محرم
@ابن قدامہ بھائی اس میں کچھ تو بغیر دلیل کے خالی بھڑاس نکالی گئی ہے اس پر کیا کہا جا سکتا ہے باقی میرے سوال کے جواب میں جو باتیں لگ رہی ہیں وہ یہاں لکھ دیتا ہوں پہلے آپ اس سے اسکی تصدیق کروا دیں پھر ا پر بات ہو گی
میں بار بار یہ پوچھ رہا ہوں کہ ایک مسلمان یہ کیسے متعین کرتا ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے یعنی قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کے لئے ایک مسلمان کے پاس جو ٹھوس دلائل موجود ہیں وہ پہلے یہاں لکھ دئے جائیں پھر ہم دیکھیں گے کہ اسی طرح کے دلائل کیا حدیث کو حجت ماننے کے بھی ہیں یا نہیں
ظاہر ہے کہ ایک پاگل ہی ہو سکتا ہے جو بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو حجت کہ دے پس پہلے وہ دلائل چاہئیں جنکی بنیاد پر قرآن کو ہم حجت مانتے ہیں
مگر یہ صاحب اسکا جواب نہیں دے رہے حالانکہ میرا اور انکا جھگڑا ہی شروع سے یہی ہے کہ وہ قرآن کو حجت بنانے والے دلائل نہیں بتانا چاہتے اور میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں
اب آپ ان سے مندرجہ ذیل سوال پوچھیں
1۔کیا کوئی عقل والا بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو لائق اتباع سمجھ سکتا ہے
2۔اگر پہلے سوال کا جواب ہاں ہے تو پھر ایسی عقل والے سے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتا
3۔اگر پہلے سوال کا جواب نہیں ہے تو پھر میرا سوال ہے کہ ایک منکر حدیث قرآن کو کن کن وجوہات سے لائق اتباع سمجھتا ہے وہ وجویات نمبر وار لکھ دیں تاکہ مزید بات ہو سکے
@عبدہ
باسمِ ربی۔ محترم ابن قدمہ صاحب سلامتی و رحمت ھو۔ محترم آپ کے نام نہاد علامہ صاحب کو علمی گفتگو کی تمیز تو ھے نہیں۔ پھر دوسروں کے کامنٹس بھڑاس ہی لگ سکتے ہیں اُن کو۔ ورنہ سامنے والے کی ہر بات کے پیچھے کچھ نہ کچھ حکمت ھوتی ھے۔ جو جاہلین کے سمجھ سے بالا ھوتی ھے۔ اور دیکھنے میں عام مشاہدہ یہی رہا ھے کہ یہ نام نہاد ملاں فطرت لوگ عقل کا اسعتمال کرنے سے ہمیشہ قاصر رھے ہیں۔ ان کے سامنے گریڈ 5 کا بچہ بھی بہتر بات کر پاتا ھے۔ خیر۔ آپ کی پیش کردہ کامنٹس عاصم صاحب جیسے نالائق کے ہیں۔ جس کو نہ تو قرآنِ کریم کی سمجھ ھے اور نہ ہی دین کی۔ یہی وجہ ھے کہ میں بیجا قرآنی آیات کو پیش کر کے اُن کی بیحرمتی نہیں کیا کرتا۔ میرا ایک مختصر نوٹ جو میں نے 2012 میں ایک دوست سے گفتگو کے دوران تحریر کیا تھا۔ پیش کر رہا ھوں۔ مگر اُس نوٹ پر گفتگو آپ کے علامہ صاحب سے شرائط طے کرنے کے بعد ہی کر پاؤنگا۔ تاکہ ہم دونوں ہی اُن شرائط کے پابند ھوں۔ اور وہ شرائط کہیں خارج سے نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی آیات کے تحت ہی ھونگیں۔ لہٰذا آپ اپنے نام نہاد علامہ صاحب سے پوچھ لیں اگر وہ اخلاق کے دائرہ میں احکامات الٰہی کی پابندی کرتے ھوئے گفتگو کرنے کی اہلیت رکھتے ھٔوں تو مجھے خوشی ھو گی۔ اس باب میں وضاحت کرنے پر ورنہ میں کسی کی جہالت میں اُس کا ساتھی بننے کو ہرگز تیار نہیں ھوں۔ نوٹ ذیل میں ملاخطہ کیا جا سکتا ھے۔ ثم تتفکرو۔
دِ حدیث میں رسولِ پاک۴ اور صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم کا کردار
https://www.facebook.com/notes/asif-bhatti/%D8%B1%D8%AF%D9%90-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D8%B3%D9%88%D9%84%D9%90-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%DB%B4-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D8%A8%DB%81-%DA%A9%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%B1%D8%B6%D9%88%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DA%BE%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1/368582333167439
............................... بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ...............................
باسمِ ربی۔ محترم برادر قمر نقیب خان صاحب سلامت رہیں۔ پیش کرنے کو تو ساری زمین اور سارا آسمان بھی پیش کیا جا سکتا ھے۔ مگر دوست علم تو صرف ایک نکتہ کا ھوتا ھے۔ باقی آپ کی اپنی سوچ کے پر ھوتے ہین جو جس قدر غور کر لے وہ اُسی قدر اُونچی اُڑان اُڑ سکتا ھے۔ میں کچھ معرضات پیش کر رہا ھوں شاید آپ کی حجت تمام ھو سکے۔
روایات سے اس بات کا پتہ چلتا ھے کہ قرآنِ کریم کے علاوہ کچھ اور متفرق چیزیں بھی حضور۴ کے ارشاد کے مطابق قلم بند ھوئی تھیں۔ مثلاً وہ تحریری معاہدات، احکام اور فرامین وغیرہ جو آنحضرت۴ نے قبائل یا اپنے عمال کے نام بھیجے۔ لیکن اس باب میں جو کچھ آج تک معلوم ھو سکا ھے وہ فقط اتنا ھے کہ قرآنِ کریم کے علاوہ حضور۴ کی وفات کے وقت صرف حسبِ ذیل تحریری سرمایہ موجود تھا۔
۱۔ پندرہ سو صحابہ رضوان اللہ علیھم کے نام ایک رجسٹر میں
۲۔ مکتوباتِ گرامی جو حضور۴ نے سلاطین و امرأ کو لکھے۔
۳۔ چند تحریری احکام، فرامین اور معاہدات وغیرہ۔
۴۔ کچھ حدیثیں جو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہہ و حضرت انس رضی اللہ عنہہ نے اپنے طور پر قلم بند کیں۔ ان احادیث کے متعلق نہ تو کہیں سے یہ ثابت ھے کہ حضور۴ نے اُن کی تصدیق فرمائی تھی اور نہ ہی وہ بعد میں اپنی اصلی شکل میں کہیں موجود رہیں۔ لہٰذا رسول پاک۴ نے جو کچھ اُمت کو دیا تھا۔ وہ صرف قرانِ کریم تھا۔ احادیث کا کوئی مجموعہ اُمت کو نہیں دیا گیا۔ خود بخاری شریف مین یہ حدیث موجود ھے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہہ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم۴ نے اُمت کے لئے کیا چھوڑا ھے۔ تو آپ نے کہا کہ مَاتَرَکَ اِلّا مَابَینَ الدَّ فُتَیْنِ۔ یعنی حضور۴ نے قرآنِ کریم کے علاوہ اور کچھ نہیں چھوڑا۔
بخاری جلد سوم کتاب فضائل القرآن ص ۴۵
حضور نبی کریم۴ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم بالخصوص خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم کا عمل ہمارے سامنے آتا ھے۔ مسند امام احمد میں لکھا ھے کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم نے فرمایا کہ
ہم لوگ جو کچھ رسول اللہ۴ سے سنا کرتے تھے۔ اسے لکھ لیا کرتے تھے۔ تب ایک دن رسول اللہ۴ ہم لوگوں کے سامنے وارد ھوئے اور فرمایا، کہ کیا ھے جسے تم لوگ لکھ لیا کرتے ھو۔ ہم نے عرض کیا کہ حضور۴ سے جو کچھ ہم سنتے ہیں اسکو لکھ لیا کرتے ہیں۔ تب آپ۴ نے فرمایا کہ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ دوسری کتاب؟ یعنی ایسا نہیں کرنا چاھئیے۔ پھر فرمایا ستھری کرو۔ خالص رکھو۔ اللہ کی کتاب کو اور ہر قسم کے اشتباہ سے پاک رکھو۔ صحابی رسول کہتے ہیں کہ تب ہم نے جو کچھ لکھا تھا اس کو ایک میدان میں اکٹھا کیا پھر اس کو ہم نے جلا دیا۔
تدوین حدیث ۲۴۹
امام ذہنی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہہ کے متعلق حسبِ ذیل روایت بھی لکھی ھے جو آپ تبلیغی جماعت کی کتاب کے سرِ ورق پر بھی ملاخطہ کر سکیں گے۔ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ نے فرمایا کہ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جمع کیا اور ان کی تعداد پانچ سو تھی پھر ایک شب میں دیکھا گیا کہ وہ بہت زیادہ کروٹیں بدل رھے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ آپ یہ کروٹیں کسی جسمانی تکلیف کی وجہ سے بدل رھے ہیں یا کوئی خبر آپ تک پہنچی ھے۔ جسے سن کر آپ بیچین ھو رھے ہیں آپ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ جب صبح ھوئی تو آپ نے فرمایا بیٹی ان حدیثوں کو لاو جو تمہارے پاس ہیں۔ پھر آگ منگائی اور اس نسخہ کو جلا دیا۔ اور وجہ یہ بتائی کہ اس سے اُمت میں فرقوں کی بوُ آتی ھے۔ میں اپنے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ کر جانا چاھتا جس سے اُمت فرقوں میں بٹ سکے۔
تبلیغی نصاب ص ۳ اور امام ذہبی کی کتاب تدوینِ حدیث ص ۸۸-۲۸۵
حضرت امام ذہنی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہ کے متعلق حسب ذیل روایت بھی لکھی ھے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہہ نے رسول اللہ ۴ کی وفات کے بعد لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگ رسول اللہ۴ سے ایسی حدیثیں روایت کرتے ھو جن میں باہم اختلاف کرتے ھو اور تمہارے بعد کے لوگ اختلاف میں زیادہ سخت ھو جائیں گے۔ پس چاھئیے کہ رسول اللہ۴ کی طرف منسوب کر کے کوئی بات نہ بیان کرو۔ پھر اگر تم سے کوئی پوچھے تو کہہ دیا کرو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ھے۔ پس چاھئیے کہ اس کتاب نے جن چیزوں کو حلال کیا ھے۔ ان کو حلال قرار دو۔ اور جن باتوں کو حرام ٹَھہرایا ان کو حرام ٹھہراؤ۔۔۔ تذکرۃ الحفاظ ذہبی بحوالہ تدوینِ حدیٹ ص ۳۲۱
باسمِ ربی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہہ کے بارے میں تو کچھ پوچھئیے ہی مت۔ وہ شہکارِ رسالت تھے۔ اُن کا ایک تاریخ ساز نعرہ آج بھی ہمارے کانوں میں خدا سے محبت کا وہ ترانہ بجاتا ھے۔ جس کی بنا پر اقبال نے کہا تھا کہ
دشت تو دشت کیا صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دئیے اپنے گھوڑے ہم نے
یہ اُسی محبت ایمانی کا تقاضہ تھا جو آپ نے رسولِ پاک۴ کی کسی نئی وصیت کی بجائے "حسبنا کتاب اللہ" کا عظیم الشان نعرہ بلند کیا۔ جو رسولِ پاک۴ اُمت کو ورثے میں دے کر گئے۔ جس کی گونج پھر ایران و روما کی عظیم الشان سلطنتیں قہرِ الٰہی کی ایسی زد میں آئیں کہ جب تک وہ ختم نہ ھو گئیں۔ یہ گونچ مومنین کے ایمان کا ستارہ بن کر چمکتی رہی اور اس چمک کی فیصل سے وہ عظیم الشان سلطنتیں تخت و تاراج ھوتی رہیں۔ خیر ہم واپس اپنے موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔
علامہ ابنِ عبدالبر نے آپنی مشہور کتاب جامع بیان العلم میں ایک روایت نقل کی ھے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہہ نے چاہا کہ سنن یعنی حدیثوں کو لکھوا لیا جائے تب انہوں نے رسول اللہ۴ کے صحابیوں رضوان اللہ علہھم سے فتوٰی طلب کیا تو لوگوں نے یہی کہا کہ حدیثیں لکھوا لی جائیں۔
لیکن لوگوں کے اس مشورہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کا قلب مطمئین نہ ھوا۔ چنانچہ کامل ایک ماہ تک حضرت عمر رضی اللہ عنہہ اس معاملہ میں استخارہ کرتے رھے۔ پھر ایک دن جب صبح ھوئی اور اس وقت حق تعالٰی نے فیصلہ میں یکسوئی کی کیفیت ان کے قلب میں عطا کر دی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے لوگوں سے کہا کہ میں نے حدیثوں کو قلم بند کرانے کا ارادہ کیا تھا۔ پھر مجھے ان قوموں کا خیال آیاجو تم سے پہلے گزری ہیں کہ انہوں نے کتابیں لکھیں اور ان پر ٹوٹ پڑیں۔ اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ بیٹھیں اور قسم ھے اللہ کی کہ میں اللہ کی کتاب کو کسی دوسری چیز کے ساتھ مخلوط کرنا نہیں چاھتا۔
تروین حدیث ص ۳۹۴
اور یہ اس لیے تھا کہ جیسا کہ خود نبی اکرم۴ نے فرمایا تحا کہ مجھ سے قرآن کے علام کچھ نہ لکھو۔ جس نے قرآن کے سوا کوئی میری بات لکھی ھے تو چاھئیے کہ اسے مٹا دے۔
صحیح مسلم
یہی نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کر دیا کہ حدیث کو جمع اور مدون نہیں کرنا چاھئیے بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھے۔ چنانچہ طبقات میں ھے کہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کے زمانے میں حدیثوں کی کثرت ھو گئی۔ تو اپ نے لوگوں کو قسمیں دے دے کر حکم دیا کہ ان حدیثوں کو ان کے پاس پیش کریں۔ حسب الحکم لوگوں نے اپنے مجموعے حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کے پاس پیش کر دیئے۔ تب آپ نے انہیں جلانے کا حکم دیا۔
طبقات جلد ۵ ص ۱۴۱۔ تدوین حدیث ص ۳۹۹
یہ کچھ دارالخلافہ میں ھوا۔ اسکے بعد کیا ھوا اس کے متعلق حافظ ابنِ عبدالبر نے جامع بیان العلم میں یہ روایت نقل کی ھے۔
حضرت عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہہ نے پہلے تو یہ چاہا کہ حدیثوں کو قلم بند کر لیا جائے مگر پھر ان پر واضح ھوا کہ قلم بند کرانا ان کا مناسب نہ ھو گا۔ تب الاحصار یعنی چھاؤنیوں اور دیگر اضلاعی شہروں میں یہ لکھ کر بھیجا کہ جس کے پاس حدیثوں کے سلسلہ کی کوئی چیز ھو، چاھئیے کہ اسے محو کر دے یعنی ضائع کر دے۔
جامع بیان العلم جلد۱ ص ۶۵۔۔۔ تدوینِ حدیث ص ۴۰۰۔
مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم نے اپنی کتاب میں ایک خاص باب باندھا ھے جس کا عنوان ھے قرنِ اول میں حکومت کی طرف سے حفاظت و اشاعتِ حدیث کا اہتمام نہ ھونا کوئی امرِ اتفاق نہیں بلکہ مبنی بر مصلحت ھے۔ انہوں نے اس سے پہلے امام ابنِ حزم کا یہ قول نقل کیا ھے کہ۔
جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کی وفات ھوئی تو مصر سے لے کر عراق تک اور عراق سے لیکر شام تک اور شام سے لیکر یمن تک قرآنِ کریم کے جو نسخے پھیلے ھوءے تھے ان کی تعداد اگر ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ تھی۔
تدوین حدیث ص ۲۱۶۔
اسکے بعد انہوں نے تفصیل سے لکھا کہ جب قرآنِ کریم کی اشاعت میں اس قدر اہتمام کیا گیا تو اگر حکومت چاہتی تو احادیث میں کون سا امر مانع ھو سکتا تھا۔ انہوں نے کہا ھے کہ حکومت نے دیدہ دانستہ ایسا نہیں کیا تھا ۔
یہ ھے کیفیت صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم کے زمانے میں احادیث مرتب کرنے کی یقینی۔ سیر حاصل تفصیلات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ۔
۱۔ رسول اللہ ۴ نے حکم دیا کہ مجھ سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔
۲۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم نے جو احادیث اپنے طور پر لکھی تھیں انہیں انہوں نے حضور۴ کے فرمان کے مطابق جلا دیا۔
۳۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہ نے اپنے مدون کردہ محموعہ احادیث کو جلا دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ احادیث بیان مت کریں۔
۴۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے ایک ماہ تک غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ احادیث جمع اور مدون نہیں کرنی چایئیں۔
۵۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے لوگوں کو قسمیں دے دے کر ان سے احادیث کے مجموعے منگوائے اور انہیں جلا دیا۔
۶۔ اور باقی شہروں میں حکم بھیج دیا کہ اگر کسی کے پاس احادیث لکھی ھوئی ھوں تو وہ انہیں ضائع کر دے اور
۷۔ یہ کچھ اتفاقاً نہیں کیا گیا۔ بلکہ مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم کے الفاظ میں ایسا مبنی بر مصلحت دیدہ دانستہ کیا گیا ھے۔
یہ سلسلہ یہاں پر ہی ختم نہیں ھوا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے اس باب میں اور بھی شدت سے کام لیا۔ آپ لوگوں کو حدیثوں کی اشاعت سے سختی سے روکتے تھے۔ قزعہ بن کعب رضی اللہ عنہہ راوی ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے ہم کو عراق بھیجا تو ہمیں تاکید کر دی کہ یاد رکھو کہ تم ایسے مقام پر جاتے ھو جہاں کے لوگوں کی آوازیں قرآن پڑھنے میں شہد کی مکھیوں کی طرح گونجتی رہتی ہیں۔ تم ان کو احادیث میں الجھا کر قرآن سے غافل نہ کر دینا۔
حضرت ابو ہریرا رضی اللہ عنہہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کے زمانے میں بھی حدیثیں بیان کرتے تھے؟ انہون نے کہا کہ اگر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کے زمانے میں اس طرح حدیثیں بیان کرتا تو وہ مجھے دُرے سے پیٹتے۔
یہ بھی روایت ھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود، ابو داؤد اور ابو مسعود انصاری رضوان اللہ علیھم کو کثرتِ روایت کے جرم میں قید کر دیا تھا۔ ان تمام روایات کے لئے دیکھئیے۔ تذکرۃ الحفاظ۔ ممکن ھے ان روایات کی صحت کو محلِ نظر قرار دے دیا جائے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک ان کے صحیح ھونے کی دلیل یہ ھے کہ یہ منشائے قرآنی اور عملِ رسولِ پاک۴ کے عین مطابق ہیں۔ بایں ہمہ ہم اس بحث میں الجھے بغیر بھی اندرونی شہادات سے اطمینان حاصل کرتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ کے اختتام پر بھی کوئی محموعہ احادیث نہیں ملتا۔ جو ان حضرات نے خود مرتب فرمایا ھو یا اُن کی زیر نگرانی مدون کیا گیا ھو۔
دین ایک ایسی سچائی ھے جس میں ظن و قیاس کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس طرح اللہ رب العزت، قرآنِ کریم کے بارے میں پوری عالمِ انسانیت کو چیلنج دیتے ہیں اُسی طرح اُس کے ماننے والوں کو بھی اپنے عقائد پر وہی اعتماد اور فخر ھونا چاھئیے کہ اُس کو دنیائے عالم کے کسی بھی علم سے پرکھا جائے تو یہ خود کو ہر شک و شبہ سے بالا ثابت کرنے میں خود کفیل ھو۔ اگر دین کی بنیاد ظن و قیاس پر رکھ دی جائے تو وہ بادِ مخالف کے دو چار تھپیڑوں کے بعد خود بخود ڈھیر ھو جائے گی۔ جیسا کہ آج کے دور میں مخالفین اسلام ان روایات کے ذریعے اہلِ اسلام کو عقل کے خلاف ثابت کر رھے ہیں۔ اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف بھی۔
قرآنِ کریم میں سورہ الاسراء میں حکمِ ربی ھے کہ
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿٣٦﴾۔
اورجس بات کی تجھے خبر نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ بے شک کان اورآنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہو گی (36)۔
بصارت اور سمجھنے سوچنے کی صلاحیت سب سے اس کے متعلق سوال ھو گا۔ اور مومنین کی خصوصیت یہ بتائی کہ
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴿٧٣﴾۔
ترجمہ۔۔۔ اور وہ لوگ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (73)۔ بلکہ عقل و فکر سے کام لے کر انہیں قبول اور اختیار کرتے ہیں۔
دین سے متعلق ایک چیز تو یقیناً اپ متفق ھونگے۔ یعنی یہ کہ دین وہی ھو سکتا ھے جو یقینی ھو۔ سورہ یونس میں فرمایا کہ
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾۔
ترجمہ۔۔۔ اور وہ اکثر اٹکل پر چلتے ہیں بےشک حق بات کے سمجھنے میں اٹکل ذرا بھی کام نہیں دیتی بے شک الله جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں (36)۔
اب سوال یہ ھے کہ جن دو اجزا قرآن و حدیث کے مجموعے کا نام دین ھے تو ان میں سے کوئی ظنی تو نہیں؟ اور کیا یہ دونوں اجزأ اللہ اور اسکے رسول۴ نے دین کی حیثیت سے مسلمانوں کو دیئے ہیں؟
قرآنِ کریم کی شہادت خود قرآنِ کریم سے لیجئیے کہ اس کا من جانب اللہ ھونے کی دلیل یہ ھے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ھے۔ سورہ النساء میں وضاحت ھے کہ۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾۔
ترجمہ۔۔۔ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے (82)۔
اس کتاب مبارک کے زریعے بھیجا جانے والا علم حق ھے۔ سورہ الفاطر میں حکم ھے۔
وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴿٣١﴾۔
ترجمہ۔۔۔ اور یہ کتاب جو ہم نے آپ کے پاس وحی کے طور پر بھیجی ہے یہ بالکل ٹھیک ہے جو کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے واﻻ خوب دیکھنے واﻻ ہے (31)۔
عقل والے تو اس آیت سے ہی تمام بات سمجھ سکتے ہیں۔ کہ جو کچھ ھے اسی قرآن کے اندر موجود ھے۔ اس سے باہر کچھ نہیں ۔ اس کتاب عظیم کی ابتدا دوسرے ہی صفحہ پر ان الفاظ سے ھوتی ھے ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ یعینی اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ سراسر حق ھے۔ یقینی ھے۔ ظنی اور قیاسی نہیں۔ ریب و شکوک کی حدود سے بالاتر ھے۔ یہ تو ھے نفسِ کتاب کے متعلق اب یہ کہ یہ یقینی شے مسلمانوں کو ملی کیسے؟ اور ان کے پاس رھے گی کس حیثیت سے۔ سو ظاہر ھے کہ قرآنی کریم حضور۴ پر نازل ھوا اور اسکے متعلق جمع و تدوین کی ذمہ داری خود اللہ تعالٰی نے اپنے اوپر لی۔ سورہ القیامۃ میں فرمایا کہ
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾۔
ترجمہ۔۔۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے (17)۔
صرف جمع اور تدوین ہی نہیں بلکہ اس بات کی ذمہ داری بھی کہ قیامت تک اس میں کسی قسم کا رد و بدل اور کسی نوعیت کی تحریف و الحاق نہ ھو سکے گا۔ سورہ الحجر میں فرمایا کہ۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿٩﴾۔
ترجمہ۔۔۔ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں (9)۔
اس حفاظت کو عملی شکل دینے کے لئے جناب رسولِ پاک۴ کو سورہ المائدہ میں ارشاد ھوا کہ۔
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ ﴿٦٧﴾ ۔
ترجمہ۔۔۔ اے رسول جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے (67)۔
اور رسولِ کریم۴ نے حرفاً حرفاً وحی خداوندی انسانوں تک پہنچانے کا ایسا شاندار اہتمام کیا کہ آج چودہ سو سال بعد بھی حق حفاظ کے سینوں میں اُسی طرح جگمگاتا نظر آتا ھے اور حدیث یعنی روایات کسی ایک فرد کو بھی ازبر نہیں۔ بلکہ تمام اسلاف سے لیکر آج تک ایک بھی انسان ایسا پیدا نہیں ھوا جو تمام روایات کو من و عن اُسی طرح پڑھ سکا ھو۔ اس کے ساتھ ہی ربِ کریم سے مدعا گذار ھوں کہ ہر پڑھنے والے کے سینے میں حق کی روشنی پیدا فرما۔ تاکہ اُمت اُس کے کلامِ پاک پر اکٹھی ھو کر اپنے اعمال سے دنیاوی جنت کی آبیاری کرنے کے قابل ھو سکے۔
وآخر دعونا أن الحمد لله رب العالمين۔