اجتہاد کا حقیقی معنی و مفہوم
عصر حاضر میں اجتہاد کے حوالے سیسب سے بڑا فتنہ اس کی’ تعریف‘ کے ذریعے پیدا کیا جا رہا ہے۔اس بحث میں ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اجتہاد کیا ہے؟اجتہاد کے بارے اس وقت تین قسم کے نظریات ہماری سوسائٹی میں پائے جاتے ہیں۔
اجتہادشریعت پر اضافہ کرنے کا نام ہے ؟
اجتہادشریعت میں تبدیلی کا نام ہے ؟
اجتہاد حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے ؟
اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ دین محمدی اور شریعت اسلامیہ مکمل ہو چکی ہے۔آپؐ آخری نبی ہیں اور آپؐ کی وفات کے بعد نبوت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند ہو چکاہے۔ رسالہ اجتہاد کے اکثر وبیشتر مجتہدین کا خیال ہے کہ شریعت اسلامیہ معاذ اللہ ناقص ہے اور اس کی تکمیل یا اس میں تبدیلی کے لیے اجتہاد کیا جائے گا۔ علامہ اقبال اور ڈاکٹر جاوید اقبال کا خیال یہ ہے کہ قرآن کے بعض مفصل احکام ایسے ہیں جو اللہ کے رسولﷺ کے زمانے کی تہذیب و تمدن کے لیے موزوں تھے ‘ آج کل کے زمانے میں ان احکامات کی پیروی ناقابل عمل ہے لہذا ان احکامات میں اجتہاد کرتے ہوئے انہیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کر نا چاہیے جو کہ دوسرے الفاظ میں شریعت کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس کی تبدیلی کانعرہ بلند کرناہے۔ پس ان دو حضرات کے نزدیک اجتہادشرعی احکام کو معاصر تہذیب و تمدن کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے کا نام ہے۔ جبکہ پروفیسر الطاف صاحب کاتصور اجتہاد یہ ہے کہ قرآن کے مجمل احکامات کی تشریح میں مروی رسول اللہﷺ کی احادیث صرف آپؐ کے دور کے حالات کا حل پیش کرتی ہے لہذا آج ہمیں آپؐ کی ان روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے قرآن کے ان احکامات کی از سر نو نئی تعبیر و تشریح کرنی ہو گی۔ مثلا وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے لیکن اس کے نصاب کو بیان نہیںکیا اور آپؐ نے اپنے زمانے کے عرف و رواج کو ملحوظ رکھتے ہوئے غنی کا ایک نصاب مثلاً ساڑھے سات تولے سونا‘ ساڑھے باون تولے چاندی‘ پانچ وسق غلہ وپھل اور مال مویشیوں کا نصاب وغیرہ مقرر کر دیاتھا ۔آج ہمیں اپنے زمانے کے ظروف و حالات کے مطابق غنی کی ایک تعریف کرتے ہوئے اس نصاب میں تبدیلی کرناچاہیے اور یہی اجتہاد ہے۔جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ قرآن و سنت کے احکامات میں اس قسم کی تفریق کرناکہ قرآن کے مفصل احکامات تو دائمی ہیں جبکہ سنت کے مفصل احکامات وقتی و عارضی دور کے لیے تھے‘ کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے بلکہ شرعی دلائل اس نظریے کے خلاف قائم ہیں جیسا کہ ہم سابقہ سطور میں بیان کر چکے ہیں۔قرآن اور سنت کے احکامات اپنے دوام کے اعتبار سے ایک جیسی حیثیت رکھتے ہیں لہذا سنت کے احکامات کو وقتی و عارضی قرار دینا شریعت کو ناقص قرار دینے کے مترادف ہے کیونکہ اس میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے کہ صحابہؓ کے لیے شریعت قرآن تھا یا آپؐ کی سنت مبارکہ۔ جب آپؐ کی سنت مطہرہ صحابہؓ کے لیے شریعت تھی اور شریعت عارضی دور کے لیے تھی تو یہ اس کا نقص ہوا۔ پس الطاف صاحب بھی شریعت میں تبدیلی کو اجتہاد سمجھتے ہیں۔
غامدی صاحب کی تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ وہ شریعت کی جامعیت اور تکمیل کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ شریعت اگر مکمل ہے تویہ کہنے کی ضرورت کیوںمحسوس ہوتی ہے کہ کسی مسئلے میں اگر قرآن وسنت خاموش ہوں تو اجتہاد کیاجائے گا۔ اگر قرآن و سنت کسی مسئلے میں خاموش ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت ہر مسئلے کا حل پیش نہیں کرتے اور شریعت اسلامیہ ایک جامع شریعت نہیں ہے۔گویا شریعت کی تکمیل کا کام تاقیامت بذریعہ اجتہاد و مجتہدین جاری و ساری رہے گا۔ یہ دونوں انتہاء پسندانہ نکتہ نظر اسلام کے بنیادی تصورات و اساسات ہی کے خلاف ہیں۔ ختم نبوت کے عقیدے کا بنیادی تقاضایہی ہے کہ کسی قسم کی بھی شریعت سازی یا شریعت میں تبدیلی کے دروازے کو بند کیا جائے۔لیکن معاصر مجتہدین نے ختم نبوت کو ماننے کے باوجود نبی کے اختیارات مجتہدین کو تفویض کرنا شروع کر دیے۔
ان دونوں انتہاء پسندانہ نکتہ ہائے نظر کے مابین أئمہ سلف کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اجتہاد ’حکم شرعی‘ کی تلاش کانام ہے۔یعنی جب بھی کوئی نیا ایسا مسئلہ پیش آتا ہے کہ جس کا حکم واضح اور صریح انداز میں قرآن و سنت میں موجود نہ ہو تو قرآن وسنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں سے اس واقعے سے متعلق حکم شرعی کو مستنبط کرنا اجتہاد ہے۔ استنباط کسی چیز سے ہوتا ہے مثلا پانی اگر کنویں میں موجود ہے تو اس پانی کے استباط کا مطلب کنویں سے پانی نکالنا ہے نہ کہ کنویں کے باہر سے پانی حاصل کر لینا۔ اسی طرح حکم شرعی کو قرآن و سنت سے نکالنا اجتہاد ہے نہ کہ باہر سے کسی اور خارجی ذریعے سے معلوم کرنا۔ پس قیامت تک آنے والے مسائل کا حل کتاب و سنت میں موجود ہے ۔بعض مسائل کے بارے میں قرآن وسنت نے صریح الفاظ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے جبکہ اکثر اوقات قرآن وسنت کا منہج یہ ہے کہ وہ ایسے ضوابط‘ علل اور اسباب بیان کر دیتے ہیں کہ جن کے ساتھ احکام معلق ہوتے ہیں لہذا جو جزئیات بھی کسی کلی ضابطے کے تحت آتی ہوں تو ان سب کا حکم ایک جیسا ہو گا ۔ اسی طرح اگر شرع نے کسی چیز کو کسی علت کی وجہ سے حرام کیاہے تو وہ علت جن اشیاء میں بھی پائی جائے گی وہ حرام متصور ہوں گی۔ پس قرآن وسنت نے بعض اشیاء کی حرمت تو صریح الفاظ میں بیان کر دی اور اکثر اوقات ایسی علل بیان کر دی ہیں جو کسی چیز کو حرام بنا دیتی ہیںلہذاان علل کی وجہ سے جب ہم کسی چیز کو حرام ٹھہرائیں گے تو اگرچہ ہم یہی کہیں گے کہ فلاں چیز نص سے حرام ہوئی ہے اور فلاں قیاس سے‘ لیکن دونوں چیزوں کا حکم شریعت یا نصوص میں موجود ہے ایک کا صراحتاً اور دوسری کا قیاساً‘ اسی طرح کا معاملہ ان مسائل کا بھی ہے کہ جن کو مصلحت‘ سدالذرائع اور عرف وغیرہ جیسے قواعد کی روشنی میں مستنبط کیا جاتا ہے۔ قیاس‘ اجماع‘ مصلحت‘ عرف‘ سد الذرائع‘ شرائع من قبلنا‘ استصحاب اور استحسان وغیرہ جیسے قواعد عامہ کی حجیت بھی قرآن وسنت کی نصوص ہی سے ثابت ہے۔علماء نے احکام شرعیہ کے استنباط وا ستخراج میں ان قواعد کے مآخذ یا مصادر ہونے کے دلائل اصول کی کتابوں میں اکھٹے کر دیے ہیں۔
ہم یہاں اشارتاً یہ تذکرہ کرتے چلیں کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ قرآن کی قطعی و صریح احکامات کو ابدی و غیر متغیر مانتے ہوئے ان کے اطلاق میں احوال و ظروف‘ زمانے کے تغیرات اور ضروریات کے تنوع کا لحاظ رکھا جائے گا۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ قرآن و سنت کی نصوص کے اطلاق میں مقاصد شریعت کو مد نظر رکھاجائے لیکن اگر اس سے مراد یہ ہو کہ احوال و ظروف اور زمانے کے تغیرات و ضروریات سے حکم شرعی تبدیل ہوجاتا ہے‘ تو یہ بات درست نہیں ہے۔ اصل حکم شرعی اپنی جگہ قائم رہتا ہے جبکہ بدلتے ہوئے حالات میں ایک مجتہد نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ فقہ الواقع میں اس کے سامنے پیش آنے والا مسئلہ اس حکم شرعی کا مصداق بن رہا ہے یا نہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شرعی حکم کے اطلاق میں بھی اجتہاد کیا جاتا ہے‘ تحقیق المناط کا اصل موضوع ہی یہی ہے۔لیکن یہ کہنا کہ کوئی حکم شرعی اپنے اطلاق میں بعض حالات‘ مصالح و عرف کی رعایت رکھتے ہوئے تبدیل بھی ہو جاتا ہے‘ بالکل غلط ہے۔عرف و احوال کی رعایت رکھتے ہوئے حکم شرعی تو تبدیل نہیں ہوتا لیکن علماء کا فتاوی و اجتہادات ضرور تبدیل ہو سکتے ہیں۔اسی طرح جن شرعی احکام کو عر ف و حالات سے متعلق کر دیا گیامثلا ارشاد باری تعالی ہے:
’’و لھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔‘‘ (البقرۃ:۲۲۸)
’’اوران عورتوں کے لیے حقوق ہیں مانند اس کے کہ جیسی ان پر ذمہ داریاں ہیں عر ف کے مطابق۔‘‘
تو ان میں بھی حکم شرعی میں تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ ان احکامات میں شروع ہی سے ہر زمانے کے حالات و وقائع کا لحاظ موجود ہوتاہے۔ اللہ تعالی نے عورتوں کے بعض حقوق و ذمہ داریاں تو قرآن و سنت کے ذریعے متعین کر دی ہیں جبکہ باقی حقوق و ذمہ داریوں کواس آیت مبارکہ میںمعاشرے کے عرف کے ساتھ متعلق کر دیا لہذا عرف کی تبدیلی سے یہ حقوق و ذمہ داریاں بھی تبدیل ہوتی رہیں گی‘ یعنی نص نے شروع ہی سے اپنے اندر ایسی لچک رکھی ہے کہ قیامت تک آنے والے احوال و ظروف کواپنے اندر سمیٹ لے۔اسی طرح کسی شرعی حکم کی تطبیق یا اطلاق میں مصالح کا لحاظ تو رکھا جائے گا لیکن ان مصالح کی بنا پر شرعی احکام کو تبدیل نہیں کیا جائے گامثلا حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں قحط سالی کے زمانے میں قطع ید کی حد کو ایک عارضی مدت کے لیے ختم کر دیا تھا لیکن معاملہ یہ نہیں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک حد کو ہمیشہ کے لیے ساقط کر دیا ہو بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ شرعی حکم کے اطلاق(application)میں کچھ موانع (restrictions)موجود تھے جن کی وجہ سے ان حالات میں وہ شرعی حکم لاگو نہیں ہو سکتا تھااور ’مانع ‘خود حکم شرعی ہی کی ایک قسم ہے نہ کہ کسی شرعی حکم کی تبدیلی کا نام ہے۔اسی طرح اللہ کے رسولﷺ نے ایک مریض اور بوڑھے شخص پر زنا کی حد جاری کرنے کے لیے سو کوڑوں کی بجائے یہ حکم دیا کہ ایک ایسی شاخ لے کر اس کو ماردی جائے کہ جس میں سو ٹہنیاں ہوں۔یہإں پر بھی بنظر غائر دیکھیں تو سد الذرائع کی بنیاد پرشرعی حکم تبدیل نہیں ہوا بلکہ مریض کے لیے شرعی حکم پر عمل کرنے میں رخصت کا حکم جاری کیا گیا ہے اور رخصت ‘ عزیمت ہی طرح شرعی حکم کی ایک قسم ہے نہ کہ شرعی حکم کا تغیر و تبدل ہے جیسا کہ سفر کی حالت میں نماز میں قصر کرنے کی رخصت ہے اور یہ رخصت ایک علیحدہ سے حکم ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ان مثالوں سے یہ قاعدہ نکال لیں کہ شارع نے چونکہ مصالح و مقاصد کی خاطر بعض صورتوں میں حکم تبدیل کر دیا ہے مثلا مریض اور بوڑھے زانی کو سو کوڑوں کی بجائے ایک شاخ لے کر مار دی تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ مصالح و مقاصد کی خاطر حکم شرعی کو تبدیل کر دیں۔بھائی شار ع تو شارع ہے اس کاہر حکم ہی شریعت ہے۔ اس لیے اللہ کے رسولﷺ کا بوڑھے و مریض زانی کو ایک شاخ لے کر مار دینا بھی ایک شرعی حکم ہے جوامت کو یہ بتلاتا ہے کہ اس قسم کے زانی مجرم پر اس طرح کی سزا لاگو ہو گی جبکہ مجتہد‘ مکلف ہے اس کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ شریعت میں مقاصد شریعت کے نام سے تبدیلی کرتا پھرے۔
بعض لوگوں نے مقاصد شریعت کا کلیتاً انکار کر دیا جو کہ ایک درست طرز عمل نہیں ہے جبکہ دوسر ی طرف بعض لوگوں نے مقاصد شریعت کواس قدر اہمیت دے دی کہ اس کی تکمیل کے نام پر جزوی تعلیمات کو چھوڑنا شروع کر دیا۔جیسا کہ بعض مفکرین نے بسنت کو جاری رکھنے کے حق میں یہ دلیل بیان فرمائی کہ اس کے ساتھ ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور انسانوں کے مال کا تحفظ و فروغ دین اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ پس بسنت پر پابندی لگانا ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کرنے کے مترادف ہے۔یہاں طوالت کے خوف سے اشارتاً اس کاتذکرہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیں گے کہ اجتہاد کرتے وقت مقاصد شریعت اور جزئی تعلیمات میں توازن کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔
اب ہم اپنے ا س موقف کی تائید میں کہ اجتہاد نہ توکسی شرعی حکم میں تبدیلی کانام ہے اور نہ شریعت میں اضافے کرنا ہے بلکہ اجتہاد شرعی حکم کی تلاش کا نام ہے‘ أئمہ سلف و معاصر علماء کے اقوال نقل کر رہے ہیں۔
أئمہ سلف کے ہاں اجتہاد کی حقیقی تعریف
امام ابو اسحاق شیرازي الشافعی ؒ متوفی ۴۸۶ھ لکھتے ہیں:
’’الاجتھاد فی عرف الفقہائ: استفراغ الوسع و بذل المجھود فی طلب الحکم الشرعی۔‘‘(اللمع فی أصول الفقہ للشیرازی:ص۷۲‘ دار الکتب العلمیۃ ‘ بیروت)
’’فقہاء کے عرف میں اجتہاد سے مراد ہے کسی شرعی حکم کی تلاش میں اپنی قوت کو صرف کرنا اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح کھپا دینا۔‘‘
امام أبو المظفر السمعاني الحنفی ؒ متوفی ۴۸۹ھ لکھتے ہیں:
’’الاجتھاد و ھو بذل الجھد فی استخراج الأحکام من شواھدھا الدالۃ علیھا بالنظر المؤدی إلیھا۔‘‘(قواطع الأدلۃ: جلد۲‘ ص۷۰‘ دارالکتب العلمیۃ‘ بیروت)
’’اجتہاد سے مراد احکام شرعیہ کو ان کے ان دلائل سے نکالنا جو کہ ان احکام پر رہنمائی کر رہے ہوں جبکہ ان دلائل پر ایسا غور و فکر کیا جائے جو ان احکام تک پہنچا دے۔‘‘
امام غزالی الشافعیؒ متوفی ۵۰۵ھ لکھتے ہیں:
’’فی عرف العلماء مخصوصا ببذل المجتھد و سعہ فی طلب العلم بأحکام الشریعۃ و الاجتھاد التام أن یبذل الوسع فی الطلب بحیث یحس من نفسہ بالعجز عن مزید۔‘‘(المستصفی:ص۳۴۲‘ دار الکتب العلمیۃ‘ بیروت)
’’علماء کے عرف میں یہ لفظ اس مفہوم کے ساتھ خاص ہے کہ شرعی احکام کے علم کی تلاش میں مجتہد کا اپنی صلاحیتوں کو لگا دینا اجتہاد ہے۔’اجتہادِ تام‘ یہ ہے کہ شرعی حکم کی تلاش میں مجتہد اپنی اتنی طاقت لگا دے کہ اس سے مزید کسی کوشش کی گنجائش سے اس کا نفس عاجزہو۔‘‘
امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی ؒ متوفی ۶۲۰ ھ لکھتے ہیں:
’’و ھو فی عرف الفقھاء مخصوص ببذل الجھد فی العلم بأحکام الشرع۔‘‘(روضۃ الناظر: جلد۱‘ ص۳۵۲‘ جامعۃ الإمام محمد بن سعود‘ الریاض)
’’فقہاء کی اصطلاح میں شرعی احکام کا علم حاصل کرنے میں اپنی صلاحیت کو کھپا دینے کے ساتھ یہ لفظ خاص ہے۔‘‘
امام سیف الدین آمدي الشافعی ؒ متوفی ۶۳۱ھ لکھتے ہیں:
’’استفراغ الوسع في طلب الظن بشیء من الأحکام الشرعیۃ علی وجہ یحس من النفس العجز عن المزید فیہ۔‘‘(الإحکام فی أصول الأحکام: جلد۴‘ ۱۶۹‘ دار الکتاب العربي‘ بیروت)
’’کسی حکم شرعی سے متعلق غالب گمان کی تلاش میں اپنی صلاحیت کو اس طرح کھپا دینا کہ اس سے مزید کسی قوت کے لگانے سے اس کا نفس عاجز ہو۔‘‘
امام ابن الحاجب المالکيؒ متوفی ۶۴۶ھ لکھتے ہیں:
’’و فی الاصطلاح استفراغ الفقیہ الوسع لتحصیل ظن بحکم شرعي۔‘‘(منتھی الوصول و الأمل فی علمي الأصول و الجدل:ص۲۰۹‘ دار الکتب العلمیۃ‘ بیروت)
’’اصطلاح میں فقیہ کا کسی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دینا‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘
امام بیضاوی الشافعی ؒ متوفی ۶۸۵ھ فرماتے ہیں:
’’و ھو استفراغ الجھد فی درک الأحکام الشرعیۃ۔‘‘(منھاج الأصول‘ امام بیضاویؒ‘ جلد۴‘ ص۵۲۴‘ دار عالم الکتب‘ ریاض)
’’شرعی احکام کو پانے کے لیے انتہائی درجے کی کوشش کرنا‘ اجتہاد ہے ۔‘‘
امام علاء الدین بخاری الحنفي ؒ متوفی ۷۳۰ ھ لکھتے ہیں:
’’ فی اصطلاح الأصولیین مخصوصا ببذل المجھود فی طلب العلم بأحکام الشرع۔ والاجتھاد التام أن یبذل الوسع فی الطلب بحیث یحس من نفسہ بالعجز عن مزید طلب۔‘‘(کشف الأسرار شرح أصول بزدوي: جلد ۴‘ ص۱۴‘ دار الکتاب الاسلامی‘ القاھرۃ)
’’اصولیین کی اصطلاح میں شرعی احکام کے علم کی تلاش میں اپنی صلاحیت کو کھپا دینے کے ساتھ یہ لفظ خاص ہے اور’ اجتہاد تام‘ یہ ہے کہ شرعی حکم کی تلاش میں مجتہد اپنی اتنی طاقت لگا دے کہ اس سے مزید کسی کوشش کی گنجائش سے اس کا نفس عاجزہو۔‘‘
امام ابن مفلح الحنبلي متوفی ۷۶۳ ھ لکھتے ہیں:
’’استفراغ الفقیہ وسعہ لدرک حکم شرعي۔‘‘(أصول الفقہ‘ جلد۴‘ ص۱۴۶۹‘ مکتبہ العبیکان)
’’کسی فقیہ کا حکم شرعی کو پانے کے لیے اپنی کوشش کو کھپا دینا ‘اجتہاد ہے ۔‘‘
امام شاطبي المالکی ؒ متوفی ۷۹۰ھ لکھتے ہیں:
’’الاجتھاد ھو استفراغ الوسع فی تحصیل العلم أو الظن بالحکم۔‘‘(الموافقات: جلد۴‘ ص۱۱۳‘ دار المعرفۃ‘ بیروت)
’’اجتہاد سے مراد حکم شرعی سے متعلق ظن غالب یا قطعی علم حاصل کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دیناہے۔‘‘
علامہ سعد الدین تفتازاني الشافعیؒ متوفی۷۹۲ھ لکھتے ہیں:
’’و فی الاصطلاح استفراغ الفقیہ الوسع لتحصیل ظن بحکم شرعی۔‘‘( شرح التلویح علی التوضیح لمتن التنقیح:جلد۲‘ ص۲۴۴‘ دارالکتب العلمیۃ‘ بیروت)
’’اصطلاح میں فقیہ کا کسی حکم ِشرعی سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کو کھپا دینا‘ اجتہاد کہلاتا ہے۔‘‘
امام بدر الدین زرکشی الشافعی ؒمتوفی ۷۹۴ھ لکھتے ہیں:
’’و فی الإصطلاح بذل الوسع فی نیل حکم شرعی عملی بطریق الإستنباط۔ ‘‘(البحر المحیط:جلد۶‘ ص۱۹۷‘ وزارۃ الأوقاف و الشؤون الاسلامیۃ‘ دولۃ کویت)
’’کسی عملی شرعی حکم کو بذریعہ استنباط معلوم کرنے کی خاطر انتہائی درجے کی کوشش کرنااجتہاد ہے۔ ‘‘
امام ابن اللحام الحنبلي متوفی ۸۰۳ھ لکھتے ہیں:
’’و اصطلاحا بذل الجھد فی تعرف الحکم الشرعي۔‘‘(المختصر فی أصول الفقہ: ص۱۶۳‘ مرکز البحث العلمی و إحیاء التراث الاسلامی‘ مکۃ المکرمۃ)
’’اصطلاحی طور پر کسی شرعی حکم کی پہچان کے لیے اپنی طاقت کو خرچ کرنا‘ اجتہاد ہے ۔‘‘
ابن ھمام الحنفیؒ متوفی ۸۶۱ ھ لکھتے ہیں:
’’ و اصطلاحا ذالک من الفقیہ فی تحصیل حکم شرعي ظني۔‘‘(التقریر و التحبیرفی شرح التحریر:جلد ۳‘ ص۲۹۱‘ دار الکتب العلمیۃ‘ بیروت‘ ۱۹۸۳ئ)
’’اصطلاحی طور پر اس سے مراد فقیہ کی وہ کوشش ہے جو وہ ایک ظنی حکم شرعیکے حصول کی خاطر کرتا ہے۔‘‘
امام محب اللہ بن عبد الشکور ا لھندي الحنفي البھاري متوفی ۱۱۹۹ھ نے بھی لکھتے ہیں:
’’الاجتھاد بذل الطاقۃ من الفقیہ فی تحصیل حکم شرعی ظنی۔‘‘(مسلم الثبوت:ص۲۷۶‘ المطبع الأنصاری‘ دہلی)
’’اجتہاد سے مراد کسی فقیہ کا کسی ظنی حکم شرعی کو حاصل کرنے لیے اپنی طاقت کو خرچ کرنا ہے ۔‘‘
امام شوکانی السلفی ؒ متوفی ۱۲۵۵ھ لکھتے ہیں :
’’ھو فی الإصطلاح بذل الوسع فی نیل حکم شرعی عملی بطریق الإستنباط۔‘‘(إرشاد الفحول فی تحقیق الحق من علم الأصول:ص۲۵۰‘ دار الفکر‘ بیروت)
’’اصطلاحی طور پر کسی عملی شرعی حکم کو بذریعہ استنباط معلوم کرنے کی خاطر انتہائی درجے کی کوشش کرنا‘اجتہاد ہے۔‘‘
شاہ ولی اللہ دہلویؒ متوفی ۱۱۷۶ھ لکھتے ہیں:
’’الاجتھاد علی ما یفھم من کلام العلماء استفراغ الجھد فی إدارک الأحکام الشرعیۃ الفرعیۃ من أدلتھا التفصیلیۃ۔‘‘(عقد الجید فی أحکام الاجتھاد و التقلید: ص۳‘ المطبعۃ السلفیۃ‘ القاہرۃ)
’’علماء کے کلام کے مطابق اجتہاد سے مراد کسی شرعی فرعی حکم کو اس کے تفصیلی(جزئی) دلائل سے معلوم کرنے کے لیے اپنی طاقت کو حتی الامکان خرچ کرنا ہے۔
علامہ صدیق حسن خان بہادر السلفی ؒمتوفی ۱۳۵۷ھ لکھتے ہیں:
’’و فی الاصطلاح استفراغ الوسع فی طلب الظن بشیء من الأحکام الشرعیۃ علی وجہ یحس من النفس العجز عن المزید علیہ۔‘‘(حصول المأمول من علم الأصول:ص۱۵۴‘ مطبعۃ مصطفی محمد‘ مصر)
’’کسی حکم شرعی سے متعلق غالب گمان کی تلاش میں اپنی صلاحیت کو اس طرح کھپا دینا کہ اس سے مزید کسی قوت کے لگانے سے اس کا نفس عاجز ہو۔