• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معجزات کے متعلق غلط اور موضوع روایتوں کے پیدا ہونے کے اسباب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
معجزات کے متعلق غلط اور موضوع روایتوں کے پیدا ہونے کے اسباب

سبب اول: ان روایات کے پیدا ہونے کا بڑا سبب یہ ہے کہ مقبولیت عام کی بنا پر یہ کام واعظوں اور میلاد خوانوں کے حصہ میں آیا، چونکہ یہ فرقہ علم سے عموماً محروم ہوتا ہے اور صحیح روایات تک اس کی دسترس (پہنچ) نہیں ہوتی اور ادھر گرمی محفل اور شور ’’احسنت،، (سبحان اللہ، جینوین ،بھلا ہووی ،مرحبا مرحبا وغیرہ ۔ محمدی) کیلئے اس کو دلچسپ اور عوام فریب باتوں کے بیان کرنے کی ضرورت پیش آئی اس لئے لامحالہ ان کو اپنی قوت اختراع (قصہ گھڑنے) پر زور دینا پڑا۔ ان میں جو کسی قدر محتاط تھے انہوں نے ان کو لطائف صوفیانہ اور مضامین شاعرانہ میں ادا کیا، سننے والوں نے ان کو روایت کی حیثیت دے دی یا بعد کو انہیں بیانات نے روایت کی حیثیت اختیار کر لی اور جو نڈر اور بے احتیاط تھے۔ انہوں نے یہ پرواہ بھی نہیں رکھی بلکہ ایک سند جوڑ کر انہوں نے براہ راست اس کو حدیث و خبر کا مرتبہ دے دیا۔ خود علامہ حافظ سیوطی، علامہ ابن جوزی کی کتاب الموضوعات کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
احدہماالقصاص ومعظم البلاء منہم یجری لانھم یریدون احادیث تنفق وترقق والصحاح یقل فیہ ہذا ثم ان الحفظ یشق علیہم ویتفق عدم الدین وھم یحضرھم جھال۔(آخر کتاب اللالی المصنوعہ ص:۲۴۹)
کہ جھوٹی حدیثیں بنانے والوں میں ایک واعظوں کا گروہ ہے اور سب سے بڑی مصیبت انہیں سے پیش آتی ہے کیونکہ وہ ایسی حدیثیں چاہتے ہیں جو مقبول عام اور مؤثر ہوں اور صحیح احادیثوں میں یہ بات نہیں، اس کے علاوہ صحیح حدیثوں کا یاد رکھنا مشکل ہے اس کے ساتھ ان میں دینداری نہیں ہوتی اور ان کی محفلوں میں جاہلوں کا ہی مجمع ہوتا ہے… اور علامہ ابن قتیبہ المتوفی تاویل مختلف الحدیث ص:۲۷۶میں لکھتے ہیں:
کہ احادیث و روایات میں فسادتین راستوں سے آیا منجملہ ان کے ایک راستہ واعظین ہیں
والقصاص فانہم یمیلون وجوہ العوام الیہم ویستدرون ما عندھم بالمناکیر والغرائب والاکاذیب من الاحادیث ومن شان العوام القعود عند القصاص ما کان حدیثہ عجیباً خارجًا من فطر العقول اوکان رقیقاً یحزن القلوب ویستفز العیون الخ (تاویل مختلف الحدیث ص:۲۵۶)
اور واعظین کیونکہ وہ عوام کا رخ اپنی طرف پھیرنا چاہتے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس کو لغو، منکر اور عجیب و غریب باتیں بیان کر کے داد وصول کرتے ہیں اور عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ اسی وقت تک ان واعظین کے پاس بیٹھے رہتے ہیں جب تک وہ خارج از عقل باتیں یا ایسی مؤثر باتیں بیان کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں اثر کریں اور ان کو دلائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سبب دوم :
ان روایات کے پیدا ہونے کا دوسرا سبب یہ ہوا کہ مسلمانوں کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء ہیں۔ آپ کامل ترین شریعت لے کر مبعوث ہوئے ہیں۔ آپ تمام محاسن کے جامع ہیں، یہ اعتقاد بالکل صحیح ہے لیکن اس کو لوگوں نے غلط طور پر وسعت دے دی اور انبیاء و رسل سابقین کے تمام معجزات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع کر دیا اور وہ اس اعتقاد کی بدولت تمام مسلمانوں میں پھیل گئے۔ بیہقی اور ابو نعیم نے دلائل میں اور سیوطی نے خصائص میں علانیہ دوسرے انبیاء کے مقابل میں انہیں کے مثل آپ کے معجزات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے ہیں اور ثابت کرنا چاہا ہے کہ جس طرح آپ کی تعلیم تمام انبیاء کی تعلیمات کا عطر خلاصہ اور مجموعہ ہے اسی طرح آپ کے معجزات بھی تمام دیگر انبیاء کے معجزات کا مجموعہ ہے اور جو کچھ عام انبیاء سے متفرق طور پر صادر ہوا ظاہر ہے کہ اس کی مماثلت اور مقابلہ کیلئے تمام تر صحیح روایتیں دستیاب نہیں ہو سکتیں، اس لئے لوگوں نے انہی ضعیف اور موضوع روایتوں کے دامن میں پناہ لی… مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تمام اسماء کی تعلیم دی ، دیلمی نے مسند الفردوس میں روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی تمام اسماء کی تعلیم دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لکڑی معجزہ دکھاتی تھی تو آپ کے فراق میں چھوہارے کا درخت رویا اور چھوہارے کی خشک ٹہنی تلوار بن گئی۔ حضرت موسیٰ کیلئے بحر احمر شق ہوا تو آپ کیلئے معراج میں آسمان و زمین کے درمیان کا دریا بیچ سے پھٹ گیا۔ یوشع کیلئے آفتاب ٹھہرا دیا گیا تو آپ کے اشارے سے آفتاب ڈوب کر نکلا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گہوارہ میں کلام کیا تھا تو یہ روایت وضع کی گئی کہ آپ نے بھی گہوارے میں کلام کیا اور آپ کی زبان سے پہلے تکبیر و تسبیح کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سب سے بڑا معجزہ مردوں کو زندہ کرنا ہے اور وہ صرف انہیں کے ساتھ مخصوص تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی یہ معجزہ منسوب کیا گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے کہا جب تک آپ میری لڑکی کو زندہ نہ کر دیں گے میں ایمان نہ لائوں گا چنانچہ آپ نے اس کی قبر پر جا کر آواز دی اور وہ زندہ ہو کر باہر آئی اور پھر چلی گئی۔ اسی طرح یہ روایت بھی گھڑی گئی کہ آپ کی والدہ بھی آپ کی دعا سے زندہ ہوئیں اور آپ پر ایمان لائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سبب سوم :
قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ انبیاء کے گزشتہ صحیفوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی پیشن گوئیاں ہیں اور ان کے مطابق یہودونصاریٰ کو ایک آنے والے پیغمبر کا انتظار تھا۔ اس واقعہ کو دروغ گو راویوں نے یہاں تک وسعت دی کہ یہودیوں کو دن تاریخ، سال، وقت اور مقام سب کچھ معلوم تھا چنانچہ ولادت نبوی سے قبل علماء یہود، ان سب کا پتہ بتایا کرتے تھے اور عیسائی راھبوں کو تو ایک ایک خدوخال معلوم… تورات انجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض پیشن گوئیاں حقیقت میں موجود تھیں اور آج بھی ہیں لیکن وہ استعارات و کنایات اور مجمل عبارتوں میں ہیں، ان کو ضعیف و موضوع روایتوں میں صاف صاف آپ کے نام و مقام کی تخصیص و تعیین کے ساتھ پھیلا دیا گیا… مکہ کے لوگ احبار اور راہبوں کی زبانوں سے محمد آپ کا نام سن کر اپنے بچوں کا یہی نام رکھتے تھےکہ شاید یہی پیغمبر ہوجائے۔ مدینہ کے لوگو\ں کو انہی یہودیوں کی زبانی معلوم ہو چکا تھا کہ یثرب شہر آپ کا دار الہجرت ہو گا اس لئے وہ آپ کے منتظر تھے… لیکن اس دفتر کا بڑا حصہ موضوع اور جعلی ہے اور باقی نہایت ضعیف اور کمزور اور ان میں جو ایک آدھ صحیح ہے وہ پہلے گزر چکا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سبب چہارم :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش، عالم (جہان) کی رحمت کا باعث تھی، اس لئے کائنات کا فخرو ناز بجا ہو سکتا ہے۔ اگلے واعظوں اور میلاد خوانوں نے اس واقعہ کو شاعرانہ انداز میں اس طرح ادا کیا کہ آمنہ کا کاشانہ نور سے معمور ہو گیا۔ جانور خوشی سے بولنے لگے۔ پرندے تہنیت کے گیت گانے لگے۔ مغرب کے چرندوں اور پرندوں نے مشرق کے چرندوں اور پرندوں کو مبارک باد دی، مکہ کے سوکھے درختوں میں بہار آ گئی، ستارے زمین پر جھک گئے، آسمانوں کے دروازے کھل گئے فرشتوں نے ترانہ مسرت بلند کیا، انبیاء نے روئے روشن کی زیارت کی، فرشتوں نے بچہ کو آسمان و زمین کی سیر کرائی، شیطانوں کی فوج پایہ زنجیر کی گئی، پہاڑ غرور سے اونچے ہو گئے، دریا کی موجیں خوشی سے اچھلنے لگیں، درختوں نے سرسبزی کے نئے جوڑے پہنے، بہشت و جنت کے ایوان نئے سروسامان سے سجائے گئے وغیرہ۔

بعد کے واعظین نے میلاد خوانوں نے اس شاعرانہ انداز بیان کو واقعہ سمجھ لیا اور روایات تیار ہو گئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سبب پنجم :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت میں یا بعد کو جو واقعات ظہور پذیر ہوئے ان کا وقوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے زمانہ میں تسلیم کر لیا گیا اور ان کو بحیثیت معجزہ کے آئندہ واقعات کا پیش خیمہ بنا لیا گیا مثلاً آپ کے زمانہ میں بت پرستی کااستیصال ہو گیا، کسری و قیصر سلطنتیں فنا ہو گئیں، ایران کی آتش پرستی کا خاتمہ ہو گیا، شام کا ملک فتح ہو گیا، ان واقعات کو معجزہ اس طرح بنایا گیا کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے تمام بت سرنگوں ہو گئے، قیصرو کسریٰ کے کنگرے ہل گئے، آتش کدہ فارس بجھ گئے، نہر سادہ خشک ہو گئی، ایک نور چمکا جس سے شام کے محلات نظر آنےلگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دلائل و معجزات

دلائل و معجزات کے باب میں موضوع ،منکر ،ضعیف غرض ہر قسم کی قابل اعتراض روایات کا اتنا بڑا انبار ہے کہ اگر ایک ایک کر کے ان کی جانچ پڑتال کی جائے تو ایک مستقل ضخیم جلد تیار ہو جائے لیکن یہاں اس کا موقع نہیں، اس لئے ہم صرف ان روایتوں کی تنقید پر قناعت کرتے ہیں جو عام طور پر ہمارے ملک میں مشہور ہیں اور میلادوں کی محفلوں میں ان کو بصد شوق پڑھا اور سنایا جاتا ہے۔

۱۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ روایت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح و قلم، عرش و کرسی جن و انس سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا پھر لوح و قلم ،عرش کر سی، آسمان و زمین و ارواح و ملائکہ سب چیزیں اسی نور سے پیدا ہوئیں۔

اس کے متعلق اول ما خلق اللہ نوری یعنی سب سے پہلے خدا نے میرا نور پیدا کیا ۔ کی روایت عام طور سے زبانوں پر جاری ہے مگر اس روایت کے موضوع ہونے پر سب محدثین کا اتفاق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
روایت اول ما خلق اللہ نور نبیک کی حقیقت

البتہ ایک روایت مصنف عبد الرزاق کے حوالہ سے پیش کی جاتی ہے :یا جابر اول ما خلق اللہ نور نبیک من نورہ۔ اے جابر سب پہلے خدا نے تیرے پیغمبر کا نور اپنے نور سے پیدا کیا، اس کے بعد ذکر ہے کہ اس نور کے چار حصے ہوئے اور انہیں سے لوح و قلم ، عرش کرسی، آسمان و زمین اور جن و انس کی پیدائش ہوئی، زرقانی وغیرہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے مگر افسوس اس کی سند نہیں لکھی۔ ہندوستان میں مصنف عبد الرزاق کی گو دوسری جلد ملتی ہے مگر پہلی نہیں ملتی۔ (یہ علامہ سید سلیمان ندوی کے زمانہ کی بات ہے اب تو مکمل چھپ کر مارکیٹ میں آ گئی ہے اور ہر بڑے بڑے عربی مدرسہ کے کتب خانہ میں موجود ہے ، دار الحدیث محمدیہ جلالپور پیر والہ ملتان کے کتبہ خانہ میں بھی دستیاب ہے۔ محمدی) دوسری جلد دیکھ لی گئی ہے اس میں یہ حدیث مذکور نہیں ہے ۔
میں عبد الغفار محمدی کہتا ہوں کہ امام عبدالرزاق کی مصنف اور ان کی تفسیر اب دونوں چھپ چکی ہیں ان دونوں کتابوں میں یہ روایت ہرگز ہرگز نہیں ہے حتیٰ کہ علامہ البانی رحمہ اللہ جیسے محقق اور احادیث کی روایات کے متلاشی کو کہنا لکھنا پڑا کہ میں نے اس روایت کی سند تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ہے مگر دنیا کی کسی کتاب میں مجھے اس وقت اس روایت کی سند نہیں ملی (تحقیق البانی علی مشکوٰۃ المصابیح ج:اول ص:۳۴، محمدی)
اس تردد کو قوت اس سے اور بھی زیادہ ہوتی ہے کہ صحیح احادیث میں مخلوقات الٰہی میں سب سے پہلے قلم تقدیر کی پیدائش کا تصریحی بیان ہے کہ
اول ما خلق اللہ القلم (مشکوٰۃ ص:۲۱ترمذی)
کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۲۔ روایتوں میں ہے کہ یہ نور پہلے ہزاروں سال (برس) سجدہ میں پڑا رہا پھر حضرت آدم علیہ السلام کے تیرہ تار جسم کا چراغ بنا پھر آدم علیہ السلام نے مرتے وقت شیث کو اپنا وصی بنا کر یہ نور ان کے سپرد کیا، اسی طرح یہ درجہ بدرجہ ایک سے دوسرے پیغمبر کو سپرد ہوتا ہوا حضرت عبد اللہ کے سپرد ہوا اور حضرت عبد اللہ سے حضرت آمنہ کو منتقل ہوا۔ نور کا سجدہ میں پڑا رہنا اور اس کا موجود ہونا بالکل موضوع ہے اور نور کا ایک دوسرے وصی کو درجہ بدرجہ منتقل ہونا بے سروپا ہے۔ طبقات ابن سعد اور طبرانی و ابو نعیم اور بزار میں اس آیت پاک :
الذی یراک حین تقوم وتقلبک فی الساجدین۔ (شعراء)
وہ خدا جو تجھ کو دیکھتا ہے جب تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنے والوں میں الٹ پھیرکو بھی دیکھتا ہے کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغمبروں کی پشت بہ پشت منتقل ہونا دیکھ رہا تھا لیکن اول تو پوری آیت کے الفاظ اور سیاق و سباق اس مطلب کا ساتھ نہیں دیتے اور دوسرے یہ روایت اعتبار کے قابل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جب یہ نور عبدالمطلب کے سپرد ہوا والی روایت

۳۔ روایت ہے کہ یہ نور جب بلوغ کے وقت عبد المطلب کو سپرد ہوا تو ایک دن کعبہ میں سوئے ہوئے تھے، سو کر اٹھے تو دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سرمہ اور بالوں میں تیل لگا ہوا ہے اور بدن پر جمال و رونق کا خلعت ہے یہ دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے۔ آخر کار ان کا باپ ان کو قریش کے ایک کاہن کے پاس لے گیا، اس نے کہا کہ آسمانوں کے خدا نے اجازت دے دی ہے کہ اس لڑکے کا نکاح کر دیا جائے۔ اس نور کے اثر سے عبد المطلب کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور وہ نور ان کی پیشانی میں چمکتا تھا۔ قریش پر قحط وغیرہ کی جب کوئی مصیبت آتی تھی تو اس نور کے وسیلہ سے وہ دعا مانگتے تھے تو قبول ہوتی تھی۔ یہ روایت ابو سعید نیشابوری المتوفی ۳۰۷ھ نے اپنی کتاب شرف المصطفیٰ میں ابوبکر بن ابی مریم کے واسطہ سے کعب احبار (نو مسلم یہودی) تابعی سے نقل کی ہے اول تو یہ سلسلہ تابعی تک موقوف ہے۔ آگے کی سند نہیں، علاوہ ازیں کعب احبار گو نومسلم، اسرائیلیوں میں سب سے بہتر سمجھے جاتے ہیں تاہم امام بخاری ان کے کذب کا تجربہ بیان کرتے ہیں۔ (تاریخ صغیر بخاری)۔ اسلام میں اسرائیلیات اور عجیب غریب حوادث کی روایات کے سرچشمہ یہی ہیں، بیچ کا راوی ابوبکر بن ابی مریم باتفاق محدثین ضعیف ہے، ان کا دماغ ایک حادثہ کے باعث ٹھیک نہیں رہاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عبدالمطلب کے متعلق دوسری روایت

۴۔ ابو نعیم ،حاکم، بیہقی اور طبرانی میں ایک روایت ہے کہ عبد المطلب یمن گئے، وہاں ایک کاہن ان کے پاس آیا اور ان کی اجازت سے ان کے دونوں نتھنوں کو دیکھ کر بتایا کہ ایک میں نبوت ہے اور دوسرے میں بادشاہت کی علامت ہے، تم بنوزہرہ کی کسی لڑکی سے جا کر شادی کر لو۔ ان مصنفین کا مشترکہ راوی عبد العزیز بن عمران الزھری ہے اس کی نسبت میزان میں ہے کہ امام بخاری نے کہا کہ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ نسائی نے کہا متروک ہے ۔یحییٰ نے کہا کہ یہ شعر شاعری کا آدمی تھا ثقہ نہ تھا۔ عبد العزیز کے بعد کاراوی اس میں یعقوب بن الزہری ہے جس کی نسبت ابن معین کہتے ہیں کہ اگر ثقات سے روایت کرے تو خیر لکھو۔ ابو زرعہ نے کہا کہ وہ کچھ نہیں، وہ واقدی کے قریب ہے۔ امام احمد نے کہا کہ وہ کچھ نہیں، اس کی حدیث لاشئ کے برابر ہے ۔ساجی نے کہا وہ متروک الحدیث ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت میں بعض مجہول بھی ہیں۔ حاکم نے مستدرک میں اس کو روایت کیا ہے لیکن امام ذہبی نے نقد مستدرک میں یعقوب اور عبد العزیز دونوں کو ضعیف کہا ہے۔
 
Top