- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,765
- پوائنٹ
- 1,207
۱۵۔ اسی قسم کی ایک اور روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی جاتی ہے کہ میرا چھوٹا بھائی عبد اللہ جب پیدا ہوا تو اس کے چہرے پر سورج کی سی روشنی تھی اور والدہ نے ایک دفعہ خواب دیکھا… بنو مخزوم کی ایک (عورت) کاہنہ نے یہ خواب سن کر پیشنگوئی کی کہ لڑکے کی پشت سے ایک ایسا بچہ ہو گا جو تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ جب آمنہ کے شکم سے بچہ پیدا ہوا تو میں نے ان سے پوچھا کہ ولادت کے اثناء میں تم کو کیا کیا نظر آیا، انہوں نے کہا کہ جب مجھے درد ہونے لگا تو میں نے بڑے زور کی آواز سنی جو انسانوں کی آواز کی طرح نہ تھی اور سبز و ریشم کا پھریرا یاقوت کے جھنڈے میں لگا ہوا آسمان و زمین کے بیچ میں گڑا نظر آیا اور میں نے دیکھا کہ بچہ کے سر سے روشنی کی کرنیں نکل نکل کر آسمان تک جاتی ہیں، شام کے تمام محل آگ کے شعلے معلوم ہوتے تھے اور اپنے پاس مرغابیوں کا ایک جھنڈا دکھائی دیا۔ جس نے بچہ کو سجدہ کیا پھر اپنے پروں کو کھول دیا اور سعیرہ اسدیہ کو دیکھا کہ وہ کہتی ہوئی گزری کہ تیرے اس بچے نے بتوں اور کاہنوں کو بڑا صدمہ پہنچایا ہائے سعیرہ ہلاک ہو گئی۔ پھر ایک بلند بالا سپید رنگ جوان نظر آیا جس نے بچہ کو میرے ہاتھ سے لے لیا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن لگایا، اس کے ہاتھ میں سونے کا ایک طشت تھا۔ بچہ کے پیٹ کو پھاڑا، پھر اس کے دل کو نکالا، اس میں سے ایک سیاہ داغ نکال کر پھینک دیا، پھر سبز حریر کی ایک تھیلی کھولی جس میں سپید کی طرح چیز تھی اس کو سینہ میں بھرا پھر سفید حریر کی ایک تھیلی کھولی اس میں سے ایک انگوٹھی نکال کر مونڈھے پر انڈے کے برابر مہر کی اور اس کو باریک کرتا پہنا دیا۔ اے عباس یہ میں نے دیکھا۔ اس روایت کے متعلق ہمیں کچھ زیادہ کہنا نہیں ہے کہ ناقلین نے اس کے ضعف کو خود تسلیم کیا ہے اور حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ اس روایت اور اس سے پہلے کی دو روایتوں (۱۳، ۱۴) میں میں نے اپنی اس کتاب و (خصائص کبری) میں ان تینوں (روایتوں) سے زیادہ سخت منکر کوئی روایت نقل نہیں کی اور میرا دل ان کے لکھنے کو نہیں چاہ رہا تھا لیکن میں نے محض ابونعیم کی تقلید میں لکھ دیا ہے۔ جن روایتوں کو حافظ سیوطی لکھنے کے قابل نہ سمجھیں تم ان کے ضعف کے درجہ کو سمجھ سکتے ہو، سیوطی اس روایت کا ماخذ ابو نعیم کو بتاتے ہیں مگر یہ روایت دلائل ابو نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ملی یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دو ہی سال بڑے تھے، جب آمنہ نے وفات پائی تو وہ سات آٹھ سال کے بچہ تھے۔