پھر ولیم میورآخری نتائج اخذ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
’’ہم پورے شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عہد عثمانی میں زید بن ثابتنے قرآن کی جس صورت میں نظر ثانی کی وہ نہ صرف حرفاً حرفاً درست ہے بلکہ اس کے جمع کرنے کے موقع پر جو اتفاقات یکجا ہو گئے ان کی رو سے بھی یہ نسخہ اس قدر صحیح ہے کہ نہ تواس میں کوئی آیت اصل وحی الٰہی سے اوجھل ہوئی اور نہ اس قسم کے کسی شائبہ کی گنجائش ہے ، نہ وہی جانبین نے ازخود کسی آیت کو قلم سے اندازکیا ہے۔[Ibid,xxi]
پس! یہی وہ قرآن ہے جسے حضرت محمدﷺنے پوری دیانت سے وامانت کے ساتھ دوسروں کوسنایا۔[Ibid,xxi]
مذکورہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین درحقیقت ’مصحف عثمانی‘ پر بے جا اعتراضات کر کے مسلمانوں کو بد ظن کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن یہ بد گمان کرنا تو دور رہا خود ان کے اقوال ہی باہم اس قدر مختلف ہوگئے کہ جن میں ایک جگہ اگر مصحف کی تنقیص کی گئی تو دوسرے مقام پر خود اسی ہی قلم سے توصیف وتحمید کے الفاظ بھی نکلے ہیں اور وہ مسلمانوں کو بدظن کرتے کرتے خود اپنے جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس مصحف کو جھٹلانا تو درکنار! خود اس اس ’حفاظت قرآن‘ سے متاثر ہو کر ان کے قدم ڈگمگا گئے ہیں۔ تویہ ہے قرآن کا اعجاز! کہ کوئی حملے کی نیت بھی کرے تو اپنی ہی ہستی کو جھٹلابیٹھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان مستشرقین کو یہ باتیں بھی دین حق کی جانب راغب نہیں کرتیں۔ اللہ نے کس قدر صحیح فرمایا ہے :
’’ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَــہٗ نُوْرًا فَمَا لَــہٗ مِنْ نُّوْرٍ٭۹ ‘‘(النور:۴۰)
’’جس کیلئے اللہ تعالی ہدایت کا سامان نہ کریں اسے کون ہدایت دے سکتا ہے۔‘‘(بشکریہ ماہنامہ محدث لاہور، ۱۹۹۳، جنور ی)
٭_____٭_____٭