عرض مؤلف
گزارش احوال واقعى
یہ کتاب چند مضامین پر مشتمل ہے۔پہلا مضمون خطبہ نکاح اس کا تر جمہ اور تشریح کے علاوہ چند ایسى آیات واحادیث پرمشتمل ہے۔جو ازدواجى زندگى کى کامیابى کے لیے اصولى رہنمائى پرمبنى ہیں۔دوسرا مضمون شادى بیاہ کى رسومات کے بارے چند سوالوں کے جواب میں تحریر کیاگیا تھا ایک نوجوان نے یہ سولات مختلف علماء سےکیے تھے جن میں یہ راقم بھى شامل ہے۔راقم نے عدیم الفرصتى اورہجوم کارکے باوجود سوالات کى اہمیت کے پیش نظر ان کا جواب دینا ضرورى سمجھا اور یوں ایک اور مضمون تیارہوگیا۔ تیسرا مضمون وفاقى شرعى عدالت کے سوال کے جواب میں تحریرکیا گیا تھا۔اوریہ اس وقت کى بات ہے جب شادى آرڈیننس نافذ تھا تو شرعى عدالت میں اسے چیلنج کیا گیا تھاکہ یہ آرڈى ننس خلاف اسلام ہے اس لیے اسے ختم کیاجائے۔وفاقى شرعى عدالت نے اپنے معمول کے مطابق اس کے بارے میں عدالت کے مشیران فقہ سے استفسار کیا کہ وہ قرآن وحدیث کى روشنى میں اس آرڈى ننس کے بارے میں اپنى رائے دیں کہ کیا یہ واقعى اسلام کے خلاف ہے یااس میں اسلامى روح کارفرماہے؟
راقم نے اپنے جواب میں مذکورہ شادى آرڈى ننس کو اسلامى روح کے مطابق قرار دے کراسے برقراررکھنے کى تائید کى۔لیکن ابھى شرعى عدالت میں اس پر باقاعدہ بحث ہونى باقى تھى جہاں فریقین (آرڈى ننس کے حامى اورمخالفین )اپنے اپنے دلائل فاضل عدالت میں پیش کرنےتھے تاکہ اس کى روشنى میں اس کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا فیصلہ کیاجاسکے۔مگر اس مرحلے سے پہلے ہى سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں اس آرڈی ننس کے خلاف فیصلہ دے کر اسے کالعدم کردیا اور شرعى عدالت کو اس کى بابت فیصلہ کرنے کاموقع ہى نہیں دیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارى عدالت عالیہ نے اس آرڈى ننس کى بابت فیصلہ کرنے میں اتنى عجلت اور پھرتى کیوں دکھائى ؟جب کہ اس کے علم میں یہ بات یقینا ہوگى کہ شرعى عدالت میں معاملہ زیر غورہے اور اس کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کى بابت زیا دہ بہترفورم شرعى عدالت ہى تھا۔ہم اس پراس کے سواکیا کہہ سکتے ہیں:
رموز مملکت خویش خسرواں داند
بہرحال:
آں قدح بہ شکست وآں ساقى نہ ماند
اب یہ مسئلہ بظاہر ختم ہوگیا ہے لیکن مذکورہ عدالتى فیصلہ کوچونکہ عوام نے پسندیدگى کى نظر سے نہیں دیکھا تھا اس لیےموجودہ نئى حکومت نے عوام کےمطالبہ پر اس معاملے میں نئے سرے سے قانون سازى کرکے عوام کو وہ ریلیف (سہارا)مہیا کردیا ہے جوکالعدم آرڈى ننس نے ان کو مہیا کیا ہواتھا لیکن فاضل ججوں کى قانونى چابک دستى اوردماغى نکتہ رسى نے ان کو اس محروم کردیا تھا۔اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ ہم اپنى اس رائے کو شائع کردیں جوشرعى عدالت میں بحث وگفتگوکے لیے ہم نےلکھى تھى تاکہ نئے قانون کو شرعى عدالت بنیاد بھى مہیا ہوجائے جس سے عوام کودوبارہ سہولت حاصل ہوگئى ہے جس سے وہ محروم ہوگئے تھےحالانکہ شرعااس سہولت کى گنجائش موجودتھى ۔
ایک فتوى برات کى شرعى حیثیت پر ہے جو۱۹۸۷ء میں ایک استفتاء کے جواب میں تحریر کیا گیا تھا۔ اسے بھى شادى بیاہ کى رسومات والے مضمو ن میں شامل کردیاگیاہے۔ایک مضمون روزنامہ جنگ کےسنڈے میگزین سے لے کر اس میں شامل کیا گیا ہے جس میں ان فضول رسومات کى تفصیل ہے جوشریعت کے خلاف ہیں۔
ان تمام مضامین کاموضوع شادى بیاہ کى وہ رسومات ہیں جن سے ہر شخص (سوائے نودولتیوں کے ایک محدود طبقے کے )مضطرب اورپریشان ہے۔لیکن ایمان کى کمزورى قوت ارادى کے فقدان بعض دیگرعوامل کى وجہ سےان رسومات وخرفات سے انحراف وگریزکى جسارت کوئى نہیں کرتا
الاماشاءاللہ ۔اگرچہ علماءان کےخلاف اپنى آوازبلندکرتے رہتے ہیں۔لیکن کون سنتاہے فغان درویش ؟کے مصداق ان کى آوزصدائے صحراءاورطوطى کى مہین سى آوزسے زیادہ کوئى حیثیت نہیں رکھتى۔ایک مضمون موسیقى کى حرمت پر ہے جوایک گلوکار کے اس چیلنج کے جواب میں تحریر کیا گیا تھا کہ علمائے اسلام اس کى حرمت ثابت نہیں کرسکتے۔چونکہ گانابجانا اوراب میوزیکل شووغیرہ قسم کى خرافات اورصریحا بے حیائى پرمبنى اس قسم کے پر وگرام بھى شادى بیاہ کے موقع پرفروغ پذیرہیں اس اسے بھى کتاب کاحصہ بنادیا گیا ہے۔
راقم کاتعلق بھى طبقہ علماء ہى سے ہے اوراللہ کى توفیق سے منبر ومحراب کے ذریعے سے یہ فریضئہ تعلیغ اورحق نصیحت اداکرتا رہتاہے۔اب ان مضامین کےذریعے سے بھى وہ قوم کومتنبہ کررہاہے کہ تمہارے آگےچند قدم ہى پرتباہى وبربادى کامقدربننے سےاپنے آپ کوبچالو۔ راقم نےکوشش کى کہ یہ مضامین کسى قومى روزنامے میں شائع ہوجائیں اور روزنامہ جنگ کے سینئرترین کالم نگارجناب ارشاداحمدحقانى کےنام یہ ارسال بھى کیے تاکہ وہ انہیں اپنے کالم میں یا کسى جگہ شائع کردیں۔لیکن ہمارے قومى روزناموں میں اب قوم کى اصلاح کے لیے لکھے گئے مضامین کے لیے کوئى جگہ نہیں ہے کیونکہ انہوں فلمی ستاروں کے ہیجان خیز پوز' ان کے نازوادپرمبنى مواداورقوم کوحیاباختہ بنانےوالےفیچراورتصاویربتاں کرکے روٹى کمانى ہے :
روٹى تو کما کھائے کسى طور مچھندر
بہرحال اب مذکورہ مضامین اور دیگر مفید مواداس کتاب کى شکل میں قارئین کرام کے سامنے ہے ۔اللہ کرکے کہ قوم کے اندر اصلاح کاجذبہ پیداہون اوران زنجیروں اوربیڑیوں کو اتارپھینکےجس نے انہیں دین ودنیاکے خسارے میں مبتلاکر رکھا ہے۔ کاش وہ شعور کى آنکھیں کھولے اورذلت وادبارکى اس کھائى کودیکھنے جس کے کنارے پر وہ کھڑى ہےاوربے دینى وبےحیائى کے اس طوفان کے خلاف نبردآزماہونے کا حوصلہ اس کے اندرپیداہوجوان کے دروازوں پردستک دےرہاہے :
نہ سمجھوگے تومٹ جاؤگے اےپاکستان''والو!
تمہارى داستاں تک بھى نہ ہوگى داستانوں میں
صلاح الد ین یو سف
مدیر: شعبہ تحقیق وتصنیف وترجمہ دارالسلام 'لاہور۔
۱۲۴/۴۰شاداب کالونى 'گڑھى شاہو' علامہ اقبال روڈ'لاہور۔
فون(گھر ):۶۳۱۶۹۳۱
ربیع الثانى ۱۴۲۴ھ ۔جون ۲۰۰۳ ء