• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی وبلاغت پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
بلاغت کی کتب کثیرہ میں عموماً تین علوم کا تذکرہ ملتا ہے:
(١) علم بیان (٢) علم معانی (٣) علم بدیع
(٢) علم بیان کے ضمن میں تشبیہ، حقیقت و مجاز، استعارہ اور کنایہ کی بحث ہوتی ہے۔
علم معانی میں، کلام کی تقسیم خبر و انشاء کی طرف، پھر کلام خبری کی تعریف، تقسیم و اغراض کلام انشائی کی تعریف و تقسیم، وصل و فصل، قصر و ایجاز، اتناب مساوات سے بحث کی جاتی ہے۔
(٣) علم بدیع میں محسنات لفظیہ و معنویہ کی بحث ہوتی ہے جن میں اقتباس، سجع، تشابہ، مقابلہ، حسن تعلیل، اسلوب حکیم، طور یہ اور اطباق وغیرہ کی مباحث ہوتی ہیں۔
بلاغت کے عناصر لفظ اور معانی ہیں اور تالیف الفاظ انہیں قوت تاثیر اور حسن بخشتی ہے۔پھر کلمات کا انتخاب حسب مقام و مخاطب کیا جاتاہے اور مخاطبین کے جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
درحقیقت بلاغت ایک فن ہے۔جس کا دارومدار استعداد فطری، دقت ادراک اور ضعف اسالیب کے امتیاز پر ہے۔ بلیغ اور مصور میں بس اتنافرق ہے کہ بلیغ مسموعات کو لیتا ہے اور مصور مبصرات کو لیتا ہے اس کے علاوہ دونوں برابر ہیں۔مصور جب کسی چیز کی تصویر بناتا ہے تو پہلے مناسب رنگوں کا انتخاب کرتاہے پھر ان رنگوں کی آمیزش کی فکر کرتا ہے تاکہ وہ تصویر جازب نظر اور دلکش بن جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
بلیغ جب کوئی قصیدہ، خطہ یا مقالہ تالیف کرنا چاہتا ہے تو ان کے اجزاء پر غور کرتا ہے اور خفیف ترین الفاظ کو لیتا اور موضوع کے مطابق جامع اور حسین ترین الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔
جب درجہ بالا تمام چیزوں سے واقفیت حاصل کرلی جائے تو پھر قراء ات قرآنیہ کے متعلق اٹھنے والے اعتراضات کا جواب مل جاتا ہے اور انسان اپنے عقیدہ کی سا لمیت اور اعتراضات سے احترازیت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے، کیونکہ عقیدہ کی سا لمیت ہی حقیقت میں ایمان کی سا لمیت ہے جس کا عقیدہ صحیح ہوگا اس کا ایمان بھی صحیح ہوگا۔ جس طرح صوم و صلوٰۃ کی سا لمیت کے لیے ایمان کی سا لمیت ضروری ہے ایسے ہی ایمان کی سا لمیت کے لیے عقیدے کی سالمیت ضروری ہے اور عقیدے کی سا لمیت اس وقت حاصل ہوگی جب ہم قرآن و سنت پر یقین رکھیں گے اور ان پر عمل کریں گے۔ چونکہ قراء ات کا تعلق عقیدہ کے ساتھ ہے اس لیے جو ان کو مکمل طور پر مانے گا اس کا عقیدہ اسلامی سالم ہوگا بصورت دیگر اس کو اپنے عقیدہ کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔
بلاغت کے متعلق ہم اوپر جتنی چیزیں بیان کرآئیں ہیں قرآن کریم میں وہ ساری کی ساری موجود ہیں ان کو ثابت کرنے کے لیے اب ہم قرآن مجید سے چند آیات پیش کرتے ہیں جن میں مختلف قراء ات بھی ہیں اور ان قرائات سے قرآن کریم کی نہ تو بلاغت مجروح ہوتی ہے اور نہ معنویت و حکمت میں کوئی فرق پڑتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تراکیب بلاغی اور فصاحت کلمہ میں قرا ء ات کا اثر
اس میں دو چیزیں ہیں:
(١) قراء ات کی تبدیلی مذکر و مؤنث کے اعتبار سے۔
(٢) قراء ات کی تبدیلی حروف کے معانی کے اعتبار سے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(١) قراء ات کی تبدیلی مذکر و مؤنث کے اعتبار سے
اسلوب بلاغی کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ یہ قراء ات تذکیر تانیث کے مابین متغیر ہوتی رہتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا قرآن کریم کی اعجازی وجوہات پرالگ سے ایک اثر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مثالیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا ‘‘ (الإسراء :۳۸)
’’یہ تمام (اوپربیان ہونے والی) باتیں تیرے رب کے ہاں ناپسندیدہ ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے قول: ’’سیئہ‘‘ میں دو قراء تیں ہیں:
(١) ’’ سَیِّئُہٗ ‘‘ ہمزہ اور ھاء کے ضمہ کے ساتھ اور ’مذکر‘ کے ساتھ۔ یہ قراء ت کوفیوں اور ابن عامر شامی کی ہے۔
(٢) ’’سَیِّئَۃً‘‘ ہمزہ کے فتحہ اور تاء تانیث مفتوحہ کے ساتھ۔ یہ قراء ت ابوجعفر، نافع، ابن کثیر، ابوعمر و بصری ، یعقوب کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
درج بالا قراء توں کی توجیہہ
یہ دونوں قراء تیں تواتر کے ساتھ بغیر کسی تعارض کے منقول ہیں۔
جن قراء نے تذکیر کے ساتھ تنوین کو گرا کر ’’سَیِّئُہٗ‘‘ پڑھا ہے انہوں نے اس کو ایسا اسم پڑھا ہے جوہائے ضمیر کی طرف مضاف ہو رہا ہے جو کہ ’’ کُلُّ ذٰلِکَ ‘‘ کی طرف لوٹ رہی ہے اور اس ’’ ذٰلِکَ ‘‘ اسم اشارہ کا مشار الیہ یعنی اس ’’ کُلُّ ذٰلِکَ ‘‘ سے اشارہ کیا گیاہے سابقہ اَوامرو نواہی کی طرف جوکہ اللہ تعالیٰ کے قول ’’ وَقَضٰی رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّآ إِیَّاہُ‘‘ سے لے کر ’’ کُلُّ ذٰلِکَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا ‘‘ (سورۃ الإسرا:۱۷، الایات ص۲۳ سے ۳۸ تک) تک بیان ہوئے ہیں۔
اَوامر میں سے: صرف اللہ کی عبادت کی جائے، والدین کے ساتھ احسان کرنا اور ان کے سامنے عاجزی و انکساری اور نرمی کا پہلو اختیار کرنا، دعائے مغفرت کرنا، قریبی رشتہ داروں کو ان کا حق ادا کرنا، صلہ رحمی کرنا، سیدھی سادی گفتگو کرنا، ناپ تول میں ترازو اور توازن کو برقرار رکھنا۔ اورعہد کو پورا کرنا وغیرہ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
نواہی میں سے:
(١)’’ فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْھُمَا‘‘ (الاسراء:۲۳) ’’والدین کو اُف بھی نہ کہا جائے اور نہ ان کو ڈانٹا جائے۔‘‘
(٢) ’’ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا ‘‘ (الاسراء:۲۶) ’’اور نہ فضول خرچی کر، فضول خرچی کرنا۔‘‘
(٣) ’’ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً إِلٰی عُنُقِکَ ‘‘ (الاسراء:۲۹) اسے کنجوسی کی طرف اشارہ کرکے کنجوسی اور بخل سے منع کرنا۔
(٤) ’’ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ ‘‘ (الاسراء:۲۹) اس کے ساتھ فضول خرچی کی طرف اشارہ کرکے اس سے منع فرما دیا۔
(٥) ’’ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلٰقٍ ‘‘ (الاسراء:۳۱) اس بیان سے اولاد کے قتل سے منع کردیا اور ساتھ بتا دیا کہ جس رزق کی وجہ سے تم اولاد کو قتل کررہے ہو وہ رزق ہم تم کو اور تمہاری اولاد کو بذات خو ددیتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٦) ’’ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی ‘‘ (الاسراء:۳۲) اس قول کے ساتھ زنا، اور اس کے لوازمات سے منع فرما دیا۔
(٧) ’’ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بِالْحَقِّ ‘‘ (الاسراء:۳۳) آپس میں قتل و غارت سے منع کردیا اور قصاص لینے کا حکم دیا۔
(٨) ’’ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ إِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ ‘‘ (الاسراء:۳۴) اس کے ساتھ یتیم کا ناجائز مال کھانے سے روک کر ساتھ کھانے کے جائز ذرائع کی طرف اشارہ کردیا۔
(٩) ’’ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ‘‘ (الاسراء:۳۶) اس نہی کے ساتھ لا یعنی فضول یا بے مقصد باتوں کے پیچھے پڑنے سے منع فرما دیا۔
(١٠) ’’ وَ لَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا… ‘‘ (الاسراء:۳۷) اس سے تکبر اور غرور کرنے سے منع فرمایا اور ساتھ اس کے ناممکن ہونے کی طرف اشارہ بھی کردیا۔
آخر میں فرمایا:
’’ کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا ‘‘ (الاسراء:۳۸) کہ اوپر بیان ہونے والے تمام امور میں سے ہرایک کا بُرا پہلو تیرے رب کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تطبیق
نواہی کا ارتکاب کرنا تو گناہ ہے ہی اورناپسندیدہ بھی، لیکن اوامر میں سے جن کوبجا نہ لایا جائے وہ اس کا بُرا پہلو ہے اور ناپسندیدہ ہے۔
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے خبر دی کہ بے شک ’’ سیئۃ ‘‘ حقیقت میں منہی عنہ ہی ہے جو کہ تیرے رب کے ہاں ناپسندیدہ ہے گویا کہ یہ ایک خیر ہے۔
اور اس کا معنی یہ ہوگا کہ ’’ وَ قَضٰی رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا إِلَّآ إِیَّاہُ ‘‘ سے لے کر ’’ کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئَۃً ‘‘ تک تمام بیان ہونے والی خصائل قبیحہ جو کہ اوامرو نواہی کے مفہوم سے واضح ہوتی ہیں، جن کی تعداد تقریباً ۲۵ ہے یہ تمام تیرے رب کے ہاں مکروہ یا ناپسندیدہ ہیں۔ یعنی غصہ دلانے والی اور اس کی روکی ہوئی ہیں جن کے ارتکاب پر وہ پکڑ کرے گا۔
لغوی بحث: جس نے ’سیئۃ‘ کو تانیث، نصب و تنوین کے ساتھ ’’سیئۃ‘‘ پڑھا ہے وہ اس بنا پر کیونکہ ’سیئۃ‘، ’کان‘ کی خبر ہے اور اس کا اسم وہ ضمیر ہے جو ’کل‘ پر لوٹ رہی ہے اور اسم اشارہ اس قراء ت میں لوٹنے والا ہے ان منہیات کی طرف جو سابقہ آیتوں میں صریحاً یا ضمناً ذکر ہوچکی ہیں اور ’عند ربک‘ یہ متعلق ہے ’مکروھا‘ کا اور مکروھاً خبر بعد الخبر ہے۔
اس قراء ت پرمعنی کیا ہوگا؟
گذشتہ بیان ہونے والی تمام منہیات جیسے شرک، عقوق الوالدین، اولاد کا قتل آخر تک یہ سیئۃ میں داخل ہیں اور تیرے رب کے ہاں مکروہ،اور عتاب و غضب کی موجب ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تنوع قراء تین سے مرتب ہونے والی اعجازی وجہ
جیسا کہ ہم گذشتہ کلام میں ذکر کر آئے ہیں کہ بے شک قراء ت تنوین ’سیئۃ‘ یہ فائدہ دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ’کل ذلک‘ اَوامر کے علاوہ منہیات کااحاطہ کئے ہوئے ہے۔
اور رہی دوسری قراء ت اضافت کے ساتھ ’سیئۃ‘ کی تو اس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ’ذلک‘ میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو اوامر کی نافرمانی اور نواہی کے ارتکاب سے حاصل ہوتی ہیں۔یہ ہے اعجاز بیان کی وجوہ میں سے ایک وجہ۔
 
Top