• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منتظرین مہدی اور ان کے پرتشدد عقائد- ڈاکٹر محی الدین وسیم کی تحریر پر تبصرہ چاہیے-

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
ڈاکٹر محی الدین وسیم کی اپنی ویب سائٹ کے ایک بلاگ میں ایک مضمون (تحریر ) پیش کرتے ہیں

لنک



علماء سے اس پر تبصرہ چاہیے - کیا یہ صحیح ہے یا غلط ہے -

ااااااااااااااااااااااااا


منتظرین مہدی اور ان کے پرتشدد عقائد
ابو شہریار

کچھ مسلمان دہشت گردی کی وارداتیں کیوں کرتے ہیں؟ اس کا پر تشفی جواب اکثر لوگ دینے سے قاصر ہیں. کچھ کے نزدیک یہ یہود و ھنود کی سازش ہے کیونکہ ایک مسلمان کسی اور مسلمان کو ناحق قتل نہیں کر سکتا. صدر بش نے امریکی عوام کو آسانی سے سمجھنے والا یہ حل بتایا تھا کہ القاعدہ والے ہماری تہذیب اور معاشرت کے مخالف ہیں چنانچہ کئی برس صرف اسی بات پر مباحث ہوتے رہے کہ کیا یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم ہے؟ پاکستانی نشنلسٹ امریکی ڈرون حملوں کو مورد الزام ٹھہرا کر دہشتگردی کو اس کا منطقی انجام بتاتے رہے. حال ہی میں خوارج کی اصطلاح استمعال کر کے ان دہشت گردوں کو خارجی بنانے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن یہاں کون سے اصحاب علی(رض) اور کون اصحاب معاویہ (رض) ہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں. اس مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے کہ ان دشتگردوں کے عقائد اور نظریات پر بات کریں تاکہ عوام یہ سمجھ سکیں کہ جن حالات سے وہ دوچار ہیں اس کی اساس کیا ہے

مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان لکھی جس میں اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر میں قید میں ٢٠١٥ میں ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں ملا عمر کا استاد تھا یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا- آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بامیان میں بدھا کے مجسمے کیوں گراے گئے-

اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠١ میں اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا تھا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو کچھ حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا-

لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں ----- عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع کررہی تھیں-

کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-

علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں-

سن ٧٠ کی دہائی میں ----- کی فوج میں سے ایک، محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن--- علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم عبد الله بن زيد آل محمود المتوفی ١٤١٧ ھ نے سچ بولتے ہوئے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا اور صاف کہا کہ یہ ایک اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد --- سوچ واپس متحرک ہوئی اور -----کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ) نے اپنی کتاب الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر میں عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا

انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے – کہتے ہیں کہ مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے افکار کو پیش کیا جا رہا ہے-

ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث ہے
اب ہم پوچھتے ہیں-

ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ یہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا

کیا آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا

جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا

عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں

اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے

بقول حافظ

چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست

سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست

بعض آیات کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا

ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح بن الفوزان میں بھی اسی طرز کا انداز ہے -غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی ہے

أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ دُحَيْمٌ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , نا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ , عَنْ أَسْبَاطٍ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِي مُوسَى , فِي كَاتِبٍ لَهُ نَصْرَانِيٍّ عَجِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ كِتَابِهِ , فَقَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْتَهَرَنِي وَضَرَبَ فَخِذِي وَقَالَ: ” أَخْرِجْهُ ” وَقَرَأَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] , وَقَالَ: {لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51] , قَالَ أَبُو مُوسَى: وَاللهِ مَا تَوَلَّيْتُهُ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ , قَالَ: ” أَمَا وَجَدْتَ فِي أَهْلِ الْإِسْلَامِ مَنْ يَكْتُبُ لَكَ لَا تُدْنِهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ , وَلَا تَأْمَنْهُمْ إِذَا خَانَهُمُ اللهُ , وَلَا تُعِزَّهُمْ بَعْدَ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ



اسباط بن نصر روایت کرتا ہے سماک سے وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی

اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از العلائي کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة

نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے دوم اسباط بن نصر خود ایک ضعیف راوی ہے

صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩) ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں

اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے

اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے

ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی

اصل میں اس--- کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا؟

اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں

مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا- اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان --- علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا

مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا

امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں اور تہذیب کے دائرے میں بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں-

اااااااااااااا اااااااااااااااا

اوپر جن کتابوں کے حوالے دیے گیۓ ہیں میں نے گوگل پر سرچ ان کے لنک ساتھ ساتھ دے دیے ہیں -جو مجھے ملے ہیں - لیکن جو حوالہ سب سے پہلے دیا گیا ہے-

کتاب

بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان


یہ مجھے نہیں ملا -


یہی تحریر اسلامک بیلیف کے بلاگ پر یہاں بھی موجود ہے - وہاں پر ایک بھائی جواد نے بھی بحث کی ہے -
میں نے کچھ حوالے مانگے جو دیے گیۓ لیکن ایک حوالہ نہیں دیا گیا ابھی تک یہ والا -

عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ اہل کتاب میں سے تھیں


عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة کے بارے میں معلومات کے لئے میں نے @خضر حیات بھائی کو بھی ان باکس میں مسیج بھیجا ہے لیکن ابھی تک انہوں نے جواب نہیں دیا -

جہادِافغانستان سے متعلق حقائق اور سلفی تجزیہ کے بارے میں معلومات آپ لوگوں کو یہاں سے مل جایے گی-

 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@وجاہت صاحب! معلوم ہوتا ہے کہ کہ ان صاحب نے خوب ''آوارہ خوانی'' کی ہے!
آپ کو ''آوارہ خوانی'' سے گریز کرنا چاہئے!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
’منتظرین مہدی اور ان کے پرتشدد عقائد ‘
یہ عنوان ہی گھٹیا سوچ کا غماز ہے ۔
مہدی و مسیح کے منتظرین تمام مسلمان ہیں ، حضور نے اس بات کی پیشین گوئی کی ہے ۔ جو اس کا ’ منکر ‘ ہے ، ہمیں اسے مسلمان ماننے میں تامل ہے ۔
انتظار مہدی ، و نزول مسیح وغیرہ جتنے عقائد قرآن وسنت کے اندر بیان ہوئے ہیں ، یہ سب برحق و سچ عقائد ہیں ، اگر کسی کی غلطی ہے ، تو اس کی اپنی غلطی ہے ، قرآن وسنت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، البتہ جو قرآن وسنت سے ثابت عقائد کو پرتشدد سمجھتا ہے ، ہم اس پر دو حرف بھیجتے ہیں ۔
وجاہت صاحب تحریریں بھی اپنے جیسے ’ صاحب علم ‘ لوگوں کی ہی نقل کرتے ہیں ۔ جن میں علم نہیں ، بلکہ اس کی ’ ابکائیاں ‘ نظر آرہی ہوتی ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں-
اگر علم حدیث کسی کے باپ کا ہو تو پھر وہ احادیث کو جو مرضی کہے ، لیکن اگر اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تو اسے علم حدیث کی اصطلاحیں استعمال کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے ، دسیوں صحابہ سے بیسیوں ائمہ نے کثیر تعداد میں صحیح احادیث نقل کی ہیں ، آج کا کوئی منکر حدیث انہیں ضعیف کہتا ہے تو ہمیں حدیث رسول کے ساتھ یہ سلوک کرنے والے کو ’ فکری حرامزادہ ‘ کہنےمیں کوئی عار نہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک عالم عبد الله بن زيد آل محمود المتوفی ١٤١٧ ھ نے سچ بولتے ہوئے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا اور صاف کہا کہ یہ ایک اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد --- سوچ واپس متحرک ہوئی اور -----کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ) نے اپنی کتاب الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر میں عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا
اس فضول انسان نے یا اس کی بات کو نقل کرنے والے نے ان کتابوں کے لنک دینے کی بجائے ، ان کی فہرستیں ہی دیکھی ہوں تو اسے اندازہ ہوگا کہ جس بات کا انکار کیا گیا تھا ، انہیں فتووں سے نہیں صحیح احادیث سے ثابت کیا گیا تھا ۔ کم از کم کتابوں کے عنوان سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے ، شیخ تویجری کے کتاب کے عنوان کا کیا مطلب ہے ؟
پھر دکتور بستوی کی ایک کتاب ہے ، جس کا اس میں ذکر موجود نہیں أحادیث المہدی فی المیزان ، وہ اس موضوع پر وارد احادیث کا انسائیکلوپیڈیا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بعض آیات کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا
لعنت ایسی سوچ پر ۔ جو قرآنی تعلیمات کا بھی عربیوں عجمیوں کے درمیان بٹوارہ کرکے ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں ، اس بے حیا انسان کو چاہیے ، چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عربی تھے ، اس کے پہلے متبعین عربی تھے ، لہذا یہ اسلام کی جان چھوڑے ، اور اپنے پسندیدہ مذہب میں جا شامل ہو جو عجمیوں کے لیے خصوصا نازل کیا گیا ہو ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة کے بارے میں معلومات کے لئے میں نے @خضر حیات بھائی کو بھی ان باکس میں مسیج بھیجا ہے لیکن ابھی تک انہوں نے جواب نہیں دیا -
اگر مہدی منتظر کی متواتر روایات ضعیف ہیں ، اور راویوں کے قصے کہانیاں ہیں ، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ کے متعلق یہ خبر اس کو شیطان نے دی ہے ؟
آپ اور آپ کے اس ڈاکٹر اور قماش کے لوگوں کو پہلے اسلام کی بنیادی تعلیمات سیکھنے کی ضرورت ہے ، قرآن و حدیث اور ان کے فہم کے اصول پڑھنے کی ضرورت ہے ، تاکہ اسلام کی کوئی غیرت ، اسلامی تراث کی کوئی حرمت و عزت دل میں بیٹھے ، کسی کتے بلے کی تحریریں پڑھ کر پھر اس کی تصحیح و تردید میں لگے رہنا ، ایسے ہی ہے ، جو صاف ستھرا اناج چھوڑ کر فضلے میں دانے تلاش کرتا پھرے ۔
یہ پوری تحریر آپ کے ذہن میں اٹکی رہ جائے گی ، لیکن یہ کبھی نہیں سوچیں گے کہ اس میں معلومات کو پیش کس انداز سے کیا گیا ہے ؟
وہی پہلے اپنے دماغ میں غیروں کے زیر اثر ایک بت بنالیا ، پھر کہا مولوی یہ کہتے ہیں ، اور احادیث یہ کہتی ہیں ، اور یہ پر تشدد ہیں ، اور یہ ہیں وہ ہیں ، حالانکہ اگر قرآن وسنت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو بنیاد بناکر پھر اہل مغرب کو دیکھیں تو انہیں اندازہ ہوگا ، اسلام پرتشدد نہیں ، دوسرے لوگوں میں تساہل در آیا ہے ، اور غیرت رخصت ہوچکی ہے ۔
دین کی بنیادی چیزیں سب سے پہلے ہیں ، تہذیبوں کا تقابل یا تقابل ادیان ، یہ وہ موضوعات ہیں جس کی اہلیت وہی رکھتا ہے ، جسے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہو ، اسلامی تعلیمات کی اس کو صحیح سمجھ ہو ، ایک حدیث رسول کی خاطر جان قربان کرنے کا جذبہ ہو ، بہت سارے ’ طفل مکتب ‘ اسلام کا دفاع کرتے کرتے ، خود اعتراضات کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے ، اسلام سے رخصت ہوتے نظر آتے ہیں ۔
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اگر علم حدیث کسی کے باپ کا ہو تو پھر وہ احادیث کو جو مرضی کہے ، لیکن اگر اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تو اسے علم حدیث کی اصطلاحیں استعمال کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے ، دسیوں صحابہ سے بیسیوں ائمہ نے کثیر تعداد میں صحیح احادیث نقل کی ہیں ، آج کا کوئی منکر حدیث انہیں ضعیف کہتا ہے تو ہمیں حدیث رسول کے ساتھ یہ سلوک کرنے والے کو ’ فکری حرامزادہ ‘ کہنےمیں کوئی عار نہیں ۔
مہدی و مسیح کے منتظرین تمام مسلمان ہیں ، حضور نے اس بات کی پیشین گوئی کی ہے ۔ جو اس کا ’ منکر ‘ ہے ، ہمیں اسے مسلمان ماننے میں تامل ہے ۔

عالم عبد الله بن زيد آل محمود نے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا-

آپ کے الفاظ کی زد میں عبدالله بن زید آل محمود بھی آئیں گے کیا یا نہیں - کیا آپ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں -

آپ کے الفاظ

اگر کسی کی غلطی ہے ، تو اس کی اپنی غلطی ہے

زبان چلانا تو سب کو آتا ہے - لیکن میرے الفاظ وہی ہیں جو میں اکثر کہتا ہوں کہ بات پرورش کی ہوتی ہے -

یہاں پر میں نے تحریر پیش کر کے اس پر کہا تھا کہ

علماء سے اس پر تبصرہ چاہیے - کیا یہ صحیح ہے یا غلط ہے -
بات ہمیشہ علمی دلیل سے ہوتی ہے - مختلف القاب استعمال کرنا علمی کمی یا ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتا ہے -

کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو بھی سرفراز خان صفدر صاحب کی طرح ایسا نظر آنا شروع ہو جایے -

1.jpg
2.jpg





 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
یہ پاپندی کیوں؟
آپ کسی کے بهی افکار کی ترجمانی کر سکتے ہیں تو دوسروں کو کیوں روکنا چاہتے ہیں کہ وہ صحیح دینی و علمی "کمنٹ" نا کرے!
پوسٹ آپ بهلے دوسروں کی کرتے ہیں لیکن اعتراضات آپ کے ذاتی هوتے ہیں ، کبهی سوچا بهی هے کہ آپ علمی دلائل سے مطمئین کیوں نہیں هو جاتے!
کون سی چیز مانع آجاتی هے ، عقائد!؟
اللہ سب کو شر سے محفوظ رکهے
 
Top