• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسنون رکعات تراویح پر بحث

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ساری حدیث پر ہی الحمد للہ عمل کرتے ہیں ۔ اگر کوئی شک ہے تو وقت نکال کر آجائیں ، آپ کی تسلی کر وا دیں گے ۔ إن شاءاللہ ۔
خضر حیات جی آپ کے ارادے ٹھیک نہ لگیں۔
اللہ توبہ اللہ توبہ اتنا جھوٹ! اس ساری حدیث پر عمل ہووے!
اس حدیث کے سوائے آٹھ کے عدد کے جناب جی کا کسی بات پر بھی عمل نہ ہووے۔ مجھے بتاوے کس کس بات پر تمہارا عمل ہووے ہے؟
اگر ہماری بات پر یقین ہے تو ہم بتا چکے ، اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں تو بار بار پوچھنے کی ضرورت کیا ہے ؟
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
اگر ہماری بات پر یقین ہے تو ہم بتا چکے ، اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں تو بار بار پوچھنے کی ضرورت کیا ہے ؟
بار بار اس لئے پوچھے کہ شائد جناب کو سمجھ آجاوے کہ تم لوگ غلط بات کرے ہو اور اس سے توبہ کرلیوے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترم! مؤطا مالک کی یہ روایت صحیح بخاری کی روایت سے متصادم ہے!
موطأ مالك میں ہے؛
و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ قَالَ أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ
اس کا متن مضطرب ہے اور یہ حدیث قابلَ استدلال نہیں کیونکہ صحیح بخاری میں اس کے خلاف لکھا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے؛
صحيح البخاري - كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ ـ بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ
حَدَّثَنِي مَالِك عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ۔۔۔۔۔۔الحدیث
مفہوم حدیث: عبدالرحمن بن عبدالقاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رمضان میں ایک رات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مسجد نبوی کی طرف نکلا لوگ الگ الگ تراویح پڑھ رہے تھے ـــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اللہ (تعالیٰ) کی قسم اگر میں ان کو ایک قاری کے پیچھے جمع کردوں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔پھر ان کو ابی بن کعب کی اقتدا میں کر دیا۔۔۔۔۔۔ الحدیث
لہٰذا صحیح یہ ہی ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف ایک قاری ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےپیچھے لوگوں کو جمع کیا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
پہلی حدیث
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحیح البخاری( 3/ 45) :کتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان ، رقم 2013)۔
قارئین کرام! محترم کفایت اللہ نے یہ حدیث آٹھ تراویح کے ثبوت میں پیش کی ہے حالانکہ وہ خود بھی متذبذب ہیں اس کو تراویح سے متعلق سمجھنے میں۔ اسی لئے یہ حدیث لکھ کر انہوں نے پورا زور یہ ثابت کرنے پر لگا دیا ہے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی ہے۔
آئیے اس حدیث کی تفہیم حاصل کریں؛
نمبر ایک: سوال کرنے والے نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ سے ہی کیوں پوچھا؟ روایات سے یہ بات یقینی ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اگر تراویح پڑھی ہے تو صرف ایک دن بشرطِ صحتِ روایت۔ جبکہ دیگر صحابہ کی کثیر تعداد جن میں خلفاء راشدین بھی شامل ہیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں تین رات تراویح پڑھی جو کہ صحیح روایات سے ثابت ہے۔ سوال کرنے والے کو اگر تراویح کی تحقیق درکار ہوتی تو وہ ان صحابہ کرام سے تصدیق کرتا نہ کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کما لا یخفیٰ۔
دراصل سوال کرنے والا رمضان میں اندرونِ خانہ پڑھی جا نے والی نماز تہجد کے بارے میں متذبذب تھا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی رکعات کتنی پڑھتے تھے۔ اس ہی کے جواب میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان اور غیر رمضان میں ہمیشہ گیارہ رکعات ہی پڑھتے تھے اس سے کم زیادہ نہ کرتے تھے۔
نمبر دو: عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسی نماز کی ادائیگی کی تفصیل بتاتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چار رکعات پڑھتے اتنی لمبی اور خشوع و خضوع والی کہ بس کچھ نہ پوچھو۔ پھر چار رکعات پڑھتے اسی طرح خشوع و خضوع والی۔
اس کو تراویح کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ تراویح ’ترویحہ‘ کی جمع ہے اور عربی میں جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے۔ اس میں صرف دو ترویحے بنتے ہیں کما لا یخفیٰ۔
نمبر تین: اس حدیث میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس بات کی تصدیق صریحاً کی وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں اسی پر مداومت فرمائی مگر آج کے نام نہاد اہلِ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مسنون عمل کی مخالفت کرتے ہیں۔
نمبر چار: اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے سوتے تھے۔ لہٰذا یہ عمل تراویح میں کسی نے بیان نہیں کیا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
نتیجہ:
1 یہ حدیث تہجد کی ہے تراویح کی نہیں۔
2 نام نہاد اہلِ حدیثوں کا اس کے مطابق عمل نہیں۔ اس میں چار چار اور تین کا ذکر ہے یہ دو دو کرکے پڑھتے ہیں۔
3 اس مکمل حدیث سے یہ لوگ صرف ”آٹھ“ کا عدد لیتے ہیں پوری حدیث کو نہیں مانتے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
دوسری حدیث
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ - وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ - إِلَى الْفَجْرِ، إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ، وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ، حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلْإِقَامَةِ».
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے فجر کی نماز کے درمیان تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت کے ذریعہ وتر بنا لیتے پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو فجر ظاہر ہو جاتی اور مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر ہلکی ہلکی دو رکعت پڑھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن اقامت کہنے کے لئے آتا۔(صحیح مسلم(1/ 508):کتاب صلاة المسافرین وقصرہا: باب صلاة اللیل، وعدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل، وأن الوتر رکعة، وأن الرکعة صلاة صحیحة رقم 736)۔
محترم! یہ حدیث پیش کرکے آپ نے خود ہی اپنی پہلی آٹھ رکعت تراویح کو رد کر دیا اور دس (10) تراویح ثابت کر دیں۔ ایک رکعت وتر گیارہ رکعات سے نکالیں تو باقی دس (10) رکعات بچتی ہیں۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
اس بحث کو۸۰،۹۰سال ہوچکے ہیں ۔
مزید جاری رکھیں ۔ لیکن علمی انداز میں ۔ اب مناظرانہ انداز مفید نہیں ۔
مثلاََ عبد الرحمٰن بھائی اگر آپ ۔نام نہاد اہلحدیث کی جگہہ اہلحدیث بھائی ۔یا اہلحدیث حضرات ۔کہہ لیں تو کیسا ہو ۔
جزاک اللہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
تیسری حدیث

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311)نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ»
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبی ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاںتک کہ صبح ہوگئی،پھراللہ کے نبی ۖہمارے پاس آئے توہم نے کہا:اے اللہ کے رسولۖ ہمیںامیدتھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے،توآپ ۖ نے فرمایا:مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے۔(صحیح ابن خزیمة 2/ 138 رقم 1070)۔

یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس کے تمام راوۃ ثقہ ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
محترم! معذرت کے ساتھ یہ صریحاً جھوٹ ہے کہ ”یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں“۔ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس میں عیسیٰ بن جاریہ مجروح ہے۔ دیکھئے
قال المزي في تهذيب الكمال :
قال أبو بكر بن أبى خيثمة عن يحيى بن معين : ليس حديثه بذاك لا أعلم أحدا روى عنه غير يعقوب القمى .
و قال عباس الدورى ، عن يحيى بن معين : عنده مناكير ، حدث عنه يعقوب القمى ، و عنبسة قاضى الرى .
و قال أبو زرعة : ينبغى أن يكون مدينيا ، لا بأس به .
و قال أبو عبيد الآجرى ، عن أبى داود : منكر الحديث .
و قال فى موضع آخر : ما أعرفه ، روى مناكير .
و ذكره ابن حبان فى كتاب " الثقات " .
ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ
قال الحافظ في تهذيب التهذيب 8 / 207 :
و ذكره الساجى ، و العقيلى فى " الضعفاء " .
و قال ابن عدى : أحاديثه غير محفوظة . اهـ .
ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ ْ
محترم! یہ اس کی صحت کا حال ہے کہ صرف ابن حبان اسے ’ثقہ‘ لکھ رہا ہے اس ابن حبان کے متساہل ہونے پر آپ لوگ بھی متفق ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس بحث کو۸۰،۹۰سال ہوچکے ہیں ۔
محترم بھائی ابن عثمان صاحب کم از کم آپ نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ اسی (80) نوے (90) سال سے پہلے یہ جھگڑا نہیں تھا۔ لہٰذا جس نے اس جھگڑے کی بنیاد رکھی وہ غلطی پر تھا کہ اس نے اجماع کی مخالفت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید(وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ) کا مصداق ٹھہرا۔

مناظرانہ انداز مفید نہیں ۔
محترم بھائی ابن عثمان صاحب میں آپ کی اس بات سے سو فی صد اتفاق کرتا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مناظرہ میں حق کی طلب نہیں بلکہ اپنے کو اعلیٰ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کہ اگر کوئی زورِ زبان سے اپنے کو سچا ثابت کروانے میں کامیاب بھی ہوگیا تو لازم نہیں کہ واقعی وہ حق پر ہے۔ اصل بات ہے آخرت کی فکر۔ اگر آخرت کی فکر کے ساتھ مباحثہ کیا جائے تو حق مل جاتا ہے۔ فلا شک

مثلاََ عبد الرحمٰن بھائی اگر آپ ۔نام نہاد اہلحدیث کی جگہہ اہلحدیث بھائی ۔یا اہلحدیث حضرات ۔کہہ لیں تو کیسا ہو ۔
محترم ابن عثمان بھائی آپ خود بتائیں کہ کیا آپ ”اہلِ حدیث“ جو کہ محدثین کرام کو کہا جاتا ہے والے خصائص رکھتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو آپ اس کے حقدار ہیں اور اگر نہ میں ہے (اور یقیناً ہزار میں سے نوسوننانوے کا اطلاق انہی میں ہوتا ہے) تو پھر آپ اہل کا حق مارنے والے ہیں۔
 
Top