• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسنون رکعات تراویح،احادیث صحیحہ کی روشنی میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اس مضمون میں رکعات تراویح سے متعلق صرف مرفوع احادیث صحیحہ کوپیش کیا گیا ہےجن کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح گیارہ رکعات بشمول وترپڑھی ہیں یعنی آٹھ رکعات مع وتر پڑھی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ مسنون رکعات تراویح آٹھ رکعات مع وتر ہی ہیں۔
عمرفاروق رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ بھی تراویح آٹھ رکعات ہی پڑھتے تھے ،اس بارے میں تفصیل کے لئے دیکھیں ہمارا مضمون:
آٹھ (٨) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
پہلی حدیث

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحیح البخاری( 3/ 45) :کتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان ، رقم 2013)۔

اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں۔
بعض لوگ اس حدیث پرعمل نہ کرنے کا یہ بہانا بناتے ہیں کہ اس حدیث میں تہجد کی رکعات کاذکر ہے نہ کہ تراویح کی رکعات کا۔
عرض ہے کہ اول تو تراویح اورتہجد دونوں ایک ہی نماز ہے یعنی صلاة اللیل رات کی نماز ، ان دونوں میں فرق حالات کے لحاظ سے ہے یعنی رات کی نماز عام دنوں میں پڑھی جائے تو اسے تہجد کہتے ہیں اور رمضان میں اسی کانام نماز تراویح ہے حالات کے لحاظ سے اس کی صفات میں بھی تبدیلی ہوتی ہے یعنی رمضان میں یہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے لیکن عام دنوں میں جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتی لیکن بعض حالات میں صفات کی تبدیلی اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ دونوں الگ الگ نماز ہیں ۔
مثال کے طور پرظہر کی فرض نماز عام حالات میں چار رکعات پڑھی جاتی ہے لیکن اگرکوئی سفر میں ہو تو اس کے لئے قصر ہے یعنی وہ صرف دو رکعات پڑھتا ہے ظاہر ہے حالت سفر میں اس نماز کی صفت الگ ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کوئی الگ نماز ہے بلکہ یہ وہی ظہر کی نماز ہے جو حضر میں چار کعات پڑھی جاتی ہے لیکن سفر میں اس کی کیفیت بدل گئی ہے۔
تقریبا یہی مثال رات کی نماز کی ہے عام دنوں میں یہ فردا فردا پڑھی جاتی ہے لیکن رمضان میں یہ جماعت کے ساتھ اداکی جاتی ہے لیکن حالات کے لحاظ سے صفت کی یہ تبدیلی اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ الگ الگ نمازیں ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگرفرض کرلیں کہ الگ الگ نمازیں ہیں تو ایسی صورت میں مذکورہ حدیث کی رو سے دونوں نمازوں کی تعداد یکساں ماننا لازمی ہوگا کیونکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کی تعداد یکساں بتلائی ہے ، چنانچہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو سوال ہواتھا وہ رمضان کی خاص نماز یعنی تراویح کے سلسلے میں ہوا تھا لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے تراویح اورتہجد دونوں کی رکعتوں کی تعدادیکساں بتلاتے ہوئے جواب دیا۔
اگریہ مان لیا جائے کہ اس حدیث میں تراویح کی تعداد کا ذکر نہیں تو یہ لازم آئے گا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے سائل کے اصل سوال کا جواب ہی نہیں دیا کیونکہ اصل سوال تو تراویح ہی کے بارے میں ہوا تھا ، لہٰذا یہ ماننا ضروری ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اصل سوال کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ ایک زائدبات بھی بتلادی یعنی تراویح کی رکعات بتلانے کے ساتھ ساتھ تہجد کی رکعات بھی بتلادی۔
ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ سائل کا سوال تراویح سے متعلق نہ تھا بلکہ تہجدسے متعلق تھا اس لئے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے رمضان وغیررمضان میں اس کی تعداد یکساں بتلائی ۔

جوابا عرض ہے کہ سائل کا سوال عام تہجد سے متعلق ہوتا تو سائل کو رمضان کی شرط لگانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اگرسوال عام تہجد سے متعلق تھا تو سائل کو عام الفاظ ہی میں سوال کرنا چاہئے تھا ، لیکن سائل نے عام الفاظ میں سوال نہیں کیا ہے بکہ خاص رمضان کا نام لیکر رمضان کی خاص نماز کے بارے میں پوچھا اوریہ سب کو معلوم ہے کہ رمضان کی خاص نماز اہل علم کی اصطلاح میں تراویح کے نام سے جانی جاتی ہے، لہٰذا سائل کا سوال تراویح ہی سے متعلق تھا۔

تہجد اورتراویح کے ایک ہونے سے متعلق دس دلائل:

پہلی دلیل:
صحیح بخاری کی پیش کردہ حدیث میں سائل نے رمضان کی نماز یعنی تراویح کے بارے میں سوال کیا تھا لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجددونوں کو ایک ہی نماز مان کردونوں کے بارے میں ایک ہی جواب دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے۔

دوسری دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں ہے یہی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔
حنفیوں کے انورشاہ کشمیری تراویح اور تہجدکے ایک ہی نماز ہونے کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّمأنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
دونوں نمازوں کا الگ الگ نماز ہونا اس وقت ثابت ہوگا جب اس بات کا ثبوت مل جائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے۔[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 23]۔

تیسری دلیل:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا، حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الخَامِسَةِ، حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ: «إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ»، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ، وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الفَلَاحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الفَلَاحُ، قَالَ: «السُّحُورُ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے آپ نے تئیسویں رات تک ہمارے ساتھ رات کی نماز نہیں پڑھی (یعنی تراویح) پھر تیئسویں رات کو ہمیں لے کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی پھر چوبیسویں رات کو نماز نہ پڑھائی لیکن پچیسویں رات کو آدھی رات تک نماز (تراویح) پڑھائی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آرزو تھی کہ آپ رات بھی ہمارے ساتھ نوافل پڑھتے آپ نے فرمایا جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز میں شریک رہا اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھ دیا گیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستائیسویں رات تک نماز نہ پڑھائی ۔ ستائیسویں رات کو پھر کھڑے ہوئے اور ہمارے ساتھ اپنے گھر والوں اور عورتوں کو بھی بلایا یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ فلاح کا وقت نہ نکل جائے راوی کہتے ہیں میں نے ابوذر سے پوچھا فلاح کیا ہے تو انہوں نے فرمایا سحری امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے [سنن الترمذي: 3/ 160 رقم806 واسنادہ صحیح]۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے دن تراویح کو اتنی دیرتک پڑھا تھا کہ صحابہ کو ڈر تھا کہ کہیں سحری کا موقع ملے ہی نہ ۔ظاہر ہے کہ جب سحری کا وقت نہ ملنے کا خوف تھا تو تہجد کا وقت ملنے کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔
اگرتراویح اور تہجد دونوں الگ الگ نماز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کواتنی تاخیر نہ کرتے کہ سحری کا وقت بھی مشکل سے ملے۔
نیز صحابہ کرام یہ نہ کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں سحری کا وقت نہ ملے بلکہ یوں کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں تہجد ہی کا وقت نہ ملے ۔
مزید یہ کہ یہ حدیث اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس رات تراویح کے بعد تہجد کے لئے کوئی موقع تھا ہی نہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات تہجدنہیں پڑھی۔اگر تراویح اور تہجد دونوں ا لگ الگ نمازیں ہوتی ں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بھی تہجد خود پڑھتے اور صحابہ کو بھی اس کا موقع دیتے ۔

چوتھی دلیل:
عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ»
قیس بن طلق بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا :ایک رات میں دو وتر نہیں ہے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 333 رقم470 ]۔
یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے ساتھ وتر بھی پڑھی تھی جیساکہ آگے حدیث آرہی ہے۔اور وتر کی نمازتہجد کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہے۔
اگر تراویح اور تہجد الگ الگ مانیں تو یہ لازم آئے گا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےدو باروترپڑھی ہے اوریہ ناممکن ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہے۔

پانچویں دلیل:
جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح اور صریح حدیث آگے آرہی ہےجس میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتراویح آٹھ رکعات اور وترہی پڑھی ہیں ،اور رکعات کی یہی تعداد اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ حدیث میں بھی بیان کی ہےجو اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نمازہے۔

چھٹی دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام کو جب تراویح کی نمازجماعت سے پڑھائی تھی تو تین دن پڑھانے کے بعد آپ نے جماعت سے تراویح پڑھانا چھوڑدیا تھا اورابن حبان کی روایت کے مطابق اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا:
كرهت أن يكتب عليكم الوتر
میں نے اس بات کوناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض کردی جائے[صحيح ابن خزيمة 2/ 138]
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی نماز ہی کو وتر کہا ہےاور وتریہ تہجد کی نماز ہی کےساتھ ہے،یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔

ساتویں دلیل:
خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے اسی وجہ سے وہ جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے کیونکہ عام طور سے لوگ اسے رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھتے تھے اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ رات کے اخیر حصہ میں پڑھنا اسے بہترسمجھتے تھے اس لئے آپ جماعت سے تراویح نہ پڑھ کر بعد میں رات کے اخیرحصہ میں تنہا پڑھتے تھے۔
اور اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے تھے:
والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون يريد آخر الليل وكان الناس يقومون أوله
اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔[صحيح البخاري 3/ 45 رقم 2010]

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے،اگر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی نظر میں تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں ہوتی تو آپ تراویح بھی مسجد میں لوگوں کے ساتھ پڑھتے اور رات کے آخری حصہ میں تہجد بھی پڑھتے۔نیز آپ تراویح کی نمازکو رات کے آخری حصہ میں پڑھنے کو افضل نہ بتلاتے ۔بلکہ اس فضیلت کو تہجد کی نماز ہی کے لئے خاص سمجھتے ۔

حنفیوں کے انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يؤيده فِعْل عمرَ رضي الله تعالى عنه، فإنَّه كان يصلِّي التراويحَ في بيته في آخِر الليل، مع أنه كان أَمَرَهم أن يؤدُّوهَا بالجماعةِ في المسجد، ومع ذلك لم يكن يدخُل فيها. وذلك لأنه كان يَعْلم أَنَّ عملَ النبيِّ صلى الله عليه وسلّمكان بأدائها في آخِر الليل، ثُمَّ نَبَّهَهُم عليه قال: «إنَّ الصلاةَ التي تقومون بها في أول الليل مفضولةٌ عمَّا لو كُنتم تقيمونَها في آخِر اللَّيل». فجعلَ الصلاةَ واحدةً
اورتراویح اورتہجد کے ایک ہونے کی تائید عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے فعل سے بھی ہوتی ہے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھرمیں رات کے اخیر میں تراویح پڑھتے تھے،جبکہ آپ نے لوگوں کو مسجد میں جماعت سے پڑھنے کا حکم دیا تھااس کے باوجود بھی آپ ان کے ساتھ شامل نہ ہوتے تھے ،اورایسااس وجہ سے کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو رات کے آخری حصہ میں پڑھتے تھے۔پھرآپ نے لوگوں کو اس پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:”جس نماز (تراویح ) کو تم لوگ رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھتے ہوئے وہ فضیلت میں کمترہے بنسبت اس کے کہ اگر تم اسے رات کے آخری حصہ میں پڑھو“۔چنانچہ یہاں پر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز قراردیا[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 24]

آٹھویں دلیل:
محدثین نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو رمضان کے قیام یعنی تروایح اور تہجد دونوں طرح کے عناوین اور ابواب کے تحت ذکر کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ محدثین کی نظر میں تراویح اور تہجد ایک ہی ہے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں تراویح اور تہجد ہی کی رکعات کا ذکر ہے۔
چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں” کتاب صلاۃ التراویح “میں اس حدیث کو درج کیا ہے اور اس پر ”فضل من قام رمضان“ یعنی تراویح پڑھنے کی فضیلت کا باب قائم کیا ہے ۔دیکھئے: صحیح بخاری : کتاب صلاۃ التراویح :باب فضل من قام رمضان ،حدیث نمبر2013۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ”باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان“ یعنی رمضان میں تراویح کی رکعات کی تعداد کے بیان میں ذکرکیا ہے ۔دیکھئے: كتاب الصلاة(جماع أبواب صلاة التطوع، وقيام شهر رمضان):باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان،حدیث نمبر 4285۔
امام ابوحنیفہ کے شاگر محمدبن الحسن نے مؤطا محمد میں ”باب: قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل“یعنی رمضان میں تراویح پڑھنے اوراس کی فضیلت کے بیان کےتحت ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:موطأ محمد بن الحسن الشيباني:ابواب الصلاة:باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل،حدیث نمبر239۔
حنفیوں کے عبدالحی لکھنوی نے مؤطا محمد کے اس باب کی تشریح کرتے ہوئے لکھا:
قوله :(قیام )شهر رمضان ويسمى التراويح
یعنی ماہ رمضان کے قیام کا نام تراویح ہے۔[التعليق المُمَجَّد للكنوي: 1/ 351]

حنفی حضرات کہتے کہ بعض محدثین نے اس حدیث کو کتاب التہجد میں ذکرکیا ہے۔
عرض ہے کہ اس میں پریشان ہونی کی بات کیا ہے جب تراویح اورتہجد دونوں ایک ہی نماز ہیں تو اس حدیث کا ذکر تراویح کے بیان میں بھی ہوگا اورتہجد کےبیان میں بھی ہوگا۔
چنانچہ محدثین نے اگر تہجدکے بیان میں اسے ذکر کیا ہے تو تراویح کے بیان میں بھی اسے ذکر کیا ہے جیساکہ اوپر حوالے دئے گئے۔

نویں دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ایک موضوع اورمن گھڑت روایت نقل کی جاتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات تراویح پڑھی ۔
اس حدیث کو مردود ثابت کرتے ہوئے بہت سارے محدثین واہل علم نے اسے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے خلاف قراردیا ہےمثلا:
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 2/ 384]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) [فتح الباري لابن حجر: 4/ 254]۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)[الحاوي للفتاوي 1/ 414]
حنفیوں کے امام زيلعي الحنفی رحمه الله (المتوفى762)[نصب الراية للزيلعي: 2/ 153]۔
حنفیوں کے علامه عينى الحنفی رحمه الله (المتوفى855) [عمدۃ القاری:ج١١ص١٨٢].
حنفیوں کے امام ابن الهمام الحنفی (المتوفى861)[ فتح القدير للكمال ابن الهمام:1/ 467]۔
ابوالطیب محمدبن عبدالقادر سندی حنفی [شرح الترمذی: ج١ ص٤٢٣]۔

ان تمام اہل علم کی الفاظ آگے آرہے ہیں دیکھئے: ص۔۔۔
محدثین اہل علم کی جانب سے بیس رکعات تراویح والی روایت کے خلاف اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا پیش کیاجانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث تراویح سے متعلق ہے اور تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نمازہے۔

دسویں دلیل:
جو تراویح پڑھ لے اہل علم نے اسے تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے۔چنانچہ:
حنفیوں کے انورشاہ کشیمرمی حنفی لکھتے ہیں:
ثُمَّ إنَّ محمدَ بن نَصْر وَضَعَ عدَّة تراجِمَ في قيام الليل، وكتب أنَّ بعض السَّلَف ذهبوا إلى مَنْع التهجُّد لِمَن صلَّى التروايح
نیزمحمدبن نصرنے قیام اللیل کے بارے میں کئی ابواب قائم کئے ہیں اور لکھا ہے کہ بعض سلف نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے جس نے تراوی پڑھ لی ہے[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 24]۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے۔

ان دلائل سے روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے۔
اورتراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کا نظریہ دراصل صحیح بخاری کی اس حدیث پر عمل کرنے سے بچنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ متقدمین میں سے کسی ایک بھی عالم نے یہ نہیں کہا ہے کہ تراویح اورتہجد الگ الگ نماز ہے۔

حنفیوں کے انورشاہ کشمیر نے بھی صاف طور سے اعلان کیا ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے ۔بلکہ حنفی لوگ تراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کے لئے جتنے بھی دلائل دیتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ تراویح اور تہجد کی الگ الگ صفات گناتے اور اسی کو دلیل بناتے ہیں کہ یہ الگ الگ نمازیں ہیں ۔
انورشاہ کشمیری حنفی اس بے بنیاد دلیل کا رد کرتے ہوئے اور تراویح اورتہجد کوایک ہی ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال عامَّة العلماء: إنَّ التراويحَ وصلاةَ اليل نوعانِ مختلفان. والمختار عندي أنهما واحدٌ وإن اختلفت صفتاهما، كعدم المواظبة على التراويح، وأدائها بالجماعة، وأدائها في أول اللَّيل تارةً وإيصالها إلى السَّحَر أُخرى. بخلاف التهجُّد فإنه كان في آخِر الليل ولم تكن فيه الجماعة. وجَعْلُ اختلافِ الصفات دليلا على اختلاف نوعيهما ليس بجيِّدٍ عندي، بل كانت تلك صلاةً واحدةً، إذا تقدَّمت سُمِّيت باسم التراويح، وإذا تأخَّرت سُمِّيت باسم التهجُّد، ولا بِدْعَ في تسميتها باسمين عند تغايُرِ الوَصْفَين، فإنَّه لا حَجْر في التغاير الاسمي إذا اجتمعت عليه الأُمةُ. وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّم أنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
عام طور سے (ہمارے حنفی )علماءنے کہا ہے کہ: تراویح اورتہجد دوالگ الگ نماز ہے،لیکن میرے نزدیک یہ دونوں ایک ہی نماز ہیں گرچہ ان دونوں کی صفات الگ الگ ہیں ۔مثلا تراویح کی مواظبت ہوتی ہے،اسے جماعت کے ساتھ پڑھاجاتا ہے،اسے رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھاجاتاہےاورکبھی کبھی سحرتک پڑھاجاتاہے۔لیکن اس کے برخلاف تہجد کو رات کے آخری حصہ میں پڑھا جاتاہے اس میں جماعت نہیں ہوتی ہے۔اور صفات کے الگ الگ ہونے کو ان دونوں نماز کے الگ الگ ہونے کی دلیل بنانامیرے نزدیک بہتر نہیں ہے ۔بلکہ تراویح اورتہجدیہ دونو ں ایک ہی نمازہیں جب اسے پہلے پڑھاجاتاہے تو اسے تراویح کانام دیا جاتاہے اور جب اسے تاخیرسے پڑھاجاتا ہے تو اسے تہجد کانام دیا جاتاہے۔اورصفات کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے اسے دو نام سے موسوم کرنا بدعت کی بات نہیں ہے کیونکہ اتفاق امت سے مختلف نام رکھنےمیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔البتہ یہ دوالگ الگ نمازیں اسوقت ثابت ہوتی جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوتا کہ آپ نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے[فيض الباري على صحيح البخاري 2/ 567]

اس عبارت میں انورشاہ کشمیری نے یہ بات واضح کردی ہے کہ محض صفات کے الگ الگ ہونے سے نوعیت کی علیحدگی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔
نیز گذشتہ سطور میں ہم بھی واضح کرچکے ہیں کہ ظہر کی نماز حضر میں چار رکعات جماعت کے ساتھ فرض ہے۔
لیکن سفر میں قصر کرتے ہوئے صرف دو رکعات فرض ہے اور جماعت بھی ضروری نہیں ہے۔
اب دیکھئے ان دونوں کی صفات میں کتنافرق ہوگیا ۔
حضر کی ظہر مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور چار رکعات پڑھی جاتی ہے،لیکن سفر میں ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا ضروری نہیں نیز صرف دورکعت پڑھی جاتی ہے۔
لیکن صفات کی اس تبدیلی کو ہم اس بات کی دلیل نہیں بناسکتے کہ یہ حضرکی ظہر اورسفر کی ظہر یہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں۔
الغرض یہ کہ بعض حالات میں اگر کسی نماز کی صفات بدل گئیں تو محض بعض حالات میں بدلی ہوئی صفات کی بناپر اسے الگ نماز نہیں کہا جاسکتا۔

تنبیہ:
یادرے کہ اس حدیث میں جو یہ ذکرہے:
يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو۔
تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چارچار رکعات ایک سلام سے پڑھتے ،کیونکہ یہاں چار رکعات کے بعد سلام پھیرنے کی صراحت نہیں ہے،لہٰذا یہاں مطلب صرف یہ ہے کہ چار رکعات پڑھ کرٹہرتے تھے۔اور سلام ہر دورکعت پر ہی پھیرتے تھے جیساکہ خود اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی نے دوسری حدیث میں صراحت کردی ہے جو اس کے بعد آرہی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دوسری حدیث

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ - وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ - إِلَى الْفَجْرِ، إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ، وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ، حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلْإِقَامَةِ».
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے فجر کی نماز کے درمیان تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت کے ذریعہ وتر بنا لیتے پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو فجر ظاہر ہو جاتی اور مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر ہلکی ہلکی دو رکعت پڑھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن اقامت کہنے کے لئے آتا۔(صحیح مسلم(1/ 508):کتاب صلاة المسافرین وقصرہا: باب صلاة اللیل، وعدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل، وأن الوتر رکعة، وأن الرکعة صلاة صحیحة رقم 736)۔

اس حدیث میں عموم کے ساتھ یہ بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء اور فجرکے بیچ صرف گیارہ رکعات مع وتر پڑھتے تھے۔اس عموم میں رمضان کی تراویح بھی شامل ہے کیونکہ تراویح وہی نماز ہے جسے عام دنوں تہجد کہا جاتاہے۔اس بارے میں تفصیل گذشتہ حدیث کے ضمن گذرچکی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تیسری حدیث


امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311)نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ»
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبی ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاںتک کہ صبح ہوگئی،پھراللہ کے نبی ۖہمارے پاس آئے توہم نے کہا:اے اللہ کے رسولۖ ہمیںامیدتھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے،توآپ ۖ نے فرمایا:مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے۔(صحیح ابن خزیمة 2/ 138 رقم 1070)۔

یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس کے تمام راوۃ ثقہ ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:

عیسی بن جاریہ رحمہ اللہ کا تعارف

جابررضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کرنے والے عیسی بن جاریہ ہیں ،یہ ثقہ ہیں ۔ان کی توثیق پر محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں:

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
لا بأس به
ان میں کوئی حرج کی بات نہیں یعنی یہ ثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 273]

امام هيثمي رحمه الله نے کہا:
وثقه أبو زرعة
ابوزرعہ نے انہیں ثقہ کہا ہے[مجمع الزوائد للهيثمي: 2/ 88]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ظہور احمد صاحب فرماتے ہیں:
مشہور غیر مقلد مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں: ”أرجو أنه لابأس به يكتب حديثه، يعتبربه“ ایسے الفاظ ہیں کہ ان کے حاملین کی روایت قابل احتجاج نہیں ہوسکتی (رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ :218)
عرض ہے یہ بات صرف ”لابأس به“ سے متعلق نہیں کہی گئی ہے بلکہ ایسے ”لابأس به“سے متعلق کہی گئی ہے جس کے ساتھ آگے”يكتب حديثه، يعتبربه“ کے الفاظ بھی صادر کئے گئے ہیں۔
لہٰذا اس سیاق نے یہاں ”لابأس به“ کی وضاحت کردی کہ یہاں یہ محض دیانت کے معنی ہیں اور ضبط کی گواہی شامل نہیں ہے ۔
اور ”لابأس به“ پر ہی کیا موقوف اس طرح کے سیاق کے ساتھ کسی راوی کے بارے میں لفظ ”ثقة“ کا بھی استعمال ہو تو یہ لفظ بھی عام اصطلاحی توثیق کے معنی میں نہیں ہوگا اور اس سے وہ راوی قابل احتاج نہیں ہوگا۔
چنانچہامام ذہبی رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر یہ صراحت کررکھی ہے کہ ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا ، ذیل میں امام ذہبی کی یہ صراحت ملاحظہ ہو:
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ-.[سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔
معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کھبی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا ، ٹھیک یہی معاملہ ”لابأس به“ کا بھی ہے ۔
اس تفصیل کے معلوم ہوا کہ امام ابوزرعہ کی طرف سے ”لابأس به“ توثیق ہی کے معنی میں ہے کیونکہ اس معنی سے پھیرنے کے لئے کوئی قرینہ نہیں ہے ، یہی وجہ ہے امام ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا ”وثقه أبو زرعة“ابوزرعہ نے انہیں ثقہ کہا ہے[مجمع الزوائد للهيثمي: 2/ 88]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311)نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے جیساکہ ان کی کتاب صحیح ابن خزیمہ سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے۔

یادرہے کہ ناقد محدث کی طرف سے کسی راوی کی روایت کی تصحیح یا تحسین اس کی توثیق ہوتی ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے: یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ:ص689،نیزص690۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں یہ اعتراض کرنا کہ ابن خزیمہ نے جہاں حدیث نقل کی ہے وہاں خصوصی تصحیح نہیں کی ہے ، یہ غلط ہے کیونکہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے شروع میں اجتماعی تصحیح کردی ہے ۔مزید توضیح کے لئے دیکھیں انوارالبدر ص 307 تا 310۔ نیز دیکھئے : حدیث یزید محدثین کی نظر میں ص53 تا 64۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔دیکھیں[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 214]۔
نیزامام ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کی اسی حدیث کوصحیح بھی کہا ہے دیکھئے[صحيح ابن حبان: 6/ 169]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ابن حبان کے تساہل کی بات کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ابن حبان رحمہ اللہ اس توثیق میں منفرد نہیں ہے بلکہ دیگر ائمہ سے بھی ان کی معتبر توثیق ثابت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446)نے کہا:
عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ تَابِعِيُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَرَوَى عَنْهُ الْعُلَمَاءُ مَحِلُّهُ الصِّدْقُ
عیسی بن جاریہ تابعی ہیں ،ان سے علماء نے روایت کیا ہے یہ سچے ہیں[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 2/ 785]۔

امام منذري رحمه الله (المتوفى656)ان کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
رواه أبو يعلى بإسناد جيد وابن حبان في صحيحه
اسے ابویعلی نے جید سند سے روایت کیا ہے اورابن حبان نے اسے اپنی ”صحیح “ میں روایت کیا ہے[الترغيب والترهيب للمنذري 1/ 293 رقم 1081]
نیزدیکھیں :الترغيب والترهيب ،ط، مکتبہ المعارف : ص328 رقم 1047۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے ان کی اسی روایت کے بارے میں کہا:
إسناده وسط
اس کی سند اوسط درجے کی ہے [ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 311]

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)ان کی ایک روایت کے بعد کہا:
رواه أبو يعلى والطبراني في الأوسط بنحوه وفي الكبير باختصار ورجال أبي يعلى ثقات.
اسے ابویعلی نے روایت کیا ہے اورطبرانی نے اوسط میں اسی جیساروایت کیا ہے اورکبیر میں اختصارکے ساتھ روایت کیا ہے اور ابویعلی کے رجال ثقہ ہیں[مجمع الزوائد للهيثمي: 2/ 219]
۔۔۔۔۔۔
حافظ ظہور احمد صاحب نے اس مناسبت سے بعض اہل حدیث واہل علم کے ایسے حوالے دئے ہیں جہاں انہوں نے امام ہیثمی رحمہ اللہ سے اختلاف کیا ہے ۔(رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ ص221 تا 222)
عرض ہے کہ اہل علم نے بے شک قوی تر دلائل کی روشنی میں بعض مقامات پر علامہ ہیثمی رحمہ اللہ سے اختلاف کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ امام ہیثمی رحمہ اللہ سے ہر مسئلہ میں اختلاف کیا جائے گا اور ان کی کسی بھی بات پر اعتماد نہیں کیا جائے گا؟
اگر اہل حدیث نے چند مقامات پر ان سے اختلاف کیا ہے تو بے شمار مقامات ہیں جہاں ان پر اعتماد بھی کیا ہے ۔ والحمدللہ ۔
اصل مسئلہ دلائل کا ہے جہاں دلائل سے امام ہیثمی رحمہ اللہ کا قول مرجوح قرار پائے گا وہاں ان کی بات نہ لی جائے گی اور جہاں پر ان کی کسی بات کے غلط ہونے کی دلیل نہ ملے وہاں ان کی بات قبول کی جائے عیسی بن جاریہ سے متعلق ان کی توثیق کے غلط ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ تائید موجود ہے لہٰذا ان کی اس بات قابل تسلیم ہے۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ سے متعلق جس طرح کی گفتگو حافظ ظہور صاحب نے کی ہے اسی کو امام بوصیری ، امام منذری ، حافظ ابن حجر اور بعض دیگر ائمہ کے ساتھ بھی دہرایا ہے اور سب کا جواب یہی ہے جو یہاں عرض کردیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)نے ان کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
هَذَا إِسْنَاد حسن يَعْقُوب مُخْتَلف فِيهِ وَالْبَاقِي ثِقَات
یہ سند حسن ہے یعقوب مختلف فیہ ہے اور باقی رجال ثقہ ہیں[مصباح الزجاجة للبوصيري: 4/ 245]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے ان کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
رجاله ثقات
اس کے رجال ثقہ ہیں[الإصابة لابن حجر: 3/ 349 رقم 3913 ]

احناف نے بھی اس راوی کو ثقہ مانا ہے چنانچہ ان کی ایک روایت نقل کرکےنیموی حنفی نے کہا:
اسنادہ صحیح
اس کی سند صحیح ہے[آثارالسنن :961]۔

بلکہ احناف نے ان کی اس حدیث کو بھی صحیح تسلیم کیا ہے چنانچہ:

ملا علي القاري (المتوفى1014)نے کہا:
فإنه صح عنه أنه صلى بهم ثماني ركعات والوتر
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بسندصحیح ثابت ہے کہ آپ نے صحابہ کو آٹھ رکعات اوروترپڑھائی[مرقاة المفاتيح للملا القاري: 3/ 971]

أنور شاه رحمه الله (المتوفى1353):
وفي الصحاح صلاة تراويحه عليه الصلاة والسلام ثماني ركعات
اورصحیح حدیث کی کتب میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی ۔[العرف الشذي للكشميري: 1/ 412]


جارحین کے اقوال کاجائزہ



امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عيسى بن جارية عنده أحاديث مناكير
عیسی بن جاریہ ،ان کے پاس منکر احادیث ہیں[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 369]

ان الفاظ میں عیسی بن جاریہ پر براہ راست جرح نہیں ہے کیونکہ امام ابن معین نے کہا ہے کہ ان کے پاس منکر احادیث ہیں ،اورکسی کے پاس محض منکراحادیث کا ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ راوی منکرالحدیث ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كل من روى المناكير يضعف
ایسانہیں ہے کہ جس کسی نے بھی منکراحادیث روایت کی وہ ضعیف قرارپائے گا[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 118]

مزید یہ کہ بعض محدثین محض تفرد کے معنی میں بھی نکارت کی جرح کرتے ہیں یعنی منکر کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں راوی کے پاس ایسی احادیث ہیں جن کی متابعت نہیں ملتی۔ اورمحض اس چیز سے راوی پرلازمی جرح ثابت نہیں ہوتی ہے۔دیکھئے:شفاء العليل بألفاظ وقواعد الجرح والتعديل: ص310 تا 311۔
ہم عیسی بن جاریہ ہی سے متعلق امام ابن معین رحمہ اللہ کے دیگراقوال دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے تفرد کے معنی میں ہی ان کی احادیث کو منکر کہا ہے چنانچہ ایک دوسرے موقع پر امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا:
روى عنه يعقوب القمي لا نعلم أحدا روى عنه غيره وحديثه ليس بذاك
ان سے یعقوب القمی نے روایت کیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ان کے علاوہ بھی کسی نے ان سے روایت کیا ہے اور ان کی حدیث اعلی درجے کی حدیث نہیں ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 365]

امام ابن معین رحمہ اللہ کے اس قو ل سے یہ بات صاف ہوگئی کہ انہوں نے تفرد کے معنی میں ہی ان کی احادیث کو منکرکہا ہے اور اس معنی میں اگر کسی راوی کی احادیث کو منکر کہا جائے تو اس سے راوی کی تضعیف لازم نہیں آتی۔
علاوہ بریں امام ابن معین رحمہ اللہ نے ان کی حدیث کو ”لیس بذاک“ بھی کہا ہے ۔اوراس صیغہ سے حدیث کی تضعیف نہیں ہوتی ہے بلکہ اعلی درجہ کی صحت کی نفی ہوتی ہے۔لہذا ایک طرف ابن معین رحمہ اللہ کا ان کی حدیث کو ”منکر“کہنا اور دوسری طرف ان کی حدیث کو”لیس بذاک“ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابن معین کی نظر میں یہاں منکر سے مراد حدیث کی تضعیف نہیں بلکہ اعلی درجے کی صحت کی نفی ہے ،اسی طرح عیسی بن جاریہ رحمہ اللہ ان کے نزدیک ضعیف نہیں بلکہ اعلی درجہ کے ثقہ نہیں ہیں۔

نیزامام ابن معین رحمہ اللہ نےان کے بارے میں جو یہ کہا:
ليس بشيء
ان کا کوئی مقام نہیں [سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 302]
تو اس سے امام ابن معین رحمہ اللہ کی مراد جرح نہیں بلکہ ان کا قلیل الحدیث ہونا ہے کیونکہ امام ابن معین رحمہ اللہ قلیل الحدیث کے معنی میں بھی ”لیس بشی“کے الفاظ بولتے ہیں ۔دیکھیے:[التعریف برجال الموطا:ج3ص812،فتح المغیث :ج2ص123،التنکیل:ص54]۔
اوریہاں اس معنی کے لئے قرینہ امام ابن معین رحمہ اللہ کا یہ فرماناہے کہ میں نہیں جانتا کہ یعقوب قمی کے علاوہ کسی اور نے ان سے روایت کیا ہےکمامضی۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ کی نظر میں یہ قلیل الروایۃ تھے اور اسی سبب امام ابن معین رحمہ اللہ نے انہیں ”لیس بشی“کہاہے۔

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
منكر الحديث
یہ منکر الحدیث ہے[تهذيب الكمال للمزي: 22/ 589]

عرض ہے کہ امام مزی نے امام ابوداؤد ہی سے یہ بھی نقل کیا کہ:
وَقَال في موضع آخر : ما أعرفه ، روى مناكير.
امام ابوداؤد نے دوسرے مقام پر کہا کہ: میں اسے نہیں جانتا اس نے منکر روایات نقل کی ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 22/ 590]

امام ابوداؤد کے اس دوسرے قول سے واضح ہوگیا کہ اما م ابوداؤد نے اس راوی کو منکرالحدیث صرف اس معنی میں کہا ہے کہ انہوں نے منکر روایات نقل کی ہیں اور صرف اتنی بات سے کسی راوی کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی کیونکہ کسی راوی کا منکر الحدیث ہونا اور کسی راوی کا منکر روایات بیان کرنا دونوں میں فرق ہے کمامضیٰ۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عيسى بن جارية يروي عنه يعقوب القمي منكر
عیسی بن جاریہ ،ان سے یعقوب القمی روایت کرتے ہیں یہ منکر ہے۔[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 76]

عرض ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ تفرد کے معنی بھی منکر بول دیتے ہیں اور عیسی بن جاریہ رحمہ اللہ کئی روایات میں منفرد ہیں اس لئے بہت ممکن ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے تفرد کے معنی میں نکارت کی جرح کی ہو ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فقد أطلق الإمام أحمد والنسائي وغير واحد من النقاد لفظ المنكر على مجرد التفرد
امام احمد اور امام نسائی وغیرہ ناقدین نے لفظ منکرکو محض تفرد کے معنی میں استعمال کیا ہے[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 674]
علاوہ بریں امام نسائی رحمہ اللہ متشددین میں سے بھی ہیں ۔جیساکہ امام ذہبی اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا ہے دیکھئے :[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 437، مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 387]

علامہ نذیر املوی رحمہ اللہ کے تعاقب کا جائزہ:
حافظ ظہور احمد صاحب نے منکر الحدیث کی جرح سے متعلق متعدد حوالے نقل کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ قادح جرح ہے اور ایسے راوی کی روایت ضعیف ہوتی ہے (رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ :ص 211)
عرض ہے کہ اس کے اس معنی سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہاں یہ صیغہ اس معنی میں نہیں جیسا کہ وضاحت کی گئی لہٰذا اس مقام پر یہ حوالے غیر متعلق ہیں ۔
علامہ نذیر احمد املوی رحمہ اللہ نے یہ بتانے کے لئے منکر الحدیث کا صیغہ بہت سارے مفہوم میں بولاتا ہے ، چند مثالیں پیش کی تھیں ، ان کا مقصود یہ تھا کہ جب یہ صیغہ کئی مفہوم میں آتا ہے تو قرائن کے بغیر اسے جرح قادح پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔
اس کے جواب میں حافظ ظہور صاحب نے ان مثالوں پر بحث کرتے ہوئے یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ ان میں سے کسی بھی معنی میں عیسی بن جاریہ پرکی گئی جرح کا تعلق نہیں ہے۔ذیل اس کا تجزیہ پیش خدمت ہے :
1۔ علامہ املوی رحمہ اللہ نے پہلا معنی یہ بتلایا تھا کہ بعض محدثین کسی راوی کو ایک ہی حدیث روایت کرتے ہوئے پاتے ہیں تو اس معنی میں بھی اسے منکرالحدیث بول دیتے ہیں۔
اس پر حافظ ظہور صاحب نے یہ فرمایا کہ عیسی بن جاریہ سے صرف ایک ہی حدیث مروی نہیں بلکہ کئی اور روایات بھی مروی ہیں (رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ ص212)
عرض ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ جن جن ائمہ نے منکر کی بات کہی ہے ان سب کے پاس بھی اس کی ساری احادیث پہنچ گئی ہوں ، ممکن ہے کسی کے پاس اس کی صرف ایک ہی حدیث پہنچی ہو۔
2۔ علامہ املوی رحمہ اللہ نے دوسرا معنی یہ بیان کیا کہ کوئی ثقہ راوی کسی ضعیف روایت سے منکر روایت نقل کرے تو اس وجہ سے اس ثقہ پر بھی یہ صیغہ اطلاق کردیا جاتاہے۔
اس کے جواب میں حافظ ظہور صاحب نے تہذیب الکمال اور تہذیب التہذیب سے عیسی بن جاریہ کے اساتذہ کی فہرست پیش کیا ہے اور یہ بتایا کہ ان کے سارے اساتذہ ثقہ ہیں (رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ: 212)
عرض ہے کہ یہ کتابیں ان لوگوں کی نہیں ہیں جنہوں نے منکر کا صیغہ استعمال کیا ہے ، ممکن ہے جنہوں نے منکر کا صیغہ استعمال کیا ان کے پاس اس کی اور روایات بھی رہی ہوں۔
3۔علامہ املوی رحمہ اللہ نے تیسرا معنی یہ بیان کیا کہ کسی راوی کی چند روایات کے متعلق سے منکر الحدیث بولتے ہیں نہ کہ اس کی ساری روایات سے متعلق ۔اور اس بات کو علامہ لکنوی کی کتاب الرفع والتکمیل سے نقل کی جس میں یہ بات امام ذہبی کی کتاب میزان کے حوالے سے منقول تھی ۔
اس کے جواب میں حافظ ظہور احمد صاحب نے ابوغدہ صاحب کے حاشیہ کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ یہ عبارت میزان کے نسخہ میں نہیں ہے (رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ ص213)
عرض ہے کہ ابوغدہ صاحب نے یہ کہا ہے کہ یہ عبارت میزان کے کسی اور نسخہ میں ہوسکتی ہے اور یہ بعید نہیں کہ کیونکہ امام ذہبی نے اسی مفہوم کی بات اپنی کتاب تاریخ اسلام میں عبد الله بن معاوية الزبيري کے ترجمہ میں کہی ہے[تاريخ الإسلام ت بشار 4/ 902]
اور یہ بات تاریخ الاسلام کے تمام نسخوں میں موجود ہے۔
بہرحال علامہ املوی رحمہ اللہ کا مقصود یہ نہیں تھا کہ متعلقہ بحث میں یہ صیغہ ان معانی میں ہے بلکہ انہوں نے صرف یہ سمجھایا ہے کہ یہ صیغہ کئی معانی میں آتا ہے اس لئے قرآئن وغیرہ سے آنکھیں بند کرکے صرف ایک ہی معنی لے کر نہیں بیٹھا جانا چاہے۔
ہم اوپر بتلا چکے ہیں کہ یہ اس صیغہ کا ایک مفہوم تفرد بتلانا بھی ہوتا ہےاور قرائن کی روشنی یہاں یہی متعین ہے کیونکہ واقعۃ اس حدیث کی روایت میں عیسی بن جاریہ منفرد ہیں ۔اور تفرد انفراد فی نفسہ عیب نہیں جبکہ تک کہ اس تفرد کے مردود ہونے پر قرائن نہ ہوں ۔اورالحمدللہ اس حدیث میں عیسی بن جاریہ کے تفرد کے رد ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
حافظ ظہور صاحب نے آگے علامہ سندی کے حولے سے طویل بحث کرنے کے بعد کہا :
وہ معنی عیسی بن جاریہ کے بارے میں مراد نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی منکر الحدیث کہنے کے ساتھ عندہ مناکیر بھی کہا گیا ہے (رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ ص214)
عرض ہے کہ اگر عندہ مناکیر بھی کہا گیا تب تو یہ دلیل ہے کہ منکرالحدیث کا مطلب عندہ مناکر ہے اور عندہ مناکیر والا ہر راوی ضعیف نہیں ہوتا۔
امام حاکم ، امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) سے اپنا سوال جواب نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فسليمان بن بنت شرحبيل قال ثقة قلت أليس عنده مناكير قال يحدث بها عن قوم ضعفاء فأما هو فهو ثقة
میں نے پوچھا سلیمان بنت شرحبیل کیساہے؟ امام دارقطنی نے جواب دیا : یہ ثقہ ہے ۔ میں نے کہا : کیا اس کے پاس مناکیر نہیں ہیں ؟ امام دارقطنی نے جواب دیا: ان مناکیر کو یہ ضعیف لوگوں سے روایت کرتا ہے ، لیکن یہ خود ثقہ ہے[سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 217]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


واضح رہے کہ بعض لوگ امام نسائی سے اس روای سے متعلق ”منکرالحدیث“ اور ”متروک“ کی جرح نقل کرتے ہیں لیکن یہ الفاظ امام نسائی سے ثابت نہیں ۔
امام نسائی کی کتاب میں صرف منکر کالفظ ہے غالبا بعض اہل علم نے اسے منکرالحدیث کے معنی میں سمجھ کرمعنوی طور پر منکرالحدیث نقل کردیا ہے۔
اور متروک کا لفظ امام نسائی نےاپنی کتاب میں اس سے قبل والے راوی کے ”عيسى بن عبد الرحمن“ کے بارے میں کہا دیکھئے:[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 76]
اوربعض لوگوں نے سبقت نظر کے سبب اس جرح کو بعد والے راوی”عیسی بن جاریہ“کے بارے میں سمجھ لیا ۔اس طرح کی مزید مثالوں کے لئے دیکھئے ہماری کتاب : انوارالبدر فی وضع الیدین علی الصدر۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
كلها غير محفوظة
اس کی مذکورہ تمام احدیث غیرمحفوظ ہیں[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 438]

عرض ہے کہ امام ابن عدی نےیہ تبصرہ کرنے سے قبل عیسی بن جاریہ پر بعض محدثین سے نکارت کی جرح نقل کی ہے جو ثابت نہیں ہیں ،جس سے معلوم ہوا کہ امام ابن عدی کی جرح کی بنیاد غیرثابت اقوال ہیں لہٰذا امام ابن عدی کی جرح غیرمسموع ہے۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فيه لين
ان میں کمزوری ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5288]

یہ بہت ہلکی جرح ہے جس سے تضعیف لازم نہیں آتی ہے یہی وجہ ہے کہ دوسرے مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:
رجاله ثقات
اس کے رجال ثقہ ہیں[الإصابة لابن حجر: 3/ 349]

اور ایک دوسرے مقام پر ان کی ایک روایت کو حسن قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
كما أخرجه أبو يعلى بإسناد حسن من رواية عيسى بن جارية
جیساکہ ابویعلی نے عیسی بن جاریہ کی روایت حسن سند سے نقل کی ہے[فتح الباري - ابن حجر - دار المعرفة 2/ 198]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ظہور صاحب لکھتے ہیں:
حافظ ابن حجر نے فیہ لین کو الفاظ جرح و تعدیل کے چھٹے طبقہ میں شمارکیا ہے، تقریب ص 1 (رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ : ص216)
عرض ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محولہ مقام پر چھٹے مرتبہ میں جس صیغہ کو گنایاہے وہ یوں ہے:
السادسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بلفظ: مقبول، حيث يتابع، وإلا فلين الحديث
چھٹا مرتبہ : جس کی بہت کم احادیث ہوں اور اس کے بارے میں ایسی بات ثابت نہ ہو جس کے سبب اس کی حدیث کو ترک کیا جائے تو اس کی طرف مقبول سے اشارہ ہوگا یعنی جب اس کی متابعت کی جائے ورنہ وہ لین الحدیث ہوگا[تقريب التهذيب لابن حجر، ت عوامة: ص: 74]
ملاحظہ فرمائیں یہاں ابن حجر رحمہ اللہ اپنی ایک خاص اصطلاح مقبول کی وضاحت کررہے ہیں اور یہ بتلارہے ہیں کہ اس نوع کے رواۃ کی جہاں متابعت نہ ملے وہاں یہ لین الحدیث ہوگا۔
لیکن عیسی بن جاریہ کو ابن حجررحمہ اللہ نے نہ تو مقبول کہا ہے اورنہ ہی لین الحدیث کہا ہے ، بلکہ صرف فیہ لین کہا جو ان دونوں سے الگ ہے اور صرف معمولی ضعف پر دال ہے جو توثیق کے منافی نہیں ہے اسی لئے خود ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر انہیں ثقہ کہا ہے ۔
حافظ ظہور صاف لین الحدیث اور فیہ لین کا فرق سمجھ نہیں سکے ، اس فرق کی وضاحت کے بعد اس ضمن میں ان کی ساری تفصیلات بے کار ہوجاتی ہیں۔اور آگے علامہ املوی رحمہ اللہ کا جو تضاد دکھلانے کی کوشش کی ہے اس کی حقیقت بھی نمایاں ہوجاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


امام عقیلی نے ضعفاء میں اس راوی کا تذکرہ کیا ہے ۔لیکن خود کوئی جرح نہیں کی ہے۔ اور محض ضعفاء والی کتاب میں کسی راوی کے تذکرہ سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ ضعفاء کے مؤلف کی نظر میں یہ راوی ضعیف ہے۔یہی معاملہ ابن الجوزی اور امام ساجی کا بھی ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب :یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 675 تا 677

خلاصہ یہ کہ عیسی بن جاریہ پر کوئی بھی معتبر جرح ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ ثقہ ہیں کیونکہ بہت سارے محدثین نے ان کی توثیق کی ہے جیساکہ ماقبل میں تفصیل پیش کی گئی۔


يعقوب بن عبد الله القمي کا تعارف

عیسی بن جاریہ سے اس حدیث کو نقل کرنے والے ”یعقوب بن عبداللہ القمی “ہیں ،آپ بخاری تعلیقا اور سنن اربعہ کے ثقہ راوی ہیں۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة
یہ ثقہ ہیں[سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 411]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
يعقوب بن عبد الله بن سعد الأشعري القمي۔۔۔[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 7/ 645]

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)ان کی یہی حدیث نقل کرکے کہا:
ثقة
یہ ثقہ ہیں[المعجم الصغير للطبراني 1/ 317]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
صدوق
یہ صدوق ہیں[الكاشف للذهبي: 2/ 394]
اور ایک دسری کتاب میں کہا:
الإمام، المحدث، المفسر
آپ امام ،محدث اور مفسر ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 8/ 299]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ضعيف
یعقوب ضعیف ہیں[علل الدارقطني 13/ 116]

عرض ہے کہ ضعیف غیرمفسر جرح ہے امام دارقطنی ہی کے دوسرے قول میں اس کی تفسیر آگئی ہے چنانچہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا:
ليس بالقوي
یہ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں[علل الدارقطني: 3/ 92]

عرض ہے کہ ”لیس بالقوی“ کی جرح قادح نہیں ہے اور اسے راوی کا عام معنی میں ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا جیساکہ ہم نے اس کی پوری تفصیل اپنی کتاب ''یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 677 تا 679 '' میں پیش کی ہے۔
الغرض یہ کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس دوسرے قول سے معلوم ہوا کہ ضعیف کہنے سے امام دارقطنی رحمہ اللہ کی مراد حافظہ میں معمولی کمی ہےبتلانا ہے ، نہ کہ عام معنی میں ضعیف بتلاناہے۔


مالك بن إسماعيل النهدي کاتعارف

یعقوب سے اس روایت کو کئی ثقہ رواۃ نے نقل کیاہے، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے یعقوب سے نیچے دوسند ذکر کی ہے اور دونوں صحیح ہے بلکہ پہلی سندکے سارے رجال بخاری یامسلم کے ہیں ۔ اس سند میں یعقوب سے اس روایت کو نقل کرنے والے ”مالك بن إسماعيل النهدي“ہیں ۔
آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ کے بارے میں ناقدین کے اقوال کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا:
ثقة متقن صحيح الكتاب عابد
آپ ثقہ متقن ، صحیح الکتاب اور عابد ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6424]

محمد بن العلاء الهمداني کا تعارف

آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں۔اوربالاتفاق ثقہ حافظ ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ کے بارے میں ناقدین کے اقوال کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا:
ثقة حافظ
آپ ثقہ متقن ، صحیح الکتاب اور عابد ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6204]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنبیہ بلیغ:
مولانا طاہر گیاوی صاحب اور بعض احناف نے یہ لکھتے رہتےہیں کہ حدیث جابر کی سند میں محمدبن حمید نامی ایک راوی ہے جو کذاب ہے ۔
عرض ہے کہ یہاں ہم نے حدیث جاریہ کی جو سند پیش کی ہے اس میں اس راوی کا کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے لہٰذا یہاں اس اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الغرض یہ کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔اسی لئے درج ذیل علماء نے اسے صحیح قراردیاہے۔

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311):
آپ نے اپنی کتاب ”صحیح ابن خزیہ “میں اسے نقل کیا یعنی آپ نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354):
آپ نے اپنی کتاب ”صحیح ابن حبان“میں اسے نقل کیا یعنی آپ نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے۔دیکھئے[صحيح ابن حبان: 6/ 169]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852):
آپ نے فتح الباری میں اس حدیث کو نقل کیا ہے[فتح الباري لابن حجر 3/ 12]اوراس پر سکو ت اختیارکیا ہے ا ورفتح الباری میں کسی حدیث پر آپ کا سکوت آپ کے نزدیک اس حدیث کے صحیح یاحسن ہونے کی دلیل ہے ۔ دیکھئے: انوارالبدرفی وضع الیدین علی الصدر۔

بلکہ احناف نے بھی اسے صحیح کہا ہے ملاحظہ ہو:
ملا علي القاري (المتوفى1014):
آپ نے کہا:
فإنه صح عنه أنه صلى بهم ثماني ركعات والوتر
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بسندصحیح ثابت ہے کہ آپ نے صحابہ کو آٹھ رکعات اوروترپڑھائی[مرقاة المفاتيح للملا القاري: 3/ 971]
أنور شاه رحمه الله (المتوفى1353):
آپ نے کہا:
وفي الصحاح صلاة تراويحه عليه الصلاة والسلام ثماني ركعات
اورصحیح حدیث کی کتب میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی ۔[العرف الشذي للكشميري: 1/ 412]




کیا حدیث جابر منقطع ہے ؟
حافظ ظہور احمد صاحب لکھتے ہیں:
یہ روایت غیر مقلدین کے بیان کردہ قاعدہ کے موافق منقطع ہے ، کیونکہ اس روایت کو حضرت جابر سے نقل کرنے والے عیسی بن جاریہ ہیں جن کے متعلق حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: من الرابعۃ کہ وہ چوتھے طبقہ رابعہ کے راوی ہے(تقریب ج1ص769)اورچوتھے طبقے کے متعلق مولانا نذیر احمد رحمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
اورچوتھا طبقہ وہ ہے جو تابعین کے طبقہ وسطی کے قریب ہے جن کی اکثر روایتیں کبار تابعین سے لی گئی ہیں ، صحابہ سے نہیں (انوارالمصابیح ص280)
سوجب عیسی بن جاریہ چوتھے طبقہ کا راوی ہے اوربقول مولانا رحمانی صاحب اس طبقہ والوں کی احادیث صحابہ کرام سے مروی نہیں ، تو پھرجب عیسی بن جاریہ نے بھی اس روایت کو حضرت جابر سے نقل کیا ہے جو صحابی رسول ہیں تو غیرمقلدین کے اصول کے مطابق عیسی بن جاریہ کی حضرت جابررضی اللہ عنہ سے نقل کردہ روایات منقطع ٹہری۔(رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ ص209)

حافظ ظہور احمد صاحب سے گذارش ہے کہ پہلے پہلے حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا موقف پڑھ لیں ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
الرابعة: طبقة تليها: جُلُّ روايتهم عن كبار التابعين، كالزهري وقتادة
چوتھاطبقہ : یہ طبقہ وسطی کے تابعین کے قریب کا طبقہ ہے ۔ان کی اکثر روایات کبار تابعین جیسے زہری اور قتادہ سے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: ص 81 ت شاغف]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحابہ سے اس طبقہ کی روایات کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ ان کی اکثر روایات (یعنی سب کی سب نہیں بلکہ اکثر روایات) کبارتابعین سے ہیں یعنی بعض روایات صحابہ سے بھی ہیں اوریہ تعداد میں بہت کم ہیں۔یہی بات معنوی طور پر علامہ نذیر احمد املوی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے بلکہ یہ بات کہہ انہوں نے آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اسی کتاب تقریب ہی کا حوالہ دیا ہے ۔علامہ نذیر احمد املوی رحمہ اللہ الفاظ ہیں:
اورچوتھا طبقہ وہ ہے جو تابعین کے طبقہ وسطی کے قریب ہے جن کی اکثر روایتیں کبار تابعین سے لی گئی ہیں ، صحابہ سے نہیں (دیکھو: تقریب ص3)
یہاں علامہ نذیر احمداملوی رحمہ اللہ نے اس طبقہ کی صحابہ سے مطلقا روایات کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ ان کی اکثر روایات صحابہ سے نہیں ہیں نہ کہ تمام روایات ۔
اوریہی بات حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی کہی ہے جس کاحوالہ آگے علامہ نذیر احمد املوی رحمہ اللہ نے دے دیا ہے۔اور ماقبل میں ہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ پیش کرکے اس کی وضاحت کرچکے ہیں ۔
یہاں غورطلب بات یہ ہے کہ علامہ نذیر املوی رحمہ اللہ نے اس طبقہ کو تابعین کا طبقہ کہا ہے۔اس طبقہ کو تابعین کا نام دینے کا مطلب ہی یہی ہے کہ صحابہ سے ان کی روایات کو ثابت مانا جارہا ہے کیونکہ تابعی اسی کو کہا جاتا ہے جو صحابی سے ملا ہو ۔
محترم ظہور احمد صاحب اگر حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی عبارت بغور نہیں دیکھ سکے تو آں جناب کو کم از کم یہ تو سمجھ لینا چاہئے کہ علامہ املوی رحمہ اللہ نے خود اس چوتھے طبقہ کو تابعین کا طبقہ کہا ہے۔یعنی علامہ املوی رحمہ اللہ انہیں تابعین کہہ کر صحابہ سے ان کی روایات کا اثبات کررہے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ چوتھے طبقہ کے تابعین نے بھی صحابہ سے روایات بیان کی ہیں اس کا انکار کسی نے نہیں کیا ہے لیکن چونکہ اس طبقہ کے لوگوں کی صحابہ سے روایات کم ہیں اور کبارتابعین سے زیادہ ہیں اس لئے انہیں تابعین کے چوتھے طبقہ میں شمار گیا ہے۔
اس طبقہ کے تابعین کی جس صحابی سے ملاقات کا ثبوت نہ ملے اس صحابی سے ان کی روایات منقطع ہوں گی لیکن جس صحابی سے ان کی ملاقات کا ثبوت ملےاس صحابی سے ان کی روایات متصل وصحیح ہوں گی۔
یادرہے کہ عیسی بن جاریہ نے آٹھ رکعات تراویح والی روایت جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اور آٹھ رکعات تراویح سے متعلق ہی ایک روایت میں عیسی بن جاریہ نے جابررضی اللہ عنہ سے سماع وتحدیث کی صراحت کرتے ہوئے کہا:
حدثنا جابر بن عبد الله۔۔۔[مسند أبي يعلى الموصلي 3/ 336 واسنادہ صحیح وصححہ ابن حبان فی صحیحہ ج6ص290 وحسنہ الھیثمی فی مجمع الزوائد:ج2ص91]
لہٰذا یہ روایت متصل ہے انقطاع کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ۔


حدیث جابر کے متن پر اعتراضات کا جائزہ:
کیا حدیث جابر منکر ہے
کیا حدیث جابر مضطرب ہے
کیا حدیث جابر کسی اصح حدیث کے خلاف ہے
امام محمد بن نصر المروزي (المتوفى294) نے کہا:
حدثنا إسحاق، أخبرنا النضر بن محمد، عن العلاء بن المسيب، عن عمرو بن مرة، عن طلحة بن يزيد الأنصاري، عن حذيفة، رضي الله عنه أنه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة في رمضان، فكان إذا ركع قال: «سبحان ربي العظيم»، مثل ما كان قائما، وإذا سجد قال: «سبحان ربي الأعلى»، مثل ذلك، ثم جلس يقول: «رب اغفر لي، رب اغفر لي» مثل ما كان قائما، ثم سجد، فقال: «سبحان ربي الأعلى» مثل ما كان قائما، فما صلى إلا أربع ركعات حتى جاء بلال يناديه إلى الغداة
حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کی ایک رات نماز اداکی ۔۔۔الخ ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف چار رکعات ہی ادا کیں کہ بلال فجر کی اذان دینے کے لئے پہنچ گئے[مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر ص: 181]

اس روایت کو مولانا گیاوی صاحب صحیح باورکرانے کے بعد اسے حدیث جابر کے خلاف بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فن کا یہ اصول مسلم ہے کہ قوی الاسناد کے خلاف اس سے کمزور سند والی روایت ساقط سمجھی جاتی ہے ،(احسن التنقیح ص238)

عرض ہے کہ:
اولا:
حدیث جابر کے مقابلہ مذکورہ حدیث حذیفہ کو قوی الاسناد بتلانا سینہ زوری کی علاوہ کچھ نہیں ہے ، کیونکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف یہ روایت سن اور متن دونوں لحاظ سے انتہائی کمزور ہے۔حذیفہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسے نقل کرنے والے طلحہ بن یزید ہیں جنہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت سنی ہی نہیں جیساکہ اسی روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے روایت کرنے کے بعد اس پر خاص یہی جرح کی ہے ۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
لم يسمعه طلحة بن يزيد من حذيفة
اس حدیث کو طلحہ بن یزید نے نہیں سنا ہے [السنن الكبرى للنسائي 2/ 148]
اورسنن ابی داؤد وغیرہ میں یہی روایت موجود ہے جس میں أبو حمزة یعنی طلحہ بن زید اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بیچ ایک رجل کا واسط موجود ہے ، دیکھئے :[سنن أبي داود ت الأرنؤوط 2/ 154 رقم 874]
امام نسائی رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر یہ گمان ظاہر کیا ہے کہ:
وهذا الرجل يشبه أن يكون صلة بن زفر
ہوسکتا ہے یہ کہ رجل (نامعلوم شخص) صلة بن زفر ہو[السنن الكبرى للنسائي 2/ 149]
یہی گمان اور بھی بعض اہل علم کا ہے اور ان اہل علم نے ایسا شاید اس لئے کہا ہے کہ دوسرے طرق میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صلة بن زفر نے روایت کیا ہے ، لیکن یاد رہنا چاہئے کہ حذیفہ سے یہ حدیث نقل کرنے والے تنہا صلة بن زفر ہی نہیں ہیں بلکہ اوربھی بہت سے رواۃ نے حذیفہ سےاسی حدیث کو الفاظ کے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ۔مزید یہ کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے صلة بن زفر کی نقل کردہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے لیکن اس کے الفاظ اس سے مختلف ہیں ۔
اور اگر واقعۃ یہ رجل ، صلة بن زفر ہی ہوتا تو کسی نہ کسی طریق میں اس کی صراحت آنی چاہئے تھی ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ طلحہ کبھی تو اس نامعلوم شخص کو ساقط کرکے روایت کرتے ہیں اور کبھی اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں تو رجل کہہ کراسے مبہم بنادیتے ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ اگر صلة بن زفر ہی ہوتے تو انہیں ساقط کرنے اور ذکرکرنے کے باوجود بھی مبہم بنانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔مزید یہ کہ طلحہ کے اساتذہ میں صلة بن زفر کا تذکرہ کسی کے یہاں نہیں ملتا نہ کسی اور مقام پر صلہ سے طلحہ کی کوئی روایت ملتی ہے ۔
ان تمام باتوں کی روشنی میں یہ بہت بعید ہے کہ طلحہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بیچ جو مبہم شخص ہے وہ صلة بن زفر ہوں ، لہٰذا یہ روایت اس انقطاع وابہام کے سبب ضعیف ہی ہے ۔
مولانا طاہر گیاوی صاحب امام نسائی سے انقطاع والی جرح نقل کرکے اس کا جواب یوں دیتے ہیں: اس انقطاع کے جواب میں لکھا ہے:
لیکن تہذیب التہذیب ج 5ص92سے ظاہر ہے کہ طلحہ بن یزید براہ راست حضرت حذیفہ سے روایت کرتے ہیں (احسن التنقیح ص240)
حالانکہ حافظ ابن حجررحمہ کے الفاظ ہیں:
روى عن حذيفة بن اليمان وقيل عن رجل عنه
انہوں نے حذیفہ بن یمان سے روایت کی ہی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک نامعلوم شخص کے واسطے سے انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 5/ 29]
ملاحظہ فرمائیں ابن حجر رحمہ اللہ نے حذیفہ سے طلحہ کے عدم سماع کی طرف بھی یہ کہتے ہوئے اشارہ کردیا ہے کہ بعض محدثین کے بقول حذیفہ اور ان کے بیچ میں ایک نامعلوم شخص کا واسطہ ہے۔ اور یہ بات درست ہے جیساکہ اوپر تفصیل گذرچکی ہے ۔
مزید یہ کہ تہذیب میں اساتذہ وتلامذہ کی جوفہرست دی جاتی ہے وہ صرف روایات کے لحاظ سے ہوتی ہیں اس میں سماع وعدم کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا ہے۔یہ بات عام طالب علموں کو بھی پتہ ہے ، لہٰذا طاہرگیاوی صاحب کو اپنی معلومات پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔

ثانیا:
اگرہم مبہم شخص کو صلہ بن زفر مان بھی لیں تو اس کے متن میں شدید اضطراب ہے ، لہٰذا راجح روایت وہی قرار پائے گی جو صحیح مسلم میں ہے اور صحیح مسلم میں اس واقعہ میں رمضان کا لفظ نہیں ہے ۔دیکھئے:صحيح مسلم (1/ 536) رقم (772)۔
ثالثا:
اگرہم یہ بھی فرض کرلیں کہ یہ رمضان کا واقعہ تھا تو اس کے کسی بھی طریق میں یہ اشارہ تک نہیں ہے کہ یہ تین رات تراویح والا واقعہ ہے ، بلکہ بعض طرق میں ایسی تصریحات ہیں جو صاف بتلاتی ہیں کہ تین رات تراویح والے سے الگ واقعہ ہے مثلا مستدرک حاکم کے الفاظ ہیں:
صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة من رمضان في حجرة من جريد النخل
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رمضان کی ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کجھور کی ٹہنیوں سے بنے ایک کمرے میں نماز پڑھی [المستدرك على الصحيحين للحاكم 1/ 466]
ظاہر ہے کہ تین رات تراویح والی نماز اس مقام پر نہیں ہوئی تھی ۔
اوربعض روایات میں تو یہ بھی ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی تھے کوئی تیسرا تھا ہی نہیں [المعجم الأوسط 4/ 321]
ظاہر ہے کہ تین رات تراویح والے واقعہ میں صحابہ کی ایک بڑی تعداد شریک جماعت تھی ۔
رابعا:
سب سے اہم بات یہ کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں گیارہ رکعات سے کم کا تو ذکر ہے لیکن گیارہ سے زائد کا ذکر نہیں ہے ، اور ہمارا موقف یہی ہے کہ گیارہ سے زائد رکعات پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں ، البتہ گیارہ سے کم رکعات کی ہم نفی کرتے ہی نہیں ، لہٰذا اگرکسی روایت میں ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی روایت گیارہ سے کم تعداد میں رات کی نماز پڑھی تو یہ بات نہ تو حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف ہے اور نہ ہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے ۔


کیا حدیث جابر کسی اور رمضان سے متعلق ہے ۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
چوتھی حدیث


امام أبو يعلى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟»، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ رات (یعنی رمضان کی رات) مجھ سے ایک چیز سرزد ہوئی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا وہ کیا چیز ہے ؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے گھر میں خواتین نے مجھ سے کہا کہ ہم قران نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھیں ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے انہیں آٹھ رکعات تراویح جماعت سے پڑھائی پھر وتر پڑھایا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرکوئی نکیر نہ کی گویا اسے منظور فرمایا۔[مسند أبي يعلى الموصلي 3/ 336]

یہ حدیث بھی صحیح ہے۔
عیسی بن جاریہ اور یعقوب القمی کا تعارف گذشتہ روایت کے تحت ہوچکا ہے۔
اور”عبد الأعلى بن حماد الباهلي“بخاری ،مسلم ،اورابوداؤدوغیرہ کے رجال میں سے ہیں،اوربالاتفاق ثقہ ہیں کسی بھی امام نے ان پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
المحدث الثبت
یہ محدث اورثبت ہیں[الكاشف للذهبي: 1/ 610]

معلوم ہوا کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
اسی لئے امام ابن حبان رحمہ اللہ اسی سند سے اسے ”صحیح ابن حبان“میں روایت کیا ہے دیکھئے:[صحيح ابن حبان: 6/ 290]۔

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رواه أبو يعلى والطبراني بنحوه في الأوسط وإسناده حسن
اسے ابویعلی اور طبرانی نے اسی طرح اوسط میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے[مجمع الزوائد للهيثمي: 2/ 91]
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خلاصہ کلام یہ کہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف آٹھ رکعات تراویح ہی کا ثبوت ملتا ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ»

امام ابن عدی نے خاص اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہ "غیر محفوظ" ہے۔ اور انہوں نے شاید یہ اس لئے فرمایا ہے کیونکہ اس روایت میں وتر کا لفظ ذکر کرنے میں عیسی بن جاریہ نے نکارت کی ہے اور اس وجہ سے یہ لفظ منکر ہے! اصل الفاظ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ ہیں: "إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةُ اللَّيْلِ" (صحیح البخاری

اور مسند ابی یعلی کی روایت میں عیسی بن جاریہ نے خود بھی صرف انہی الفاظ پر اکتفا کیا ہے: "إِنِّي خَشِيتُ أَوْ كَرِهْتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ" (مسند ابی یعلی)
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
صلاۃ اللیل کا ایک نام وتر بھی ہے ۔
اس لئے معنوی طورپر دونوں ایک ہی چیزہے۔ لہذایہاں نکارت کی کوئی بات نہیں ہے۔
نکارت کی بات اس وقت کہی جائے گی جب منفرد الفاظ سے الگ معنی پیداہوا۔واللہ اعلم۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
صلاۃ اللیل کا ایک نام وتر بھی ہے ۔
اس لئے معنوی طورپر دونوں ایک ہی چیزہے۔ لہذایہاں نکارت کی کوئی بات نہیں ہے۔
نکارت کی بات اس وقت کہی جائے گی جب منفرد الفاظ سے الگ معنی پیداہوا۔واللہ اعلم۔
یقینا وتر بھی صلاۃ اللیل میں سے ہے لیکن سنت میں تہجد یا تراویح یا صلاۃ اللیل اور صلاۃ الوتر میں فرق کیا گیا ہے۔ اس لئے چاہے وتر بھی رات کی نماز میں سے ہے لیکن جب خاص صلاۃ اللیل بولا جاتا ہے تو اس سے مراد تہجد ہوتی ہے۔ یہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے:
قال الشيخ العثيمين رحمه الله: والسنة قولاً وفعلاً قد فرقت بين صلاة الليل وبين الوتر، وكذلك أهل العلم فرقوا بينهما حكماً، وكيفية:
أما تفريق السنة بينهما قولاً: ففي حديث ابن عمر - رضي الله عنهما - أن رجلاً سال النبي صلى الله عليه وسلم كيف صلاة الليل؟ قال: "مثنى مثنى، فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدة". رواه البخاري.

وأما تفريق السنة بينهما فعلاً: ففي حديث عائشة - رضي الله عنها - قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا راقدة معترضة على فراشه، فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوتر. رواه البخاري.

ورواه مسلم بلفظ: كان يصلي صلاته بالليل وأنا معترضة بين يديه فإذا بقي الوتر أيقظها فأوترت.

وروى عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس لا يجلس في شيء إلا في آخرها.

وروى عنها حين قال لها سعد بن هشام بن عامر: أنبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة فيذكر الله ويحمده، ويدعوه، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر الله، ويحمده، ويدعوه، ثم يسلم تسليماً يسمعناً.
وأما تفريق العلماء بين الوتر وصلاة الليل حكماً: فإن العلماء اختلفوا في وجوب الوتر، فذهب أبو حنيفة إلى وجوبه وهو رواية عن أحمد ذكرها في الإنصاف والفروع قال أحمد: من ترك الوتر عمداً فهو رجل سوء ولا ينبغي أن تقبل له شهادة.والمشهور من المذهب أن الوتر سنة، وهو مذهب مالك؛ والشافعي.
وأما صلاة ا لليل فليس فيها هذا الخلاف، ففي فتح الباري: ولم أر النقل في القول بإيجابه إلا عن بعض التابعين قال ابن عبد البر: شذ بعض التابعين فأوجب قيام الليل ولو قدر حلب شاة، والذي عليه جماعة العلماء أنه مندوب إليه". اهـ .

وأما تفريق العلماء بين الوتر وصلاة الليل في الكيفية: فقد صرح فقهاؤنا الحنابلة بالتفريق بينهما فقالوا: صلاة الليل مثنى مثنى وقالوا في الوتر: إن أوتر بخمس، أو سبع لم يجلس إلا في آخرها، وإن أوتر بتسع جلس عقب الثامنة فتشهد، ثم قام قبل أن يسلم فيصلي التاسعة، ثم يتشهد ويسلم، هذا ما قاله صاحب زاد المستقنع. انتهى

اور اگر یہ مان لیں کہ اس روایت میں وتر اور صلاۃ اللیل دونوں ایک ہی ہیں اور اس میں کوئی تعارض نہیں تو پھر امام ابن عدی کا اس روایت کو غیر محفوظ کہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ گویا ابن عدی نے بغیر کسی واضح تعارض یا شذوذ کے ہی اس روایت کو غیر محفوظ کہہ دیا۔ تو اگر کوئی ناقد کسی خاص روایت کو غیر محفوظ کہے اور اس کی کوئی وجہ بھی نہ معلوم چل سکے (اگر اِس تعارض کو تعارض نہ تسلیم کیا جائے) تو پھر کیا ہم پر یہ لازم نہیں آ جاتا کہ محض ناقد کی بات پر بھروسہ کر کے اس روایت کو غیر محفوظ کہا جائے!؟
الغرض اگر امام ابن عدی کی تضعیف کی یہ وجہ بتائی جائے کہ حدیث میں وتر کا لفظ منکر ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں باقی روایت تو صحیح ہے اور دونوں میں تطبیق ہو جائے گی۔
لیکن اگر اس تعارض کو تعارض نہ مانا جائے تو محض امام ابن عدی کے اس پوری روایت کو غیر محفوظ کہنے پر ہی ہمیں ان کی بات ماننی پڑے گی۔ کیونکہ کسی ناقد کا کسی خاص روایت کو غیر محفوظ کہنا اسے غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔

نوٹ:
شیخ البانی نے بھی اس لفظ کو التعلیقات الحسان میں منکر کہا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top