اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
اگر آپ کو بُرا لگا تو مجھے معاف کیجئے گا۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن ہائی لائٹ کردہ بات غالبا درست نہ ہو! ابتسامہ
اگر آپ کی عمر مجھ سے کم ہو تو میں آپ کی علمیت پر بہت متعجب ہوں گا۔ اللہ پاک آپ کے علم میں اضافہ فرمائے۔
محترم بھائی! آپ شاید روایت اور واقعہ میں فرق نہیں کر رہے۔جی بالکل، اور جب ایک ہی راوی کی روایت کو بیان کرنے میں اس کے شاگرد اختلاف کریں تو ان میں بھی تطبیق ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ ان کے استاد نے انہیں دو مختلف احادیث بیان کیں۔ راوی کو اختیار ہوتا ہے کہ ایک ہی روایت کو کبھی طوالت سے بیان کرے تو کبھی اسی کو اختصار سے بیان کرے۔ کبھی کسی لفظ کو بیان کرے تو کبھی کسی لفظ کو۔ اور بعض اوقات اختلاف راوی کے اپنے وہم سے بھی ہوتا ہے۔ تو کیا راوی جتنے الفاظ بیان کرے وہ سب اتنی الگ الگ حدیثیں بن جاتی ہیں!؟ جب کہ وہ واقعہ یا وہ تحدیث تو صرف ایک ہی بار ہوا تھا۔ اختلاف تو بعد کے راویوں سے آیا ہے!
دیکھیں ایک تو واقعہ ہوتا ہے جو پیش آیا ہو جیسے یہ ورقہ کا واقعہ جو عائشہ رض نے بیان کیا ہے۔
دوسری اس واقعہ کی روایت ہوتی ہے جو دو بندے یا ایک ہی بندہ الگ الگ چیزوں کے ساتھ کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر میرے ساتھ ایک واقعہ ہوا۔ میرے اوپر کچھ برتن گرتے ہیں۔
اس واقعہ کو مجھ سے ارسلان بھائی روایت کرتے ہیں: "میرے اوپر شیشے کا ایک گلاس گرا۔"
اسی واقعہ کو مجھ سے عبدہ بھائی روایت کرتے ہیں: "میرے اوپر پلاسٹک کا ایک گلاس گرا۔"
دونوں ثقہ ثبت ہیں۔ آپ اس میں تطبیق کیسے دیں گے؟ علماء اسے یوں کہیں گے کہ "اشماریہ پر ایک شیشے کا اور ایک پلاسٹک کا گلاس گرا۔"
اب اس میں واقعہ ایک ہے اور روایات دو۔
اسی طرح کبھی ایک شخص سے بھی دو روایات مروی ہوتی ہیں۔ جیسے اسی واقعہ میں آپ یعنی رضا میاں ایک بار پہلی اور دوسری بار دوسری روایت کریں۔ خضر بھائی جب اسے لکھیں گے تو دونوں لکھیں گے اور دونوں کا راوی ایک ہی یعنی آپ ہوں گے۔ اور دونوں میں تطبیق کرتے وقت یہی کہا جائے گا کہ "اشماریہ پر ایک شیشے کا اور ایک پلاسٹک کا گلاس گرا۔"
تو واقعہ تو ایک ہوتا ہے لیکن روایات دو ہوتی ہیں۔ دو روایات سے واقعہ کا دو ہونا لازم نہیں آتا۔
اس تمہید کے بعد اپنی دی ہوئی مثال کی طرف آئیے:۔
ایک مثال دیتا ہوں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غار حرا میں پہلی وحی والا قصہ مشہور ہے۔ جب خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ کو ورقۃ بن نوفل کے پاس لے کر جاتی ہیں تو بخاری میں ورقہ کا ذکر اس طرح درج ہے:
فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ العُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الكِتَابَ العِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ
یعنی اس روایت کے مطابق ورقہ عبرانی میں انجیل کو لکھا کرتے تھے۔ جبکہ بخاری ہی میں ایک دوسری جگہ یہی حدیث اسی مخرج (؟؟؟) سے اس طرح بیان کیا گئی:
فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَانْطَلَقَتْ بِهِ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ وَكَانَ رَجُلًا تَنَصَّرَ يَقْرَأُ الْإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ
اور ای طرح مسند احمد میں بھی یہی حدیث اسی مخرج کے ساتھ اس طرح بیان کی گئی ہے:
ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ , وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا , وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ , فَكَتَبَ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ
اب اس روایت کے بطابق ورقہ عبرانی میں نہیں بلکہ عربی میں لکھا کرتے تھے! اب دونوں میں اختلاف آ گیا بلکہ بہت واضح اور ہماری زیرِ بحث روایت سے بھی بڑا اختلاف ہے جبکہ روایت ایک ہی ہے، اور مخرج بھی ایک ہے۔ تو کیا اب آپ یہ کہیں گے کہ یہ دونوں روایتیں مختلف ہیں! جبکہ یہ قصہ تو ایک ہی تھا!! ان کا دو مختلف واقعات ہونا ممکن نہیں ہے!
لیکن حافظ ابن حجر نے دونوں میں تطبیق کرتے ہوئے فرمایا:
والجميع صحيح لأن ورقة تعلم اللسان العبراني والكتابة العبرانية فكان يكتب الكتاب العبراني كما كان يكتب الكتاب العربي لتمكنه من الكتابين واللسانين فتح الباری۔
یہ دو روایات ہیں اور واقعہ اسی طرح ایک ہے۔ عقیل نے جب ابن شہاب سے روایت کی ہے تو کہا ہے الکتاب العبرانی۔ اور یونس اور معمر نے جب روایت کی ہے ابن شہاب سے تو کہا ہے الکتاب العربی۔
حافظؒ فتح الباری میں فرماتے ہیں۔
قوله فكان يكتب الكتاب العبراني فيكتب من الإنجيل بالعبرانية وفي رواية يونس ومعمر ويكتب من الإنجيل بالعربية ولمسلم فكان يكتب الكتاب العربي والجميع صحيح لأن ورقة تعلم اللسان العبراني والكتابة العبرانية فكان يكتب الكتاب العبراني كما كان يكتب الكتاب العربي لتمكنه من الكتابين واللسانين
اب جب روایات الگ الگ آگئیں، دونوں کے رواۃ ثقہ ہیں اور واقعہ ایک ہے تو ہم جمع کرتے ہیں۔ یعنی دونوں روایات کا ایسا محمل بیان کرتے ہیں جس پر دونوں صحیح ہو جائیں چناں چہ حافظ نے جیسے جمع کیا ہے وہ مذکور ہے ہی۔ نوویؒ نے اس طرح جمع کیا ہے کہ وہ کہیں عربی میں اور کہیں عبرانی میں لکھتے تھے۔
تو خلاصہ کلام واقعہ ایک ہوتا ہے اور روایات الگ الگ۔ چاہے رواۃ ایک ہی ہوں یا الگ الگ ہوں۔ جمع اسی لیے کیا جاتا ہے۔
ایک ہی واقعہ ہو، ایک ہی رواۃ ہوں اور ایک ہی روایت ہو لیکن الفاظ الگ الگ ہوں اور ان الفاظ کے معانی میں بھی فرق ہو ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب راوی کو وہم لگا ہو۔ اس نے ایک بار ایک ذکر کیا اور دوسری بار دوسرا۔ لیکن یہ حکم لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اسی طرح اسی بخاری کی روایت میں اماں خدیجہ رضی اللہ عنہ، ورقہ کو پکارتے ہوئے فرماتی ہیں:
يا بن عم یعنی ایک میرے چچا کے بیٹے۔
جبکہ مسلم کی روایت میں الفاظ ہیں: "يا عم" اے چچا!
اب آپ ہی دیکھ لیں ایک ہی روایت، ایک ہی مخرج، مگر الفاظ میں واضح اختلاف۔ یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ یہ دو مختلف واقعات۔ حافظ ابن حجر ان دونوں کی تطبیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قولها يا بن عم هذا النداء على حقيقته ووقع في مسلم يا عم وهو وهم لأنه وأن كان صحيحا لجواز إرادة التوقير لكن القصة لم تتعدد ومخرجها متحد فلا يحمل على أنها قالت ذلك مرتين فتعين الحمل على الحقيقة"
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مختلف الفاظ سے مروی روایت کے مخرج ایک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ روایت ایک ہی ہے۔ اور وہ واقعہ یا قول دو مختلف مقامات پر نہیں بولے گئے!
یہاں ذرا سا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بخاری میں ہے یابن عم۔ راوی ہیں یونس عن ابن شہاب۔ مسلم میں ہے ای عم۔ راوی ہیں یونس عن ابن شہاب۔
اب یہاں ایک ہی راوی ہیں اور الفاظ دو۔ سوال یہ ہے کہ انہیں الگ الگ روایات کیوں نہیں کہہ سکتے؟ یا انہیں تطبیق کی صورت میں الگ الگ جگہوں پر محمول کیوں نہیں کر سکتے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں میں ان الفاظ کے ادا کی ایک خاص جگہ متعین ہے۔ اور وہ ہے ورقہ کے پاس پہنچ کر خدیجہ رض کا ایک خاص انداز و الفاظ سے بات شروع کرنا۔
وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت خديجة: يا ابن عم، اسمع من ابن أخيك (بخاری)
وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت له خديجة: أي عم، اسمع من ابن أخيك(مسلم)
یہ کلام دو الگ جگہوں پر جا ہی نہیں سکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کلام کی ابتدا دو بار کی گئی ہو یکساں الفاظ سے۔ اس لیے یہ کہا گیا ہے كہ یہ وہم ہے۔ لیکن کس کا وہم بخاری کا یا مسلم کا؟ تو دیگر قرائن کی بنیاد پر مسلم کا وہم قرار دیا گیا ہے۔
مخرج سے مراد میرے خیال میں مخرج کلام ہے اور ایک ہونے کا مطلب کلام کی ابتدا کرنا ہے اس سے۔ واللہ اعلم
(یاد رہے کہ یہ حافظؒ کے نقطہ نظر سے وضاحت ہے۔ ورنہ میرے خیال میں اس میں بھی تطبیق ممکن ہے اور نوویؒ نے بھی تطبیق کی ہے۔)
اب ہم اپنی روایت کی طرف آتے ہیں۔
ایک ہی رواۃ نے روایت کی ہے قبض اور انہی نے وضع۔ لیکن مخرج کلام ایک ہونا کہیں سے متعین نہیں۔
میں کہتا ہوں کہ یہ دو روایات ہیں۔ اس پر تین قرائن ہیں:۔
- دونوں کے معانی میں واضح فرق ہونا۔
- آخر میں علقمہ کے فعل کا ذکر ہونا۔
- مبارکپوریؒ کا انہیں مختلف افعال ذکر کرنا اور ان میں تطبیق کرنا۔
چوں کہ دونوں روایات میں واضح تطبیق ممکن ہے اس لیے اسے وہم کہہ ہی نہیں سکتے۔
اگر میرے محترم بھائی آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں روایات ایک ہی ہیں جبکہ معانی میں واضح فرق تو ہے ہی تو آپ کو یہ بتانا ہوگا کہ کس راوی کو وہم لگا ہے یا دوسرے لفظوں میں کس راوی نے روایت کے معنی میں کمی یا زیادتی کی ہے؟
اب آخر میں میں آپ کے چند اشکالات کا حل لکھتا ہوں:۔
مکرمی! جس میں معنی اتنے تبدیل ہو جائیں وہ ذرا سا اختلاف نہیں ہوتا۔ جہاں افعال مختلف ہوں وہ بھی ذرا سا اختلاف نہیں ہوتا۔لیکن آپ کہتے ہیں کہ ذرا سا اختلاف ہونے سے روایت ہی بدل جاتی ہے جو کہ بعید از عقل ہے!
ذرا سے اختلاف کا تو میں نہیں کہہ رہا۔ اگر اختلاف "ذرا سا" ہو اور معنی ایک ہوں تو وہ تو روایت بالمعنی ہوتی ہے۔اگر آپ کے اصول کو اپنایا جائے تو آپ کے نزدیک روایت میں وہم، شذوذ، اور بالمعنی روایت وغیرہ جیسی چیزوں کا نام و نشان ہی ختم ہو جائے گا کیونکہ جہاں پر بھی ذرا سا اختلاف ہوا آپ کے نزدیک وہ روایت ہی بدل جائے گی پھر اس پر شذوذ یا راوی کے وہم وغیرہ کا حکم لگانا ہی بیکار ہے۔
شذوذ اور وہم وغیرہ کے الزام کوئی معمولی چیز نہیں ہیں۔ یہ زیادہ ہو جائیں تو بسا اوقات راوی کو مجروح کر دیتے ہیں۔ اس لیے اس الزام سے پہلے اگر راوی مضبوط ہو تو قرائن دیکھنے ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر روایت میں میں نے ذکر کیا۔
پھر اگر اسے تسلیم کر لیں تو وہی سوال آتا ہے کہ آپ ان دونوں میں سے کس روایت میں وہم مانیں گے؟
عجیب! کیا کوئی روایت عدم ذکر یا سکوت پر بھی متابعت کرتی ہے؟ یہ بعید از عقل معلوم ہوتا ہے۔الحمد للہ ، ہم بھی تو وہی کہہ رہے ہیں نہ کہ یہ دونوں (آپ کے مطابق) مختلف روایتیں ایک دوسرے کی ایک ہی معنی پر متابعت کر رہی ہیں یعنی "تحت السرۃ" کے عدم موجودگی پر۔ تو اب انہیں ایک دوسرے کی متابعت کے طور پر لینے میں کیا چیز مانع ہے؟
ایک میں تحت السرہ کا ذکر نہیں اور دوسری اس کی متابع ہے اس وجہ سے کہ اس میں بھی تحت السرہ کا ذکر نہیں؟ میرے محترم متابعت میں نے تو انہی روایات میں دیکھی ہے جہاں دوسری روایت پہلی کے الفاظ یا معنی میں سے کسی چیز کو مضبوط کر رہی ہو۔ یعنی موجود چیز کو۔ کسی غیر موجود چیز کو مضبوط کرنا معنی ہی نہیں رکھتا۔
نہ ہی عدم ذکر کو مضبوط کرنا کوئی معنی رکھتا ہے۔ اس طرح تو بے شمار روایات ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں لیکن کسی چیز کے ذکر نہ کرنے میں دونوں مشترک ہیں تو کیا انہیں کوئی ایک دوسرے کے متابع کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟
شعیب ارناؤوط وغیرہم نے بھی متابعت اس چیز میں پیش کی ہوگی جو موجود ہے یعنی استعمال الیمین یا لفظ "علی" سے مترشح ہوتا معنی۔ ("ہوگی" اس لیے کہ میں نے ابھی تک خود ان کی تحقیق نہیں دیکھی حوالہ جات نہ ہونے کی وجہ سے اور آپ کے کہنے پر اعتماد کر رہا ہوں۔) اگر کسی محقق نے اسے تحت السرہ کی عدم موجودگی پر متابع قرار دیا ہے تو اس سے بھی میں یہی اختلاف کروں گا کہ عدم ذکر پر متابعت کیسے ہو سکتی ہے؟