• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معجزات کے متعلق غلط اور موضوع روایتوں کے پیدا ہونے کے اسباب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جناب عبداللہ کی پیشانی میں نور چمکا والی روایت

۵۔ روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ کی پیشانی میں نور چمکا تو ایک عورت جو کاہن تھی اس نے اس نور کو پہچانا اور چاہا کہ وہ خود عبد اللہ سے ہمبستر ہو کر اس نور کی امین بن جائے مگر یہ سعادت اس کی قسمت میں نہ تھی۔ اس وقت عبد اللہ نے عذر کیا اور گھر چلے گئے وہاں یہ دولت آمنہ کو نصیب ہوئی، عبد اللہ نے واپس آ کر اس کا ہنہ سے اب خود درخواست کی تو اس نے رد کر دی کہ اب نور تمہاری پیشانی سے منتقل ہو چکا ہے۔ یہ روایت الفاظ و جزئیات کے اختلاف کے ساتھ ابن سعد، خرائطی، ابن عساکر، بیہقی اور ابو نعیم میں مذکور ہے ، ابن سعد نے تین طریقوں سے ان کی روایت کی۔ پہلا راوی واقدی ہے دوسرے میں کلبی ہے اور یہ دونوں مشہور دووغ گو (جھوٹ بولنے والے) ہیں۔ تیسرا طریقہ ابو یزید مدنی تابعی تک جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ ابو یزید مدنی کی اگرچہ بعض ائمہ نے توثیق کی ہے مگر مدینہ کے شیخ الکل اما م مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس کو نہیں جانتا۔ ابو زرعہ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ ابو نعیم نے چاروں طریقوں سے اس کی روایت کی ہے لیکن کوئی ان میں قابل وثوق نہیں۔ ایک طریق میں نصر بن سلمہ اور احمد بن محمد بن عبد العزیز بن عمرو الزھری اور یہ تینوں نامعتبر ہیں۔ تیسرے سلسلہ میں مسلم بن خالد الزنجی ہیں جو ضعیف سمجھے جاتے ہیں اور متعدد مجاھیل ہیں ۔ چوتھا طریقہ یزید بن شھاب الزہری پر ختم ہے اور وہ اپنے آگے کا سلسلہ نہیں بتاتے اور ان کا حال بھی معلوم نہیں۔ بیہقی کا سلسلہ وہی تیسرا ہے، خرائطی اور ابن عساکر کا یوں بھی اعتبار نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس نور کے حصول میں عورتوں کا مر جانا

۶۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ عبد مناف اور قبیلہ مخزوم کی دو سو عورتیں گنی گئیں جنہوں نے اس غم میں کہ عبد اللہ سے ان کی یہ دولت حاصل نہیں ہوئی مر گئیں، لیکن انہوں نے شادی نہ کی (یعنی عمر بھر کنواری رہیں) اور قریش کی کوئی عورت نہ تھی جو اس غم میں بیمار نہ پڑ گئی ہو ۔یہی حکایت ہے جس کا غلط ترجمہ اردو مؤلفین میلاد نے یہ کیا کہ اس رات دو سو عورتیں رشک و حسد سے مر گئیں۔ یہ روایت سند کے بغیر زرقانی شرح مواھب لدنیہ میں بصیفہ رُوِی (یعنی بیان کیا گیا ہے )مذکور ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خود مصنف کو بھی اس کی صحت میں کلام ہے یہ درحقیقت بالکل بے سند اور بے اصل روایت ہے اور کسی معتبر کتاب میں اس کا پتہ نہیں( نیز ان عورتوں کو کیسے پتہ چلا کہ یہ نور کا چمکارا، خوبصورتی کا نہیں بلکہ نور نبوت محمدی کا ہے کیا یہ عورتیں علم غیب رکھتی تھیں۔ محمدی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۷۔ روایت ہے کہ اس رات کو کسری کے محل میں زلزلہ پڑ گیا اور اس کے چودہ کنگرے گر پڑے اور سادہ کی نہر (واقع فارس) اور بعض روایتوں میں طبریہ کی نہر (واقع شام) خشک ہو گئی اور فارس کا آتش کدہ جو ہزاروں برس سے روشن تھا بجھ گیا اور کسریٰ نے ایک ہولناک خواب دیکھا جس کی تعبیر یمن کے کاہن سیطح سے دریافت کی گئی یہ قصہ بیہقی، خرائطی، ابن عساکر اور ابو نعیم میں سند اور سلسلہ روایت کے ساتھ مذکور ہے۔ ان سب کا مرکزی راوی مخزوم بن ہانی ہے جو اپنے باپ ہانی مخزومی قریشی سے جس کی ڈیڑھ سو برس کی عمر تھی بیان کرتا ہے۔ ہانی کے نام کا کوئی صحابی جو مخزومی قریشی ہو اور ڈیڑھ سو برس کی عمر رکھتا ہو معلوم نہیں۔اصابہ وغیرہ میں اسی روایت کے سلسلہ میں ان کا نام مشکوک طریقہ سے آیا ہے ان کے صاحبزادے مخزوم بن ہانی بھی محدثین میں کوئی شناسا(معرف )نہیں نیچے کے راویوں کا بھی یہی حال ہے یہاں تک کہ ابن عساکر جیسے ضعیف روایتوں کے سرپرست بھی اس روایت کو غریب کہنے کی جرات کرتے ہیں اور ابن حجر مکی جیسے کمزو ر روایتوں کے سہارا اور پشت پناہ بھی اس کو مرسل ماننے کو تیار ہیں۔ ابو نعیم کی روایت میں محمد بن جعفر بن اعین مشہوروضاع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ولادت کے وقت والدہ عبدالرحمن کا موجود ہونا

۸۔ روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف کی ماں شفا ، بنت اوس ولادت کے وقت زچہ خانہ میں موجود تھیں، وہ کہتی ہیں کہ جب آپ پیدا ہوئے تو پہلے غیب سے آواز آئی پھر مشرق و مغرب کی ساری زمین میرے سامنے روشن ہو گئی۔ یہاں تک کہ شام کے محل مجھ کو نظر آنے لگے، میں نے آپ کو کپڑا پہنا کر لٹایا ہی تھا کہ اندھیرا چھاگیا اور میں ڈر گئی اور کانپنے لگی پھر داہنی طرف سے کچھ روشنی نکلی تو آواز سنی کہ کہاں لے گئے تھے جواب ملا کہ یہ مغرب کی سمت۔ ابھی کچھ سی دیر ہوئی کہ پھر وہی کیفیت پیدا ہوئی میں ڈر کر کانپی اور آواز آئی کہاں لے گئے تھے؟ جواب ملا کہ مشرق کی سمت، یہ حکایت ابو نعیم میں ہے اس کے بیچ کے راوی احمد بن محمد بن عبد العزیز زہری نامعتبر ہے اور اس کے دوسرے روات مجہول الحال ہیں۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں تعویذ

۹۔ روایت ہے کہ حضرت آمنہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے اے آمنہ! تیرا بچہ جہاں کا سردار ہو گا۔ جب پیدا ہو تو اس کا نام احمد اور محمد رکھنا اور یہ تعویذ اس کے گلے میں ڈالنا جب وہ بیدار ہوئیں تو سونے کے پتھر پر یہ اشعار لکھے ملے (اس کے بعد اشعار ہیں) یہ قصہ ابو نعیم میں ہے جس کا راوی ابو غزیہ محمد بن موسیٰ انصاری ہے جس کی روایتوں کو امام بخاری منکر کہتے ہیں، ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ دوسروں کی حدیثیں چرایا کرتا تھا اور ثقات سے موضوع روایتیں بنا کر بیان کرتا تھا۔ متاخرین میں حافظ عراقی نے اس روایت کو بے اصل اور شامی نے بہت ہی ضعیف کہا ہے۔ ابن اسحاق نے بھی اس کو بے سند روایت کیا ہے۔ ابن سعد میں یہ روایت واقدی کے حوالہ سے ہے جس کی دروغ گوئی محتاج بیان نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روایت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ

۱۰۔ روایت :عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ صحابی کی ماں ولادت کے وقت موجود تھیں وہ کہتی ہیں کہ جب آمنہ کو دردزہ ہوا تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ تمام ستارے زمین پر جھکے آتے ہیں یہاں تک کہ میں ڈری کہ کہیں زمین پر گر نہ پڑیں۔ جب پیدا ہوئے تو جدھر نظر جاتی تھی تمام گھر روشنی سے معمور تھا۔ یہ قصہ ابو نعیم طبرانی اور بیہقی میں مذکو ر ہے۔ اس کے روات میں یعقوب بن محمدزہری پایہ اعتبار سے ساقط ہے اور عبد العزیز بن عمر بن عبد الرحمن بن عوف ایک محض داستان گو اور جھوٹا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایام حمل کی کوئی علامت معلوم نہ ہوتی تھی

۱۱۔ روایت :حضرت آمنہ کہتی ہیں کہ مجھے ایام حمل کی کوئی علامت معلوم نہ ہوتی تھی اور عورتوں کے ان ایام میں جو گرانی اور تکلیف محسوس ہوتی ہے وہ بھی نہ ہوتی تھی۔ بجز اس کے کہ معمول میں فرق آ گیا تھا۔ قسطلانی نے مواھب لدنیہ میں اس قصہ کو ابن اسحاق اور ابو نعیم کے حوالہ سے بیان کیا ہے لیکن ابن اسحاق کا جو نسخہ ابن ھشام کے نام سے مشہور ہے اور چھپا ہوا ہے اور نیز خود دلائل ابو نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں تو اس قسم کا کوئی واقعہ مذکور نہیں۔ قسطلانی کی پیروی میں دوسرے بے احتیاط متاخرین مثلاً صاحب سیرت حلبیہ اور مصنف خمیس نے بھی ابن اسحاق اور ابو نعیم ہی کی طرف اس روایت کی نسبت کی ہے لیکن ابن سید الناس نے عیون الاثر میں بجا طور پر اس روایت کیلئے واقدی کا حوالہ دیا ہے۔ دراصل یہ قصہ ابن سعد نے نقل کیا ہے اور اس کی روایت کے دو سلسلے لکھے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک کا سر سلسلہ واقدی ہے اور ان کی نسبت محدثین کی رائے پوشیدہ نہیں۔ علاوہ ازیں ان میں سے کوئی سلسلہ بھی مرفوع نہیں۔ پہلا سلسلہ عبد اللہ بن وھب پر ختم ہوتا ہے جو اپنی پھوپھی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم یہ سنا کرتے تھے الخ… دوسرے سلسلہ کو واقدی ، زہری پر جا کر ختم کر دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک روایت اس کے بالکل خلاف

۱۲۔ ایک روایت اس کے بالکل برخلاف ابن سعد میں یہ ہے کہ غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت و عظمت کے باعث حضرت آمنہ کو سخت گرانی اور بار محسوس ہوتا تھا وہ کہا کرتی تھیں کہ میرے پیٹ میں کئی بچے رہے مگر اس بچہ سے زیادہ بھاری اور گراں مجھے کوئی نہیں معلوم ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ روایت معروف و مسلم واقعہ کے خلاف ہے

اول تو یہ روایت معروف و مسلم واقعہ کے خلاف ہے۔ حضرت آمنہ کے ایک کے سوا نہ کوئی اور بچہ ہوا ور نہ حمل رہا، دوسرے یہ کہ اس روایت کا سلسلہ ناتمام ہے اس کے معنی کی ایک اور روایت شداد بن اوس صحابی کی زبانی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے والدین کا پہلوٹا ہوں۔ جب میں شکم میں تھا تو میری ماں عام عورتوں سے بہت زیادہ گرانی محسوس کرتی تھیں (کنز العمال کتاب الفضائل) معافی بن زکریا القاضی نے اس روایت پر اتنی جرح کی ہے کہ یہ منقطع ہے یعنی شداد بن اوس اور ان کے بعد کے راوی مکحول میں ملاقات نہیں۔ اس لئے بیچ میں ایک راوی کم ہے حالانکہ ان سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس کا پہلا راوی عمر بن صبح کذاب وضاع اور متروک ہے۔

۱۳۔ روایت: جب ولادت کا وقت آیا تو خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آسمانوں اور بہشتوں کے دروازے کھول دو۔ فرشتے باہم بشارت دیتے پھرتے تھے۔ سورج نے نور کا نیا جوڑا پہنا ۔اس سال دنیا کی تمام عورتوں کو یہ رعایت ملی کہ سب فرزند نرینہ جنیں۔ درختوں میں پھل آ گئے۔ آسمان پر زبرجد ویاقوت کے ستون کھڑے کئے گئے۔ نہر کوثر کے کنارے مشک خالص کے درخت اگائے گئے۔ مکہ کے بت اوندھے ہو گئے وغیرہ وغیرہ۔

یہ روایت مواھب لدنیہ اور خصائص کبریٰ میں ابو نعیم کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے لیکن ابو نعیم کی دلائل النبوۃ کے مطبوعہ نسخہ میں جہاں اس کا موقعہ ہو سکتا تھا وہاں یہ روایت مجھے نہیں ملی ممکن ہے کہ ابو نعیم نے اپنی کسی دوسری کتاب میں یہ روایت لکھی ہو یا یہ مطبوعہ نسخہ نامکمل ہو۔ بہرحال اس روایت کی صرف اس قدرِ بنا ہے کہ ابو نعیم چوتھی صدی کے ایک راوی عمرو بن قتیبہ صوری سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد قتیبہ جو بڑے فاضل تھے یہ بیان کرتے تھے۔ قسطلانی نے مواھب میں اس روایت کو نقل کر کے لکھا ہے وہ مطعون ہے۔ حافظ سیوطی نے خصائص میں اس کو منکر کہا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ تمام تر بے سند اور موضوع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۴۔ روایت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل میں ہونے کی جو نشانیاں تھیں ان میں ایک یہ ہے کہ اس رات قریش کے سب جانور بولنے لگے اور کہنے لگے کہ کعبہ کے خدا کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شکم مادر میں آ گئے ہیں وہ دنیا جہان کی امان اور اہل دنیا کے چراغ ہیں۔ قریش اور دیگر قبائل کی کاہنہ عورتوں میں کوئی عورت نہ تھی کہ اس کا جن اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گیا ہو اور اس سے کہانت کا علم چھن لیا گیا اور دنیا کے تمام بادشاہوں کے تخت اوندھے ہو گئے اور سلاطین اس دن گونگے ہو گئے۔ مشرق کے وحشی جانوروں نے مغرب کے وحشی جانوروں کو جا کر بشارت دی ، اسی طرح ایک دریا نے دوسرے دریا کو خوشخبری سنائی اور پورے ایام حمل میں ہر ماہ آسمان و زمین سے یہ ندا سنی جانے لگی کہ بشارت ہو کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین پر ظاہر ہونے کا وقت (زمانہ) قریب آیا۔ حضرت کی والدہ فرماتی تھیں کہ جب میرے حمل کے چھ مہینے گزرے تو خواب میں کسی نے مجھ کو پائوں سے ٹھوکر دے کر کہا کہ اے آمنہ! تمام جہاں کا سردار تیرے پیٹ میں ہے جب وہ پیدا ہو تو اس کا نام محمد رکھنا اور اپنی حالت چھپائے رکھنا، کہتی ہے کہ جب ولادت کا زمانہ آیا تو عورتوں کو جو پیش آتا ہے وہ مجھ کو بھی پیش آیا اور کسی کو بھی میری اس حالت کی خبر نہ تھی۔میں گھر میں تنہا تھی۔ عبد المطلب خانہ کعبہ کے طواف کو گئے تھے تو میں نے ایک زور کی آواز سنی، جس سے میں ڈر گئی میں نے دیکھا کہ ایک سفید مرغ ہے جو اپنے بازو کو میرے دل پر مل رہا ہے، اس سے میری وہشت دور ہو گئی اور درد کی تکلیف جاتی رہی پھر ایک طرف دیکھا کہ سپید شربت ہے پیاسی تھی دودھ سمجھ کر اس کو پی گئی اس کے پینے سے ایک نور مجھ سے نکل کر بلند ہوا، پھر میں نے دیکھا کہ چند عورتیں جن کے قد لمبے لمبے ہیں گویا عبد المطلب کی بیٹیاں ہیں وہ مجھے غور سے دیکھ رہی ہیں میں تعجب کر رہی ہوں کہ ان کو کیسے میرا حال معلوم ہوا (ایک روایت میں ہے کہ ان عورتوں نے کہا کہ ہم فرعون کی بیوی اور عمران کی بیٹی مریم ہیں اور یہ حوریں ہیں) میرا درد بڑھ گیا اور ہر گھڑی آواز اور زیادہ بلند تھی اور خوفناک ہو جاتی تھی اتنے میں ایک سپید دیبا کی چادر آسمان و زمین کے درمیان پھیلی نظر آئی اور آواز آئی، اس کو لوگوں سے چھپا لو میں نے دیکھا کہ چند مرد ہوا میں معلق ہیں ان کے ہاتھوں چاندی کے آفتابے ہیں اور میرے بدن سے موتی کی طرح پسینہ کے قطرے ٹپک رہے تھے جس میں مشک خالص سے بہتر خوشبو تھی اور میں دل میں کہہ رہی تھی کہ کاش عبدالمطلب اس وقت پاس ہوتے۔ پھر میں نے پرندوں کا غول دیکھا جو معلوم نہیں کدھر سے آئے وہ میری کمر میں گھس آئے، ان کی منقاریں زمرد کی اور بازو یاقوت کے تھے، میری آنکھوں سے اس وقت پردے اٹھائے گئے تو اس وقت مشرق و مغرب سب میری نگاہوں کے سامنے تھے تین جھنڈے نظر آئے، ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک خانہ کعبہ کی چھت پر۔ اب دردزہ بڑھ گیا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھے کچھ عورتیں ٹیک لگائے بیٹھی ہیں اور اتنی عورتیں بھر گئیں کہ مجھے گھر کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔

اسی اثنا میں بچہ پیدا ہو گیا میں نے پھر دیکھا کہ وہ سجدہ میں پڑا تھا اور دو انگلیوں کو آسمان کی طرف دعا کی طرح اٹھائے تھا پھر ایک سیاہ بادل نظر آیا جو آسمان سے اتر کر نیچے آیا اور بچہ پر چھا گیا اور بچہ میری نگاہ سے چھپ گیا۔ اتنے میں ایک منادی سے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کے پورب اور پچھم گھما دو اور سمندروں کے اندر لے جائو تا کہ سب ان کے نام نامی اور شکل و صورت کو پہچان لیں اور جان لیں کہ یہ مٹانے والے ہیں یہ اپنے زمانے میں شرک کا نام و نشان مٹا دیں گے پھر تھوڑی ہی دیر میں بادل ہٹ گیا اور آپ دودھ سے زیادہ سفید کپڑے میں لپٹے نظر آئے جس کے نیچے سبز ریشم تھا، ہاتھوں میں سفید موتیوں کی ۳کنجیاں تھیں اور ایک آواز آئی کہ محمد کو فتح و نصرت اور نبوت کی کنجیاں دی گئی ہیں۔

میں (محمد سلیمان ندوی) نے دل پر جبر کر کے یہ پوری حکایت نقل کی ہے یہ اس لئے کہ میلاد کے عام جلسوں کی رونق انہیں روایتوں سے ہے۔ یہ روایت ابو نعیم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اور سند کا سلسلہ بھی ہر طرح صحیح ہے مگر اگر کسی کو اسماء الرجال سے آگاہی نہ بھی ہو اور وہ صرف ادب عربی کا صحیح ذوق رکھتا ہو تو وہ فقط روایت کے الفاظ اور عبارت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر دے گا کہ یہ تیسری صدی کی بنائی ہوئی ہے اس روایت میں یحییٰ بن عبد اللہ البابلتی اور ابوبکر بن ابی مریم ہیں، پہلا شخص بالکل ضعیف ہے اور دوسرا ناقابل حجت ہے، ان کے آگے کے راوی سعید بن عمرو الانصاری اور ان کے باپ عمرو الانصاری کا کوئی پتہ نہیں (نیز یہ روایت کئی ایک دوسری روایتوں کے خلاف بھی ہے کہ جن میں ہے ولادت کے وقت عبد الرحمن بن عوف کی ماں اور عثمان بن ابی العاص کی ماں، مکہ کی قریشی خاندان کی مقامی عورتیں موجود تھیں دیکھئے روایت نمبر:۸، ۱۰جبکہ اس روایت میں ہے کہ کوئی عورت خاندان کی ولادت کے موقعہ پر موجود ہی نہیں تھی۔ محمدی)
 
Top