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی سواری پر سواری پر سوار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سے آگے والے افراد کو روک لیا یہاں تک کہ پیچھے والے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک آگئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں سے پی لیا لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہے تھے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ کچھ لوگوں نے ابھی بھی روزہ رکھا ہوا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ لوگ نافرمان ہیں“ ۔

1327- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”تم لوگ رقبیٰ کے طور پر کچھ نہ دو اور عمریٰ کے طور پر کوئی چیز نہ دو جو شخص رقبیٰ یا عمر یٰ کے طور پر کوئی چیز دیتا ہے ، تو اس میں وراثت کے احکام جاری ہوں گے“ ۔

1328- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب نجاشی کا انتقال ہوگیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”آج ایک نیک آدمی فوت ہوگیا ہے تم لوگ اٹھو اور ”اصحمہ“ کی نماز جنازہ ادا کرو“ ۔

1329- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ ، محاقلہ اور مخابرہ سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ کھجور کے پک کر تیار ہونے سے پہلے اسے فروخت کیا جائے اور یہ کہ اسے صرف دینار یا درہم کے عوض میں فروخت کیا جائے البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کے بارے میں اجازت دی ہے ۔
مخابرہ سے مراد یہ ہے کہ زمین کو ایک تہائی یا چوتھائی پیدا وار کے عوض میں کرایہ پر دیا جائے۔ محاقلہ سے مراد یہ ہے کہ گندم کے کھیت میں موجود بالین کو فروخت کردیا جائے ۔ مزابنہ سے مراد یہ ہے کھجور کے عوض میں درخت پر لگی ہوئی کھجور کو فروخت کردیا جائے ۔

1330- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم ذوالحجہ کی چار تاریخ کی صبح مکہ آگئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھے بعد میں جس چیز کا خیال آیا وہ پہلے آجاتا ، تو میں وہ طرز عمل اختیار نہ کرتا ، جو میں نے اختیار کیا ہے“ ۔
راوی بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ احرام کھول دیں لوگوں نے عرض کی : کس حد تک ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مکمل طور پر احرام کھول دو ۔ عمرہ قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہوگیا ہے“ ۔

تخریج:

1321- (إسناده صحيح على شرط مسلم، وأخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 14511، 15311، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2114، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 6038)
1322- (إسناده صحيح على شرط مسلم،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 443، 1801، 2097، 2309، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 715، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4911، 6517، 6518، 6519، 7138، 7140، 7141، 7143، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3219، 3220، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2048، 2776، 2777، 2778، 3347، 3505، 3747، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1100، 1253، 2712، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2262، 2673، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1860، 2205، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1793، 1843، 1850، 1891، 1898، 1965، 1974، 1990، 1991، 2123، 2124، 2125)
1323- (إسناده صحيح على شرط مسلم ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2268، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6056، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8274، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7582، 7609، 7610، 10682، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3902، 3912، 3913، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14514، 14607، 15007، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1840، 1858، 2262، 2274)
1324- (إسناده صحيح على شرط مسلم، وهو طرف من حديث تقدم برقم: 1261 1322 1334 1335)
1325- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1557، 1568، 1570، 1651، 1785، 2505، 4352، 7230، 7367، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1213، 1216، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 957، 2534، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1457، 3791، 3796، 3813، 3819، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1677، 1697، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1785، 1787، 1788، 1789، والترمذي فى «جامعه» برقم: 817، 856، 857، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1008، 1074، 2919، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1810، 1852، 1882، 1897، 1944، 2012)
1326- (إسناده صحيح ،وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1114، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2019، 2020، 2536، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2706، 3549، 3551، 3565، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1587، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2262، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2583، والترمذي فى «جامعه» برقم: 710، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8243، 8244، 8272، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14732، 14753، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1780، 1880، 2129، 2252)
1327- (رجاله ثقات غير أن ابن جريج قد عنعن ،ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2626، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1625، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5127، 5128، 5129، 5136، 5140، 5141، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3730، 3732، 3734، 3738، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3556، 3558، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1351، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2383، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12092، 12093، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9677، 14342، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1835، 1851، 2214، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16876)
1328- (رجاله ثقات غير أن ابن جريج قد عنعن ، ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1317، 1320، 1334، 3877، 3878، 3879، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 952، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3096، 3097، 3099، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1969، 1972، 1973، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2108، 2111، 2112، 8247، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7002، 7003، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14367، 14368، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1773، 1864، 2118، 2144، 2185)
1329- (رجاله ثقات غير أن ابن جريج قد عنعن ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1487، 2189، 2196، 2381، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534، 1536، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4957، 4971، 4992، 4995، 5000، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3887، 3888 ، 3889 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3370، 3373، 3374، 3375، 3404، 3405، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1290، 1313، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2659، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2216، 2218، 2266، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10709، 10710، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14542، 14573، 14581، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1806، 1841، 1844، 1845، 1879، 1918، 1996، 1997، 2132، 2141، 2143، 2170)
1330-(رجاله ثقات غير أن ابن جريج قد عنعن ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1557، 1568، 1570، 1651، 1785، 2505، 4352، 7230، 7367، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1213، 1214، 1215، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1457، 3791، 3796، 3813، 3819، 3842، 3878، 3886، 3914، 3919، 3921، 3924، 3943، 3944، 4004، 4006، 4018، 4020، 6322، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1677، 1697، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1810، 1852، 1882، 1897، 1944، 2012، 2027)

 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1331- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : فدک کے رہنے والے ایک شخص نے زنا کا ارتکاب کیا ، تو فدک کے رہنے والے لوگوں نے مدینہ منورہ میں رہنے والے کچھ یہودیوں کو خط لکھا کہ تم لوگ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کرو اگر وہ تمہیں کوڑے مارنے کاحکم دیں ، تو تم اسے حاصل کر لینا اور اگر تمہیں سنگسار کرنے کاحکم دیں ، تو تم اسے اختیار نہ کرنا ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اپنے میں سے دو زیادہ علم رکھنے والے افراد کو میرے پاس بھجواؤ“ ، تو وہ لوگ ایک کانے شخص کولے کر آئے جس کا نام ”صوریا“ تھا اور ایک اور شخص کو لے کر آئے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے دریافت کیا : ”تم دونوں زیادہ علم رکھنے والے ہو“ ؟ ان دونوں نے جواب دیا : ہماری قوم نے اسی لیے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے دریافت کیا : ”کیا تمہارے پاس تورات میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہیں“ ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تو میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے بنی اسرائیل کے لیے دریا کو چیر دیا تھا اور جس نے بادلوں کے ذریعے تم پر سایہ کیا تھا اور تمہیں فرعون کے ساتھیوں سے نجات عطا کی تھی جس نے بنی اسرائیل پرمن وسلویٰ نازل کیا تھا ۔سنگسار کرنے کے بارے میں تم تورات میں کیا پاتے ہو“ ؟
تو ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مجھے اس کی مانند قسم کبھی نہیں دی گئی پھر ان دونوں نے جواب دیا : دوسری مرتبہ ڈالنا بھی زنا ہے ، گلے لگانا بھی زنا ہے ، بوسہ لینا بھی زنا ہے اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں کہ انہوں نے کسی شخص کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے یوں کہ جس طرح سلائی ، سرمہ دانی میں داخل ہوتی ہے ، تو سنگسار کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ وہی ہے“ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت اس شخص کو سنگسار کردیا گیا ، تو یہ آیت نازل ہوئی : « فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَضُرُّوكَ شَيْئًا وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ» (5-المائدة:42) ”اگر وہ تمہارے پاس آئیں ، تو تم ان کے درمیان فیصلہ دو ، یا تم ان سے اعراض کرو ، اگر تم ان سے اعراض کرتے ہو ، تو وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم ان کے درمیان فیصلہ دیتے ہو ، تو انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ دو ۔“

1332- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں نقل کرتے ہیں : « سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ» (5-المائدة:41) ”جھوٹ کو غورسے سننے والے ۔“ اس سے مراد مدینہ منورہ کے یہودی ہیں ۔
«سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ» (5-المائدة:41) ”دوسری قوم کے افراد کی باتیں غور سے سننے والے ۔“ اس سے مراد اہل فدک ہیں ۔
«لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ» (5-المائدة:41) ”وہ تمہارے پاس اس وقت تک نہیں آئیں گے ، جب تک وہ کلمات کوان کے مخصوص مقام سے تحریف نہیں کردیتے ۔“
تو اس سے مراد اہل فدک ہیں جہنوں نے یہ کہا تھا کہ اگر وہ کوڑے لگانے کاحکم دیں ، تو اسے ان کی بات مان لینی چاہئے اور اگر یہ نہ دیں ، تو پھر سنگسار کرنے سے بچنا ۔

1333- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”گزشتہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نے میرے منہ میں کھجور کا ٹکڑا ڈالا ہے میں نے اسے چبایا ، تو مجھے اس میں گٹھلی بھی ملی جس نے مجھے تکلیف دی ، تو میں نے اسے پھینک دیا ، پھر اس نے میرے منہ میں ایک اور کھجور ڈالی ، تو پھر ایسا ہی ہوا پھر اس نے ایک اور ڈالی پھر ایسا ہی ہوا“ ۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی تعبیر بیان کروں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس کی تعبیر بیان کرو“ ، تو انہوں نے عرض کی : اس سے مراد وہ لشکر ہے ، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے سلامتی بھی عطا کی اور مال غنیمت بھی عطا کیا تھا ، پھر لوگوں کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی ، تو اس شخص نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کا واسطہ دیا ، تو ان لوگوں نے اسے چھوڑ دیا ، پھر ان کی ملاقات ایک اور شخص سے ہوئی ، تو اس شخص نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کا واسطہ دیا ، تو ان لوگوں نے اسے بھی چھوڑدیا ، پھر ان کی ملاقات ایک اور شخص سے ہوئی ، تو اس نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کا واسطہ دیا ، تو انہوں نے اسے بھی چھوڑدیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے ابوبکر! فرشتے نے اسی طرح بیان کیا ہے“ ۔

1334- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ تم (طویل سفر سے واپس آتے ہوئے ) رات کے وقت اپنے گھر جاؤ ۔
(راوی کہتے ہیں : ) لیکن اس کے بعد ہم نے ا یسا کرنا شروع کر دیا ۔

1335- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد کے شہداء کے بارے میں یہ حکم دیا تھا کہ انہیں اسی جگہ واپس لایا جائے جہاں انہیں شہید کیا گیا تھا ، حالانکہ ان میں سے کچھ افراد کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا تھا ۔

1336-سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جب تم اس سبز چیز کو کھالو ، تو ہماری محفل میں ہمارے ساتھ آکر نہ بیٹھو کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے اذیت ہوتی ہے ، جس سے لوگوں کو اذیت ہوتی ہے“ ۔

1337-امام شعبی بیان کرتے ہیں : لوگوں نے ایک صاحب سے کہا: آپ (حکمرانوں کے پاس ) ہمارے نمائندے بن جائیں ، تو وہ صاحب بولے : تمہارا نمائندہ وہ شخص بنے گا ، جسے اپنی آمدن کی فکر ہوگی جو اپنے گھر کو نہیں چھوڑے گا ، اور جو چور ہوگا جو بخیل ہوگا ، اور جو اتنا لالچی ہوگا کہ جو ملے اسے حاصل کرلے جس کی یہ حالت ہوگی کہ جب اسے کہا جائے یہ لو ، تو وہ دانتوں کے ذریعے نوچ لے گا ، اور جب اسے کہا جائے گا لے کر آؤ ، تو وہ اس چیز کو روک لے گا (یعنی لے کر نہیں آئے گا)۔

تخریج:

1331- (إسناده ضعيف ، من أجل مجالد بن سعيد، وقد أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1701، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4452، 4455، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2328، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17032، 17111، 17112، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4350، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14671، 15383، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1928، 2032، 2136)
1332- (إسناده صحيح ،وأخرجه أورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 3586، وانظر الحديث السابق)
1333- (إسناده ضعيف ، لضعف مجالد، وأخرجه الدارمي فى «مسنده» برقم: 2208، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15521)
1334- (إسناده صحيح ،و وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم:443 5243 مسلم فى «صحيحه» برقم: 715 وابن حبان فى «صحيحه» برقم:2713، 2714، 4184 وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1843، 1891)
1335- (إسناده صحيح ،وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 916، 918، 984، 3183، 3184، 6312، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3565، 7188، 7847، 7848، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2003، 2004، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2142، 2143، 10184، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1533، 3165، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1717، والدارمي فى «مسنده» برقم: 46، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 246، 1516، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2580، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2919، 7170، 11089، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14386، 14387، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1842، 2077)
1336- (إسناده ضعيف ، لضعف إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع، ولكن الحديث صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 854، 855، 5452، 7359، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 564، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1664، 1665، 1668، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1644، 1646، 2086، 2087، 2089، 2090، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 706، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 788، 6645، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3822، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1806، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3365، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5133، 5134، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15245، 15301، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1889، 2226، 2321، 2322)
1337- (إسناده صحيح إلى شعبي، وهو موقوف عليه، وأخرجه الحميدي فى «مسنده» برقم: 1337، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 2167)


آخِرُ الْكِتَابِ ، وَالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، وَصَلَوَاتُهُ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ أَجْمَعِينَ وَسَلِّمْ كَثِيرًا

(اختتام مسند حمیدی)
 
Last edited:
Top