مستشرقین اور ملحدین نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے نکاح کے سلسلہ میں جس مفروضہ کی بنیاد پر ناروا اور بیجاطریقہ پر لب کو حرکت اور قلم کوجنبش دی ہے’ اگر عرب کے اس وقت کے جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تاریخی مطالعہ کریں تو اس کا کھوکھلا پن ثابت ہوجاتا ہے۔
ہر ملک وعلاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ وروپ ،جسمانی وجنسی بناوٹ اورعادت واطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاوت و فرق ہوتا ہے ۔ جن ممالک میں موسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہاں موسم گرم ہوتا ہے وہاں بلوغت جلد وقوع پذیر ہوجاتی ہے ۔ مثلاً عرب ایک گرم ملک ہے ۔وہاں کی خوراک بھی گرم ہوتی ہے جوکہ عموماً کھجور اور اونٹ کے گوشت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لئے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا 9سال کی عمر میں بالغ ہوجانا بعید از عقل نہیں ۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی نسبت قابل وثوق روایات سے بھی یہ معلوم ہے کہ ان کے جسمانی قوی بہت بہتر تھے اور ان میں قوت نشو و نما بہت زیادہ تھی۔ ایک تو خود عرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیرمعمولی نشوونماکی صلاحیت ہےدوسرے عام طورپر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیرمعمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قدوقامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے بہت تھوڑی عمر میں وہ قوت حضرت عائشہ رضی الله عنہا میں پیدا ہوگئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لیے ایک عورت میں ضروری ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آنحضرت صلى الله علیه وسلم کی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیاگیاہو، خدمتِ نبوی میں بھیجا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی؛ بلکہ لڑکی سب سے زیادہ اپنی ماں ہی کی عزیز اور محبوب ہوتی ہے۔ اس لیے ناممکن اور محال ہے کہ انھوں نے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت واہلیت سے پہلے ان کی رخصتی کردیا ہو ۔
اسلامی تاریخ سے مثالیں:
اسلامی کتابوں میں ایسے بہت واقعات نقل کیے گئے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے معاشرے میں نو (9) سال کی عمر میں بچہ جنم دینا عام بات اور اس عمر میں نکاح کرنارواج تھا۔ ان لوگوں کے لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔چند واقعات ،
(1) ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (110) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس( 122) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلاالنبلاء جلد7رقم1627) یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔
(2) عبداللہ بن عمر و اپنے باپ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے ۔
( تذکرة الحفاظ جلد1ص93)
(3) ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت منذر سے شادی کی اور بوقت زواج فاطمہ کی عمر نو سال تھی ۔ (الضعفاء للعقیلی جلد4رقم 1583، تاریخ بغداد 222/1)
(4) عبداللہ بن صالح کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور اس روایت میں یہ بھی درج ہے کہ ایک آدمی نے ان کو بتایاکہ اس کی بیٹی دس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی ۔ (کامل لابن عدی جلد5ر قم 1015)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں عبداللہ بن عامر سے کرائی (تاریخ ابن عساکر جلد70) ۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی نو سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی نو سال کی عمر میں بچہ جنم دیا ۔(سنن دارقطنی جلد3کتاب النکاح رقم 3836) ان
ماضی قریبب اور حال کی مثالیں:
اس طرح کے کئی حوالے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں تھا ، آج کل بھی اخباروں میں اس قسم کی خبریں چھپتی رہتی ہیں ۔
ماضی قریب میں اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہواکہ 8سال کی بچی حاملہ ہوئی اور 9سال کی عمر میں بچہ جنا ۔ (روزنامہ DAWN 29 مارچ1966)
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک دفعہ اپنے ایک انٹر ویو بتاتے ہیں کہ : ”حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں میرے ذہن میں بھی کافی شکوک وشبہات تھے۔بطور پیشہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں۔ ایک دن میرے پاس ایک مریضہ آئی جس کی عمر تقریباً 9سال تھی اور اسے حیض آرہے تھے۔ تو مجھے اس روایت کی سچائی اور حقانیت پر یقین آگیا ‘۔
علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کراچی میں 16اپریل 1986ء کوایک خبر مع تصویرکے شائع ہوئی تھی جس میں ایک نو سال کی بچی جس کا نام (ایلینس) تھا اور جو برازیل کی رہنے والی تھی بیس دن کی بچی کی ماں تھی۔
اس طرح روزنامہ آغاز میں یکم اکتوبر 1997کوایک خبر چھپی کہ (ملتان کے قریب ایک گاؤں میں)ایک آٹھ سالہ لڑکی حاملہ ہوگئی ہے اور ڈاکٹروں نے اس خدشہ کا اعلان کیا ہے کہ وہ زچکی کے دوران ہلاک ہوجائے.پھر 9دسمبر 1997کو اسی اخبار میں دوسری خبر چھپی کہ ”ملتان (آغاز نیوز) ایک آٹھ سالہ پاکستانی لڑکی نے ایک بچہ کو جنم دیا ہے. ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچہ صحت مند ہے ۔
جب پاکستان جیسے جیسے معتدل اور متوسط ماحول وآب و ہوا والے ملک میں آٹھ برس کی لڑکی میں یہ استعداد پیدا ہوسکتی ہے تو عرب کے گرم آب و ہوا والے ملک میں ۹/ سال کی لڑکی میں اس صلاحیت کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
انٹرنیٹ پر بھی اس عمر کی لڑکیوں کے ہاں بچوں کی پیدائش کی بیسوں خبریں موجود ہیں، دو تین ماہ پہلے ایک خبر نظر سے گزری تھی جس میں یورپ کی ایک لڑکی کا بتایا گیا تھا کہ وہ بارہ سال کی عمر میں ماں بن گئی، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے نکاح پر اعتراض کرنے والے انہی ملحدین نے اسے ورلڈ ریکارڈ قرار دیا تھا..
جاری ہے۔
بشکریہ پیج :مستند اسلامی تاریخ
http://ilhaad.com/2015/04/age-ayesha-mustashriqeen/