محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
الحمدللہ! محدثین نے جب کسی ایک مسئلہ کو اختیار کیا ہے تو ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کیا ہے جن کا ذکر آپ ان چھ پوائنٹس کے ذریعے کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ محدیثین کا مسلک یعنی مسلک اہل حدیث ہی اس زمین کی پشت پر حق ہے باقی سب باطل۔نمبر وار جواب عنایت فرمائیے گا۔
- اگر اس حدیث کے مخالف حدیث یا آیت موجود ہو؟
- اگر اس حدیث سے بعض صحابہ نے کچھ اور مطلب لیا ہو؟
- اگر اس روایت سے بعض فقہاء نے کچھ اور مطلب لیا ہو دیگر قرائن کی روشنی میں؟
- اگر اس روایت کو کسی فقیہ یا محدث نے معلول قرار دیا ہو؟
- اگر اس روایات کی تطبیق دوسری روایات کے ساتھ کسی فقیہ نے کسی خاص انداز سے کی ہو؟
- اگر اس روایت کے خلاف واضح عمل صحابہ موجود ہو اور صحابہ نے اس روایت کو اختیار نہیں کیا ہو؟
براہ کرم میری بات کا جواب عنایت فرمائیے۔مقتدى كے ليے امام كے پيچھے سورۃ فاتحہ كے علاوہ اور قرآت كرنى جائز نہيں
كيا جب امام قرآت لمبى كرے تو مقتدى كے ليے امام كے ساتھ قرآن پڑھنا جائز ہے ؟
الحمد للہ:
جھرى نمازوں ميں مقتدى كے ليے سورۃ الفاتحہ سے زيادہ قرآت كرنى جائز نہيں، بلكہ مقتدى سورۃ الفاتحہ كے بعد خاموشى سے امام كى قرآت سنے( يعنى سورۃ الفاتحہ پڑھنے كے بعد )-
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" لگتا ہے تم اپنے امام كے پيچھے قرآت كرتے ہو ؟
ہم نے عرض كيا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم سورۃ الفاتحہ كے علاوہ نہ پڑھا كرو، كيونكہ جو سورۃ الفاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "
اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے خاموشى سے سنو تا كہ تم پر رحم كيا جائے﴾.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب امام قرآت كرے تو تم خاموش رہو "
مندرجہ بالا حديث اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان:
" جو فاتحۃ الكتاب نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں "
متفق على صتحہ.
كے عموم كى بنا پر سورۃ الفاتحہ مستثنى ہو گى.
واللہ اعلم .
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا فتوى ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 291 ).
ظاہر ہے یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔الحمدللہ! محدثین نے جب کسی ایک مسئلہ کو اختیار کیا ہے تو ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کیا ہے جن کا ذکر آپ ان چھ پوائنٹس کے ذریعے کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ محدیثین کا مسلک یعنی مسلک اہل حدیث ہی اس زمین کی پشت پر حق ہے باقی سب باطل۔
حنفی اپنا باطل مذہب صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں کبھی وہ کسی قرآنی آیت کو یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ یہ اہل حدیث کے مسلک کے خلاف ہے اور ہمارے حق میں ہے۔ جیسے امام کے پیچھے قرات کرنے پر یہ لوگ قرآنی آیت کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہو اپنے حق میں اپنے خلاف حدیث مسئلہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ آیت امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے مانع نہیں۔ اس سچائی کا اقرار خود اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی کیا ہے۔
یہی حال دوسرے مسائل کا ہے جہاں یہ حنفی لوگ ضعیف،موضوع اور مردود روایات و آثار اور قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی فاسد تاؤیلات کے سہارے اپنے مسائل کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بھی قرآن و حدیث کے دیگر دلائل سے ثابت ہیں۔ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے امام کی ہی اندھی تقلید کررہے ہوتے ہیں انہیں قرآن و حدیث سے صرف اتنی ہی غرض ہوتی ہے کہ عام مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے مسائل کے لئے قرآن و حدیث کو استعمال کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کے ذریعے شریعت کو اپنے مذہب کے تابع کرتے ہیں۔
میرے بھائی یہ اتنی واضح حدیث ہے اس میں آپکے تمام سوالوں کا جواب ہیں -براہ کرم میری بات کا جواب عنایت فرمائیے۔
یہ آپ ہی کی بات کا درست جواب ہے۔ کیونکہ حنفیوں کا کوئی بھی اختلافی مسئلہ ایسا نہیں ہے جن کی انکے پاس قرآن کی کوئی آیت، کوئی صحیح حدیث یا کوئی صحیح آثار کی صورت میں دلیل موجود ہو۔ اور جو کچھ بھی یہ لوگ پیش کرتے ہیں سب جھوٹ اور دھوکہ دہی ہوتا ہے تحقیق کرنے پرپتا چلتا ہے کہ حنفیوں کی اپنے حق میں پیش کی گئی قرآنی آیت کی وہ تفسیر نہیں جو وہ اپنے مطلب برآوری کے لئے بیان کررہے ہیں اور اپنے حق میں پیش کئی گئی حدیث ضعیف یا موضوع ہے اور اپنے حق میں پیش کئے گئے آثار غیرثابت شدہ ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ حنفی بوقت ضرورت قرآنی آیات بھی گھڑ لیتے ہیں اور جھوٹی احادیث بھی تیار کرلیتے ہیں۔ظاہر ہے یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔
ابن القیم رحمہ اللہ نے یہاں جو بات بیان فرمائی ہے ہم اس سے سو فیصد متفق ہیں۔ اسکی ایک صورت یہ ہے کہ وہ مسائل جو زندگی میں بہت کم اور کبھی کبھی ہی پیش آتے ہیں یعنی ایسے مسائل جن کے بارے میں قرآن و حدیث خاموش ہوتے ہیں ان میں کسی خاص شخص کا تعین کئے بغیر کسی بھی اہل علم کی تقلید کرلینا مذموم نہیں ہے۔ اور ایسے شخص کو مقلد بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ اپنی اسطاعت کے مطابق تقلید کئے بغیر زندگی کے مسائل اور عقائد میں قرآن و حدیث کی پیروی کرتا ہے یعنی متبع اورمحقق ہوتا ہے۔اور جس مسئلہ میں قرآن و حدیث کے واضح احکامات نہیں پاتا یا اپنے کم علم کی وجہ سے کسی مسئلہ کی تحقیق نہیں کرسکتا تو اس مسئلہ میں کسی اہل علم کے فتوے یا فیصلے پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔ چونکہ کسی شخص کے مسلک کا فیصلہ اسکے اکثری رجحانات اور اعمال پر کیا جائے گا اس لئے بیان کئے گئے شخص کو مقلد نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کا اکثر عمل تحقیق پر مبنی ہے تقلید پر نہیں۔ اگر کسی غیرمقلد نے اپنی زندگی میں کسی ایک فروعی مسئلے پر کسی عالم کی تقلید کرلی تو وہ غیرمقلد ہی کہلائے گا کیونکہ اتنی معمولی تقلید اسکے مسلک پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ثانیا
ابن القیم کا مجتھد کی تقلید کے حوالہ سے یہ موقف ہے
وأما تقليد من بذل جَهْده في اتباع ماأنزل الله وخفي عليه بعضه فقلّد فيه من هو أعلم منه، فهذا محمود غير مذموم، ومأجور غير مأزور) (اعلام الموقعين) 2/169.
منردجہ بالا اقتباس کا مفہوم ہے
جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے احکام کی اتباع کی کوشش کرتا ہے اور اس کے باوجود کچھ امور اس سے مخفی رہ جاتے ہیں تو اپنے سے زیادہ اہل علم کی تقلید کرتا ہے تو یہ عمل قابل تعریف ہے نہ کہ قابل مذمت اور اس شخص کو اجر ملے گا
یہی موقف احناف کا ہے
میرے بھائی یہ اتنی واضح حدیث ہے اس میں آپکے تمام سوالوں کا جواب ہیں -
ھمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان سامنے آ جائے ہمیں اس کو قبول کر لینا چاھیے -
اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین
فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
بالکل درست محترم بھائی
اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی بات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن مجھے ذرا ان شقوں کا جواب دیجیے کہ ان صورتوں میں کیا کیا جائے گا۔
اگر اس حدیث کے مخالف حدیث یا آیت موجود ہو؟
اگر اس حدیث سے بعض صحابہ نے کچھ اور مطلب لیا ہو؟
اگر اس روایت سے بعض فقہاء نے کچھ اور مطلب لیا ہو دیگر قرائن کی روشنی میں؟
اگر اس روایت کو کسی فقیہ یا محدث نے معلول قرار دیا ہو؟
اگر اس روایات کی تطبیق دوسری روایات کے ساتھ کسی فقیہ نے کسی خاص انداز سے کی ہو؟
اگر اس روایت کے خلاف واضح عمل صحابہ موجود ہو اور صحابہ نے اس روایت کو اختیار نہیں کیا ہو؟
نمبر وار جواب عنایت فرمائیے گا۔