ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اگر حضرت عثمانکے کچھ ذاتی مقاصد تھے تو ان کی تکمیل کے لئے دوسرے صحابہ کو (ان صحابہ کی بجائے) کمیٹی میں شامل کر کے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکتے تھے۔
مشہور مستشرق اسپرنگر مسلمانوں کے فن اسماء الرجال ( جو انہوں نے حضور کے ارشادات کو پرکھنے کے لئے جاری کیا تھا اور جس کی مثال دنیا کی کوئی اورقوم پیش نہ کر سکی) کے بارے میں لکھتا ہے:
’’مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے اقوال محفوظ کرنے کے لئے پانچ لاکھ لوگوں کے حالات زندگی محفوظ کر لئے۔‘‘ (شبلی نعمانی، مولانا ، سیرت اٰلنبی:۱؍۴۲)
ایسی محتاط قوم سے یہ بات کیونکر منسوب کی جاسکتی ہے کہ اس نے ملی بھگت کر کے قرآن مجید میں تغیر وتبدل کیا ہے۔
اسلامی معاشرہ اس وقت طبقاتی طور پر امیر اور غریب میں منقسم نہ تھا کہ کچھ صحابہ کو امراء کے طبقہ سے اور کچھ کو غرباء کے طبقہ سے منسوب کیا جائے۔
جس معاشرے میں ایک بڑھیا بر سرِ منبر حضرت عمر جیسے جلالی خلیفہ وقت کو کسی مسئلہ پر ٹوک سکتی ہے او رعام آدمی خلیفہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اپنا خطبہ جاری کرنے سے پہلے مجھے جواب دیں کہ ہم سب کی قمیصیں تو چھوٹی ہیں اور آپ کی قمیص بیت المال کے کپڑے سے اتنی لمبی کس طرح بن گئی ؟ اور خلیفہ کو اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔ (سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور:۲؍۱۲۴،۱۲۷)
اس معاشرے میں کیونکر گمان کیا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے قرآن حکیم میں تغیر ہو گیا اور وہ خاموش بیٹھے رہے؟
اسی سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ
حضرت عثمان کی سیاسی پالیسیوں کے ساتھ بعض لوگوں نے اختلاف کیا لیکن آپ کو بالاتفاق ’’جامع القرآن‘‘ کا خطاب دیا۔( ایضا:۱؍۶۱)
اگر جمع قرآن بھی سیاسی پالیسیوں کا حصہ تھا تو لوگ آپ کے خلاف فتنہ پیدا کرتے وقت آپ پر تحریف قرآن مجید کا الزام بھی لگاتے۔ یہ مصحف امت میں اتحاد کا باعث ہوا نہ کہ افتراق کا۔
مشہور مستشرق اسپرنگر مسلمانوں کے فن اسماء الرجال ( جو انہوں نے حضور کے ارشادات کو پرکھنے کے لئے جاری کیا تھا اور جس کی مثال دنیا کی کوئی اورقوم پیش نہ کر سکی) کے بارے میں لکھتا ہے:
’’مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے اقوال محفوظ کرنے کے لئے پانچ لاکھ لوگوں کے حالات زندگی محفوظ کر لئے۔‘‘ (شبلی نعمانی، مولانا ، سیرت اٰلنبی:۱؍۴۲)
ایسی محتاط قوم سے یہ بات کیونکر منسوب کی جاسکتی ہے کہ اس نے ملی بھگت کر کے قرآن مجید میں تغیر وتبدل کیا ہے۔
اسلامی معاشرہ اس وقت طبقاتی طور پر امیر اور غریب میں منقسم نہ تھا کہ کچھ صحابہ کو امراء کے طبقہ سے اور کچھ کو غرباء کے طبقہ سے منسوب کیا جائے۔
جس معاشرے میں ایک بڑھیا بر سرِ منبر حضرت عمر جیسے جلالی خلیفہ وقت کو کسی مسئلہ پر ٹوک سکتی ہے او رعام آدمی خلیفہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اپنا خطبہ جاری کرنے سے پہلے مجھے جواب دیں کہ ہم سب کی قمیصیں تو چھوٹی ہیں اور آپ کی قمیص بیت المال کے کپڑے سے اتنی لمبی کس طرح بن گئی ؟ اور خلیفہ کو اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔ (سیوطی، جلال الدین، حوالہ مذکور:۲؍۱۲۴،۱۲۷)
اس معاشرے میں کیونکر گمان کیا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے قرآن حکیم میں تغیر ہو گیا اور وہ خاموش بیٹھے رہے؟
اسی سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ
حضرت عثمان کی سیاسی پالیسیوں کے ساتھ بعض لوگوں نے اختلاف کیا لیکن آپ کو بالاتفاق ’’جامع القرآن‘‘ کا خطاب دیا۔( ایضا:۱؍۶۱)
اگر جمع قرآن بھی سیاسی پالیسیوں کا حصہ تھا تو لوگ آپ کے خلاف فتنہ پیدا کرتے وقت آپ پر تحریف قرآن مجید کا الزام بھی لگاتے۔ یہ مصحف امت میں اتحاد کا باعث ہوا نہ کہ افتراق کا۔