• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1151- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : میری طرف سے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ت ”مہاری والدہ“ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات دومرتبہ ارشاد فرمائی۔
اس نے دریافت کیا : پھر کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہارا والد“ ۔
سفیان کہتے ہیں : علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اچھے سلوک میں سے دوتہائی حصہ والدہ کے لیے ہوگا ، اور ایک تہائی والد کے لیے ہوگا ۔

1152-حسن بصری فرماتے ہیں دوتہائی حصہ والدہ کا ہوگا ، اور ایک تہائی حصہ والد کا ہوگا ۔

1153- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : کوئی بھی شخص یہ نہ کہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہرے کو قبیح کرے اور اس شخص کے چہرے کو قبیح کرے جو تمہارے چہرے کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے ۔

1154- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص کسی کو مارے ، تو چہرے پر مارنے سے اجتناب کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کواپنی صورت پر پیدا کیا ہے“ ۔

1155- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ دو ایسے افراد پر ہنس دیتا ہے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا ہوتا ہے لیکن وہ ایک ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ان دونوں میں سے ایک کافر تھا ، تواس نے دوسرے کوقتل کردیا ، پھر وہ کافرمسلمان ہوکر وہ بھی شہید ہوجاتا ہے (تووہ بھی جنت میں جائے گا) “

1156- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص میری اطاعت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے ۔ اور جوشخص میرے امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے“ ۔

1157- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اضافی پانی سے کسی کو نہ روکا جائے ورنہ اس کے نتیجے میں قدرتی گھاس کی پیداوار کم ہوجائے گی“ ۔

1158-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1159- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میں جن معاملات میں تمہیں چھوڑ دوں ان میں مجھے ویسے ہی رہنے دو کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ بکثرت سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوئے تھے اور میں جس چیز سے منع کروں اس سے بازآجاؤ جس چیز کا تمہیں حکم دوں اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو“ ۔
ابن عجلان نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں : میں نے یہ روایت ابان بن صالح کو سنائی ، تو وہ ان الفاظ پر حیران ہوئے ”تم اپنی استطاعت کے مطابق ان پر عمل کرو ۔“

1160- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے“ ۔

تخریج:


1151- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1419، 2748، 5971، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1032، 2548، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2454، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 433، 434، 3312، 3335، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2541، 3613، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2334، 6405، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2865، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2706، 3658، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7926، 15856، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7280، 7525، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6080، 6082، 6092، 6094)
1152- (إسناده صحيح إلى الحسن وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25910، وأخرجه وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 2544، وأخرجه الطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 370/4)
1153- (إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3326، 6227، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2841، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5710، 6162، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8287، 8407، 9499، 11067، وعبد بن حميد فى «المنتخب من مسنده» برقم: 1427، والبزار فى «مسنده» برقم: 7844، 8511، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19435)
1154- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2559، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2612، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5604، 5605، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7310، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4493، 4493، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17658، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7441، 7538، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6274، 6311)
1155- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2826، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1890، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1673، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 215، 4666، 4667، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3165، 3166، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4358، 4359، 7719، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 191، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2549، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18603، 18604، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7444، 8341، و همام فى «صحيفه » برقم: 111)
1156- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 722، 734، 780، 781، 782، 796، 2957، 3228، 4475، 6402، 7137، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 409، 1835، 1841، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4556، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 920، 921، وأبو داود فى «سننه» برقم: 603، والترمذي فى «جامعه» برقم: 250، 267، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1281، 1282، 1350، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3، 846، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2314، 2473، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7265، 7308، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5874، 6272)
1157- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2353، 2354، 6962، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1566، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4954، 4956، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5742، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3473، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1272، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2478، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11177، 11961، 11962، 11985، 11986، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7442، 7812، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6257، 6285، والطبراني فى «الصغير» برقم: 252)
1158- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 7288، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1337، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 18 19 20 21 وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6305 6676)
1159- (إسناده حسن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 7288، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1337، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2508، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 18، 19، 20، 21، 2105، 2106، 3704، 3705، 6245، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2618 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3585، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2679، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1، 2، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1046، 1855، 8312، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7484، 7617، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6305، 6676)
1160- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3194، 7404، 7422، 7453، 7553، 7554، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2751، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6143، 6144، 6145، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7703، 7704، 7709، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3543، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 189، 4295، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7419، 7616، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6281، 6432)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1161- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین شخص وہ ہے ، جس کا نام ”بادشاہوں کا بادشاہ“ ہو ۔
سفیان کہتے ہیں : اس سے مراد ”شہنشاہ“ ہے ۔

1162- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”مومن زنا کرتے وقت مومن نہیں رہتا ۔ وہ چوری کرتے وقت مومن نہیں رہتا ۔ شراب پیتے وقت نہیں رہتا اور ڈاکہ ڈالتے وقت یا (کوئی چیز اچک کرلے جاتے وقت ) مومن نہیں رہتا“ ۔

1163- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”یہ آگ جہنم کی آگ کا سترھواں حصہ ہے ۔ اسے دومرتبہ پانی کے ذریعے ٹھنڈا کیا گیا ہے اگر ایسا نہ ہوتا ، تو اس میں کسی کے لیے کوئی فائدہ نہ ہوتا“ ۔

1164- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ کے ننا نوے نام ہیں یعنی ایک کم سو ، جو انہیں یاد کرلے گا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر کوپسند کرتا ہے“ ۔

1165- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جنت میں ایک درخت ہے ، جس کے سائے میں ایک سوار ایک سوسال تک بھی چلتا رہے گا ، تو بھی اسے پار نہیں کرسکے گا ، اگر تم چاہو ، تو یہ آیت تلاوت کرلو ۔ «وَظِلٍّ مَمْدُودٍ » (56-الواقعة:30) ”اور پھیلے ہوئے سائے ۔““

1166- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”تم لوگوں میں سب سے زیادہ برا دوغلے شخص کو پاؤ گے ۔“

1167- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ”میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز تیار کی ہے ، جسے کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ہے ، کسی کان نے (اس کے بارے میں) سنا نہیں ہے اور کسی انسان کے دل میں اس کا خیال بھی نہیں آیا
( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا شاید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا) اگر تم لوگ چاہو ، تو یہ آیت تلاوت کرلو ۔ «فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ» (32-السجدة:17) ”کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز تیار کی گئی ہے ؟ یہ اس چیز کی جزا ہے ، جو وہ لوگ عمل کیا کرتے تھے ۔“

1168- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میرے ورثاء دینار تقسیم نہیں کریں گے میں اپنی بیویوں کے خرچ اور اپنے اہل کاروں کی تنخواہوں کے بعد جو چھوڑ کر جاؤں گا وہ صدقہ ہوگا ، میرے ورثاء دینار تقسیم نہیں کریں گے“ ۔

1169- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کسی شخص کا تسمہ ٹوٹ جائے ، تو وہ ایک جوتا پہن کرنہ چلے اور ایک موزہ پہن کرنہ چلے جب تک وہ دوسرے کو ٹھیک نہیں کروا لیتا جب کوئی شخص جوتا پہننے لگے ، تو پہلے دائیں پاؤں میں پہنے اور جب اتارنے لگے ، تو پہلے بائیں سے اتارے ، دایاں پاؤں پہنتے ہوئے پہلے ہونا چاہئے اور اتارتے ہوئے بعد میں ہونا چاہئے“ ۔

1170- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”کیا تم لوگ اس بات پر حیران نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے قریش کے برا کہنے اور ان کے برا کرنے کو کیسے پھیر دیا ہے ؟ وہ لوگ برا کہتے ہوئے مذمت کرتے ہیں ، لعنت کرتے ہوئے مذمت کرتے ہیں جبکہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں (یعنی جس کی تعریف کی گئی ہے ) “

تخریج:


1161- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6205، 6206، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2143، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5835، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7818، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4961، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2837، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19374، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7447، 8293، والبزار فى «مسنده» برقم: 8862، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 1076، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4365، والطبراني فى «الصغير» برقم: 597)
1162- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2475، 5578، 6772، 6810، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 57، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 186، 4412، 4454، 5172، 5173، 5979، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4885، 4886، 4887،وأبو داود فى «سننه» برقم: 4689، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2625، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2037، 2152، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3936، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20809، 20810، 20811، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7438، 8319، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6299، 6300، 6301، 6364، 6443)
1163- (إسناده صحيح و أخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 830، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 345، 656، 6147، 6148، 7462، 7463، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 185، 186، 7724، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2589، 3541، 3542، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2827، 2889، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4293، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7445، 8241، 8531، 9045، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6372، 6445، 6507، 6509)
1164- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2736، 6410، 7392، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2677، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1071، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 807، 808، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 41، 42، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7612، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3506، 3506 م، 3507، 3508، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1621، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3860، 3861، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11572، 19876، 19877، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7618، 7738، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6277، والبزار فى «مسنده» برقم: 7747)
1165- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2793، 3252، 4881، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2826، 2826، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6158، 7411، 7412، 7417، 7418، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3189، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11019، 11500، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2523، 3013، 3292، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2862، 2880، 2881، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4335، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7614، 8283، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5853، 6316)
1166- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3493، 3495، 6058، 7179، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1818، 2526، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 92، 5754، 5755، 5757، 6264، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4872، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2025، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5378، 16627، 16759، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7426، 7459، 7612، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6070، 6264، 6265، 6439)
1167- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3244، 4779، 4780، 7498، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2824، 2824، 2824، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 369، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11019، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3197، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2870، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4328، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8259، 9780، 10155، 10156، 10567، 10727،وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6276، والبزار فى «مسنده» برقم: 9143، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20874، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 35128، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 200، والطبراني فى «الصغير» برقم: 51)
1168- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2776، 3096، 6729، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1760، 1760، 1761، ومالك فى «الموطأ» برقم: ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2488، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6609، 6610، 6612، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2974، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12854، 12863، 13531، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7423، 9014، 10110، 10119، والبزار فى «مسنده» برقم: 8832، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 2965، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 983، 984، والترمذي فى «الشمائل» برقم: 403)
1169- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2098، 2098، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5459، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5384، 5385، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9711، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7466، 8267، 9846، 10329، 10363، 10992، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1169، والبزار فى «مسنده» برقم: 9687، 9902، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20216، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25422، 25425، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 7643)
1170- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3533، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6503، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3438، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5602، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17240، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7449، 8594، 8947، والبزار فى «مسنده» برقم: 8861)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1171- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جنت اور جہنم کے درمیان بحث ہوگئی تو اس نے کہا: مجھ سرکش اور متکبر لوگ داخل ہوں گے ، تو دوسری نے (یعنی جنت نے ) کہا: مجھ میں کمزور اور غریب لوگ داخل ہوں گے ۔
تو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا : ”تم میرا عذاب ہو تمہارے ذریعے میں جسے چاہوں گا عذاب دوں گا ، اور اس سے فرمایا : تم میری رحمت ہو تمہارے ذریعے میں جس پر چاہوں گا رحمت کروں گا“ ۔
سفیان کہتے ہیں : میرے خیال میں روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ”تم میں سے ہر ایک بھر جائے گی ۔“

1172- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب کوئی شخص سائے میں ہوا ور وہ سایہ اس سے کچھ کھسک جائے یہاں تک کہ اس شخص کا کچھ حصہ دھوپ میں آجائے اور کچھ سائے میں ہو ، تو اسے وہاں سے ہٹ جانا چاہئے (یعنی مکمل دھوپ یا پھر مکمل سائے میں آنا چاہئے ۔“ )

1173- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کسی شخص کو جمائی آئے ، تو وہ اسے روکنے کی کوشش کرے ورنہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے“ ۔

1174- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے : ایک مرتبہ ایک شخص کانٹوں کی شاخ کے پاس سے گزرا اس نے اسے راستے سے ہٹادیا ، تو اس شخص کی مغفرت ہوگئی ۔
سفیان نامی راوی نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کیے ہیں ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو قبول کیا اور اس کی مغفرت کردی ۔“

1175- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ مشکیزہ کے منہ سے (منہ لگا کے ) پانی پیا جائے ۔

1176- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگ یہ کہتے ہیں : کہ ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بکثرت احادیث نقل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ، میں ایک غریب شخص تھا میں اپنے پیٹ میں (ضروری) خوراک ڈال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتا تھاجبکہ انصار اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے مہاجرین بازار ، میں سودے اور لین دین کیا کرتے تھے ایک مرتبہ میں ایک محفل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کون شخص میری گفتگو ختم کرنے تک اپنی چادر کو بچھا ئے گا اور پھر اسے سمیٹ لے گا ، تو وہ میری زبانی جو بھی بات سنے گا اسے کبھی نہیں بھولے گا“ ، تو میں نے اپنے جسم پر موجود چادر کو بچھا دیا یہاں تک کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات مکمل کی ، تو میں نے اسے سمیٹ لیا اس ذات کی قسم ! جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ہمراہ معبوث کیا ہے اس کے بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہوئی کوئی بات کبھی نہیں بھولا۔
سفیان کہتے ہیں: مسعود نامی راوی نے یہ بات نقل کی ہے پھر ایک اور صاحب کھڑے ہوئے انہوں نے بھی اپنی چادرکو بچھایا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”دوس کا رہنے والا جوان تم پر سبقت لے گیا ہے ۔“

1177-محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں : کچھ لوگوں کے درمیان اس بارے میں بحث ہوگئی کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا خواتین ۔ وہ لوگ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے بتایا سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”میری امت کا جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہوگا وہ چودھویں رات کے چاند کی مانند ہوں گے پھر اس کے بعد والے لوگ اس طرح ہوں گے جیسے آسمان میں موجود سب سے زیادہ چمکدار ستارہ ہوتا ہے“ ۔
یہاں سفیان نامی راوی نے ایک روایت کے ایک لفظ کو نقل کرنے میں شک کا اظہار کیا ہے ۔
”ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی ، جن کی پنڈلیوں کے گوشت کے اندر سے ہڈی کا مغز بھی نظر آئے گا ، اور جنت میں مجرد زندگی نہیں ہوگی“ ۔

1178- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میرے نام کے مطابق نام رکھ لو لیکن میری کنیت کے مطابق کنیت اختیار نہ کرو“ ۔

1179- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص کوئی ایسا خواب دیکھے جواسے اچھا نہ لگے ، تو وہ دورکعت ادا کرلے اور اس خواب کے بارے میں کسی کو نہ بتائے تو وہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا“ ۔

1180- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”حبشہ سے تعلق رکھنے والا ”ذوسویقتین“ خانہ کعبہ کو ڈھا دے گا“ ۔

تخریج:


1171- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4849، 4850، 7449، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2846، 2847، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4849، 4850، 7449، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2846، 2846، 2846، 2847، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7447، 7476، 7477، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7693، 11458، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2561، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2891، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7833، 8280، 9951، 10738، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6290)
1172- (إسناده فيه جهالة ، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 4821، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6002، 6004، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9098، والبزار فى «مسنده» برقم: 8809، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19799)
1173- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3289، 6223، 6224، 6226، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2994، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 920، 921، 922، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 598، 602، 2357، 2358، 2359، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7778، 7781، 7782، 7784، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9971، 9972، 9973، 9974، 9989، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5028، 5033، والترمذي فى «جامعه» برقم: 370، 2746، 2747، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 968، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3632، 3633، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7414، 7714، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6456، 6592، 6627، 6628، 6679)
1174- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 652، 2472، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1914، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 536، 537، 538، 539، 540، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5245، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1958، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3682، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7956، 8154، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6051، 6424، 6485)
1175- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2463، 5627، 5628، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1609، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 515، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7306، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3634، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1353، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2164، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2335، 3420، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11491، 11492، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7274، 7275، 7398، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6249، 6309)
1176- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 118، 119، 2047، 2350، 3648، 7354، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2492، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7153، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3092، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5835، 5836، 5837، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3834، 3835، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 262، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7395، 7396، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6219، 6229، 6248)
1177-(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3245، 3246، 3254، 3327، 5811، 6542، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 216، 2834، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7244، 7420، 7436، 7437، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5042، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2537، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2849، 2865، 2874، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4333، 4333 (م) ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20547، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7273، 7286، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6084، 6437)
1178- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 110، 3539، 6188، 6197، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2134، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5812، 5814، 5815، 5817، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4209، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4965، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2841، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2735، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3735، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19381، 19382، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7494، 7495، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6063، 6102)
1179- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6988، 6990، 7017، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2263، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6040، 6044، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8266، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7607، 10673، 10674، 10680، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5019، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2270، 2280، 2291، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2189، 2190، 2193، 2206، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3894، 3906، 3917، 3926، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7304، 7757، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6706)
1180- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1591، 1596، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2909 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6751، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2904، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3873، 11087، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8790، 8791، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8209، 9529)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1181- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”عنقریب وہ وقت آئے گا جب لوگ علم کے حصول کے لیے اونٹوں کے جگر پگھلادیں گے لیکن انہیں کوئی ایسا عالم نہیں ملے گا جو مدینہ کے عالم سے زیادہ علم رکھتا ہو“ ۔

1182- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی ۔ «مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ » (4-النساء:123) ”جو شخص براعمل کرے گا اسے اس کا بدلہ مل جائے گا ۔“
تو یہ بات مسلما نوں کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ”تم لوگ تفریق سے بچو اور ٹھیک رہو اور یہ خوشخبری حاصل کرو کہ بندہ مومن کو جو بھی پریشانی لاحق ہوتی ہے وہ اس کے لیے کفارہ بن جاتی ہے یہاں تک کہ اسے جو کانٹا چبھتا ہے یا جو مشکل درپیش ہوتی ہے ، تو (یہ بھی اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ) “

1183- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : کبر یائی میری چادر ہے ، عزت میرا ”ازار“ ہے ، جوشخص ان دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں میرے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا“ ۔

1184- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود ہوتے ہیں ، تو ہمارے دلوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے لیکن جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں ، تو ہماری حالت تبدیل ہوجاتی ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب تم لوگ میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہو اس وقت بھی اگر تمہاری حالت اسی کی مانند ہو جس طرح اس وقت ہوتی ہے جب تم میرے پاس موجود ہوتے ہو ، تو فرشتے تمہارے ساتھ مصافحہ کرنا شروع کردیں“ ۔
راوی بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”جنت کی تعمیریوں کی گئی ہے کہ ایک اینٹ سونے کی ہے اور ایک اینٹ چاندی کی ہے اور اس کا گار ا مشک ازفر کا ہے اور اس کی کنکریاں لؤلؤ ، زبرجد اور یاقوت کی ہیں“ ۔ اس کے بعد راوی نے طویل حدیث ذکر کی ہے ۔

1185- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ سناتا ہے ، تو فرشتے اس کے حکم کے سامنے سر کو جھکاتے ہوئے اپنے پر مارتے ہیں یوں جیسے زنجیر پتھر پر ماری جاتی ہے جب ان کے دلوں سے خوف کم ہوتا ہے ، تو وہ دریافت کرتے ہیں : ”تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے“ ، تو دوسرے جواب دیتے ہیں : ”جو اس نے فرمایا ہے وہ حق ہے ، بلند و برتر ہے“ ، پھر چوری چھپے سننے والے اس میں سے کوئی بات سن لیتے ہیں اور چوری چھپے سننے والے اس طرح ہوتے ہیں جس طرح وہ ایک دوسرے کے اوپر نیچے“ ۔
سفیان نے کرکے دکھایا کہ وہ ایسے ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تو وہ شخص ان میں سے کوئی بات سن لیتا ہے ، جسے وہ اپنے سے نیچے والے تک پہنچا دیتا ہے پھر وہ اپنے سے نیچے والے تک پہنچادیتا ہے پھر وہ کسی جادو گر یا کاہن کی زبانی بات بیان کرتا ہے بعض اوقات شہاب ثاقب اس تک پہنچ جاتا ہے اس سے پہلے کہ وہ بات اپنے سے نیچے والے تک منتقل کرے اور بعض اوقات شہاب ثاقب کے اس تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ بات اگلے شخص تک منتقل کردیتا ہے وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ بھی ملادیتا ہے ، تو یہ کہا جاتا ہے اس شخص نے فلاں دن جو ہم سے کہا تھا : کیا ایسا نہیں ہوا ؟ اس نے فلاں ، فلاں بات کہی تھی ، یہ وہی بات ہوتی ہے ، جواس نے آسمان سے سنی ہوتی ہے ، تو تصدیق اس بات کی کی جاتی ہے ، جو آسمان سے کی گئی تھی“ ۔

1186- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”مجھے ایک بستی کے بارے میں حکم دیا گیا کہ وہ باقی بستیوں کوکھا جائے گی لوگ یہ کہتے ہیں : یہ ”یثرب“ ہے ، حالانکہ یہ ”مدینہ“ ہے ، جو لوگوں کویوں باہر نکال دے گا ، جس طرح بھٹی لو ہے کے زنگ کو صاف کر دیتی ہے“ ۔

1187- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”لوگ ایک دوسرے سے مسلسل سوالات کرتے رہیں گے ، یہاں تک کہ وہ یہ کہیں گے اللہ تعالیٰ نے ، تو ہر چیز کو پیدا کیا ہے ، تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے“ ؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”جب یہ صورتحال در پیش ہو ، تو آدمی یہ کہے : میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں ۔“

1188- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ، جو بھی شخص پاکیزہ کمائی میں سے صدقہ کرتا ہے ویسے اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز کوہی قبول کرتا ہے ، تو وہ چیز پاکیزہ ہونے کی حالت میں ہی آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور وہ حق کی جگہ پر رکھی جاتی ہے اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ پروردگار اسے اپنے دائیں ہاتھ میں رکھ لیتا ہے پھر وہ اسے بڑھانا شروع کرتا ہے ، جس طرح کوئی شخص اپنے جانور کے بچے کو پالتا پوستا ہے یہاں تک کہ ایک لقمہ یا ایک کھجور جب قیامت کے دن آئیں گے ، تو وہ بڑے پہاڑ کی مانند ہوں گے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت تلاوت کی) «وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ» (9-التوبة:104) ”وہی وہ ذات ہے ، جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات وصول (یعنی قبول ) کرتا ہے ۔“

1189- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”غلام کو خوراک اور لباس فراہم کیا جائے گا ، اور اسے ایسے کام کا پابند نہیں کیا جائے گا ، جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو“ ۔

1190- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”ہم نے ان سے لڑائی شروع کی ہے ہم نے ان کے ساتھ صلح نہیں کی ہے اور جو شخص ان سے ڈرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک شخص کو چھوڑ دے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں“ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سانپ تھے ۔

تخریج:

1181- (إسناده ضعيف وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3736، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 306، 307، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4277، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2680، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1842، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8095، والبزار فى «مسنده» برقم: 8925، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 4016، 4017، 4018)
1182- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2574، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11057، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3038، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6631، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7503، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10908)
1183- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2620، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 328، 5671، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 203، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4090، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4174، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7499، 9016، 9483، 9639، 9834، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2509)
1184- (إسناده جيد ، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2749، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1901، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 874، 3428، 7387، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7717، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2526، 3598، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2863، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1752، 4248، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6484، 16745، 20220، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8158، 8159)
1185- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4701، 4800، 7481، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 36، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2997، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3989، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3223، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 194)
1186- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1871، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1378، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3723، 3733، 3734، 3739، 3740، 6775، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4247، 11335، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3924، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7352، 7487، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5868، 5943، 6374، 6487)
1187- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3276، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 134، 134، 135، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6722، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10422، 10423، 10424، 10425، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4721، 4722، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7905، 8324، 8492، 9149، 11113، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1187، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6056)
1188- (إسناده حسن ، من أجل إبن عجلان، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1410، 7430، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1014، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2425، 2426، 2427، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 270، 3316، 3318، 3319، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3302، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2524 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2316، 7687، والترمذي فى «جامعه» برقم: 661، 662، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1717، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1842، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7840، 7932، 7933، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7749، 8497، 9083، والطبراني فى «الصغير» برقم: 329)
1189- (إسناده حسن ، من أجل محمد بن عجلان، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1662، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4313، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15873، 15874، 15884، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7481، 7482، 8627)
1190- (إسناده حسن ،وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5248، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7483، 9719، 10892، والبزار فى «مسنده» برقم: 8372، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 1338، 2929، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2113، 6223)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1191- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چھینکتے تھے ، تو اپنے چہرے کوڈھانپ لیتے تھے اور چھینکنے کی آواز کو پست کرتے تھے ۔

1192- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : ”جب کچھ لوگ کسی محفل میں بیٹھے ہوئے ہوں اور وہاں اللہ کاذکر نہ کریں ، تو یہ چیز ان کے لیے (قیامت کے دن) حسرت کا باعث ہوگی“ ۔

1193- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”فحش باتیں کرنے سے بچو ! کیونکہ اللہ تعالیٰ فحاشی کرنے والے اور فحش گفتگو کرنے والے کو نا پسند کرتا ہے اور ظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کی شکل میں ہوگا ، اور بخل سے بچو ! کیونکہ اسی بخل نے تم سے پہلے لوگوں کوخون بہانے ، قطع رحمی کرنے اور حرام چیزوں کو حلال کرنے کی ترغیب دی تھی“ ۔

1194- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص اپنے بھائی سے یہ کہے : اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیردے ، تو اس نے تعریف میں مبالغہ کردیا“ ۔

1195- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”چھینک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے جب کسی شخص کو جمائی آئے ، تو وہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے جب وہ ہا ، ہاکہتا ہے ، تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ، جواس کے پیٹ میں ہنس رہا ہوتا ہے“ ۔

1196- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پتہ چلا ہے : ”جب تم کچھ بیٹھے ہوئے افرا د کے پاس جاؤ تو انہیں سلام کرو جب تم اٹھو ، تو پھر انہیں سلام کرو کیونکہ پہلے والا دوسرے والے کے مقابلے میں زیادہ حق نہیں رکھتا“ ۔

1197- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : ”چار نہروں کا تعلق جنت سے ہے فرات ، سیہان ، جیحان ، نیل“ ۔

1198-وہب بن کیسان بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اس شام کونماز ادا کرتے ہوئے دیکھا جب پہلے دن لوگ روانہ ہوتے ہیں پھر انہوں نے بتایا : ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کے معاملے میں سبقت لے جاتے تھے لیکن مروان کا غلام ذکوان حاجیوں سے آگے نکل گیا اس نے لوگوں کے بارے میں سلامتی کی اطلاع دی ۔
سفیان کہتے ہیں : ذکوان نے یہ شعر کہا تھا : ”میں وہ شخص ہوں جس نے اس (سواری کو) اہل منیٰ کی طرف سے اہل یثرب کی طرف تیزی سے جانے کاپابند کیا“ ۔

1199- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”تم لوگ بنی اسرائیل کے حوالے سے روایات نقل کردو ! اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور تم لوگ میرے حوالے سے بھی باتیں بیان کرو ، تاہم میری طرف جھوٹی بات منسوب نہ کرنا“ ۔

1200- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے گا وہ جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار ہو جائے“ ۔

تخریج:


1191- (إسناده حسن ، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 7891، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5029، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2745، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3636، 3637، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9793، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6663، والبزار فى «مسنده» برقم: 8950، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1849، والطبراني فى «الصغير» برقم: 109)
1192- (إسناده حسن ، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 590، 591، 592، 853، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1814، 1815، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4855، 4856، 5059، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3380، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5853، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9174، 9713)
1193- (إسناده حسن وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5177، 6248، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 28، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9699، 9701، والبزار فى «مسنده» برقم: 8481، 8486)
1194- (إسناده فى علتان، موسى بن عبيدة الربذي ضعيف، وأخرجه عبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده"، 1418، والبزار فى «مسنده» برقم: 9413، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 3118، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 27049، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1184، 1185)
1195- (إسناده حسن ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3289، 6223، 6224، 6226، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2994، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 920، 921، 922، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 598، 602، 2357، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7778، 7781، 7782، 7784، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9971، 9972، 9973، 9974، 9989، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5028، 5033، والترمذي فى «جامعه» برقم: 370، 2746، 2747، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 968، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3632، 3633، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7414، 7714، 8461، 8751، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6456، 6592، 6627، 6628، 6679)
1196- (إسناده حسن ، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 493، 494، 495، 496، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10102، 10128، 10129، 10130، 10131، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5208، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2706، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7263، 7967، 9795، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6566، 6567)
1197- (إسناده حسن ، ولكنه الحديث صحيح، أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2839، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7660، 8001، 9805، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5921، والبزار فى «مسنده» برقم: 7956، 8186، 8187، 8199، 9649، 9650، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 7673)
1198- (إسناده ضعيف لإنقطاعه، وهب بن كيسان قيل: رأي أبا هريرة رؤية ولم يسمع عنه وأخرجه الحميدي فى «مسنده» برقم: 1198، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 1292)
1199- (إسناده حسن ، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6254، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3662، وأحمد فى «مسنده» برقم: 10271، 10678، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 27016، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 135)
1200- (إسناده فيه جهالة، ولكن الحديث صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» 110، ومسلم فى «مقدمة صحيحه» برقم: 3، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 28، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 349، 350، 435، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5884، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3657، والدارمي فى «مسنده» برقم: 161، 613، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 34، 53، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20383، 20412، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8382، 8897، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6123)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1201- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو بھی ظالم شخص اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں یوں گھول دے گا ، جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے اور جو شخص یہاں کی سختی اور شدت پر صبر سے کام لے گا ، میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ ہوں گا (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) اس کی شفاعت کروں گا“ ۔

1202- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے وہ کسی بھی صورت میں تمہارے لیے سیدھی نہیں ہوسکتی ، اگر تم اس سے نفع حاصل کرنا چاہتے ہو ، تو اس کے ٹیڑ ھے پن سمیت اس سے نفع حاصل کرو ، اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے ، تو اسے توڑ دو گے اور اسے توڑنے سے مراد اسے طلاق دینا ہے“ ۔

1203- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنو قنیقاع کے یہودیوں کی طرف گیا جو انہیں درس دیا کرتے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اچھی خوشبو لگائی ہوئی تھی میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! شاید اس کی نئی ، نئی شادی ہوئی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم جاؤ اور اسے دھولو اور اچھی طرح دھولو پھر اسے دھوؤ اور اچھی طرح دھولو پھر اسے دھولو اور اچھی طرح دھوؤ ۔“

1204- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”سب سے برا کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے ، جس میں شریک ہونے والے کو روک دیا جائے اور اس کی دعوت اسے دی جائے ، جو اس کا انکار کرے ، جو شخص دعوت قبول نہیں کرتا وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کرتا ہے“ ۔

1205- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سب سے برا کھانا ولیمے کا کھانا ہے ، ”جس میں امیروں کو بلایا جاتا ہے اور غریبوں کو روک دیا جاتا ہے ، جو شخص دعوت قبول نہیں کرتا وہ اللہ اور ا س کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کرتا ہے“ ۔

1206- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نے کسی انصاری خاتون کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ کیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اسے دیکھ لو ، کیونکہ انصار کی خواتین کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے“ ۔
امام حمیدی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں : یعنی وہ کچھ چھوٹی ہوتی ہیں ۔

1207- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے ان وسوسوں سے درگزر کیا ہے ، جوان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ، جب تک وہ ا س پر عمل نہیں کرتے یا اس کے بارے میں بات چیت نہیں کرتے“ ۔

1208- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”سیدنا سلیمان علیہ السلام نے قسم اٹھاتے ہوئے یہ کہا: آج رات میں اپنی 70 بیویوں کے ساتھ صحبت کروں گا اور و ہ سب لڑکوں کو جنم دیں گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے ان کے ساتھی نے (راوی کو شک ہے شاید یہ ا لفاظ ہیں) فرشتے نے ان سے کہا: آپ ان شاءاللہ کہہ دیجئے ! لیکن انہیں خیال نہیں رہا اور انہوں نے اپنی 70 بیویوں کے ساتھ صحبت کی ، تو ان میں صرف ایک کے ہاں بچہ پیدا ہوا ، جونا مکمل تھا“ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر وہ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ان کی قسم نہ ٹوٹتی اور وہ اپنا مقصد بھی حاصل کرلیتے“ ۔

1209-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1210- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرے پاس ایک دینار موجود ہے (میں اس کا کیا کروں ؟ ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اسے اپنے اوپر خرچ کرو“ ۔
اس نے عرض کی : میرے پاس ایک اور بھی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسے تم اپنی اولاد پر خرچ کرو“ !
اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرے پاس ایک اور بھی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسے تم اپنے بیوی پر خرچ کرو“ ۔
اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرے پاس ایک اور بھی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسے تم اپنے خادم پر خرچ کرو“ !
اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرے پاس اور بھی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم زیادہ بہتر جانتے ہوگے ( کہ اسے کس پر خرچ کیا جائے ؟ ) “ ۔
سعید نامی راوی کہتے ہیں : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرلیتے تھے ، تو یہ فرمایا کرتے تھے : تمہارا بچہ کہے گا مجھ پر خرچ کرو، مجھے کس کے سپرد کررہے ہو ، تمہاری بیوی کہے گی : مجھ پر خرچ کرو ، ورنہ مجھے طلاق دے دو ، تمہارا خادم کہے گا : مجھ پر خرچ کرویا پھر مجھے فروخت کردو ۔

1211- سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ؛ کیا تم رجال (بن غفوۃ ) کو جانتے ہو ؟ میں نے جواب دیا : جی ہاں ، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جہنم میں اس کی داڑھ احد پہاڑ سے بڑی ہوگی“ ۔
(راوی کہتے ہیں : ) یہ شخص پہلے مسلمان ہوا تھا پھر مرتد ہوگیا اور مسیلمہ سے جاکر مل گیا اس نے یہ کہا تھا : دو مینڈھے سینگ لڑا رہے ہیں اور ان میں سے میرے نز دیک پسندیدہ یہ ہے ، میرے والا مینڈ ھا غالب آجائے ۔

1212- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” دوپہر کے و قت جب بادل موجود نہ ہوں ، تو کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں کچھ مشکل محسوس ہوتی ہے “ ؟
لوگوں نے عرض کی : جی نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” چودھویں رات میں جب بادل موجود نہ ہوں ، تو کیا تمہیں چاند کو دیکھنے میں مشکل ہوتی ہے “ ؟ لوگوں نے عرض کی : جی نہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ، تمہیں اپنے پروردگار کا دیدار کرنے میں کوئی رکاوٹ اسی طرح نہیں ہوگی ، جس طرح تمہیں ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں رکاوٹ نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے ملاقات کرے گا اور ارشاد فرمائے گا : اے فلاں ! کیا میں نے تمہیں عزت عطا نہیں کی ؟ تمہاری شادی نہیں کی ؟ تمہارے لیے گھوڑوں اور اونٹوں کو مسخر نہیں کیا اور تمہیں ہر طرح کاموقع فراہم نہیں کیا “ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” وہ بندہ عرض کرے گا : جی ہاں ! اے میرے پروردگار “ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، کیا تمہیں یہ گمان تھا کہ تم میری بارگاہ میں حاضر ہوگے “ ؟ تو بندہ عرض کرے گا : جی نہیں ۔
تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” پھر میں بھی تمہیں اسی طرح بھول جاتا ہوں ، جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے “ ۔
پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندے سے ملاقات کرے گا اور فرمائے گا : اے فلاں ! کیا میں نے تمہیں عزت عطا نہیں کی، میں نے تمہیں سیادت عطا نہیں کی، میں نے تمہاری شادی نہیں کی میں نے تمہارے لیے گھوڑوں اور اونٹوں کو مسخر نہیں کیا اور میں نے تمہیں ہر طرح کا موقع فراہم نہیں کیا “ ؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” وہ بندہ عرض کرے گا : جی ہاں ! اے میرے پروردگار !
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تمہیں یہ گمان تھا کہ تم میری بارگاہ میں حاضر ہوگے ؟ تو وہ بندہ عرض کرے گا : جی نہیں ، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تمہیں اسی طرح بھول رہاہوں ، جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے “ ۔
پھر اللہ تعالیٰ تیسرے بندے سے ملاقات کرے گا ، تو وہ عرض کرے گا : میں تجھ پر تیری کتابوں پر تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا ، میں نے نماز ادا کی ۔ میں نے روز ہ رکھا ، میں نے صدقہ کیا اور جہاں تک میری استطاعت تھی میں نے نیکی کی ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ فرمائے گا : یہ تو ہے ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا ہم تمہارے خلاف گواہ کو نہ لے کر آئیں ، تو وہ بندہ اپنے ذہن میں سوچے گا ، میرے خلاف کون گواہی دے سکتا ہے ؟ تو اس شخص کے منہ پرمہر لگادی جائے گی اور اس کے زانوں سے کہا: جائے گا : تم بولو ! تو اس کا زانو بولے گا : اس کا گوشت اس کی ہڈیاں بولیں گے اس کے ان اعمال کے بارے میں ، جو وہ کرتا رہا تھا ایسا اس وجہ سے ہوگا تاکہ وہ اپنی طرف سے کوئی عذر پیش نہ کر سکے اور یہ منافق شخص ہوگا اور یہ وہ شخص ہوگا ، جس پر اللہ تعالیٰ نارضگی ظاہر کرے گا ۔ پھرایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا : خبردار ! ہر گروہ اس کے پیچھے چلا جائے ، جس کی وہ اللہ تعا لیٰ کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے ، تو شیاطین اور صلیب کی پیروی کرنے والے ان کے پیچھے جہنم کی طرف جائیں گے “ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اے اہل ایمان ! پھر ہم لوگ باقی رہ جائیں گے ہمارا پروردگار ہمارے پاس تشریف لائے گا وہ ہمارا پروردگار ہوگا وہ ہمیں ثواب عطا کرے گا وہ فرمائے گا : یہ لوگ کون سے مذہب پر ہیں ، تو وہ کہیں گے ، ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ، ہم مؤمن ہیں ، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں ، ہم کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراتے ، ہم یہیں ٹھہرے رہیں گے ، جب تک ہمارا پروردگار نہیں آجاتا ، جو ہمارا پروردگار ہے اور وہ ہمیں ثواب عطا کرے گا “ ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر بندہ چلتا ہواپل صراط تک آئے گا ، جس پر آگ سے بنے ہوئے آنکڑے لگے ہوئے ہوں گے جولوگوں کو اچک رہے ہوں گے اس وقت شفاعت حلال ہوگی (اور بندہ دعا کرے گا ) اے اللہ تو سلامتی عطا کر ۔ اے اللہ تو سلامتی عطا کر ۔ جب لوگ پل صراط پر گزر جائیں گے ، تو ہروہ شخص جس نے اپنا مال میں سے اللہ کی راہ میں کسی بھی چیز کا جوڑا دیا ہوگا ، تو جنت کا ہر دربان اسے بلائے گا : اے اللہ کے بندے ! اے مسلمان یہ زیادہ بہتر ہے تم ادھر آؤ “ ۔
راوی کہتے ہیں : سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ایسے بندے کو تو کوئی خسارہ نہیں ہوگا کہ وہ ایک دروازے کو چھوڑ کر دوسرے سے اندر چلا جائے ؟
راوی کہتے ہیں : تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان پر مارا اور فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، مجھے یہ امید ہے، تم ان افراد میں میں سے ایک ہوگے (جسے جنت کے تمام دروازوں کے دربان بلائیں گے ) “ ۔

1213- سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب قیامت قائم ہوگی اس وقت دو افراد کسی کپڑے کا سودا کررہے ہوں گے ، نہ تو وہ سودا مکمل کرسکیں گے اور نہ ہی اسے لپیٹ سکیں گے“ ۔

1214- سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جنت میں ایک درخت ہے ، جس کے سائے میں کوئی سوار ایک سو سال تک چلتا رہے ، تو پھر بھی وہ اسے پارنہیں کرسکتا اگر تم چاہو تو یہ آیت تلاوت کرسکتے ہو“ ۔ «وَظِلٍّ مَمْدُو» (9-التوبة:30) ”اور پھیلے ہوئے سائے ۔“ اور فجر کی نماز میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے شریک ہوتے ہیں ، اگر تم چاہو تو یہ آیت تلاوت کرسکتے ہو ۔ «وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا » (17-الإسراء:78) ”اور فجر کی تلاوت ، بے شک فجر کی تلاوت میں حاضر ہوتی ہے ۔“

تخریج:


1201- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1871، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1378، 1381، 1382، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1554، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3723، 3733، 3734، 3739، 3740، 6775، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4247، 11335، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3924، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7352، 7487، 7980، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5868، 5943، 6374، 6487)
1202- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3331، 5184، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1468، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4179، 4180، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9095، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1188، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2268، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14840، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9655، 9929)
1203- (إسناده فى علتان: ضعف عمران، وجھالة شيخه، وأخرجه النسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5135 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9355، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 2229)
1204- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5177، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1432، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5304، 5305، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6577، 6578، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3742، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2110، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1913، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14633، 14634، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7399، 7739، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5891، 6250)
1205- (إسناده صحيح ، وهو مكرر سابقه ووأخرجه الطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 3016)
1206- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1424، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4041، 4044، 4094، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2745، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3234، 3246، 3247، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5327، 5329، 5330، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13616، 14468، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3624، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7957، 8094، 8100، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6186)
1207- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2528، 5269، 6664، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 127، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 898، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4334، 4335، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3433، برقم: 3434، 3435، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5597، 5598، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2209، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1183، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2040، 2044، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3940، 14307، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7588، 9231، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6389، 6390)
1208- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3424، 5242، 6639، 6720، 7469، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1654، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4337، 4338، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3840، 3865، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4754، 8983، 11239، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19968، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7258، 7830، 10730، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1209، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6244، 6347)
1209- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
1210- (إسناده حسن ،وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3337، 4233، 4235، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1519، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2534، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2327، 9137، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1691، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15792، 15793، 15835، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7537، 10225، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6616)
1211- (إسناده فى علتان: ضعف عمران وجهالة شيخه،وأخرجه الحميدي فى «مسنده» برقم: 1211، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية » برقم: 1844)
1212- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 806، 2841، 3216، 3666، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 182، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7429، 7445، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6360 ، 6361)
1213- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 85، 1036، 1412، 3608، 3609 م، 4635، 4636، 6037، 6506، 6935، 7061، 7121، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 157، 157، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6651، 6680، 6681، 6700، 6711، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4255، 4312، 4333، 4334، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2218، 3072، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4047، 4052، 4068، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16806، 18688، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7282، 7307، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5945، 6085، 6170، (والحميدي فى «مسنده» برقم: 1134، 1135)
1214- (إسناده فيه جهالة، غير أن الحديث صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2793، 3252، 4881، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2826، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6158، 7411، 7412، 7417، 7418، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3189، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11019، 11500، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2523، 3013، 3292، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2862، 2880، 2881، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4335، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7614، 8283، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1165، 1214، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5853، 6316)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

1215- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کھانا آ جائے اور نماز کے لیے اقامت کہی جاچکی ہو ، تو تم پہلے کھانا کھالو“ ۔
سفیان کہتے ہیں : میں نے کسی بھی راوی کویہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے نہیں سنا ۔ ”جب کھانا آجائے“ یہ الفاظ صرف زہری نے نقل کیے ہیں ۔

1216- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے میں اس و قت دس سال کا لڑکا تھا ، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس وقت میں 20 سال کا لڑکا تھا میری امی اور خالائیں مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ترغیب دیا کرتی تھیں پھر ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں گھر تشریف لائے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی پالتو بکری کادودھ دوہ لیا اور ا س میں گھر میں موجود کنویں کا پانی ملادیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک دیہاتی تھا ، جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک کونے میں تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! (دیہاتی سے پہلے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (اپنا بچا ہو ا دودھ دیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دیہاتی کودیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ”پہلے دائیں طرف والوں کا حق ہوتا ہے“ ۔

1217- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”آپس میں قطع رحمی نہ کرو ، آپس میں ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ، ایک دوسرے سے حسدنہ کرو ، اللہ کے بندے اور بھائی ، بھائی بن کر رہو ، کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے ، وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ لاتعلق رہے“ ۔
سفیان نامی راوی سے دریافت کیا گیا : اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ”آپس میں مصنوعی بولی نہ لگاؤ“ ، تو انہوں نے جواب دیا : جی نہیں ۔

1218- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے میں ستو اور کھجوروں کے ذریعے (مہمانوں کی ، تواضع کی تھی )
سفیان کہتے ہیں : میں نے زہری کویہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا لیکن میں اس کو یاد نہیں رکھ سکا (میں نے بکرنامی جس راوی سے روایت نقل کی ہے ) بکربن وائل ہمارے ساتھ زہری کی محفل میں شریک ہوتے رہے ہیں ۔

1219- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”دباء (کدو) اور مزفت میں نبیذ تیار نہ کرو“ ۔

1220- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میت کے ساتھ تین چیزیں اس کی قبر تک جاتی ہیں اس کے اہل خانہ ، اس کا مال اور اس کا عمل ، دو واپس آجاتے ہیں اور ایک ساتھ رہ جاتا ہے ، اس کے اہل خانہ اور اس کا مال واپس آجاتے ہیں اور اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے“ ۔

1221- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے کسی کھنڈر میں قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے واپس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمارہے تھے ۔ ”اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم لوگ (مردوں کو ) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے ، تو میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا کہ قبروں کے عذاب سے متعلق وہ چیز تمہیں سنا ئے ، جواس نے مجھے سنائی ہے ۔“

1222- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زیارت میں نے اس وقت کی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے دن پردہ ہٹایا تھا لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بناکر نماز ادا کر رہے تھے ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ حرکت کرنے لگے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ تم لوگ اپنی جگہ پر رہو ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا ، تو وہ یوں تھا جیسے وہ قرآن مجید کا کوئی ورق ہوتا ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی دن کے آخری حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا ۔

1223- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گرگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں پہلو زخمی ہوا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے نماز کا وقت ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر ہمیں نماز پڑھائی ۔ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کی ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”بے شک امام کو اس لیے مقرر کیا گیا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے ، جب وہ تکبیر کہے ، تو تم بھی تکبیر کہو جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ جب وہ (رکو ع سے ) اٹھے تو تم بھی اٹھ جاؤ جب وہ «سمع الله لمن حمده» پڑھے تو تم «ربنا لك والحمد» پڑھو وہ سجدے میں جائے تو تم بھی سجدے میں جاؤ جب وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو ۔“

1224- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں دریافت کیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے“ ؟ تو اس نے بہت زیادہ چیزوں کا تذکرہ نہیں کیا صرف اس نے یہ کہا: میں اللہ اور ا س کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم جس سے محبت رکھتے ہواس کے ساتھ ہوگے“ ۔
ابوعلی نامی راوی کہتے ہیں : امام حمیدی رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں ابن عینیہ نے 86 تابعین کی زیارت کی ہے ، وہ یہ فرماتے ہیں : میں نے ایوب جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے ، جب زہری ہمیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا سہل کے حوالے سے روایات بیان کرتے تھے ، تو یہ کہتے تھے: میں نے یہ روایت سنی ہے ، میں نے یہ روایت سنی ہے ۔

1225- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ میں نے مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ظہر کی نماز میں 4 رکعات ادا کیں اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ”ذولحلیفہ“ میں عصر کی نماز میں دو رکعات ادا کیں ۔

تخریج:

1215- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 672، 5463، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 557، 558، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 934، 1651، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2066، 2068، 5209، 5210، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 852، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 928، والترمذي فى «جامعه» برقم: 353، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1318، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 933، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5111، 5112، 5113، 5114، 5121، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12152، 12259، 12840، 13616، 13695، 13807، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2796، 2797، 3546، 3547، 3577، 3598، 3602)
1216- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2352، 2571، 5612، 5619، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2029، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5333، 5334، 5336، 5337، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6832، 6833، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3726، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1893، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2162، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3425، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14783، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12260، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3552، 3553، 3554)
1217- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6065، 6076، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2559، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5660، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4910، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1935، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14891، 21123، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12256، 12888، 13253، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3261، 3549، 3550، 3551)
1218- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5387، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4061، 4063، 4064، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6566، 6569، 6570، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3744، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1095، 1096، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1909، 1910، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14621، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12134، 12261، 13883، 14014، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3559، 3580)
1219- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5587، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1992، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5645، 5658، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5119، 5132، 6797، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2156، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17552، 17553، 17554، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12254، 12282، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3545، 3589، 3599)
1220- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6514، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2960، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3107، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 249، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1936 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2075، 11760، 11761، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2379، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12263، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 35908)
1221- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2868، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3126، 3131، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 118، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2057، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2196، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4751، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12189، 12279، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2996، 3693، 3727، 4300)
1222- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 680، 681، 754، 1205، 4448، 7219، 7269، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 419،وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 867، 1488، 1650، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2065، 6620، 6875، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1830، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1970، 7070، 7072، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1624، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5125، 5126، 16681، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12255، 12862، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3548، 3567، 3596، 3924)
1223- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 378، 689، 732، 733، 805، 1114، 1911، 2469، 5201، 5289، 6684، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 411، 411، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 977، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1908، 2102، 2103، 2108، 2111، 2113، 4277، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 793، 831، 1060، 3456، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 652، 871، وأبو داود فى «سننه» برقم: 601، والترمذي فى «جامعه» برقم: 361، 690، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1291، 1349، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 876، 1238، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2662، 3715، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12257، 12848، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3558، 3595، 3728، 3825)
1224- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3688، 6167، 6171، 7153، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2639، 2953، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1796، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 8، 105، 563، 564، 565، 2988، 2991، 7348، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5842، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5127، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2385، 2386، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5918، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12195، 12258، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2758، 2777، 2888)
1225- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1089، 1546، 1547، 1548، 1551، 1714، 1715، 2951، 2986، 4353، 5553، 5554، 5558، 5564، 5565، 7399، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 690، 1232، 1251، 1966، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2618، 2619، 2894، 2895، 2896، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2743، 2744، 2747، 2748، 3930، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1742، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 468، 476، 1587، 2661، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1202، 1773، 1774، 1795، 1796، 2793، 2794، والترمذي فى «جامعه» برقم: 546، 821، 1494، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1548، 1549، 1965، 1966، 1988، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2917، 2968، 2969، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5527، 5528، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5091، 5242، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2794، 2806، 2807، 2811، 2812)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1226-یہ روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

1227- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ظہر کی نماز میں 4 رکعات اداکیں اور ذولحلیفہ میں عصر کی نماز میں دو رکعات ادا کیں ۔

1228- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اور یتیم لڑکا ہمارے گھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے جبکہ میری والدہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں ۔

1229- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ انصاریوں کو بلایا ، تاکہ انہیں بحرین میں کچھ قطعۂ اراضی عطا کریں ، تو انہوں نے عرض کی : ہم یہ اس وقت تک نہیں لیں گے ، جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اس کی مانند قطعۂ اراضی عطا نہیں کریں گے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”میرے بعد تم لوگ ترجیحی سلوک دیکھو گے ، تو تم صبر سے کام لینا یہاں تک تم مجھ سے آملو“ ۔

1230- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا ۔ لوگ اس کی طرف (گھور کر ) دیکھنے لگے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا اور ارشاد فرمایا : ”اس پر پانی کاایک ڈول بہادو“ ۔

1231- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”انصار کے خاندانوں میں سب سے بہتر بنو نجار کا خاندان ہے ، پھر بنو عبداشہل کا خاندان ، پھر بنوحارث بن خزرج کا خاندان ہے ، پھر بنو ساعدہ کاخاندان ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ویسے انصار کا ہر خاندان بہتر ہے“ ۔

1232- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمرات کی صبح ”خبیر“ پہنچے ، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے اس وقت وہاں کے لوگوں نے قلعے کا دروازہ کھول دیا تھا اور اپنے بیلچے وغیرہ لے کر اس میں سے باہر نکل رہے تھے ، جب ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے اپنے قلعے کی طرف واپس گئے اور بولے : محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کا لشکر آگئے ہیں ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کا لشکر آگئے ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ اکبر ! اللہ اکبر !“ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور فرمایا : ”خبیر برباد ہوگیا ، جب ہم کسی قوم کے میدان جنگ میں اترتے ہیں ، تو ان لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے جنہیں ڈرایا گیا“ ۔

1233- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ (بلند آواز میں) قرأت کا آغاز سورۃ فاتحہ کے ذریعے کرتے تھے ۔

1234- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیر فتح کرلیا تو ہمیں بستی سے باہر کچھ گدھے ملے ، ہم نے انہیں ذبح کر کے پکانا شروع کیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا : خبردار ! بے شک اللہ اور ا س کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں ان سے منع کر رہے ہیں کیونکہ یہ ناپاک ہیں اور شیطان کے عمل سے تعلق رکھتے ہیں ۔
(راوی کہتے ہیں) تو ہنڈیاؤں میں جو کچھ موجود تھا اس سب انہیں الٹ دیا گیا حالانکہ وہ اہل رہی تھیں ۔

1235- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک گھاٹی میں چلیں ، تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا اگر ہجرت نہ ہوتی ، تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا ، انصار میرے دست و بازو ہیں ، تو ان میں سے جو شخص اچھا ہو ، اس کے ساتھ تم اچھائی کرو اور جو شخص برا ہوا س سے تم درگزر کرو“ ۔
ابن جدعان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے ۔ حسن نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں ۔ ”البتہ حد کا حکم مختلف ہے ” (وہ برے شخص پر جاری کی جائے گی) “

1236- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش کے تمام تیر نکال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے اور وہ اپنے گھٹنوں کے بل جھک گئے اور یہ کہنے لگے : میرا وجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے ہے اور میری جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہو ۔
راوی بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”لشکر میں ابوطلحہ کی آواز ایک جماعت سے زیادہ بہتر ہے“ ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے ایک جنگ میں مسلمانوں کا جھنڈا ان کے پاس تھا ۔

تخریج:

1226- (إسناده صحيح وانظر التعليق السابق)
1227- (إسناده صحيح وانظر الحديثين السابقين)
1228- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 380، 727، 860، 871، 874، 1164، 6080، 6334، 6344، 6378، 6380، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 658، 659، 2480، ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1539، 1540، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2205، 7177، 7178، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 736، برقم: 800، 868، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 818، 878، 944، وأبو داود فى «سننه» برقم: 612، 658، والترمذي فى «جامعه» برقم: 234، 3829، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1324، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5241، 5301، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12264، 12534، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3200، 3238، 3239، 4236)
1229- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2376، 3147، 3163، 3793، 3794، 4331، 5860، 7441، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1059، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7275، 7276، 7277، 7278، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7066، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8277، 8287، 11158، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11905، 11914، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12268، 12893، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3594، 3649، 3651، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1027)
1230- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 219، 221، بدون ترقيم، 6025، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 284، 285، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 293، 296، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1401، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: ،،،، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 51، 52، 53، والترمذي فى «جامعه» برقم: 148، والدارمي فى «مسنده» برقم: 767، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 528، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4208، 4209، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12265، 12315، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3467، 3652، 3654)
1231- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5300، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2511، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7284، 7285، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8278، 8279، 8280، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3910، وأحمد فى «مسنده» برقم: 399، 7744، 12207، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3650، 3855)
1232- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 371، 610، 947، 2228، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 382، 1365، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 351، 400، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4091، 4745، 4746، 5274، 6521، 7212، 7213، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 69، 546، 3342، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2054، 2634، 2995، 2996، 2997، 2998، 3009، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1115، 1550، 1618 (م) ، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2034، 2288، 2289، 2489، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1957، 2272، 3196، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 907، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1933، 3288، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12138، 12174، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2828، 2908، 3043)
1233- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 743، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 399، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 491، 492، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1798، 1799، 1800، 1802، 1803، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 859، 861، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: ،،،، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 977، 978، 980، 981، وأبو داود فى «سننه» برقم: 782، والترمذي فى «جامعه» برقم: 246، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1276، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 813، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2453، 2454، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12173، 12267، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2881، 2980، 2981)
1234- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 371، 610، 947، 2228، 2235، 2943، 2944، 2945، 2991، 3647، 4197 (م) ، 4198، 4199، 4200، 4201، 4211، 4213، 5085، 5086، 5159، 5169، 5528، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 382، 1365، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 351، 400، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4091، 4745، 4746، 5274، 6521، 7212، 7213، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 69، برقم: 546، برقم: 3342، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2054، 2634، 2995، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1115، 1550، 1618 (م) ، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2034، 2288، 2289، 2489، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1957، 2272، 3196، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1933، 3288، 3289، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12138، 12174، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2828، 2908، 3043، 3050)
1235- (إسناده ضعيف، لضعف على بن جدعان ۔ ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3146، 3528، 3778، 4332، 4333، 4334، 4337، 6762، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1059، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4501، 4769، 7268، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2609، 2610، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2402، 2403، 8268، 8269، 8289، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3901، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2569، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2900، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13059، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12203، 12370، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3002، 3207، 3229، 3606)
1236- (إسناده ضعيف ، والحديث صحيح، وأخرجه ابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 340، والضياء المقدسي فى «الأحاديث المختارة» برقم: 2501، 2503، 2504، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8551، وأبو داود فى «سننه» برقم: 595، 2931، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 683، 2880، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5197، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12538، 13200، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3110، 3123، 3138، والبزار فى «مسنده» برقم: 7266)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
1237- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ”دومہ“ کے حکمران ”اکیدر“ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک جبہ تحفے کے طور پر بھیجا تو لوگوں کو وہ بہت پسند آیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے زیادہ بہتر ہیں“ ۔

1238- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شفاعت کا تذکرہ کیا گیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”میں جنت کی کنڈی پکڑا کر اسے کھٹکھٹاؤں گا“ ۔

1239- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں مہاجر ین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد نہیں فرمائی ہے ۔ ”اسلام میں حلف کی کوئی حیثیت نہیں ہے“ ۔ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یہ روایت دوبارہ بیان کی اور بولے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں مہاجرین اور انصار کے درمیان حلف (ایک دوسرے کا حلیف ہونا ) قائم کیا تھا ۔
سفیان کہتے ہیں : علماء نے ا س کی وضاحت یہ کی ہے ، بھائی چارہ قائم کیا تھا ۔

1240-شعبہ بن توام کہتے ہیں : قیس بن عاصم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حلف کے بارے میں دریافت کیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اسلام میں حلف کی کوئی حیثیت نہیں ، تاہم تم زمانہ جاہلیت کے حلف کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھو“ ۔

1241- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی بھی جنگی مہم کے حوالے سے اتنا زیادہ مغموم نہیں دیکھا ، جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”بئر معونہ“ کے افراد شہید ہونے پر مغموم ہوئے تھے ، ان حضرات کو ”قاری صاحبان“ کہا جاتا ہے ۔

1242- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دوآدمیوں کو چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کو جواب دیا اور دوسرے کو جواب نہیں دیا ۔
اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا ہے مجھے جوا ب نہیں دیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی تھی جبکہ تم نے حمد بیان نہیں کی“ ۔

1243- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے فرمایا : ”اے انجثہ ! آرام سے چلو ! تم کانچ کو لے جارہے ہو“ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خواتین تھیں ۔

1244- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اپنے ایک انصاری چچا کے ہاں کھڑا ہوا انہیں شراب پلا رہا تھا اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک شخص گھبرائے ہوئے انداز میں ہمارے پاس آیا ہم نے دریافت کیا : تمہارے پیچھے کیا ہوا ہے ؟ اس نے جواب دیا : شراب کو حرام قراردے دیا گیا ہے ، تو ان حضرات نے مجھ سے فرمایا : اے انس ! تم اسے بہادو ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تو میں نے اسے بہادیا ۔
نضر بن انس کہتے ہیں : ان دنوں ان لوگوں کی شراب یہی ہوتی تھی ۔

1245- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : آج کے دن ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفہ کی طرف روانہ ہوئے تھے ، ہم میں سے کچھ لوگ تکبیر کہہ رہے تھے اور کچھ لوگ تلبیہ پڑھ رہے تھے اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو غلط نہیں سمجھ رہا تھا ۔

تخریج:

1237-(إسناده ضعيف ،غير أن الحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2615، 3248، 3802، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2072، 2468، 2468، 2469، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7036، 7037، 7038، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5317 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9541، 9544، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4047، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1723، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6188، 6189، 18855، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12276، 12407، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3112، 3225، 3980)
1238- (إسناده ضعيف ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 44، 4476، 6565، 7410، 7440، 7450، 7509، 7510، 7516، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 193، 193، 196، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6464، 6481، 7484، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 234، 235، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7643، 10917، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2593، 2594، والدارمي فى «مسنده» برقم: 51، 53، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4312، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19954، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2737، 12336، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2786، 2889، 2899، 3989)
1239- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2294، 6083، 7340، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2529، 2529، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4520، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2926، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12648، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12272، 12667، 14202، 14203، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3356، 3357، 3964، 3967، 3968، 4023، 4024، 4028)
1240- (رجاله ثقات، والحديث صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4369، وأحمد فى «مسنده» برقم: 20944، وعبد الله بن أحمد بن حنبل فى زوائده على "مسند أحمد"، 20945، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1180، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1240، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 1616، 5994، والطبراني فى "الكبير"، 864، 865)
1241- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1001، 1002، 1003، 1300، 2801، 2814، 3064، 3170، 4088، 4089، 4090، 4091، 4092، 4094، 4095، 4096، 6394، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 677، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1973، 1982، 1985، 4651، 7263، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1069، برقم: 1070، برقم: 1076، برقم: 1078، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 661، 662، 668، 670، 8239، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1444، 1445، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1637، 1640، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1184، 1243، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3145، 3146، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12246، 12270، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2832، 2834، 2921، 3028، 3029، 3057، 3069)
1242- (إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6221، 6225، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2991، 2991، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 600، 601، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9979، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5039، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2742، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2702، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3713، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12143، 12350، 12995، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2178، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4060، 4073)
1243- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6149، 6161، 6202، 6209، 6210، 6211، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2323، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5800، 5801، 5802، 5803، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10282، 10283، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2743، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20906، 21093، 21094، 21095، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12223، 12273، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2809، 2810، 2868، 3126، 4064، 4075)
1244- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2464، 4617، 4620، 5580، 5582، 5583، 5584، 5600، 5622، 7253، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1980، 1981، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4945، 5352، 5361، 5362، 5363، 5364، 5380، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: ،،، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5032، 5033، 5034، 6764، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3673، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2134، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11668، 17422، 17423، 17424، 17446، 17447، 17448، 17449، 17547، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4305، وأحمد فى «مسنده» برقم: 13067، 13086، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3008، 3042، 3361)
1245- (إسناده صحيح ،وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 970، 1659، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1285، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1214 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3847، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3000، 3001، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3977، 3978، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1919، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3008، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6358، 9537، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12252، 12688، 13725)
 
Last edited:
Top