• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی وبلاغت پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا قراء توں کی توجیہہ
جمہورکی قراء ت خبر کا فائدہ دیتی ہے۔ابن کثیر مکی کی قراء ت استفہام کا فائدہ دیتی ہیں۔اس خبر و استفہام کی دلالت ایسی توبیخ اور انکار پر ہے جو کہ ملتبس ہے اس نہی کو جو آیت کریمہ کی ابتداء میں آئی ہے۔
امام زمخشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أن یؤتی‘‘ متصل ہے رسول کے مقولہ ’’قل إن الھدی ھدی اﷲ‘‘ کے ساتھ اس کا معنی یہ ہوگا: ’’أن ما بکم في الحسد والبغي۔ أن یؤتی أحد مثل ما أوتیتم في فضل العلم والکتاب دعاکم إلیٰ أن قلتم ما قلتم‘‘ یعنی اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب و علم کی صورت میں فضل مل گیا ہے تو تم حسد اور بغاوت پر کیوں اتر آئے ہو، اور جب اس رسول نے تم کواس کتاب و علم کی دعوت دی تو تم نے وہ کچھ کہا جو تم کہہ سکتے تھے۔‘‘
اس پر ابن کثیررحمہ اللہ کی قراء ت ’’ أأن یؤتی أحد ‘‘ دلیل ہے۔
مخاطبت اور توبیخ کے لیے ہمزہ استفہام زیادہ کردیا گیا۔(الکشاف: ۱؍۳۷۴، البحر المحیط: ۲؍۴۹۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وجہ اعجازی
گذشتہ صفحات میں بھی ہم بیان کرآئے ہیں کہ تنوع قراء ات اعجازات کی وجوہ میں سے ایک وجہ ہے جو اسلوب قرآنی سے ظاہر ہوتی ہے۔ جمہور کی قراء ت نے یہ فائدہ دیا ہے کہ اگر ادوات استفہام کو سیاق پر دلالت کر نے کے بعدحذف کردیا جائے تو کلام پھر بھی استفہام انکاری کا فائدہ دیتی ہے۔
ابن کثیر کی قراء ت نے جمہور کی قراء ت میں پانے جانے والے استفہام کے انکار میں مکمل طور پر تاکید کا فائدہ دیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر۲
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ وَجَآئَ السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ٭ ‘‘ (الاعراف:۱۱۳)
اس آیت مبارکہ میں ’’ إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا ‘‘ کو دو طرح پڑھا جاتاہے۔
الف ۔۔۔۔’’ إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا ‘‘ (اسلوب خبر کے ساتھ)
ب ۔۔۔۔’’ئَإِنَّ لَنَا لَأَجْرًا ‘‘ (اسلوب استفہام کے ساتھ)
دونوں قراء ات تواتر کے ساتھ رسول اکرمﷺسے منقول ہیں اور دونوں کے معنٰی میں کسی قسم کا تناقض نہیں۔ ہمارے ہاں معروف قراء ت اسلوب خبر والی ہے جس سے جادوگروں کی خود اعتمادی واضح ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری قراء ت سے پتہ چلتا ہے کہ جادوگروں نے فرعون سے پوچھا کہ اگر وہ غالب آجائیں تو انہیں کیا انعام ملے گا؟ اس قراء ت سے اس آیت کا اگلی آیت کے ساتھ ربط زیادہ واضح ہوجاتا ہے، کیونکہ فرعون نے جواب میں ’’نعم‘‘ کہا تھا: ’’ قَالَ نَعَمْ وَ إِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ٭ ‘‘ اور ’’نعم‘‘ سوال کے جواب میں ہی کہا جاتا ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ تبدیلی قراء ت سے قرآن کی معنویت اور حکمت مجروح نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) اسلوب خبر و نہی کے اعتبارسے قراء ات کی تبدیلی
مثال نمبر۱
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ وَلَا تُسْئَلْ عَنْ أَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ٭ ‘‘ (البقرۃ:۱۱۹)
اس آیت مبارکہ میں ’’ وَلَا تُسْئَلْ ‘‘ کو دو طرح پڑھا جاسکتا ہے۔
الف۔۔۔۔’’ ولا تُسْئَلُ ‘‘ (اسلوب خبر کے ساتھ)
ب۔۔۔۔’’ ولا تُسْئَلْ ‘‘ (اسلوب نہی کے ساتھ)
پہلی قراء ت کا معنی یہ ہے کہ اے محمد(ﷺ) آپ کی ذمہ داری محض ابلاغ ہے اگر یہ نہیں مانتے تو آپ ذمہ دار نہیں۔
جبکہ دوسری قراء ت کا معنی یہ ہے کہ اے محمد(ﷺ) ہم نے آپ کو اتمام حجت کے لیے بھیجا ہے اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو جہنم میں جائیں گے۔ اورنہ پوچھیں جہنم میں ان کی حالت کس قدر بُری ہوگی جیسا کہ ہمارے ہاںجب کوئی شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کے متعلق خبر دینے والا کہتا ہے: ’’نہ پوچھو اس کی حالت کیسی ہے‘‘ گویا پہلی قراء ت سے محض رسو ل اللہﷺ کا بری الذمہ ہونا ثابت ہوتا ہے جبکہ دوسری قراء ت سے کفار کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے انجام بد کی طرف بھی اشارہ ہوتاہے۔ جو کہ پیغمبر﷤ کے لیے مزید تسلی کا باعث تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر۲
اِرشاد ربانی ہے:
’’ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ أَحَدًا ‘‘ (الکہف:۲۶)
’’ وَلَا یُشْرِکُ ‘‘ میں دو متواتر قراء ات ہیں۔
الف ’’وَلَا تُشْرِکْ‘‘ (صیغہ مخاطب کے ساتھ) (اسلوب نہی کے ساتھ) یہ ابن عامر شامی کی قراء ت ہے۔
ب ’’وَلَا یُشْرِکُ‘‘ صیغہ غائب کے ساتھ۔ (اسلوب خبر کے ساتھ) یہ باقی قراء کی قراء ت ہے۔ (التبصرۃ لمکی : ۲۴۸، الاتحاف: ۲؍۲۱۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا قرا ء توں کی توجیہہ
پہلی قراء ت خطاب میں ’لا‘ نہی کا ہے اور نہی کا تعلق ہر شرعی مکلف کے ساتھ ہے اور ’منہي عنہ‘ شرک ہے۔
اس وقت معنی ہوگا: ’’اے مکلف انسان اپنے رب کے ساتھ کسی ایک کو شریک مت بنا‘‘ اور یہ نہی صرف نبیﷺ کے لیے نہیں بلکہ دیگر تمام لوگوں کو شامل ہے۔جیسے کہاجاتا ہے: ’’إیاک أعني واسمعي بإجارہ فیکون مالہ إلی ذلک‘‘
اور بعض کہتے ہیں کہ جائز ہے کہ اس سے مراد نبیﷺکی ذات لی جائے اس وقت یہ معطوف ہوگا اللہ تعالیٰ کے قول ’’وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ إِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ‘‘ کا (الکہف:۲۳) یا اس کا عطف ہوگا اللہ تعالیٰ کے اس قول پر ’’واذکر ربک إذا نسیت‘‘ (الکہف:۲۴)
جب ایسا ہے تو پھر معنی ہوگا اے محمدﷺ! آپ کسی ایک سے سوال نہکریں ان چیزوں کے بارے میں جوکہ اصحاف کہف کے قصہ میں سے ہیں۔ (الجامع لأحکام القرآن: ۱۰؍۳۸۸، فتح القدیر للشوکاني: ۳؍۲۷۹)
دوسری قراء ت (صیغہ غائب کے ساتھ) ہو تو اس میں ’ھو‘ ضمیر مقدر ہوگی جو کہ ’یشرک‘ کا فاعل ہوگا۔ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف لوٹے گی:’’ قُلِ اللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا ‘‘ (الکہف:۲۶)
گویا یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کانبی اکرمﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ اس کو ادا کریں۔ کلام غیبوبت کے طریق سے اس وجہ سے لائی گئی، کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا قول: ’’ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ ‘‘ ہے۔
اس قراء ت کے مطابق اس آیت کا معنی ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ عزجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جب اللہ تعالیٰ علم و قدرت والے ہیں تو پھر وہ اپنے عالم الغیب کی انفرادیت اور واحدانیت میں کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ أَحَدًا ‘‘ (الجن: ۲۶، معاني القرآن وإعرابہ: ۳؍۲۸۰)
٭ سدي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کہ ’’ وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ أَحَدًا ‘‘ کا مطلب ہے۔
’’ولا یشاور في أمرہ وقضائہ أحداً‘‘۔ (حجۃ القرائات لابن زنجلہ: ۴۱۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بلاغی اعجاز
(١) قراء ت ابن عامر میں اسلوب خطابی ہے جس میں انسانوں کو مخاطب کرکے شرک سے منع کیاگیا ہے۔
(٢) جمہور کی قراء ت میں اسلوب خبر ہے۔ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے ’’کہ وہ رب العالمین کی نفی کررہے ہیں اس بات کی کہ میرے ساتھ میرے حکم وقدر میں کوئی شریک نہیں اور نہ میں پسند کرتا ہوں کہ کسی کو اپنے حکم میں شریک کروں۔‘‘
لہٰذا ان دونوں قراء ات سے قرآن کریم کا اعجاز بلاغی ثابت ہورہا ہے جوکہ معترضین کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ثابت ہوا کہ قرا ء ات قرآنیہ سے قرآن کی معنویت اور حکمت مجروح نہیں ہوتی بلکہ متحقق ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) اسلوب خبر و امر کے اعتبار سے قراء ات کی تبدیلی
کبھی قراء ات میں تبدیلی اس اعتبار سے ہوتی ہے کہ ایک سے مطلق خبر دینا جبکہ دوسری سے ’امر‘ مراد ہوتا ہے۔
مثال نمبر۱
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ قٰلَ رَبِّی یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآئِ وَالْأَرْضِچ ‘‘ (انبیاء :۴)
لفظ ’’ قٰلَ ‘‘ میں دو قراء ات ہیں۔
الف۔۔۔۔’’ قٰلَ ‘‘ (اسلوب خبر کے ساتھ)
ب۔۔۔۔’’ قُلْ ‘‘ (اسلوب امر کے ساتھ)
پہلی قراء ت میں اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کی بات کو نقل فرمایا ہے، جبکہ دوسری قراء ت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو یہ کہنے کا حکم دیا تھاکہ میرا رب آسمانوں اور زمین میں ہونے والی ہر بات کو جانتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دونوں قراء ات کے معنی میں کوئی تضاد نہیں بلکہ دوسری قراء ت سے واقعہ مزید واضح ہوجاتا ہے، وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نبی اکرمﷺکو مذکورہ بات کہنے کا حکم دیا تو پھر محمد1 نے یہ کلمات ادا فرمائے اور پتہ چلا کہ رسول اکرمﷺ وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہی کلام فرمایا کرتے۔ جبکہ ہمارے ہاں پہلی قراء ت زیادہ معروف ہے۔
 
Top