- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
کاش کوئی اس جانب بھی سوچے کہ کسی دارالعلوم سے فارغ التحصیل رعایت اللہ فاروقی جیسا ”عالم دین“ اپنے فیس بکی ”خود نوشت“ میں اس قسم کے فقرے فخریہ طور پر لکھے تو اس میں صاحب تحریر کے علاوہ اور کس کس کا قصور ہے۔ اور یہ تحریر فیس بک پر آجائے اور کوئی اس کی ”گرفت“ بھی نہ کرے تو یہ خود کتنا بڑا المیہ ہے
- منٹو یا عصمت چغتائی کا قلم دن کی روشنی میں طوائف کے گرد ہی گردش کر رہا ہے تو اس کا لازمی مطلب طوائف میں جنسی دلچسپی نہیں ہو سکتا کیونکہ طوائف میں جنسی دلچسپی کا چلن کچھ اور ہے اور یہ ان شریف زادوں سے سیکھا جا سکتا ہے جو تاریک رات کی آمد کا یوں بیقراری سے گھڑی دیکھ دیکھ کر انتظار کرتے ہیں جیسے جولائی کے رمضان میں روزہ دار افطار کے دسترخوان پر بیٹھا کبھی شربت کے گلاس تو کبھی گھڑی کو تکتا ہے۔ طوائف اس معاشرے کی وہ سچائی ہے جس پر قلم اٹھنے کا حق رکھتا ہے۔ اور یہ اٹھے گا، اگر اشتیاق احمد صاحب اور ان کے مریدوں جیسے شرفاء کا نہیں تو منٹو جیسے خراباتیانِ خرد باختہ کا تو اٹھے گا ہی اٹھے گا اور جب یہ اٹھے گا تو ہم جیسوں سے داد لئے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا اور داد ہی کیا "دعائے مغفرت" بھی پائے گا۔
- میرے رب اگر آپ کی مغفرت کا خزینہ میرے عہد کے پارساؤں کے دلوں کی طرح تنگ اور محدود ہے تو ادیبوں میں سے صرف اشتیاق احمد صاحب کی ہی مغفرت فرما لیجئے لیکن اگر یہ وہی مغفرت ہے جس سے نوازنے کے لئے آپ اپنے گنہگار بندوں کے گناہوں سے صرف نظر کے بہانے ڈھونڈتے ہیں تو پھر چند ہی ہفتے قبل فوت ہونے والے عبداللہ حسین صاحب کی بھی مغفرت فرمایئے اور صرف وہی کیا سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر سمیت تمام مسلم ادیبوں کی مغفرت فرمایئے کیونکہ مجھ سیاہ کار کو تو ادب کا ہر رنگ عزیز ہے۔
- اگر ابن صفی مرحوم نے بھی داڑھی رکھ اور ٹوپی اوڑھ لی ہوتی تو علماء دین و طالبانِ شرع متین جوق در جوق ان کے ناولز پڑھنے کا بھی اعتراف کر لیتے کیونکہ پڑھ انہیں بھی رکھا ہے بس ان کی داڑھی نہ ہونے کے سبب ان کے ناولز پڑھنے کا اقرار "اعتراف گناہ" کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کسی طوائف کے گھونگرو نہ چوم لوں کہ اپنے سچے گناہ پر افسردہ تو ہوتی ہے مگر اسے تقدس کے غلاف میں لپیٹ کر نہیں رکھتی۔
- شباب تو نام ہی اس کافر کا ہے جسے شرارتی آنکھ، لچکتی کمر اور اٹکتی سانس میں ہی دلچسپی ہوتی ہے