• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصالح اور مفاسد میں تقابل

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصالح اور مفاسد میں تقابل

ابورجال
قرآن و حدیث میں غوروخوض اور احکام شرعیہ کے استقراء و تحقیق کے بعد یہ صاف پتہ چلتا ہےکہ شریعت اپنی تعلیمات میں تمام مخلوقات کی مصلحتوں کاخیال رکھتی ہے۔ اسی طرح شریعت کے وہ احکام جو عبادات کے متعلق ہوتے ہیں ان میں مقصود اولیں یہ ہوتا ہے کہ مخاطبین و مکلفین کی مصالح کا لحاظ کیا جائے۔ لیکن اس سلسلے میں یہ واضح رہے کہ جب شریعت اپنے احکام دیتے ہوئے بندوں کےمصالح کا لحاظ کرتی ہے تو اس میں اصل مقصود مفاسد دور کرناہوتا ہے ۔کیونکہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ جیسے جیسےمصالح کا لحاظ کرتی ہے ویسے ویسے مفاسد کا ازالہ کرتی جاتی ہے۔یعنی جس حکم میں جس قدر مصلحت کاخیال کرتی ہے اسی کے بقدر مفسدے کا ازالہ کرتی جاتی ہے۔اور مکلفین سے مفاسد کا ازالہ کرنا بھی شریعت کے مزاج میں سے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حکم شرعی کی نوعیت کی وجوہات:
درج بالابحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شریعت نے انسانی مصلحتوں کی ایجابی(مثبت) و سلبی(منفی) دوطرح رعایت کی ہے۔مصلحت کی نوعیت و کیفیت اور ایجابی و سلبی پہلووں کی وجہ سے شرعی حکم کی نوعیت پر اثر پڑتا ہے۔چناچہ کسی فعل کی تعمیل پر جس درجہ منفعت اور مصلحت کاحصول ضروری ہوتا ہے اسی کے بقدر اس کے حکم کی نوعیت میں فرق پڑ جاتا ہے مثلانماز کی ادئیگی اس وجہ سے واجب ہے کہ اس میں محکوم کے لئے بہت زیادہ مصلحت و منفعت تھی۔اور اس کی بہ نسبت مسواک کرنے میں چونکہ مصلحت کم تھی حکم کی نوعیت میں فرق آگیا ہے یعنی مندوب قرار دیا گیا ہے۔لیکن جس درجہ مصلحت و منفعت تھی اسی کے مطابق حکم آیا ہے۔اسی طرح جس فعل کے کرنے سے روکا جائے تو جس قدر اس سے بچنے میں مصلحت و منفعت ہوگی اسی کے بقدر اس حکم میں سختی آئےگی مثلالحم خنزیر کے اجتناب میں بہت زیادہ مصلحتیں اور منفعتیں تھی چناچہ اتنی ہی سختی سے اس سے روکا گیاہے یعنی اسے حرام قرار دیاگیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصالح و مفاسد معتبرہ:
مصالح و مفاسد کی من جملہ اقسام میں سے معتبرہ ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ شریعت نے اس مصلحت یا مفسدے کا اعتبار کیا ہے۔لیکن جب معتبرہ مصالح اورمعتبرہ مفاسد کے درمیان باہمی طور پر تعارض پیدا ہو جائے یعنی کسی کام کوکرنے کے دو یا اس سے زیادہ طریقے ہوں اور ان دونوں میں مفسدہ و خرابی ہو یا اسی طرح کسی کام کو کرنے میں دو یا اس سے زیادہ طریقوں میں سے ہر طریقے پر الگ الگ مصلحت کا حصول ممکن ہو رہا ہو تو اس وقت مصالح کا آپس میں اور مفاسد کا آپس میں یہ تعارض کیسے حل کرنا چاہیے۔؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس مسلے کو حل کرنے کے لئے اصولیوں نے کچھ قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں، جن سے اس تعارض کو رفع کرنا ممکن ہے۔اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ مصلحۃ عامہ(جس میں زیادہ لوگوں کا فائدہ ہو رہا ہو) کو مصلحۃ خاصہ(جس میں کم لوگوں کا فائدہ ہو رہا ہو) پر مقدم کیا جائے۔ یعنی ایک کام کےطریقے یا اس کے متبادل میں مصلحت زیادہ لوگوں کےلئے ہے تو وہی طریقہ اپنایا جائے گا۔اور اسی طرح مفاسد کے حوالے سے بھی وہ کام یا طریقہ اپنایا جائے گا جس میں مفسدہ کم ہو۔فقہائے اسلامیین نے اس کے لئے ''اھون البلیتین '' کا قاعدہ وضع کیا ہے۔
اس سلسلے میں اگر ہم مفاسد کے پہلو پر غور کریں تو درج ذیل امور سامنے آتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1۔ شریعت لوگوں سے ضرر اور نقصان دور کرنا چاہتی ہے۔
2 ۔چناچہ شرعی احکام کو جب لوگوں پر لاگو کرنا ہو تو اس طریقے سے کرنا چاہیے ان سے ضرر اور نقصان دور ہو نہ کہ پیدا ہو جائیں۔
3 ۔ضرر کو صرف اتنا دور کرنا چاہیے جتنا وہ ہو یا جس قدر وہ ہو سکتا ہو۔
4 ۔اور اگر کسی معاملے میں دوضرر ہیں تو دیکھا جائے گا ان میں سے شدید ترین ضرر یا نقصان کس میں ہے بس اسی سے اجتناب کیا جائے گا۔
پھر جس طرح اگر مصلحت کا پہلو ہو تو اس میں چند لوگوں کی بجائے زیادہ کا خیال کیا جائے گا اسی طرح مفسدہ یا نقصان کا پہلو ہو تو اس میں عام لوگوں کو نقصان سے بچانے کی کوشش کی جائے گی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ کسی معاملے میں اگر نقصان اور فائدہ برابر ہیں تو یعنی اس میں مصلحت اور مفسدہ دونوں ہی یکساں ہیں تو ترجیحی پہلو یہ ہو گا کہ مفسدے کو دور کیا جائے مصلحت چاہے حاصل ہو یا نہ ہو ۔لیکن درج بالا امور میں ہر کوئی آزاد نہیں کہ اس کی اپنی عقل مفاسد کے ازالے اور مصلحتوں کے حصول کو جس طرح مناسب معلوم کرے ویسے ہی کر لے۔ بلکہ اس کے لئے شرعی نصوص ، شریعت کے عمومی مقاصد اور قواعد عامہ میں سے کسی ایک کو لازمی طورپر دلیل بنانا پڑے گا۔نیز مسلہ کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے متعلقہ میدان کے ماہرین سے بھی معاونت لی جائے گی۔یعنی سیاست، معیشت، معاشرت اور عسکریت میں سے جس میں بھی اجتہاد کرنا ہو اسی میدان کے ماہرین سے بھی مدد لی جاگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس باب میں اگر کوئی مذکورہ شروط کا خیال نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ اپنی عقل سے اجتہاد کر کے مصلحت و مفسدے کے اصول متعین کر رہا ہے ۔چناچہ جب شرعی رہنمائی چھوڑ کر محض عقل سے ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نتیجہ فساد ہی فساد نکلے گا۔ کیونکہ بشری عقل ناقص اور محدود ہے ۔ یہ معاملات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرسکتی۔انسانی عقل ذاتی خواہشات اور میلانات کے ماتحت رہتی ہے۔یہ خاندانی ، علاقائی اور قومی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالانظریہ کی تطبیقی صورت:
مصالح اور مفاسد کی درج بالا بحث کو اب امربالمعروف اورنہی عن المنکر کی شرعی تعلیمات پر لاگو کرکے دیکھتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ نے یہ حکم دیا ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔ آپ کو معاشرے میں کوئی برائی نظر آتی ہےآپ اسے روکنے کا ارداہ رکھتے ہیں، منطقی طور پر وہاں چار صورتیں ممکن ہیں۔
1۔ پہلی یہ کہ برائی مکمل طور پر ختم ہوکر، اس کی جگہ نیکی کا بول بالا ہو جائے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے روکنے سے برائی مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوگی لیکن یہ قوی امید ہے کہ اس میں کمی واقع ہوجائے گی۔
3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ آپ کے روکنے کی وجہ سے برائی توختم نہیں ہوتی لیکن اسی مقدار کے مطابق نیکی وجود میں آجاتی ہے۔
4۔ چوتھی اور آخری صورت یہ ہےکہ جس برائی سے آپ نے لوگوں کو روکا ہے وہ ا سےچھوڑ کر اس سے بڑی برائی میں مصروف ہو جائیں گے۔
پہلے دو درجےشرعی طور پر جائز ، تیسرے میں اجتہاد کی ضرورت اور چوتھا حرام ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثالوں سے وضاحت:
مثال کے طور پرکوئی لڈو یا شطرنج کھیل رہا ہے اور اسے کوئی روکنا چاہتا ہے لیکن خدشہ ہو کہ یہ شخص اس سے زیادہ برے فعل میں مشغول ہو جائے گا یا کوئی عشقیہ ناول پڑھ رہا ہے اور خدشہ ہو کہ اگر اسے یہاں سے روکا گیا تو یہ زیادہ بدعت و گمراہی میں مصروف ہو جائے گا تو درج بالا اصول کی روشنی میں اسے منع نہیں کرناچاہیے۔ کیونکہ ایسی صورت میں عشقیہ ناولوں اور رسالوں کا ان دیگر خطرناک علوم کی نسبت نقصان کم ہوگا۔لہذا مناسب یہی ہے کہ اسے نہ روکا جائے۔ قاعدہ و اصول یہ ہے کہ دین میں ایجاد کردہ بدعت میں مصروف ہونا ،شہوانی معاصی امور میں مصروف ہونے سے زیادہ خطرناک ہے۔ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ میں اور کچھ دیگر حضرات تاتاریوں کے پاس سے گزرے وہ شراب میں مشغول تھے تو میرے ساتھیوں نے انہیں منع کرنا چاہا تو میں نے انہیں روک دیا کیونکہ شراب سے تو اس لئے منع کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے جبکہ اس طرح شراب پینے سے کم از کم یہ لوگ قتل وغارت ، لوگوں کو غلام بنانے اور ڈکیتی جیسے بڑے گناہوں سے تو باز رہیں گے۔غور کریں یہ کس قدر دقیق فقہ ہے۔
ابن قیم (اعلام الموقعین :3؍4۔ 5)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ الاسلام اس کے لئے انتہائی مختصر انداز میں چند ضوابط کی طرف اشارہ فرماتے ہیں: (مجموع الفتاویٰ:14؍481۔ 482) اسی طرح امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی بحث کے ضمن میں فرماتے ہیں (ص نمبر 21۔ 22۔ 19) (2؍4) (28؍131) (28؍167) ان تمام بحوث کا خلاصہ یہ ہے کہ :
لوگوں کومعاصی کےارتکاب سے بازرکھنےکےلئے صرف اسی قدر سختی برتی جائے جس قدر شریعت نے مقرر فرمائی ہے۔ ایسے ہی کسی فعل کے ارتکاب سے مذمت، قطع تعلقی اور شرعی حدود و تعزیرات وغیرہ کے نفاذ میں شریعت کا طے کردہ پیمانہ ہی ملحوظ رکھا جائے۔ بلکہ جو اس میں کمی و زیادتی کرے اسے اپنی سوچ میں اصلاح کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ناعاقبت اندیش لوگ اور بزعم خوایش مجتہد بننے والے اپنے تئیں اصلاح کر رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ فساد کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ شیطان ایک کام کو جو کہ درحقیقت ظلم و عدوان کا ہوتا ہے اسے امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور جہادکے انداز میں دکھاتا ہے۔ واضح رہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر والی احادیث اور آیات مطلق نہیں بلکہ ان میں فقہ و حلم اور خبر کی قیود وغیرہ شامل ہیں جنہیں عام طور پر فراموش کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں مصلحت کی بجائے مفسدہ زیادہ ہونے کا ڈر ہو تو یہاں بھی امربالمعروف حرام ہوگا جیسا کہ آپ نے ان حکمرانوں کے خلاف خروج سے منع فرما دیا تھا جو نماز کے اوقات کو مؤخر کریں گے او راب اسی قاعدہ کو عالم اسلام کے حکمرانوں پہ اور خصوصاً مصر کی صورت حال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح شام کی صورت حال اوریہ خود کش حملوں کا معاملہ ہے۔

٭٭٭٭٭
 
Top