- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
جسے علم و تحقیق کی ابجد کا بھی علم نہ ہو ، اس کا کوئی قصور نہیں کہ وہ اپنی آوارہ مزاجی کا جواب بھی ’ علمی و تحقیقی ‘ طلب کرے ۔عالم عبد الله بن زيد آل محمود نے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا-
آپ کے الفاظ کی زد میں عبدالله بن زید آل محمود بھی آئیں گے کیا یا نہیں - کیا آپ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں -
آپ کے الفاظ
زبان چلانا تو سب کو آتا ہے - لیکن میرے الفاظ وہی ہیں جو میں اکثر کہتا ہوں کہ بات پرورش کی ہوتی ہے -
یہاں پر میں نے تحریر پیش کر کے اس پر کہا تھا کہ
بات ہمیشہ علمی دلیل سے ہوتی ہے - مختلف القاب استعمال کرنا علمی کمی یا ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتا ہے -
کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو بھی سرفراز خان صفدر صاحب کی طرح ایسا نظر آنا شروع ہو جایے -
میں نے آپ کو ایک بات سمجھانے کی کوشش کی ، لیکن وہ آپ کی سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی ، البتہ اس کے جواب میں آپ نے پوسٹ سے تربیت و درست پرورش کا فقدان تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن آپ کی تربیت و پرورش میں جس بنیادی چیز کی کمی رہ گئی ہے ، اس کی طرف آپ کا دماغ پلٹتا ہوا نظر نہیں آتا ۔
اب آپ نے حسب سابق پھر ایک دفعہ ’ علمی جواب ‘ کی طرف توجہ دلائی ہے تو سمجھیے کہ کسی چیز میں رائے قائم کرنے کا علمی و تحقیقی انداز کیا ہوتا ہے ؟
نزول مہدی و مسیح کے معاملے کی تحقیق کا نقطہ آغاز کہاں سے ہوگا ؟
سب سے پہلے قرآن وسنت پر غور کریں ، پھر سلف امت کے اقوال کو دیکھیں ، ایک اسلامی مسئلے سے متعلق قرآن و سنت سے جو ثابت ہوتا ہے ، اس کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ نصوص کی حرمت ، اسلامی تراث پر اعتماد و احترام کو دل میں بٹھا کر عصرحاضر کے لکھاریوں کو دیکھیں ، خود بخود سمجھ آئے گی کہ ان کی قرآن وسنت سے متصادم باتیں کس قدر سطحی ہیں ، اور سلف امت کے رستے سے ہٹ کر یہ کس قدر غلط رستوں پر چل رہے ہیں ۔
’ دلیل ‘ وہ ہوتی ہے ، جو حق ہو ، اس کے مقابل بالکل واضح باطل ہے ۔ کچھ چیزیں ایسے ہیں جنہیں ’ شبہہ ‘ کہا جاتا ہے ۔ شبہے کو شبہہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ در حقیقت باطل چیز ہوتی ہے ، لیکن اسے دلیل کی مانند بناکر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
اس تحریر میں جتنی چیزیں آپ نے ذکر کی ہیں ، یہ ’ شبہے ‘ ہیں ، قرآن و سنت کی واضح نصوص کے مقابلے میں ان کی ایک پیسے کی حیثیت نہیں ۔
مزید واضح انداز میں سمجھ لیجیے ، شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات !
نزول مہدی و مسیح میں دلیل بے شمار احادیث ہیں ۔
اس میں شبہ یہ ہے کہ : بہت سارے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا ، جو جھوٹے نکلے ، عیسائی بھی لوگوں کو مسیح موعود کا لالچ دے کر گمراہ کرتے تھے ۔
دلیل یہ کہتی ہے کہ نزول مہدی و مسیح برحق ہے ۔
شبہہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہ سب جھوٹ اور فراڈ ہے ۔
ماتم کریں ، اس عقل پر جو دلیل اور شبہے کے فرق کو ہی نہ سمجھ سکے ، اور سر پیٹیں اس سوچ پر جو ’ دلائل ‘ کو ’ شبہات ‘ پر قربان کردے ۔
بعض دفعہ انسان دھوکے میں آجاتا ہے ، یا علمی کمزوری کے سبب اسے شبہہے کا جواب نہیں سوجھتا ، لیکن اگر اس کے اندر ’ دلائل ‘ کی حرمت و احترام کا جذبہ موجود ہو تو وہ یہ کہتا ہے کہ : میرے پاس شبہے کا جواب تو نہیں ہے ، البتہ مجھے دلیل کی حقانیت پر اس قدر شرح صدر ہے کہ میں اسے کسی بھی طرح جھٹلا نہیں سکتا ۔
قرآن مجید نے اسی طرح کے ايك مضمون كو اس انداز سے بیان کیا ہے :
فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه من ابتغاء الفتنة و ابتغاء تأويله --- و الراسخون في العلم يقولون آمنا به
اب یہاں بھی آپ نے آل محمود کی ذات کو سامنے لا کھڑا کیا ہے ، یعنی اگر احادیث مہدی کو صحیح مانا جائے ، اور ان کے منکر پر طعن و تشنیع کی جائے تو اس میں یہ آل محمود جیسے لوگ بھی آتے ہیں ۔عالم عبد الله بن زيد آل محمود نے المہدی کی روایات کو کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر میں رد کیا-
آپ کے الفاظ کی زد میں عبدالله بن زید آل محمود بھی آئیں گے کیا یا نہیں - کیا آپ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں -
لیکن اگر آپ کو نصوص قرآں وسنت اور اس کو ہم تک پہنچانے والوں کا ذرا بھی پاس ہوتا تو آپ اس قسم کے لوگوں سے یہ ضرور پوچھتے کہ : ان صحیح احادیث کا انکار کرتے ہوئے ، راویوں کو جھٹلاتے ہوئے ، کن کن مقدس ہستیوں پر حرف آئے گا ؟
مجھے منکرین کے ’ علمی ذوق ‘ پر بہت حیرانی ہوتی ہے ، خود تو سب شرم و حیا ایک طرف رکھ کر صدیوں پر محیط مسلمات کا ایک لفظ سے انکار کردیتے ہیں ، صحابہ و تابعین ، محدثین عظام و فقہاء کرام کی ذات کو بلا کسی دلیل جھٹلاتے ہوئے انہیں کوئی اخلاقیات یاد نہیں آتیں ۔
لیکن ان کی بے تکی باتوں کا جواب کوئی ان کی حیثیت اور سطح کے مطابق دے دے تو فورا ’ علم و تحقیق ‘ کی دہائی دینا شروع کردیتے ہیں ۔
محدثین نے احادیث نزول مہدی و مسیح کے متعلق جو علم و تحقیق پیش کیا ہے ، اس کے جواب میں منکرین کا رویہ علمی ہے ؟ سیکڑوں راویوں پر مشتمل بیسیوں احادیث ، جنہیں کئی ایک علماء و محدثین صدیوں سے نقل کرتے آرہے ہیں ، انہیں صرف ایک کلمہ ’ یہ سب ضعیف ‘ ہے سے رد کردینا ، ایک علمی رویہ ہے ؟ اب اگر ان منکرین کو انہیں کی طرح مختصر انداز میں ’ پاگل ، مجنون ، فکری حرامزادے ‘ کہہ دیا جائے تو قائل سے کس منطق سے کوئی ’ علمی جواب ‘ طلب کرتا ہے ؟
Last edited: