• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسنون رکعات تراویح،احادیث صحیحہ کی روشنی میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
حقیقت یہی ہے کہ نماز تراویح آٹھ ہی رکعت ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے لیکن تقلیدی ذہنیت کے لوگ اپنی حرکت سے باز نہیں آتے اور صحیح حدیث میں بیجا تاویلات کرتے رہتے ہیں اس سلسلے میں سب سے بہترین تحقیق محدث عصر علامہ البانی ۔ رحمہ اللہ ۔ کی ہے ۔۔۔۔دوسری بات میری ناقص سمجھ میں ۔ صلاۃاللیل ۔ سے مراد تہجد کی نماز ہے نہ کہ وتر ۔ کیونکہ احادیث میں وتر کیلیے وتر ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ رات کی آخری نماز ہے تہجد کیلیے ۔ صلاۃ اللیل ۔ کااستعمال ہوا اور وہ رات کی آخری نماز نہیں ہے ۔ رہا فقہاے کرام کا مسالہ تو ان بیچاروں کا کام ہی اختلاف کرنا ہے انکے مسالوں کو دیکھیں گے تو یہی کہیں گے کہ اسلام اختلاف کانام ہے کویی مسلہ ایسا نہیں ہے جسمیں تمام فقہا اکٹھا ہوگیے ہوں ان سے بہتر محدثین کا معاملہ ہے ۔واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
جوش نے "جوش" میں لکھا ہے کہ"اس سلسلے میں سب سے بہترین تحقیق محدث عصر علامہ البانی ۔ رحمہ اللہ ۔ کی ہے"
جوش صاحب شیخ البانی کی اس کتاب کا انتہائی عمدہ اور محققانہ رد بنام " القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علیٰ البانی المسکین" 1309ھ میں شَیخ القرآن والحدیث خان بادشاہ بن چاندی گل نے لکھا تھا اور شیخ البانی اس کا جواب لکھنے سے عاجز رہے اور اسی غم میں دنیا سے رخصت ہوگئے(اللہ اُن کی مغفرت فرمائے)
یہ کتاب اشاعت اکیڈمی پشاور والوں سے مل سکتی ہے منگوا کر پڑھیں جناب کو بھی آنکھیں کھل جائیں گی
اگر نماز تراویح صرف آٹھ رکعت ہی سنت ہے تو 17ھ سے لیکر 1200ھ ھ تک دنیا کی 12 مساجد اور اُن میں آٹھ رکعت تراویح پڑھانے والے اماموں کے نام سند کے ساتھ نقل کر دیں ہر صدی میں ایک مسجد اور ایک امام کا نام
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
صلاۃ الیل پر وتر کااطلاق


یقینا وتر بھی صلاۃ اللیل میں سے ہے
بے شک وترصلاۃ اللیل میں سے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ پوری صلاۃ اللیل پر بھی وتر کااطلاق ہوتا ہے یعنی صلاۃ الیل کا ایک نام وتربھی ہے۔
لیکن سنت میں تہجد یا تراویح یا صلاۃ اللیل اور صلاۃ الوتر میں فرق کیا گیا ہے۔
بے شک ان میں فرق کیا گیا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ صلاۃ الیل پر وتر اور وترپرصلاۃ الیل کا بھی اطلاق ہواہے۔
جس طرح ایمان اوراسلام میں فرق ہے لیکن اس کےساتھ ساتھ ایمان کے لے اسلام اوراسلام کے لئے ایمان کی بھی اطلاق ہواہے۔

کچھ احادیث ملاحظہ ہوں جن سے ثابت ہوتاہے کہ پوری صلاۃ الیل پربھی وتر کا اطلاق ہواہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: «صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى»[صحيح البخاري 2/ 24]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ»[صحيح مسلم 2/ 520]

ان دونوں احادیث میں پوری صلاۃ اللیل پر وترکااطلاق ہواہے۔

اہل علم کی ایک جماعت نے بھی صلاۃ الیل یعنی تہجدپر وتر کااطلاق کیا ہے چنانچہ:

حافظ ابن رجب بخاری کی مذکور ہ حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
وقول النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - في حديث ابن عمر: ((صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة، توتر له ما قد صلى)) يدل على أن هذه الركعة الواحدة جعلت مجموع ما صلى قبلها وتراً، فيكون الوتر هو مجموع صلاة الليل الذي يختم بوتر.وهذا قول إسحاق بن راهويه ۔واستدل بقول النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ((أوتروا يا أهل القرآن)) ، وإنما أراد صلات الليل..[فتح الباري لابن رجب: 9/ 116]

آگے چل کردوسراقول نقل کرے اپنے بعض اصحاب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومن أصحابنا من قال: الجميع وتر.[فتح الباري لابن رجب: 9/ 117]

آگے مزیدلکھا:
وفي ((شرح المهذب)) : الصحيح المنصوص - يعني: عن الشافعي في ((الأم)) و ((المختصر)) -: أن الوتر يسمى تهجداً.وفيه وجه: أنه لا يسمى تهجدا بل الوتر غير التهجد.وهذا هو الذي ذكره بعض أصحابنا.وينبغي أن يكون مبنياً على القول بأن الوتر هو الركعة المنفردة وحدها، فأما إن قلنا: الوتر الركعة بما قبلها، فالوتر هو التهجد، وإن لم ينو به الوتر.[فتح الباري لابن رجب: 9/ 119]

اس تفصیل سے معلوم کہ صلاۃالیل یعنی تہجد پر وترکااطلاق احادیث میں بھی ملتاہے اور علماء کے اقوال میں بھی ۔
آپ نے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتوی اگریہاں سے نقل کیا ہے تو یہاں پر بھی شروع میں لکھا ہوا ہے:
والوتر اسم لمجموع هذه الصلاة المختومة بالوتر

امام ابن عدی کی جرح کا مفہوم

جہاں تک امام ابن عدی رحمہ اللہ کے کلام کے مفہوم کی بات ہے تو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اگر عیسی بن جاریہ کی کسی ایک روایت کے بارے میں یہ بات کہی ہوتی تو یہ امکان مانا جاسکتا تھا کہ انہوں نے صرف ایک لفظ پرنکارت کی جرح کی ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے عیسی بن جاریہ کی کئی احادیث ذکر کی ہے اور پھر ایک ہی سیاق میں کہاہے:
حدثنا ابن ذريح بهذا الإسناد بأحاديث أخر وكلها غير محفوظة.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 438]

غورکریں امام ابن عدی رحمہ اللہ عیسی بن جاریہ کی تمام احادیث کو غیرمحفوظ کہہ رہے ہیں اس لئے یہ ماننے کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ انہوں نے صرف ایک لفظ کی بناپر اس حدیث کو غیر محفوظ کہاہے۔

امام ابن عدی کے خلاف دیگر ائمہ کا فیصلہ ثابت ہے

لیکن اگر اس تعارض کو تعارض نہ مانا جائے تو محض امام ابن عدی کے اس پوری روایت کو غیر محفوظ کہنے پر ہی ہمیں ان کی بات ماننی پڑے گی۔ کیونکہ کسی ناقد کا کسی خاص روایت کو غیر محفوظ کہنا اسے غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفى365)کے فیصلہ کو ماننے کی بات اس صورت میں صحیح ہوسکتی تھی جب دیگر ائمہ نقد کا فیصلہ ان کے خلاف نہ مل رہا ہوتا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر ائمہ نقد میں سے امام ابن حبان رحمہ اللہ(المتوفى354) اس پوری حدیث کو صحیح تسلیم کرکے صحیح ابن حبان میں درج کررہے ہیں ۔
بلکہ امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311) بھی اس حدیث کو صحیح مان کر اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔
بلکہ ان دونوں ائمہ نے اس حدیث سے وتر کے واجب نہ ہونے کا استدلال بھی کیا ہے۔دیکھئے ان دونوں احادیث پر ابن حبان اورابن خزیمہ رحمہمااللہ کی تبویب۔
لہٰذاجب دوجلیل القدر ائمہ فن اس حدیث کو صحیح مان رہے ہیں بلکہ اس سے استدلال بھی کررہے ہیں توایسی صورت میں تنہا امام ابن عدی کا اسے غیر محفوظ کہنا کوئی معنی نہیں رکھتاہے۔

اوررہی بات شیخ البانی رحمہ اللہ کے حوالے کی تو ظاہر ہے کہ ہم کسی بھی حدیث پر فیصلہ کرنے سے پہلے یہ جاننے کی ضرورکوشش کریں گے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر کیا فیصلہ دیا ہے۔اس لئے شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس فیصلہ پر پہلے سے ہماری نظر تھی لیکن ہمیں اس میں وزن نظر نہیں آیا ۔بالخصوص جبکہ ابن حبان اورابن خزیمہ رحمہاللہ نے نہ صرف یہ کہ اس لفظ کو صحیح کہا ہے بلکہ اس سے استدلال بھی کیا ہے جیساکہ ان کی تبویب سے ظاہرہے۔رواۃ کے حوالہ سے ان پر تساہل کا الزام ہے گرچہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ بات ثابت نہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کی متن کی تحقیق میں بھی ان ائمہ پر کسی نے تساہل کا الزام لگایاہے۔لہٰذا ہماری نظر میں ان ائمہ کی تحقیق ہی راجح ہے واللہ اعلم۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
جوش نے "جوش" میں لکھا ہے کہ"اس سلسلے میں سب سے بہترین تحقیق محدث عصر علامہ البانی ۔ رحمہ اللہ ۔ کی ہے"
جوش صاحب شیخ البانی کی اس کتاب کا انتہائی عمدہ اور محققانہ رد بنام " القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علیٰ البانی المسکین" 1309ھ میں شَیخ القرآن والحدیث خان بادشاہ بن چاندی گل نے لکھا تھا اور شیخ البانی اس کا جواب لکھنے سے عاجز رہے اور اسی غم میں دنیا سے رخصت ہوگئے(اللہ اُن کی مغفرت فرمائے)
یہ کتاب اشاعت اکیڈمی پشاور والوں سے مل سکتی ہے منگوا کر پڑھیں جناب کو بھی آنکھیں کھل جائیں گی
اگر نماز تراویح صرف آٹھ رکعت ہی سنت ہے تو 17ھ سے لیکر 1200ھ ھ تک دنیا کی 12 مساجد اور اُن میں آٹھ رکعت تراویح پڑھانے والے اماموں کے نام سند کے ساتھ نقل کر دیں ہر صدی میں ایک مسجد اور ایک امام کا نام
لگتا ہے آپ کو روزہ لگ رہا ہے!
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
یزید حسین صاحب نے بڑے جوش میں آکرمجھے جواب دیا ہے یہ انکاحق ہے جبکہ میں نے پورے ہوش و حواس کے ساتھ لکھا ہے اب یزید صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ صحیح سند کے ساتھ صحیح حدیث کا حوالہ دے کر یہ ثابت کردیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت تراویح پڑھی ہے ۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹ کہ ڈالی ہے تو علامہ البانی تو ایک امتی ہیں اوروقت کے محدث اورمحقق ۔امت نے انکی باتوں کو قبو ل کیا ہے سواے انکے جن کے دل میں کجی ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ آپنے انکے حق میں دعاے مغفرت کی ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جوش نے "جوش" میں لکھا ہے کہ"اس سلسلے میں سب سے بہترین تحقیق محدث عصر علامہ البانی ۔ رحمہ اللہ ۔ کی ہے"
جوش صاحب شیخ البانی کی اس کتاب کا انتہائی عمدہ اور محققانہ رد بنام " القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علیٰ البانی المسکین" 1309ھ میں شَیخ القرآن والحدیث خان بادشاہ بن چاندی گل نے لکھا تھا اور شیخ البانی اس کا جواب لکھنے سے عاجز رہے اور اسی غم میں دنیا سے رخصت ہوگئے(اللہ اُن کی مغفرت فرمائے)
یہ کتاب اشاعت اکیڈمی پشاور والوں سے مل سکتی ہے منگوا کر پڑھیں جناب کو بھی آنکھیں کھل جائیں گی
اگر نماز تراویح صرف آٹھ رکعت ہی سنت ہے تو 17ھ سے لیکر 1200ھ ھ تک دنیا کی 12 مساجد اور اُن میں آٹھ رکعت تراویح پڑھانے والے اماموں کے نام سند کے ساتھ نقل کر دیں ہر صدی میں ایک مسجد اور ایک امام کا نام
یزید حسین صاحب کتاب کے نام کے سامنے 1309 ھ لکھا ہوا ہے اس کا کیا مطلب ہے کیا یہ انہیں شیخ القراآن والحدیث بادشاہ خان کا سن وفات ہے تو یہ تو البانی صاحب کی پیدائش سے بھی پہلے کی بات ہے تو انہوں نے البانی صاحب کی پیدائش سے پہلے ہی البانی صاحب کی کتاب کا رد کیسے لکھ دیا
اور اگر یہ 1409 ھ ہے تو پھر آپ جوش کے بجائے ہوش سے لکھا کریں اتنا جوش کہ اپنے لکھے ہوئے پر بھی نظر ثانی نہیں کر رہے
اور البانی صاحب اسی غم میں اسی دنیا سے رخصت ہو گئے اس متعصبانہ اور توہین آمیز جملے سے تو حسب سابق احناف کا البانی صاحب سے حسد ظاہر ہو رہا ہے
اور آپ ذرا اس کتاب کو اسکین کروا کر اپلوڈ کروائیں اور اس کا لنک دیں ذرا ہم بھی تو اس شہرہ آفاق کتاب کو دیکھیں جس کا رد لکھنے کی خواہش کے باوجود البانی رحمہ اللہ جیسا فن حدیث کا امام رد نہ لکھ سکا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ورنہ جوابی طور پر لکھا جا سکتا ہے کہ یہ بادشاہ خان کیسے شیخ القرآن والحدیث تھے جنہیں کوئی جانتا ہی نہیں شیخ القرآن والحدیث ہونے کا استحقاق تو البانی رحمہ اللہ رکھتے تھے جنہیں پوری دنیا جانتی ہے
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
محترم محمدفیض الابرار صاحب اللہ آپکو سلامت رکھے اورحق بات کہنے نیز اسکی تایید و دفاع کرنے کی توفیق دیتا رہے ۔۔۔ دراصل یہ لوگ ذہنی مریض ہیں اور حق بات دیکھکر اور سنکر انکا ذہنی توازن مزید بگڑجاتا ہے ۔وہ کیا لکھتے اور کھتے ہیں انہیں خود اسکی خبرنہیں ہے۔ حق کی مخالفت انکا مقدر بن چکاہے ورنہ کتنے ایسے علماے احناف ہیں جنہوں نے شکست کھاکرجب ہوش ٹھکانے لگا تو حق کو قبول کرلیااوراسکی دفاع بھی کرنے لگے جیسے مفتی کلیم۔مولاناناصرمدنی۔مولانافضل ۔عتیق الرحمن شاہ کشمیری۔ طیب الرحمن۔طالب الرحمن۔شفیق الرحمن۔توصیف الرحمن وغیرہ وغیرہ اللہ تعالی انکی حفاظت فرماے اورانہیں صحت و توانایی عطاکرکے زیادہ سےزیادہ دفاع حق کی توفیق عنایت کرتارہے اسی طرح اللہ انکو بھی ہدایت دے۔ شکریہ
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
یزید حسین صاحب کتاب کے نام کے سامنے 1309 ھ لکھا ہوا ہے اس کا کیا مطلب ہے کیا یہ انہیں شیخ القراآن والحدیث بادشاہ خان کا سن وفات ہے تو یہ تو البانی صاحب کی پیدائش سے بھی پہلے کی بات ہے تو انہوں نے البانی صاحب کی پیدائش سے پہلے ہی البانی صاحب کی کتاب کا رد کیسے لکھ دیا
اور اگر یہ 1409 ھ ہے تو پھر آپ جوش کے بجائے ہوش سے لکھا کریں اتنا جوش کہ اپنے لکھے ہوئے پر بھی نظر ثانی نہیں کر رہے
اور البانی صاحب اسی غم میں اسی دنیا سے رخصت ہو گئے اس متعصبانہ اور توہین آمیز جملے سے تو حسب سابق احناف کا البانی صاحب سے حسد ظاہر ہو رہا ہے
اور آپ ذرا اس کتاب کو اسکین کروا کر اپلوڈ کروائیں اور اس کا لنک دیں ذرا ہم بھی تو اس شہرہ آفاق کتاب کو دیکھیں جس کا رد لکھنے کی خواہش کے باوجود البانی رحمہ اللہ جیسا فن حدیث کا امام رد نہ لکھ سکا
جناب فیض ابرار صاحب :کمپوزنگ کی غلطی کی نشاندہی کا شکریہ ۔1409ھ ہی ہے۔باقی کمپوزنگ کی غلطیاں ہوش ہی میں ہوتی ہیں جوش میں نہیں؟
باقی اگر جناب نے میری یہ جملے پڑھے ہوتے تو جناب تعصب کا طعنہ ہر گز نہ دیتے(اللہ اُن کی مغفرت فرمائے)
کتاب خرید کر پڑھیں تبھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوگا
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
ورنہ جوابی طور پر لکھا جا سکتا ہے کہ یہ بادشاہ خان کیسے شیخ القرآن والحدیث تھے جنہیں کوئی جانتا ہی نہیں شیخ القرآن والحدیث ہونے کا استحقاق تو البانی رحمہ اللہ رکھتے تھے جنہیں پوری دنیا جانتی ہے
شیخ کفایت اللہ صاحب اللہ انہیں سلامت رکھے شَخ خان بادشاہ صاحب کو جانتے بھی ہیں اور اُن کی کتاب بھی اِن کے پاس موجود ہے ۔ شیخ عبد اللہ بن زید رئیس الحاکم الرعیہ قطر ،شیخ علامہ احمد بن حجر قاضی المحکمۃ الشرعیہ قطر ،شیخ عبد الفتاح ابو غدہ ،شیخ عبد اللہ بن السبیل ،شیخ عبد الرحمن اسدیس ،اور شیخ البانی مرحوم کے اکثر شاگرد شَیخ خان بادشاہ بن چاندی گل کو بہت اچھی طرح سے جانے ہیں ۔ایک جناب کے نہ جاننے سے سے کیا ہوتا ہے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top