محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
مقام محمود" سے مراد شفاعت ہے، عرش پر بیٹھانا مقصود نہیں ہے۔
سوال: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء : 79] آیت کی تفسیر میں امام مجاہد کا قول: "اس سے مراد اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھائے گا" کیا یہ صحیح ہے؟
الحمد للہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھانے کا معاملہ شروع سے اب تک بحث و تمحیص کا موضوع رہا ہے، چنانچہ اس قول کے درست ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں گفتگو سے قبل ہمیں کچھ باتیں سمجھ لینی چاہئیں:
پہلی بات:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر بیٹھنے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ کوئی مقبول سند والی روایت نہیں ہے، اور اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کیلئے ایک اصول ہے کہ : جن غیبی امور کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار کیا ہے، ان کے بارے میں یقینی اور ٹھوس رائے دینا جائز نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھانے کی حدیث کو کچھ لوگوں نے متعدد مرفوع اسانید سے روایت کیا ہے، جو کہ ساری کی ساری خودساختہ ہیں" انتہی
ماخوذ از: " درء تعارض العقل والنقل " (3/19)
ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی [انتہائی ضعیف ]حدیث ہے"انتہی
" العلو " (2/1081، رقم/422)
دوم:
صحیح سنت میں وارد شدہ قرآن کریم کی تفسیر کسی تابعی کی بیان کردہ تفسیر سے زیادہ قابل اتباع ہے، چاہے تابعین میں سے روایت والے مجاہد رحمہ اللہ ہی کیوں نہ ہوں، بالخصوص ایسی صورت میں کہ مجاہد رحمہ اللہ سے آیت کی تفسیر احادیث اور صحیح آثار سے مطابقت کی شکل میں بھی ملتی ہو، جیسے کہ آئندہ بیان ہوگا۔
چنانچہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے روز لوگوں کو زندہ کیا جائے گا، تو میں اور میری امت ایک ٹیلے پر ہونگے، مجھے میرا رب سبز لباس پہنائے گا، پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور میں اللہ کی [ثنا خوانی] میں اللہ کی مرضی سے بہت کچھ کہوں گا، تو یہی مقام محمود ہے)
" مسند احمد" (25/60) طبعة مؤسسة الرسالة
مسند احمد کے اس ایڈیشن کے محققین کا کہنا ہے کہ: "اس حدیث کی سند مسلم کی شرائط پر ہے، اسکے تمام راوی صحیح بخاری اور مسلم کے راوی ہیں، ماسوائے یزید بن عبد ربہ کے جو کہ زبیدی حمصی ہے، یہ صرف مسلم کا راوی ہے، اور عبد الرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک کے بارے میں اپنے دادا سے سماع کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ انکا سماع ثابت ہے"انتہی
اس بارے میں موقوف اور صحیح آثار میں سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ: "قیامت کے دن لوگوں کو جماعت کی شکل میں لایا جائے گا، ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہوگی، لوگ کہیں گے: اے فلاں! سفارش کردو!، یہاں تک کہ شفاعت [کی درخواست]نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے گی، تو یہ وہ دن ہوگا جس میں اللہ تعالی آپکو مقام محمود پر کھڑا کریگا" بخاری: (4718) امام بخاری نے اس اثر پر باب قائم کرتے ہوئے عنوان ہی یہ دیا ہے: " باب قولہ: ( عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا )"جو کہ اس آیت کی تفسیر کیلئے مذکورہ اثر کو امام بخاری کی طرف سے اختیار کرنے کی علامت ہے۔
اسی طرح اس آیت کی"شفاعت کبری" کیساتھ تفسیر پر ہی حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے " تفسير القرآن العظيم " (5/103) میں اکتفا کیا ہے، اور اسی تفسیر کو متعدد صحابہ کرام، اور تابعین سے روایت کیا ۔
اور اسی تفسیر کے بارے میں ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "یہی موقف اکثر مفسرین کا ہے"
چنانچہ اسی قول کے مطابق اس آیت کی تفسیر کرنا بہتر اور مناسب ہے۔
سوم:
کچھ علمائے کرام نے مجاہد کے قول کو ذکر کیا اور اس کی تردید نہیں کی، اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بھی مجاہد کے اسی قول کے قائل ہیں، بلکہ حقیقت میں انکا یہ عمل فضائل میں تساہل سے تعلق رکھتا ہے۔
ابو محمد بن بشار نے عبد اللہ بن احمد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد [احمد بن حنبل] سے روایت کرتے ہیں کہ:
[عبد اللہ] اپنے والد کو احادیث سناتے، تو [احمد بن حنبل] اسے کے بارے میں کہتے: "اس روایت کو فلاں ، فلاں نے بیان کیا ہے"، وہ راویوں کے نام بھی لیتے، اور اگر کوئی ضعیف حدیث آجاتی تو [احمد بن حنبل ] کہتے: "اسے مٹا دو"
چنانچہ جب مجاہد کا اثر سامنے آیا تو [احمد بن حنبل نے]اسے ضعیف قرار دیا۔
تو [عبد اللہ] نے کہا: ابا جان! اسے مٹا دوں؟
تو [احمد بن حنبل]نے کہا: "نہیں یہ حدیث فضائل میں ہے، اسے ایسے ہی رہنے دو، اور اسے مت مٹاؤ"انتہی
" إبطال التأويلات " (ص/489)
مذکورہ بالا اقتباس مجاہد کے قول کی شہرت پر غمازی کرتا ہے، جس میں امام احمد جیسے محدث اس قول کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے، چنانچہ کچھ علمائے کرام نے یہ سمجھ لیا کہ خاموشی اقرار کے مترادف ہے، اور کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ: مجاہد کا قول ان آثار میں سے جنہیں تلقّی بالقبول کا درجہ حاصل ہے۔
حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ بہت سے علمائے کرام نے مجاہد کی کہی ہوئی بات کو صحیح تسلیم نہیں کیا۔
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی :{عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} کی تفسیر میں مفسرین یہی کہتے ہیں کہ اس سے مراد شفاعت ہی ہے۔
اور مجاہد سے روایت کیا گیا ہے کہ "مقام محمود" سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی آپکو قیامت کےدن عرش پر بیٹھائے گا، حالانکہ مفسرین کے ہاں اس آیت کی تفسیر میں مجاہد کا قول "منکر" [سخت ضعیف کی ایک قسم]کا درجہ رکھتا ہے۔
اور اس آیت کی جس تفسیر پر صحابہ کرام، تابعین، اور دیگر علمائے کرام متفق ہیں وہ یہ ہے کہ مقام محمود سے مراد وہ جگہ ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے شفاعت کرینگے، بلکہ مجاہد سے اسی تفسیر کے مطابق بھی قول منقول ہے، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں یہ قول [یعنی :مقام محمود سے مراد شفاعت کی جگہ ہے]علمائے کتاب وسنت کے اجماع کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے شبابہ سے انہوں نے ورقاء سے، انہوں نے ابن ابی نجیح سے، انہوں نے مجاہد سے "{عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} " کی تفسیر نقل کی اور کہا: [اس سے مراد] محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہے" انتہی
" التمهيد " (19/63-64)
اور امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو "منکر" کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا"انتہی
" ميزان الاعتدال " (3/439)
اسی طرح ایک اور مقام پر امام ذہبی کہتے ہیں کہ:
"اس آیت کی مجاہد نے جو تفسیر بیان کی ہے جیسے کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ، کچھ اہل کلام نے اسے مسترد کیا ہے، لیکن مروذی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھائے جانے کی تائید کی، اور اس میں کافی مبالغہ آرائی سے کام لیا، اور اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھ ڈالی، اور مجاہد کے قول کو لیث بن ابی سلیم، عطاء بن سائب، ابو یحیی القتات، اور جابر بن یزید کے واسطے ٹھوس [ثابت کرنے کی کوشش کی]۔۔۔ دیکھو! -اللہ تعالی آپکو گمراہی سے محفوظ رکھے- کس طرح اس محدث کو غلو نے اس منکر اثر کے قائل ہونے پر مجبور کردیا"انتہی
" العلو " (2/1081-1090، رقم/422-426)
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحاح" میں ثابت ہوچکا ہے کہ مقام محمود سے شفاعتِ کبری مراد ہے جو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مختص ہے۔
یہاں بڑے تعجب کی بات ہے اور عقل بھی حیران رہ جاتی ہےکہ کچھ متقدم علمائے کرام میں سے مجاہد کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی دے دیا، جیسے کہ ذہبی نے ایک سے زائد سے نقل بھی کیا ہے، بلکہ کچھ محدثین نے غلو سے کام لیا اور کہا: "اگر کوئی اس بات پر تین طلاقوں کی قسم اٹھا لے کہ اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرسی پر بیٹھائے گا، پھر مجھ سے آکر فتوی طلب کرے تو میں اسے کہوں گا: تم نے بالکل سچی اور پکی بات کی ہے!"
اس قسم کے غلو کی وجہ سے صفات الہی کی نفی کیلئے مزید تقویت ملتی ہے، جس سے وہ صفات کی نفی میں مزید ثابت قدم ہوجاتے ہیں، اور پھر وہ صفات الہی ثابت کرنے والے اہل سنت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں مشبّہ، اور مجسّمہ بھی کہتے ہیں، حالانکہ دینِ حق افراط و تفریط کے مابین ہے، چنانچہ اللہ تعالی ایسے شخص پر رحم فرمائے جو صفات الہی وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ اشیا پر ایمان لاتا ہے، اور اللہ تعالی کی شایان شان حقیقت پر انہیں تسلیم کرتا ہے، اس حدیث [جس میں عرش پر بیٹھانے کا ذکر ہے] جیسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ احادیث کو قبول نہیں کرتا، چہ جائیکہ وہ اس جیسے آثار پر اعتماد کرے" انتہی
" السلسلة الضعيفة " (865)
شیخ البانی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"کچھ محدثین کی جانب سے ضعیف احادیث روایت کرنے کو انکے مخالفین کی جانب سے معیوب سمجھا گیا ہے، اگر چہ محدثین کے مخالفین محدثین کے اس عمل سے کہیں زیادہ خطرناک امور سر انجام دیتے ہیں ، جیسے کہ شیخ الاسلام نے اسکی مکمل وضاحت بھی کی ہے۔
موجودہ دور میں بعض محدثین کے اس عمل کو سب سے زیادہ معیوب سمجھنے والا، اور اس عمل کی وجہ سے انہیں گمراہ، اور کم عقل کہنے والا شخص شیخ کوثری ہے، جو کہ اہل سنت و اہل حدیث کیساتھ دشمنی میں معروف ہے، کوثری نے اِنہیں مجسّمہ اور الّم غلّم بیان کرنے کا لقب دیتا ہے، حالانکہ کوثری اپنے اس دعوے میں ظالم اور جھوٹا ہے۔
لیکن -حق بات کہی جاتی ہے- بسا اوقات کچھ محدثین سے ایسی احادیث یا آثار اُسے مل سکتے ہیں جس سے وہ اپنے دعوے کو تقویت دے سکتا ہے، مثلا: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} کی تفسیر میں منقول حدیث جس میں ہے کہ: "اللہ تعالی مجھے [یعنی: جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو]عرش پر بیٹھائے گا"
حالانکہ "مقام محمود" کی بلا شک و شبہ تفسیر "شفاعت" ہے؛ اسی تفسیر کو امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "طبری " میں اور پھر قرطبی نے صحیح قرار دیا ہے، اور اسی تفسیر کو حافظ ابن کثیر نے ذکر کیا ہے، اسکے علاوہ باقی کوئی بھی تفسیر ذکر نہیں کی، اور پھر اسی کی تائید میں دیگر احادیث بھی ذکر کیں۔
بلکہ یہی تفسیر خود مجاہد سے دو سندوں کیساتھ ابن جریر کے ہاں ثابت ہے۔
اور مجاہد سے منقول اثر [جس میں عرش پربیٹھانے کا ذکر ہے] اسکی کوئی معتبر سند نہیں ہے، چنانچہ ذہبی نے بیان کیا ہے کہ یہ اثر لیث بن ابی سلیم، عطاء بن سائب، ابو یحیی القتات، اور جابر بن یزید کے واسطے سے منقول ہے، ان سب میں سے پہلے دو روای تو مختلط [حافظے میں شدید خلل سے متاثر ]ہیں، اور آخری دو ضعیف ہیں، بلکہ سب سے آخری تو متروک اور متہم[یعنی عام گفتگو میں جھوٹ بولتا] ہے، ۔۔۔ لہذا بات کا خلاصہ یہ ہے کہ : مجاہد کے اس قول کو -چاہے درست مان بھی لیا جائے- پھر بھی اسے دین کا حصہ بنانا، اور اسے عقائد میں جگہ دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ انکی اس بات پر کتاب و سنت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے" یہ اقتباس " مختصر العلو " (14-20)سے اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ "مقام محمود" کی تفسیر میں صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد "مقام شفاعت" ہے، جبکہ مجاہد کے قول میں ذکر شدہ تفسیر درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/154636
سوال: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء : 79] آیت کی تفسیر میں امام مجاہد کا قول: "اس سے مراد اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھائے گا" کیا یہ صحیح ہے؟
الحمد للہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھانے کا معاملہ شروع سے اب تک بحث و تمحیص کا موضوع رہا ہے، چنانچہ اس قول کے درست ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں گفتگو سے قبل ہمیں کچھ باتیں سمجھ لینی چاہئیں:
پہلی بات:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر بیٹھنے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ کوئی مقبول سند والی روایت نہیں ہے، اور اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کیلئے ایک اصول ہے کہ : جن غیبی امور کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار کیا ہے، ان کے بارے میں یقینی اور ٹھوس رائے دینا جائز نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھانے کی حدیث کو کچھ لوگوں نے متعدد مرفوع اسانید سے روایت کیا ہے، جو کہ ساری کی ساری خودساختہ ہیں" انتہی
ماخوذ از: " درء تعارض العقل والنقل " (3/19)
ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی [انتہائی ضعیف ]حدیث ہے"انتہی
" العلو " (2/1081، رقم/422)
دوم:
صحیح سنت میں وارد شدہ قرآن کریم کی تفسیر کسی تابعی کی بیان کردہ تفسیر سے زیادہ قابل اتباع ہے، چاہے تابعین میں سے روایت والے مجاہد رحمہ اللہ ہی کیوں نہ ہوں، بالخصوص ایسی صورت میں کہ مجاہد رحمہ اللہ سے آیت کی تفسیر احادیث اور صحیح آثار سے مطابقت کی شکل میں بھی ملتی ہو، جیسے کہ آئندہ بیان ہوگا۔
چنانچہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے روز لوگوں کو زندہ کیا جائے گا، تو میں اور میری امت ایک ٹیلے پر ہونگے، مجھے میرا رب سبز لباس پہنائے گا، پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور میں اللہ کی [ثنا خوانی] میں اللہ کی مرضی سے بہت کچھ کہوں گا، تو یہی مقام محمود ہے)
" مسند احمد" (25/60) طبعة مؤسسة الرسالة
مسند احمد کے اس ایڈیشن کے محققین کا کہنا ہے کہ: "اس حدیث کی سند مسلم کی شرائط پر ہے، اسکے تمام راوی صحیح بخاری اور مسلم کے راوی ہیں، ماسوائے یزید بن عبد ربہ کے جو کہ زبیدی حمصی ہے، یہ صرف مسلم کا راوی ہے، اور عبد الرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک کے بارے میں اپنے دادا سے سماع کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ انکا سماع ثابت ہے"انتہی
اس بارے میں موقوف اور صحیح آثار میں سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ: "قیامت کے دن لوگوں کو جماعت کی شکل میں لایا جائے گا، ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہوگی، لوگ کہیں گے: اے فلاں! سفارش کردو!، یہاں تک کہ شفاعت [کی درخواست]نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے گی، تو یہ وہ دن ہوگا جس میں اللہ تعالی آپکو مقام محمود پر کھڑا کریگا" بخاری: (4718) امام بخاری نے اس اثر پر باب قائم کرتے ہوئے عنوان ہی یہ دیا ہے: " باب قولہ: ( عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا )"جو کہ اس آیت کی تفسیر کیلئے مذکورہ اثر کو امام بخاری کی طرف سے اختیار کرنے کی علامت ہے۔
اسی طرح اس آیت کی"شفاعت کبری" کیساتھ تفسیر پر ہی حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے " تفسير القرآن العظيم " (5/103) میں اکتفا کیا ہے، اور اسی تفسیر کو متعدد صحابہ کرام، اور تابعین سے روایت کیا ۔
اور اسی تفسیر کے بارے میں ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "یہی موقف اکثر مفسرین کا ہے"
چنانچہ اسی قول کے مطابق اس آیت کی تفسیر کرنا بہتر اور مناسب ہے۔
سوم:
کچھ علمائے کرام نے مجاہد کے قول کو ذکر کیا اور اس کی تردید نہیں کی، اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بھی مجاہد کے اسی قول کے قائل ہیں، بلکہ حقیقت میں انکا یہ عمل فضائل میں تساہل سے تعلق رکھتا ہے۔
ابو محمد بن بشار نے عبد اللہ بن احمد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد [احمد بن حنبل] سے روایت کرتے ہیں کہ:
[عبد اللہ] اپنے والد کو احادیث سناتے، تو [احمد بن حنبل] اسے کے بارے میں کہتے: "اس روایت کو فلاں ، فلاں نے بیان کیا ہے"، وہ راویوں کے نام بھی لیتے، اور اگر کوئی ضعیف حدیث آجاتی تو [احمد بن حنبل ] کہتے: "اسے مٹا دو"
چنانچہ جب مجاہد کا اثر سامنے آیا تو [احمد بن حنبل نے]اسے ضعیف قرار دیا۔
تو [عبد اللہ] نے کہا: ابا جان! اسے مٹا دوں؟
تو [احمد بن حنبل]نے کہا: "نہیں یہ حدیث فضائل میں ہے، اسے ایسے ہی رہنے دو، اور اسے مت مٹاؤ"انتہی
" إبطال التأويلات " (ص/489)
مذکورہ بالا اقتباس مجاہد کے قول کی شہرت پر غمازی کرتا ہے، جس میں امام احمد جیسے محدث اس قول کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے، چنانچہ کچھ علمائے کرام نے یہ سمجھ لیا کہ خاموشی اقرار کے مترادف ہے، اور کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ: مجاہد کا قول ان آثار میں سے جنہیں تلقّی بالقبول کا درجہ حاصل ہے۔
حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ بہت سے علمائے کرام نے مجاہد کی کہی ہوئی بات کو صحیح تسلیم نہیں کیا۔
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی :{عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} کی تفسیر میں مفسرین یہی کہتے ہیں کہ اس سے مراد شفاعت ہی ہے۔
اور مجاہد سے روایت کیا گیا ہے کہ "مقام محمود" سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی آپکو قیامت کےدن عرش پر بیٹھائے گا، حالانکہ مفسرین کے ہاں اس آیت کی تفسیر میں مجاہد کا قول "منکر" [سخت ضعیف کی ایک قسم]کا درجہ رکھتا ہے۔
اور اس آیت کی جس تفسیر پر صحابہ کرام، تابعین، اور دیگر علمائے کرام متفق ہیں وہ یہ ہے کہ مقام محمود سے مراد وہ جگہ ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کیلئے شفاعت کرینگے، بلکہ مجاہد سے اسی تفسیر کے مطابق بھی قول منقول ہے، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں یہ قول [یعنی :مقام محمود سے مراد شفاعت کی جگہ ہے]علمائے کتاب وسنت کے اجماع کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے شبابہ سے انہوں نے ورقاء سے، انہوں نے ابن ابی نجیح سے، انہوں نے مجاہد سے "{عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} " کی تفسیر نقل کی اور کہا: [اس سے مراد] محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہے" انتہی
" التمهيد " (19/63-64)
اور امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو "منکر" کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا"انتہی
" ميزان الاعتدال " (3/439)
اسی طرح ایک اور مقام پر امام ذہبی کہتے ہیں کہ:
"اس آیت کی مجاہد نے جو تفسیر بیان کی ہے جیسے کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ، کچھ اہل کلام نے اسے مسترد کیا ہے، لیکن مروذی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھائے جانے کی تائید کی، اور اس میں کافی مبالغہ آرائی سے کام لیا، اور اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھ ڈالی، اور مجاہد کے قول کو لیث بن ابی سلیم، عطاء بن سائب، ابو یحیی القتات، اور جابر بن یزید کے واسطے ٹھوس [ثابت کرنے کی کوشش کی]۔۔۔ دیکھو! -اللہ تعالی آپکو گمراہی سے محفوظ رکھے- کس طرح اس محدث کو غلو نے اس منکر اثر کے قائل ہونے پر مجبور کردیا"انتہی
" العلو " (2/1081-1090، رقم/422-426)
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحاح" میں ثابت ہوچکا ہے کہ مقام محمود سے شفاعتِ کبری مراد ہے جو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مختص ہے۔
یہاں بڑے تعجب کی بات ہے اور عقل بھی حیران رہ جاتی ہےکہ کچھ متقدم علمائے کرام میں سے مجاہد کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی دے دیا، جیسے کہ ذہبی نے ایک سے زائد سے نقل بھی کیا ہے، بلکہ کچھ محدثین نے غلو سے کام لیا اور کہا: "اگر کوئی اس بات پر تین طلاقوں کی قسم اٹھا لے کہ اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرسی پر بیٹھائے گا، پھر مجھ سے آکر فتوی طلب کرے تو میں اسے کہوں گا: تم نے بالکل سچی اور پکی بات کی ہے!"
اس قسم کے غلو کی وجہ سے صفات الہی کی نفی کیلئے مزید تقویت ملتی ہے، جس سے وہ صفات کی نفی میں مزید ثابت قدم ہوجاتے ہیں، اور پھر وہ صفات الہی ثابت کرنے والے اہل سنت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں مشبّہ، اور مجسّمہ بھی کہتے ہیں، حالانکہ دینِ حق افراط و تفریط کے مابین ہے، چنانچہ اللہ تعالی ایسے شخص پر رحم فرمائے جو صفات الہی وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ اشیا پر ایمان لاتا ہے، اور اللہ تعالی کی شایان شان حقیقت پر انہیں تسلیم کرتا ہے، اس حدیث [جس میں عرش پر بیٹھانے کا ذکر ہے] جیسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ احادیث کو قبول نہیں کرتا، چہ جائیکہ وہ اس جیسے آثار پر اعتماد کرے" انتہی
" السلسلة الضعيفة " (865)
شیخ البانی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"کچھ محدثین کی جانب سے ضعیف احادیث روایت کرنے کو انکے مخالفین کی جانب سے معیوب سمجھا گیا ہے، اگر چہ محدثین کے مخالفین محدثین کے اس عمل سے کہیں زیادہ خطرناک امور سر انجام دیتے ہیں ، جیسے کہ شیخ الاسلام نے اسکی مکمل وضاحت بھی کی ہے۔
موجودہ دور میں بعض محدثین کے اس عمل کو سب سے زیادہ معیوب سمجھنے والا، اور اس عمل کی وجہ سے انہیں گمراہ، اور کم عقل کہنے والا شخص شیخ کوثری ہے، جو کہ اہل سنت و اہل حدیث کیساتھ دشمنی میں معروف ہے، کوثری نے اِنہیں مجسّمہ اور الّم غلّم بیان کرنے کا لقب دیتا ہے، حالانکہ کوثری اپنے اس دعوے میں ظالم اور جھوٹا ہے۔
لیکن -حق بات کہی جاتی ہے- بسا اوقات کچھ محدثین سے ایسی احادیث یا آثار اُسے مل سکتے ہیں جس سے وہ اپنے دعوے کو تقویت دے سکتا ہے، مثلا: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} کی تفسیر میں منقول حدیث جس میں ہے کہ: "اللہ تعالی مجھے [یعنی: جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو]عرش پر بیٹھائے گا"
حالانکہ "مقام محمود" کی بلا شک و شبہ تفسیر "شفاعت" ہے؛ اسی تفسیر کو امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "طبری " میں اور پھر قرطبی نے صحیح قرار دیا ہے، اور اسی تفسیر کو حافظ ابن کثیر نے ذکر کیا ہے، اسکے علاوہ باقی کوئی بھی تفسیر ذکر نہیں کی، اور پھر اسی کی تائید میں دیگر احادیث بھی ذکر کیں۔
بلکہ یہی تفسیر خود مجاہد سے دو سندوں کیساتھ ابن جریر کے ہاں ثابت ہے۔
اور مجاہد سے منقول اثر [جس میں عرش پربیٹھانے کا ذکر ہے] اسکی کوئی معتبر سند نہیں ہے، چنانچہ ذہبی نے بیان کیا ہے کہ یہ اثر لیث بن ابی سلیم، عطاء بن سائب، ابو یحیی القتات، اور جابر بن یزید کے واسطے سے منقول ہے، ان سب میں سے پہلے دو روای تو مختلط [حافظے میں شدید خلل سے متاثر ]ہیں، اور آخری دو ضعیف ہیں، بلکہ سب سے آخری تو متروک اور متہم[یعنی عام گفتگو میں جھوٹ بولتا] ہے، ۔۔۔ لہذا بات کا خلاصہ یہ ہے کہ : مجاہد کے اس قول کو -چاہے درست مان بھی لیا جائے- پھر بھی اسے دین کا حصہ بنانا، اور اسے عقائد میں جگہ دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ انکی اس بات پر کتاب و سنت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے" یہ اقتباس " مختصر العلو " (14-20)سے اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ "مقام محمود" کی تفسیر میں صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد "مقام شفاعت" ہے، جبکہ مجاہد کے قول میں ذکر شدہ تفسیر درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/154636