• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین برزخ کا عقیدہ اور اس کا رد

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کیا اللہ روحوں کو لوٹاتا ہے
allah rohoon ko lotatta hai.png
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
محترم ابراہیم صاحب : جناب کا پورا مضمون پڑھا ، عقلی ڈھکوسلوں ، رقیق تاویلات ، تفسیر بالرّائے اور قرآن میں تحریف معنوی کا مجموعہ پایا ۔ان شاء اللہ فرصت ملنے پرکچھ لکھوں گا آج صرف ایک بات لکھتا ہوں
جناب نے قرآن مجید کی اس آیت "” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ “ پر تفسیر بالرائے اور تحریف معنوی کے جو علمی جواہر رقم کئے ہیں پڑھنے کے قابل ہیں ؟
جناب لکھتے ہیں کہ "” ثُمَّ أَمَاتَهُ “ اللہ نے جب تک چاہا اس کو زندگی بخشی، ” ثُمَّ أَمَاتَهُ “پھر کچھ عرصہ بعد اللہ نے اسے موت دی ” فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]“ پھر اسی روح وجسد کے مجموعے کو اللہ رب العالمین نےقبر عطا کردی۔
محترم: آپ نے "ثم اماتہ فاقبرہ " کا ایک ترجمہ یہ کیا کہ “ اللہ نے جب تک چاہا اس کو زندگی بخشی، ” پھر اسی کا ترجمہ یہ لکھا“پھر کچھ عرصہ بعد اللہ نے اسے موت دی ” دونوں میں کونسا ترجمہ درست ہے؟​
"فاقبرہ" کا ترجمہ جناب نے لکھا کہ “ پھر اسی روح وجسد کے مجموعے کو اللہ رب العالمین نےقبر عطا کردی۔" یہ ترجمہ اس آیت کے کن لفظوں کا ہے؟اسی کو تحریف معنوی کہتےہیں​
ان آیات کریمہ کا ترجمہ پڑھئے " مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿١٨﴾ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَ‌هُ ﴿١٩﴾ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَ‌هُ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَ‌هُ﴿٢١﴾​
اس نے کس چیز سے اس کو بنایا( 18)ایک بوند سے اس کوبنایا پھر اس کا اندزہ ٹھیرایا (19)پھراس پر راستہ آسان کر دیا(20)پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا (21)​
(اگر یہ ترجمہ غلط ہو تو نشاندہی فرمائیں)​
آیت نمبر 21 سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس انسان پر موت وارد ہوتی ہے اُسے فورا" قبر مل جاتی ہے(خواہ اسے اس ظاہری قبر میں دفنایا جائے یا نہیں)اس بات کو جناب نے بھی تسلیم کیا ہے " فَ ‘ موت دینے کے فوراً بعد ’ أَقْبَرَهُ‘ اس کو قبر دے دی۔"​
اب صرف اتنا بتا دیں کہ فرعون اور الِ فرعون اوربدر کے کافر و مشرک مقتولوں کو کیا اِن ظاہری قبروں میں دفنایا گیا؟ تو پھر بتائیں! کہ انہیں فورا" کہاں اور کون سی قبریں ملیں؟​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حوالے سے ہمیں ایک اور صحیح حدیث بھی ملتی ہے جو انکی وفات سے ذرا پہلے کی ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں حاضر و نا ظر رہنے کی بجائے اللہ کی رفاقت کی دعا کی یعنی جنت میں دکھائے گئے مقام پر رہنے کو ترجیح دی ۔
عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ''اللھم الرفيق الاعلیٰ'' یعنی '' اے اللہ رفیق اعلیٰ '' ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ ''اللھم الرفيق الاعلیٰ''۔

صحیح بخاری، کتاب الدعوات

لہذا اس طرح سے قران و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے یہ دنیاوی گڑھا نہیں جہاں صرف اسلئے مردہ جسم کو ٹھکانے لگانے کی نیت سے دفن کیا جاتا ہے تاکہ وہ مٹی میں مٹی ہو جائے اور تعفن نہ پھیلے۔ اسی طرح دنیا میں لوگ مختلف طریقوں سے مرتے ہیں، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کوئی ٹریفک حادثے میں مرتا ہے تو کسی کا جسم بم دھماکے میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، کسی کی موت ہوائی حادثے میں ہو جاتی ہے تو کوئی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔

قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ

انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔

سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲

پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔

حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔

سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ

پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔

سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦

اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو مستقل طور پر انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟ لہذا اصل بات وہی ہے جو ہم اپنے ہر مضمون میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے دہراتے ہیں کہ ان فرقوں کے چند نامی گرامی علماء نے قران و حدیث کے خلاف عقائد و تعلیمات گھڑ لئے اور اب ان سب فرقوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اپنے علماء کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ لوگ انکی ان غلط تعلیمات کا انکار نہیں کر پاتے چاہے اس سب میں قران و حدیث کا واضح انکار ہو جائے۔

قران کے علاوہ حدیث میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ مردے سے سوال و جواب اور اسکے بعد عذاب کا سلسلہ فوراً ہی شروع ہو جاتا ہے چاہے اسکی لاش ابھی دفنائی بھی نہ گئی ہو۔ ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کی یہ حدیث:
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔
صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان

فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے؟ لہذا ایک بار پھر ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مردے کے سوال و جواب اور پھر سزا و جزا اسکی اصلی قبر یعنی برزخ میں وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتے ہیں چاہے اسکے لواحقین کئی دن اسے دفن نہ بھی کریں کہ اللہ کا نظام اور اس کی سنّت انسانوں کے قوانین اور ضابطوں کے محتاج نہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لاوارث لاشیں کئی کئی ماہ مردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں جب تک کہ انکے رشتہ دار مل نا جائیں اور یا پھر جو لوگ قتل ہوتے ہیں انکا پہلے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر لاش ورثاء کو ملتی ہے تو کیا فرشتے اتنا عرصہ انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب مردے کے لواحقین لاش کو دفن کریں اور وہ اس میں روح لوٹا کر سوال و جواب کریں؟

اسی طرح قران اس معاملے میں بھی بالکل صاف حکم دیتا ہے کہ تمام انسان اپنی دنیاوی وفات کے بعد صرف اور صرف قیامت کے دن ہی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔

ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَ‌ٰلِكَ لَمَيِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ

پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔

سورة المومنون، آیات ۱۵۔۱٦

اور صحیح حدیث بھی یہی بتاتی ہے:
ابوہریرہ ؓ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا ، دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا چالیس دن مراد ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر انہوں نے پوچھا چالیس سال ؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا ۔ پھر انہوں نے پوچھا چالیس مہینے ؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی ، سوا ئے ر یڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی ۔
صحیح بخاری، کتاب التفسیر

ایک بار پھر قران و حدیث کا پیغام بالکل واضح ہے کہ تمام انسانی جسم دنیاوی گڑھے میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی روزِ محشر ان جسموں کو عجب الذّنب یا دمچی کی ہڈی سے دوبارہ بنائے گا ، اس سے پہلے نہ ان گڑھوں میں زندگی ہے اور نہ ہی ان جسموں میں جان۔ اس حوالے سے دیگر فرقوں کا جو حال ہے - اگریہ پوچھا جائے کہ جن انسانوں کو جانور یا مچھلیاں کھا لیں انکا کیا؟ تو یہ فرماتے ہیں، ''وہ لوگ جن کی موت ڈوبنے یا جلنے سے ہو اور یا پھر جنہیں جنگلی جانور کھا جائیں انکی ا رواح ان جانوروں یا پھر سمندر کی مچھلیں کے پیٹوں میں لوٹائی جائیں گی'' ۔ اپنی فرقہ پرستی میں یہ تک نہ سوچا کہ اگر یوں روح کو بار بار جسم سے جوڑا جائے گا تو اسکے نتیجے میں کتنی زندگیاں اور موتیں عمل میں آئیں گی اور قران کی آیات کا کیا ہوگا جو ہر انسان کے لئے صرف دو زندگیوں کا ذکر کرتی ہیں؟

سو جب اسلام کے یہ نام لیوا لوگ ان زمینی گڑھوں میں زندگی یا روح کے لوٹائے جانے کا عقیدہ بنا لیں، باوجود اسکے کہ یہ قران و حدیث کے واضح احکامات کے خلاف ہے تو پھر وہ طاغوت کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالٰی اور اسکے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنے معاشرے یا اپنے فرقےکے علماء و اکابرین کی باتوں اور فتوؤں کو ترجیح دیتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ وہ یا تو حق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر حق کو صرف اسلئے جھٹلا دیتے ہیں اور تاویلیں گھڑتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اکابرین کی غلط تعلیمات کا رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ کہ قبروں میں زندگی کا یہ عقیدہ آج امّت میں موجود تمام شرک، کفر اور بدعات کی اصل وجہ بن چکا ہے، لوگ اسلئے قبر پرستی میں مبتلا ہیں اور مختلف مزاروں اور آستانوں پر فریادیں لے کر بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ صاحبِِ قبر زندہ ہیں اور انکی پکاریں سنتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں یہ سب لانے کے ذمہ دار صوفی ہیں جن کے بارے میں ہمیں بڑے دھڑلے سے مطالعہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ صوفیاء نے سلطان محمود غزنوی کی فتوحات کے بعد اس خطے میں اپنے ڈیرے جما لئے اور دینِ اسلام کا پرچار کیا۔ بات ڈیرے جمانے تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اسلام کی تعلیمات پھیلائیں۔ بلکہ ان دین کے دشمنوں نے ظلم یہ کیا کہ ہندومت، اسلام اور بدھ مت کو ملا کر تصوف اور صوفیت کے نام سے ایک دینِ خدائی بنایا اور اپنی اپنی گدیاں، شجرے اور سلسلے چلانے کے لئے خلق ِاللہ کو کفر و شرک پر لگا دیا۔ اسی کفر و شرک پر مبنی تعلیمات کا یہ نتیجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک قبر ، مزار یا آستانہ ہے جسے لوگ پوجتے نظر آتے ہیں۔ ہر ایسے قصبے جس میں کسی نام نہاد ولی کی قبر ہو اسکے نام کے ساتھ شریف لگا دیا جاتا ہے جیسے مزار شریف، اچ شریف، پاک پتن شریف وغیرہ اور خلقت اپنی اپنی فریادیں لے کر ان قبروں پر ٹوٹی پڑتی ہے، طواف و سجدے ہوتے ہیں، چڑھاوے چڑہائے جاتے ہیں، غیر اللہ کی نذر و نیاز ہوتی ہے، بھنگ، قوالیاں اور دھمالیں ہوتی ہیں، منت کا تیل، تعویذ، کڑے اور دھاگے خریدے اور بیچے جاتے ہیں غرض جس جس کام سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہر وہ کام بدترین انداز میں ان قبروں پر انجام پاتا ہے اور قران و حدیث کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں قبر پرستی یا لوگوں کے قبروں سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ملکی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آتی ہے تو اسے سب سے پہلے علی ہجویری {المعروف داتا صاحب} کے مزار پر حاضری و شکرانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، ملکی سربراہ ہر سال مزارِ قائدا ور مزارِ اقبال پر حاضری دیتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں، کہیں توپوں کی سلامی ہوتی ہے تو کہیں گارڈ آف آنر دیا جاتا ہے، ہر سیاسی لیڈر اپنے سیاسی سفر کا آغاز مزارِ قائد کے سامنے جلسہ سےکرتا ہے، نام نہاد شہیدقومی و سیاسی لیڈروں کی قبریں آگرہ کے تاج محل سے زیادہ شان و شوکت کی حامل نظر آتی ہیں ، چاہے انکے ووٹر بھوکے مرتے ہوں انکی قبروں پر دن رات گلاب و عطر کی بارش ہوتی ہے ، ملک بھر میں بجلی بھلے ہی نہ ہو ان مزاروں اور آستانوں کے برقی قمقمے کبھی نہیں بجھتے، بلکہ ہمارے ہاں تو بہت سے مشہور سیاسی لیڈر اپنے اپنے علاقوں میں خود گدی نشین اور پیر ہیں۔ حقیقت میں ان مزاریوں ، لغاریوں، پیروں، ٹوانوں، مخدوموں، دولتانوں وغیرہ کو انگریز نے اپنے دور حکومت میں نوازا تاکہ یہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اپنے مذہبی اثر و رسوخ اور اپنی گدیوں کے ذریعے دبا کر رکھیں اور حکومت کے خلاف بغاوت سے باز رکھیں اورپھر انگریز کے جانے کے بعد یہی لوگ، انکے خاندان اور آل اولاد ہمارے سیاسی لیڈر اور حکران بن گئے اور عوام چونکہ پہلے ہی قبر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا تھی تو اس نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ احتجاج کے لئے دین کی فہم، دنیاوی تعلیم اور آزاد سوچ چاہیئے جو فرقوں اور انسانوں کی اندھی تقلید میں ممکن ہی نہیں۔

اللہ ہم سب کو فرقہ پرستی کی اس لعنت اور انکے ایجاد کردہ کفر ، شرک و بدعات سے بچائے اور دینِ اسلام کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

Raja Umar Khattab

مبتدی
شمولیت
مارچ 26، 2014
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
19
قرآن مجید سے ''برزخ'' کے معنی : ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ 19۝ۙ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ 20۝ۚ ۔ ۔ ۔ '' '' اس نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں۔ دونوں کے درمیان برزخ (آڑ) ہے کہ وہ (اپنی حدسے)تجاوز نہیں کرتے۔'' ( (سورہ رحمٰن ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا 53؀ '' اور وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا ایک کا پانی میٹھا ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری اورکڑوا،اور بنا دی دونوں کے درمیان برزخ ( آڑ) اور مضبوط اوٹ۔'' ( سورہ فرقان ) ۔ ۔ ۔ قرآنی آیات سے واضح ہوا کہ '' برزخ '' کے معنی ایک'' آڑ '' کے ہیں جو دو چیزین کو آپس میں ملنے نہ دے
حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99۝ۙ لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ١٠٠؁ '' یہاں تک کہ ان مین سے کسی ایک موت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک '' ( المومنون )
ان دو آیات میں جو بات بیان کی گئی ہے ، نمبر ۱ :حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ ''یہاں تک کہ ان مین سے کسی ایک موت آتی ہے'' ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نمبر ۲ : قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ '' کہتا ہے اے رب مجھے واپس لوٹا دی '' ۔ ۔ ۔ ۔ نمبر ۳ـ لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا '' تاکہ میں نیک عمل کروإ '' نمبر ۴ : فِيْمَا تَرَكْتُ '' جسے میں چھوڑ آیا ہوں '' نمبر ۵ : كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ رَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ '' ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک '' ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ ''
'' یہاں تک کہ ان میں سے کسی موت آتی ہے ''
ایک انسان کو موت کیسے آتی ہے ؟
اللہ تعالی فرماتاہے :
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ ۔۔۔
'' اللہ روحوں کو قبض کر لیتا ہے عین موت کے وقت، جو نہیں مرے ان کی نیند میں، پھر روک لیتا اس کی روح جس پر موت کا فیصلہ ہوجائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ '' (سورہ زمر، آیت ۴۲ )
موت کے وقت روح کیسے قبض کی جاتی ہے :
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ۭﱑ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ 61؀ ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ ۣ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ 62؀
'' اور وہ ( اللہ ) پوری طرح قادر ہے اپنے بندوں پر، اور بھیجتا ہےتم پر نگراں ( فرشتے )، یہاں تک کہ تم میں کسی ایک موت کا وقت آجاتا ہے تو اسے قبض کرلیتے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے اور وہ کوئی غلطی نہیں کرتے ۔ پھر ( یہ روح ) پلٹائے جاتی ہیں اللہ کی طرف جو انکا حقیقی مالک ہے، سن لو کہ حکم اسی کاہے وہ جلد حساب لینے والا ہے''۔ ( سورہ انعام، آیت ۶۱۔۶۲ )
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَکَانِ يُصْعِدَانِهَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَکَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَکَرَ الْمِسْکَ قَالَ وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْکِ وَعَلَی جَسَدٍ کُنْتِ تَعْمُرِينَهُ فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَی رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَقُولُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ قَالَ حَمَّادٌ وَذَکَرَ مِنْ نَتْنِهَا وَذَکَرَ لَعْنًا وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ قَالَ فَيُقَالُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً کَانَتْ عَلَيْهِ عَلَی أَنْفِهِ هَکَذَا
'' عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لےجاو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ اسے آخری وقت کے لئےلے جاو، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی (کافر کی روح کی بدبو ظاہر کرنے کے لییے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا)''۔
( مسلم، جنت اسکی نعمتیں اور اہل جنت کا بیان ، باب میت پر جنت یا دوزخ ۔ ۔ )
عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَيْرٌ يَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَرْجِعَهُ اللَّهُ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ
'' کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندےمیں جنت کے درخت سےوابستہ رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ پھر اس کو لوٹا دے گا اس کے بدن کی طرف جس دن اس کو اٹھائے گا'' ۔
( موطا امام مالک، کتاب الجنائز ، باب جنازوں کے احکام میں مختلف احادیث )
پیش کردہ قرآنی آیات و احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب انسان کی موت کا وقت آتا ہے تو اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی روح قبض کرکے اللہ کے پاس لے جاتے ہیں، اللہ کا حکم ہوتا ہے کہ اسے آخری وقت یعنی قیامت تک لئے لے جاوٗ، ان روحوں کو ان کے اعمال کے لحاظ سے جنت یا جہنم میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں وہ قیامت تک رہیں گے۔ قیامت کے دن انہیں واپس انکے ان دنیاوی جسموں میں ڈال کر دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو اسےموت آجاتی ہے اور موت کا یہ دور قیامت تک چلے گا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
راجا عمر خطاب صاحب! عربی عبارات پر عربی ٹیگ لگائیں۔ شکریہ
ابھی تدوین کر دی گئی ہے۔ شکریہ
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
محترم ابراہیم صاحب : جناب نے اِس آیت کریمہ کے ساتھ بھی "دھینگا مشتی" کی کوشش کی ہے
جناب نے لکھا ہے کہ " پھر اسی طرح یہ اعتراض بنا کر پیش کرنے کے بعد چند ایک دلائل ایسے بھی پیش کیے جاتے ہیں جن میں مرنے کے بعد جنت کی نعمتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔مثلاً شہداء۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے، اللہ رب العالمین فرما رہے ہیں :” أَحْيَاء “زندہ ہیں” عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [آل عمران : 169] “ اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔اور پھر فرمار ہے ہیں: ” فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ “اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔” وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ“ ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ ہے ، کوئی قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ساری کی ساری باتیں اور اعتراضات غلط ہیں"
محترم : جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اشکال ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں جو ارشاد فرمایا تھا اسے غور سے پڑھیں:

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا
صحیح مسلم:جلد سوم:امارت اور خلافت کا بیان :شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر
یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے صاف صاف فرمایا کہ شھدا کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے جوف میں رہ کر جنت میں سیر کرتی ہیں اورعرش کے نیچے لٹکی قندیلوں بسیرا کرتی ہیں اور جن اللہ رب العزت اُن سے پوچھتے ہیں کہ کچھ مانگو تو وہ کہتے ہیں "يَا رَبِّ نُرِيدُأَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا"
اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں
جناب کہتے ہیں کہ روحیں قبروں میں مدفون جسموں میں ہوتی ہیں اور امام الانبیاء ﷺفرماتے ہیں کہ شھدا کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں اور شھدا کہتے ہیں کہ ہماری روحیں جسموں میں لو ٹا دے ۔اگر شھدا کی روحیں اُن کے جسموں میں ہوتیں تو وہ یہ مطالبہ کیوں کرتے۔اب جناب کی مرضی اپنے دل کی مانیں یا امام الانبیاء ﷺ کی؟
ایک اور حدیث مبارکہ پڑھیں:
حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھے ک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)
مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔
ثابت ہوا کہ مرنے کے بعدمومنین کی روحوں کا ٹھکانہ جنت میں ہوتا ہے اور قیامت سے پہلے وہ اپنے جسموں میں نہیں لوٹائی جاتیں ۔
دلائل تو اور بھی بہت ہیں مگر ماننے والوں کے لئے یہی کافی ہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
محترم ابراہیم صاحب : جناب کا پورا مضمون پڑھا ، عقلی ڈھکوسلوں ، رقیق تاویلات ، تفسیر بالرّائے اور قرآن میں تحریف معنوی کا مجموعہ پایا ۔ان شاء اللہ فرصت ملنے پرکچھ لکھوں گا آج صرف ایک بات لکھتا ہوں
جناب نے قرآن مجید کی اس آیت "” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ “ پر تفسیر بالرائے اور تحریف معنوی کے جو علمی جواہر رقم کئے ہیں پڑھنے کے قابل ہیں ؟
جناب لکھتے ہیں کہ "” ثُمَّ أَمَاتَهُ “ اللہ نے جب تک چاہا اس کو زندگی بخشی، ” ثُمَّ أَمَاتَهُ “پھر کچھ عرصہ بعد اللہ نے اسے موت دی ” فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]“ پھر اسی روح وجسد کے مجموعے کو اللہ رب العالمین نےقبر عطا کردی۔
محترم: آپ نے "ثم اماتہ فاقبرہ " کا ایک ترجمہ یہ کیا کہ “ اللہ نے جب تک چاہا اس کو زندگی بخشی، ” پھر اسی کا ترجمہ یہ لکھا“پھر کچھ عرصہ بعد اللہ نے اسے موت دی ” دونوں میں کونسا ترجمہ درست ہے؟
"فاقبرہ" کا ترجمہ جناب نے لکھا کہ “ پھر اسی روح وجسد کے مجموعے کو اللہ رب العالمین نےقبر عطا کردی۔" یہ ترجمہ اس آیت کے کن لفظوں کا ہے؟اسی کو تحریف معنوی کہتےہیں
ان آیات کریمہ کا ترجمہ پڑھئے " مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿١٨﴾ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَ‌هُ ﴿١٩﴾ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَ‌هُ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَ‌هُ﴿٢١
اس نے کس چیز سے اس کو بنایا( 18)ایک بوند سے اس کوبنایا پھر اس کا اندزہ ٹھیرایا (19)پھراس پر راستہ آسان کر دیا(20)پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا (21)
(اگر یہ ترجمہ غلط ہو تو نشاندہی فرمائیں)
آیت نمبر 21 سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس انسان پر موت وارد ہوتی ہے اُسے فورا" قبر مل جاتی ہے(خواہ اسے اس ظاہری قبر میں دفنایا جائے یا نہیں)اس بات کو جناب نے بھی تسلیم کیا ہے " فَ ‘ موت دینے کے فوراً بعد ’ أَقْبَرَهُ‘ اس کو قبر دے دی۔"
اب صرف اتنا بتا دیں کہ فرعون اور الِ فرعون اوربدر کے کافر و مشرک مقتولوں کو کیا اِن ظاہری قبروں میں دفنایا گیا؟ تو پھر بتائیں! کہ انہیں فورا" کہاں اور کون سی قبریں ملیں؟

@ابوالحسن علوی بھائی یہاں پر @علی معاویہ بھائی بھائی نے @ابراہیم بھائی کو کیا جواب دیا - کیا وہ بھی آپ کے بےبنیاد فتویٰ کی زد میں آتے ہیں - آپ یہ والا پورا تھریڈ پڑھیں اور جس جس پر فتویٰ لگتا ہے کھلے دل سے لگا دیں -

@علی معاویہ بھائی بھائی کا جواب ٹھیک ہے یا نہیں - جواب آپ کے ذمہ
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

منکرین برزخ کا عقیدہ اور اس کا رد

بدنیت اور منحرف لوگوں کا ایک گروہ گمراہی کا شکار ہوا۔ان لوگوں نے اپنے اوہام باطلہ کی رو سے قبر کے عذاب اور اس کی راحتوں کا انکار کیا۔اور کہا کہ یہ ایک خلاف واقعہ اور ناممکن بات ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر قبر کھول کر مُردے کی حالت دیکھی جائے تو وہ اسی حالت میں پایا جاتا ہے جس میں دفن کیا گیا تھا اور قبر میں کوئی بھی تبدیلی کشادگی یا تنگی دیکھنے میں نہیں آتی۔ایسا گمان شریعت،حس اور عقل کی رو سے باطل ہے۔
شریعت کی رو سے اس کا رد
یوم آخرت پر ایمان کے باب میں "عذاب قبر اور اس کی نعمتیں" کے زیر عنوان عذاب قبر اور اس کی نعمتوں پر دلالت کردہ شرعی دلائل و نصوص گزر چکے ہیں۔
(حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"نبی ﷺ مدینہ منورہ کے کسی باغ سے نکلے تو آپ نے دو مُردوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا "پھر پوری حدیث سنا کر بتایا کہ "ان میں سے ایک پیشاب سے احتیاط اور طہارت نہیں رکھتا تھا"۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ دوسرا شخص چغل خور تھا۔(صحیح بخاری،الوضوء،باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ،حدیث:216،218)
حسی اعتبار سے اس کا رد
سونے والا شخص کبھی خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ بہت وسیع ،پر فضا اور کوش گوار مقام پر ہے اور وہاں طرح طرح کی نعمتیں اور راحتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے (تو وہ اپنے اندر فرحت و شادمانی محسوس کرتا ہے۔)اور اگر وہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ ایک وحشت ناک اور تنگ و تاریک جگہ پر ہے اور اس سے تکلیف محسوس کر رہا ہے (تو وہ غمگین اور رنجیدہ ہو جاتا ہے)کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواب دیکھنے والا شخص اپنے خواب سے چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے،حالانکہ وہ اپنے گھر کے کمرے میں اپنے ہی بستر پر لیٹا ہوتا ہے اور (ان رنج یا راحت کے مقامات پر نہ پہنچنے کے باوجود بھی راحت اور تکالیف کی کیفیات سے گزرتا ہے )جبکہ نیند تو موت کی چھوٹی بہن ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام "وفاۃ" رکھا ہے،ارشاد ہوتا ہے:
ٱللَّهُ يَتَوَفَّى ٱلْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَٱلَّتِى لَمْ تَمُتْ فِى مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ ٱلَّتِى قَضَىٰ عَلَيْهَا ٱلْمَوْتَ وَيُرْسِلُ ٱلْأُخْرَىٰٓ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّى ۚ

عقلی اعتبار سے اس کا رد
سونے والا کبھی سچے خواب بھی دیکھتا ہے اور کبھی اصلی شکل وصورت میں نبی ﷺ کی زیارت بھی کر لیتا ہے اور جس نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے اوصاف کے مطابق دیکھا بلاشبہ اس نے آپ ہی کو دیکھا،حالانکہ سونے والا اس فرد سے جسے وہ خواب میں دیکھتا ہے،بہت دور اپنے کمرے کے بستر پر محو خواب ہوتا ہے۔اگر یہ تمام چیزیں دنیاوی حالات میں ممکن ہیں تو احوال آخرت میں کیونکر ناممکن ہو سکتی ہیں؟
جہاں تک منکروں کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اگر قبر کو کھول کر مُردے کی حالت دیکھی جائے تو وہ اسی حالت میں نظر آتا ہے جس میں دفن کیا گیا تھا ،اور قبر میں کسی قسم کی کشادگی یا تنگی بھی نظر نہیں آتی تو اس کا جواب کئی ایک طرح سے دیا جا سکتا ہے:
• شریعت میں جو کچھ وارد ہے اس کا اس طرح کے باطل اور گمراہ کن شبہات کے ساتھ تقابل ہر گز جائز نہیں۔ان شکوک و شبہات کے ساتھ شریعت پر اعتراض کرنے والا شخص شریعت میں موجود نصوص و دلائل پر کما حقہ غوروفکر کرے تو اس پر ان شبہات کا بطلان واضح ہو جائے گا۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔


وکم من عائب قولا صحیحا
وافتہ من الفھم السقیم​


• عالم برزخ کے احوال کا تعلق غیبی امور سے ہے ،ان کا حسی ادراک ممکن نہیں۔اگر حس کے ذریعے سے ان کی حقیقت کا جانا ممکن ہوتا تو "ایمان بالغیب"کا سرے سے کوئی فائدہ ہی باقی نہ رہتا بلکہ اس طرح تو غیب پر ایمان لانے والے اور جان بوجھ کر اس کی تصدیق کے منکر ،دونوں ہی برابر ہو جاتے۔
• قبر میں عذاب و راحت یا کشادگی و تنگی کی کیفیات صرف میت ہی محسوس کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص ان کیفیات کا احساس و ادراک نہیں کر سکتا۔اس کی مثال ٹھیک اس شخص کے خواب جیسی ہے جو نیند کی حالت میں کوئی تنگ و تاریک اور وحشت ناک مقام،یا نہایت دلفریب اور کشادہ جگہ دیکھتا ہے اور اپنے خواب کے احوال کے مطابق غمگین یا خوش ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس اس کے کمرے،بستر اور چادر میں سونے والا کوئی دوسرا فرد ان تمام کیفیات سے قطعی بے خبر رہتا ہے۔
اس کی ایک اور واضح مثال یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی تھی اور آپ اپنے صحابہ کے درمیان موجود ہوا کرتے تھے لیکن وحی کو صرف آپ ﷺ ہی سن پاتے تھے جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو وہ وحی سنائی دیتی تھی۔اور کبھی کبھی فرشتہ انسانی شکل میں حاضر ہو کر آپ ﷺ سے گفتگو بھی کرتا تھا لیکن صحابہ کرام اس فرشتے کو (نہ)دیکھ پاتے تھے نہ اس کی باتیں سن سکتے تھے۔اور کبھی کبھی دیکھ بھی لیتے اور گفتگو سن بھی لیتے تھے۔
• مخلوق کی قوت ادراک محدود ہے۔انسان کسی چیز کی حقیقت اسی حد تک پا سکتا ہے جس حد حقیقت کوپانا نا ممکن ہے۔مثلا ساتوں آسمان،زمین اور جو جو چیزیں ان میں موجود ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتی ہیں ۔کبھی کبھار اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا ہے ان کی تسبیح و تحمید سنا دیتا ہے لیکن یہ حقیقت ہم سے پوشیدہ ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمائی ہے:
تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَٰوَٰتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ

اسی طرح شیاطین اور جن زمین پر ادھر اُدھر دندناتے پھرتے ہیں۔اور جنوں کی ایک جماعت رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئی ،کاموشی سے آپ کی قراءت سنی اور مبلغ کی حیثیت سے اپنی قوم کی طرف لوٹ گئی اور وہ جماعت ان تمام چیزوں کے با وجود پوشیدہ رہی۔
اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَٰبَنِىٓ ءَادَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ ٱلشَّيْطَٰنُ كَمَآ أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ ٱلْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَٰتِهِمَآ ۗ إِنَّهُۥ يَرَىٰكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُۥ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا ٱلشَّيَٰطِينَ أَوْلِيَآءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿27﴾

پس جب مخلوق ہر موجود چیز کی اصل حقیقت کو نہیں پا سکتی تو اس کے لیے غیب کے ثابت شدہ ناقابل ادراک امور کا انکار قطعی جائز نہیں۔

اسلام کے بنیادی عقائد از شیخ محمد بن صالح العثیمین
بات صرف اتنی سی تھی مگر بات ” بڑھا“ دی ” بڑھانے والوں“ نے۔ گویا وہی بات ہوئی :-
لڑکا بغل میں، ڈھنڈورا شہر میں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
Top