پہلی حدیث
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحیح البخاری( 3/ 45) :کتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان ، رقم 2013)۔
اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں۔
اہلحدیث کہلانے والے نہ تو اس حدیث میں موجود ”چار اور پھر چار“ پر عل کرتے ہیں اور نہ ہی وتر پڑھنے سے پہلے سونے پر۔تین رکعات وتر بھی سارا سال نہیں پڑھتے۔
اس حدیث کی ہر جز کو رد کرنے کے لئے دوسری احادیث لاتے ہیں۔
چار چار کے رد کے لئے دو دو کرکے پڑھنے والی احادیث لاتے ہیں۔ ان میں رکعات آٹھ نہیں بلکہ دس یابارہ بنتی ہیں۔ کیوں کہ انہی احادیث میں رکعات کا عدد گیارہ یا تیرہ آتا ہے اور ان سب میں وتر ایک رکعت بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا بقیہ رکعات دس یا بارہ ہوئیں۔
ہمیشہ تین رکعات وتر کے رد میں دوسری احادیث لاتے ہیں۔
وتر پڑھنے سے پہلے سونے کے رد میں بھی دوسری احادیث لاتے ہیں۔
لطف کی بات یہ کہ باقی احادیث کے کسی نہ کسی جز پر ان کا عمل ہے مگر مذکورہ حدیث کے کسی بھی جز پر عمل نہیں اور آٹھ تراویح کے لئے پیش اسی حدیث کو کرتے ہیں ۔ فیا للعجب