• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مناظرہ

شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
محترم! آپ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ آپ نے صرف وڈیوز وغیرہ (دونوں فریقوں کی) دیکھیں اور جو فیصلہ کرنا تھا سو کیا۔ آپ نے پہلے اپنی بنیاد (قرآن و حدیث) کو خالی الذہن ہو کر نہیں پڑھا نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے؛

صحيح البخاري - (ج 9 / ص 176)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے ( قوت بیان یہ بڑھ کر رکھتا ہے ) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق ( غلطی سے ) دلادوں ، تو وہ حلال ( نہ سمجھے ) اس کو نہ لے ، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں ۔

محترم! مناظرہ میں یہی ہوتا ہے اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کو پچھاڑدے۔ مناظرہ میں حق کی تلاش مقسود نہیں ہتی بلکہ ہر فریق اپنے کو حق پر ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جو صحیح ہے وہ غلط ثابت ہو جاتا ہے اور جو صحیح ہے وہ غلط۔
محترم! عرض یہ ہے کہ یہ مناظرے کسوٹی نہیں اور حق اگر جاننے کی تگ و دو خود کرنا چاہتے ہو تو پہلے اپنی بنیاد کو مضبوط کریں تعصب سے بالاتر ہوکر۔ واللہ المستعان
آپ نے میرے بات سے غلط مطلب لیا، میں نے صرف مناظروں کی ہی بنیاد پر کوئی چیز اختیار نہیں کی۔
باقی یہ بات میرے خیال سے بلکل درست ہے کہ مناظرے حق کی کسوٹی نہیں ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
دھوکے بازی کسے کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں؛
اس ویڈیو کو آپ دیکھیں ، یہ کوئی مناظرہ نہیں ، یہ تو مقلد مفتی صاحب ایک عامی اہل الحدیث کے سامنے اپنے فریب کے جوہر دکھا رہے ہیں!!
آپ مناظرہ غور سے سنیں! اہل حدیث شخص تو یہ بھی کہتا ہے کہ صحیح مسلم جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا ترجمہ دیکھوں گا!!
وہ اس لیے کہہ رہا ہے۔کہ اس مفتی کا ترجمہ دیوبند کے ترجمہ سے مختلف ہے۔اسی طرح وہ اہل حدیث کے ترجمہ کے بارے میں کہہ رہا ہے۔ مرید مفتی اس سے ترجمہ کرنے کو کہہ رہا ہے۔تو وہ ترجمہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے
بظاہر اہل حدیث شخص کو اسی ویڈیو میں فاضل مدینہ یونیورسٹی لکھا گیا ہے
خیر کوئی بھی ہے، اسے ٹریننگ کی ضرورت ہے، انہیں محدث فورم پر ہی بلا لیا جائے!!!
محترم! مطلب یہ کہ اگر بھنور میں پھنس جائے تو کیسے نکلنا ہے! وہ حجازَ مقدس سے آیا ہے اور اسے ”مناظرہ“ کے داؤ پیچ نہیں آتے اور کچھ کچھ ”خلوصِ نیت“ بھی لگتا ہے۔ ”تقیہ“ سے کام لیتا ہے مگر اس میں مہارت نہیں جس کے لئے اسے ”محدث فورم“ کی اشد ضرورت ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ دیوبندی مولوی نے فراڈ کرکے جس چیز کو دلیل بنایا ہے کیا وہ دلیل بنتی ہے یا نہیں ؟
محترم! حنفی صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی حدیث دکھائے یا سنائے تو اس کا انکار ضروری ہے کہ اہلحدیث کہلانے والوں کے نزدیک وہ ”مشرک“ ہے اور ”مشرک“ کی ”روایت“ کیونکر ”صحیح“ ہوسکتی ہے!!! حنفی کی قسمت میں تو ”قول ابی حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ“ ہی ہے وہ قرآن کی آیت پڑھے شور مچاؤ ”قول ابو حنیفہ ہے“ صحیح مسلم جیسی کتب سے احادیث پیش کرے کہو ”امتی کاقول “ہے!!!!!!

مالی أراکم رافعی أیدیکم ۔۔ والی معروف حدیث معروف ’’ رفع الیدین ‘‘ کے لیے نہیں بلکہ تشہد کے متعلق ہے ۔
اور اگر واقعتا یہ رفع الیدین کے متعلق ہے تو پھر نماز کی ابتداء میں بھی کم از کم اس دیوبندی مفتی کو رفع الیدین چھوڑ دینا چاہیے ۔
محترم! بصد احترام عرض ہے کہ اس کا ثبوت دیں کہ تشہد کے متعلق کیسے ہے؟
دوسری بات یہ کہ آپ نے کہا کہ دیوبندی مفتی کو ”نماز کی ابتدا“ کی رفع الیدین چھوڑ دینی چاہئے۔
محترم! اس نے حدیث پیش کی ہے ”نماز میں“ کی جانے والی رفع الیدین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید غصہ فرمانے کی اور آپ ”نماز کی ابتدا“ والی رفع الیدین چھڑوانا چاہتے ہیں۔

جی میں نے اپنےساتھیوں سے پوچھا ہے ، عبد القدیر نامی یہ طالبعلم جامعہ اسلامیہ میں پڑھتے رہے ہیں ، لیکن یہ ابھی معہد اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین میں ہیں ، یعنی صرف عربی بول چال سیکھ رہے ہیں ، اور ان دنوں عارضی چھٹی پر پاکستان میں ہیں ۔
اسی لئے یہ بات عین حق معلوم ہوتی ہے
مفتی عبد الواحد قریشی صاحب نے جس انداز میں واردات سر انجام دی ہے ، ایسا کسی بھی مسلک کا بندہ ہو ، اچھا نہیں لگتا ۔
محترم! یہ بڑی عجیب ”واردات“ ہے کہ ”واردات کرنے والا“ اپنے مقام پر بیٹھا ہے! ”وادرداتی کون ہے“ وڈیو کو ”بغور“ سنیں سب پتہ چل جائے گا۔

اصل میں عام اھلِ حدیث کو دیوبندیوں کی دوکھہ بازی کا صحیح سے علم نہیں ہوتا
محترم! آپ نے صحیح کہا کہ جو ”طریقہ واردات“ اہلحدیث کہلانے والوں کا ہے اس سے حنفی ”لاعلم“ ہیں۔
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
فراڈ کرکے
و انت من ساداتنا العلماء۔ لا یلیق ھذا بشاٗنک

وأجيب عن اعتراض البخاري: بأن هذا الرفع كان في التشهد ; لأن عبد الله بن القبطية قال: «سمعت جابر بن سمرة يقول: كنا إذا صلينا خلف النبي - صلى الله عليه وسلم - قلنا: السلام عليكم السلام عليكم، وأشار بيده إلى الجانبين فقال: " ما لهؤلاء يومئون بأيديهم كأنها أذناب خيل شمس إنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه من عن يمينه ومن عن شماله» "، بأن الظاهر أنهما حديثان ; لأن الذي يرفع يديه حال التسليم لا يقال له: اسكن في الصلاة، وبأن العبرة للفظ وهو قوله: " اسكنوا " لا لسببه وهو الإيماء حال التسليم.
ملا علی القاری، مرقاۃ المفاتیح: 2۔656، ط دار الفکر

ولقائل أن يقول: إنهما حديثان لا يفسر أحدهما بالآخر، كما جاء في لفظ الحديث الأول: دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا الناس رافعي أيديهم في الصلاة، فقال: "ما لي أراكم رافعي أيديكم، كأنه أذناب خيل شمس؟! اسكنوا في الصلاة"، والذي يرفع يديه حال التسليم لا يقال له: اسكن في الصلاة، إنما يقال ذلك لمن يرفع يديه أثناء الصلاة، وهو حالة الركوع والسجود، ونحو ذلك، هذا هو الظاهر، والراوي روى هذا في وقت، كما شاهده، وروى الآخر في وقت آخر، كما شاهده، وليس في ذلك بعد، والله أعلم.
زیلعی، نصب الرایہ: 1۔394، ط الریان
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
وأجيب عن اعتراض البخاري: بأن هذا الرفع كان في التشهد ; لأن عبد الله بن القبطية قال: «سمعت جابر بن سمرة يقول: كنا إذا صلينا خلف النبي - صلى الله عليه وسلم - قلنا: السلام عليكم السلام عليكم، وأشار بيده إلى الجانبين فقال: " ما لهؤلاء يومئون بأيديهم كأنها أذناب خيل شمس إنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه من عن يمينه ومن عن شماله» "، بأن الظاهر أنهما حديثان ; لأن الذي يرفع يديه حال التسليم لا يقال له: اسكن في الصلاة، وبأن العبرة للفظ وهو قوله: " اسكنوا " لا لسببه وهو الإيماء حال التسليم.
ملا علی القاری، مرقاۃ المفاتیح: 2۔656، ط دار الفکر

ولقائل أن يقول: إنهما حديثان لا يفسر أحدهما بالآخر، كما جاء في لفظ الحديث الأول: دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا الناس رافعي أيديهم في الصلاة، فقال: "ما لي أراكم رافعي أيديكم، كأنه أذناب خيل شمس؟! اسكنوا في الصلاة"، والذي يرفع يديه حال التسليم لا يقال له: اسكن في الصلاة، إنما يقال ذلك لمن يرفع يديه أثناء الصلاة، وهو حالة الركوع والسجود، ونحو ذلك، هذا هو الظاهر، والراوي روى هذا في وقت، كما شاهده، وروى الآخر في وقت آخر، كما شاهده، وليس في ذلك بعد، والله أعلم.
زیلعی، نصب الرایہ: 1۔394، ط الریان
اس کاوش کا شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وأجيب عن اعتراض البخاري: بأن هذا الرفع كان في التشهد ; لأن عبد الله بن القبطية قال: «سمعت جابر بن سمرة يقول: كنا إذا صلينا خلف النبي - صلى الله عليه وسلم - قلنا: السلام عليكم السلام عليكم، وأشار بيده إلى الجانبين فقال: " ما لهؤلاء يومئون بأيديهم كأنها أذناب خيل شمس إنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه من عن يمينه ومن عن شماله» "، بأن الظاهر أنهما حديثان ; لأن الذي يرفع يديه حال التسليم لا يقال له: اسكن في الصلاة، وبأن العبرة للفظ وهو قوله: " اسكنوا " لا لسببه وهو الإيماء حال التسليم.
ملا علی القاری، مرقاۃ المفاتیح: 2۔656، ط دار الفکر
ولقائل أن يقول: إنهما حديثان لا يفسر أحدهما بالآخر، كما جاء في لفظ الحديث الأول: دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا الناس رافعي أيديهم في الصلاة، فقال: "ما لي أراكم رافعي أيديكم، كأنه أذناب خيل شمس؟! اسكنوا في الصلاة"، والذي يرفع يديه حال التسليم لا يقال له: اسكن في الصلاة، إنما يقال ذلك لمن يرفع يديه أثناء الصلاة، وهو حالة الركوع والسجود، ونحو ذلك، هذا هو الظاهر، والراوي روى هذا في وقت، كما شاهده، وروى الآخر في وقت آخر، كما شاهده، وليس في ذلك بعد، والله أعلم.
زیلعی، نصب الرایہ: 1۔394، ط الریان
و الجواب عن هذا كله هو أن رفع اليدين في الصلاة لا يناقض السكون و الطمأنينة ۔ و نرى السادة الحنفية يقولون برفع اليدين في الصلاة - غير رفع تكبيرة الإحرام - في مواضع : منها رفع اليدين في القنوت ، و كذلك الرفع عند تكبيرات العيدين ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
و الجواب عن هذا كله هو أن رفع اليدين في الصلاة لا يناقض السكون و الطمأنينة ۔ و نرى السادة الحنفية يقولون برفع اليدين في الصلاة - غير رفع تكبيرة الإحرام - في مواضع : منها رفع اليدين في القنوت ، و كذلك الرفع عند تكبيرات العيدين ۔
نعم و المسألۃ طویلۃ الذیل كما تعرفون۔ لكن قولك "فراڈ کر کے" لا یناسب لانها منقولۃ من العلماء ایضا و جرحک یقع علیہم۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نعم و المسألۃ طویلۃ الذیل كما تعرفون۔ لكن قولك "فراڈ کر کے" لا یناسب لانها منقولۃ من العلماء ایضا و جرحک یقع علیہم۔
نسبت هذه الفعلة إلى صاحب الفيديو ، فوجدت عنده ما دعاني إلى هذا القول ۔ و إلا فالعلماء الكبار على الرأس و العين مهما اختلفوا ۔ رحمهم الله جميعا و جزاهم خيرا على ما قدموا للإسلام و المسلمين ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
والاختلاف الى اﻵن بيننا، فما الحل ؟
الاختلاف فی ھذہ المسائل منذ زمن طویل و لکل من الفریقین الادلۃ الکثیرۃ۔ لا یمکن حلھا لانھا نشات لاجل فرق الاذھان و الافھام۔ فما نفھم لا تفھمون و ما تفھمون لا نفھم۔
ھذا کقصۃ جماعتی اصحاب النبی ص فی حکم اداء العصر عند بنی قریضۃ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
يا جماعة الخير نرجوا من جميعكم اذا أي حل ما يمكن فعلى اﻷقل خففوا الشدة على المواضيع وجزاكم الله خيرا
 
Top