- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
بھائی اشماریہ صاحب آپ کی محنت اللہ قبول فرمائے ۔ لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ
آپ نے دو نسخوں کی تصویریں چسپاں کی ہیں ۔ لیکن دونوں ہی محل نزاع میں مفید نہیں ۔
پہلا نسخہ
جس کے لیے رمز ( ع ) استعمال کی گئی ہے جوکہ شیخ عابد السندھی کی طرف منسوب ہے اس کے بارے میں آپ کے حنفی محقق محمد عوامہ کا یہ فیصلہ سن لیں :
و هي نسخة للاستئناس لا للاعتماد عليها ( مقدمة المحقق للمصنف ص 28 )
کہ یہ نسخہ بذات خود قابل اعتماد نہیں ہے ۔
دوسرا نسخہ
جس کے لیے رمز ( ت ) استعمال کی گئی ہے جو کہ شیخ زبیدی رحمہ اللہ کا نسخہ کہلاتا ہے ۔ وہ بھی آپ کے لیے دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس میں مطلوبہ مقام پر سقط کا احتمال ہے ۔
اس بات کی وضاحت کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ ( بتحقیق محمد عوامہ ) حدیث وائل اور اس سے بعد والی دو روایات ملاحظہ فرمائیں :
3959- حدثنا وكيع ، عن موسى بن عمير ، عن علقمة بن وائل بن حجر ، عن أبيه ، قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه على شماله في الصلاة
(تحت السرة.)
3960- حدثنا وكيع ، عن ربيع ، عن أبي معشر ، عن إبراهيم ، قال : يضع يمينه على شماله في الصلاة
تحت السرة.
3961- حدثنا وكيع ، قال : حدثنا عبد السلام بن شداد الجريري أبو طالوت ، عن غزوان بن جرير الضبي ، عن أبيه ، قال : كان علي إذا قام في الصلاة وضع يمينه على رسغه ، فلا يزال كذلك حتى يركع متى ما ركع ، إلا أن يصلح ثوبه ، أو يحك جسده.
ان تینوں روایات پر غور کریں اور پھر نسخہ (ت ) پر بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں وہ حصہ جس کو میں نے پیلے رنگ سے نمایاں کیا ہوا ہے ساقط ہوگیا ہے ۔ اور ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے وہ الفاظ جو ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اثر کے ساتھ تھے وہ حدیث وائل کے ساتھ جڑ گئے ہیں ۔
اور اس بات کی واضح اور بین دلیل یہ ہےکہ آپ کے پیش کردہ نسخہ ( ت ) میں امام نخعی کا اثر موجود ہی نہیں ۔ جبکہ دیگر نسخوں میں یہ موجود ہے ۔
اس تفصیل کے بعد اگر آپ شیخ محمد عوامہ کی تحقیق کے ساتھ یہ مقام ملاحظہ فرمائیں گے تو تعجب ہوگا کہ کس طرح انہوں نےسب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بنا کسی دلیل ( فیما أعلم ) حدیث وائل کے ساتھ ’’ تحت السرۃ ‘‘ کا اضافہ بھی باقی رکھا اور ابراہیم نخعی کے اثر کو بھی باقی رکھا ۔
حالانکہ جن نسخوں میں ابراہیم نخعی کا اثر ہے ان میں حدیث وائل کےساتھ ’’تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ نہیں اورجن میں ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں ان میں ابراہیم نخعی کا اثر نہیں ۔
واللہ اعلم ۔
اور اس سےبھی بڑھ کر ان لوگوں کی جرأت ہےجو ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ کے بغیر کتابیں چھاپنے والوں کو ’’ محرفین ‘‘ کا لقب دے دیتے ہیں ۔
آخر کس بنیاد پر اس تحریف کا الزام ۔۔۔۔؟؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے مذہبی اور ذاتی رجحانات کو ’’ متن کتاب ‘‘ کا حصہ نہیں بننے دیا ؟
آپ نے دو نسخوں کی تصویریں چسپاں کی ہیں ۔ لیکن دونوں ہی محل نزاع میں مفید نہیں ۔
پہلا نسخہ
جس کے لیے رمز ( ع ) استعمال کی گئی ہے جوکہ شیخ عابد السندھی کی طرف منسوب ہے اس کے بارے میں آپ کے حنفی محقق محمد عوامہ کا یہ فیصلہ سن لیں :
و هي نسخة للاستئناس لا للاعتماد عليها ( مقدمة المحقق للمصنف ص 28 )
کہ یہ نسخہ بذات خود قابل اعتماد نہیں ہے ۔
دوسرا نسخہ
جس کے لیے رمز ( ت ) استعمال کی گئی ہے جو کہ شیخ زبیدی رحمہ اللہ کا نسخہ کہلاتا ہے ۔ وہ بھی آپ کے لیے دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس میں مطلوبہ مقام پر سقط کا احتمال ہے ۔
اس بات کی وضاحت کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ ( بتحقیق محمد عوامہ ) حدیث وائل اور اس سے بعد والی دو روایات ملاحظہ فرمائیں :
3959- حدثنا وكيع ، عن موسى بن عمير ، عن علقمة بن وائل بن حجر ، عن أبيه ، قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه على شماله في الصلاة
(تحت السرة.)
3960- حدثنا وكيع ، عن ربيع ، عن أبي معشر ، عن إبراهيم ، قال : يضع يمينه على شماله في الصلاة
تحت السرة.
3961- حدثنا وكيع ، قال : حدثنا عبد السلام بن شداد الجريري أبو طالوت ، عن غزوان بن جرير الضبي ، عن أبيه ، قال : كان علي إذا قام في الصلاة وضع يمينه على رسغه ، فلا يزال كذلك حتى يركع متى ما ركع ، إلا أن يصلح ثوبه ، أو يحك جسده.
ان تینوں روایات پر غور کریں اور پھر نسخہ (ت ) پر بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں وہ حصہ جس کو میں نے پیلے رنگ سے نمایاں کیا ہوا ہے ساقط ہوگیا ہے ۔ اور ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے وہ الفاظ جو ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اثر کے ساتھ تھے وہ حدیث وائل کے ساتھ جڑ گئے ہیں ۔
اور اس بات کی واضح اور بین دلیل یہ ہےکہ آپ کے پیش کردہ نسخہ ( ت ) میں امام نخعی کا اثر موجود ہی نہیں ۔ جبکہ دیگر نسخوں میں یہ موجود ہے ۔
اس تفصیل کے بعد اگر آپ شیخ محمد عوامہ کی تحقیق کے ساتھ یہ مقام ملاحظہ فرمائیں گے تو تعجب ہوگا کہ کس طرح انہوں نےسب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بنا کسی دلیل ( فیما أعلم ) حدیث وائل کے ساتھ ’’ تحت السرۃ ‘‘ کا اضافہ بھی باقی رکھا اور ابراہیم نخعی کے اثر کو بھی باقی رکھا ۔
حالانکہ جن نسخوں میں ابراہیم نخعی کا اثر ہے ان میں حدیث وائل کےساتھ ’’تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ نہیں اورجن میں ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں ان میں ابراہیم نخعی کا اثر نہیں ۔
واللہ اعلم ۔
اور اس سےبھی بڑھ کر ان لوگوں کی جرأت ہےجو ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ کے بغیر کتابیں چھاپنے والوں کو ’’ محرفین ‘‘ کا لقب دے دیتے ہیں ۔
آخر کس بنیاد پر اس تحریف کا الزام ۔۔۔۔؟؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے مذہبی اور ذاتی رجحانات کو ’’ متن کتاب ‘‘ کا حصہ نہیں بننے دیا ؟