صلاۃ الیل پر وتر کااطلاق
یقینا وتر بھی صلاۃ اللیل میں سے ہے
بے شک وترصلاۃ اللیل میں سے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ پوری صلاۃ اللیل پر بھی وتر کااطلاق ہوتا ہے یعنی صلاۃ الیل کا ایک نام وتربھی ہے۔
لیکن سنت میں تہجد یا تراویح یا صلاۃ اللیل اور صلاۃ الوتر میں فرق کیا گیا ہے۔
بے شک ان میں فرق کیا گیا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ صلاۃ الیل پر وتر اور وترپرصلاۃ الیل کا بھی اطلاق ہواہے۔
جس طرح ایمان اوراسلام میں فرق ہے لیکن اس کےساتھ ساتھ ایمان کے لے اسلام اوراسلام کے لئے ایمان کی بھی اطلاق ہواہے۔
کچھ احادیث ملاحظہ ہوں جن سے ثابت ہوتاہے کہ پوری صلاۃ الیل پربھی وتر کا اطلاق ہواہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: «صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى»[صحيح البخاري 2/ 24]
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ»[صحيح مسلم 2/ 520]
ان دونوں احادیث میں پوری صلاۃ اللیل پر وترکااطلاق ہواہے۔
اہل علم کی ایک جماعت نے بھی صلاۃ الیل یعنی تہجدپر وتر کااطلاق کیا ہے چنانچہ:
حافظ ابن رجب بخاری کی مذکور ہ حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
وقول النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - في حديث ابن عمر: ((صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة، توتر له ما قد صلى)) يدل على أن هذه الركعة الواحدة جعلت مجموع ما صلى قبلها وتراً، فيكون الوتر هو مجموع صلاة الليل الذي يختم بوتر.وهذا قول إسحاق بن راهويه ۔واستدل بقول النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ((أوتروا يا أهل القرآن)) ، وإنما أراد صلات الليل..[فتح الباري لابن رجب: 9/ 116]
آگے چل کردوسراقول نقل کرے اپنے بعض اصحاب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومن أصحابنا من قال: الجميع وتر.[فتح الباري لابن رجب: 9/ 117]
آگے مزیدلکھا:
وفي ((شرح المهذب)) : الصحيح المنصوص - يعني: عن الشافعي في ((الأم)) و ((المختصر)) -: أن الوتر يسمى تهجداً.وفيه وجه: أنه لا يسمى تهجدا بل الوتر غير التهجد.وهذا هو الذي ذكره بعض أصحابنا.وينبغي أن يكون مبنياً على القول بأن الوتر هو الركعة المنفردة وحدها، فأما إن قلنا: الوتر الركعة بما قبلها، فالوتر هو التهجد، وإن لم ينو به الوتر.[فتح الباري لابن رجب: 9/ 119]
اس تفصیل سے معلوم کہ صلاۃالیل یعنی تہجد پر وترکااطلاق احادیث میں بھی ملتاہے اور علماء کے اقوال میں بھی ۔
آپ نے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتوی اگر
یہاں سے نقل کیا ہے تو یہاں پر بھی شروع میں لکھا ہوا ہے:
والوتر اسم لمجموع هذه الصلاة المختومة بالوتر
امام ابن عدی کی جرح کا مفہوم
جہاں تک امام ابن عدی رحمہ اللہ کے کلام کے مفہوم کی بات ہے تو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اگر عیسی بن جاریہ کی کسی ایک روایت کے بارے میں یہ بات کہی ہوتی تو یہ امکان مانا جاسکتا تھا کہ انہوں نے صرف ایک لفظ پرنکارت کی جرح کی ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے عیسی بن جاریہ کی کئی احادیث ذکر کی ہے اور پھر ایک ہی سیاق میں کہاہے:
حدثنا ابن ذريح بهذا الإسناد بأحاديث أخر وكلها غير محفوظة.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 438]
غورکریں امام ابن عدی رحمہ اللہ عیسی بن جاریہ کی تمام احادیث کو غیرمحفوظ کہہ رہے ہیں اس لئے یہ ماننے کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ انہوں نے صرف ایک لفظ کی بناپر اس حدیث کو غیر محفوظ کہاہے۔
امام ابن عدی کے خلاف دیگر ائمہ کا فیصلہ ثابت ہے
لیکن اگر اس تعارض کو تعارض نہ مانا جائے تو محض امام ابن عدی کے اس پوری روایت کو غیر محفوظ کہنے پر ہی ہمیں ان کی بات ماننی پڑے گی۔ کیونکہ کسی ناقد کا کسی خاص روایت کو غیر محفوظ کہنا اسے غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفى365)کے فیصلہ کو ماننے کی بات اس صورت میں صحیح ہوسکتی تھی جب دیگر ائمہ نقد کا فیصلہ ان کے خلاف نہ مل رہا ہوتا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر ائمہ نقد میں سے امام ابن حبان رحمہ اللہ(المتوفى354) اس پوری حدیث کو صحیح تسلیم کرکے صحیح ابن حبان میں درج کررہے ہیں ۔
بلکہ امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311) بھی اس حدیث کو صحیح مان کر اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔
بلکہ ان دونوں ائمہ نے اس حدیث سے وتر کے واجب نہ ہونے کا استدلال بھی کیا ہے۔دیکھئے ان دونوں احادیث پر ابن حبان اورابن خزیمہ رحمہمااللہ کی تبویب۔
لہٰذاجب دوجلیل القدر ائمہ فن اس حدیث کو صحیح مان رہے ہیں بلکہ اس سے استدلال بھی کررہے ہیں توایسی صورت میں تنہا امام ابن عدی کا اسے غیر محفوظ کہنا کوئی معنی نہیں رکھتاہے۔
اوررہی بات شیخ البانی رحمہ اللہ کے حوالے کی تو ظاہر ہے کہ ہم کسی بھی حدیث پر فیصلہ کرنے سے پہلے یہ جاننے کی ضرورکوشش کریں گے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر کیا فیصلہ دیا ہے۔اس لئے شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس فیصلہ پر پہلے سے ہماری نظر تھی لیکن ہمیں اس میں وزن نظر نہیں آیا ۔بالخصوص جبکہ ابن حبان اورابن خزیمہ رحمہاللہ نے نہ صرف یہ کہ اس لفظ کو صحیح کہا ہے بلکہ اس سے استدلال بھی کیا ہے جیساکہ ان کی تبویب سے ظاہرہے۔رواۃ کے حوالہ سے ان پر تساہل کا الزام ہے گرچہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ بات ثابت نہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کی متن کی تحقیق میں بھی ان ائمہ پر کسی نے تساہل کا الزام لگایاہے۔لہٰذا ہماری نظر میں ان ائمہ کی تحقیق ہی راجح ہے واللہ اعلم۔