• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معزز مفتیان کے تفصیلی فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(۴)
سوال نمبر۲: مروجہ قراء ات کے بارے میں کیا قرآن وسنت میں کوئی ثبوت موجود ہے؟
الجواب: اَحادیث مبارکہ صحیحہ سے ثابت ہے کہ قرآن مقدس سات حروف پر نازل ہواہے جس کے اوّلین مخاطب عرب قبائل بالعموم ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور اُمی تھے۔ الفاظ کی ادائیگی میں ہرزبان میں ایساہوتا ہے کہ اس زبان کے دائرہ میں رہنے والوں کے لہجے میں فرق ہوتا ہے اور بعض معانی کے اظہار میں الفاظ بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ بعض قبائل ایسے بھی تھے جودوسرے قبیلے میں مروّجہ حروف اَدا نہیں کرسکتے تھے۔آسانی کے لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن مقدس کو سبعہ اَحرف پر نازل کیا اور ان میں جوآسان لگے اس کے مطابق قراء ت کی اِجازت دی۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سنا کہ وہ سورۃ الفرقان کی تلاوت کررہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان کی قراء ت میں کئی حروف ایسے تھے جو رسول اللہﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے، میں انہیں رسول اللہﷺکی خدمت میں لے آیا۔ آپؐ نے دونوں سے سورہ ٔفرقان کی قراء ت سنی اور دونوں کی قراء ت کے بارے فرمایا اسی طرح نازل ہوئی ہے اور فرمایا: (إِنَّ القُرْآنَ أنْزِلَ عَلیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُ وا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ )
’’یعنی قرآن سات حرفوں پراتارا گیا ہے ان میں سے جو آسان لگے پڑھو۔‘‘(صحیح البخاري :۴۹۹۲)
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إن رسول اﷲ ! قَالَ أَقْرَأَنِي جِبْرِیلُ عَلی حَرْفٍ فَرَاجَعْتُہٗ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیدُہٗ وَیَزِیدُنِي حَتَّیٰ انْتَہَی إِلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ (ایضاً: رقم ۴۹۹۱)
’’رسول اللہﷺنے فرمایا مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف پر پڑھایا، میرے طلب کرنے اور مراجعت پر سات حروف تک بڑھادیا۔‘‘
سات حروف پر نزول کی اَحادیث درج ذیل صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں:
عمر، عثمان، ابن مسعود، ابن عباس، ابوہریرہ، ابوجہم، ابوسعید خدری، ابن طلحہ الانصاری، ابی بن کعب، زید بن ارقم، سمرۃ بن جندب، سلمان بن صرد،عبدالرحمن بن عوف، عمرو بن ابی سلمہ، عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوبکرۃ، ہشام بن حکیم، انس، حذیفہ، اُم ایوب رضی اللہ عنہم (مناھل العرفان في علوم الدین :۱؍۱۳۲)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’سات حروف سے مراد قراء سبعہ کی قراء ات نہیں ہیں۔ مذکورہ قراء ات کو سب سے پہلے تیسری صدی کے اِمام ابوبکر بن مجاہدرحمہ اللہ نے جمع کیا۔ مسلمانوں میں اس پر اتفاق ہے کہ جن سات حروف پر قرآن کا نزول ہوا تھا ان میں معنیٰ کا تناقض یا تضاد نہیں بلکہ ایک ہی معنی کے (مرادف) الفاظ تھے۔ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے توضیح یوں کی: جیساکہ تم کہو اقبل،ھلم،تعال،اھ (الفتاویٰ :۱۳ ؍۳۹۰)
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بعض معانی کی اَدائیگی میں عرب لغات مختلف تھیں اسی طرح بعض حروف کے لہجے میں اختلاف تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علامہ مناع القطان لکھتے ہیں:
’’سبعہ احرف سے عرب کی سات لغات مراد ہیں جو کہ ایک معنی پر دال ہیں۔ادلہ صحیحہ اسی رائے کو درست ثابت کرتے ہیں اور یاد رہے ان حروف میں پڑھنے والے کی رائے اور اجتہاد کو دخل نہیں تھا بلکہ رسول اللہﷺسے سنے ہوئے الفاظ پر ہی قراء ت ہوتی تھی۔ رسول اللہﷺکی ہدایت تھی کہ اس بارے اختلاف اور انکار نہ کیا جائے۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں نئی نسل اورنئے مسلمانوں کی کثرت کی وجہ سے اختلافات نمایاں ہونے لگے اور کئی مواقع پر محسوس کیا گیا کہ کسی ایک حرف پرامت کو اکٹھا کیا جائے۔‘‘ (مباحث في علوم القرآن ص۱۶۲)
انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ فتح آرمینیا اورآذربائیجان کے غزوات میں شریک ہوچکے تھے۔ عرض کی عثمان رضی اللہ عنہ! اُمت کو اختلاف سے بچالو، یہود و نصاریٰ کی طرح ان میں اختلاف پیدا نہ ہوجائے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اُم المومنین حفصہ رضی للہ عنہا سے وہ صحف منگوائے (جو زیدرضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں نے مدوّن کئے تھے)اور زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعیدبن عاص اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اس کے متعدد نسخے تیار کرو۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے (مؤخر الذکر) تینوں قریشیوں کو حکم دیا کہ تمہارے اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مابین اختلاف کی صورت میں’لسان قریش‘ میں لکھو کہ ان کی زبان میں قرآن نازل ہوا ہے۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر،باب جمع القرآن)
اب چند ایک اَمثلہ ملاحظہ فرمائیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ویقرأ مرساہا و مجراہا و مجریہا و مرسیٰہا‘‘(تفسیر سورہ ہود) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سورہ یوسف کی آیت میں’’حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أنَّہُمْ قَدْ کُذِّبُوا‘‘پڑھتی تھیں۔ نیز فرماتے ہیں:’’وقال فَرَضْنَاہَا أنزلنا فیہا فرائض مختلفۃ ومن قرأ فَرَّضْنَاہَایقول فرضناعلیکم وعلی من بعدکم ‘‘
اس اختلاف میں لہجات کااختلاف بھی آتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
قولہ تعالیٰ: ہل أتاک حدیث موسیٰ میں اتی اور موسیٰ میں بعض امالہ کرتے ہیں اوربعض فتح پڑھتے ہیں اسی طرح اظہار و ادغام، ہمز و تسہیل اور اشمام وغیرہ میں لہجات کااختلاف ہے، اس تنوع کی اجازت ایک حقیقت ثابتہ تھی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’باب نزول القرآن بلسان قریش والعرب قرآنا عربیا بلسان عربی مبین‘‘ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک بڑی تعداد نے قرآن پاک کی سورتیں لکھ رکھی تھیں ہر ایک نے وہی قراء ت لکھی جو اس نے رسول اللہﷺسے سنی تھی۔ مختلف حروف منزلہ کے مصاحف میں رہنے سے اختلاف کی خلیج وسیع ہوسکتی تھی۔ بناء بریں عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں ختم کرکے ایک’المصحف‘ پر متفق کیااور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا۔
عثمانی صحیفہ’الامام‘ میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو مختلف حروف منزلہ اورلہجات رسم میں آسکیں۔ لغت قریش پر تحریر کردہ ’المصحف‘کے بارے اَئمہ کرام قراء کی خدمات وقیع ہیں۔ جس طرح فہم قرآن مقدس کے لیے لغت عرب کا تحفظ ہوا ہے اور علوم حرف، نحو اور بلاغہ مدون ہوئے ہیں جن سے علی وجہ البصیرۃ الفاظ کی تصریف کی درستی،جملوں کی ترکیب کی تصویب اور وجوہ اعجاز کا تعین سمجھا جاتاہے۔
اسی طرح اَدائیگی حروف قرآن کے حوالے سے قراء کی خدمات وسیع اور وقیع ہیں۔ یاد رہے کہ قراء سبعہ یاعشرہ ان قراء ات کے بانی نہیںہیں اَدائیگی حروف کے یہ انداز بہت پہلے سے جاری تھے۔ ان کی مساعی جمیلہ کے حوالے سے قراء ات کا انتساب ان کی طرف ہوا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس بارے میں امت کا اجماع ہے کہ درست قراء ت کے لیے تین شروط کاپایا جانا ضروری ہے۔
(١) وہ قراء ت عربیہ کے موافق ہو۔
(٢) عثمانی مصاحف کے موافق ہو۔
(٣) اس کی سند رسو ل اللہﷺتک صحیح ہو۔
دیکھئے: ’’ وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ‘‘ میں أرجلَکم کا منصوب پڑھنا یا مجرور۔
’’وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ‘‘ میں یطہرن کومشدد اور مخفف دونوں طرح پڑھنا۔
یہ چند اَمثلہ ہیں عربیت، عثمانی مصحف اور صحت استناد سے قراء ات ثابت شدہ ہیں اور ہر ایک میں معانی مختلفہ ہیں جن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
’’أرجلَکم‘‘ بفتح اللام میں پاؤں دھونے کا حکم ہے تو ’’ أرجلِکم ‘‘ بکسراللام میں موزوں پر مسح کا حکم نکل سکتا ہے۔ اور یطہرن بالتشدید میں طہارت کے ساتھ غسل کی اہمیت کااشارہ بھی ہے۔
البتہ مصاحف عثمانی کے کلمات سے ہٹ کر دوسرے ہم معنی الفاظ کی قراء ت درست نہیں کہ ان کا تواتر ثابت کرنا مشکل ہے۔اور جن کلمات میں متنوع قراء تیں رسم صحیفہ عثمانی سے مطابقت رکھتی ہیں ان پر اجماع ہے کہ پڑھنا درست ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاري میں ہے:۹؍۳۰)
حق یہ ہے کہ المصحف میں جمع شدہ کے بارے قطعی طور پر یقین ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور جسے رسول اللہﷺکے حکم سے لکھا گیا اس میں بعض حروف سبعہ ہیں، سب نہیں اور اس کے علاوہ قراء ات میں جو نقوش محررہ کے موافق نہیں اور جنہیں سہولت کے لیے پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اختلاف ہونے لگا اور اس بنیاد پر ایک دوسرے کو کفر کی نسبت دی جانے لگی۔ تو سب نے اسی کو اختیارکرلیا کہ جس لفظ کے لکھنے کی اجازت دی گئی ہے اسی پراکتفاء کیاجائے۔
امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس ایک حرف پر اقتصار اس طرح ہے جیسا کہ چند خصلتوں کے اختیار کی صورت میں ایک کو اپنا لیاجائے کہ سب وجوہ پرقراء ت واجب نہیں تھی بلکہ رخصت کے طور پر تھی۔ رسو ل اللہﷺکے فرمان کے یہ الفاظ اس پر دال ہیں:’’فاقرأوا ما تیسرمنہ۔ الحدیث‘‘،یعنی ان حروف میں سے جو آسان لگے پڑھو۔‘‘ امام طبری رحمہ اللہ نے اس کی بہت تفصیل ذکر کی ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علماء و سلف ائمہ کا یہی کہنا ہے کہ سبعہ اور عشرہ قراء ات جو سبعہ حروف میں سے ایک حرف پر ہیں۔اور وہ اس پربھی متفق ہیں کہ(اللہ کی طرف سے نازل کردہ) سات حروف ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ بعض حروف دوسرے حروف کی تصدیق کرتے ہیں۔ خط مصحف (عثمان) کے دائرے میں آنے والی قراء ات کی اجازت شارع علیہ السلام نے دی ہے اس لیے کہ ان کا مرجع سنت اوراتباع ہے محض رائے اور ابتداع نہیں۔‘‘ (الفتاویٰ :۱۳؍۴۰۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سوال نمبر۲: اس سلسلہ میں اسلاف اُمت کی رائے کیا ہے؟
الجواب :بعض آراء کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس پر ایک مبسوط رائے تحریر کی ہے، لکھتے ہیں:
علماء کی ایک تعداد نے صراحت کی ہے کہ یہ قراء اتیں جو قراء سبعہ کی طرف منسوب ہیں یہ وہ سات حروف نہیں ہیں جن کی قراء ت کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وسعت دی گئی تھی یہ ان سات میں سے ایک حرف کی طرف راجع ہیں یعنی جس حرف پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف کو جمع کیا ابن الناس وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے یہ مشہور قراء تیں ہیں جنہیں ائمہ قراء نے اختیار کیا ہے اور ہر ایک کا انتخاب ان کے نزدیک احسن اور اولیٰ کا ہے، ان کے اختیار کردہ کی نسبت ان کی طرف ہوگئی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی دوسرے کے طریق قراء ت کو ممنوع قرار نہیں دیا اورنہ ہی انکار کیاہے بلکہ اسے بھی درست اور جائز قرار دیا ۔ اسی وجہ سے دو دو اور زیادہ کا انتخاب بھی(بعض الفاظ میں)مروی ہے اور سب صحیح ہے۔
ان ادوارمیں مسلمانوں کااجماع رہا ہے کہ ائمہ قراء سے مرویہ قراء ات صحیحہ پر ہی اعتماد کیا جائے۔ اس طرح قرآن کی حفاظت کا جو وعدہ کیاگیا تھا وہ پوراہوچکا ہے۔ ائمہ متقدمین اور محقق فضلاء کا نظریہ یہی ہے جیسا کہ ابوبکر بن الطیب رحمہ اللہ اور طبری رحمہ اللہ وغیرہ ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں گزشتہ اَدوار میں تمام شہروں میں سبعہ قراء کی قراء ت پر اتفاق رہا ہے،اسی کے مطابق نماز کی ادائیگی ہوتی رہی ہے کہ یہ قراء تیں بہ اجماع ثابت شدہ ہیں۔(مقدمہ جامع أحکام القرآن :۱ ؍۴۶)
ابن خلدون رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قرآن اللہ کا کلام ہے جو نبیﷺپر نازل ہوا۔ دفتین کے مابین لکھا ہوا ہے اور وہ امت میں متواتر ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے بعض الفاظ (سب اللہ کی طرف سے نازل کردہ) کے اختلاف اور مختلف لہجات کے ساتھ روایت کیااورنقل کیا۔ اور بالآخر اداء و مخارج کے اعتبار سے سات قراء تیں مقرر ہوگئیں جن کی نقل متواتر ہوتی آئی اورہر قراء ت پر ایک جم غفیر کی روایت نے شہرت پائی اور اُصولا سات قراء تیں معروف ہوئیں اور سات کے علاوہ کچھ قراء تیں بھی لاحق ہوئیں مگر وہ اتنی قابل اعتماد نہیں البتہ سات قراء تیں کتب میں معروف ہیں۔ اھ (مقدمہ ابن خلدون)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’ ’نماز میں اور نماز کے علاوہ ان قراء ات کا پڑھناجائز ہے جو رسم مصحف کے موافق اور ثابت ہیں۔ ‘‘ (الفتاوی:۱۳ ؍۴۰۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سوال نمبر ۳: جو لوگ قرآن مجیدکی قراء ات متواترہ کاانکارکردے ہیں شرعی اعتبار سے ان کاکیا حکم ہے ۔امت کوان کے ساتھ کیابرتاؤ کرناچاہئے۔
الجواب: تفصیل بالا سے واضح ہے کہ قراء ات متواترہ کاانکار درحقیقت قرآن کا انکار ہے کہ قرآن عظیم وہ کتاب ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام رحمہم اللہ اور ائمہ قراء نے پڑھا اورجو دفتین میں محفوظ ہے۔ اس میں انداز قراء ۃ کا تنوع ہے مگر معنی میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ بعض اوقات نئے معانی اور احکام بھی ان میں سمجھے جاتے ہیں لہٰذا کسی بھی ثابت شدہ قراء ت کا انکار درحقیقت قرآن کاہی انکار ہے، جو کہ کفر ہے۔
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’قرآن سات حروف پر اتارا گیا ہے تم جس حرف پر پڑھو گے درست ہوگا، آپس میں الجھانہ کرو، اس میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔‘‘ (مسند أحمد:۴ ؍۲۰۴، ۲۰۵)
اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث (مسند أحمد:۱ ؍۳۰۰) اور ابوجہم رضی اللہ عنہ کی حدیث (مسند أحمد:۴ ؍۱۶۹)میں ہے سات حروف منزلہ میں سے کسی کا انکار اور اس میں جھگڑناکفر ہے۔ جبکہ مصحف عثمانی میں ایک حرف کی متنوعہ قراء ات جو رسول اللہﷺسے ثابت ہے اورمختلف قبائل کے اداء الفاظ کی بنیاد پر رسم عثمانی میں محفوظ کردی گئی ہیں اس کا انکار کفر کیوں نہ ہو۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اداء لفظ میں تنوع صفات اسے ایک لفظ ہونے سے خارج نہیں کرتیں لہٰذا وہ حروف سبعہ میں سے ایک حرف ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام اور ائمہ نے کسی ایک معین قراء ت کی پابندی کو ضروری نہیں قرار دیا بلکہ اگر کسی کے پاس شیخ حمزہ یعنی اعمش رحمہ اللہ کی قراء ت یا یعقوب بن اسحق حضرمی رحمہ اللہ کی قراء ت ہو یا حمزہ اورکسائی کی اور اسکے مطابق قراء ت کرے اسی میں کسی کا بھی نزاع اور اختلاف نہیں ہے۔ (الفتاویٰ:۱۳ ؍۳۹۳)
مولانا محمد رفیق اثری
(شیخ الحدیث دار الحدیث محمدیہ ،جلال پور پیر والہ،ملتان)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(۵)​
سبعۂ اَحرف اور قراء اتِ عشرہ متواترہ ہی قرآن کریم ہے
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وبعد
قرآن کریم فرقانِ حمید وحی الٰہی ہے،اس کے الفاظ و معانی، حروف و کلمات، جملے اور ترکیبات کلام اللہ اور اعجاز ربانی میں ایک مخلص مومن کو مکمل یقین اور اطمینان ہے کہ وہ جس طرح لوح محفوظ میں حفاظت الٰہی میں تھا،اسی طرح بیت العزۃمیں نازل ہوا، بعینہٖ اسی طرح حضرت جبریل امین علیہ السلام نے اسے حضرت محمدﷺکے قلب اَطہر پر نازل کیا اور آپﷺنے بکمال و تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پڑھ کر سنایا اور اسی کے مطابق آج تک پڑھا اورپڑھایا جارہا ہے،اس کے اندر کسی قسم کی کمی بیشی انسان کے بس میں ہی نہیں ہے۔
قرآن پاک تاقیامت اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے، اس کے حصول کا ذریعہ اصلاً تلقی باللسان اور حفاظت اہل علم و ایمان کے پاکیزہ سینوں میں محفوظ ہے، فرمایا: ’’ إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹)
’’یقینا ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا:’’ إنَّ عَلَینَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہٗ ۔ فَاِذَا قَرَأنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہٗ ‘‘(القیامۃ:۱۸)
’’بے شک اس کو جمع کرنا اور اس کو پڑھنا ہمارے ذمہ ہے،جب ہم اس کو پڑھیں تو آپ اس کی قراء ت کی پیروی کریں۔‘‘
نیز فرمایا: ’’ بَلْ ھُوَ آیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِی صُدُورِ الَّذِینَ اُوتُوا العِلْمَ وَمَا یَجْحَدُ بِآیٰتِنَا اِلَّا الظّٰلِمُونَ ‘‘(العنکبوت:۴۹)
’’بلکہ یہ اہل علم کے سینوں میں محفوظ آیاتِ بینات ہیں، اور اس کی آیتوں کاانکار تو صرف ظالم ہی کرتے ہیں۔‘‘
اس کے اصل نظم اور اس کے اوصافِ ذاتیہ میں کمی بیشی اس کی حفاظت کے منافی ہے۔
قرآن کریم کے الفاظ و حروف اور اس کی قراء ت کے مختلف طرق اور اس کی مختلف روایات جو قراء ات عشرہ کے نام سے معروف ہیں جوحدیث میں مذکور’سبعہ احرف‘ کی عملی تفسیر وتعبیر ہے، اس کے ثبوت کے لیے متواتر کا لفظ صرف تفہیم اورعلمی دنیا کے رسم کے لیے ہے ورنہ اس کا ثبوت آسمان کی بلندی اور زمین کی پستی سے بھی زیادہ واضح ہے۔ تواتر کی ہر تعریف قرآن حکیم اور اس کی قراء ات کے ثبوت سے کم تر ہے، اس کا ثبوت اس سے بہت اعلیٰ و بالا ہے۔ قرآن کریم کے ثبوت پرہمارا اطمینان و اعتماد ہمارے ایمان کا جزو لازم ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
قراء اتِ عشرہ متواترہ کا حکم
اُمت اسلامیہ کے اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم ’سبعۃ احرف‘ پر نازل ہوا ہے اس کی صراحت اَحادیث نبویہ میں آچکی ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق اختلافات منقول ہیں، حدیث میں ہے:
عن ابن عباس أن رسول اﷲ ! قال: أَقْرَأَنِي جِبْرِیلُ عَلَیٰ حَرْفٍ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیدُہٗ حَتَّی انْتَھَیٰ إِلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، الفضائل، باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے مجھے ایک حرف پر قرآن پڑھایا، تو ان سے مراجعت کی اور میں مزید حروف پر پڑھنے کا مطالبہ کرتا رہا اور وہ بھی زیادہ کرتے رہے، حتیٰ کہ سات حروف پر پڑھنا ٹھہرا۔‘‘
ایسے ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے، اس میں سات حروف پر پڑھنے کو آخری قراء ت بتایا گیا ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین، باب بیان أن القرآن علی سبعۃ أحرف وبیان معناہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
’سبعۂ احرف‘ سے کیا مراد ہے؟
اس میں اہل علم کی دو رائیں ہیں،اکثر اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ اس سے مراد حقیقتاً سات کا عدد ہے اور ’احرف‘سے مختلف قبائل کے لہجات اور ان کی لغات مراد ہیں جن کی لغات کے مطابق قرآن نازل ہوا ہے۔
اوروہ :(١)قریش (٢) ہذیل (٣)ثقیف (٤) ہوازن
(٥) کنانہ (٦) تمیم (٧) اور یمن ہیں۔
یااس سے مراد:
(١) قریش (٢) ہذیل (٣) تمیم (٤) ازو د
(٥) ربیعہ (٦) ہوازن (٧) سعد بن بکر ہیں۔
یہ رائے سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (۱۹۸ھ)، ابوعبیدقاسم بن سلام رحمہ اللہ (م۲۲۴ھ) ، علامہ طبری رحمہ اللہ (م۳۱۰ھ)، ابوشامہ رحمہ اللہ (م۶۶۵ھ)، امام قرطبی رحمہ اللہ(م۶۷۱ھ) اور دیگر متعدد قدیم و جدیداہل علم سے منقول ہیں۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (جامع البیان للطبری:۱؍۲۱،۶۷، المرشد الوجیز لأبي شامۃ :۹۷، الجامع لأحکام القرآن للقرطبي:۴۱،۴۶ والأحرف السبعۃ لحسن ضیاء الدین عتر)
یہی رائے زیادہ وجیہ معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ مذکورہ بالا حدیث کے تمام طریق میں سبعہ اَحرف کا لفظ موجود ہے اس کاواضح مفہوم وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔
سبعہ احرف سے مراد لغات اورلہجات ہی ہیں، اسی رائے پر طبیعت مطمئن ہوتی ہے اور یہی رائے قرین عقل ودلیل معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جمع ثانی کے موقع پر تینوں قریشی علماء قرآن سے کہا تھا:
إذا اختلفتم أنتم وزید في شيء فاکتبوہ بلغۃ قریش فإنہ نزل بلغتھم
’’یعنی جب تمہارا اور زید بن ثابت کا کسی لفظ کے بارہ میں اختلاف ہو تو اسے قریش کے طریقہ کے مطابق لکھو، کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا۔‘‘
واضح رہے کہ قرآن کے قریش کی زبان میں نازل ہونے کی بناپرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بلغتھم کیا ہے۔واللہ اَعلم
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
’قراء ات عشرہ‘ ، ’سبعہ اَحرف‘ کی روایات کا نام ہے:
بعض حضرات اس وہم کاشکار ہوئے کہ سبعہ قراء ات ائمہ قراء ات کی قراء ات کا نام ہے ان کی شہرت توصرف روایت کی وجہ سے ہوئی ہے، سبعہ احرف کی روایات عشرہ قراء ات کا سبب بنی ہیں۔
اصلاً قراء ات عشرۃ اور روایات کا مصدر و منبع وحیٔ الٰہی ہے اور پوری دس قراء ات متواترہ قرآن کریم ہیں، ائمہ قراء ات کاان میں کوئی دخل نہیں وہ تو صرف ناقل ہیں اس کے سوا ان کی کوئی حیثیت نہیں، انہیں ان قراء ات کا موجد سمجھنا تو ایسے ہے جیسے محدثین رحمہم اللہ کو اَحادیث کا واضع کہا جائے اور ایسا ہرگز نہیں ہے۔
سلف کا مؤقف
صحابہ و تابعین کرام سے لے کر عہد ہر عہد اسلامی میں ان قراء ات کو قرآن کریم کاحصہ سمجھا گیا، اَئمہ حدیث تفسیر نے اپنی اپنی کتابوں میں حسب اِستطاعت انہیں نقل بھی کیا ان سے استدلال بھی کیا، جو اس امر کی دلیل ہے کہ انہیں ان سے مکمل اتفاق تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م۷۲۸ھ) سے سوال کیاگیا:
جمع القراء ات السبع ھل ھو سنۃ أم بدعۃ، ھل جمعت علی عھد رسول ﷺ وھل لجامعھا مزید ثواب علی من قرأ بروایۃ أم لا؟
’’سبعہ قراء ات کو جمع کرنا سنت ہے یا بدعت؟ اور کیا یہ نبی کریمﷺ کے زمانہ مبارک میں جمع کی گئیں یانہیں؟ اور کیا ان سب قراء ات کے مطابق پڑھنے والے کو صرف ایک قراء ت کے مطابق اجر وثواب میں فوقیت حاصل ہے یا نہیں؟‘‘
تو امام صاحب نے جواب میں فرمایا:
الحمد ﷲ! أما نفس معرفۃ القراء ات وحفظھا فسنّۃ متبعۃ یأخذھا الآخر عن الأول فمعرفۃ القراء ات التی کان النبي ! یقرأ بھا أو یقرّھم علی القراء ۃ بھا أو یأذن لھم وقد أقرئوا بھا سنۃ والعارف في القراء ات الحافظ لھا، لہ مزیۃ علی من لم یعرف ذلک أو لا یعرف إلا قراء ۃ و احدۃ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ :۱۳؍۴۰۴)
’’الحمدﷲجہاں تک ان قراء ات کا علم حاصل کرنے اور انہیں حفظ کرنے کاتعلق ہے تو یہ واجب الاتباع سنت ہے جو خلف نے سلف سے اَخذ کی ہے، چنانچہ ان قراء ات کا علم جن کے مطابق نبیﷺپڑھتے اور صحابہ کو ان کے مطابق پڑھتے ہوئے سنتے یاانہیں ان کے مطابق پڑھنے کی اِجازت دیتے تھے اور انہوں نے ان کے مطابق قراء ت کی تو یہ سنت ہے اور ان قراء ات کے عالم اور حافظ کو علم نہ رکھنے والے یاصرف ایک قراء ت کا علم رکھنے والے پر فضیلت حاصل ہے۔‘‘
 
Top