وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
ڈاکٹر محی الدین وسیم کی اپنی ویب سائٹ کے ایک بلاگ میں ایک مضمون (تحریر ) پیش کرتے ہیں
لنک
علماء سے اس پر تبصرہ چاہیے - کیا یہ صحیح ہے یا غلط ہے -
ااااااااااااااااااااااااا
منتظرین مہدی اور ان کے پرتشدد عقائدابو شہریار
کچھ مسلمان دہشت گردی کی وارداتیں کیوں کرتے ہیں؟ اس کا پر تشفی جواب اکثر لوگ دینے سے قاصر ہیں. کچھ کے نزدیک یہ یہود و ھنود کی سازش ہے کیونکہ ایک مسلمان کسی اور مسلمان کو ناحق قتل نہیں کر سکتا. صدر بش نے امریکی عوام کو آسانی سے سمجھنے والا یہ حل بتایا تھا کہ القاعدہ والے ہماری تہذیب اور معاشرت کے مخالف ہیں چنانچہ کئی برس صرف اسی بات پر مباحث ہوتے رہے کہ کیا یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم ہے؟ پاکستانی نشنلسٹ امریکی ڈرون حملوں کو مورد الزام ٹھہرا کر دہشتگردی کو اس کا منطقی انجام بتاتے رہے. حال ہی میں خوارج کی اصطلاح استمعال کر کے ان دہشت گردوں کو خارجی بنانے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن یہاں کون سے اصحاب علی(رض) اور کون اصحاب معاویہ (رض) ہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں. اس مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے کہ ان دشتگردوں کے عقائد اور نظریات پر بات کریں تاکہ عوام یہ سمجھ سکیں کہ جن حالات سے وہ دوچار ہیں اس کی اساس کیا ہے
مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان لکھی جس میں اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر میں قید میں ٢٠١٥ میں ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں ملا عمر کا استاد تھا یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا- آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بامیان میں بدھا کے مجسمے کیوں گراے گئے-
اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠١ میں اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا تھا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو کچھ حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا-
لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں ----- عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع کررہی تھیں-
کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-
علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں-
سن ٧٠ کی دہائی میں ----- کی فوج میں سے ایک، محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن--- علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم عبد الله بن زيد آل محمود المتوفی ١٤١٧ ھ نے سچ بولتے ہوئے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا اور صاف کہا کہ یہ ایک اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد --- سوچ واپس متحرک ہوئی اور -----کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ) نے اپنی کتاب الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر میں عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا
انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے – کہتے ہیں کہ مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے افکار کو پیش کیا جا رہا ہے-
ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث ہے
اب ہم پوچھتے ہیں-
ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ یہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا
کیا آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا
جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں
اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے
بقول حافظ
چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست
سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست
بعض آیات کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا
ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح بن الفوزان میں بھی اسی طرز کا انداز ہے -غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی ہے
أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ دُحَيْمٌ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , نا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ , عَنْ أَسْبَاطٍ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِي مُوسَى , فِي كَاتِبٍ لَهُ نَصْرَانِيٍّ عَجِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ كِتَابِهِ , فَقَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْتَهَرَنِي وَضَرَبَ فَخِذِي وَقَالَ: ” أَخْرِجْهُ ” وَقَرَأَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] , وَقَالَ: {لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51] , قَالَ أَبُو مُوسَى: وَاللهِ مَا تَوَلَّيْتُهُ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ , قَالَ: ” أَمَا وَجَدْتَ فِي أَهْلِ الْإِسْلَامِ مَنْ يَكْتُبُ لَكَ لَا تُدْنِهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ , وَلَا تَأْمَنْهُمْ إِذَا خَانَهُمُ اللهُ , وَلَا تُعِزَّهُمْ بَعْدَ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ
اسباط بن نصر روایت کرتا ہے سماک سے وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی
اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از العلائي کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة
نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے دوم اسباط بن نصر خود ایک ضعیف راوی ہے
صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩) ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں
اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے
اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے
ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی
اصل میں اس--- کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا؟
اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں
مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا- اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان --- علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا
مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا
امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں اور تہذیب کے دائرے میں بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں-
اااااااااااااا اااااااااااااااا
اوپر جن کتابوں کے حوالے دیے گیۓ ہیں میں نے گوگل پر سرچ ان کے لنک ساتھ ساتھ دے دیے ہیں -جو مجھے ملے ہیں - لیکن جو حوالہ سب سے پہلے دیا گیا ہے-
کتاب
بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان
یہ مجھے نہیں ملا -
یہی تحریر اسلامک بیلیف کے بلاگ پر یہاں بھی موجود ہے - وہاں پر ایک بھائی جواد نے بھی بحث کی ہے -
میں نے کچھ حوالے مانگے جو دیے گیۓ لیکن ایک حوالہ نہیں دیا گیا ابھی تک یہ والا -
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة کے بارے میں معلومات کے لئے میں نے @خضر حیات بھائی کو بھی ان باکس میں مسیج بھیجا ہے لیکن ابھی تک انہوں نے جواب نہیں دیا -
جہادِافغانستان سے متعلق حقائق اور سلفی تجزیہ کے بارے میں معلومات آپ لوگوں کو یہاں سے مل جایے گی-
لنک
علماء سے اس پر تبصرہ چاہیے - کیا یہ صحیح ہے یا غلط ہے -
ااااااااااااااااااااااااا
منتظرین مہدی اور ان کے پرتشدد عقائد
کچھ مسلمان دہشت گردی کی وارداتیں کیوں کرتے ہیں؟ اس کا پر تشفی جواب اکثر لوگ دینے سے قاصر ہیں. کچھ کے نزدیک یہ یہود و ھنود کی سازش ہے کیونکہ ایک مسلمان کسی اور مسلمان کو ناحق قتل نہیں کر سکتا. صدر بش نے امریکی عوام کو آسانی سے سمجھنے والا یہ حل بتایا تھا کہ القاعدہ والے ہماری تہذیب اور معاشرت کے مخالف ہیں چنانچہ کئی برس صرف اسی بات پر مباحث ہوتے رہے کہ کیا یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم ہے؟ پاکستانی نشنلسٹ امریکی ڈرون حملوں کو مورد الزام ٹھہرا کر دہشتگردی کو اس کا منطقی انجام بتاتے رہے. حال ہی میں خوارج کی اصطلاح استمعال کر کے ان دہشت گردوں کو خارجی بنانے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن یہاں کون سے اصحاب علی(رض) اور کون اصحاب معاویہ (رض) ہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں. اس مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے کہ ان دشتگردوں کے عقائد اور نظریات پر بات کریں تاکہ عوام یہ سمجھ سکیں کہ جن حالات سے وہ دوچار ہیں اس کی اساس کیا ہے
مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان لکھی جس میں اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر میں قید میں ٢٠١٥ میں ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں ملا عمر کا استاد تھا یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا- آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بامیان میں بدھا کے مجسمے کیوں گراے گئے-
اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠١ میں اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا تھا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو کچھ حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا-
لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں ----- عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع کررہی تھیں-
کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-
علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں-
سن ٧٠ کی دہائی میں ----- کی فوج میں سے ایک، محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن--- علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم عبد الله بن زيد آل محمود المتوفی ١٤١٧ ھ نے سچ بولتے ہوئے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا اور صاف کہا کہ یہ ایک اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد --- سوچ واپس متحرک ہوئی اور -----کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ) نے اپنی کتاب الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر میں عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا
انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے – کہتے ہیں کہ مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے افکار کو پیش کیا جا رہا ہے-
ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث ہے
اب ہم پوچھتے ہیں-
ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ یہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا
کیا آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا
جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں
اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے
بقول حافظ
چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست
سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست
بعض آیات کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا
ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح بن الفوزان میں بھی اسی طرز کا انداز ہے -غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی ہے
أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ دُحَيْمٌ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , نا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ , عَنْ أَسْبَاطٍ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِي مُوسَى , فِي كَاتِبٍ لَهُ نَصْرَانِيٍّ عَجِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ كِتَابِهِ , فَقَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْتَهَرَنِي وَضَرَبَ فَخِذِي وَقَالَ: ” أَخْرِجْهُ ” وَقَرَأَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] , وَقَالَ: {لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51] , قَالَ أَبُو مُوسَى: وَاللهِ مَا تَوَلَّيْتُهُ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ , قَالَ: ” أَمَا وَجَدْتَ فِي أَهْلِ الْإِسْلَامِ مَنْ يَكْتُبُ لَكَ لَا تُدْنِهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ , وَلَا تَأْمَنْهُمْ إِذَا خَانَهُمُ اللهُ , وَلَا تُعِزَّهُمْ بَعْدَ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ
اسباط بن نصر روایت کرتا ہے سماک سے وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی
اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از العلائي کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة
نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے دوم اسباط بن نصر خود ایک ضعیف راوی ہے
صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩) ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں
اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے
اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے
ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی
اصل میں اس--- کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا؟
اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں
مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا- اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان --- علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا
مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا
امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں اور تہذیب کے دائرے میں بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں-
اااااااااااااا اااااااااااااااا
اوپر جن کتابوں کے حوالے دیے گیۓ ہیں میں نے گوگل پر سرچ ان کے لنک ساتھ ساتھ دے دیے ہیں -جو مجھے ملے ہیں - لیکن جو حوالہ سب سے پہلے دیا گیا ہے-
کتاب
بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان
یہ مجھے نہیں ملا -
یہی تحریر اسلامک بیلیف کے بلاگ پر یہاں بھی موجود ہے - وہاں پر ایک بھائی جواد نے بھی بحث کی ہے -
میں نے کچھ حوالے مانگے جو دیے گیۓ لیکن ایک حوالہ نہیں دیا گیا ابھی تک یہ والا -
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة کے بارے میں معلومات کے لئے میں نے @خضر حیات بھائی کو بھی ان باکس میں مسیج بھیجا ہے لیکن ابھی تک انہوں نے جواب نہیں دیا -
جہادِافغانستان سے متعلق حقائق اور سلفی تجزیہ کے بارے میں معلومات آپ لوگوں کو یہاں سے مل جایے گی-