ابوزینب
رکن
- شمولیت
- جولائی 25، 2013
- پیغامات
- 445
- ری ایکشن اسکور
- 339
- پوائنٹ
- 65
مفسرِقرآن حافظ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کی وجہ بیان کرتے ہیں
حافظ بن کثیر رحمہ اللہ نے آیت ﴿أَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّةِ یَبْغُونَ﴾کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں:
امام صاحب فرماتے ہیں کہ ''وہ، یعنی تاتاری اپنے یاسق قانون کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺپر مقدم رکھتے تھے''۔وہ اسی پر ان کی اوران جیسے دوسروں کی تکفیر کر رہے ہیں۔ یعنی ''مناطِ تکفیر''(کافر قرار دینے کی علت)ان کا وضعی قانون یاسق کو کتاب و سنت پر مقدم کرنا ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ اس شخص پر نکیر فرما رہا ہے جو اللہ کے محکم فیصلے کو چھوڑ کر کہیں جاتا ہے جبکہ اللہ کا وہ فیصلہ ہرہرخیر پرمشتمل ہے اور ہر ہر شر سے مانع ہے،مگر یہ شخص اسے چھوڑ کر اور چیزوں کی طرف جاتا ہے ، خواہ وہ آراء ہوں ، یا وہ وضع کر لی گئی چیزیں ہوں جنھیں انسانوں ہی نے مقرر ٹھہرا لیا ہے بغیر اس کے کہ ان پر شریعت سے کوئی سند ہو، جیسا کہ اہل جاہلیت اپنے حکم و قانون کیلئے اپنی ان ضلالتوں اور جہالتوں کو مقرر ٹھہرا لیتے تھے جنھیں وہ اپنی آراء اور اہواء سے اختیار کر لیتے ۔ جس طرح یہ تاتاری ان شاہی فرامین کی بنیاد پر اپنا حکم و قانون چلاتے ہیں جن کا ماخذان کے بادشاہ چنگیز خان کا وضع کیا ہوا یاسق(تزک چنگیزی، تاتاری قوانین کی کتاب)ہے اور جو ایک مجموعہ قوانین سے عبارت ہے جو اس نے مختلف شریعتوں سے نکال کر اکھٹے کیے تھے، یہودیت سے بھی،نصرانیت سے بھی اور شریعت اسلامی سے بھی،جبکہ اس میں بہت سے قوانین ایسے ہیں جو اس نے خود اپنے ہی فکر اور ہوائے نفس سے ماخوذ کر رکھے تھے،اور یوں یہ یاسق(تزکِ چنگیزی)ہی آگے اس کی اولاد میں ایک دستور بن چکا ہے۔اس کی باقاعدہ پیروی ہوتی اور اسے وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺکو لاگو کرنے پر مقدم رکھتے ہیں۔ پس جو شخص ایسا کرتا ہے ، وہ کافر ہے۔اس سے قتال واجب ہے تاآنکہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کے قانون کی جانب لوٹ آئے ، یہاں تک کہ ہرہرمعاملے میں ،خواہ کوئی معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ،وہ اللہ اور رسولﷺہی کو فیصل اورحَکَم ماننے لگے۔(تفسیر ابن کثیر، المائدة 5:50.)
محدث حامد الفقی حافظ ابن کثیرکے اس فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اسی طرح محدث دیارِ مصر احمد شاکرنے بھی حافظ ابن کثیرکے اس فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم ممالک میں نافذ وضعی قوانین کو تاتاری قانون''یاسق''کے سب سے بڑھ کر مشابہ اور اسے ''یاسقِ عصری ''اور ''کفر بواح''قرار دیا ہے۔(دیکھیے عمدة التفسیر:697/1 ، طبع دارابن حزم.)''ان تاتاریوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کے قوانین اپناتے ہیں اوراپنے مالی،فوجداری اور عائلی معاملات کے فیصلے ان کے مطابق کرتے ہیں اور انگریزی قوانین کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام پر مقدم رکھتے ہیں۔ایسے لوگ بغیر کسی شک وشبہ کے مرتد اور کافر ہیں۔یہ اس وقت تک ہے جب تک وہ اس روش پر برقرار ہیں اور اللہ کے حکم کی طرف رجوع نہیں کرتے۔وہ اپنا نام کچھ بھی کیوں نہ رکھ لیں، انھیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور وہ اسلام کے ظاہری اعمال میں جتنے چاہیں عمل کر لیں، وہ سب کے سب بے کار ہیں۔ جیسے نماز ، روزہ اور اس کے علاوہ دیگر اعمال۔''(تعلیق کتاب فتح المجید، ص:415.)
حافظ ابن کثیرکا وضعی قوانین فافذ کرنے والوں کے بارے میں ایک اور انتہائی اہم فتوی ملاحظہ فرمائیں:
(وَفِي ذٰلِکَ کُلِّہِ مُخَالَفَةٌ لِّشَرَائِعِ اللّٰہِ الْمُنَزَّلَةِ عَلٰی عِبَادِہِ اَلأَنبِیَاءِ عَلَیْھِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَمَنْ تَرَکَ الشَّرْعَ الْمُحْکَمَ الْمُنَزَّلَ عَلٰی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ خَاتَمِ اَلأَنبِیَاءِ وَتَحَاکَمَ اِلٰی غَیْرِہٖ مِنَ الشَّرَائِعِ الْمَنْسُوخَةِ کَفَرَ،فَکَیْفَ بِمَنْ تَحَاکَمَ اِلَی الْیَاسَا(الْیَاسِقِ) وَقَدَّمَھَا عَلَیْہِ؟ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ کَفَرَ بِاجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ)
''یہ تمام قوانین اللہ کی ان شریعتوں کی مخالفت سے پُر ہیں جواس نے اپنے انبیاءپرنازل فرمائیں۔ پس جوشخص بھی خاتم الانبیاء محمد بن عبداللہﷺپر نازل کردہ محکم شریعت کوچھوڑ دے اور اپنے فیصلوں کے لیے کسی منسوخ شدہ شریعت کی طرف جائے تووہ شخص کافر ہوجائے گا ۔ (پس جب رب ہی کی نازل کردہ کسی سابقہ شریعت کو فیصل ماننابھی کفر ہے) توپھر اس شخص کی کیا حالت ہوگی جو''یاسق''جیسی(خودساختہ)کتاب کی طرف فیصلے لے کرجائے اوراسے شریعت ِمحمدی پر مقدم جانے؟بلاشبہ جوشخص بھی ایساکرتاہے ،اس کے کافر ہونے پرامت کااجماع ہے۔''[البدایة والنھایة:119/13. ترجمة جنکز خان.]
تو یہ ہے تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کی اصل وجہ جس پر شیخین رحمہمااللہ اور تمام اہل حق متفق ہیں۔ خوامخواہ میں لمبی بحث کی گئی ہے اس مسئلے میں تاکہ لوگوں کی نظروں سے اصل حقائق کو اوجھل کرکے ان کو تلبیس وتدلیس کرتے ہوئے اپنے باطل افکار اور نظریات کو پیش کیا جاسکے ۔ جب تاتاریوں کی جو تکفیر کی اصل وجہ شیخین امام ابن تیمیہ اور امام ابن کثیر اور ان کے بعد آنے والے اہل علم نے بیان کی ہے وہ ٍیہ ہے کہ تاتاریوں نے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر یاسق کو مقدم رکھا۔جب ہی تو ان اہل علم نے تاتاریوں کی کھلی تکفیر کی اور ان کے خلاف قتال کیا اور ان شہادتین کے اقرار کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
اور جن صاحب نے اس فورم پر یہ دعویٰ کیا کہ امام صاحب نے تاتاریوں کی تکفیر اس لئے کی کہ ان کے عقیدے میں خرابی تھی ۔ تو ہمارا ان صاحب سے یہ سوال ہے کہ تو پھر تو شیعوں اور بریلویوں اور صوفیوں کے عقیدے میں بھی اسی طرح کی بلکہ اس سے بھی بدترین خرابیاں موجود ہیں ۔ تو کیا ان صاحب نے عقائد کی خرابی کی بنیاد کبھی ان فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد جو کہ اس عقیدے کے حامل ہیں ان کی تکفیر کی ہے؟ یا ان کی تکفیر کریں گے؟
لہٰذا یہ کہنا کہ صرف عقائد کی بنیاد پر تاتاریوں کی تکفیر کی گئی تھی محض دھوکہ ہے۔ہم نے درج بالا عبارات سے ثابت کردیا ہے کہ تاتاریوں کی تکفیر اور ان کے خلاف قتال کی بنیادی وجہ کتاب وسنت کے محکم قوانین کو چھوڑ کر چنگیزخان کے بنائے قوانین یاسق کو لوگوں کے اوپر نافذ کرنا تھا۔
ہم کہتے ہیں کہ اس طرح کی تدلیس اور تلبیس کی ضرورت کیوں پیش آئی تو ا سکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں حکمرانی کرنے والے ان حکمرانوں کو تکفیر سے بچانا ہے جو کہ قرآن وسنت کے علاوہ برطانوی اور فرانسیسی قوانین اور پارلیمنٹ میں بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے حکومت کررہے ہیں ۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جماعۃ الدعوۃ سے تعلق رکھنے والے مفتی مبشر احمد ربانی صاحب نے اسی قسم کی تدلیس وتلبیس سے کام لیتے ہوئے ان حکمرانوں کو تکفیر سے بچانے کی کوشش کی ہے جو کہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کی بجائے برطانوی اور فرانسیسی اور پارلیمنٹ میں بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے سے حکومت کررہے ہیں اور انہوں نے کتاب وسنت کے قوانین کو جو کہ محکم اور ٹھوس قوانین ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے نازل کیا ہے ان قوانین کو پیٹھ کے پیچھے پھینک رکھا ہے۔اور چنگیزخان کی طرح دین اسلام سے کچھ باتیں لے کر اپنے بنائے ہوئے یاسق کو لوگوں پر مسلط کیا ہوا ہے ذیل میں ہم اس تدلیس کا نمونہ آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں تاکہ حق کے متلاشی اس حقیقت کو اچھی طرح جان لیں کے اصل حقیقت کیا ہے:
کلمہ گوتاتاریوں کے خلاف ابن تیمیہ کے جہاد کے سوال پر جماعۃ الدعوۃ کے مفتی جناب مبشر احمد ربانی صاحب نے جواب دیاکہ:
مفتی صاحب نے تو اس سوال کے جواب میں تلبیس،تدلیس اور تخلیط کا ''لک''توڑ کر رکھ دیا ہے اورپہلے سوال کی طرح بات گول مول کر کے نکلنے کی کوشش کی ہے ، حالانکہ اوپر لکھی گئی بات اگر کسی بھی انصاف پسند آدمی کے سامنے پیش کی جائے اور پوچھا جائے کہ تاتاریوں کے کافر ہونے کی جو علت مبشر ربانی صاحب نے بتائی ہے ، کیا بالکل وہی علت موجودہ حکمرانوں میں نہیں ہے جو انگریزی اور خود ساختہ قوانین نافذ کر چکے ہیں ۔ تو یقینا ہر آدمی یہی کہے گا کہ کیوں نہیں۔جہاں تک میں نے فتاویٰ ابن تیمیہ کو دیکھا ہے تو ان میں واضح کفر موجود تھے ۔ انھوں نے اپنی الگ شریعت بنائی ہوئی تھی جس کا ذکر امام ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں کیا ہے جس میں یہودی ، عیسائی اور کچھ اسلام سب کو گڈمڈ کر کے اپنے لئے نئی شریعت (قانون)تیار کی تھی۔ تو نئی شریعت بنانے کی وجہ سے وہ لوگ مسلمان نہیں رہے تھے۔اس لیے ان کے ساتھ لڑے۔اگر کوئی شخص آج بھی اسلامی شریعت کا انکار کر دے ، نئی شریعت وضع کرے تو ہم اس کو بھی کافر قرار دیں گے۔ جب اسلامی شریعت کا اقرار کر کے عملاً اس کے خلاف ہو ، اس کو کافر نہیں کہتے ۔ عبداللہ بن عباس نے﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ﴾کی جو تفسیر کی ہے کہ جو اللہ کے نازل کردہ قانون کا انکار کرے گا، وہ کافر ہے۔ جس نے اللہ کے قانون کااقرار تو کیا لیکن اس کے مطابق فیصلہ نہیں کیا تو وہ ظالم اور فاسق ہے، کافر نہیں۔ اس لیے وہ (تاتاری)چونکہ نئی شریعت وضع کر چکے تھے،باقاعدہ یاسق نام کا قانون بنا کر، شریعت بنا کر جاری کر چکے تھے جس وجہ سے یہ مسئلہ ہوا(یعنی کافر ہوئے)۔''
محترم مفتی صاحب!آپ اوپر والی اپنی عبارت 100دفعہ پڑھ لیں اور تقریر کی ریکارڈنگ 200دفعہ سن لیں ، پھر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر بتائیں کہ آپ کے الفاظ میں تاتاریوں کے کافر ہونے کی کیاعلت ہے۔ ہمیں تو جوالفاظ ملتے ہیں، وہ تین طرح کے ہیں :
۱۔ انھوں نے اپنی الگ شریعت بنائی ہوئی تھی۔
۲۔ تو نئی شریعت بنانے کی وجہ سے وہ مسلمان نہیں رہے تھے۔
۳۔ اس لیے وہ (تاتاری)چونکہ نئی شریعت وضع کر چکے تھے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ہوا۔
مفتی صاحب!آپ نے ان تینوں جملوں میں ان کے کفر کی علت شریعت وضع کر کے نافذ کر دینا بتائی ہے، خواہ اسلامی شریعت کا اقرار کریں یا نہ کریں۔ مگر نیچے جب اپنے حکمرانوں کو بچانا تھا تو ادھر آپ نے کیا الفاظ کہے......... یہ خود ہی پڑھ لیں:
''آج بھی کوئی شخص اسلامی شریعت کا انکار کر دے اور نئی شریعت وضع کر ے تو کافر ہوگا۔''
ہمیں شدید حیرت اس بات پر ہے کہ جناب مفتی مبشراحمد ربانی صاحب نے تاتاریوں کے بارے میں اسلامی شریعت کے انکار کی شرط نہیں لگائی کیوں کہ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اس کا ثبوت مفتی صاحب کے پاس بالکل نہ تھا۔کیونکہ تاتاریوں نے اسلام کا انکار کرتے ہوئے یاسق کو نافذ نہیں کیا تھا بلکہ اپنی خواہش کے مطابق اسلام یہودیت ،نصرانیت اور چنگیزیت کا ملغوبہ یاسق نافذ کیا ہوا تھا۔ بعینہ اسی طرح آج کے حکمرانوں نے بھی کیا ہوا ہے انہوں نے کچھ چیزیں برطانوی قوانین، فرانسیسی قوانین اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کررکھا ہے۔
اب کوئی بھی منصف مزاج شخص یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائے گا کہ قوانین کو نافذ کرنے بارے میں ان دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔یعنی جو بھی اللہ کے قوانین کی جگہ غیر الٰہی قوانین کو نافذ کرے اس سے قتال کیا جائے اور اس کی تکفیر کی جائے جس طرح کہ تاتاریوں کی تکفیر کی گئی ۔ علماء امت نے ان کے کلمہ کے اقرار پر توجہ ہی نہیں کی اور انہیں یاسق کو نافذ کرنے پر کافر قرار دیا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ محدث حامد الفقینے تو انگریزی قوانین کو شرعی قوانین پر مقدم کرنے والوں کو بلا تردد کافر ومرتد اور تاتاریوں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔یاد رہے مذکورہ کتاب کی مراجعت و نظرِ ثانی شیخ عبدالعزیز بن بازنے کی ہے لیکن انہوں نے حامد الفقیکی مذکورہ تعلیق پر کوئی نقد و تبصرہ نہیں کیا بلکہ اسے برقرار رکھا ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے حامد الفقی کے اس فتوے کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح محدث دیارِ مصر احمد شاکرنے بھی حافظ ابن کثیرکے اس فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم ممالک میں نافذ وضعی قوانین کو تاتاری قانون''یاسق''کے سب سے بڑھ کر مشابہ اور اسے ''یاسقِ عصری ''اور ''کفر بواح''قرار دیا ہے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تو یہ ہے سیدھی سادھی صورت حال جو کہ حقائق پر مبنی ہے۔اتنی دور کی بحث میں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے خوامخواہ لوگوں کو دور پرے کی باتوں میں الجھا کر حق سے دور کیا جارہا ہے۔لہٰذا تکفیری تکفیری کی رٹ لگانے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی لسٹ میں مزید توسیع کرتے ہوئے ۔ امام ابن کثیر ، علامہ احمد محمد شاکر، محدث حامد الفقی ، عبدالعزیز بن باز وغیرہم کو بھی تکفیریوں کی لسٹ میں شامل کرلیں!!!(وَفِي ذٰلِکَ کُلِّہِ مُخَالَفَةٌ لِّشَرَائِعِ اللّٰہِ الْمُنَزَّلَةِ عَلٰی عِبَادِہِ اَلأَنبِیَاءِ عَلَیْھِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَمَنْ تَرَکَ الشَّرْعَ الْمُحْکَمَ الْمُنَزَّلَ عَلٰی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ خَاتَمِ اَلأَنبِیَاءِ وَتَحَاکَمَ اِلٰی غَیْرِہٖ مِنَ الشَّرَائِعِ الْمَنْسُوخَةِ کَفَرَ،فَکَیْفَ بِمَنْ تَحَاکَمَ اِلَی الْیَاسَا(الْیَاسِقِ) وَقَدَّمَھَا عَلَیْہِ؟ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ کَفَرَ بِاجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ)
''یہ تمام قوانین اللہ کی ان شریعتوں کی مخالفت سے پُر ہیں جواس نے اپنے انبیاءپرنازل فرمائیں۔ پس جوشخص بھی خاتم الانبیاء محمد بن عبداللہﷺپر نازل کردہ محکم شریعت کوچھوڑ دے اور اپنے فیصلوں کے لیے کسی منسوخ شدہ شریعت کی طرف جائے تووہ شخص کافر ہوجائے گا ۔ (پس جب رب ہی کی نازل کردہ کسی سابقہ شریعت کو فیصل ماننابھی کفر ہے) توپھر اس شخص کی کیا حالت ہوگی جو''یاسق''جیسی(خودساختہ)کتاب کی طرف فیصلے لے کرجائے اوراسے شریعت ِمحمدی پر مقدم جانے؟بلاشبہ جوشخص بھی ایساکرتاہے ،اس کے کافر ہونے پرامت کااجماع ہے۔''