• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1036- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”کوئی بھی عورت تین دن سے زیادہ سفر نہ کرے مگر یہ کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو“ ۔

1037- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت کرتے ہوئے ، رمضان کے روزے رکھتا ہے اس شخص کے گزشتہ گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے ۔ اور جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت کرتے ہوئے ، شب قدر میں نوافل ادا کرتا ہے اس کے گزشتہ گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے“ ۔

1038- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں ہلاکت کا شکار ہوگیا ہوں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تمہیں کیا ہوا ہے“ ؟ اس نے عرض کی : میں نے رمضان ( میں روزے کے دوران) اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرلی ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا : ”کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو“ ؟ اس نے عرض کی : جی نہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کیا تم مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو“ ؟ اس نے عرض کی : جی نہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو ؟ اس نے عرض کی : جی نہیں ۔ میں اس کی بھی گنجائش نہیں پاتا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ”تم بیٹھ جاؤ“ ۔ وہ شخص بیٹھ گیا ۔ ابھی وہ شخص بیٹھا ہو ا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجوروں کا ٹو کر اپیش کیا گیا ۔ لفظ ”عرق“ کا مطلب بڑا برتن ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا : ”جاؤ اور اسے صدقہ کردو“ ۔ اس نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اپنے سے زیادہ غریب شخص کو صدقہ کروں ؟ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔ پورے شہر میں ہم سے زیادہ غریب گھرانہ اور کوئی نہیں ہے ۔
راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطراف کے دانت بھی نظر آنے لگے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم جاؤ اور اپنے گھر والوں کو یہ کھلادو“ ۔

1039- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”تم لوگ صوم وصال نہ رکھو !“ لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو صوم وصال رکھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں تمہاری مانند نہیں ہوں میرا پرودگار مجھے کھلا اور پلا دیتا ہے“ ۔

1040- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے ، ماسوائے روزے کے ، وہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا“ ۔

1041-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1042- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کسی شخص کو کھانے کی دعوت دی جائے اور اس نے روزہ رکھا ہوا ہو ، تو وہ یہ کہہ دے : میں نے روزہ رکھا ہوا ہے“ ۔

1043-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔

1044- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص روزے دار ہونے کی حالت میں صبح کرے ، تو وہ بری بات نہ کہے ، وہ جہالت کا مظاہرہ نہ کرے ، اگر کوئی شخص اسے گالی دے ، یا اس کے ساتھ لڑنے کی کوشش کرے ، تو وہ یہ کہہ دے : میں نے روزہ رکھ ہوا ہے“ ۔

1045-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1046- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کسی عورت کا شوہر موجود ہو ، تو وہ عورت اس کی اجازت کے بغیر رمضان کے علاوہ اور کسی بھی دن روزہ نہ رکھے“ ۔

1047- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے جمعے کے دن روزہ رکھنے سے منع نہیں کیا بلکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ، اس گھر کے پروردگار کی قسم ہے ، اس سے منع کیا ہے ۔

1048- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے یہ بات نہیں کہی : جو شخص جنات کی حالت میں صبح کرتا ہے اس کا روزہ نہیں ہوتا ، بلکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کعبہ کے پروردگار کی قسم ہے ، یہ بات ارشاد فرمائی ہے ۔

تخریج:

1036-(إسناده حسن ، من أجل إبن عجلان ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1088، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1339، ومالك فى «الموطأ» برقم: 806، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2523، 2524، 2525، 2526، 2527، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2721، 2725، 2726، 2727، 2728، 2732، 3758، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1621، 1622، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1723، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1170، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2899، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5492، 5493، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7342، 7532، 8605)
1037- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 35، 37، 38، 1901، 2008، 2009، 2014، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 759، 759، 760، 760، ومالك فى «الموطأ» برقم: 376، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1894، 2199، 2201، 2203، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2546، 3432، 3682، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1601 ، 1602 ، 2103 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1371، 1372، والترمذي فى «جامعه» برقم: 683، 808، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1817، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1326، 1328، 1641، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4669، 4670، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1682، 1710)
1038- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1936، 1937، 2600، 5368، 6087، 6164، 6709، 6710، 6711، 6821، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1111، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1943، 1944، 1945، 1949، 1950، 1951، 1954، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3523، 3524، 3525، 3526، 3527، 3529، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2390، 2392، والترمذي فى «جامعه» برقم: 724، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1757، 1758، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1671، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8136، 8137، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7063، 7410)
1039- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1965، 1966، 6851، 7242، 7299، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1103، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1060 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2068، 2071، 2072، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3575، 3576، 6413، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3251، 3252، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1745، 1748، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4240، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8462، 8463، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7283، 7349، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6088)
1040- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1894، 1904، 5927، 7492، 7538، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1151، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1890، 1896، 1997، 1898، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3416، 3422، 3423، 3424، 3427، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2213 ، 2214 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2363، والترمذي فى «جامعه» برقم: 764، 766، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1810، 1811، 1812، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1638، 1691، 3823، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8206، 8398، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7295، 7315، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1005، 5947، 6020، 6266)
1041- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
1042- (إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1150، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3256، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2461، والترمذي فى «جامعه» برقم: 781، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1778، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1750، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7424، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1043، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6280، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7456، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9531)
1043- (إسناده حسن وانظر الحديث السابق)
1044- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1894، 1904، 5927، 7492، 7538، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1151، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1890، 1896، 1997، 1898، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3416، 3422، 3423، 3424، 3427، 3479، 3482، 3483، 3484، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1575، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2213 ،، 2215 ، 2216 ، 2217 ، جامعه"، 764، 766، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1810، 1811، 1812، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1638، 1691، 3823، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8206، 8398، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7295، 7315، 7458)
1045- (إسناده حسن وانظر الحديث السابق)
1046- (إسناده صحيح والحديث متفق عليه ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2066، 5192، 5195، 5360، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1026، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2168، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3572، 3573، 4168، 4170، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7422، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2932، 2933، 3274، 3275، 3276، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1687، 2458، والترمذي فى «جامعه» برقم: 782، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1761، 1762، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1761، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7944، 8590، 14829، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8305، 9865، 10124، 10309، 10643، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6273، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7272، 7886، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9805، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2045، 2046، 2047، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 23، 282، 8379)
1047- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1985 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1144 وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2157، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3609، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2757، 2763، 2936، 2937، 2938، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1702، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7505، 7954، 9220، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1048، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7398، 7399، 7807، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12620، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 9038)
1048- (إسناده صحيح ، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2157، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3609، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2757، 2763، 2936، 2937، 2938، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1702، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7505، 7954، 9220، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1047، 1048، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7398، 7399، 7807، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12620، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 9038)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
جنائز کے بارے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

1049- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کچھ خواتین نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کے ساتھ تشریف فرماہوتے ہیں ، تو ہم یہاں حاضر نہیں ہوسکتی ہیں ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے کوئی وقت مقرر کریں جس میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوجایا کریں (تو یہ مناسب ہوگا) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم لوگ فلاں خاتون کے گھر میں جمع ہوجایا کرو“ ۔ وہ خواتین اس مخصوص وقت میں وہاں آئیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لے آئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خواتین کے ساتھ جو بات چیت کی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ”جس بھی عورت کے تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ ثواب کی امید رکھے تو وہ عورت جنت میں داخل ہوگی ۔“
ایک خاتون نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اگر کسی کے دو (بچے فوت ) ہوں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” (اگر دوہوں) تو بھی یہی اجر وثواب حاصل ہوگا“ ۔

1050- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جس بھی مسلمان کے تین بچے فوت ہوجائیں ، تو وہ صرف قسم پوری کرنے کے لیے جہنم میں داخل ہوگا“ ۔

1051- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جو شخص نماز جنازہ ادا کرتا ہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص جنازے کے دفن ہونے تک ساتھ رہتا ہے اسے دوقیراط ثواب ملتا ہے ، جن میں سے ایک قیراط حد پہاڑ کی مانند ہوتا ہے“ ۔

1052- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جنازے کو جلدی لے کرجاؤ کیونکہ اگر وہ نیک ہوگا ، تو تم ایک بھلائی کی طرف اسے لے کر جاؤ گے اور اگر صورتحال اس کے برعکس ہوئی تو تم اپنی گردن سے ایک برائی کو اتاردو گے“ ۔

1053- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، جب نجاشی کا انتقا ل ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس کے لیے دعائے مغفرت کرو ۔“

1054- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خاتون کے رونے کی آواز سنی تو اسے منع کیا ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ”اے ابوحفص ! اسے چھوڑدو ، کیونکہ مصیبت لاحق ہونے کا زمانہ قریب ہے ، آنکھ رورہی ہے اور جان کو تکلیف لاحق ہے“ ۔

1055- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اے اللہ ! تو میری قبر کو بت نہ بنا دینا ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر لعنت کرے ، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا دیا تھا“ ۔

تخریج:

1049- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 102، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2632، 2634، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2941، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5867، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7237، 7238، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7474، 9038، والبزار فى «مسنده» برقم: 9075، 9690، 9691، 9787، 9788، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 11998)
1050- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1251، 6656، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2632، ومالك فى «الموطأ» برقم: 805، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2942، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1874 ، 1875 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2015، 2016، 11258، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1060، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1603، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7234، 7235، 7244، 13588، 20089، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7385، 7836، 10261، 10351، 10772، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2423، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1050، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5882، 6079، والبزار فى «مسنده» برقم: 7682، 7710، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20139، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 11999)
1051- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 47، 1323، 1325، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 945، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3078، 3079، 3080، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6222، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1993 ، 1994 ، 1995 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3168، بدون ترقيم، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1040، 3836، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1539، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6846، 6847، 6848، 6849، 6850، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4539، 7309، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6188، 6453، 6640، 6659)
1052- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1315، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 944، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3042، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1909 ، 1910 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2048، 2049، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3181، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1015، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1477، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6945، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7387، 7391)
1053-(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1245، 1318، 1327، 1328، 1333، 3880، 3881، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 951، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3068، 3098، 3100، 3101، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1878، 1970، 1971، 1979، 2040، 2041، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2018، 2109، 2110، 2118، 2179، 2180، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3204، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1022، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1534، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7032، 7033، 7126، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7268، 7403، 7891، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5956، 5968)
1054- (إسناده ضعيف فيه جهالة ، ولكنه الحديث حسن ، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3157، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1410، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1858، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1998، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1587، 1587 (م) ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7259، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5995، 7806، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6405)
1055- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 437، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 530، 530، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2326، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2046، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2185، 7055، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3227، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7318، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7475، 7941، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5844، 6681)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے منقول خرید و فروخت سے متعلق روایات
------------------

1056- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”مصنوعی بولی: نہ لگاؤ ۔ کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجے ۔ شہری شخص دیہاتی کے لیے سودا نہ کرے ۔ عورت اپنی بہن (یعنی سوکن ) کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کے حصے کی نعمتیں بھی اسے حاصل ہو جائیں“ ۔

1057- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ” (منڈی سے باہر) سواروں سے سود ے کے لیے نہ ملو اور مصنوعی بولی: نہ لگاؤ اور شہری کسی دیہاتی کے لیے سودانہ کرے ۔ اور کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پرسودانہ کرے اور کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجے“ ۔

1058- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ا رشاد فرمائی ہے : ”اونٹوں اور بکریوں کو فروخت کرنے کے لیے ان کا ”تصریہ“ (تھنوں میں دودھ جمع ) نہ کرو ۔ تم میں سے جو شخص اس طرح کا کوئی جانور خریدے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہوگا ، اگر وہ چاہے ، تو اسے اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے ، تو اسے واپس کردے اور اسے ساتھ کھجور کا ایک صاع دے ، گندم نہ دے“ ۔

1059- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ا رشاد فرمائی ہے ۔ ”جو شخص تصریہ والا جانورخرید لے اسے اختیار ہوگا ، اگر وہ چاہے ، تو اسے اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے ، تو اسے کھجوروں کے ایک صاع کے ساتھ واپس کردے لیکن (کھجوریں دے ) گندم نہ دے ۔“

1060- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جھوٹی قسم سودا فروخت کروا دیتی ہے لیکن آمدن میں برکت کو مٹا دیتی ہے“ ۔

1061-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1062- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”ظلم یہ ہے کہ خوشحال شخص قرض کی واپسی میں ٹال مٹول کرے اور جب کسی شخص کو قرض کی وصولی کے لیے کسی مالدار کے حوالے کردیا جائے تو اسے (اس مالدار شخص سے ) تقاضا کرنا چاہیے“ ۔

1063- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے ، جو اناج فروخت کررہا تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اناج اچھا لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک اس میں داخل کیا ، تواس میں گیلا اناج بھی شامل تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جو شخص ملاوٹ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔“

1064- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص ہر سال شراب کا ایک مشکیزہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کرتا تھا ایک مرتبہ اس نے اسی طرح وہ تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ، تو شراب کو حرام قرار دیا جاچکا تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اسے حرام قرار دیا جاچکا ہے“ ۔ اس شخص نے عرض کی : کیا میں اسے فروخت نہ کروں ؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جس ذات نے اس کے پینے کو حرام قراردیا ہے ، اس نے اس کی فروخت کو بھی حرام قراردیا ہے“ ، توان صاحب نے عرض کی : کیا میں یہودکو بغیر معاوضہ کے ویسے ہی دے دوں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس ذات نے اسے حرام قرار دیا ہے ، اس نے اس بات کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ وہ یہودیوں کو بغیر معاوضہ کے بھی نہ دو (بلکہ اسے ضائع کردو) “ ۔
ان صاحب نے عرض کی : پھر میں اس کا کیا کروں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم اسے کھلے میدان میں بہادو“ ۔

1065- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص کسی دوسرے شخص کے پاس بعینہ اپنے سامان کو پاتا ہے ، جس دوسرے شخص کو مفلس قرار دیا جا چکا ہو ، تو وہ (پہلا شخص ) اس سامان کا زیادہ حقدار ہوگا“ ۔

1066-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

تخریخ:


1056- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2140، 2148، 2150، 2151، 2160، 2162، 2723، 2727، 5109، 5110، 5152، 6066، 6601، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1408، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4046، 4048، 4050، 4068، 4069، 4070، 4113، 4115، 4117، 4118، 4961، 4970، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3239، 3240، 3241، 3242، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2065، 2066، 2080، 2176، 3437، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1867، 1929، 2172، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1125 م، 1126، 1134، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10567، 10818، 10819، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7254، 7368، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5884، 5887، 5970)
1057- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
1058- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2140، 2148، 2150، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1524، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4046، 4048، 4050، 4970، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3239، 3240، 3241، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2065، 2066، 2080، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1125 م، 1126، 1134، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2221، 2224، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1867، 1929، 2172، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10567، 10818، 10819، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7254، 7368، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5884، 5887)
1059- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
1060- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2087، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1606، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4906، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4473، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6009، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3335، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10517، 10518، 10519، 10520، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7327، 7413، 9473، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1061، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6460، 6480)
1061- (إسناده صحيح ، وأبو ضمرة هو: أنس بن عياض ، وانظر الحديث السابق)
1062- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2287، 2288، 2400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1564، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5053، 5090، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4702، 4705، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6241، 6244، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3345، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1308، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2628، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2403، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11399، 11505، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7454، 7570، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6283، 6298، 6344)
1063- (إسناده صحيح ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 101، 102، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4905، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2163، 2164، 2165، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3452، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1315، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2224، 2575، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10844، 10845، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7412، 8474، 9520، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6520)
1064- (إسناده صحيح ،وأخرجه سعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 822، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 1806، وله شاهد من حديث عبد الله بن عباس، أخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 3026، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4944، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2590)
1065- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2402، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1559، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5036، 5037، 5038، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2327، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4690 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6228، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3519، 3520، 3523، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1262، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2632، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2358، 2359، 2360، 2361، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11357، 11358، 11359،والدارقطني فى «سننه» برقم: 2900، 2901، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7245، 7489، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2497، 2572، 2629، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1066، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6470)
1066- (إسناده صحيح ، وانظر الحديث السابق)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول مجموعۂ روایات
------------------

1067- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میری اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی مثال اس طرح ہے ، جس طرح ایک شخص عمارت بناتا ہے اسے خوبصورت مکمل اور عمدہ بناتا ہے صرف ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدیتا ہے ۔ لوگ اس عمارت میں گھومتے پھرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں : ہم نے اس سے عمدہ عمارت نہیں دیکھی ، لیکن یہ ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی ہے“ ، (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں) ”میں وہ اینٹ ہوں“ ۔

1068- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میری اور لوگوں کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے ، جو آگ جلاتا ہے جب اس کے آس پاس کا حصہ روشن ہوجاتا ہے ، تو پتنگے وغیرہ اس آگ کی طرح لپکتے ہیں ، تو میں تم لوگوں کو کمر سے پکڑ کر آگ سے بچاتا ہوں اور تم لوگ اس میں گرنے کی کوشش کرتے رہتے ہو“ ۔

1069- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اگر مجھے اہل ایمان کے مشقت کا شکار ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا ، تو میں جو بھی جنگی مہم روانہ کرتا اس میں بذات خود شریک ہوتا لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ میں ان سب کو سواری کے لیے جانور فراہم کروں اور یہ بات ان کے لیے مشقت کا باعث ہوگی کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں“ ۔

1070- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ، میری یہ خواہش ہے کہ مجھے اللہ کی راہ میں شہید کردیا جائے ۔ پھر زندہ کیا جائے ۔ پھر شہید کردیا جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شہید کردیا جائے“ ۔
پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ یہ الفاظ کہے : ”میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں“ ۔

1071- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں یہ عہد کررہا ہوں ایسا عہد جس کی خلاف ورزی نہیں ہوگی ۔ جس بھی مسلمان کو میں اذیت پہنچاؤں جیسے میں نے اسے کوڑا مارا ہو ، یا اس پر لعنت کی ہو ، تو یہ چیز اس کے لیے رحمت اور پاکیز گی کاذریعہ بنا دینا اور اسے اس کے لیے دعا بنا دینا“ ۔
شیخ ابوزناد کہتے ہیں : روایت کے الفاظ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی لغت کے مطابق بیان کیے ہیں ورنہ اصل لفظ یہ ہے ۔ « جلدته ، لعنته »

1072- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے ، شیطان اس کے کندھے کے اوپری حصے پر ٹہوکا دیتا ہے ۔ صرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کیونکہ ان دونوں کو فرشتوں نے ڈھانپ لیا تھا ۔ اگر تم چاہو ، تو یہ آیت تلاوت کرلو ۔ «وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» (3-آل عمران:36) ”میں اس کو اور ا س کی اولاد کو مردودشیطان (کے شرسے ) تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔“

1073- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : ایک مرتبہ میں دن کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چند دیگر لوگوں سمیت جارہا تھا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی ۔ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو قنیقاع کے بازار میں تشریف لائے ۔ پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مڑے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے آئے ۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ”کیا وہ یہاں ہے ؟ کیا وہ یہاں ہے ؟“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ ان کی والدہ نے انہیں روکا ہوا ہے ، جوانہیں نہلا رہی تھیں اور انہوں نے انہیں ہار پہنا یا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے لگ گئے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ”اے اللہ ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو شخص اس سے محبت رکھتا ہواس سے بھی محبت رکھ“ ۔

1074- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”لوگ اس (حکومت کے ) معاملے میں قریش کے تابع ہوں گے ، مسلمان لوگ ، مسلمان قریش کے تابع ہوں گے اور کافر لوگ ، کافر قریش کے تابع ہوں گے“ ۔

1075- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”تم لوگوں کو معدن کی طرح پاؤ گے ، جو لوگ زمانہ جاہلیت میں بہترتھے وہ اسلام میں بھی بہتر شمار ہوں گے ، جب کہ انہیں دین کی سمجھ بوجھ حاصل ہوجائے“ ۔

1076-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1077-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

تخریج:


1067- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3535، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2286، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6405، 6406، 6407، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11358، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7603، 8231، 9290، والبزار فى «مسنده» برقم: 7778، 8233، 9150، 9151، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3274)
1068- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3426، 6483، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2284، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6408، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2874، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8232، 11119، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3275)
1069- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 36، 237، 2785، 2787، 2797، 2803، 2972، 3123، 5533، 7226، 7227، 7457، 7463، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1876، 1878، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4610، 4621، 4622، 4627، 4652، 4736، 4737، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3098، 3122 ، 3123 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1619، 1656، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2436، 2450، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2753، 2795، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6904، 17895، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7278، 7422)
1070- (إسناده صحيح و انظر الحديث السابق)
1071- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6361، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2601، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6515، 6516، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2807، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13509، 13510، 13511، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7431، 8316)
1072- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3286، 3431، 4548، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2366، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6234، 6235، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4180، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7303، 7823، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5971، والبزار فى «مسنده» برقم: 7724، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32147، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 6784)
1073- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2122، 5884، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2421، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6963، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4805، 4819، 4827، 4849، 4851، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8108، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 142، 143، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6995، 21135، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7516، 7991)
1074- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3493، 3495، 6058، 7179، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1818، 2526، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 92، 5754، 5755، 5757، 6264، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4872، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2025، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5378، 16627، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7426، 7459، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6070، 6264)
1075- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3353، 3493، 3495، 6058، 7179، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1818، 2526، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 92، 5754، 5755، 5757، 6264، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4872، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2025، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5378، 16627، 16759، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7426، 7459، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6070، 6264، 6265، 6439)
1076- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
1077- (إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5082، 5365، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2527، 2527، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6267، 6268، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9085، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14833، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7765، 7766، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6673)



 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1078- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اونٹ پرسوار ہونے والی خواتین میں سب سے بہتر خواتین میں سب سے بہتر خواتین قریش کی خواتین ہیں“ ۔
(ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں قریش کی نیک خواتین ہیں) ”جو اپنی اولاد کے لیے ان کی کم سنی میں انہتائی رحمدل ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کے گھر کاخیال رکھتی ہیں“ ۔

1079- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ کی قسم ! اسلم ، غفار ، جہینہ اور مزینہ قبیلے ، دوحلیف بنو اسد اور بنو غطفان اور بنوتمیم اور بنو عامر بن شعثاء سے زیادہ بہتر ہیں“ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آواز کو کھینچ کر یہ بات ارشاد فرمائی ۔

1080- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اہل یمن تمہارے پاس آئے ہیں یہ نرم دل اور رفیق ذہین کے مالک ہیں ایمان ایمانی ہے ۔ حکمت یمانی ہے ، جبکہ جفا کاری ، سختی اور دلوں کا سخت ہونا بیعہ اور مضر قبیلے سے تعلق رکھنے والے اونٹوں کے مالکان میں پایا جاتا ہے“ ۔
سفیان کہتے ہیں : روایت کے یہ الفاظ ”اہل یمن تمہارے پاس آئے ہیں“ اس سے مراد اہل تہامیہ ہیں ، کیونکہ مکہ یمن ہے اور یہی تہامیہ ہیں ۔ حدیث کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان یمانی ہے اور حکمت یمانی ہے ۔“ (یعنی یمنی لوگوں کا ایمان مضبوط ہے )

1081- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا طفیل بن عمر ودوسی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوس قبیلے کے افراد نے نافرمانی کی ہے اور اسلا م قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعائے ضرر کیجئے ۔ تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک بلند کیا اور دعا کی ، تولوگوں نے کہا: دوس قبیلہ ہلاکت کا شکار ہوجائے گا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ۔ ”اے اللہ ! تو دوس قبیلے کوہدایت نصیب کر اور نہیں اسلام کے دامن میں لے آ ۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہ دعا کی ۔

1082- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دیہاتی شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک اونٹنی تحفے کے طور پر پیش کی ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (بدلے کے طور پر) تین اونٹنیاں دیں ۔ لیکن وہ اس سے راضی نہیں ہوا ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مزید تین اونٹنیاں دیں وہ پھر بھی راضی نہیں ہوا ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین اونٹنیاں دیں ۔ وہ نو اونٹنیاں لے کر راضی ہوگیا ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ اب میں صرف کسی قریشی ، انصاری ، ثقفی یا دوسی شخص کا تحفہ ہی قبول کیا کروں گا“ ۔

سفیان کہتے ہیں : ابن عجلان کے علاوہ دیگر راویوں نے یہ بات نقل کی ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات ارشاد فرمائی ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ کی اور میری طرف دیکھا ، تو مجھے حیاء آگئی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”یا دوسی شخص سے (میں تحفہ قبول کروں گا) “ ۔

1083-طاؤس بیان کرتے ہیں : ایک دیہاتی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلے کے طور پر اسے مزید چیزدی ، تو وہ راضی ہوگیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے یہ طے کیا ہے کہ آئندہ میں صرف کسی قریشی یا انصاری یا ثقفی سے تحفہ قبول کروں گا“ ۔

1084- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : کسی بھی شاعر نے جو کلام کہا: ہے اس میں سب سے سچا یہ شعر ہے ۔ ”خبردار ! اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز فانی ہے اور ہر نعمت نے آخر کارزائل ہوجانا ہے ۔“ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے : ) ”ابن ابوصلت مسلمان ہونے کے قریب تھا“ ۔

1085- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف رخ کرکے بیٹھے اور ارشاد فرمایا : ”ایک مرتبہ ایک شخص ایک گائے کو ہانک کر لے جارہا تھا ۔ اسی دوران وہ تھک گیا ، تو وہ اس پر سوار ہوگیا اس نے مارا ، تو گائے نے کہا: مجھے اس مقصد کے لیے نہیں پیدا کیا گیا ہے ، ہمیں تو زمین میں کھیتی باڑی کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے “۔ تو لوگوں نے کہا: سبحان اللہ ! گائے بھی بات کرسکتی ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر اور وعمر بھی (اس بات پر ایمان رکھتے ہیں) “ ، حالانکہ یہ دونوں صاحبان اس وقت وہاں موجود نہیں تھے ۔
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”ایک مرتبہ ایک شخص کچھ بکریوں میں موجود تھا ان میں سے ایک بکری پر بھیڑیے نے حملہ کیا ۔ بکری کا مالک وہاں تک پہنچا اور اس نے اس بھیڑیے سے اسے چھڑالیا ، تو وہ بھیڑیا بولا: درندوں کے مخصوص دن میں اس کا کون رکھولا ہوگا ؟ جب اس کا چرواہا میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا“ ۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ ! بھیڑیا بھی بات چیت کرتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں ابوبکر اور عمر اس بات پر ایمان رکھتے ہیں“ ۔
(راوی کہتے ہیں) حالانکہ یہ دونوں صاحبان اس وقت وہاں موجود نہیں تھے ۔

تخریج:


1078- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5082، 5365، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2527، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6267، 6268، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9085، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14833، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7765، 7766، 7824، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6673)
1079- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3523، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2521، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7291، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3950، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7271، 8948، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5980، 6054)
1080- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3301، 3499، 4388، 4389، 4390، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 52، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5774، 6810، 7297، 7299، 7300، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2243، 3935، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1841، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7322، 7550، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6340، 6459، 6510)
1081- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2937، 4392، 6397، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2524، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 979، 980، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7435، 9918، 10675، والطبراني فى "الكبير"، 8217، 8218، 8219)
1082-(إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6383، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2378، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3768، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6558، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3537، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3945، 3946، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12146، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7480، 8033، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1082، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6579)
1083- (رجاله ثقات، غير أنه مرسل وقد أخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 4713، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16521، 19920، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33164 ، وله شواهد من حديث أبى هريرة الدوسي وحديث عبد الله بن عباس فأما حديث أبى هريرة الدوسي أخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 3537، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3945، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3768 ، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7480، 8033، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6383، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33165، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16522، 19921، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12146، والبزار فى «مسنده» برقم: 8020، 8425، 8507، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6558، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2378 وأما حديث عبد الله بن عباس أخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 2731، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6384، والطبراني فى "الكبير"، 10897، والبزار فى «مسنده» برقم: 4712، والضياء المقدسي فى «الأحاديث المختارة» ، 45، 46)
1084- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3841، 6147، 6489، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2256، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5783، 5784، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2849، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3757، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21025، 21163، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7500، 9206، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6015)
1085- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2324، 3471، 3471، 3663، 3690، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2388، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6485، 6486، 6903، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8057، 8058، 8059، 8060، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3677، 3677 م، 3695، 3695 م، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7468، 8178، 9085)

 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1086-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ ”میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ابوبکروعمر بھی (اس پریقین رکھتے ہیں) “

1087- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں تین سال تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا ہوں ان تین سالوں کے دوران میں کسی بھی معاملے میں اس سے زیادہ حریص نہیں تھا جتنا میں اس بات کا خواہشمند تھا کہ میں احادیث کویاد رکھوں ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : کسی شخص کا اپنی رسی کو لے کر اس میں لکڑیاں باندھ کر پھر انہیں اپنی پشت پر لاد کر انہیں فروخت کرکے اسے کھانا یا اسے صدقہ کرنا اس کے لیے اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے پاس آئے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ذریعے غنی کیا ہو ، اور وہ اس شخص سے کچھ مانگے تو وہ شخص خواہ اسے کچھ دے یا نہ دے ۔ ”بے شک اوپر اولاہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے“ ۔ (یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے ) ۔

1088- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : کسی شخص کارسی لے کر اس میں لکڑیاں باندھ کر اپنی پشت پررکھ کر انہیں فروخت کرکے اسے کھانا یا اسے صدقہ کرنا اس کے لیے اس سے زیادہ بہتر ہے وہ کسی ایسے شخص کے پاس آئے جسے اللہ تعالیٰ نے غنی کیا ہو اور وہ اس سے کچھ مانگے ، تو وہ دوسرا شخص اسے کچھ دے یا نہ دے ۔ بے شک اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے ۔

1089-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔ تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں ۔ ”تم اپنے زیر کفالت لوگوں سے خرچ کا آغاز کرو ۔“

1090- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا ہے : ”مسکین وہ شخص نہیں ہے ، جو ایک یا دو کھجوریں لے کر ایک یادو لقمے لے کر واپس چلا جاتا ہے مسکین وہ شخص ہے ، جو مانگتا نہیں ہے اور اس کی حالت کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ اسے کچھ دے دیا جائے“ ۔

1091- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : سیدنا ایوب علیہ السلام کی طرف سونے کی بنی ہوئی کچھ ٹڈیاں بھیجی گئیں ، تو انہوں نے اپنی چادر کو پھیلایا اور انہیں اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے ، تو ندا کی گئی : ”اے ایوب ! ہم نے جو تمہیں عطا کیا ہے وہ تمہارے لیے کافی نہیں ہے ؟“ تو انہوں نے عرض کی : ”اے میرے پروردگار ! تیرے فضل سے بے نیاز کون ہوسکتا ہے“ ۔

1092- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”سب سے افضل صدقہ دودھ دینے والا جانور کسی کو دینا ہے ، جو ایک برتن صبح دودھ دیتا ہے اور ایک برتن شام کو دیتا ہے“ ۔

1093- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں ۔ ”وہ شخص جب اس کے دودھ کو دوہتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ ہر ایک دو ہنے کے عوض میں اس کے لیے نیکیاں لکھتا ہے ۔“ (روای کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) ”اس دوہنے کی مقدار کے برابر میں نیکیاں لکھتا ہے جب تک اس جانور کے دودھ دینے کی صلاحیت باقی رہتی ہے ۔“

1094- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”خوشحالی مال ودولت زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتی اصل خوشحالی دل کا خوشحال ہونا ہے“ ۔

1095- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ” خرچ کرنے والے اور بخیل شخص کی مثال دو ایسے آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے لوہے کی بنی ہوئی دو زرہیں پہنی ہوئی ہوں ۔ ( راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) دو جبے پہنے ہوئے ہوں ۔ جوان کے سینے سے لے کر گردن تک ہوں ۔ جب خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے ، تو اس کی گرہ کشادہ ہوجاتی ہے (یانیچے ہوجاتی ہے ) ۔ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے پوروں کو چھپا لیتی ہے اور اس کے قدموں کے نشان کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ (یعنی زمین پر گرجاتی ہے ) اور جب کنجوس شخص خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے ، تواس کی زرہ اس کے لیے تنگ ہوجاتی ہے اس کا ہر حلقہ جڑ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس شخص کی گردن کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے “ ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں یہ گواہی دے کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دست مبارک کو اس طرح اشارہ کرتے ہوئے دیکھا ۔
پھر سفیان نے اپنے ہاتھ کے ذریعے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا کہ وہ شخص اسے کھولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کھلتی نہیں ہے ۔ ایسا انہوں نے دومرتبہ کیا ۔

1096- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ ”وہ اسے کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی ہے ۔“

1097- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص کسی ایسے شخص کو دیکھے جو مال اور جسامت میں اس سے برتر حیثیت رکھتا ہے ، تو اسے اس شخص کا بھی جائزہ لینا چاہتے جو اس حوالے سے اس سے کمتر حیثیت رکھتا ہے“ ۔

1098- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔ ”اے آدم کے بیٹے ! تم خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا“ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ” اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے ہیں ۔ رات اور دن (میں مسلسل ) خرچ کرنا اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ہے “ ۔

1099- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”دوآمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہوتا ہے اور تین کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے“ ۔

1100- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”بوڑھے آدمی کا دل بھی دوچیز وں کی محبت میں جوان ہوتا ہے مال کی محبت اور زندگی کی محبت“ ۔ سفیان نامی راوی نے (زندگی کے لیے ) بعض اوقات لفظ عیش استعمال کیا ہے ۔

1101- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کسی شخص کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے ، تو اس خادم نے اس کی تپش اور دھویں کو برداشت کیا ہوتا ہے اس لیے اس شخص کو چاہیے کہ اس خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کراسے کھلائے اگر وہ ایسا نہیں کرتا ، تو اسے ایک لقمہ لے کر اسے سالن میں ڈال کر پھر اس خادم کو دینا چاہیے“ ۔

1102-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1103-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1104- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”مسلمان پر اس کے غلام اور اس کے گھوڑے میں زکوٰۃ لازم نہیں ہے“ ۔

1105-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1106-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے تاہم یہ مرفوع حدیث کے طور پر نقل نہیں کی گئی ہے ۔

1107- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کسی شخص سے اس کا پڑوسی اس کی دیوار میں اپنا شہتیر گاڑنے کے لیے اجازت مانگے ، تو وہ اسے منع نہ کرے“ ۔
راوی بیان کرتے ہیں : جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو یہ حدیث سنائی ، تو انہوں نے اپنے سر جھکا لیے ۔ تو انہوں نے فرمایا : کیا وجہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں تم لوگ اعراض کررہے ہو ؟ اللہ کی قسم ! میں تمہارے کندھوں کے درمیان پٹائی کروں گا ۔
سفیان کہتے ہیں : میں نے امام زہری سے جس جگہ یہ روایت سنی تھی وہ جگہ بھی مجھے یاد ہے ۔ انہوں نے اس میں صرف اعرج کا تذکرہ کیا تھا انہوں نے سعید بن مستیب کا تذکرہ نہیں کیا تھا ۔

1108-عکرمہ بیان کرتے ہیں : کیا میں تم لوگوں کو ان مختصر چیزوں کے بارے میں نہ بتاؤں جو میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی زبانی سنی ہیں ؟ ان میں سے ایک یہ ہے وہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے ۔ ”کوئی بھی شخص اپنے پڑوسی کواس بات سے ہرگزمنع نہ کرے کہ وہ اس کی دیوار میں اپنا شہتیر گاڑے ۔“
ایوب نامی راوی کہتے ہیں : اگر میں تم سے یہ کہوں کہ عکرمہ بصرہ آئے ، تو حسن بصری نے بہت سی تفسیری روایات بیان کرنا ترک کردی تھیں ، تو میری یہ بات سچ ہوگی ۔

1109- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اگر کوئی شخص تمہاری اجازت کے بغیر تمہارے گھر میں جھانکنے کی کوشش کرے اور تم اسے کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو ، تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا“ ۔

1110- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جانور کے زخمی کرنے کا کوئی تاوان نہیں ہوگا ۔ معدنیات میں گر کر مرنے کا کوئی تاوان نہیں ہوگا ۔ کنوئیں میں گر کر مرنے کا کوئی تاوان نہیں ہوگا ، اور خزینے میں پانچویں حصے کی ادائیگی لازم ہوگی“ ۔

1111-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1112- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”دباء اور مزفت میں نبیذ تیار نہ کرو“ ۔
پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے یہ بات بیان کی حنتم اور نقیر (دباء ، فرفت ، حنتم اور نقیر یہ چاروں برتن ہیں جن میں زمانہ جہالت میں شراب پی جاتی تھی تو برتنوں سے اس لئے منع فرمایا تاکہ برتنوں کو دیکھ کر طبیعت اس طرف مائل نہ ہو) سے بھی اجتناب کرو ۔

1113- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ” جب کسی شخص کی کنیز زنا کا ارتکاب کرے اور اس کا زنا کرنا ظاہر ہوجائے ، تو وہ اسے کوڑے مارے لیکن زبانی طور پر اسے برانہ کہے پھر اگر وہ کنیز دوبارہ زنا کا ارتکاب کرے اور اس کا زنا کرنا ثابت ہوجائے ، تو وہ اسے پھر حد کے طور پر کوڑے مارے لیکن زبانی طور پر اسے برانہ کہے ۔ اگر وہ پھر ایسا کرے اور اس کا پھر زنا کرنا ظاہر ہوجائے ، تو وہ اسے فروخت کردے ، اگر چہ بالوں سے بنی ہوئی رسی کے عوض کرے “ ۔ لفظ ”ضفیر“ کا مطلب رسی ہے ۔

تخریج:


1086- (إسناده صحيح ، وانظر الحديث السابق)
1087- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1470، 1480، 2074، 2374، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1042، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1040، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3387، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2583، 2588، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2376، 2381، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3994، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7607، 8102، 9257، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6027، 6242، 6674، 6675، 6691، والبزار فى «مسنده» برقم: 8206، 9508)
1088- (إسناده صحيح ، وانظر الحديث السابق)
1089- (إسناده حسن ، وانظر الحديث السابق)
1090- (إسناده ضعيف ، لضعف الهجري، وهو إبراهيم بن مسلم، وباقي رجاله ثقات ، وأبو عياض هو عمرو بن الأسود العنسي۔ غير أن الحديث متفق عليه فقد أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1476، 1479، 4539، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1039، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2363، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3298، 3351، 3352، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2570، 2571، 2572، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2363، 2364، 2365، 10987، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1631، بدون ترقيم، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1656، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7962، 13268، 13269، 13270، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7655، 7656، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6337، 6378)
1091- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 279، 3391، 7493، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6229، 6230، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4138، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 407 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 975، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7429، 8153، 8275، 8688، 10497، 10788، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2577، والبزار فى «مسنده» برقم: 9550، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2533)
1092- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2629، 5608، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1019، 1020، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7894، 7895، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7421، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1093، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6268، 6288)
1093- (إسناده حسن ، وانظر سابقه)
1094- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6446، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1051، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 679، 3222، 6217، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3992، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11786، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2373، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4137، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7436، 7671، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6259)
1095- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1402، 1403، 1443، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 987، 1021، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2252، 2253، 2254، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3253، 3254، 3258، 3261، 3313، 3332، 4671، 4672، 4675، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1439، 1470، 1471، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2441، 2447، 2481، 2546، 2547، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1658، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1636، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1786، 2788، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7323، 7325، 7380، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5873، 7453، 7601، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2640، 2641، 6014، 6319)
1096- (إسناده صحيح ، وانظر الحديث السابق)
1097- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6490، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2963، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 711، 712، 713، 714، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2513، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4142، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7439، 7566، 8263، 10389، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6261، والبزار فى «مسنده» برقم: 9132، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 578، 2343)
1098- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4684، 5352، 7411، 7419، 7496، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 993، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 725، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7686، 11175، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3045، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 197، 2123، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7909، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7418، 8256، 8269، 10123، 10649، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6260، 6343 ، مكرر، والبزار فى «مسنده» برقم: 8890)
1099- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5392، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2058، ومالك فى «الموطأ» برقم: 723، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6742، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1820، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7440، 9400، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6275)
1100- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6420، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1046، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3219، 3230، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8026، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11766، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2338، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4233، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6603، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8328، 8538، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5946، 5989، 6258)
1101- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2557، 5460، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1663، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3846، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1853، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2117، 2118، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3289، 3290، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15881، 15882، 15883، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7456، 7630، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6320)
1102- (إسناده حسن ، وانظر سابقه و لاحقه)
1103- (إسناده جيد ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2557، 5460، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1663، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3846، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1853، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2117، 2118، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3289، 3290، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15881، 15882، 15883، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7456، 7630، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6320، والبزار فى «مسنده» برقم: 7878)
1104- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1463، 1464، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 982 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2285، 2286، 2287، 2288، 2289، 2396، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3271، 3272، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2466، 2468 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1594، 1595، والترمذي فى «جامعه» برقم: 628، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1672، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1812، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7492، 7493، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7415، 7515، 7572، ، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6138، 6139، 6563، 6564)
1105- (إسناده صحيح ، وانظر الحديث السابق)
1106- (إسناده صحيح ، وهو موقوف علی أبى هريرة ، ولكن أخرجه ابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 390، 391، من طريق على بن خشرم، وانظر سابقه)
1107- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2463، 5627، 5628، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1609، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 515، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7306، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3634، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1353، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2164، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2335، 3420، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11491، 11492، 11493، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7274، 7275، 7398، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6249، 6309)
1108- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2463، 5627، 5628، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1609، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 515، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7306، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3634، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1353، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2164، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2335، 3420، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11491، 11492، 11493، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7274، 7275، 7398، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6249، 6309)
1109- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6888، 6902، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2158، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6002، 6003، 6004، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4875، 4876، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7036، 7037، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5172، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17732، 17733، 17734، 17735، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3451، 4274، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7433، 7731، 9119)
1110- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1499، 2355، 6912، 6913، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1710، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2326، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6005، 6006، 6007، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2494، 2495، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3085، 4593، 4594، والترمذي فى «جامعه» برقم: 642، 1377، 1377 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1710، 2422، 2423، 2424، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2509، 2673، 2676، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7734، 7739، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7241، 7374، 7574، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6050، 6072، 6075، 6308)
1111- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
1112- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1993، ومالك فى «الموطأ» برقم: 641، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5604، 5605، 5646، 5651، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3693، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3401، 3408، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17518، 17555، 17556، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4674، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7408، 7867، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5944، 6077، 6128)
1113- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2152، 2153، 2232، 2234، 2555، 6837، 6839، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4444، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7202، 7203، 7204، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4469، 4470 والترمذي فى «جامعه» برقم: 1440، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2371، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2565، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17181، 17182، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7513، 9008، 9586، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6541، 6608)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
عدالتی فیصلوں کے بارے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

1114-ابومیمونہ بیان کرتے ہیں : ایک ایرانی شخص اور اس کی بیوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ دونوں اپنے بیٹے کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے ۔ ایرانی نے کہا: اے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ ہمارا بیٹا ہے ، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے : میں تم دونوں کے درمیان وہ فیصلہ دوں گا جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اے لڑکے ! یہ تمہارے ابو ہیں اور یہ تمہاری امی ہے تم ان دونوں میں سے جسے چاہو اختیار کرلو ۔
پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا ایک شخص اور اس کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کے بارے میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے ۔ اس شخص نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ میرا بیٹا ہے ، جو ابوعنبہ کے کنوئیں سے مجھے پانی پلاتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے لڑکے ! یہ تمہارے ابوہیں یہ تمہاری امی ہیں تم ان دونوں میں سے جسے چاہواختیار کرلو“ ۔

1115- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : بنوفزارہ سے تعلق رکھنے والا ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری بیوی نے سیاہ فام لڑکے کو جنم دیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں“ ؟ اس نے عرض کی : جی ہاں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”ان کا رنگ کیا ہے“ ؟ اس نے عرض کی : سرخ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کیا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے“ ؟ اس نے عرض کی : ان میں ایک خاکستری بھی ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”وہ کہاں سے آگیا“ ؟، اس نے عرض کی : شائد کسی رگ نے اسے کھینچ لیا ہو ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہوسکتا ہے اسے بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو“ ۔

1116- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”بچہ فراش والے کوملے گا ، اور زنا کرنے والے کو محرومی ملے گی“ ۔

1117- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”تم بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے“ ۔

تخریج:


1114- (إسناده صحيح وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 7131، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3496 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5660، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2277، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1357، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2339، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2351، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2275، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15858، 15859، 15860، 15861، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7469، 9902، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1114، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6131)
1115- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5305، 6847، 7314، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1500، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4106، 4107، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3478 ، 3479، 3480 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5642، 5643، 5644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2260، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2128، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2002، 2003، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14358، 15459، 15460، 15461، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7310، 7311، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5869، 5886)
1116- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6750، 6818، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1458 والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3482، 3483 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5646، 5647، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1157، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2281، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2006، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2131، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15425، 15466، 15467، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7382، 7878)
1117- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5143، 6064، 6724، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2563، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5687، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4917، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1988، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11574، 17700، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7455، 8233)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
جہاد کے بارے میں روایات
------------------

1118- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ” اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذمے دار بن جاتا ہے ، جو اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں جہاد میں حصہ لینے کے لیے نکلتا ہے ۔ وہ مجھ پر ایمان رکھتے ہوئے میرے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کرتے ہوئے صرف جہاد کے لئے نکلتا ہے۔ (تو اللہ تعالیٰ یہ ذمہ لیتا ہے ) کہ اگر میں نے اسے وفات دے دی ، تو میں اسے جنت میں داخل کروں گا ، اور اگر میں نے اسے واپس لوٹایا ، تو جس گھر سے وہ نکلاتھا اس کے اس گھر کی طرف میں اس کو اجر اور مال غنیمت کے ہمراہ لوٹاؤں گا “ ۔

1119-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ ”اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ لیا ہے ۔“
سفیان کہتے ہیں : ابن عجلان کی نقل کردہ روایات کا میں سب سے بڑا حافظ ہوں ۔

1120-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1121- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”تین طرح کے لوگ اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں ہوتے ہیں ایک وہ شخص جو اپنے گھر سے اللہ کی کسی مسجد کی طرف جائے ایک وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جنگ میں حصہ لینے کے لیے نکلے اور ایک وہ شخص جو حج کرنے کے لیے نکلتا ہے“ ۔

1122- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ کی راہ کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی مسلمان کے پیٹ میں جمع نہیں ہوں گے“ ۔

1123- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جس بھی شخص کو اللہ کی راہ میں کوئی زخم لگتا ہے اور اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کسے اس کی راہ میں زخم لگا ہے ، تو جب وہ شخص قیامت کے دن آئے گا ، تو اس زخم کا رنگ خون جیسا ہوگا لیکن خوشبومشک کی خوشبو جیسی ہوگی“ ۔

تخریج:


1118- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 36، 237، 2785، 2787، 2797، 2803، 2972، 3123، 5533، 7226، 7227، 7457، 7463، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1876، 1878، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4610، 4621، 4622، 4627، 4652، 4736، 4737، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3098، 3122 ، 3123 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1619، 1656، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2436، 2450، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2753، 2795، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6904، 17895، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7278، 7422، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5845، 6263)
1119- (إسناده ضعيف فيه جهالة، ولكن رواية « انْتَدَبَ اللهُ ۔۔۔» أخرجه البخاريفى «صحيحه» برقم: 36، وانظر الحديث السابق)
1120- (إسناده حسن ، وانظر سابقه)
1121- (إسناده صحيح، و أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 499)
1122- (إسناده صحيح ، أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1891، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3251، 4606، 4607، 4665، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2407، 2408، 2409، 7762، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3107، 3108، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2495، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1633، 2311، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2774، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2401، 2402، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18579، 18601، 18602، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7598، 7690، 8595، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6505)
1123- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 36، 237، 2785، 2787، 2797، 2803، 2972، 3123، 5533، 7226، 7227، 7457، 7463، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1876، 1878، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4610، 4621، 4622، 4627، 4652، 4736، 4737، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3098، 3122، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1619، 1656، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2436، 2450، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2753، 2795، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6904، 17895، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7278، 7422، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1069، 1070، 1118، 1119، 1120، 1123، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5845، 6263)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول متفرق روایات
------------------

1124- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوع حدیث کے طور پر نقل کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : جو غلام دوآمیوں کی مشترکہ ملکیت ہوا ور ان میں سے کوئی ایک اپنے حصے کو آزاد کرے ، تو اگر وہ خوشحال ہو ، تو غلام کی قیمت کی ادا ئیگی اس پر لازم ہوگی ۔ اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو ، تو غلام سے مزدوری کروائی جائے گی اور اسے مشقت کا شکار نہیں کیا جائے گا ۔

1125- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کسریٰ ہلاکت کا شکار ہوجائے گا ، تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں آئے گا ۔ جب قیصر مرجائے گا ، تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں آئے گا ۔ اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ، تم لوگ ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کرو گے“ ۔

1126- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”فرع اور عتیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے“ ۔
زہر ی کہتے ہیں : فرع سے مراد جانور کے ہاں سب سے پہلا پیدا ہونے والا بچہ ہے اور عتیرہ سے مراد وہ بکری ہے ، جسے ہر گھر کے افراد رجب میں ذبح کرتے ہیں ۔

1127- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانے کو برا کہتا ہے ، حالانکہ میں زمانہ ہوں معاملہ میرے ہاتھ میں ہے میں رات اور دن کو تبدیل کرتا ہوں“ ۔

1128- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”عنقریب سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان ایک انصاف کرنے والے ثالث اور حکمران کے طور پر نازل ہوں گے وہ صلیب کو توڑدیں گے ، خنزیر کو مار دیں گے ، جزیے کوختم کردیں گے اور مال کو پھیلا دیں گے ، یہاں تک کہ اسے کوئی لینے والا نہیں ہوگا“ ۔

1129- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”عنقریب سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان ہدایت کے امام کے طور پر نزول کریں گے وہ عادل قاضی ہوں گے ، وہ صلیب کو توڑدیں گے ، خنز یر کوقتل کردیں گے ، جزیہ معاف کردیں گے اور مال اتنا عام کردیں گے کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ہوگا“ ۔

1130- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”لوگ ”کرم“ کہتے ہیں : حالانکہ کرم بندۂ مومن کا دل ہے“ ۔

1131- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اس قوم کے ساتھ جنگ نہیں کرو گے جن کے چہرے ان ڈھالوں کی مانند ہیں جن پر چمڑا لگایا جاتا ہے اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اس قوم کے ساتھ جنگ نہیں کرو گے جن کے جوتے بالوں سے بنے ہوتے ہیں“ ۔

1132- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ اہل ایران ہیں ۔

1133- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہیں کرو گے جن کی آنکھیں چھوٹی اور ناک چپٹے ہوتے ہیں“ ۔

1134- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب قیامت قائم ہوگی ، تو کوئی شخص اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا ، اور کوئی شخص اپنا حوض ٹھیک کررہا ہوگا“ ۔

1135- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دو بڑے گروہ آپس میں جنگ نہیں کریں گے اور ان دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا“ ۔

1136- سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے ایک مرتبہ وہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے وہ مسجد میں شعر سنارہے تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات پرانہیں ڈانٹا ، تو وہ بولے : میں نے اس مسجد میں اس وقت شعر سنائے ، جب اس مسجد میں وہ ہستی موجود تھی جوآپ سے زیادہ بہتر ہے ۔
پھر وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے : میں آپ کو اللہ کے نام کا واسطہ دے کر دریافت کرتا ہوں ، کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے ۔ ”تم میری طرف سے کفار کو شعر میں جواب دو ۔ اے اللہ ! تو روح القدس کے ذریعے اس کی تائید کر ۔“
تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے : اللہ کی قسم ! جی ہاں ۔

1137- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اقرع بن حابس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو بوسہ د یتے ہوئے دیکھا ، تو بولا: میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی بوسہ نہیں دیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جو رحم نہیں کرتا اس پررحم نہیں کیا جاتا“ ۔

1138- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”تم پراس سیاہ دانے کو استعمال کرنا لازم ہے کیونکہ اس میں ”سام“ کے علاوہ ہر بیماری کی شفا ہے“ ۔
(راوی کہتے ہیں : ) ”سام“ سے مراد موت ہے اور سیاہ دانے سے مراد کلونجی ہے ۔

1139- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”یہودی اور عیسائی بال نہیں رنگتے ہیں ، تو تم ان کے برخلاف کرو“ ۔

تخریج:


1124- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2492، 2504، 2526، 2527، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1502، 1503، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4318، 4319، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4943، 4944، 4945، 4946، 4947، 4948، 4949، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3934، 3937، 3938، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1348، 1348 (م) ، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2527، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21387، 21388، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7586، 8684)
1125- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3027، 3029، 3120، 3618، 6630، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1740، 2918، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6689، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2216، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18521، 18674، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7305، 7388، 7596، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5881)
1126- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5473، 5474، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1976، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5890، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم:4233 ، 4234، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4534، 4535، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2831، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1512، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2007، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3168، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19407، 19408، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4834، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7256، 7376، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5879)
1127-(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4826، 6181، 6182، 6183، 7491، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2246، 2247، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2479، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5713، 5714، 5715، 5832، 5833، 5834، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1531، 3711، 3712، 3713، 3837، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4974، 5274، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2742، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6586، 6587، 6588، 6589، 6590، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7365، 7377، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5929، 6066، 6315)
1128- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2222، 2476، 3448، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 155، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6779، 6816، 6818، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4185، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2233، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4078، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1174، 11665، 18686، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7389، 7794، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5877، 6584، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 84)
1129- (إسناده ضعيف ، والحديث صحيح ، وانظر الحديث السابق)
1130- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4826، 6181، 6182، 6183، 7491، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2246، 2247، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2479، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5713، 5714، 5715، 5832، 5833، 5834، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1531، 3711، 3712، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4974، 5274، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2742، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6586، 6587، 6588، 6589، 6590، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7365، 7377، 7634، 7797، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5929، 6066، 6315)
1131- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2928، 2929، 3587، 3590، 3591، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2912، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6743، 6744، 6745، 6746، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8562، 8564، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3177 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4371، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4303، 4304، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2215، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4096، 4097، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18664، 18665، 18666، 18667، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7383، 7791، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5878)
1132- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2928، 2929، 3587، 3590، 3591، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2912، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6743، 6744، 6745، 6746، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8562، 8564، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3177، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4371، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4303، 4304، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2215، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4096، 4097، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18664، 18665، 18666، 18667، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7383، 7791، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5878)
1133- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
1134- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 85، 1036، 1412، 3608، 3609 م، 4635، 4636، 6037، 6506، 6935، 7061، 7121، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 157، 2954، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6651، 6680، 6681، 6700، 6711، 6717، 6718، 6734، 6838، 6845، 6846، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8506، 8566، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11112، 11113، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4255، 4312، 4333، 4334، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2218، 3072، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4047، 4052، 4068، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16806، 18688، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7282، 7307، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5945، 6085، 6170، 6172، والطبراني فى «الصغير» برقم: 993)
1135- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 85، 1036، 1412، 3608، 3609 م، 4635، 4636، 6037، 6506، 6935، 7061، 7121، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 157، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6651، 6680، 6681، 6700، 6711، 6717، 6718، 6734، 6838، 6845، 6846، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8506، 8566، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11112، 11113، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4255، 4312، 4333، 4334، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2218، 3072، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4047، 4052، 4068، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16806، 18688، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7282، 7307، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5945، 6085، 6170، 6172، 6271، والطبراني فى «الصغير» برقم: 993)
1136- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 453، 3212، 6152، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2485، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1307، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1653، 7148، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 715، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 797، 9927، ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5013، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4419، 4420، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7759، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5885، 6017)
1137- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5997، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2318، 2318، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 457، 463، 5594، 5596، 6975، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5218، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1911، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13708، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7242، 7409، 7764، 10824،وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5892، 5983، 6113، والبزار فى «مسنده» برقم: 7855، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20589، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 7974)
1138- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5688، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2215، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6071، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7534، 7535، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2041، 2070، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3447، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19625، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7407، 7673، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5842، 5918، 5963، 6512)
1139- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3462، 5899، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2103، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5470، 5473، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5084، 5085، 5086، 5087، 5256، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9286، 9287، 9288، 9289، 9290، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4203، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1752، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3621، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14928، 14929، 14940، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7394، 7658، 7661، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5957، 5977، 6001، 6003، 6021)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1140- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی خدمت میں فتح خبیر کے بعد حاضر ہوا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے کچھ مجھے بھی دیں ، تو بنو سعید بن عاص سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حصہ نہ دیں ۔
میں نے عرض کی : یارسول االلہ یہ ابن قوقل کا قاتل ہے ۔ تو ابن سعید بولا: اس بلے پر حیرت ہے ، جو پہاڑسے اتر کر نیچے آگیا ہے اور میرے خلاف ایک ایسے مسلمان کے قتل کی اطلاع دے رہا ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں عزت دی ہے اور مجھے اس کے ہاتھوں رسوائی کا شکار نہیں کیا ۔
سفیان کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حصہ دیا تھا یا حصہ نہیں دیا تھا ۔

1141-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1142- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اہل جنت کی کنگھیا ں سونے سے بنی ہوئی ہوں گی اور ان کی انگیٹھیاں عود والی ہوں گی“ ۔

1143- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں دریافت کیا گیا جو کم سنی میں انتقال کر جاتے ہیں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے کیا عمل کرنے تھے“ ۔

1144- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے نذر ابن آدم کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں لے کر آتی ہے ، جو میں نے اس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو لیکن یہ ایک بات ایسی چیز ہے ، جس کے ذریعے کنجوس کا مال میں نکلوا لیتا ہوں اور میں اس ادا ئیگی پر بندے کو وہ دیتا ہوں جو کنجوسی کرنے پر نہیں دیتا“ ۔

1145-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1146- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں“ ۔
ابو زناد نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں ۔ ”اسے مجوسی یا مشرک بنا دیتے ہیں“ ۔
راوی بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اس اولاد کے بارے میں دریافت کیا گیا : جو کم سنی میں فوت ہوجاتے ہیں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے انہوں نے جو عمل کرنے تھے“ ۔

1147- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”طاقتور مومن کمزور مومن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہوتا ہے ویسے دونوں میں بہتری موجود ہے ۔ تم اس چیز کی خواہش کرو جو تمہیں نفع دے اور تم عاجز نہ ہوجانا اور اگر کوئی معاملہ تم پر غالب آجائے ، توتم یہ کہو : اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں یہی لکھا تھا جواس نے چاہا ویسا ہوگیا اور ”اگر“ کہنے سے بچنا کیونکہ یہ شیطان کے کام کا دروازہ کھولتا ہے“ ۔

1148- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان بحث ہوئی ، تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سیدنا آدم علیہ السلام سے کہا: اے سیدنا آدم علیہ السلام سے کہا: اے سیدنا آدم علیہ السلام آپ ہمارے جدامجد ہیں ۔ آپ نے ہمیں رسوا کردیا اور ہمیں جنت سے نکلوادیا۔
تو سیدنا آدم علیہ السلام نے کہا: آپ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے اپنے دست قدرت کے ذریعے لوح میں (تورات) تحریر کی ۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے معاملے کے بارے میں ملامت کررہے ہیں ؟ جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے چالیس سال پہلے کرلیا تھا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ، تو سیدنا آدم علیہ السلام سیدنا موسیٰ سے جیت گئے ۔ سیدنا آدم علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے جیت گئے ۔

1149-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1150- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”عدویٰ ، تیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے ایک اونٹ خارش کا شکار ہوتا ہے اور وہ ایک سواونٹوں کو خارش کا شکار کردیتا ہے لیکن پہلے کو بیماری کاشکار کس نے کیا ؟“

تخریج:


1140- ( إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2827، 4237، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2724، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3992، 13041، 13042، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1140، 1141، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2908، 2909)
1141- ( إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2827، 4239، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2724، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3992، 13041، 13042، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1140، 1141، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2908، 2909)
1142- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3245، 3246، 3327، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2834،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7407، 7436، 7437، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2537، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4333، 4333 م، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7286، 7553، 8315، 8801، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6084، والبزار فى «مسنده» برقم: 9156)
1143- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1358، 1359، 1384، 1385، 4775، 6598، 6599، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2658، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1358، 1359، 1384، 1385، 4775، 6598، 6599، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2658، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7302، 7443، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1146 وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6120، 6306، 6394، 6593)
1144- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6609، 6694، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1640، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4376، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7933، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3813، 3814، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4727، 4728، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3288، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1538، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2123، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20162، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7328، 7417، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6355)
1145- (إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1358 ، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2658، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 131، 133، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6306)
1146- (إسناده صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1358، 1359، 1384، 1385، 4775، 6598، 6599، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2658، 2659، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 128، 129، 130، 131، 133، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1948، 1949، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2087، 2088، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4714، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2138، 2138 م، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12264، 12265، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7302، 7443، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6120، 6306، 6394، 6593)
1147- (إسناده حسن ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2664، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5721، 5722، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10382، 10383، 10384، 10385، 10386، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 79، 4168، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20230، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8913، 8951، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6251، 6346)
1148- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3409، 4736، 4738، 6614، 7515، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2652، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6179، 6180، 6210، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10918، 10919، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4701، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2134، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 80، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7504، 7703، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1528، 6245، 6642)
1149- (إسناده صحيح ،وانظر الحديث السابق)
1150- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5717، 5754، 5755، 5757، 5770، 5771، 5773، 5774، 5775، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2220، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5826، 6114، 6115، 6116، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7547، 7548، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3911، 3912، 3913، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2143، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3536، 3541، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14347، 14348، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4283، 7733، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5182، 6112، 6297، 6508، 6632)
 
Last edited:
Top