ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(١) جنبی کیلئے تیمم کا جواز پانی نہ ملنے کی صورت میں ۔
(٢) اگر التقاء ختانین اِنزال کے بغیر ہو جائے تواس سے غسل واجب ہو جاتا ہے ۔
لہٰذا اس کو جماع پر محمول کرنا ایک فائدے پر(جوکہ لمس عورت کا ناقض وضوء ہونا ہے) اکتفا کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘
آگے امام جصاص رحمہ اللہ نے دونوں قراء توں کا معنی اس طرح بیان کیا ہے کہ جو قراء ت مفاعلہ سے ہے اس کا حقیقی معنی تو جماع ہی بنتا ہے۔ البتہ مجرد والی قراء ت دو معانی کا احتمال رکھتی ہے :
الف:۔۔۔۔لمس بالید (ہاتھ سے چھونا)۔۔۔۔ب:۔۔۔۔جماع (ہم بستری کرنا)
لہٰذا اس قراء ت کو بھی مفاعلہ والی قراء ت کے معنی پر محمول کیا جائے گا ۔اس پر یہ اشکال ہوتاہے کہ ان دونوں قرا ء توں کو دو آیتوں کے طور پر دوالگ الگ معنی پر محمول کرنا چاہیے ۔یعنی ایک قراء ت سے جماع کا ناقض وضوء ہونا ثابت ہو جائے، اور دوسری قرا ء ت سے لمس بالید کا ناقض وضوء ہونا ثابت ہو جائے ۔اس کا جواب امام جصاص یوں دیتے ہیں :
’’ فقہاء کو یہ معلوم تھاکہ یہاں د و متواتر قراء تیں ہیں اس کے باوجود کسی نے بھی اس مقام پر اس کا اعتبار نہیں کیا۔ بلکہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ قراء ت کوئی بھی ہو دو معانی میں سے ایک ہی مراد ہے۔‘‘ (الجصاص: حوالہ مذکور)
کیو نکہ تفسیر کااصول ہے کہ متشابہ کو محکم کے اوپر محمول کیا جاتا ہے۔ (أیضا)
(٢) اگر التقاء ختانین اِنزال کے بغیر ہو جائے تواس سے غسل واجب ہو جاتا ہے ۔
لہٰذا اس کو جماع پر محمول کرنا ایک فائدے پر(جوکہ لمس عورت کا ناقض وضوء ہونا ہے) اکتفا کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘
آگے امام جصاص رحمہ اللہ نے دونوں قراء توں کا معنی اس طرح بیان کیا ہے کہ جو قراء ت مفاعلہ سے ہے اس کا حقیقی معنی تو جماع ہی بنتا ہے۔ البتہ مجرد والی قراء ت دو معانی کا احتمال رکھتی ہے :
الف:۔۔۔۔لمس بالید (ہاتھ سے چھونا)۔۔۔۔ب:۔۔۔۔جماع (ہم بستری کرنا)
لہٰذا اس قراء ت کو بھی مفاعلہ والی قراء ت کے معنی پر محمول کیا جائے گا ۔اس پر یہ اشکال ہوتاہے کہ ان دونوں قرا ء توں کو دو آیتوں کے طور پر دوالگ الگ معنی پر محمول کرنا چاہیے ۔یعنی ایک قراء ت سے جماع کا ناقض وضوء ہونا ثابت ہو جائے، اور دوسری قرا ء ت سے لمس بالید کا ناقض وضوء ہونا ثابت ہو جائے ۔اس کا جواب امام جصاص یوں دیتے ہیں :
’’ فقہاء کو یہ معلوم تھاکہ یہاں د و متواتر قراء تیں ہیں اس کے باوجود کسی نے بھی اس مقام پر اس کا اعتبار نہیں کیا۔ بلکہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ قراء ت کوئی بھی ہو دو معانی میں سے ایک ہی مراد ہے۔‘‘ (الجصاص: حوالہ مذکور)
کیو نکہ تفسیر کااصول ہے کہ متشابہ کو محکم کے اوپر محمول کیا جاتا ہے۔ (أیضا)