• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصاحف ِعثمانیہ اور مستشرقین کے اعتراضات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مولانا تقی عثمانی نے مصحف کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی تیاری کے وقت بنیادی طور پر انہی صحیفوں کو سامنے رکھا گیا جو حضرت ابو بکر صدیق﷜کے زمانے میں لکھے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مزید احتیاط کے لئے وہی طریقہ اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر صدیق﷜ کے عہد میں کیا گیا تھا۔ چنانچہ حضور کے زمانے کی جو متفرق تحریریں مختلف صحابہ کرام﷢ کے پاس موجود تھیں انہیں دوبارہ طلب کیاگیا اور مصحف لکھتے وقت ان کا از سر نو مقابلہ کیا گیا۔ اس مرتبہ سورۃ الاحزاب کی ایک آیت ’’ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا… ‘‘(الاحزاب :۲۳) کے علیحدہ لکھی ہوئی صرف حضرت ابو خذیمہ﷜ کے پاس ملی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آیت کسی کویاد نہ تھی، کیونکہ زید بن ثابت﷜فرماتے ہیں:’’ مجھے مصحف لکھتے وقت سورۃ احزاب کی آیت نہ ملی جو حضور کو پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ حضرت حذیفہ بن ثابت انصاری﷜کے پاس سے ملی۔(تقی عثمانی،مولانا :علوم القرآن:۱۹۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت زید﷜ اور دوسرے صحابہ کرام﷢ کو اچھی طرح یاد تھی اس طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ آیت کہیں اور لکھی ہوئی نہ تھی، کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق﷜ کے زمانے میں جو صحائف لکھے گئے ظاہر ہے کہ یہ آیت ان میں موجود تھی۔ نیز دوسرے صحابہ کرام﷢ کے پاس قرآن کریم کے جو انفرادی نسخے موجود تھے ان میں یہ آیت بھی شامل تھی۔ لیکن چونکہ حضرت ابو بکر صدیق﷜کے زمانہ کی طرح اس مرتبہ بھی تمام متفرق تحریروں کو جمع کیا گیا تھا جو صحابہ کرام﷢ کے پاس علیحدہ لکھی ہوئی بھی ملیں لیکن سورۃ الاحزاب کی یہ آیت سوائے حضرت ابوخذیمہ﷜کے کسی اور کے پاس الگ لکھی ہوئی دستیاب نہ ہوئی۔( سیوطی، جلال الدین: حوالہ مذکور۱؍۶۱)
یہ تمام تفصیلات مولانا تقی عثمانی نے پیش کی ہیں۔(تقی عثمانی، مولانا، حوالہ مذکور،۱؍۱۹۱)
علامہ جلال الدین سیوطی﷫ کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ حضرت عثمان﷜کے قرآن کے جمع کرنے کی یہ شکل ہوئی کہ جس وقت وجوہِ قراء ت میں بکثرت اختلاف پھیل گیا اور یہاں تک نوبت آگئی کہ لوگوں نے قرآن مجید کو اپنی اپنی زبان میں پڑھنا شروع کر دیا اورظاہر ہے کہ عربی کی زبانیں بہت وسیع ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک زبان کے لوگ دوسری زبانوں کو برسر غلط بتانے لگے اور اس معاملے میں سخت مشکلات پیش آنے لگیں اور بات بڑھ جانے کا خوف پیدا ہو گیا اس لیے حضرت عثمان﷜نے قرآن مجید کے صحف کو ایک ہی قبیلۂ قریش کی زبان پر اکتفاء کر لیا۔ اس بات کے لئے حضرت عثمان﷜نے دلیل یہ دی کہ قرآن مجید کا نزول در اصل قریش کی زبان میں ہوا تھا۔ اگر چہ دقت اور مشقت دور کرنے کے لئے اس کی قراء ت غیرزبانوں میں بھی کر لینے کی گنجائش دے دی گئی تھی۔ لیکن اب حضرت عثمان﷜کی رائے میں وہ ضرورت مٹ چکی تھی ۔ لہٰذا انہوں نے قرآن کی قراء ت کا انحصار محض ایک ہی زبان میں کر دیا۔ (سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور:۱۶۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
قاضی ابوبکر ’’الإنتصار‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’کہ حضرت عثمان﷜نے ان اختلافات کومٹایا جو اس وقت موجود تھے اور آپ نے آئندہ نسلوں کوفساد سے بچا لیا۔‘‘(ایضا:۱؍۶۱)
علامہ بدر الدین عینی﷫ عمدۃ القاری فی شرح البخاری میں لکھتے ہیں:
’’إنما فعل عثمان ہذا ولم یفعل الصدیق لأن غرض أبي بکر کان جمع القرآن بجمیع حروفہ ووجوہہ التي نزل بہا، وہی علی لغۃ قریش وغیرہا وکان غرض عثمان تجرید لغۃ قریش من تلک القرائات، وقد جآء ذلک مصرحاً في قول عثمان لہؤلآء الکتاب فجمع أبوبکر غیر جمع عثمان‘‘
’’یہ جو کچھ حضرت عثمان﷜ نے کیا،یہ کام حضرت ابو بکر صدیق﷜نے نہیں کیا تھا، کیونکہ ان کی غرض توقرآن مجید کو جمع کرنا تھا جس میں تمام وجوہِ لغات شامل تھیں او رحضرت عثمان﷜کی غرض بھی یہ تھی کہ لغت قریش کوبقیہ لغات سے جدا کر دیا جائے۔ چنانچہ اس بات کی تصریح حضرت عثمان﷜کے قول میں موجود ہے کہ جو انہوں نے کا تبین سے فرمایا تھا۔ اس طرح حضرت ابوبکر صدیق﷜کا جمع کرنا اور حضرت عثمان﷜ کا جمع کرناجدا جدا تھا۔ ‘‘ (عینی، بدر الدین، علامہ، حوالہ مذکور:؍۶۵۵)
ان روایات کی تصریح کرتے ہوئے علماء اسلام نے حضرت عثمان﷜ کے عمل کی یہی تشریح کی ہے کہ حضرت عثمان﷜ کا مقصد قرآن مجید کے کسی حروف کو ختم کرنا نہ تھا ، بلکہ انہیں تواس بات کا افسوس تھا کہ بعض لوگوں نے درست حروف کا انکار شروع کر دیا تھا اور بعض آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے اور اسی مقصد کے لئے آپ نے قرآن مجید کا معیاری نسخہ تیار کروایا تھا۔
یہی نقطہ نگاہ علامہ ابن حزم﷫ نے ’’الفصل فی الملل‘‘ میں۔ (ابن حزم،الفصل فی الملل والنحل:۲؍۸۱،۸۲)
مولانا عبد الحق نے تفسیر حقانی ( حقانی،عبد الحق، حوالہ مذکور:۵۲۸۵۱) کے مقدمہ میں ، علامہ زرقانی نے مناہل العرفان (زرقانی ، عبد العظیم ، محمد ، مناہل العرفان فی علوم القرآن:۱؍۲۷۲،۲۶۹،۲۸۸) میں نقل کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
کیا حضرت عثمان﷜ نے جمع قرآن کی کار وائی سیاسی مقاصد کے پیش نظر کی؟
گذشتہ صفحات میں ہم نے عہد عثمانی میں قرآن مجید کے ایک متفقہ نسخہ کی تیاری کا پس منظر ، ضرورت، اس کی تیاری اور اس کے بعد اس کے نفاذ کی تفصیلات بیان کر دی ہیں۔ ان تفصیلات کی روشنی میں مستشرقین کے پیدا کردہ ابہام خود بخود دور ہو جاتے ہیں ۔مصحف عثمانی کی تیاری محض بے مقصد کام نہ تھا، بلکہ اس کی تیاری کی بھر پور ضرورت موجود تھی ۔ یہ نسخہ کوئی نیا نسخہ نہ تھا بلکہ مصحف صدیقی کی مکمل نفی تھی۔ بعض پہلوؤں سے یہ مصحف صدیقی سے مختلف تھا (مصحف صدیقی میں’’سبعہ احرف‘‘ سے تعرض نہیں کیا جاسکتا تھا جبکہ مصحف عثمانی میں ایسا رسم الخط اختیار کیا گیا کہ جس میں تمام جائز قراء تیں سماسکیں۔ مستشرقین کے مزید اعتراضات کے جوابات ہم آئندہ صفحات میں پیش کریں گے۔ حضرت عثمانt نے قرآن مجید کا جونسخہ تیار کروایا تھا اس پر مستشرقین نے کئی ایک اعتراضات کئے ہیں ہم نے ان اعتراضات کا ذکر چند صفحات میں کیا ہے یہ اعتراضات نوعیت کے اعتبار سے باہم متصادم ہیں، اس مصحف کے حوالے سے بعض لوگوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مصحف عثمانی﷜ میں ’’سبعہ احرف‘‘ ختم کر دیئے گئے اور اس کے اندر چھ حصے قرآن مجید ضائع کر دیا گیا۔ [Jeffery,Arthur Op,.5.6]
بعض دوسرے لوگوں نے اس کے برعکس بات کی ہے کہ مصحف عثمان میں کوئی خاص بات نہ تھی اور جس طرح حضرت ابوبکر صدیق﷜کے مصحف میں کوئی ربط وترتیب نہ تھی اسی طرح یہ مصحف بھی محض اوراق کا مجموعہ ہی تھا اس کی تیاری کے بعد بھی قرآن مجید میں اختلافات موجود رہے کیونکہ دیگر مصاحف بھی لوگوں کے زیر تلاوت رہے حضرت عثمان﷜ نے ان اختلافات کو ختم کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ [Vide Bell, Richard, Intosduction the Quran ,23]
ایک گروہ کہتا ہے کہ حضرت عثمان﷜ کے مصحف کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔[Ibid,23]
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مصحف عثمانی کی ضرورت اور اسی بارے میں اصل حقیقت یہ ہے کہ
’’اگرچہ قرآن حکیم بے شمار صحابہ کرام﷢ کو زبانی یاد تھا تاہم لوگوں نے اپنے ہاں بھی لکھا ہوا تھا حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے جو نسخہ تیار کیا تھا اس میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا کہ ’’سبعہ احرف‘‘ کے نتیجے میں لکھے گئے ذاتی مصاحف کو ختم کر دیا جائے۔ لوگوں کے پاس ذاتی مصاحف بھی موجود رہے۔(سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور:۱؍۶۱)
عہد نبویﷺکے قریب زمانے میں یہ احساس نہ تھا کہ مسلمان کسی مشکل کا شکار ہو جائیں گے، کیونکہ اس وقت تک اسلام ابھی ایک مخصوص علاقے تک محدود تھالیکن جب اسلام بلاد وامصار میں پھیل گیا تو حافظے کے ساتھ ساتھ کتابت کی یکساں اہمیت محسوس کی جانے لگی اور بلاد وامصارکے مسلمانوں کو کسی ایک طریقے کے مطابق قرآن مجید پڑھایا گیا یہ بات ان میں عملا معروف نہ ہوئی کہ قرآن مجید سات حروف پرنازل ہوا ہے اس لیے پڑھاتے وقت ان میں اختلاف پیدا ہونے لگے ساتھ ہی انفرادی طور پر تیار کیے ہوئے مصاحف بھی کسی نہ کسی ’’حرف‘‘ کے مطابق تھے اور ان کے آپس میں اختلافات تھے لیکن ایک معیاری نسخہ موجود تھا۔
آئندہ سطور میں ہم مستشرقین کے اس موقف کاردّ ڈاکٹر صبحی صالح کے بیان کی روشنی میں کریں گے کہ کیا حضرت عثمانt نے محض سیاسی مقاصد کے حصول اور سیاسی پالیسی کے طور پر قرآن مجید میں مداخلت کی تھی اور اپنی مرضی کا ایک نسخہ تیار کروالیا تھا اور ارکان کمیٹی حضرت عثمانt کے آلہ کار بن گئے اور گٹھ جوڑ کر کے ایک نسخہ تیار کرلیا ۔(صبحی صالح، ڈاکٹر ، حوالہ مذکور:۷۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں:
’’حضرت عثمان﷜ کی اس کاروائی کا اصل محرک وہ لوگ تھے جن کی نشاندہی حضرت حذیفہ بن الیمان﷜ نے آذر بائیجان سے واپسی پر کی تھی لیکن مستشرقین اس کاروائی کامحرک سیاسی مقاصد کے حصول قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں ’’بلا شر‘‘ پیش پیش ہے۔ جس نے جمع وتدوین قرآن کے بارے میں حضرت عثمان﷜ کی نیت پر حملے کئے ہیں یہ تمام حملے بالکل بے بنیاد ہیں۔ مستشرقین کے پاس کوئی بنیاد نہیں کہ جس سے ثابت کیاجاسکے کہ حضرت عثمان﷜ کے پیش نظر سیاسی مقاصد کا حصول تھا اور آپ نے یہ کاروائی اس لیے بھی کی کہ مہاجرین کی اہمیت جتائی جا سکے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر صبحی صالح نے بلا شر (Blasher) کاحوالہ دیا ہے۔(ایضا:۷۹)
ڈاکٹرموصوف لکھتے ہیں کہ یہ تمام اتہام محض مستشرقین کی الزام تراشی ہے اور عبث قیاس آرائیوں کا آئینہ دار ہے اور کسی تاریخی روایت سے ان کے اس دعوی کی تائید نہیں ہوتی۔کوئی دانشور شخص یہ بات درست تسلیم نہیں کرتا کہ امام بخاری﷫ جیسے محدث کے مقابلے میں، جوکہ ثقاہت وامانت او رحفظ وضبط میں اپنی نظیر نہیں رکھتے ، مستشرقین کی ان بے سروپا باتوں کواہمیت دے۔ حضرت عثمان﷜نے اس سلسلے میں جوکمیٹی تشکیل دی اس بارے میں بھی مستشرقین نے بے سروپا باتیں کی ہیں یہ کمیٹی چار حضرات پر مشتمل ہے۔ (ایضا:۷۹)
ڈاکٹر صبحی صالح لکھتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ محدث ابن ابی داؤد ایک ہی مسئلہ پر مختلف روایتیں نقل کرنے کے شائق ہیں اگر چہ ان میں واضح تضاد پایا جاتا ہو۔ اس پر مزید یہ کہ وہ مسئلہ زیر بحث امام بخاری﷫ کے ذکر کردہ چار اشخاص کی کمیٹی کا ذکر نہیں کرتے بلکہ اس سلسلے میں قائم شدہ دیگر کمیٹیوں کا ذکر کرتے ہیں مثلاً وہ ایک کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جس کے رکن حضرت ابی بن کعب﷜ بھی تھے اسی طرح وہ ایک اور کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جو دو صحابہ کرام﷢ حضرت زید بن ثابت﷜ اورسعید بن العاص﷜ پر مشتمل تھی۔ اس کاروائی سے دو برس قبل حضرت ابی بن کعب﷜ وفات پا چکے تھے اسی طرح ایک اور کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جو بارہ اصحاب پرمشتمل تھی اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے خیالات پر صرف ایک ہی مستشرق نے کلام کیا ہے ۔ یہ مستشرق (Schwally) ہے اس نے جرح وقدح کی ہے۔ مستشرق بلاشر اس پر تعجب وحیرت کا اظہار کرتا ہے ابن ابی داؤد نے ایک ایسی کمیٹی کا بھی ذکر کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
جس کے رکن ابی بن کعب﷜ بھی تھے جواس کاروائی سے دو برس قبل وفات پا چکے تھے۔ (ایضا :۷۹)
کمیٹی کی تشکیل اور اس کے ارکان کی تعداد میں اس طرح کی روایات کے ذکر کرنے کا ان کے نزدیک مقصدیہ ہے کہ حفاظت قرآن کی ساری تاریخ کو مشکوک بنا دیا جائے۔ اس کمیٹی کے ارکان کی تعداد کے علاوہ مستشرقین نے ان حضرات کی ذات پر بھی اعتراضات کیے ہیں اس سلسلے میں بلاشر نے طرح طرح کی قیاس آرائیوں سے کام لیا وہ پہلے تینوں قریشی صحابہ کو حضرت عثمان﷜ کی طرح اُمراء وخواص میں شامل کرتا ہے۔ یہ مستشرقین اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حضرت عثمان﷜ کی شخصیت وکردار کا کیا عالم تھا؟ اس معاشرے کا نقشہ بھی ان کے ذہنوں میں موجود نہیں ہے اس معاشرے میں عوام وخواص کا تصور کہاں باقی رہ گیا تھا۔ اس معاشرے میں خلیفہ رسولﷺخلیفہ ہوتے ہوئے لوگوں کی بکریوں کا دودھ دھو آتا تھا۔ خلیفۂ ثانی جس کے ڈر سے دشمن تھر تھر کانپتے تھے ، راتوں کو بھیس بدل کر لوگوں کی خدمت کے لئے مدینہ کی گلیوں میں چکرلگایا کرتے تھے۔ ہم خود مستشرقین ہی کی کتب سے ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں کہ یہ بزرگ تقوی وپرہیز گاری میں کس مقام پر فائز تھا کیا یہ لوگ تقوی کے اس مقام پر فائز ہوتے ہوئے قرآن میں من مانی تبدیلی کرنے کی خاطر مختلف حربے استعمال کرسکتے ہیں۔
اس معاشرے میں نہ اس قسم کی کاروائی کا امکان ہو سکتا تھا اور نہ ہی ’’خواص وعوام‘‘ کی کوئی تقسیم وہاں موجود تھی ۔ جہاں حضرت عمر﷜ جیسی شخصیت سے بر سر منبر مواخذہ ہو سکتا تھا وہاں حضرت عثمان﷜ کی اس قسم کی کاروائی پر لوگ کیونکر خاموش رہ سکتے ہیں۔ (ایضا:۸۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(١) بلا شر مزید لکھتا ہے کہ یہ تینوں مکی صحابہ حضرت عثمان﷜ کے رشتہ دار تھے اس لیے وہ ایک مشترکہ مصلحت کے حصول کی خاطر باہم متفق ہو گئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کتابت قرآن مجید کا کام کسی ایسے شخص کے ہاتھوں ہو جومکہ کے علاوہ کسی اور جگہ کا رہنے والا ہو۔بلاشر اس من گھڑت قصے کی تکمیل یوں کرتا ہے کہ حضرت زید﷜ جانتے تھے کہ وہ قریش مکہ کے طبقہ خواص میں شامل ہیں اس لیے وہ ان صحابہ کرام﷢ کی رضا کو قرینِ مصلحت خیال کرتے تھے۔ (ایضا:۸۰)
بلاشرکے خیالات بعیدِ عقل وقیاس اور لایعنی ہیں۔ ان خیالات میں تناقص وتضاد پایا جاتاہے۔ اگر ہم صحابہ کرام﷢ کے معاشرے کے تقویٰ او راحتیاط کی کوئی جھلک ذہن میں رکھیں تو اس قسم کی حرکت کسی ذی ہوش انسان کے قلب ودماغ سے کوسوں دور بھاگتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کے نظریات کے بطلان کے لئے اتنی بات ہی کافی ہے کہ بلاشر نے حضرت زید بن ثابت﷜ کو تینوں مکی صحابہ کے ساتھ گٹھ جوڑ میں ملوث کر کے انہیں بلاوجہ متہم کیا ہے۔ اس کی کوئی نقلی یا عقلی دلیل موجود نہیں۔ بلاشر کے خیالات کے رد کے لئے مندرجہ ذیل باتیں قابل غور ہیں۔
تحقیق ہمیشہ استدلال کی بنیاد پر ہوتی ہے، استدلال یا توتاریخی شواہد کی بنا پر ہوتا ہے یا مختلف شواہد سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ لیکن بلاشر (Blasger) کے اس نقطہ نگاہ کے پیچھے کوئی بالواسطہ استدلال موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف انصاف اور اصول کا تقاضا ہے کہ جب وہ کوئی دلیل اپنے نقطہ نظر میں پیش نہ کر ے تو اس کی بات تسلیم نہ کی جائے خصوصاً جب وہ ایسی بات کر رہاہو جو مسلمات کے بر عکس ہو اس صورت میں مسلمانوں ہی کے اس نقطہ نگاہ کو درست تسلیم کیا جائے گا کہ حضرت عثمان﷜ کی اس کاروائی کے پیچھے نہ کوئی سازش کار فرما تھی نہ کوئی گٹھ جوڑ ہوا تھا او نہ ہی اس کاروائی سے حضرت عثمان﷜ذاتی اغراض حاصل کرنا چاہتے تھے۔(ایضا:۸۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
صحابہ کرام جہاں تقویٰ کے اعلی درجے پر فائز تھے وہاں وہ قرآن وحدیث کے بارے میں حد درجہ محتاط بھی تھے وہ حضورﷺکے ان ارشادات کی اہمیت کوخوب جانتے تھے اور ان پر عمل پیرا تھے کہ آپ نے فرمایا تھا:
’’مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘‘۔(مسلم:۱۱۰)
’’جس نے میرے بارے میں جھوٹ بات کی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
ابن کثیر﷫ نے ابن عباس﷜ سے حضورﷺکا یہ فرمان نقل کیا ہے:
’’مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْیِہ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘‘(ابن کثیر ، عماد الدین، تفسیر القرآن العظیم:۱؍۵،مقدمہ)
’’جس نے قرآن مجید میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
جبکہ مستشرقین خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس کمیٹی کے ارکان حد درجہ محتاط اور متقی تھے بلا شر لکھتا ہے:
’’اس میں شک کی کوئی شک گنجائش نہیں کہ کمیٹی کے ارکان کو اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس تھا اگرچہ وہ ان دنوں کی تنقید وتبصرہ کے طرز وانداز سے پوری طرح آشنا نہ تھے۔‘‘(صبحی صالح:ڈاکٹر،حوالہ مذکور:۸۱)
اس کی دونوں باتوں میں تضاد ہے ایک طرف ان کو ذمہ دار اور متقی قرار دیتا ہے اور دوسری طرف قرآن جیسی کتاب میں تحریف کی سازش میں ملوث قرار دیتا ہے ظاہر ہے دونوں میں سے ایک بات درست ہو سکتی ہے او رہم اس بات کو درست کہیں گے جسے تاریخ اوردلائل وشواہد ثابت کریں۔ ہم اس سلسلے میں ولیم میور کی وضاحت پیش کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے ساتھی مستشرقین کے موقف کورد کرتاہے وہ لکھتا ہے کہ اس نظرثانی میں علماء نے آیات اور قراء ات میں سے ایک ایک آیت کا پہلے نسخوں سے مقابلہ کیا۔(Mior,Willian)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس کمیٹی میں قریش صحابہ کوشامل اس لیے کیا گیا کہ قرآن انہیں کے لب ولہجہ میں نازل ہوا تھا۔(Ibid.Wiii)
میور نے بھی اس مصحف کی تیاری کا جواز تسلیم کیا ہے کہ آذربائیجان میں لوگوں کے اندر قرآن پاک کی تلاوت پر اختلاف دیکھنے میں آئے تھے۔(Ibid.Wiii)
(٢) حضرت عثمان﷜نے دیگر چند صحابہ سے مل کر اپنی پسند کا نسخہ تیار کروالیا تھا اس الزام کارد ہم مندرجہ ذیل حقائق کی روشنی میں کرسکتے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق﷜کے زمانے میں جب زید بن ثابت﷜نے تدوین قرآن کے کام کا آغاز کیا توحضرت عمر﷜نے تدوین قرآن کمیٹی کے سامنے آیت رجم پیش کی لیکن حضرت زید بن ثابت﷜نے اسے قرآن مجید میں شامل نہیں کیا۔(تفصیلات کے لئے ناسخ ومنسوخ،جلال الدین سیوطی کی کتاب الاتقان کا مطالعہ کریں۔)
اگر ایسا ہی مسئلہ ہوتا جیسا کہ مستشرقین بیان کر تے ہیں تو حضرت عمر﷜ اپنی حیثیت استعمال کرکے یہ آیت قرآن مجید میں شامل کر سکتے تھے لیکن چونکہ یہ آیت قرآن مجید کا حصہ نہ تھی اس لیے اسے شامل قرآن نہیں کیاگیا۔
حضرت زید بن ثابت﷜کہتے ہیں کہ سورۃ التوبہ کی آخری آیت ’’ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ …٭‘‘(التوبۃ:۱۲۸)
صرف ایک ہی صحابی سے ملی جب تک اس آیت کے بارے میں بھی وہ شر ائط پوری نہ ہوئیں جو اس وقت ملحوظ رکھی گئی تھیں ، اس وقت تک اسے شامل قرآن مجید نہ کیا گیا۔
یہی معاملہ عہدِ عثمانی میں سورۃ الاحزاب کی آیت: ’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ۵… ٭‘‘ (الأحزاب :۲۳) کے ساتھ پیش آیا تھا۔ (عہد نبوی میں حفاظت قرآن ، ملاحظہ فر مائیں، صبحی صالح کی کتاب علوم القرآن)
 
Top