• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسنون رکعات تراویح پر بحث

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
مفتٰی بہ اقوال کی تعریف یہ ہے کہ جسے بھٹی صاحب اختیار کریں!
اور محرر مذہب نعمانی ، ابو حنیفہ ثانی ابن نجیم مصری وغیرہ کے مختار مؤقف کی کیا بھلا کیا حیثیت!
میاں بھٹی صاحب! یہ معاملہ فقہ بھٹی میں تو ممکن ہے، فقہ حنیفہ میں نہیں!
اصل سوال کے جواب کو ”گول“ کردینے میں آپ ماہر ہیں ۔۔۔ ابتسامہ!
حنفی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے مقلد ہیں ہر حنفی کہلانے والے کے نہیں جس طرح ”اہلحدیث“ ہر اس کے (معذرت کے ساتھ)اندھے مقلد ہیں جو ”اہلحدیث“ کہلانے والوں میں اپنا طرہ اونچا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ حدیث کی سمجھ بوجھ ہونا اس کے لئے لازم نہیں۔ بس اس میں یہ ملکہ ہو کہ احناف کی مخالفت میں احادیث کو استعل کرنے کا فن آنا چاہئے۔
مثالیں دوں گا تو چڑ جاؤ گے اس لئے مثال عند الطلب ہی پیش کی جائے گی۔ شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حنفی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے مقلد ہیں ہر حنفی کہلانے والے کے نہیں
یہ بات کہی جاتی ہے، لکھی بھی گئی ہے، مگر فقہ حنفی کا یہ مؤقف نہیں، حنفی فقہ کے فتاوی اٹھا کر دیکھ لیں ، بسا اوقات امام ابو حنیفہ کے قول کے مخالف صاحبین کے قول پر فتاوی دئیے گئے ہیں، یعنی کہ مفتیٰ بہ قول صاحبین کے قرار پائے،نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے۔ ہاں بس لفاظی کے لئے امام صاحب کا نعرہ لگایا جا سکتا ہے!
جس طرح ”اہلحدیث“ ہر اس کے (معذرت کے ساتھ)اندھے مقلد ہیں جو ”اہلحدیث“ کہلانے والوں میں اپنا طرہ اونچا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ حدیث کی سمجھ بوجھ ہونا اس کے لئے لازم نہیں۔ بس اس میں یہ ملکہ ہو کہ احناف کی مخالفت میں احادیث کو استعل کرنے کا فن آنا چاہئے۔
اندھا سمجھے کہ دنیا اندھی!
مثالیں دوں گا تو چڑ جاؤ گے اس لئے مثال عند الطلب ہی پیش کی جائے گی۔ شکریہ
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی زباں جیسی کہے ویسی سنے

پھر آپ کی چیخوں کی گونج کوفہ میں گونجے گی! ذرا دیکھ بھال کر کیجئے گا!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
یہ بات کہی جاتی ہے، لکھی بھی گئی ہے، مگر فقہ حنفی کا یہ مؤقف نہیں، حنفی فقہ کے فتاوی اٹھا کر دیکھ لیں ، بسا اوقات امام ابو حنیفہ کے قول کے مخالف صاحبین کے قول پر فتاوی دئیے گئے ہیں، یعنی کہ مفتیٰ بہ قول صاحبین کے قرار پائے،نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے۔ ہاں بس لفاظی کے لئے امام صاحب کا نعرہ لگایا جا سکتا ہے!
صاحبین نے اختلاف استاد کی موجودگی ہی میں کیا اور استاد نے اس کو بھی اہم سمجھتے ہوئے لکھنے کو کہا۔
دوسری بات مفتیٰ بہ اگر قرار پائے ہیں تو صاحبین کے اختلاف نہ کہ عرصہ دراز بعد کے علماء کے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
پھر آپ کی چیخوں کی گونج کوفہ میں گونجے گی! ذرا دیکھ بھال کر کیجئے گا!
کیا کوئی کسر رہ گئی ہے جسے پورا کرنے کی جسارت کروگے۔ یاد رکھو آسمان کی طرف تھوکا اپنے منہ پر آتا ہے۔
واقعہ
ایک دفعہ ایک یہودی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ ابوبکر صدیق خاموش تھے کوئی جواب نہیں دے رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں موجود تھے اور مسکراتے جارہے تھے۔ یہودی کی طعن و تشنیع جب حد سے بڑھ گئی تو ابوبکر ڑجی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی جواباً کچھ کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ بن گیا۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استفسار کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جب تک یہودی مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا آپ مسکرا رہے تھے اب میں نے جب ذرا سا کہہ دیا آپ نے منہ بنا لیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک آپ خاموش تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ مقرر تھا وہ یہودی کو جواب دے رہا تھا۔ جیسے ہی آپ نے خود جواب دیا وہ فرشتہ ہٹ گیا جس کا مجھے افسوس ہؤا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
صاحبین نے اختلاف استاد کی موجودگی ہی میں کیا اور استاد نے اس کو بھی اہم سمجھتے ہوئے لکھنے کو کہا۔
دوسری بات مفتیٰ بہ اگر قرار پائے ہیں تو صاحبین کے اختلاف نہ کہ عرصہ دراز بعد کے علماء کے۔
میاں جی! امام صاحب کے قول کو رد کرتے ہوئے صاحبین نے اپنے فتاوی دیئے ہیں،اور امام صاحب کے قول کو رد کرتے ہوئے صاحبین کے قول کو مفتی بہ قراردیا گیا ہے! اور یہ بھی نہیں کہ صاحبین نے امام صاحب کی موجودگی میں ہی اختلاف کیا ہو!
اپنی طرف سے جو اٹکل میں آئے لکھ مارتے ہو!
کیا کوئی کسر رہ گئی ہے جسے پورا کرنے کی جسارت کروگے۔ یاد رکھو آسمان کی طرف تھوکا اپنے منہ پر آتا ہے۔
آپ نے پستی کو آسمان سمجھ لیا ہے!
ایک دفعہ ایک یہودی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ ابوبکر صدیق خاموش تھے کوئی جواب نہیں دے رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں موجود تھے اور مسکراتے جارہے تھے۔ یہودی کی طعن و تشنیع جب حد سے بڑھ گئی تو ابوبکر ڑجی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی جواباً کچھ کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ بن گیا۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استفسار کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جب تک یہودی مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا آپ مسکرا رہے تھے اب میں نے جب ذرا سا کہہ دیا آپ نے منہ بنا لیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک آپ خاموش تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ مقرر تھا وہ یہودی کو جواب دے رہا تھا۔ جیسے ہی آپ نے خود جواب دیا وہ فرشتہ ہٹ گیا جس کا مجھے افسوس ہؤا۔
یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، کوفہ کے اہل الرائے اور مرجئ نہیں!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
جناب @کفایت اللہ صاحب میں نے آپ کے مراسلوں پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں آپ نے چونکہ ان کا رد نہیں کیا اس کامطلب ہے کہ وہ اعتراضات صحیح ہیں اور آپ سے سہو ہؤا تھا۔
آپ نے اعتراض نہیں اٹھائے ہیں، اعتراض کے عنوان سے اپنی جہالت کا پرچار کیا ہے، اسی وجہ سے اس تھریڈ سے اسے علیحدہ کیا گیا ہے۔
جس کے مراسلہ پر اعتراضات اٹھائے گئے وہ ان اعتراضات کی صحت کو تسلیم کیئے ہیں آپ ہیں کہ خواہ مخواہ الجھ رہے ہیں۔

اپنے منہ میاں مٹھو
مدعی سست گواہان چست والا معاملہ ہے!!!
انہوں نے اپنے مراسلوں کا دفاع نہیں کیا۔ جو اپنے مراسلے کا دفاع نہیں کرتا تو اس کا اپنے مراسلوں پر تنقید سے متفق ہونا ہی ثابت کرتا ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
پہلی حدیث

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحیح البخاری( 3/ 45) :کتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان ، رقم 2013)۔
اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں۔
اہلحدیث کہلانے والے نہ تو اس حدیث میں موجود ”چار اور پھر چار“ پر عل کرتے ہیں اور نہ ہی وتر پڑھنے سے پہلے سونے پر۔تین رکعات وتر بھی سارا سال نہیں پڑھتے۔
اس حدیث کی ہر جز کو رد کرنے کے لئے دوسری احادیث لاتے ہیں۔
چار چار کے رد کے لئے دو دو کرکے پڑھنے والی احادیث لاتے ہیں۔ ان میں رکعات آٹھ نہیں بلکہ دس یابارہ بنتی ہیں۔ کیوں کہ انہی احادیث میں رکعات کا عدد گیارہ یا تیرہ آتا ہے اور ان سب میں وتر ایک رکعت بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا بقیہ رکعات دس یا بارہ ہوئیں۔
ہمیشہ تین رکعات وتر کے رد میں دوسری احادیث لاتے ہیں۔
وتر پڑھنے سے پہلے سونے کے رد میں بھی دوسری احادیث لاتے ہیں۔
لطف کی بات یہ کہ باقی احادیث کے کسی نہ کسی جز پر ان کا عمل ہے مگر مذکورہ حدیث کے کسی بھی جز پر عمل نہیں اور آٹھ تراویح کے لئے پیش اسی حدیث کو کرتے ہیں ۔ فیا للعجب
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
پہلی حدیث

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحیح البخاری( 3/ 45) :کتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان ، رقم 2013)۔
اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں۔
اہلحدیث کہلانے والے نہ تو اس حدیث میں موجود ”چار اور پھر چار“ پر عل کرتے ہیں اور نہ ہی وتر پڑھنے سے پہلے سونے پر۔تین رکعات وتر بھی سارا سال نہیں پڑھتے۔
اس حدیث کی ہر جز کو رد کرنے کے لئے دوسری احادیث لاتے ہیں۔
چار چار کے رد کے لئے دو دو کرکے پڑھنے والی احادیث لاتے ہیں۔ ان میں رکعات آٹھ نہیں بلکہ دس یابارہ بنتی ہیں۔ کیوں کہ انہی احادیث میں رکعات کا عدد گیارہ یا تیرہ آتا ہے اور ان سب میں وتر ایک رکعت بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا بقیہ رکعات دس یا بارہ ہوئیں۔
ہمیشہ تین رکعات وتر کے رد میں دوسری احادیث لاتے ہیں۔
وتر پڑھنے سے پہلے سونے کے رد میں بھی دوسری احادیث لاتے ہیں۔
لطف کی بات یہ کہ باقی احادیث کے کسی نہ کسی جز پر ان کا عمل ہے مگر مذکورہ حدیث کے کسی بھی جز پر عمل نہیں اور آٹھ تراویح کے لئے پیش اسی حدیث کو کرتے ہیں ۔ فیا للعجب
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
جس کے مراسلہ پر اعتراضات اٹھائے گئے وہ ان اعتراضات کی صحت کو تسلیم کیئے ہیں آپ ہیں کہ خواہ مخواہ الجھ رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے مراسلوں کا دفاع نہیں کیا۔ جو اپنے مراسلے کا دفاع نہیں کرتا تو اس کا اپنے مراسلوں پر تنقید سے متفق ہونا ہی ثابت کرتا ہے۔
پہلے ہی کہا جا چکا ہے!
آپ نے اعتراض نہیں اٹھائے ہیں، اعتراض کے عنوان سے اپنی جہالت کا پرچار کیا ہے، اسی وجہ سے اس تھریڈ سے اسے علیحدہ کیا گیا ہے۔
 
Top