• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشکلات القراء ات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) جنبی کیلئے تیمم کا جواز پانی نہ ملنے کی صورت میں ۔
(٢) اگر التقاء ختانین اِنزال کے بغیر ہو جائے تواس سے غسل واجب ہو جاتا ہے ۔
لہٰذا اس کو جماع پر محمول کرنا ایک فائدے پر(جوکہ لمس عورت کا ناقض وضوء ہونا ہے) اکتفا کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘
آگے امام جصاص رحمہ اللہ نے دونوں قراء توں کا معنی اس طرح بیان کیا ہے کہ جو قراء ت مفاعلہ سے ہے اس کا حقیقی معنی تو جماع ہی بنتا ہے۔ البتہ مجرد والی قراء ت دو معانی کا احتمال رکھتی ہے :
الف:۔۔۔۔لمس بالید (ہاتھ سے چھونا)۔۔۔۔ب:۔۔۔۔جماع (ہم بستری کرنا)
لہٰذا اس قراء ت کو بھی مفاعلہ والی قراء ت کے معنی پر محمول کیا جائے گا ۔اس پر یہ اشکال ہوتاہے کہ ان دونوں قرا ء توں کو دو آیتوں کے طور پر دوالگ الگ معنی پر محمول کرنا چاہیے ۔یعنی ایک قراء ت سے جماع کا ناقض وضوء ہونا ثابت ہو جائے، اور دوسری قرا ء ت سے لمس بالید کا ناقض وضوء ہونا ثابت ہو جائے ۔اس کا جواب امام جصاص یوں دیتے ہیں :
’’ فقہاء کو یہ معلوم تھاکہ یہاں د و متواتر قراء تیں ہیں اس کے باوجود کسی نے بھی اس مقام پر اس کا اعتبار نہیں کیا۔ بلکہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ قراء ت کوئی بھی ہو دو معانی میں سے ایک ہی مراد ہے۔‘‘ (الجصاص: حوالہ مذکور)
کیو نکہ تفسیر کااصول ہے کہ متشابہ کو محکم کے اوپر محمول کیا جاتا ہے۔ (أیضا)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
اس مقام پر د وقراء تیں ایک ہی معنی پرمحمول ہو نگی۔ اور باب مفاعلہ والی قرا ء ت کا معنی چونکہ متعین ہے اور مجرد والی قراء ت کامعنی محتمل ہے۔ لہٰذا باب مفاعلہ والی قراء ت پر ہی حکم کا مدار ہوگا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) مسجد حرام میں قتل وقتال کا مسئلہ
’’ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ کَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ‘‘(البقرۃ: ۱۹۱)
’’اور تم مسجد حرام میں مشرکین سے قتال نہ کرو(یعنی حرم کے پاس) جب تک کہ وہ تم سے نہ لڑیں اس جگہ ،پس اگروہ لڑیں تو تم ان کو قتل کرو،یہ ہی نافرمانوں کی سزاہے۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِختلاف قراء ات
اس آیت میں صیغہ قتال چار دفعہ استعمال ہواہے جن میں سے پہلے تین میں دو دوقراء تیں ہیں:
(١) باب مفاعلہ سے حمزہ، کسائی، خلف کے علاوہ سب قراء
(٢) باب نصر مجرد سے حمزہ ، کسائی، خلف۔ (النشر لابن الجزری: ۲/۲۲۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
صیغہ مجرد والی قراء ت کے بارے میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ (م۱۲۲۵ھ) لکھتے ہیں:
اس تقدیر پر یہ الفاظ قتل سے ہونگے مقاتلہ سے نہ ہونگے اور معنی یہ ہونگے کہ مت قتل کرو بعض کفار کو جب تک وہ قتل کریں تم میں سے بعض کو ۔ باقی قراء نے اول کے تین مقامات میں الف سے پڑھا ہے اور آخر میں الف کے بغیر پڑھا ہے۔ بعض مفسرین نے کہاہے کہ یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا کہ بلد حرام میں قتال کی ابتداء کرنا حلال نہ تھی پھراس آیت سے یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے:
’’وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ‘‘ (البقرۃ:۱۹۳)
’’اور لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد ‘‘۔
آگے لکھتے ہیں:
میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک حق یہ ہے کہ اس آیت کا حکم باقی ہے منسوخ نہیں ہے۔ قتال کی ابتداء کرنا حرم میں اب بھی ویسے ہی حرام ہے۔ (تفسیر مظہری: ۱؍۳۶۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس قول کی تائیدیہ حدیث کرتی ہے :
’’رسول اللہﷺنے فتح مکہ کے روز فرمایا کہ اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی پیدائش کے دن باحرمت کیا ہے۔ اس لئے قیامت تک اللہ کا حرام کردہ حرام رہے گا ۔مجھ سے پہلے کسی کو اس میں قتل وقتال کی اجازت نہیں ہوئی اور میرے واسطے بھی دن کی ایک ساعت کے لئے صرف حلال ہوا ہے اس کے بعد بدستور قیامت تک حرام ہے یہاں کی گھاس ، کانٹا وغیرہ نہ کاٹا جائے ،نہ یہاں کا شکار بھگا یا جائے۔‘‘ (صحیح البخاری: ۱؍۲۴۷)
٭ امام قرطبی رحمہ اللہ ( م۶۷۱ھ) لکھتے ہیں:
’’فإن قُریٔ ولا تَقْتُلوھم فالمسألۃ نصٌّ، وإن قُریٔ ولا تقاتلوھم فھو تنبیہ؛ لأنہ إذا نُھِيَ عن القتال الّذي ھو سبب القتل کان دلیلا بیّناً ظاہراً علی النہي عن القتل۔ (أحکام القرآن للقرطبی: ۲؍۳۵۲)
یعنی اگر اس صیغہ کو مجرد سے پڑھا جائے تو پھر معنی بالکل واضح ہے۔ اور یہ معنی مندجہ ذیل آیت کے بالکل موافق ہے : ’’ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ ئَامنًا ‘‘ (آل عمران :۹۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اوراگر اس صیغے کومفاعلہ سے پڑھا جائے توپھر بقول امام قرطبی رحمہ اللہ یہ آیت اس بات کے اوپر تنبیہ ہے کہ مسجد حرام میں قتال ممنوع ہے ، جو کہ قتل کا سبب بنتا ہے ،تو قتل بطریق اَولی ممنوع ہوگا ۔چنانچہ اس بارے میں تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ مسجد حرام میں قتال ممنوع ہے لیکن اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ مسجد حرام میں حدود اور قصاص کی بناپرقتل کرنا جائز ہے یا نہیں ۔امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک مسجد حرام میں قصاص لینا جائز ہے اور حد کے طورپر قتل کرنا بھی جائز ہے۔ لیکن امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ا ور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ حرم میں حدود نافذ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور ان کا یہ مذہب مذکورہ آیت میں مجرد والی قرا ء ت کے بالکل موافق ہے۔ (فتح القدیر للشوکاني: ۱؍۱۹۱)
یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب کومذکورہ آیت کی دوسری قراء ت سے تائید ملتی ہے:
’’وَلَا تَـقْـتُلُوھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ (البقرۃ:۱۹۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ قراء ات
اس آیت میں دو قرا ء توں کی بناء پر حکم میں مزید وسعت پیدا ہوتی ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب کو سامنے رکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات نے جو رائے اختیار کی ہے اس میں اختلاف قراء ت کالحاظ رکھاگیاہے۔

٭_____٭_____٭
 
Top