• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
کوئی ان کے جواب دے!
سوال نمبر1 :- سب سے پہلے استمداد غیر اللہ پر اپنا عقیدہ واضح کیجیئے تفصیلی طور پر ۔

سوال نمبر2 :- حقیقی اور مجازی اور اسی طرح ذاتی اور عطائی امداد کی بدیہی تقسیم کی معنویت ( حقیقت آپکے نزدیک کیا ہے) واضح کیجیئے۔

سوال نمبر3 :- ماتحت الاسباب اور ما فوق الاسباب کی بدیہی تقسیم میں امداد کے حقیقی ،مستقل اور اصل ماخذ کی نشاندہی کیجیئے ۔


سوال نمبر4 :-ماتحت الاسباب امور میں اسباب ظاہری کے تحت جو مدد طلب کی جاتی ہے اس کی حقیقت واضح کرتے ہوئے اسکا تعین بطور سبب ظاہری یا علت تامہ کے واضح فرمایئے ۔

سوال نمبر5 :- مافوق الاسباب امور میں جو استعانت ظاہری بطور مجاز کہ کی جاتی ہے اس سے انکار پر قرآن و سنت سے واضح اور قطعی نصوص پیش کیجیئے ۔

سوال نمبر6 :- مافوق الاسباب امور میں جو استعانت بطور مجاز کے کی جاتی ہے اس سے انکار کی نوعیت واضح فرماتے ہوئے شرعی و عقلی استحالہ پیش فرمائیے ۔

سوال نمبر7 :-ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی لغویت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس باب میں استعانت کہ اصل مدار کا تعین پیش فرمائیے ۔
سوال نمبر8 :- ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب دونوں طرح کے امور میں استعانت حقیقی اور مجازی کہ تعین کو بطور علت تامہ اور سببیت کہ اللہ اور غیراللہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے فرق واضح فرمایئے ۔

سوال نمبر9 :- مافوق الاسباب امور میں غیراللہ سے استعانت مجازی کے عقیدہ کا رد کرتے ہوئے اسکا حکم واضح کیجیئے ۔

سوال نمبر10 :-مافوق الاسباب امور میں غیراللہ سے استعانت ظاہری کا عقیدہ آپ کے نزدیک جس حکم کا متحمل ہے اسی حکم کے مطابق ادلہ اربعہ میں سے دلیل بھی پیش فرمائیے ۔

سوال نمبر11:- حقیقی اور مجازی کے (بدیہی اور قرانی ) فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان دونوں میں مدار استعانت کہ اصل رکن کی توجیہ بطور استقلال و عدم استقلال کے واضح کیجیئے ۔

سوال نمبر12:- معجزہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کا فرق واضح فرمایئے ۔

سوال نمبر13 :- معجزہ کی تعریف میں نبی کے تحدی (چیلنج ) کی شرط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس تحدی کی حقیقت کا تعین بطور کسب یا خلق کے فرمایئے ۔

سوال نمبر14 :- معجزہ کی اصطلاحی تعریف میں حکم عجز کے مدار کو واضح کیجیئے ۔

سوال نمبر15 :- معجزہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کی وضاحت کیجیئے کہ قرآن کس اعتبار سے معجزہ ہے جبکہ وہ خلق شدہ نہیں ہے ۔

سوال نمبر16 :- معجزہ کی تعریف میں آپ نے امام غزالی سے جو فلاسفہ کا رد نقل کرتے ہوئے امور خفیہ کی حقیقت کو بطور (خفی)غیر مادی اسباب کے واضح کیا ہے ان امور کی قرآن پاک سے وابستگی کی حقیقت کو واضح کیجیئے یہ بتلاتے ہوئے کہ ان میں سے کس خفی مادی یا خفی غیر مادی امر کہ تحت قرآن معجزہ ہے ۔

سوال نمبر17 :-معجزہ اور کرامت میں خلق اور کسب کی حقیقت کو واضح کیجیئے ساتھ اس وضاحت کہ ان دونوں میں سے سبب کیا ہے علت تامہ کیا ہے ۔

سوال نمبر18 :-معجزہ اور کرامت میں جن ائمہ نے کسب کہ دخل کو مانا ہے ان سب کی عبارات کا جواب پیش فرمایئے

سوال نمبر19 :-معجزہ اور کرامت میں کسب کہ دخل کو نہ ماننے والے ائمہ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے اقوالات کی وجوہ ترجیح کو بیان کیجیئے ۔

سوال نمبر20 :- معجزہ اور کرامت میں کسب کہ دخل کے اکثریتی مذہب پر اپنے عدم اعتماد کی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے ان سب(مجوزین دخل کسب ائمہ ) کا حکم واضح کیجیئے ساتھ قرآن و سنت کہ واضح دلائل سے ۔ ۔ ۔

سوال نمبر21 :- اگر آپ ذاتی اور عطائی کے بدیہی فرق کو نہیں مانتے تو پھر اپنے اس چھ فٹ کے وجود کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔

سوال نمبر22 :-اگر آپ حقیقی اور مجازی کے فرق کو نہیں مانتے تو پھر اپنے اس چھ فٹ کے وجود پر اپنے تصرف کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔

سوال نمبر23 :- اگر آپ کا وجود آپکا حقیقی ہے عطائی نہیں تو پھر ممکن سے واجب ہونے کے اس امر پر حکم شرعی واضح کیجیئے کہ آپ کیوں مشرک نہیں ساتھ اس اعتقاد کے ۔ ۔؟

سوال نمبر24 :- اگر آپ کے وجود پر آپکا تصرف مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہے بطور علت تامہ کہ تو پھر اس امر پر حکم شرعی واضح کیجیئے۔ کہ آپ کیوں مشرک نہیں ساتھ اس اعتقاد کے ۔ ۔؟

سوال نمبر25 :- آپ نے فرمایا کہ آپکا ہمارے ساتھ اختلاف یہ ہے کہ آپکے نزدیک ہم معجزات یا کرامات کو انبیاء کا مجازا فعل سمجھتے ہیں (جی ہاں ایسا ہی ہے لیکن بطور کسب اور ہم نے اس پر قرآن و سنت کے ساتھ ائمہ کا مذہب بھی نقل کردیا) اگر آپکو اس سے اختلاف ہے تو اس کا حکم واضح کیجیئے کہ مجاز کو مجاز سمجھنے والے پر آپکے نزدیک کیا حکم ہوگا ۔

سوال نمبر26 :- آپ نے فرمایا کہ معجزات میں انبیاء کرام کی بطور کسب قدرت ماننے سے ان کا خدائی قدرت میں شریک ماننا لازم آئے گا سوال یہ ہے کہ کس طرح سے؟؟؟؟ جب کہ انبیاء کی معجزات میں بطور کسب قدرت بالکل اسی طرح سے ہے کہ جیسے امور عادیہ میں عام انسانوں کی بطور کسب (سبب ) کے تو پھر کیا وجہ ہے کہ امور عادیہ میں انسان فعل میں خدا کا شریک ہوکر بھی مشرک نہ بنے مگر امور غیر عادیہ میں وہ شرک ہو ان دونوں کی وضاحت تفصیل طلب ہے ساتھ سبب اور علت کہ فرق کہ ۔ ۔

سوال نمبر27 :- آپ نے فرمایا کہ میرے دوست ہمیں مجازی اور حقیقی کی تقسیم سے کوئی اختلاف نہیں ۔۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجازی کا مطلب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء کرام کو معجزات اور کرامات پر(مجازی) استقلال حاصل ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک مجاز کی حیثیت مستقل کی سی ہے ایں چہ بوالعجبی است مجاز مستقل کیسے ہوسکتا ہے وضاحت کیجیئے ۔ ۔ ۔

سوال نمبر28 :-سورہ نمل میں حضرت سلمان علیہ السلام کے ایک مافوق الاسباب امر میں غیر اللہ کی طرف رجوع کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔۔۔

سوال نمبر29 :- سورہ نمل میں جن (عفریت) کے قول انا اتیک پر اس کہ اس امر پر قدرت کی حقیقت کو واضح کیجیئے ۔

سوال نمبر30 :- سورہ نمل میں حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کے قول انا اتیک کی واضح توجیہ پیش کیجیئے کہ آیا انکا انا اتیک کہنا بطور اسناد مجازی کہ ہے یا حقیقت کہ اگر آپ کے نزدیک کرامت میں مجازا بھی کسب کا دخل نہیں ہوتا تو انا اتیک کے واضح قول کی توجیہ پیش کیجیئے۔ ۔ ۔
مندرجہ بالا پوسٹ کو اس " سرخی " کے ساتھ شروع کیا گیا :
منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات

یہ سرخی بول بول کر اعلان کر رہی ہے کہ اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو " غیر اللہ سے استمداد کے منکر ہیں" اگر کشمیر خان نے فن مناظرہ کی کتاب " رشیدیہ " کا مطالعہ کیا ہوتا تو یہ سوالات ہر گز نہ کرتے بلکہ اپنا غیر اللہ سے استمداد کا عقیدہ لکھتے اور اس کی تنقیح کر وا کر اس پر دلائل دیتے نہ کہ منکرین سے دلائل طلب کرتے ۔ شریعت کا بھی یہی قائدہ ہے " البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکرا"
کشمیر خان صاحب : آپ اپنا عقیدہ غیر اللہ سے استمداد کا مکمل نقل کریں پھر اسکی تنقیح کروائیں اصول طے ہو جانے کے بعد گفتکو کر لیں بندہ حاضر ہے
یاد رہے منکر کی حثیت " سائل" کی ہوتی ہے
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ویسے یہبات ضروری ہے کہ اس مسلے کی تنقیح کی جائے کیوں کہ اصل مسئلہ وسیلہ ہے اور غیر اللہکی طرف نسبت بھی مجازی ہے اس سے مراد وسیلہ ہی ہوتا ہے۔یہی بات اعلی حضرت سے لیکر تمام علمائے اہلسنت نے لکھی ہے انشا اللہ عنقریب ان کے حوالہجات بھی پیش کیئے جائیں گے
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
ویسے یہبات ضروری ہے کہ اس مسلے کی تنقیح کی جائے کیوں کہ اصل مسئلہ وسیلہ ہے اور غیر اللہکی طرف نسبت بھی مجازی ہے اس سے مراد وسیلہ ہی ہوتا ہے۔یہی بات اعلی حضرت سے لیکر تمام علمائے اہلسنت نے لکھی ہے انشا اللہ عنقریب ان کے حوالہجات بھی پیش کیئے جائیں گے
قادری رانا جی: اسکا جواب چاہئیے نئی بات نہ کریں
مندرجہ بالا پوسٹ کو اس " سرخی " کے ساتھ شروع کیا گیا :
منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات

یہ سرخی بول بول کر اعلان کر رہی ہے کہ اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو " غیر اللہ سے استمداد کے منکر ہیں" اگر کشمیر خان نے فن مناظرہ کی کتاب " رشیدیہ " کا مطالعہ کیا ہوتا تو یہ سوالات ہر گز نہ کرتے بلکہ اپنا غیر اللہ سے استمداد کا عقیدہ لکھتے اور اس کی تنقیح کر وا کر اس پر دلائل دیتے نہ کہ منکرین سے دلائل طلب کرتے ۔ شریعت کا بھی یہی قائدہ ہے " البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکرا"
کشمیر خان صاحب : آپ اپنا عقیدہ غیر اللہ سے استمداد کا مکمل نقل کریں پھر اسکی تنقیح کروائیں اصول طے ہو جانے کے بعد گفتکو کر لیں بندہ حاضر ہے
یاد رہے منکر کی حثیت " سائل" کی ہوتی ہے
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت سوال کے جواب میں سوال بھی ایک جواب دینے کا طریقہ ہے ۔اور ان کے جوابات سے مسئلہ کی تنقیح خود بخود ہوجائے گی۔
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
حضرت سوال کے جواب میں سوال بھی ایک جواب دینے کا طریقہ ہے ۔اور ان کے جوابات سے مسئلہ کی تنقیح خود بخود ہوجائے گی۔
قادری رانا جی:
اسے غور سے پڑھیں ؟
منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات
سائل کون ہوتا ہے مدعی یا منکر؟؟؟
غیر اللہ سے استمداد پر اپنا مکمل عقیدہ لکھیں پھر اسکی تنقیح کر وائیں پھر اصول طے کریں ۔ ابھی تو سائل(یعنی منکر ) نے کوئی سوال نہیں لکھا اور آپ عقیدہ لکھنے سے گھبرا رہے ہیں
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت گھبراتے وہ ہیں جنکی دیواریں کمزور ہوں جہاں تک عقیدے کا بیان تومیں نے پہلے کہا ہے کہ ہمارے ہاں استعانت بمعنی توسل و تبرک ہے۔یہ تو ہمارا عقیدہ تھا اب آپ یہ بتائیں کہ جو اس کا قائل ہو اس پر کیا حکم ہے؟
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
قادری رانا جی :
اس لفظ کو بغور پڑھیں :ا
(منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات )
بندہ پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ اپنی حثیت کو مد نظر رکھیں یعنی مدعی رہیں ۔ اور اپنا عقیدہ غیر اللہ سے استمداد پر مکمل نقل کریں
بندہ کی حثیت چونک منکر (یعنی سائل ) کی ہے اس لئے چند باتیں عرض کرتا ہوں
(1) لفظ غیر اللہ کو مدنظر رکھیں کیا آپ لوگ نبی اور غیر نبی سب کو " غیر اللہ " سمجھتے ہیں ؟
(2) اب لفظ استمداد کو مدنظر رکھیں اور اس کا معنیٰ نقل کریں شرعی اور لغوی طور پر
(3) جناب نے استعانت کا لفظ لکھا ہے اس کا معنی نقل کریں شرعی و لغوی طور پر
(4) لفظ توسل کا معنی شرعی و لغوی طور پر نقل کریں
(5) لفظ تبرک کا شرعی و لغوی معنی نقل کریں
(6) عقیدہ کے اثبات کے لئے کن دلائل کی ضرورت ہوتی ہے؟
(7) اصول کی کتابوں میں لکھا ہے کہ عقیدہ قطعی ہوتا ہے اور اس کے دلائل بھی قطعی ہوتے ہیں عقیدہ کا انکار یا تاویل دونوں کفر ہیں کیا جناب اس سے متفق ہیں؟
(8) غیر اللہ سے استمداد کے منکر کا کیا حکم ہے؟
(9)کشمیری صآحب کے سوالات پڑھیں کیا انہوں نے کسی جگہ غیر اللہ کی استمداد کو وسیلہ یا تبرک سمجھا ہے؟
(10) من دون اللہ جو قرآن و سنت میں آیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟
امید ہے کہ جناب کی ریت پر کھڑی دیواریں تو گر گئی ہونگی ملبہ اکھٹا ہو جائے تو جواب عنایت کریں


 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شرکیہ عقائد کے جاہلانہ سہارے ؛؛

ہمیں بڑا دکھ ہوتا ہے جب۔۔ حقیقی و مجازی ۔۔کے عنوان سے اللہ کی عظمت میں ۔۔دوسروں کو شریک ۔۔کرنے کی ناپاک ’’ جسارت ‘‘ کی جاتی ہے۔۔
ایک بیوی کے معاملے پر ’’ حقیقی و مجازی ‘‘ کی تقسیم اگر۔۔حیا سوز ۔۔ہے ،تو اللہ عزوجل کے نسبت تو ایسی ۔۔بے حیائی ۔۔کہیں بڑی۔۔جسارت ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
2۔ذاتی اور عطائی کی تقسیم کو آپ کے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ سعید نے بھی تسلیم کیا ہے (تفسیر سورہ توبہ )
ہماری گذارش یہ ہے کہ ::
حافظ سعید صاحب کس فرقہ کے امام ہیں ۔۔کس صدی کے مفسر ہیں؟ ان کا تعارف کروائیں، ہم ان کے علمی مقام اور عقیدہ و فکر سے آشنا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ نے یہ بھی خوب کہی کہ :
جناب یہاں برابری ہے اور جو اللہ کے ساتھ برابری کرے وہ مشرک ہے۔جو کسی کو خدا سمجھ کر یا مستقل بالذات سمجھ کر
یعنی جب تک کسی کو ’’ خدا نہ کہے ، شرک نہیں ۔۔مطلب اللہ کے سوا دوسروں کو ۔۔خدا۔الہ ۔۔کہے بغیر جو کرتا رہے سب ٹھیک ہے۔
جیسے کوئی عورت کسی کو ’’ خاوند ‘‘ کے برابر سمجھے بغیر اس کے ساتھ جو چاہے کر لے ۔۔پاک دامن ۔۔ہی رہے گی؟
یہ وہی بات ہے جس جناب خود ۔۔حیا سوز ۔۔کہہ رہے ہیں۔

مشرکین عرب کا عقیدہ قرآن مجید نے اسی قبیل کا بیان کیا ہے :’’ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (سورہ یونس ۔18)
ترجمہ مولوی غلام رسول بریلوی:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں ، اور یہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں ، آپ کہئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جس کا اللہ کو نہ آسمانوں میں علم ہے نہ زمینوں میں ، وہ ان تمام سے بری اور بلند ہے جن کو تم اس کے ساتھ شریک کرتے ہو (یونس : ١٨)

اسکی تفسیر میں مولوی غلام رسول بریلوی نے علامہ رازی کی ایک طویل عبارت نقل کی ،اس میں دیگر باتوں کے ساتھ ۔۔بزرگ پرستی ۔۔کا شرک بیان کیا ہے
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
’’ اس زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت لوگ بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جب وہ ان کی قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے ‘‘ انتہی
علامہ رازی کے الفاظ یہ ہیں :
’’ ونظيره في هذا الزمان اشتغال كثير من الخلق بتعظيم قبور الأكابر، على اعتقاد أنهم إذا عظموا قبورهم فإنهم يكونون شفعاء لهم عند الله ۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری گذارش ہے کہ بندے کو اللہ عزوجل کے معاملے میں سب سے زیادہ ۔۔باحیا ۔۔غیرت مند
اور ۔۔غیر ۔۔کو شریک کرنے سے بالکل پاک ہونا چاہیئے ؛

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علامہ رازی کی مکمل تفسیری عبارت پیش ہے ؛

ثم اختلفوا في أنهم كيف قالوا في الأصنام إنها شفعاؤنا عند الله؟ وذكروا فيه أقوالا كثيرة:
فأحدها: أنهم اعتقدوا أن المتولي لكل إقليم من أقاليم العالم، روح معين من أرواح عالم الأفلاك، فعينوا لذلك الروح صنما معينا واشتغلوا بعبادة ذلك الصنم، ومقصودهم عبادة ذلك الروح، ثم اعتقدوا أن ذلك الروح يكون عبدا للإله الأعظم ومشتغلا بعبوديته.
وثانيها: أنهم كانوا يعبدون الكواكب وزعموا أن الكواكب هي التي لها أهلية عبودية الله تعالى، ثم لما رأوا أن الكواكب تطلع وتغرب وضعوا لها أصناما معينة واشتغلوا بعبادتها، ومقصودهم توجيه العبادة إلى الكواكب.
وثالثها: أنهم وضعوا طلسمات معينة على تلك الأصنام والأوثان، ثم تقربوا إليها كما يفعله أصحاب الطلسمات.
ورابعها: أنهم وضعوا هذه الأصنام والأوثان على صور أنبيائهم وأكابرهم، وزعموا أنهم متى اشتغلوا بعبادة هذه التماثيل، فإن أولئك الأكابر تكون شفعاء لهم عند الله تعالى، ونظيره في هذا الزمان اشتغال كثير من الخلق بتعظيم قبور الأكابر، على اعتقاد أنهم إذا عظموا قبورهم فإنهم يكونون شفعاء لهم عند الله. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعلم أن كل هذه الوجوه باطلة بالدليل الذي ذكره الله تعالى وهو قوله: ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم وتقريره ما ذكرناه من الوجوه الثلاثة.


کہ مشرکین کے اس قول ’’ هؤلاء شفعاؤنا عند الله ‘‘ یہ جن کی ہم پوجا کرتے ہیں (مستقل ’’ الہ ‘‘ نہیں ،بلکہ ) اللہ کی جناب میں ہمارے شفیع اور سفارشی ہیں،، ان کے اس قول یا عقیدہ کے مطلب و مراد میں چند اقوال ہیں ،
ایک قول تو یہ کہ ان کا اعتقاد تھا کہ اقلیم عالم میں ہر اقلیم کیلئے عالم افلاک کی ایک روح کار فرما ہے ۔۔تو اس روح کیلئے انہوں نے ایک معین صنم تراش لیا،اور اس کی عبادت کرنے لگے۔ اور مقصود اس روح کی عبادت تھا ،لیکن اس کو ’’ الہ اعظم ‘‘نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ یہ روح ۔الہ اعظم۔۔ کا عبد ہے ،اور اس کی عبادت میں مشغول ہے۔
دوسرقول یہ ’’ هؤلاء شفعاؤنا عند الله ‘‘ سے مراد یہ کہ وہ کواکب کی پوجا کرتے،اور ان کو اللہ کی عبودیت کا اہل سمجھتے تھے ۔
تو جب انہوں نے دیکھا کہ کواکب طلوع و غروب ہوتے ہیں تو انہوں (ہمہ وقت ان کو سامنے رکھنے کیلئے انکے بت بنا لئے اور انکی عبادت میں لگ گئے ۔اور مقصود یہاں بھی (بتوں کی نہیں ) کواکب کی پرستش تھی
اور تیسری صورت یہ کہ وہ بتوں پر کچھ’’ طلسمات ‘‘ بنا لیتے تھے،اور انکے تقرب کیلئے جادو گروں جیسے افعال بجا لاتے۔
اور چوتھی صورت یہ تھی کہ انہوں نے انبیاء و اکابرین کے بت بنالئے تھے
اور انکی پرستش کرنے لگے تھے اس اعتقاد کے ساتھ کہ اس طرح یہ اکابر ۔ اللہ کی جناب میں ہمارے شفیع اور سفارشی بنیں گے ۔
’’اور اس زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جب وہ ان کی قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے ‘‘
(آخر میں علامہ رازی ؒ لکھتے ہیں )
خبر دار ! یہ تمام صورتیں باطل ہیں اس قرآنی دلیل سے جو اللہ عزوجل نے بیان فرمائی‘‘ یعنی :(ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم )
انتہی
تو بات صاف ہے کہ علامہ رازی ؒ نے قبروں کی تعظیم کو جاہلی مشرکوں کے شرک کی نظیر کہہ کر اسے باطل قرار دیا ہے ،
اور عاشقان قبر پرستی شرکیہ تصوف کے نشے میں علامہ رازی ؒ کی اتنی واضح عبارت کو آگے پیچھے کرتے ہوئے اس کا الٹا مطلب نکالنے پر تلے ہوئے ہیں
اور بھولے بھالے قبوریوں کو ’’ قبر پرستی ‘‘ پر ڈٹے رہنے کی بھونڈی حرکت فرما رہے ہیں ۔
 
Last edited:
Top