عمران اسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 333
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 204
(محمد نعمان اصغر)
بینکنگ سسٹم کو جدید معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے اور بہت حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ ہمارے موجودہ معاشی نظام میں بینک جہاں اور بہت سی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے وہیں اس کا ایک اہم ترین کام زر کی تخلیق ہے۔ ہم بینک کے سودی نظام کے حوالے سے بہت حد تک واقف ہیں، لیکن زر کو مصنوعی طور پر تخلیق کرنے میں بینک کیا کردار ادا کرتا ہے اور کس طرح سے زر کی رسد میں اضافہ کرتا ہے اور پھر اس سے معیشت اور عوام پر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پہلو کی طرف ہماری توجہ بہت ہی کم ہے۔ ہمارے لیے تخلیقِ زر کے عمل اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج و عواقب کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ایک طرف دجالی تہذیب کے دجل و فریب پر مبنی اس نظام کے نقصانات اور منفی اثرات ہم پر آشکار ہوسکیں اور دوسری طرف اسلامی معاشی نظام کی خوبیاں بھی واضح ہوکر نمایاں ہوسکیں۔
کاغذی کرنسی
زر کی مصنوعی تخلیق کا ایک بڑا سبب کاغذی کرنسی ہے۔ جب تک دنیا میں حقیقی کرنسی یعنی سونا چاندی کا رواج رہا، زر کی مصنوعی تخلیق ممکن نہ تھی اور دولت صرف اپنی حقیقی شکل میں دنیا میں پائی جاتی تھی۔ مگر جونہی کاغذی کرنسی دنیا میں رائج ہوئی تو زر کی مصنوعی طور پر تخلیق کا عمل آسان ہوگیا۔ کاغذی کرنسی کے ذریعے تخلیق زر کے عمل کو ہم چند نکات میں سمجھ سکتے ہیں۔
١۔ کاغذی کرنسی کوئی حقیقی زر نہیں، بلکہ ایک غیر حقیقی اور مصنوعی زر ہے۔ حقیقی زر اسے کہتے ہیں جس کی اپنی مالیت ہو اور اپنی ذات کے اعتبار سے اس کی قدر وقیمت ہو جیسے سونا اور چاندی کہ ان کی ذاتی قدر ہے جسے پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے باوجودیکہ انہیں دنیا میں کہیں بھی قانونی ٹینڈر کی حیثیت حاصل نہیں۔ اس کے برخلاف اگر کاغذی کرنسی کو دیکھیں تو اس کی اپنی ذاتی کوئی وقعت نہیں، یہ محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس میں قدر صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ حکومت نے اسے قانونی ٹینڈر بنایا اور عوام نے اسے قبول کیا۔
٢۔ جب کسی ریاست کو ملک چلانے کے لیے قرض کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ مرکزی بینک کی طرف رجوع کرتی ہے۔ مرکزی بینک کاغذ لے کر اس پر خوبصورت سی چھپائی کرتا ہے، کاغذ پر رقم لکھی جاتی ہے اور یوں بینک نوٹ چھاپ کر حکومت کے حوالے کردیتا ہے۔ اس کے بدلے میں حکومت بھی کاغذ لے کر اس پر مخصوص قسم کی چھپائی کرتی ہے، اس پر رقم لکھی جاتی ہے اور اس طرح بانڈ تیار کرکے مرکزی بینک کو دے دیتی ہے۔ پھر حکومت مرکزی بینک سے ملنے والی رقم مختلف بینکوں میں جمع کروادیتی ہے اور اس طرح سے نئے زر کی تخلیق ہوجاتی ہے جسے باقاعدہ قانونی ٹینڈر کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں: فرض کریں کہ پاکستانی حکومت کو دس ارب روپے ملکی امور چلانے کے لیے درکار ہیں۔ حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے دس ارب روپے قرض طلب کرتی ہے جسے بینک منظور کرلیتا ہے۔اب بینک یہ کرتا ہے کہ دس ارب روپے کے نئے کاغذی نوٹ چھاپتا ہے اور حکومت کے حوالے کردیتا ہے اور بدلے میں حکومت بھی دس ارب روپے کے بانڈ چھاپتی ہے اور سٹیٹ بینک کو دے دیتی ہے۔ پاکستانی حکومت دس ارب روپے وصول کرکے مختلف بینکوں میں اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروادیتی ہے اور اس طرح دس ارب روپے کی خطیر رقم سرکولیشن میں آجاتی ہے جو اب باقاعدہ قانونی ٹینڈر بن چکی ہوتی ہے۔
اس مثال میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دس ارب روپے مالیت کا زر کتنی آسانی سے تخلیق کرلیا گیا۔ اس مقصد کے لیے صرف کاغذ اور مخصوص قسم کی روشنائی درکار تھی۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے کو پرنٹ کرکے اس پر 5000 لکھا اور وہ اتنی ہی مالیت کا قانونی زر بن گیا۔
٣۔ نوٹ چھاپنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس سے کرنسی کی قدر میں کمی آجاتی ہے۔ اگر ایک روپیہ بھی نیا تخلیق ہو تو اس کی وجہ سے باقی تمام نوٹوں کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ لہذا جتنے نوٹ تخلیق ہوں گے اتنا ہی اس کی قدر میں کمی آتی چلی جائے گی۔ جب مرکزی بینک نئے نوٹ چھاپتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کروڑوں لوگوں کی ملکیت میں موجود نوٹوں کی قدر کو جبری طور پر گرادیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بینک نوٹ چھاپ کر لوگوں سے ان کی دولت کا ایک حصہ چرالیتا ہے اور یہ ایسی چوری ہے جس کا عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چلتا اور نہ ہی کوئی شکایت کرتا ہے۔
۴۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تخلیقِ زر کی یہ ساری کاروائی کمپیوٹر پر ہوتی ہے اور حقیقت میں کاغذی کرنسی کو چھاپنے کا عمل ہوتا ہی نہیں۔ یعنی حکومت بینک سے جب قرض مانگتی ہے تو بینک بجائے نوٹ چھاپ کر دینے کے حکومت کے اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم کا اضافہ کردیتا ہے اور یوں نیا زر تخلیق ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت میں نہ کوئی کرنسی چھاپی گئی اور نہ ہی اسے حکومت کو دیا گیا۔ درجِ بالا مثال کو ہی لے لیجیے کہ حکومت کو دس ارب روپے کی ضرورت تھی تو بینک نے بجائے کرنسی نوٹ چھاپنے کے حکومت کے اکاؤنٹ میں دس ارب روپے کا اضافہ کردیا اور یہ سب کچھ کمپیوٹر پر صرف اعداد بدلنے سے ممکن ہوگیا۔ اس صورت میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ چونکہ حقیقی طور پر کرنسی کی تخلیق ہوئی ہی نہیں لہذا یہ دس ارب روپے مصنوعی طور پر تخلیق کیے گئے اور دنیا میں کہیں بھی حقیقی شکل میں اس زر کا وجود نہیں۔
۵۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ایسا ہے کہ زر کی ٹوٹل سپلائی کا بہت کم حصہ کاغذی کرنسی کی شکل میں ہوتا ہے جبکہ سپلائی کا اکثر حصہ صرف کمپیوٹر میں اکاؤنٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ پاکستانی روپے کی ٹوٹل سپلائی 100 کھرب روپے ہے یعنی اس وقت دنیا میں 100 کھرب روپے سرکولیشن میں ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اتنی ہی مالیت کے کاغذی نوٹ حقیقی طور پر بھی موجود ہوں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا اور بہت ہی کم نوٹ حقیقی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 100 کھرب میں سے تقریبا 10 کھرب روپے حقیقی کاغذی کرنسی موجود ہوگی جبکہ باقی 90 کھرب روپے صرف کمپیوٹرز پر اکاؤنٹ کی صورت میں موجود ہوں گے اور ان کا خارج میں کوئی حقیقی وجود نہیں ہوگا۔ امریکی کرنسی ڈالر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ٹوٹل زر کا صرف تین فیصد حقیقی کرنسی کی شکل میں موجود ہے جبکہ باقی ستانوے فیصد زر کا کوئی حقیقی وجود نہیں اور وہ محض کھاتوں کی صورت میں کمپیوٹرز وغیرہ پر موجود ہے۔
بینکنگ سسٹم کو جدید معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے اور بہت حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ ہمارے موجودہ معاشی نظام میں بینک جہاں اور بہت سی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے وہیں اس کا ایک اہم ترین کام زر کی تخلیق ہے۔ ہم بینک کے سودی نظام کے حوالے سے بہت حد تک واقف ہیں، لیکن زر کو مصنوعی طور پر تخلیق کرنے میں بینک کیا کردار ادا کرتا ہے اور کس طرح سے زر کی رسد میں اضافہ کرتا ہے اور پھر اس سے معیشت اور عوام پر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پہلو کی طرف ہماری توجہ بہت ہی کم ہے۔ ہمارے لیے تخلیقِ زر کے عمل اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج و عواقب کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ایک طرف دجالی تہذیب کے دجل و فریب پر مبنی اس نظام کے نقصانات اور منفی اثرات ہم پر آشکار ہوسکیں اور دوسری طرف اسلامی معاشی نظام کی خوبیاں بھی واضح ہوکر نمایاں ہوسکیں۔
کاغذی کرنسی
زر کی مصنوعی تخلیق کا ایک بڑا سبب کاغذی کرنسی ہے۔ جب تک دنیا میں حقیقی کرنسی یعنی سونا چاندی کا رواج رہا، زر کی مصنوعی تخلیق ممکن نہ تھی اور دولت صرف اپنی حقیقی شکل میں دنیا میں پائی جاتی تھی۔ مگر جونہی کاغذی کرنسی دنیا میں رائج ہوئی تو زر کی مصنوعی طور پر تخلیق کا عمل آسان ہوگیا۔ کاغذی کرنسی کے ذریعے تخلیق زر کے عمل کو ہم چند نکات میں سمجھ سکتے ہیں۔
١۔ کاغذی کرنسی کوئی حقیقی زر نہیں، بلکہ ایک غیر حقیقی اور مصنوعی زر ہے۔ حقیقی زر اسے کہتے ہیں جس کی اپنی مالیت ہو اور اپنی ذات کے اعتبار سے اس کی قدر وقیمت ہو جیسے سونا اور چاندی کہ ان کی ذاتی قدر ہے جسے پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے باوجودیکہ انہیں دنیا میں کہیں بھی قانونی ٹینڈر کی حیثیت حاصل نہیں۔ اس کے برخلاف اگر کاغذی کرنسی کو دیکھیں تو اس کی اپنی ذاتی کوئی وقعت نہیں، یہ محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس میں قدر صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ حکومت نے اسے قانونی ٹینڈر بنایا اور عوام نے اسے قبول کیا۔
٢۔ جب کسی ریاست کو ملک چلانے کے لیے قرض کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ مرکزی بینک کی طرف رجوع کرتی ہے۔ مرکزی بینک کاغذ لے کر اس پر خوبصورت سی چھپائی کرتا ہے، کاغذ پر رقم لکھی جاتی ہے اور یوں بینک نوٹ چھاپ کر حکومت کے حوالے کردیتا ہے۔ اس کے بدلے میں حکومت بھی کاغذ لے کر اس پر مخصوص قسم کی چھپائی کرتی ہے، اس پر رقم لکھی جاتی ہے اور اس طرح بانڈ تیار کرکے مرکزی بینک کو دے دیتی ہے۔ پھر حکومت مرکزی بینک سے ملنے والی رقم مختلف بینکوں میں جمع کروادیتی ہے اور اس طرح سے نئے زر کی تخلیق ہوجاتی ہے جسے باقاعدہ قانونی ٹینڈر کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں: فرض کریں کہ پاکستانی حکومت کو دس ارب روپے ملکی امور چلانے کے لیے درکار ہیں۔ حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے دس ارب روپے قرض طلب کرتی ہے جسے بینک منظور کرلیتا ہے۔اب بینک یہ کرتا ہے کہ دس ارب روپے کے نئے کاغذی نوٹ چھاپتا ہے اور حکومت کے حوالے کردیتا ہے اور بدلے میں حکومت بھی دس ارب روپے کے بانڈ چھاپتی ہے اور سٹیٹ بینک کو دے دیتی ہے۔ پاکستانی حکومت دس ارب روپے وصول کرکے مختلف بینکوں میں اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروادیتی ہے اور اس طرح دس ارب روپے کی خطیر رقم سرکولیشن میں آجاتی ہے جو اب باقاعدہ قانونی ٹینڈر بن چکی ہوتی ہے۔
اس مثال میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دس ارب روپے مالیت کا زر کتنی آسانی سے تخلیق کرلیا گیا۔ اس مقصد کے لیے صرف کاغذ اور مخصوص قسم کی روشنائی درکار تھی۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے کو پرنٹ کرکے اس پر 5000 لکھا اور وہ اتنی ہی مالیت کا قانونی زر بن گیا۔
٣۔ نوٹ چھاپنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس سے کرنسی کی قدر میں کمی آجاتی ہے۔ اگر ایک روپیہ بھی نیا تخلیق ہو تو اس کی وجہ سے باقی تمام نوٹوں کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ لہذا جتنے نوٹ تخلیق ہوں گے اتنا ہی اس کی قدر میں کمی آتی چلی جائے گی۔ جب مرکزی بینک نئے نوٹ چھاپتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کروڑوں لوگوں کی ملکیت میں موجود نوٹوں کی قدر کو جبری طور پر گرادیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بینک نوٹ چھاپ کر لوگوں سے ان کی دولت کا ایک حصہ چرالیتا ہے اور یہ ایسی چوری ہے جس کا عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چلتا اور نہ ہی کوئی شکایت کرتا ہے۔
۴۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تخلیقِ زر کی یہ ساری کاروائی کمپیوٹر پر ہوتی ہے اور حقیقت میں کاغذی کرنسی کو چھاپنے کا عمل ہوتا ہی نہیں۔ یعنی حکومت بینک سے جب قرض مانگتی ہے تو بینک بجائے نوٹ چھاپ کر دینے کے حکومت کے اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم کا اضافہ کردیتا ہے اور یوں نیا زر تخلیق ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت میں نہ کوئی کرنسی چھاپی گئی اور نہ ہی اسے حکومت کو دیا گیا۔ درجِ بالا مثال کو ہی لے لیجیے کہ حکومت کو دس ارب روپے کی ضرورت تھی تو بینک نے بجائے کرنسی نوٹ چھاپنے کے حکومت کے اکاؤنٹ میں دس ارب روپے کا اضافہ کردیا اور یہ سب کچھ کمپیوٹر پر صرف اعداد بدلنے سے ممکن ہوگیا۔ اس صورت میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ چونکہ حقیقی طور پر کرنسی کی تخلیق ہوئی ہی نہیں لہذا یہ دس ارب روپے مصنوعی طور پر تخلیق کیے گئے اور دنیا میں کہیں بھی حقیقی شکل میں اس زر کا وجود نہیں۔
۵۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ایسا ہے کہ زر کی ٹوٹل سپلائی کا بہت کم حصہ کاغذی کرنسی کی شکل میں ہوتا ہے جبکہ سپلائی کا اکثر حصہ صرف کمپیوٹر میں اکاؤنٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ پاکستانی روپے کی ٹوٹل سپلائی 100 کھرب روپے ہے یعنی اس وقت دنیا میں 100 کھرب روپے سرکولیشن میں ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اتنی ہی مالیت کے کاغذی نوٹ حقیقی طور پر بھی موجود ہوں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا اور بہت ہی کم نوٹ حقیقی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 100 کھرب میں سے تقریبا 10 کھرب روپے حقیقی کاغذی کرنسی موجود ہوگی جبکہ باقی 90 کھرب روپے صرف کمپیوٹرز پر اکاؤنٹ کی صورت میں موجود ہوں گے اور ان کا خارج میں کوئی حقیقی وجود نہیں ہوگا۔ امریکی کرنسی ڈالر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ٹوٹل زر کا صرف تین فیصد حقیقی کرنسی کی شکل میں موجود ہے جبکہ باقی ستانوے فیصد زر کا کوئی حقیقی وجود نہیں اور وہ محض کھاتوں کی صورت میں کمپیوٹرز وغیرہ پر موجود ہے۔