فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اس حوالے سے انٹرنيٹ اور ديگر ميڈيا پر بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ ليکن ايک بات جو اس طرح کے مواد ميں ہميشہ مشترک ہوتی ہے وہ ہے جذباتيت کا عنصر۔ تمام تر زمينی حقائق اور اعدادوشمار بالاۓ طاق رکھ کر صرف اس منطق پر زور ديا جاتا ہے کہ مسلم ممالک کو درپيش تمام مسائل کا پيش خيمہ بھی امريکہ ہے اور ان تمام مسائل کا حل بھی امریکہ ہی کے پاس ہے۔ اس حوالے سے دلائل کبھی بھی اعداد وشمار پر مبنی نہيں ہوتے۔
اگر امريکہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو پھر آپ ان حقائق کو کيسے جھٹلائيں گے
اس وقت امريکہ ميں سب سے زيادہ تيزی سے پيھلنے والا مذہب اسلام ہے۔ امريکہ ميں قائم 1200 سےزائد مساجد ميں لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان ديگر شہريوں کی طرح اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کا پورا حق رکھتے ہيں۔ يہی نہيں بلکہ مسلمانوں کو يہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ غير مذہب کے لوگوں کو مساجد ميں بلوا کر ان سے مذہب کے معاملات ميں ڈائيلاگ کر سکتے ہيں۔ مسلمانوں کو مساجد تعمير کرنے اور اسلامی تنظيموں کے قيام جيسے معاملات ميں مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ سياست، تجارت اور زندگی کے دوسرے شعبہ جات ميں مسلمانوں کو مکمل نمايندگی حاصل ہے۔
يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہے اور اس کے باوجود مسلمانوں کو امريکہ کے اندر ترقی کرنے کے تمام تر مواقع ميسر ہيں۔
اگر امريکہ پاکستان اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد 267 ملين اور 1951 سے لے کر اب تک يو – ايس – ايڈ کے ادارے کی جانب سے دی جانے والی کئ بلين ڈالرز کی امداد کو آپ کيسے فراموش کريں گے۔
امريکہ فلسطين کی امداد کرنے والے ممالک کی فہرست ميں پہلے نمبر پر ہے۔
اگر امريکہ مسلمانوں کے خلاف ہے تو پھرايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا مطالبہ کيوں کر رہا ہے؟
اگر امريکہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو بوسنيا اور کوسوو کی مدد کو کيوں پہنچا۔
انڈونيشيا کے مسلمانوں کو سونامی کی تباہکاريوں کے بعد سب سے زيادہ امداد امريکی حکومت کی جانب سے ہی ملی تھی۔ اس ميں صرف امريکی حکومت ہی شامل نہيں تھی بلکہ امريکہ کی بےشمار نجی تنظيموں نے بھی اس ميں حصہ ليا تھا۔
سال 2006 ميں ايران ميں زلزلے کی تباہی کے بعد امداد دينے والے ممالک ميں امريکہ سرفہرست تھا۔
حقيقت يہ ہے کہ امريکہ مسلمان ممالک کو ہر سال کئ بلين ڈالرز کی امداد ديتا ہے۔ صرف يہی نہيں بلکہ ہر سال ہزاروں کی تعداد ميں مسلمانوں کو امريکہ ميں شہريت دی جاتی ہے۔ عرب دنيا اور ديگر مسلم ممالک سے ہر سال ہزاروں طالب علم امريکہ کے تعليمی اداروں ميں اعلی تعليم کے حصول کے ليے آتے ہيں ان پر اس حوالے سے کسی قسم کی کوئ پابندی نہيں ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال لاتعداد مسلمان پناہ گزين امریکہ ميں آ کر بستے ہيں اور انہيں امريکی شہريوں کے مساوی بنيادی انسانی اور آئينی حقوق ديے جاتے ہيں۔
امريکہ نہ ہی اپنی جغرافيائ حدود ميں اضافے کا خواہ ہے اور نہ ہی کسی قوم، مذہب يا گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کا ثبوت يہ ہے امريکی آئين کے مطابق امريکی شہريوں کو بغير کسی تفريق کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ دنيا ميں کتنے ممالک ايسے ہيں جو يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ وہاں پر ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu