@فواد صاحب کچھ ملا منصور پر پاکستانی علاقے میں ڈرون حملے پر بھی روشنی ڈالیں۔
لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ۔ امریکی لوگ دہشت گردوں کو دہشت گردی کے ذریعے ختم کر رہے ہیں ۔
یہ رویہ دہشت گردی میں اضافے کا ہی باعث بنے گا ، کیونکہ جس انداز سے امریکی دہشت گردوں کا ختم کر رہے ہیں ، اسی انداز سے امریکہ کو دہشت گرد سمجھنے والے اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے گھات میں رہتے ہیں ۔
جس طرح امریکہ سات سمندر پار سے آکر دوسرے ملکوں سے دہشت گرد ختم کر رہا ہے ، اللہ کرے یہ سات سمندر پار والے بھی امریکہ میں جاکر ایسے ہی دہشت گردی کی روک تھام کریں ۔
واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ) ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایمنسٹی انٹرنیشنل فرینک جینوزی نے کہا ہے کہ ماورائے عدالت ہلاکتیں عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ امریکہ پوری دنیا کو قانونی طور پر اپنا میدان سمجھتا ہے۔ 2004ءسے اب تک ڈرون حملوں میں صرف دو فیصد اہم دہشت گرد مارے گئے جبکہ آٹھ ہزار معصوم شہری جاں بحق ہوئے۔سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے فوجی کاروائ اور آپريشنز معصوم شہريوں کے خلاف نہيں ہیں۔
خود کش کس کے لیے تیار ہوتے ہیں ؟ خود اپنے آپ کو مارنے کے لیے ؟ امریکہ اور اس کے اتحادی ’ تشریف ‘ لے جائیں ، تو ان کا بہانہ ختم ہو جائے گا ۔ کسی کے گھر داخل ہو کر پھر یہ کہنا کہ چونکہ وہ ہم سے مزاحمت کرتے ہیں ، اس لیے ہم مارتے ہیں ، لہذا قصور ان کا ہے ، یہ بالکل فضول بات ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو اقوام متحدہ سميت 40 سے زائد ممالک دہشت گرد کے خلاف جاری مہم ميں نہ تو امريکہ کی حمايت کر رہے ہوتے اور نہ ہی عملی طور پر اس سارے عمل ميں شامل ہوتے۔ يہ مخصوص اور محدود کاروائياں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہيں جنھوں نے کسی بھی قسم کی سياسی مصلحت کا راستہ ازخود بند کر ديا ہے اور اپنے مخصوص سياسی نظام کے قيام کے لیے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عناصر نے بارہا اپنے اعمال سے يہ ثابت کيا ہے کہ کمسن بچوں کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنا اور کسی بھی مذہبی اور سياسی تفريق سے قطع نظر زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کا قتل کرنا ان کی واحد جنگی حکمت عملی ہے۔
اگر امریکہ دہشت گردی کا معاملہ حل کرنے میں واقعتا سنجیدہ ہے تو فورا سے پہلے دیگر ممالک میں اپنی ’ مداخلت ‘ اور ان کے ساتھ ’ ہمدردی ‘ کو بند کرے ۔ ورنہآپ کی راۓ اور اس غلط تاثر کے برخلاف امريکی حکومت دہشت گردی اور متشدد سوچ کے برخلاف صرف بے دريخ قوت کے استعمال کو ہی واحد قابل عمل حل نہیں سمجھتی ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ايسے بےشمار تعميراتی منصوبے جاری ہيں جو خطے کے عام عوام کے بہتر مستقبل اور سيکورٹی کی صورت حال کے بہتر بنانے کے ليے انتہائ اہميت کے حامل ہیں۔
سڑکوں اور ديگر تعميراتی منصوبے امريکہ اور اس کے اتحاديوں کا اس خطے ميں امن اور استحکام قائم کرنے کی کاوشوں کا اہم ترين جزو ہے۔ يہ تعميراتی منصوبے پاکستان اور افغانستان ميں جاری دہشت گردی کے خلاف مہم کی کاميابی کے ليے کليدی حيثيت رکھتے ہيں کيونکہ نئ سڑکوں، پلوں، عمارات اور دیگر سہوليات سے معاشی صورت حال، نظام حکومت کی فعال بنانے اور عدم تحفظ کی فضا کو ختم کرنے ميں مدد ملتی ہے۔
ان شاء اللہ عزوجلواشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ) ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایمنسٹی انٹرنیشنل فرینک جینوزی نے کہا ہے کہ ماورائے عدالت ہلاکتیں عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ امریکہ پوری دنیا کو قانونی طور پر اپنا میدان سمجھتا ہے۔ 2004ءسے اب تک ڈرون حملوں میں صرف دو فیصد اہم دہشت گرد مارے گئے جبکہ آٹھ ہزار معصوم شہری جاں بحق ہوئے۔
نوائے وقت پاکستان
لندن (آئی این پی) برطانوی تنظیم ” بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم“ نے کہا ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں اب تک دہشت گردوں کے ساتھ 295 بے گناہ افراد مارے گئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔بدھ کوبرطانوی تنظیم ” بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم“ نے اپنی رپورٹ میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد کی فہرست جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ان افراد کی شناخت اور معلومات شائع کرنے کا منصوبہ ”نیمنگ دی ڈیڈ“ کے نام سے شروع کیا ہے جس کے تحت تنظیم کی ویب سائٹ پر پاکستان میں ڈرون حملوں سے مرنے والے 2500 افراد میں سے 550 کی شناخت کی تصدیق کی گئی ہے۔ ان میں سے 295 ایسے شہری ہیں جن کا دہشت گردی یا ایسی کسی سرگرمی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں لیکن امریکی ڈرون حملوں میں ان کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے القاعدہ کے خاتمے کے نام پر پاکستان میں 2006ءسے اب تک 350 ڈرون حملے کئے جن میں کاروں، سکولوں، گھروں، دکانوں اور عوامی اجتماعات کو بے دریغ نشانہ بنایا گیا۔ تنظیم نے رپورٹ کے ذریعے ڈرون حملوں کے شکار ہونے والے افراد کے دوستوں اور رشتہ داروں سے اپیل کی ہے کہ وہ تحقیقاتی عمل میں ان کی مدد کریں تاکہ امریکا کا اصل چہرہ بے نقاب کیا جاسکے۔
نوائے وقت پاکستان
اب کہہ دیجیے گا کہ یہ جھوٹی افواہیں ہیں ، کیونکہ یہ ریچ ٹائم کے ’ مقدس بیانات‘ کی قلعی کھول رہی ہیں ۔
خود کش کس کے لیے تیار ہوتے ہیں ؟ خود اپنے آپ کو مارنے کے لیے ؟ امریکہ اور اس کے اتحادی ’ تشریف ‘ لے جائیں ، تو ان کا بہانہ ختم ہو جائے گا ۔ کسی کے گھر داخل ہو کر پھر یہ کہنا کہ چونکہ وہ ہم سے مزاحمت کرتے ہیں ، اس لیے ہم مارتے ہیں ، لہذا قصور ان کا ہے ، یہ بالکل فضول بات ہے ۔
اگر امریکہ دہشت گردی کا معاملہ حل کرنے میں واقعتا سنجیدہ ہے تو فورا سے پہلے دیگر ممالک میں اپنی ’ مداخلت ‘ اور ان کے ساتھ ’ ہمدردی ‘ کو بند کرے ۔ ورنہ
کل روس بکھرتے دیکھا تھا
اب ۔۔۔ ٹوٹتا دیکھیں گے
پھر برق جہاد کے شعلوں سے
امریکہ جلتا دیکھیں گے
بہت اچھے۔فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
افغانستان ميں امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی کا مقصد شروع دن سے يہی رہا ہے کہ دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کيا جاۓ اور وہ دہشت گرد گروہ اور ان کے ليڈر جو اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے کے ليے خطے کے عام لوگوں اور منتخب عوامی نمايندوں اور اداروں پر جنگ مسلط کر کے ان پر حملے کر رہے ہيں، انھيں کيفر کردار تک پہنچايا جاۓ۔
يہ وہ مقصد ہے جس کی توثيق اقوام متحدہ کی جانب سے کی جا چکی ہے اور اس پر اقوام عالم اور خطے ميں ہمارے اتحادی اور فريق بھی متفق ہيں۔ اس تناظر ميں تشدد کے محرک افراد اور گروہوں کے خلاف ہماری جاری کاوشيں نا تو کوئ سازش ہے اور نہ ہی کسی مبينہ خفيہ ايجنڈے کی تکميل کے ليے کوئ پيچيدہ منصوبہ۔
امريکی حکومت نے ہميشہ افراد اور گروہوں کی حوصلہ افزائ کی ہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کر کے سياسی دھارے ميں شامل ہوں اور سياسی تنازعات اور اختلافات کے پرامن کے ليے گفتگو کی جانب بڑھيں۔ خطے کے مختلف عسکری گروہوں اور ان کے قائدين کے پاس يہ آپشن موجود ہے کہ وہ اپنے ہتھيار ڈال کر امن کا راستہ اختيار کريں۔
تاہم جو عناصر بدستور پرتشدد انتہا پسندی کی ترغيب کو فوقيت دے رہے ہيں اور اپنے مقاصد کی تکميل کے لیے گنجان آباد علاقوں ميں زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنے کے ليے کم سن نوجوانوں کو خودکش حملہ آور بنا کر بطور ہتھيار استعمال کرنے کو درست سمجھتے ہيں، وہ ہمارے مشترکہ دشمن ہی رہيں گے۔
امريکہ کو ايسے کسی "امن مذاکرات" کو سبو تاز کرنے کی کوئ ضرورت نہيں ہے جو دہشت گردی کی اس لہر کو روک سکيں جس کا شکار صرف پاکستانی ہی نہيں بلکہ دنيا بھر ميں بے گناہ شہری ہو رہے ہيں۔ ليکن ديرپا امن صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب مجرموں کا تعاقب کيا جاۓ اور غير متشدد گروہوں کو قائل کيا جاۓ کہ جائز سياسی عزائم کے حصول کے ليے سياسی پليٹ فارم کا استعمال ہی واحد قابل عمل طريقہ کار ہے۔ يہ سوچ کہ مجرموں کے ساتھ ان حالات ميں غير مشروط معاہدے کيے جائيں جبکہ وہ بدستور اپنے خونی ايجنڈوں پر کاربند ہوں اور پھر ان کے مطالبات بھی تسليم کر ليے جائيں، ديرپا امن کی جانب نہيں بڑھا جا سکتا ہے۔انسانی تاريخ کے ارتقاء ہی سے ايک فعال نظام انصاف کے لیے يہی بنيادی اصول رہا ہے
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu