• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات

imran shahzad tarar

مبتدی
شمولیت
اگست 30، 2016
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
استمداد غیر اللہ کا جو عقیدہ ہندو مت جین مت بدھ مت اور عیسائیوں کا وہی عقیدہ آج کے ددباری ملاوں اور ان کے پیروکاروں کا ہے صرف نام میں فرق ہے نظریہ و عقائد ایک ہی ہے۔۔۔۔
وہ اپنے آپ کو مشرک نہیں کہتے ۔۔۔
اور غیر اللہ سے مدد مانگنا ان کے نزدیک دین کا اہم جز ہے۔۔۔حقیقی مجازی کا چکر انہی کا ایجاد کردہ ہے
میرا سوال ہے اگر غیر اللہ سے مدد مانگنا مسلمانوں کے ہاں جائز ہے تو پهر عیسائیوں یہودیوں بدمتوں جین متوں سکهوں وغیرہ پر مشرک ہونے کے فتوے کیوں لگائے جاتے ہیں. ۔۔۔۔
 

imran shahzad tarar

مبتدی
شمولیت
اگست 30، 2016
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
اسلام اور تصوف کے تقابلی مطالعہ پر میں واٹس اپ پر ایک سلسلہ چلا رہا ہوں اس میں اوپ ذکر کردہ سب سوالات کے جوابات مل جائیں گے بطور سیمپل دو اقساط یہاں پوسٹ کر رہا ہوں
 

imran shahzad tarar

مبتدی
شمولیت
اگست 30، 2016
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
*عقیدہ وحدت الوجود*
صوفیاء کے عقائد میں جو عقیدہ سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنا ہے، وہ وحدت الوجود کا عقیدہ ہے۔ اسی سے متعلق حلول کا عقیدہ ہے جو بعض صوفیاء کے ہاں پایا جاتا ہے۔
وحدت الوجود (Pantheism) اورعقیدہ حلول
جیسا کہ ہم پچھلے اسباق میں بیان کر چکے ہیں کہ وحدت الوجود کا عقیدہ صوفیاء کے اندر تقریباً متفق علیہ نظریہ ہے تاہم اس کی تفصیل کے بارے میں ان کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عقیدہ حلول بھی بعض صوفیاء کے اندر پایا جاتا ہے جبکہ بعض اس سے انکار کرتے ہیں۔
وحدت الوجود کے فلسفے کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ ہے اللہ تعالی۔ اس کی ذات کے علاوہ کوئی اور وجود نہیں پایا جاتا ہے۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو پھر خالق و مخلوق میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا بلکہ انسان، حیوانات،نباتات، بے جان اشیاء، حتی کہ غلاظت اور شیطان بھی نعوذ باللہ، اللہ تعالی ہی کے وجود کا حصہ قرار پاتے ہیں۔ اس کے بعد اسلام اور کفر اور حلال و حرام میں بھی فرق کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کیونکہ حلال و حرام معاذ اللہ سبھی خدا ہی ہیں۔
حلول کے عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی انسان کے اندر حلول کر جاتا ہے۔ اس عقیدے کو اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو پھر خدا ہر چیز کے اندر حلول کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے ہاں بہت سے جانوروں جیسے گائے، سانپ ، ہاتهی اور بندر وغیرہ کا بڑا احترام کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے نقطہ نظر کے مطابق بھگوان ان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے ہاں یہ تصور بھی موجود ہے کہ بھگوان اپنے خاص بندوں کے اندر حلول کر جاتا ہے جو کہ "اوتار" کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو پیروں فقیروں، جوگیوں اور سادھوؤں کی انتہائی تعظیم کرتے ہیں اور ان کی عقیدت کا یہ معاملہ ان کے اپنے بزرگوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ وہ دیگر مذاہب کے صوفیاء کی بھی ویسی ہی تعظیم کرتے ہیں۔
پابند شریعت صوفیاء حلول کے عقیدے سے انکار کرتے ہیں اور وحدت الوجود کے عقیدے کی مختلف تشریح کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صوفی اکابرین کی جن عبارتوں پر اعتراض کیا جاتا ہے، وہ یا تو ان کی تاویل کرتے ہیں اور یا پھر انہیں الحاقی قرار دیتے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ مختلف فریقوں کے نقطہ ہائے نظر بیان کرنے سے پہلے وحدت الوجود اور حلول سے متعلق اکابر صوفیاء کی عبارتیں پیش کر دی جائیں تاکہ اس نظریے کی وضاحت ہو جائے۔ ہم یہاں ترجمے کے ساتھ ساتھ اصل عربی عبارات تاکہ عربی دان حضرات یا دینی مدارس کے طلبہ و طالب خود ان کا مطالعہ فرما لیں۔
شیخ عبداللہ الہروی (d. 481/1088) کی کتاب منازل السائرین میں یہ بات لکھی ہوئی ہے:
والتوحيد على ثلاثة وجوه:
الوجه الأول توحيد العامة الذي يصح بالشواهد والوجه الثاني توحيد الخاصة وهو الذي يثبت بالحقائق والوجه الثالث توحيد قائم بالقدم وهو توحيد خاصة الخاصة
فأما التوحيد الأول فهو شهادة أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحدَ. هذا هو التوحيد الظاهر الجلي الذي نفى الشرك الأعظم وعليه نصبت القبلة وبه وجبتالذمة وبه حقنت الدماء والأموال وانفصلت دار الإسلام من دار الكفر ...
وأما التوحيد الثاني الذي يثبت بالحقائق فهو توحيد الخاصة وهو إسقاط الأسباب الظاهرة والصعود عن منازعات العقول وعن التعلق بالشواهد وهو أن لا تشهد في التوحيد دليلا ولا في التوكل سببا...
وأما التوحيد الثالث فهو توحيد اختصه الحق لنفسه واستحقه بقدره وألاح منه لائحا إلى أسرار طائفة من صفوته وأخرسهم عن نعته وأعجزهم عن بثه والذي يشار به غليه على ألسن المشيرين أنه إسقاط الحدث وإثبات القدم.
توحید کے تین درجے ہیں:
پہلا درجہ عام لوگوں کی توحید ہے جس کی صحت دلائل پر مبنی ہے۔ دوسرا درجہ خاص لوگوں کی توحید ہے جو کہ حقائق [یعنی روحانی تجربات] سے ثابت ہوتی ہے۔ توحید کا تیسرا درجہ خاص الخاص لوگوں کی توحید ہے جو کہ ذات قدیم [اللہ تعالی ] ہی کی بنیاد پر قائم ہے۔
جہاں تک پہلی توحید کا تعلق ہے جو کہ یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی بھی شریک نہیں، وہ بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہ ظاہر روشن توحید ہے جو کہ بڑے شرک کی نفی پر مبنی ہے۔ اسی کی بنیاد پر قبلہ کو نصب کیا گیا اور [غیر مسلموں] کو ذمی قرار دیا گیا۔ اسی کی وجہ سے خون اور مال محفوظ ہوتے ہیں اور دار الاسلام، دار الکفر سے الگ ہوتا ہے ۔۔۔۔
دوسری قسم کی توحید وہ ہے جو حقائق پر مبنی ہے۔ یہ خاص لوگوں کی توحید ہے اور اس میں ظاہری اسباب کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور عقلی دلائل اور شواہد کے ساتھ تعلق سے بلند ہو کر دلیل کے بغیر توحید کو مانا جاتا ہے اور توکل کے لیے کسی سبب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔۔۔۔
توحید کا تیسرا درجہ وہ ہے جس حق تعالی نے اپنے لیے خاص کر لیا ہے اور بقدر ضرورت اس کے اسرار کو منتخب افراد پر ظاہر کرتا ہے۔ اس کی صفات بیان کرنےاور [اس کی تفصیلات] پھیلانا ممکن نہیں ہے۔ جس کی طرف اشارہ کرنے والوں نے یہ اشارہ کیا ہے کہ یہ حادث [مخلوق] کی نفی اور قدیم [اللہ تعالی] کا اثبات ہے۔
شیخ ابن عربی (558-638/1164-1240) کی کتاب "ٖفصوص الحکم" میں درج ہے:
وأن نفيها عين إثباتُها، علم أن الحق المنزة هو الخلق المشبه، وإن كان قد تميز الخلق من الخالق. فالأمر الخالق المخلوق، والأمر المخلوق الخالق. كل ذلك من عين واحدة، لا، بل هو العين الواحد وهو العيون الكثيرة. فانظر ما ذا ترى "قال يا أبت افعل ما تؤمر": والولد عين أبيه. فما رأى يذبح سوى نفسه. "وفداه بذبح عظيم" فظهر بصورة كبش من ظهر بصورة إنسان. وظهر بصورة ولد: لا، بل بحكم ولد من هو عين الوالد. "وخلق منها زوجها": فما نكح سوى نفسه. فمنه الصاحبة والولد والأمر واحد في العدد....
فالحق خلق بهذا الوجه فاعتبروا ..........وليس خلقا بذاك الوجه فادكروا
من يدر ما قلت لم تخذل بصيرتهَ.......... وليس يدريه إلا من له بصر
جمع وفرق فإن العين واحدة ............وهي الكثيرة لا تبقي ولا تذر
اس کی نفی عین اثبات ہے۔ وہ جان گیا کہ حق منزہ ہی خلق مشبہ ہے اگرچہ وہ خلق کو خالق سے بظاہر علیحدہ سمجھتا ہو۔ تو معاملہ یہ ہے کہ خالق کا معاملہ مخلوق ہے اور مخلوق کا معاملہ خالق ہے۔ یہ سب ایک ہی سرچشمہ سے ہیں۔ نہیں بلکہ یہی ایک سرچشمہ ہےجو ان سب کثیر حقائق میں موجود ہے۔ دیکھیے آپ کی کیا رائے ہے؟ [اللہ تعالی نے ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا] "وہ [اسماعیل علیہ السلام] بولے: اباجان! جس کام کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، کرگزریے۔" تو بیٹا عین اپنا باپ ہے، تو انہوں نے کیا دیکھا کہ وہ اپنے آپ کو ذبح کر رہے ہیں۔ "پھر ہم نے اس کے فدیہ میں ایک بڑی قربانی کر دی۔" تو دنبہ کی صورت میں وہی ظاہر ہوا جو کہ انسان کی صورت میں ظاہر ہوا یعنی بیٹے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ نہیں، بلکہ وہ بیٹے کے حکم میں ظاہر ہوا کہ وہ عین وہی تھا جو کہ والد ہے۔"
اور اس (آدم) میں سے اسی کا جوڑا تخلیق کیا"۔ تو انہوں نے اپنے علاوہ کس سے نکاح کیا۔ انہی میں سے ان کی بیوی، اولاد سبھی نکلے۔ تو ان متعدد انسانوں میں اصل معاملہ ایک ہی ہے۔۔۔۔
تو جان لو کہ اس اعتبار سے حق [تعالی] مخلوق ہے اور اُس اعتبار سے مخلوق نہیں ہے۔ اس بات کو یاد کر لو۔ جو میں کہہ رہا ہوں، اسے جو جانتا ہے، وہ اپنی بصیرت کو رسوا نہ کرے گا۔ اسے وہی جانتا ہے جس کے پاس "نگاہ" موجود ہے۔ اس نے اسے اکٹھا اور علیحدہ کیا کہ وہ سرچشمہ ایک ہی ہے اور یہ کثرت باقی نہ رہے گی اور نہ ہی چھوڑ دی جائے گی۔
ابن عربی سے تین صدیاں پہلے منصور حلاج (244-309/858-922) کا واقعہ بہت مشہور ہے اور تمام کتب تصوف میں بیان ہوا ہے کہ انہوں نے خدائی کا دعوی کرتے ہوئے "انا الحق" یعنی "میں حق ہوں" کہا تھا۔ اگر وہ محض ایک آدھ بار غلبہ سکر میں ایسا کر دیتے تو کچھ نہ ہوتا مگر وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ اس دعوے کی باقاعدہ تبلیغ کرتے رہے۔ بادشاہ کے حکم سے انہیں گرفتار کر کے علماء کے سامنے پیش کیا گیا مگر وہ اپنے دعوی پر قائم رہے۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی سزا دی گئی۔اس وقت سے لے کر آج تک وہ تمام صوفیاء، خواہ وہ مخالف شریعت ہوں یا پابند شریعت، کے ہیرو اور شہید سمجھے جاتے ہیں۔ پنجابی کی ایک مشہور قوالی کا شعر ہے ؎
جیہڑے نشہ عشق وچ رہندے او انا الحق ہی کہندے
ان کے اس طرز عمل کی توجیہ کرتے ہوئے بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ منصور نے یہ دعوی خود نہیں کیا تھا بلکہ وہ ذات باری تعالی کے مشاہدے میں اس درجے میں غرق تھے کہ اللہ تعالی نے ان کی زبان کو آلہ بنا کر خود یہ الفاظ کہے تھے۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا کہ جیسے ریڈیو میں سے آواز نکلتی ہے مگر بولنے والا اس کے اندر نہیں بیٹھا ہوتا۔ اسی طرح منصور کی زبان ایک ایسا ریڈیو تھا جس میں سے اللہ تعالی کی آواز آئی تھی۔
علامہ ابن قیم (691-751/1292-1350)نے حلولی صوفیاء سے متعلق لکھا ہے کہ یہ اصؒل میں ایرانی النسل تھےاور انہیں "نساک" کہا جاتا تھا۔ یہ زمانہ قدیم سے ہی حلول کے عقیدے کے قائل تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ گروہ مسلم صوفیاء کے ساتھ مل گیا اور ان کے اندر حلول و اتحاد کا نظریہ پیدا کردیا۔ (دیکھیے مدارج السالکین، باب التوحید)
جاری ہے....

*اسلام اور تصوف*

(قسط نمبر 12)
*مخالف شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر*
مخالف شریعت صوفیاء کے ہاں وحدت الوجود اور حلول کے عقیدے کے وہی نتائج برآمد ہوتے ہیں جو کہ اس کا منطقی تقاضا ہے۔ جب اس کائنات کی ہر ہر چیز کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ ایک ہی وجود کا حصہ ہے تو پھر ہر ہر خدا ہی ہوئی۔ پھر ہر انسان خدا ہی ٹھہرا۔ اس کے بعد نہ تو کسی حلال کی ضرورت رہتی ہے اور نہ حرام کی اور شریعت کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ یہ وحدت الوجود کے عقیدے کا منطقی تقاضا ہے۔ مخالف شریعت صوفیاء نے اس عقیدے کو اسی طرح سمجھا ہے۔ بعض صوفیاء کے متعلق ان کی اپنی کتب میں درج ہے کہ وہ پاخانہ تک کھا لیا کرتے تھے اور ماں اور بہن سے ازدواجی تعلق قائم کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے تھے اور خود اپنی ذات کو خدا سمجھا کرتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ہر چیز ہی خدا ٹھہری تو پھر خدا کا ایک حصہ دوسرے حصے سے جو بھی معاملہ کرے، وہ درست مانا جاتا ہے۔ ابن عربی کے شاگرد ابن فارض کے چند اشعار صوفیانہ حلقوں میں بہت مشہور ہیں:
لها صلاتي بالمقام أقيمها وأشهد أنها لي صلت
كلانا مصل عابد ساجد إلى حقيقة الجمع في كل سجدة
وما كان صلى سواي فلم نكن صلاتي لغيري في إذاء كل ركعة
وما زلت إياها وإياي لم تزل ولا فرق بل ذاتي لذاتي أحبت
ففي الصحو بعد المحو لم أك غيرها وذاتي بذاتي إذا تحلت تجلت
جس مقام پر میں فائزہوں، اس پر فائز رہتے ہوئے یہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اس ّ[اللہ] کے لیے نماز پڑھی اور [نعوذ باللہ] اس نے میرے لیے۔ ہم دونوں ہی نماز پڑھنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، اور ہر سجدے میں ایک متحد حقیقت کو سجدہ کرنے والے ہیں۔اس نے میرے سوا نماز نہ پڑھی تو ہر رکعت کی ادائیگی میں میری نماز میرے علاوہ کسی کے لیے نہ تھی۔ میں وہ رہا، اور وہ میں رہا۔ کوئی فرق نہیں بلکہ میری ذات میری ہی ذات سے محبت کرتی ہے۔ فنا ہونے کے بعد ہوش میں آ کر بھی میں اس سے الگ نہیں اور میری ذات جب میری ہی ذات میں حلول کرتی ہے تو آشکار ہو جاتی ہے۔
حلول کے عقیدے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ مان لیا جائے کہ اس میں خدا حلول کر گیا ہے تو پھر اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جانا چاہیے جو کہ اللہ تعالی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پھر اس کی ویسی ہی تعظیم کی جائے گی، اسے سجدے کیے جائیں گے، اس کے حکم پر بلا چون و چرا عمل کیا جائے گا، اس کے اشارہ ابرو پر جان بھی قربان کی جائے گی، مال و دولت کو اس کی نذر کیا جائے گا اور زندگی کا ہر معاملہ اس کے حکم کے مطابق چلایا جائے گا۔ اہل تشیع میں اسماعیلی حضرات کا یہ نقطہ نظر ہے کہ خدا ان کے امام میں حلول کر جاتا ہے، چنانچہ وہ اپنے ائمہ کے ساتھ یہی معاملہ کرتے تھے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بہت سے صوفیاء کا ہے جن کا بظاہر دعوی ہے کہ وہ حلول کے عقیدے کے قائل نہیں ہیں مگر وہ یہ سب معاملات اپنے پیرو مرشد کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان واقعات کے لیے کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا مشاہدہ پنجاب یا سندھ کے کسی بھی آستانے کے بزرگ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔
*پابند شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر*
وحدت الوجود کے ضمن میں پابند شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نظریے کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ یہ حضرات وحدت الوجود اور توحید کے متضاد نظریات کو ہم آہنگ (Reconcile) کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان کے ہاں دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر وحدت الوجود کی ایسی تشریح کا ہے جو خلاف شریعت نہ ہو اور دوسرا نقطہ نظر "وحدت الشہود" کے ماننے والوں کا ہے۔ پہلے نقطہ نظر کے تحت وجود باری تعالی کو حقیقی اور مخلوقات کے وجود کو مجازی مان لیا جاتا ہے۔
اہل تصوف کا دوسرا گروہ "وحدت الشہود" کا قائل ہے۔ اسے وہ "وحدت الوجود" کا حقیقی مطلب قرار دیتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ ایک سالک کو اللہ تعالی کی عظمت کے مشاہدے میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پھر اسے کوئی مخلوق نظر ہی نہیں آتی۔ ایسے موقع پر اس کی زبان سے "لا موجود الا اللہ" قسم کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر شیخ احمد سرہندی (971-1034/1564-1624) نے پیش کیا اور اسے "وحدت الشہود" کا نام دیا۔ اس کے لیے وہ یہ مثال دیتے ہیں کہ جب سورج نکل آئے تو ستارے نظر نہیں آتے۔ بالکل اسی طرح سالک جب مشاہدہ الہی میں غرق ہو جاتا ہے تو پھر اسے مخلوق نظر نہیں آتی۔
صوفیاء کے ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حلول و اتحاد سے متعلق یہ عبارتیں صوفیاء کی کتب میں داخل کی گئی ہیں۔ شامی صوفی شیخ عبدالقادر عیسی (1919-1991) لکھتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ [حلول و اتحاد] کا یہ نظریہ صریح کفر ہے اور امت کے عقائد کے خلاف ہے۔ صوفیاء جو اسلام، ایمان اور احسان کے حصول کے لیے سرگرداں تھے اس گمراہی و کفر میں پڑنے والے نہ تھے۔ کسی انصاف پسند صاحب ایمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ بغیر تحقیق و ثبوت کے اور ان کی بات کو سمجھے ان پر اس کفر کا الزام لگائے۔
*ناقدین تصوف کا نقطہ نظر*
ناقدین تصوف وحدت الوجود کے عقیدے پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور اسے توحید کا مخالف قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس نظریے کو کسی بھی طریقے سے توحید سے ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عقیدہ "وحدت الوجود" کے باطل ہونے پر ناقد علماء و مفسرین کا اتفاق ہے اور متفقہ طور پر یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے، چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، اللہ عزوجل فرماتا ہے:{ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ} ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]ایک جگہ فرمایا:{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ }ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً}ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]
چنانچہ جو اس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔
صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کیے ہوئے ہے، ناقابل فہم ہے اگر یہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ ہے اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے، اگر امر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ عابد کون ہے اور معبود کون؟ ساجد کون ہے اور مسجود کون؟مرنے والا کون اور مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون اور زندہ کرنے والا کون؟ روز جزا حساب لینے والا کون ہے اور دینے والا کون؟اور پھر جزاء یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں اور بھیجنے والا کون؟ اس فلسفہ کو تسلیم کرلینے کے بعد انسان کی تخلیق اور یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟ اگر اللہ تعالی کے ہاں یہ عقیدہ قابل ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟ مشرکین کا یہ عقیدہ کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟ وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا) یا اللہ تعالی کو کسی انسان میں مدغم سمجھنا ایسا کھلا شرک ہے جس کا دین اسلام سے دور دور کا بهی واسطہ نہیں ہے-
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "یہ کہنا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالی کا وجود ہی ہے، یہ لادینیت کی انتہا ہے، مشاہدات، عقل اور شریعت سے اس عقیدے کی خرابی واضح ہے، اس قسم کی لا دینیت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کیا جائے اور اس کی مخلوقات سے مشابہت کی نفی کی جائے، یہی اللہ پر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کا دین اور طریقہ کار ہے ""درء تعارض العقل و النقل "(1/283)
مزید فرمایا:عقیدہ "وحدت الوجود "جس کے مطابق خالق اور مخلوق کا وجود ایک ہی ہے ، ابن عربی ،ابن سبعین ،تلمسانی اور ابن فارض وغیرہ اسی کے قائل ہیں، اس قول کا شرعی اور عقلی لحاظ سے باطل ہونا یقینی طور پر ثابت ہے" "مجموع الفتاوی"(18/222)
امام ابن تیمیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔ ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160)اسی رسالے میں انہوں نے ابن عربی کا ایک شعر نقل کیا ہےالرب حق“ و العبد حق“یا لیتَ شعری مَن المکلف“جس کا ترجمہ ہے کہ رب بھی خدا ہے اور انسان بھی خدا ہے۔ کاش! مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔ اسی جیسے عقائد کی بنا پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ"ابن عربی کو کافر قرار دیتے ہیں
مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جز سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہاجاتاہے۔عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے،اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہوجاتے ہیں،اس عقیدے کو وحدت الشھود یا فنا فی اللہ کہاجاتاہے،عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہاجاتاہے۔ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے یہ عقیدہ ہرزمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کواور عیسائی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا(جزء)قرار دیا دیکھیں [سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے لہ جات ملاحضہ ہوں۔
( مولانا اقبال کیلانی، کتاب التوحید، حدیث پبلیکیشنز،2شیش محل روڈ لاہور، ص: 70-71)
مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتاہے، اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں،کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔ مولانا عبد الرحمن کیلانی، "۔دین طریقت کے نظریات وعقائد"، شریعت وطریقت، 1، مکتبۃ السلام۔سٹریٹ20 وسن پورہ لاہور، ص: 63-64)
شیخ عبد الرحمن عبد الخالق لکھتے ہیں کہ:- اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے،یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے، یہ حلاج صوفی کا عقیدہ تھا۔ایک عقیدہ وحدت الوجود کا ہے یعنی خالق مخلوق جدا نہیں، یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا، اور آخر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہوگیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی ، ابن سبعین ، تلمسانی ، عبد الکریم جیلی ، عبد الغنی نابلسی ہیں۔ اور جدید طرق تصوف کے افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔ .. (شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، اہل تصوف کی کارستانیاں، مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان، ص: 27)
ڈاکٹر ابوعدنان سہیل لکھتے ہیں:- عقیدۂ وحدت الوجود کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ عقیدۂ تثلیث ہی کی بدلی ہوی شکل ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ،روح القدس اور عیسی علیہ السلام ایک ہیں،اور گمراہ مسلمان کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ ہے۔ کم علم زاہدوں اور عبادت گزاروں نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر عابد اور معبود، خالق اور مخلوق اور حق اور باطل کے مطلب ہی کو سرے سے بدل دیا، ان کے نزدیک جو کچھ دکھائی دیتا ہے،وہ اللہ تعالی ہی کے مختلف مظاہر ہیں اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ادیان ومذاہب رب تک پہنچنے کے مختلف بر حق راستے ہیں،۔ ایسے ہی ایک کم علم زاہد کا قول ہے: چونکہ ہر شئے میں اسی کا جلوہ ہے ، ساری کائنات اسی کی جلوہ گاہ ہے، ہر شئی سے وہی ظاہر ہو رہا ہے، اس لیے ہر انسان مظہرِ ذات الہی ہے اور اس کی صفات انسان میں جلوہ گر ہیں ۔ اگر ہندو میں اس کا جلوہ ہے تو مسلمان میں بھی وہی اللہ جلوہ گر ہے، اس لیے صوفی، جملہ انسانی افراد کو مظاہر ذات سمجھ کر سب سے یکساں محبت کرتاہے، اسی لیے مسجد کے علاوہ گرجے، صومعے اور مندر کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔(ڈاکٹر ابو عدنان سہیل، اسلام میں بدعت ع ضلالت کے محرکات)
مزید تفصیلات کے لیے ان کتب کا مطالعہ کریں:تصوف کی حقیقت، مصنف پرویز شائع کردہ طلوع اسلام ٹرسٹ-اللہ موجود نہیں؟ تالیف؛ امیر حمزہ، شائع کردہ دار السلام-شریعت و طریقت،مصنف؛ مولانا عبدالرحمن کیلانی، مکتہ السلام-شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، اہل تصوف کی کارستانیاں- مولانا اقبال کیلانی، کتاب التوحید-شیخ محمد بن صالح عثیمین کتاب "القواعد المثلی فی صفات اللہ و اسمائہ الحسنی- اللہ کہاں ہے؟مؤلّف؛عادل سهيل ظفر،وغیرہ-
جاری ہے....

*اسلام اور تصوف*

(قسط نمبر 13)

وحدت الوجود (Pantheism) اورعقیدہ حلول سے متعلق دلائل
*مخالف شریعت صوفیاء کے دلائل*
مخالف شریعت صوفیاء چونکہ شریعت کو محض چھلکا قرار دے کر اپنے صوفیانہ اشغال کو مغز کا درجہ دیتے ہیں، اس وجہ سے وہ قرآن و سنت سے دلائل پیش نہیں کرتے۔ ان کی دلیل زیادہ سے زیادہ کچھ آیات کے باطنی مطالب ہوتے ہیں جو کہ انہوں نے اپنے کشف اور الہام کی بنیاد پر اخذ کیے ہوتے ہیں یا پھر وہ اکابر صوفیاء کے کچھ اقوال کا سہارا لیتے ہیں۔ چونکہ ان صوفیاء کا کشف و الہام، باطنی مطالب اور سابق صوفیاء کے اقوال ناقدین تصوف کے لیے حجت نہیں ہیں، اس وجہ سے انہیں بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
*بعض صوفیاء کے دلائل*
بعض صوفیاء جو شریعت کی پابندی کی اہمیت دیتے ہیں، کچھ آیات اور احادیث سے استدلال کرتے ہیں جو کہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
*کلمہ طیبہ*
بعض صوفیاء کلمہ طیبہ ہی کو وحدت الوجود کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں:
لا إِلَهَ إِلاَّ الله.
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
یہاں صوفیاء لفظ "الہ" سے مراد "موجود" لیتے ہیں۔ اس طرح ترجمہ یہ بنتا ہے کہ "اس کے سوا کوئی موجود نہیں۔" اسے صوفیاء اخص الخواص کی توحید قرار دیتے ہیں۔
اس کے جواب میں ناقدین تصوف یہ کہتے ہیں کہ عربی زبان میں کسی چیز کا وہی معنی مراد لیا جا سکتا ہے جو کہ اہل عرب کے ہاں نزول قرآن کے وقت رائج ہو۔ دور جاہلیت کے پورے لٹریچر کا مطالعہ کرتے چلے جائیے تو ان کے ہاں "الہ" کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوتا تھا جسے ہم اردو میں معبود، خدا، لائق پرستش وغیرہ سے ادا کرتے ہیں۔ کبھی بھی عربی زبان میں اس لفظ کو "موجود" کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اگر اس طرح سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو پھر کسی بھی لفظ کا کوئی بھی مطلب بیان کیا جا سکتا ہے۔ فرقہ باطنیہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
*وجہ اللہ*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں:
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ.
تم جہاں بھی رخ کرو، تو اللہ کے وجہ کو اسی جانب پاؤ گے۔ (البقرۃ 2:115)
وہ کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں بھی رخ کیا جائے، وہی اللہ ہے۔ گویا کہ کائنات کی ایک ایک چیز میں اللہ موجود ہے۔ ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ آیت کریمہ کے سیاق و سباق کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بات ہی بالکل مختلف ہے۔ یہاں اہل کتاب کے باہمی اختلافات زیر بحث ہیں اور ان پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر اختلافات کو کس طرح ہوا دیتے ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو تباہ کرتے ہیں، کبھی بیت المقدس کے مشرقی اور مغربی حصے کو قبلہ ٹھہرا کر اس پر مباحثہ کرتے ہیں اور کبھی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کا بیٹا مان لیتے ہیں۔ آیت کا پورا سیاق یہ ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُوْلَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (114) وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (115) وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (116).
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکتا ہے اور انہیں برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے لیے تو صرف یہی مناسب تھا کہ وہ ان میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ مشرق و مغرب اللہ ہی کے لیے ہے، تم جس جانب بھی رخ کرو، اللہ ہی کو پاؤ گے، یقیناً اللہ وسعت اور علم والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ وہ اس سے پاک ہے، بلکہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، اسی کا ہے اور یہ سب اس کے فرمانبردار ہیں۔ (البقرۃ )
*اول و آخر*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں:
هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ.
وہی اول، آخر، ظاہر اور باطن ہے۔ (الحدید 57:3)
صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی اول، آخر، ظاہر، باطن سبھی کچھ ہے۔ یہ مخلوقات اللہ تعالی کے وجود ہی کا محض ایک اظہار ہے۔ اس کے جواب میں ناقدین تصوف کہتے ہیں کہ آیت کریمہ کے پورے سیاق و سباق کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں تو اس سے بالکل مختلف بات بیان ہو رہی ہے اور وہ یہ ہے:
سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (1) لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ يُحْيِ وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (2) هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (3) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (4) لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الأُمُورُ (5)
ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اللہ کی پاکیزگی بیان کر رہی ہے۔ وہی زبردست اور حکمت والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی حکومت اسی کی ہے، وہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی اول، آخر، ظاہر اور باطن ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دن میں کی، پھر عرش پر استوا فرمایا۔ جو کچھ زمین میں داخل اور اس سے خارج ہوتا ہے، اور جو کچھ آسمان سے اترتا اور اس کی جانب چڑھتا ہے، وہ اسے جانتا ہے۔ تم جہاں جاؤ، وہ تمہارے ساتھ ہے اور اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ کی جانب ہی تمام امور لوٹائے جاتے ہیں۔ (الحدید)
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ ان آیات کا خالی الذہن ہو کر مطالعہ کیا جائے تو یہ پکار پکار کر اللہ تعالی کی تخلیق، علم اور قدرت کو بیان کر رہی ہیں۔ اگر یہ کائنات اللہ تعالی کے وجود ہی کا ایک حصہ ہے تو پھر اسے تخلیق کرنے کا کیا مطلب؟
*کائنات کا نور*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں:
اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ.
اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ (النور 24:35)
صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کا نور ہے۔
اس کے جواب میں ناقدین تصوف یہ کہتے ہیں کہ پوری آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک تمثیل بیان ہوئی ہے جس میں اللہ تعالی کی ہدایت کا نور زیر بحث ہے۔ اسی کے نور ہدایت سے آسمان و زمین درست راستے پر چلتے ہیں۔یہاں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ پوری کائنات معاذ اللہ، اللہ تعالی کے نور کے میٹیریل سے بنی ہوئی ہے۔
اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ.
اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق میں رکھے ہوئے چراغ کی سی ہے۔ وہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور فانوس ایسا ہو گویا کہ وہ موتی کی مانند چمکتا ہوا ستارہ ہو۔ وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی اور جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا جاتا ہو اگرچہ آگ اس کو نہ لگے۔ یہ نور پر نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ اللہ لوگوں کے لیے مثالوں کو بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النور 24:35)
*روح*
حلول کے قائل صوفیاء یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی روح انسان میں پھونکی، گویا انسان اللہ کی روح پر مبنی ایک وجود ہوا جو کہ وجود باری تعالی کا ایک حصہ ہے:
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ.
پھر جب میں نے اسے ٹھیک بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر جانا۔ (ص 38:72)
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ روح پھونکنے سے مراد انسان میں زندگی پیدا کرنا ہے، معاذ اللہ اس کے اندر حلول کر جانا نہیں ہے۔ آیت کریمہ سے ہی واضح ہے کہ یہاں اللہ تعالی انسان کو تخلیق کرنے کا ذکر فرما رہا ہے، نہ کہ اس میں حلول ہو جانے کا۔
*اللہ کی بندے سے محبت*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں:
حدثني محمد بن عثمان بن كرامة: حدثنا خالد بن مخلد: حدثنا سليمان بن بلال: حدثني شريك بن عبد الله بن أبي نمر، عن عطاء، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن الله قال: من عادى لي ولياً فقد آذنته بالحرب، وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه، وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه، فإذا أحببته: كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها، وإن سألني لأعطينَّه، ولئن استعاذني لأعيذنَّه، وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن نفس المؤمن، يكره الموت وأنا أكره مساءته.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی فرماتا ہے: "جس نے میرے ولی سے دشمنی کی، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرے قریب ہوتا ہے، ان میں کوئی عبادت میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کی قوت سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی قوت بصارت بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس ضرور عطا کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں جس کام کو کرنا چاہوں ، اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی جان کے بارے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو ناپسند کرتا ہے جبکہ مجھے بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، حدیث 6137)
ناقدین تصوف اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس حدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ معاذ اللہ اللہ بندے کے اندر حلول کر جاتا ہے کیونکہ اسی حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ اللہ سے مانگا جائے اور اسی کی پناہ طلب کی جائے۔ ہاتھ ، پاؤں بننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی محبت کے باعث اس شخص کے کان، آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ معاذ اللہ، اللہ تعالی کی ذات اس شخص کے وجود میں حلول کر جاتی ہے۔
جاری ہے......

(قسط نمبر 14)

ناقدین تصوف کے دلائل
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ وحدت الوجود ایسا نظریہ ہے جو توحید سے بالکل متضاد ہے۔ قرآن مجید میں توحٰید کا بیان اتنا واضح ہے کہ اسے دین اسلام کے بنیادی عقیدے کی حیثیت حاصؒل ہے۔ اگر وحدت الوجود کو مان لیا جائے تو پھر اسلام کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے۔ قرآن مجید اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کی مخلوق ہے اور وہ اس کا خالق ہے۔
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (62) لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ هُمْ الْخَاسِرُونَ (63) قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونَنِي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (64)
اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر وکیل ہے۔ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں [کنٹرول] اسی کے پاس ہے۔ جو لوگ اللہ کی آیات سے کفر کرتے ہیں، وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ اے جاہلو! کیا تم مجھے تلقین کرتے ہو کہ میں غیر اللہ کی عبادت کروں؟ (الزمر)
ذَلِكُمْ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ فَأَنَّا تُؤْفَكُونَ.
یہ ہے اللہ، تمہارا رب، ہر چیز کا خالق۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو؟ (المومن 40:62)
ایسی ہی بے شمار آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ایک الگ وجود ہے اور اس کی مخلوق اس کی ذات پاک سے الگ وجود ہیں۔ ہر وہ شخص جو یہ دعوی کرتا ہے کہ خدا اس میں حلول کر گیا ہے، محض ایک بکواس او رخرافات سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور بات کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آُپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پوری سیرت اور تاریخ کا مطالعہ کرتے چلے جائیے تو کہیں ایسا نظر نہیں آتا کہ انہوں نے روحانی مشقیں وغیرہ کر کے اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی ہو اور اس کے ذریعے عالم ناسوت، لاہوت، جبروت ، ہاہوت اور نجانے کون کون سے عالم ان پر منکشف ہوئے ہوں۔ نہ ان پر کبھی سکر کی کیفیت طاری ہوئی جس میں انہوں نے اناپ شناپ دعوے کیے ہوں اور نہ انہوں نے کبھی یہ دعوی کیا کہ ان کی زبان سے اللہ تعالی بول رہا ہے۔ اگر ان روحانی مشقوں میں کوئی خیر ہوتی اور اس کے ذریعے اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ ممکن ہوتا، تو ہمیں نظر آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مشقیں صحابہ کو سکھا رہے ہیں اور وہ ان کے مطابق یہ مشقیں کر رہے ہوتے۔ ایسی کسی بات کا ذکر کسی حدیث میں نہیں ملتا ہے۔
اس کے برعکس اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ یہ واضح طور پر بیان فرماتے تھے کہ اللہ تعالی نے یہ کلام میری جانب وحی کیا ہے جو میں اس کی جانب سے پیش کر رہا ہوں۔ آپ کے بعد آپ کے صحابہ میں سے کسی نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا۔ کیا منصور حلاج اور دیگر صوفیاء کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے بھی بلند تھا جو ان کی زبان کو آلہ خداوندی بنایا گیا؟ اللہ تعالی نے اپنے جلیل القدر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے تو عبدیت کا اقرار پہلے کروایا اور پھر رسالت کا: اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔
مزید صوفی حضرات "واحدۃ الوجود "کو ثابت کرنے کے لیے یہ آیت پیش کرتے ہیں: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرہ :١٨٦)
(میرے رسول !ﷺ)جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں (تو انہیں آگاہ کر دو)کہ میں قریب ہوں ،ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا (قبول کرتا)ہوں۔لہذاان کوچاہئےکہ وہ میری بات مانیں اور میرے ساتھ ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
صوفی حضرات اس آیت میں "قریب 'کے لفظ سے اپنا عقیدہ ثابت کرتے ہیں۔جب وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ دراصل واحدۃ الوجود ہی کی ایک قسم ''حلول''کوثابت کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔
حلول بھی صوفیوں کی اصطلاح ہے،جس کا مطلب ہے اللہ کا کسی بندے میں حلول کر جانا۔قریب کا تو مطلب یہی ہے کہ ایک وجود دوسرے کے قریب ہوا ۔پھر کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ مشرکین قریش نے جو مورتیاں بنائی ہوئی تھیں وہ ان کے بزرگوں کی تھیں ،اور وہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا کرتے تھے: هَؤُلاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ (یونس: ١٨)
یہ(بزرگ )اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
اب چونکہ عقیدے کا یہ چلن عام تھا کہ اللہ ان بزرگوں کے واسطے ہی سے ہماری فریادیں سنتا ہےلیکن جب اللہ کے رسول ﷺنے انہیں یہ بتلایا کہ واسطوں ،وسیلوں اور سفارشوں کی کوئی ضرورت نہیں تو لوگوں کو ذرا تعجب ہوا اور انہوں نے اللہ کے رسول ﷺسے پوچھا :کیا واقعی اللہ براہ راست ہماری فریادیں سن لیتا ہے؟تو اللہ نے یہ آیات نازل فرما کر لوگوں کا عقیدہ درست کیا ۔مگر اہل تصوف نے اس توحیدی آیت سے وجودی اور حلولی عقیدے کو ثابت کرنے کی جدوجہد کر کے شرک پھیلانے کی کوشش کی ہے۔یہ لفظ قرآن مجید میں بیسیوں مقام پر آیا ہے،مگر وہ معنی کہیں بھی نہیں نکلتا جو صوفیاء نکالنا چاہتے ہیں۔
اس سے ملتی جلتی ایک اور آیت اہل تصوف حضرات پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے بھی ''واحدۃ الوجود ''کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (سورۃ ق:١٦)
ترجمہ:بلاشبہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیال آتے ہیں ،ان تک کو جانتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
قرآنی آیات خود ایک دوسرے کی تفسیر بیان کرتی ہیں اور اگر قرآن ایسی کوئی تفسیر کردے تو پھر اللہ کی بیان کی ہوئی تفسیر پر کسی دوسری تشریح اور تفسیر کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے؟اب اللہ نے خود "سورۃ طہ"میں فرمادیا کہ میں عرش پر مستوی ہوں اور جب رحمان عرش پر جلوہ افروز ہے توظاہر ہے یہاں جو معنی لیا جائے گا وہ یہی کہ وہ رحمان اپنے علم کے اعتبار سے اپنے بندوں کے قریب ہے اور "رگ"جو گوشت میں لپٹی ہوتی ہے ،اللہ اس گوشت سے بھی زیادہ اپنے بندے کے قریب ہے
یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا
ہے،وہ سب ہم جانتے ہیں،وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا ،لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے ۔اسی لئے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا۔جب کہ وہ زبان سے اظہار یا ان پر عمل نہ کرے(البخاری کتاب الایمان)'ورید' شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔اس قرب سے مراد قرب علمی ہے یعنی علم کے لحاظ سے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔امام شوکانی نے اس کا مطلب بیان کیا ہے کہ ہم انسان کے تمام احوال جانتے ہیں،بغیر اس کے کہ ہم ان فرشتوں کے محتاج ہوں۔جن کو ہم نے انسان کے اعمال واقوال لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے۔
اور اس بات کو آیت کا سیاق سباق بھی واضح کر رہا ہے،اللہ تعالیٰ بتلا رہے ہیں کہ انسان کو ہم ہی نے تو بنایا ہے اس لئے ہم تو اس کے دل کے خیال تک کو جانتے ہیں اور یہ کہ ہم تو اس شہ رگ سے بھی قریب ہیں،اور تمام مفسرین نے بھی قرب کے لفظ سے یہی مراد لیا ہے کہ اللہ اپنے علم کی وجہ سے قریب ہے۔
اسی طرح صوفی حضرات قرآن کی ایک دوسری آیت کا ٹکڑا (وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الأرْضِ )
ترجمہ:اور وہی اللہ ہے آسمانوں میں بھی اور زمین مین بھی۔اس سے اہل تصوف یہ دعویٰ کرتے کہ اللہ آسمانوں اور زمین میں حلول کئے ہوئے ہے ،
حالانکہ اسی آیت کا اگلا حصہ صوفی حضرات چھوڑ دیتے ہیں اور وہ یہ ہے: يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ( الانعام:٣)
ترجمہ:وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو جانتا ہے۔
یعنی اس کے علم وخبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔تمہاری پوشیدہ اور کھلی باتوں کا علم رکھتا ہے اور جو تم کرتے پھر رہے ہو اس کا بھی علم رکھتا ہے۔اس آیت کے آخری حصے میں دوبار "یعلم "کا لفظ لا کر اللہ نے یہ بات طے کر دی کہ وہ اپنے علم کی صفت سے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اسے جانتا ہے۔
اٹھائیسویں پارے کی آیت جس سے اہل تصوف"وحدۃ الوجود"ثابت کرتے ہیں:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلاثَةٍ إِلا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلا خَمْسَةٍ إِلا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلا أَكْثَرَ إِلا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (المجادلہ: ٧)
ترجمہ:کیا تم نے دہکھا نہیں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ علم رکھتا ہے ،جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے ۔نہیں ہوتی سرگوشی تین(آدمیوں )میں مگر وہ (اللہ)ان میں چوتھا ہوتا ہے،اور نہ پانچ (میں سرگوشی ہوتی ہے)مگر وہ(اللہ)ان میں چھٹا ہوتا ہے۔غرض وہ اس سے کم ہوں یا زیادہ جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔پھر وہ انہیں قیامت کے دن بتلا دے گا کہ جو جو کام انہوں نے کیے ہیں۔بلاشبہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
اس آیت میں صرف "مع"کا لفظ لے کر اہل تصوف نے "وحدہ الوجود "کو ثابت کرنا چاہا ۔لیکن آیت میں جو بات ہو رہی ہے ،وہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کو قیامت کے دن ان کے اچھے اور برے اعمال بتلا دے گا ،کیوں کہ دنیا میں وہ جتنی بھی چھپ کر بات کر لیں ۔سرگوشیاں کر لیں اللہ سب جانتا ہے ،اور شروع میں "یعلم"کا لفظ لا کر اور آخر میں "علیم"کا لفظ لا کر اللہ نے بات واضح کر دی کہ وہ علم کی صفت کے ذریعے اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔اسی طرح کی بات اللہ کے رسولؐ نے بھی اس وقت کہی تھی جب آپ ﷺ کافروں سے چھپ کر ہجرت کر رہے تھے۔غارثور میں دشمن قریب آ گئے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ذرا گبھرائے اس پر اللہ کے رسولﷺ انہیں یہ کہہ کر تسلی دی:لا تحزن ان اللہ معنا ،غم نہ کرو ،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔یعنی اللہ کی نصرت اور مدد ہمارے ساتھ ہے۔تو یہاں "مع"کا معنی مدد اورنصرت کے معنوں میں ہے اور اس معنی کو اللہ کے رسولﷺ کا جملہ خود متعین کر رہا ہے۔
انتباہ:مذکورہ تعداد کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے نہیں ہے کہ وہ اس سے کم یا اس سے زیادہ تعدادکے درمیان ہونے والی گفتگو سے اللہ بے خبر رہتا ہے بلکہ یہ تعداد بطور مثال ہے،مقصد یہ بتلانا ہے کہ تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ ۔وہ ہر ایک کے ساتھ ہے اور ظاہر اورپوشیدہ بات کو جانتا ہے۔
اسی طرح ایک اور آیت جسے اہل تصوف "واحدۃالوجود "کے اثبات کے لئے پیش کرتے ہیں:
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرہ:١١٥)
ترجمہ:مشرق اورمغرب اللہ ہی کے لئے ہیں لہذا تم جس طرف بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی ذات ہے ،بلاشبہ اللہ وسعت جاننے والاہے۔
اہل تصوف اس آیت سے واحدۃ الوجود ثابت کرتے ہیں تو پھر کسی سمت کی جانب بھی منہ کرنے کی ضرورت نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کہہ دیتے کہ میں تو تمہارے اندر ہوں ،لہذا سمت کیسی؟اور پھر آیت کا آخری حصہ جو آیت کے مضمون کا خلاصہ ہوتا ہے ،اس میں اللہ تعالیٰ نے "واسع علیم"اپنی وسعت اورعلم کا تذکرہ کر کے پھر بتلا دیا کہ اللہ ہر جانب ہے،ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ،غیر محدود ہے ،مگر اپنی صفت علم کے ذریعہ ۔ جیسا اس کی شیان شان ہے،
نوٹ:ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا،اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ،بعض کہتے ہیں اس وقت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے ،پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں ،بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو،نماز پڑھ سکتے ہو۔(ملحض از احسن التفاسیر)
اہل تصوف یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں:
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمىٰ (الانفال:١٧)
تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تم نے (کنکریاں )نہیں ماریں بلکہ اللہ نے ماریں تھیں۔
ناقدین یہاں اہل تصوف سے سوال کرتے ہیں کہ تمہارے عقیدے کے مطابق قتل کرنے والا بھی خدا ہے اور قتل ہونے والا بھی خدا ہے،جیسا کہ مولانا جلال الدین رومی نے اپنی مثنوی میں ایک حکایت بیان کرتے ہوئے کہا ہے،مختصر یوں ہے کہ ایک صوفی بھی مجاہدوں کے ساتھ چلا گیا ،مجاہد قتال کر کے آگئے مگر یہ خیموں ہی میں بیٹھا رہا،آخر کار مجاہدوں نے اسے ایک کافر قیدی دیا کہ جا اور اسے قتل کر کے آجا ۔مگر کافی دیر بعد صوفی نہ آیا۔اب مجاہدین وہاں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ صوفی نیچے ہے اور کافر اس کے اوپر بیٹھ کر اسے زدوکوب کر رہا ہے،مجاہدین نے صوفی کو چھڑوایا اورسبب پوچھا تو صوفی کہنے لگا :میں نے جب کافر کی طرف دیکھا اس میں مجهے خدا نظر آیا۔
صوفیوں کا یہ عقیدہ کہ بزعم خود یہ خود بھی خدا ہیں اور یہ خداؤں کو کیا قتل کریں گے؟اور اس آیت میں تو قتل ہو رہا ہے۔چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ کافر کا قتل کرنا جو ان کے مذہب "واحدۃ الوجود"کے خلاف ہے۔وہ اس قتل والی آیت سے دلیل کیوں پکڑتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ کا انداز ہے کہ ٹھیک ہے تم لڑائی کر رہے تھے ،جہاد کر رہے تھے قتال کر رہے تھے مگر نشانے درست لگانا کافروں کی موت کا فیصلہ کرنا ،یہ تو میرا ہی کام ہے،چنانچہ اللہ نے اس کی نسبت اپنی طرف کر دی اور مجاہدین کے ساتھ محبت بھی ہے کہ ان کے کام کی نسبت اللہ تعالیٰ اپنی طرف کر رہے ہیں اور مدد کی نوید بھی ہے کہ یہ محض میری نصرت کے ساتھ ایسا ہوا ۔فرشتے اترے اور انہوں نے بدر میں مشرک اڑا ڈالے ،اب یہ ایک انداز اور اسلوب ہے لیکن اہل تصوف نے "عقیدہ واحدۃ الوجود"ثابت کرنا شروع کر دیا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جو قیامت کے دن ایک منظر کے بارے میں ہے جو یوں بپا ہو گا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں سے کہے گا :اے آدم کے بیٹے !میں بیمار تھا تو نے میری بیمارپرسی نہ کی۔بندہ عرض کرے گا :میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کر سکتا تھا؟کہ آپ تو رب العالمین ہیں۔اللہ فرمائے گا :میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت نہ کی۔اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا ۔اے آدم کے بیٹے !میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہ کھلایا ۔بندہ عرض کرے گا :میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلا سکتا ؟کہ آپ سارے جہانوں
کو پالنے والے ہیں ۔اللہ فرمائے گا :کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا؟مگر تو نے نہیں کھلایا ۔کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔اے آدم کے بیٹے !میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے نہ پلایا ،بندہ کہے گا :اے میرے رب!میں تجھے کیسے پانی پلاتا کہ آپ رب العالمین ہیں ؟اللہ فرمائے گا:میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے اسے نہ پلایا ۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلادیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔
اس حدیث میں بڑا سادہ اور آسان سا تمثیلی انداز اختیار کیا گیا ہے ،جو ہر ایک کی سمجھ میں آتا ہے
مطلب واضح ہے کہ انسان دوستی کے کام کئے جائیں ،مہمان نوازی کی صفت پیدا کی جائے اور اگر یہ صفات پیدا ہو جائیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے !تو اگر عبادت کرتا ہے ،اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ،تو مجھے تو اپنے پاس پاتا ۔مطلب یہ کہ میں تجھے اور زیادہ دیتا ۔میں تیری مدد کرتا ،میں تیرے رزق میں اضافہ کرتا ،مگر افسوس!کس قدر کورچشمی او بدذوقی کی انتہا ہے کہ ان صوفیوں نے اللہ کی اپنے بندے کے ساتھ محبت وشففقت کے ان عظیم شاہکار شہہ پاروں میں سے" وحدۃ الوجود" کا عقیدہ برآمد کرنے کی کوشش کر ڈالی ،جس میں بندے اور خالق کے درمیان امتیاز ہی نہیں بلکہ ہر شے خدا ہے ۔اسی طرح اللہ نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو "نافتہ اللہ "کہا ،تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کہ اللہ تعالیٰ اس اونٹنی پر سوار ہوتے ہیں یا دودھ پیتے ہیں(نعوذباللہ) یہ محض حضرت انسان کی عزت وتکریم کا انداز ہے ۔ اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔اب اگر کوئی تلواروں کا سایہ کر کے نیچے جنت ڈھونڈنا شروع کر دے ،زمین کھودنا شروع کر دے ،تو سب لوگ اسے بے وقوف کہیں گے۔مطلب یہی ہے کہ تلواریں چلاؤ ،خون پیش کر کے شہید ہو جاؤ ،اور پھر جنت پا جاؤ ۔(اللہ کا کان بننا آنکھ بننا بخاری کے الفاظ)اوردو ہاتھ بڑھنا یا دوڑنا ،یہ سب اسی طرح کا تمثیلی انداز ہے جو بندوں کو سمجھانے کے لئے ہے۔
طوالت کے ڈر سے ہم اسی پراکتفا کرتے ہیں ،وگرنہ اہل تصوف جن دیگر آیات واحادیث سے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان پر ان کے دلائل مندرجہ بالا دلائل سے بھی کہیں زیادہ مضحکہ خیز ہیں۔مزید کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے بس اللہ ہی کی بات پر اس موضوع کو ختم کیا جاتا ہے(سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ۔الصفات:١٥٩)ترجمہ:جو کچھ یہ (اللہ کے بارے میں)بیان کر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ باکل پاک ہے۔
جاری ہے....

(قسط نمبر 15)

*وحدت الوجود کی توجیہات*
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ بعض پابند شریعت صوفیاء نے وحدت الوجود کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ حقیقی وجود صرف اللہ تعالی کا ہے اور بقیہ ہر چیز کا وجود مجازی ہے۔ اس کے لیے وہ انسانی تخیل اور خواب کی مثال دیتے ہیں۔ دوسرا نقطہ نظر وحدت الشہود کا ہے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ ان دونوں نظریات پر ناقدین تصوف کیا تنقید کرتے ہیں؟
وجود کی حقیقی و مجازی تقسیم
صوفیاء کا نقطہ نظر
بعض صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی کا وجود حقیقی ہے اور ساری مخلوق کا وجود مجازی ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے سنی بریلوی عالم، علامہ احمد سعید کاظمی (1913-1986) لکھتے ہیں:
اس پر سوال ہوتا ہے کہ یہ زمین، آسمان، چاند، سورج، چرند، پرند، انسان، حیوان، نور، ظلمت، ہدایت و گمراہی، خیر و شر ان سب کا وجودہے اور اگر ہم ان کا وجود نہ مانیں تو اللہ کی صفت تخلیق کا انکار لازم آئے گا اور اس طرح ہم شرک سے بچ کر کفر کا شکار ہو جائیں گے۔
اس کے جواب میں عرض ہے کہ وجود حقیقی تو اللہ ہی کا ہے، باقی تمام کائنات کا وجود حقیقی نہیں مجازی ہے۔ حقیقت وجود، وجود واحد کے سوا موجود نہیں۔ آئینہ خانے میں جہاں ہر طرف، ہر سمت بے شمار آئینے جڑے ہوں، ایک شمع روشن ہو تو وہ ہر آئینے میں جگمگاتی نظر آتی ہے، ہر عکس اس ایک شمع کا محتاج ہے، وہ ایک شمع بجھ جائے تو ہر سو اندھیرا چھا جائے۔ ساری جگمگاہٹ اور روشنی اسی ایک شمع کی مرہون منت ہے۔ لیکن اس مثال پر اعتراض ہو کہ آئینوں کا تو اپنا وجود ہے، اس لیے اس بات کو دوسرے انداز میں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ آپ ایک کمرے میں تشریف رکھتے ہیں، آپ کے سامنے چارپائی ہے، پیچھے دروازہ ہے، دائیں طرف کھڑکی ہے اور بائیں طرف الماری ہے، آپ کے اوپر چھت ہے اور نیچے فرش ہے۔ اگر آپ رخ پھیر لیں تو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں کا مفہوم بدل جائے گا اور اسی طرح اگر آپ چھت پر چلے جائیں تو اوپر نیچے کا تصور بھی تبدیل ہو جائے گا۔ یہ آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر ، نیچے ، ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے۔ آپ ہیں تو یہ سمتیں اور جہتیں بھی ہیں، اگر آپ نہیں تو یہ بھی نہیں۔ آپ جب کمرے میں داخل ہوئے تو ان سمتوں کو ساتھ لے کر نہیں آئے کہ ان کا اپنا علیحدہ کوئی وجودنہیں ہے، آپ کے وجود کے باعث یہ از خود متصور ہو گئی ہیں۔
اگر ریاضی کے حوالے سے سوچیں تو تمام اعداد "ایک" کے مرہون منت ہیں۔ بلکہ کمپیوٹر میں تو ایک اور صفر، صرف یہی عدد استعمال ہوتے ہیں۔ "ایک" وجود ہے، "صفر" عدم ہے۔ باقی تمام اعداد و شمار اسی ایک وجود کے مرہون منت ہیں۔ وجود حقیقی وہی ایک وجود ہے، باقی سب کچھ اس کی صفات کا جلوہ ہے، اس کی قدرت کی کرشمہ سازی ہے، کہیں اس کی صفت جلال جلوہ نما ہے، کہیں اس کے جمال کی جلوہ آرائی ہے۔ ّ
جدت پسند اذہان کی تسکین کے لیے اسی بات کو ایک دوسرے انداز میں عرض کرتا ہوں۔ کسی مسئلہ کی تحقیق کے لیے کچھ چیزیں فرض کر لی جاتی ہیں۔ فرض کرو ایک شخص ہے، اس کے فلاں فلاں اہل خانہ ہیں، فلاں حالات سے وہ گزرتا ہے اور فلاں صورتحال پیش آتی ہے، اس صورت میں اس شخص کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ علماء جانتے ہیں کہ مسائل کے استنباط کے لیے اس نوعیت سے چیزیں فرض کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یا جیسے حساب و کتاب کے معاملات میں سوال حل کرنےکے لیے چند چیزیں فرض کر لی جاتی ہیں۔ الجبرا میں کہتے ہیں کہ اس چیز کی قیمت خرید فرض کر لی جو برابر ہے "لا [X] " کے۔ اب سب جانتے ہیں کہ "لا" کا مفہوم ہے "نہیں"۔ لیکن جب قیمت "لا" فرض کر لی جاتی ہے تو سوال حل ہو جاتا ہے اور جواب تلاش کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔
یہ تمام چیزیں جو ہم فرض کرتے ہیں، ان کا حقیقتاً کوئی وجود نہیں ہوتا۔ لیکن عالم فرض میں ایسی بے شمار اشیاء آن واحد میں متحقق ہو جاتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی جب کسی شے کی تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے تو فرماتاہے ، "کن" تو وہ چیز ہو جاتی ہے۔ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔"اس کا حکم یہی ہے۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرمائے تو اس سے کہے ، ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔"
ظاہر ہے کہ حقیقی اشیاء کے بنانے میں وقت صرف ہوتا ہے، فرضی اشیاء کی تخلیق میں نہیں۔ فرق اتنا ہے کہ جتنی ہماری حیثیت اور وقعت ہے، اتنی حیثیت ہماری فرض کی ہوئی چیزوں کی ہے اور خدا کی تخلیق کردہ اشیاء اس حقیقی وجود کے مقابلے میں فرضی ہونے کے باوجود "موجود" معلوم ہوتی ہیں۔ دیکھیے شاعر بتاتے ہیں اور صوفیاء کرام نے کہا ہے کہ یہ دنیا دراصل عالم خواب ہے۔ جب ہماری موت آئے گی تو یوں کہیے کہ ہماری آنکھ کھلے گی تو اس کائنات کو بھی اسی انداز میں خواب تصور کیجیے۔ لیکن یہ خواب دکھانے والا وہ قادر مطلق ہے۔ اس لیے اس خواب کو خواب سمجھنا بھی خواب و خیال کی بات معلوم ہوتی ہے۔
بہر کیف اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام کائنات مجاز ہے، فرضی چیز ہے اور حقیقی وجود صرف اس کا ہے۔
اب غور کیجیے کہ وحدت الوجود پر یقین رکھنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شرک کیا، کہ یہ چونکہ صرف رب کے وجود کو مانتے ہیں، اس لیے انہوں نے گویا ہر موجود شے کو خدا تسلیم کر لیا، ان کے کہنے کے مطابق جب خدا کے سوا کچھ نہیں تو پھر جو کچھ ہے، وہ خدا ہی ہے، پھر ہر شے خدا ہے۔ دراصل یہ مغالطہ ہے، شرک تو اس وقت ہو گا جب خدا کے سوا کسی شے کو مانو گے، تسلیم کرو گے، پھر اسے خدا کی ذات و صفات میں شریک ٹھہراؤ گے، جب تمہارا عقیدہ یہ ہو گا کہ خدا کے سوا کچھ نہیں، یہ کائنات رنگ و بو، یہ عالم آب و گل، یہ زمین و آسمان، یہ ستارے، یہ کہکشاں، یہ نباتات و جمادات، یہ انسانوں کی فوج ظفر موجد، یہ حشرات الارض، یہ سیم و زر کے انبار، یہ اجناس و اثمار، یہ شجر و حجر، یہ سب مجاز ہیں، یہ سب فرضی چیزیں ہیں، یہ ذہن و نظر کا فریب ہے، یہ ساری کائنات اعتباری ہے، حقیقی نہیں، خدا کے سوا کچھ نہیں ہے، جب تم اس کے سوا کسی کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کی ذات میں کسی شریک کیسے کر سکتے ہو۔ جس کو تم شریک کرنا چاہو گے، پہلے اس کے وجود کو تو مانو گے، جو چیز ہے ہی نہیں، وہ خدا کی ذات و صفات میں شریک کیسے ہو سکتی ہے؟

*ناقدین تصوف کا جواب*
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ اول تو حقیقت و مجاز کی یہ بات قرآن و حدیث میں کہیں بیان نہیں ہوئی۔ اگر اللہ تعالی ہی وجود حقیقی ہے اور باقی سب کچھ محض نظر کا فریب ہے تو پھر اللہ تعالی کو خود ہی یہ بات بتا دینی چاہیے تھی۔ اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ قرآن مجید اس کائنات کی ہر ہر چیز کا وجود تسلیم کرتا ہے اور اس کے بارے میں بتاتا ہے کہ اللہ تعالی ان تمام اشیاء کا خالق ہے۔
اگر اللہ تعالی وجود حقیقی ہے اور بقیہ ساری کائنات وجود مجازی اور محض ایک خواب ہی ہے تو پھر جزا و سزا کے کیا معنی ہیں؟ کیا جزا و سزا ایک فریب نظر ہی ہے؟ کیا جنت و دوزخ کا بھی حقیقی وجود نہیں ہے اور یہ سب محض ایک وہم اور مجاز ہی ہے؟ اللہ تعالی نے جو پیغمبر اس دنیا میں بھیجے، کیا وہ سب کے سب مجاز ہی تھے؟ نیکی اور بدی کی قوتیں جو ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں، کیا وہ سب بھی مجاز ہی ہے؟ اگر سب کچھ اللہ تعالی کے ہاں مجازی طور پر ہی میں ہو رہا ہے تو پھر ہمیں کس بات کی جزا یا سزا ملے گی؟ اس توجیہ کو مان لینے کے بعد انسانی ارادہ کی کلیتاً نفی ہو جاتی ہے اور اس سےقیامت اور جزا و سزا کا پورا عقیدہ بھی غلط ہو کر رہ جاتا ہے۔ قرآن مجید اس سے بالکل مختلف مقام پر کھڑا ہوا ہے اور اس کی پوری دعوت اس بات پر مبنی ہے کہ ہر چیز کا ایک الگ وجود ہے اور یہ تخلیق اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ (12) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (13) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَاماً فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (14) ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (16) وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنْ الْخَلْقِ غَافِلِينَ (17) وَأَنزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (18) فَأَنشَأْنَا لَكُمْ بِهِ جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (19) وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْنَاءَ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِلآكِلِينَ (20) وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (21) وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ (22)
ہم نے انسان کو مٹی کی پیسٹ سے بنایا ، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کو ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دُوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اُٹھائے جاوٴ گے۔
اور تمہارے اُوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے۔ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اُسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں۔ پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیز پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو۔ اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طوُرِ سیناء سے نکلتا ہے، تیل بھی لیے ہوئے اُگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی۔
اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ہم تمہیں پلاتے ہیں، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دُوسرے فائدے بھی ہیں۔ اُن کو تم کھاتے ہو اور اُن پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو۔ (المومنون)
ناقدین تصوف کہتے ہیں کہ یہ مضمون قرآن مجید میں بکثرت بیان ہوا ہے۔ ان آیات اور اسی مضمون کی دیگر آیات کو پڑھتے چلے جائیے۔ کیا یہ تصور کہیں ملتا ہے کہ یہ سب جو ہمیں نظر آ رہا ہے، محض نظر کا فتور اور دماغ کا فریب ہے؟ اس کے برعکس اللہ تعالی ان سب چیزوں کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش فرما رہا ہے کہ ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ. ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونََ. یعنی "پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اُٹھائے جاوٴ گے۔" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی مخلوقات کا وجود ہے اور یہ سب فریب نظر نہیں ہے۔
جاری ہے....
سوشل میڈیا معاون:عمران شہزاد تارڑ
www.mubashirnazir.org
www.dawatetohid.blogspot.com
0096176390670
00923004510041
بشکریہ:اسرا اسلامک اسٹڈیز اینڈ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
جاری ہے....
سوشل میڈیا معاون:عمران شہزاد تارڑ
www.mubashirnazir.org
www.dawatetohid.blogspot.com
0096176390670
00923004510041
بشکریہ:اسرا اسلامک اسٹڈیز اینڈ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
آج بہت عرصے بعد آنا ہوا۔۔۔اس تھریڈ کو دوبارہ پڑھا علم تازہ ہوا اور اس بات کی خوشی ہوئی کہ ہمارے پیش کردہ دلائل آج بھی لاجواب ہیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایسا تو نہیں کہ کہیں وہم ہی لا علاج ہو!
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جولوگ زندہ اور مردہ، روشنی اور اندھیرا، خدا اور انسان میں فرق کرنے سے قاصر ہوں انہی کو توحید کے معاملے میں ایسے لا یعنی و لا متناہی ،طویل شبہات و سوالات پوچھنے کی حاجت پیش آتی ہے ۔ (معذرت کے ساتھ)مشرکین ِ مکہ بھی فہم ِ توحید میں تقریباً ایسے ہی سوالات پیش کرنے کے عادی تھے۔ قرآن مجید بھی ان کو ہر سوال کاحرف بہ حرف جواب دینے کی بجائے صرف یہی سمجھاتا اور کہتارہا لا الہ الا اللہ ، لیس کمثلہ شیٔ، لا شریک لہ ۔
اللہ تعالٰی طبقۂ خاص کو لفظ” الہ“ کا معنی و مطلب سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین یا رب العالمین !
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
"کشمیر خان,
کوئی ان کے جواب دے!
سوال نمبر1 :- سب سے پہلے استمداد غیر اللہ پر اپنا عقیدہ واضح کیجیئے تفصیلی طور پر ۔

استمداد غیر اللہ پر عقیدہ
جواب۔ ایسی استمداد جو کسی علم و قدرت سے ثابت ہو یعنی جس سے مددلی جارہی اس کا اسے علم ہونا اور اس حاجت کو پوری کرنے کی صلاحیت طاقت و قدرت ہونا کسی دلیل سے ثابت ہو جائز ہے اور جو علم وقدرت کسی دلیل سے ثابت نا ہو اس سے مانگنا ناجائز ہے۔ یدعون من دون اللہ میں داخل ہے ایاک نستعین کے خلاف ہے شرک کا حکم لگتا ہے۔
دلیل: اشرکوا باللہ مالم ینزل بہ سلطانا - آل عمران۱۵۱
اس جواب پر کوئی اعتراض ہو تو بتائیں ورنہ دوسرے سوال پر چلیں؟
 

عبدالحبیب

مبتدی
شمولیت
جولائی 22، 2019
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جولوگ زندہ اور مردہ، روشنی اور اندھیرا، خدا اور انسان میں فرق کرنے سے قاصر ہوں انہی کو توحید کے معاملے میں ایسے لا یعنی و لا متناہی ،طویل شبہات و سوالات پوچھنے کی حاجت پیش آتی ہے ۔ (معذرت کے ساتھ)مشرکین ِ مکہ بھی فہم ِ توحید میں تقریباً ایسے ہی سوالات پیش کرنے کے عادی تھے۔ قرآن مجید بھی ان کو ہر سوال کاحرف بہ حرف جواب دینے کی بجائے صرف یہی سمجھاتا اور کہتارہا لا الہ الا اللہ ، لیس کمثلہ شیٔ، لا شریک لہ ۔
اللہ تعالٰی طبقۂ خاص کو لفظ” الہ“ کا معنی و مطلب سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین یا رب العالمین !
کیا یہ اشعار واقعی رومی کے ہیں صاحب علم رہنمائی فرمائیں ان کی کیا حقیقت ہے۔۔۔۔
میں نہ عیسائی ہوں، نہ یہودی، نہ مسلمان
میں نہ مشرق کا ہوں نہ مغرب کا۔
میں نے دوئی کو دور کر دیا ہے، میں نے دو جہانوں کو ایک ہی دیکھا ہے۔
جس کو میں ڈھونڈتا ہوں، ایک میں جانتا ہوں، ایک میں دیکھتا ہوں، جس کو میں پکارتا ہوں۔

کراس اور عیسائی، آخر سے آخر تک، میں نے جانچ پڑتال کی. وہ صلیب پر نہیں تھا۔ میں ہندو مندر گیا، قدیم پگوڈا گیا۔ ان میں سے کسی میں بھی کوئی نشان نہیں تھا۔ میں ہرات کے پہاڑوں پر گیا اور قندھار کی طرف دیکھا۔ وہ نہ بلندیوں پر تھا نہ پستی میں۔ عزم کے ساتھ، میں [شاندار] پہاڑ قاف کی چوٹی پر چلا گیا۔ وہاں صرف عنقا پرندے کی رہائش تھی۔ میں کعبہ مکہ گیا۔ وہ وہاں نہیں تھا۔ میں نے اس کے بارے میں فلسفی ابن سینا سے پوچھا۔ وہ ابن سینا کی حد سے باہر تھا… میں نے اپنے دل میں جھانکا۔ اس جگہ، اس کی جگہ، میں نے اسے دیکھا۔ وہ کسی اور جگہ نہیں تھا۔
 
Top